تزئین حسن


گذشتہ برس پاکستان میں ’عورت مارچ‘ میں ’میرا جسم، میری مرضی‘ یعنی دوسرے لفظوں میں شادی سے قبل آزادانہ جنسی تعلقات کو عورت کا حق قرار دینے کا نعرہ لگایا گیا۔آیئے، مغرب کے معروف تھنک ٹینکس (مراکز دانش)کی رپورٹوں کی روشنی میں '’میرا جسم، میری مرضی‘ یا فری سیکس کے نظریے کے عورت کی زندگی اور مغربی تہذیب پر ہمہ گیراثرات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مغرب میں تحریک خود اختیاریِ نسواں (Feminism) نے عورتوں کے حقوق کی مناسبت سے کافی پیش رفت کی ہے۔ اس کا ایک منفی پہلو آزادانہ جنسی تعلقات کوعورتوں کے حق کے طور پر متعارف کروانا بھی ہے۔ آج مغربی ممالک اور دیگر صنعتی ترقی یافتہ ممالک میں غیر شادی شدہ جوڑوں کا ایک ساتھ رہنا قانوناً درست ہے، معاشرے میں اسے کوئی بُرائی نہیں سمجھا جاتا اور ایسے بچوں کو بھی قانونی حیثیت حاصل ہے، جو ان تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہوں۔ ایسے بچوں کی   ذمہ داری ان کے حقیقی ماں باپ پر تو عائد ہوتی ہے، مگر ریاست بھی انھیں اپنی ذمہ داری تصور کرتی ہے۔ تاہم، ان کے اپنے ’مراکز دانش‘ کے مطابق ’’اس کے نتیجے میں بے شمار پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں، جن سے خود خواتین بھی متاثر ہیں اور آبادی میں کمی کے رحجان سے ان قوموں کی بقا کو خطرہ لاحق ہے‘‘۔
-   بنا شادی بچوں کی شرح پیدایش میں اضافہ: ۲۰۱۷ءمیں شائع ہونے والی ییل یونی ورسٹی کی تحقیقاتی رپورٹ Out of Wedlock Births Rise Worldwide  (شادی کے بغیر دنیا میں بچوں کی پیدایش کا اُبھار) کے مطابق دنیا کے کچھ علاقوں میں بغیر شادی کے پیدا شدہ بچوں کی تعداد،کُل بچوں کے ۷۰ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ امریکا میں یہ تعداد ۴۰فی صد، اور شمالی یورپ کے ممالک میں یہ شرح ۷۰فی صد تک چلی گئی ہے۔ گذشتہ ۵۰برسوں میں شادی کے بغیر بچوں کی پیدایش میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ’سنگل مدرز‘ (اکیلی ماؤں) کی تعداد میں بھی۔ تفصیل یہ ہے کہ ساری دنیا میں ’اکیلی ماؤں‘ کے ساتھ پلنے والے بچوں کی تعداد کُل بچوں کی تعداد کے۲۵  سے ۳۳ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ اس کی وجوہ میں ترقی یافتہ ممالک میں: خاندانی نظام کا ختم ہونا اور مخالف جنس کے لوگوں کا آزادانہ میل جول، ایسے بچوں کو قانونی حیثیت دینا اور پالنے والے والدین کو مالی مدد فراہم کرنا شامل ہیں۔
بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ What Can Be Done to Reduce Teen Pregnancy and Out of Wedlock Births (نوعمری کے حمل اور نکاح کے بغیر پیدایش کو کیسے کم کیا جائے؟) کے مطابق ’’اس معاملے کا ایک تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ایسی کم عمر ماؤں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جو ہائی اسکول کے دوران ہی ماں بن جاتی ہیں۔ ایسے واقعات بھی اچنبھے کی بات نہیں رہ گئے ، جن میں نوعمر لڑکیاں دس گیارہ سال کی عمر میں اپنے پہلے بچے کو جنم دیتی ہیں۔ اس کے باوجود کہ اسکولوں میں ابتدائی کلاسوں سے بچوں کو جنسی تعلیم دی جاتی ہے اور برتھ کنٹرول کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ بلاشبہہ ملکی قانون ان بچوں کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر ایسی اکیلی ماؤں کو مالی امداد دیتا ہے، مگر ان میں سے بیش تر مائیں اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتیں اور ان کی جوانی کا بڑا حصہ اپنے بچوں کی نگہداشت میں گزر جاتا ہے۔ گو کبھی کبھی باپ بھی شادی کے بندھن سے باہر پیدا ہونے والے بچے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے، مگر ایسے بے نکاحے باپوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے‘‘۔ بروکنگ کی رپورٹ کے مطابق اکیلے والدین (single parents) کی ۸۴ فی صد تعداد عورتوں، جب کہ ۱۶فی صد تعداد مردوں پر مشتمل ہے۔
۲۰۱۶ءمیں جان ہاپکنز یونی ورسٹی کی تحقیق Changing Fertility Regimes and the Transition to Adulthood  (تولیدی بارآوری میں تبدیلی اور بلوغت کی راہ میں عبوری مرحلہ ) کے مطابق ’’امریکا میں ۶۴فی صد عورتیں کم از کم ایک ایسے بچے کی ماں ضرور ہیں، جو شادی کے بندھن سے باہر (Out of Wedlock) پیدا ہوتا ہے۔ غریب یا کم آمدنی والے علاقوں میں ایسی غیر شادی شدہ ماؤں کی تعداد ۷۴ فی صد تک جاپہنچی ہے‘‘۔ ۲۰۰۷ءکی ایک اور تحقیق کے مطابق ’’پہلی دفعہ ماں بننے والی ۶۶ فی صد سفید فام، ۹۶فی صد سیاہ فام اور ۷۶فی صد میکسیکن خواتین غیر شادی شدہ ہوتی ہیں۔ مغربی قانون کے علاوہ معاشرتی طور پربھی اب اسے کوئی برائی تصور نہیں کیا جاتا۔ لیکن ایسی ماؤں کا تعلیمی مستقبل، پڑھائی پر توجہ کا سارا منصوبہ یا خواب اور کیرئیر، پہلی دفعہ حاملہ ہونے کے بعد تباہ ہو جاتا ہے‘‘۔
ییل یونی ورسٹی کی اس رپورٹ (۲۰۱۷ء) کے مطابق ’’شادی کے بغیر پیدایش کی کم ترین شرح ان ملکوں میں ہے، جہاں ایسے بچوں کی پیدایش سے منسوب ماں اور باپ کو رُسوائی کا سامنا ہوتا ہے اور خود ایسے بچے کو معاشرہ قبول نہیں کرتا اور انھیں کلنک کا ٹیکا گردانتا ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے مسلم ممالک اور بھارت میں ایسے بچوں کی تعداد کل بچوں کے ایک فی صد سے بھی کم ہے‘‘۔
اس ضمن میں ملکی قانون بھی واضح کردار ادا کرتا ہے، کیونکہ جن ممالک میں ایسے تعلقات قانوناً درست ہیں، وہاں شادی کے بغیر پیدایش کی شرح بہت زیادہ ہے۔ لاطینی امریکا کے بیش تر ممالک میں ایسے بچوں کی تعداد کل بچوں کے ۶۰ فی صد تک پہنچ گئی ہے، مگر اس معاملے میں سب سے زیادہ بُراحال سویڈن، ڈنمارک، ناروے اور فن لینڈ جیسے خوش حال ممالک کا ہے، جہاں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ۷۰ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ امریکا میں یہ تعداد ۴۰فی صد ہے‘‘۔
ییل رپورٹ (۲۰۱۷ء) کے مطابق: ’’ایک ہی ملک میں مختلف نسلی گروہوں میں اس شرح میں مجموعی طور پر بھی فرق دیکھا گیا ہے۔ امریکی سیاہ فاموں میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ۷۱ فی صد، جب کہ امریکا کی لاطینی آبادی میں یہ شرح ۵۳فی صد، مگر سفیدفاموں میں یہ شرح۲۹فی صد ہے۔ یاد رہے کہ آج سے ۵۰ سال پہلے امریکا میں مجموعی طور پر یہ شرح ۷فی صد تھی اور اب مجموعی طور پر تقریباً ۴۰فی صد ہے‘‘۔
یہاں ایک فطری سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا مغربی معاشرہ ہمیشہ سے ایسا تھا؟
بروکنگ کی رپورٹ کے مطابق ’’شادی کے بغیر پیدایش کی شرح میں اضافہ پچھلے ۵۰برسوں کے دوران دیکھنے میں آیا ہے۔ مثلاً: ۱۹۶۴ء میں ’آرگنائزیشن آف اکنامک اینڈ کوآپریٹیو ڈویلپمنٹ‘ (OECD: معاشی و باہمی تعاون کی ترقیاتی تنظیم) میں شامل بیش تر ممالک میں بنا شادی بچوں کی تعداد،     کُل بچوں کے ۱۰فی صد سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، جب کہ ۲۰۱۴ء کے اعداد و شمار کے مطابق ان ممالک میں صرف یونان، ترکی، اسرائیل، ساؤتھ افریقہ، اور جاپان وغیرہ ایسے ملک ہیں، جہاں   یہ شرح ۱۰فی صد سے کم ہے۔ یاد رہے ’معاشی و باہمی تعاون کی ترقیاتی تنظیم‘ میں ۳۵ ممالک شامل ہیں اور یہ بلند ترین قومی معاشی پیداوار کے حامل ممالک ہیں، جن میں شمالی امریکا، شمالی اور مغربی یورپ اور آسٹریلیا کے علاوہ جنوبی کوریا، اسرائیل، ترکی اورجاپان بھی شامل ہیں‘‘۔
ایک اور دل چسپ بات یہ کہ وہاں کی ریاست چونکہ ان بچوں کو اپنی ذمہ داری تصور کرتی ہے اور معاشرے میں اسے بُرا نہیں سمجھا جاتا، اس لیے بھی ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار سے یہ بھی ثابت ہے کہ اس رحجان میں اس وقت سے اس تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جب سے ریاست نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے۔
-  بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کے مسائل:ایسے زیادہ تر بچے ’سنگل والدین‘ کے ساتھ پلتے ہیں، کچھ فوسٹر ہوم، یعنی اڈاپڈڈ [اختیار کردہ] والدین کے ساتھ اور کچھ اپنے حیاتیاتی (اصلی) ماں باپ کے ساتھ پلتے ہیں، جو بعض سورتوں میں شادی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ بعض ماں باپ بچہ ہونے کے بعد شادی بھی کر لیتے ہیں، مگر ان کا تناسب بھی کم رہ گیا ہے۔
یاد رہے کے سنگل پیرنٹ کا تصور صرف بنا شادی کی پیدایش سے وابستہ نہیں بلکہ کبھی کبھی ماں یا باپ کی موت یا طلاق اور علیحدگی کی وجہ سے بھی، بچے والدین میں سے کسی ایک کے ساتھ پلتے ہیں۔ جوزف چیمی کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے ۳؍ارب بچوں میں سے ۳۲ کروڑ بچے اکیلے والدین کے ساتھ پلتے ہیں۔
-  شادی کے بغیر خواتین کی بچوں کے انتخاب کی وجہ:یاد رہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بعض اوقات خواتین خود اکیلی ماں بننے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس معاملے میں ’مصنوعی تولیدی عمل‘ ، insemination یا ٹیسٹ ٹیوب وغیرہ سے، یعنی بغیر فطری عمل کے بھی بچہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔  اس انتخاب کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ معاشرے میں بنا شادی، جنسی تعلق عام ہونے کے با عث مرد شادی شدہ زندگی کی ذمہ داریاں اٹھانے میں دل چسپی نہیں رکھتے۔ جان ہاپکنز رپورٹ ۲۰۱۶ء کے مطابق ’’بعض عورتیں جن میں اکثریت سیاہ فام عورتوں کی ہے، خود بنا شادی بچے چاہتی ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آزادانہ اختلاط کے باعث اس معاشرے میں عورتیں مرد کے مقابلے میں اولاد کو زیادہ قابل بھروسا ساتھی خیال کرتی ہیں۔ کچھ خواتین اسقاطِ حمل اس لیے نہیں کرواتیں کہ کیتھولک مذہب میں اسقاط حرام ہے‘‘۔ عام تاثر یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں مذہب کا کوئی کردار نہیں، لیکن راقمہ کے مشاہدے کے مطابق اس کے برعکس ایسی عورتیں بھی موجود ہیں، جو عیسائیت کی اس پابندی کا احترام کرتی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ خود کیتھولک عیسائی مذہب بھی موجودہ ابلاغی و سماجی دباؤ کے باعث ’آزادانہ جنس کاری‘ کے خلاف بات نہیں کر سکتا، کیونکہ معاشرے میں  اس کے خلاف بات کرنے کو انسانی حقوق کے منافی سمجھا جاتا ہے۔
بروکنگز رپورٹ کے مطابق ’’دوسرے بچوں کے مقابلے میں بنا شادی پیدا ہونے والے اکیلی ماؤں کے بچے، پیدایش کے وقت کم وزن پیدا ہونے، بعد کی زندگی میں جسمانی اور نفسیاتی صحت کے مسائل کا شکار ہونے، اسکولوں میں اچھی کارکردگی نہ دکھانے، اپنے والدین کی طرف سے نظر انداز اور دوسروں کی زیادتیوں کا شکار ہونے کے نتیجے میں بڑے ہو کر خود مجرم بننے کے امکانات کا زیادہ شکارہوتے ہیں‘‘۔
-  ’اکیلی ماں‘  پر منفی اثرات:بچے کے علاوہ بچے کی غیرشادی شدہ اکیلی ماں کی زندگی پر بھی اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کے اسکول سے ڈراپ آوٹ ہونے کے امکانات دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی مائیں عام طور سے اپنا کیرئیر نہیں بنا پاتیں اور اپنے آپ کو مالی طور پر خودکفیل نہیں بناسکتیں۔ پانچ میں سے صرف ایک خاتون کو بچے کے باپ سے مالی مدد ملتی ہے، مگر قانون کے باوجود ان سے پیسے نکلوانا آسان نہیں ہوتا۔   نتیجتاً ایسی عورتیں حکومت کی ’رفاہی یا خیراتی اسکیم‘ سے امداد حاصل کرتی ہیں اور طویل عرصے تک اس واجبی وظیفے پر گزارا کرتی رہتی ہیں۔
-  بڑھتا ہوا  معاشی بوجھ   :اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے بچے ٹیکس دینے والے پر ایک بوجھ ہوتے ہیں۔ پرنسٹن یونی ورسٹی کے میتھیمٹک پالیسی ریسرچ سنٹر کی تحقیق کے مطابق کم عمر غیرشادی شدہ مائیں اور ان کے بچوں پر حکومت ہر سال امریکی ٹیکس دینے والوں کا ۷؍ارب ڈالر خرچ کرتی ہے، اور اسی لیے اس رحجان کو کم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔

-   اس مسئلے کا حل کیا ہو؟:بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کی یہ تحقیق امریکی حکومت کو متعدد تجاویز دیتی ہے۔ اس میں سے ایک تجویز یہ بھی ہے کے بچوں کو اسکول کی سطح پر شادی سے پہلے جنسی تعلقات کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ کم از کم شادی تک جنسی تعلقات سے پرہیز کرسکیں۔ لیکن معلوم نہیں اس حل کے عملی نفاذ کا خواب کتنا دور ہے، کیونکہ امریکی اور مغربی معاشرے میں شادی کے بغیر جنسی تعلق کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا عورت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔ والدین تک اپنے بچوں کو اس اخلاق باختگی سے روکیں تو یہ ذاتی معاملات میں مداخلت کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ایسی کسی تجویز پر عمل درآمد کے امکانات صفر سے بھی کم ہیں۔
 نتیجہ: آبادی کا بحران اور معاشرتی انتشار: اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ عورتوں اور جوڑوں کی اکثریت اب بچے پیدا کرنے سے پرہیز کر رہی ہے۔ مانع حمل ادویات اور اسقاط کو عورت کا بنیادی حق تسلیم کر لیا گیا ہے۔ مغرب کے بیش تر ممالک آبادی کے بحران کا شکار ہیں۔ خصوصاً معاشی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک میں آبادی میں اضافے کی شرح بہت تیزی سے کم ہو رہی ہے اور اس حد تک کم ہو رہی ہے کہ بہت سے ممالک اپنی صنعتی ضروریات پوری کرنے کے لیے تیسری دنیا کے پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھولنے پر مجبور ہیں۔ یاد رہے ان تمام ممالک میں شرح اموات شرح پیدایش کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے اور اس سے آہستہ آہستہ یہ قومیں نا پید ہوتی جا رہی ہیں۔
آبادی میں کمی کے اس رجحان کو صرف مغرب میں نہیں، جاپان جیسے بلند ترین شرح آمدنی رکھنے والے صنعتی ملک میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ دو سال قبل جاپان کی ٹوہوکو یونی ورسٹی میں جاپانی قوم کی بتدریج ناپید ہونے کی خبر دینے والے گھڑیال کی تنصیب کی گئی، جو سیکنڈ کے حساب سے جاپانی آبادی میں کمی کی لمحہ بہ لمحہ نشان دہی کرتا ہے۔
 ۲۰۱۷ء میں شائع ہونے والی یورپ کی آبادی کے بارے میں ’برلن انسٹی ٹیوٹ آف  پاپولیشن اینڈ ڈویلپمنٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی آبادی میں یورپ خصوصاً یورپی یونین (EU) کا حصہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپی معیشت اس وقت دنیا کی کامیاب ترین معیشت ہے، لیکن اس رپورٹ اور متعدد تحقیقات کے مطابق دنیا میں سب سے   کم شرح پیدایش اِس وقت یورپ میں ہے اور سب سے زیادہ اوسط عمر بھی یورپ میں ہی ہے۔ یاد رہے کہ یورپ میں لاتعداد تحقیقی ادارے اور ’مراکز دانش‘ مستقبل میں آبادی کی کمی سے  پیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے مصروفِ عمل ہیں لیکن تاحال خبریں کچھ اچھی نہیں ہیں۔ مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق جرمنی میں آیندہ نسلوں میں کام کرنے والے، پنشن لینے والے بوڑھوں کے مقابلے میں کم ہوتے جائیں گے۔ یوں مینوفیکچرنگ اور خدمات سے متعلقہ صنعتوں کو مطلوبہ افرادی قوت نہیں مل سکے گی۔
باقی یورپ کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ خوش حال یورپ اور بہت سے دوسرے مغربی ممالک کے ارباب اختیار آبادی میں مسلسل کمی پر شدید تشویش کا شکار ہیں۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کسی قوم کی بقا کے لیے آبادی کی شرح پیدایش میں جس کم سے کم اضافے کی ضرورت ہوتی ہے، اکثر مغربی ممالک اس حد تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔ مغرب کی لاتعداد یونی ورسٹیوں اور ’مراکز دانش‘ میں اس موضوع پر تحقیق ہو رہی ہے۔ اس وقت یورپ بالخصوص جرمنی خوش حالی اور معاشی ترقی کے رول ماڈل ہیں، لیکن اگر آبادی میں کمی کی شرح اسی رفتار سے جاری رہی تو چند عشروں کے بعد آبادی میں کمی کی وجہ سے معاشی بحران کا سامنا کرسکتا ہے ۔
دُور اندیش قومیں آنے والے مسائل کے حل ایک آدھ صدی پہلے تحقیق کے ذریعے ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ’برلن انسٹی ٹیوٹ‘ کے ڈائریکٹر رینہر کولینگس کا یہ کہنا ہے کہ ’’عالمی منظرنامے میں اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے یورپ کو آنے والے دور میں جن جدید اور اختراعی خیالات و افکار اور تجدیدی عمل پسندی کی ضرورت ہے، وہ نوجوانوں کے بغیر ممکن نہیں، لیکن افسوس کہ جن کی تعداد بہت تیزی کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔
ہمارے نزدیک آبادی میں کمی کی واضح وجوہ خواتین کا بڑی تعداد میں ورک فورس کا حصہ بننا، شادی کے رجحان میں کمی، طلاقوں کی زیادتی، ہم جنس جوڑوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینا ہے۔ لیکن اس میں سر فہرست آزادانہ جنسی تعلقات کی قانونی اور معاشرتی اجازت ہے، جس کی وجہ سے جوڑے شادی کی پابندی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے، اور اسے ایک دوسرے کی قید تصور کرتے ہیں۔ مانع حمل طریقوں اور اسقاطِ حمل کے حق نے آزادانہ جنسی تعلقات کو اور بھی آسان کردیا ہے۔ یہ حق بھی ’میرا جسم، میری مرضی‘ کے تحت عورت کے حق کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۔
یہ رجحانات محض سماجی تبدیلیوں کا ہی با عث نہیں بن رہے بلکہ فی الوقت مغرب کی سیاست پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں، جو اس وقت تارکینِ وطن کے گرد گھوم رہی ہے اور گذشتہ کئی عشروں تک گلوبلائزیشن (عالم گیریت) میں کامیابی کے بعد مغربی معاشرہ دوبارہ نسل پرستی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ایسے میں ’میرا جسم، میری مرضی‘ یعنی فری سیکس کے نعرے کو خواتین کے حق کے طور پر متعارف کروانے کی کوشش کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ آزادانہ جنسی تعلقات خواتین کے خلاف ہی نہیں ملک اور قوم کی بقا کے خلاف بھی سازش ہیں اور اس سازش کو پروان چڑھانے والے ہی اس کا نشانہ بھی ہیں۔

پچھلے دنوں فیس بک پر عورتوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے خلاف ایک پوسٹ پر کچھ ایسا رد عمل دیکھنے میں آیا: ’’عورت کا دائرہ کار اس کا گھر ہے۔ اگر وہ گھر سے نکلے گی تو اس کے ساتھ یہ تو ہوگا، کیوںکہ یہ مرد کی فطرت ہے‘‘۔ یعنی جنسی ہراسانی اور دوسرے مسائل کا حل یہ ہے کہ صنف نازک کو گھر تک محدود رکھا جائے ورنہ ان برائیوں کا سد ِباب نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی کہا گیا کہ: ’’ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ عورتیں نامناسب لباس میں نکلتی ہیں‘‘۔ پوسٹ پر بہت بڑی تعداد میں پردہ دار خواتین نے (جن کی پوری زندگی نقاب اور حجاب میں گزری، یہاں تک کہ جنھوں نے کینیڈا، امریکا ، برطانیہ میں رہ کر بھی نقاب اور حجاب کو نہیں چھوڑا) گواہی دی کہ انھوں نے پردے کے باوجود پاکستان کی سڑکوں پر جنسی ہراسانی کا سامنا کیا ہے۔ بعض انصاف پسند مردوں نے بھی اس بات کی گواہی دی۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جنسی ہراسانی کا موضوع عام طور سے نظر انداز رہتا ہے، اس وقت ہم بحث کا موضوع اس نکتے تک محدود رکھیں گے کہ ’’کیا واقعی اسلام، عورت کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے اسے محض گھر تک محدود کرنا چاہتا ہے؟‘‘ 
ہراسانی سے متعلق یہ دیکھتے ہیں کہ مغربی تعبیر کیا ہے: ’’جنسی ہراسانی، جنس کی بنیاد پر، کوئی بھی ایسا قولی یا جسمانی رویہ اختیار کرنا، جس سے دوسرے فرد کو اس کی مرضی کے خلاف کوئی ذہنی اور جسمانی اذیت پہنچے‘‘۔ اسلام اس ضمن میں فرد کی مرضی کی نفی کرتا اور جائز حدود سے تجاوز کی ممانعت کرتا ہے۔ صرف قانون ہی کو حرکت میں نہیں لاتا بلکہ آخرت میں دردناک عذاب کی وعید بھی سناتا ہے۔ہراسانی میں سڑکوں پر یا اسکول کالج یونی ورسٹی یا گھروں میں دوسری صنف کو نامناسب طریقے سے گھورنا، فقرے کسنا، غلط طرزتخاطب استعمال کرنا، تعلقات میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنا، موقع ملنے پر چھونے کی کوشش کرنا، یا اس سے آگے بڑھ کر اور کوئی نا مناسب رویہ اختیار کرنا شامل ہو سکتا ہے، جس سے دوسرا فریق اذیت محسوس کرے۔ یاد رہے، ضروری نہیں کہ ایسا رویہ خواتین کے خلاف ہی اپنایا جاتا ہو۔ اس موضوع پر ہماری تحقیق کے دوران ایک نو عمر لڑکے نے بھی اپنی استاد کے ہاتھوں ہراسانی محسوس کرنے کی شکایت کی۔ تیسری صنف نے بھی  اس حوالے سے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے ایسے تلخ رویوں کی شکایات کی۔ افسوس کہ معاشرے میں اس حوالے سے تربیت یا اقدار کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ 
پاکستان میں مردوں کی عظیم اکثریت شریف النفس ہے۔ اس کے باوجود ہماری سڑکوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو اپنے گھر کے علاوہ باقی خواتین کی عزت کرنا نہیں جانتے۔ یہ مسئلہ اس وقت اور بھی گھمبیر ہو جاتا ہے، جب ایسا کرنے والے کو معاشرے یا خود متاثرین کی خاموشی کی وجہ سے رد عمل کا کوئی خوف باقی نہ رہے۔ 

ہراسانی پر عمومی رویہ 

یہ رویہ ہمارے معاشرے میں عام ہے، لیکن اسے کوئی قابل ذکر مسئلہ شاید اس لیے نہیں سمجھا جاتا، کہ ان کا شکار عموماً خواتین ہوتی ہیں اور ہمارے معاشرے میں شرم و حیا کے معیارات کچھ ایسے ہیں کہ ان میں اس مسئلے پر بات کرنا ممکن نہیں۔ چہ جائیکہ وہ اپنے اُوپر گزرنے والی واردات کی روداد کا کچھ ذکر بھی کر سکیں۔ تیسری صنف کے لوگ اس کے خلاف آواز اٹھانے کی مقدور بھر کوشش کرتے رہے ہیں اور بعض بیرونی این جی اوز ان کی مظلومیت کے بل پر اپنی  روزی روٹی کا بندوبست کر رہی ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ ان مظلوموں کو بھی مذاق سے زیادہ اہمیت دینے پر راضی نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بیرونی این جی اوز سے پہلے ہم خود اس کے خلاف ہراسانی پر آواز اٹھاتے، لیکن سنجیدہ حلقوں کی توجہ اس طرف نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر شریف خاندانوں کے مرد حضرات اپنی ہی ماؤں، بہنوں، اور بیٹیوں پر گزرنے والے ایسے واقعات سے مکمل طور پر بے خبر رہتے ہیں۔ خود خواتین کے لیے ان واقعات پر خاموشی کے علاوہ کسی اور رد عمل کی ہمت اور اختیار نہیں ہوتا۔ 
ہمارے معاشرے میں ان موضوعات پر بات کرنا اہم صرف اس وقت ہوتاہے جب ہم ’زینب قتل کیس‘ کی طرح کا کوئی سنسنی خیز دل دہلا دینے والا واقعہ سنتے ہیں۔ ایک عام لڑکی، سڑکوں اور پبلک مقامات پر کیسا محسوس کرتی ہے؟ اسے ہم عموماً ایک عام سا رویہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ خود خواتین نوجوانی کے دوران اس جبر کو معاشرے کا عمومی چلن سمجھ کر خاموش رہتی ہیں۔
ہمارے دیہی اور شہری علاقوں میں بیش تر خواتین ایسے تکلیف دہ تجربات سے گزرتی ہیں۔ پھر سڑکوں، گلیوں، پبلک مقامات پر خواتین کو ہراسانی سے بچانے کے لیے انھیں گھر بٹھا لینا ہی مسئلے کا حل سمجھا جاتا ہے، لیکن اس حقیقت کو بھلا دیا جاتا ہے کہ یہ عملاً ممکن نہیں اور نہ ہمارا دین ہمیں اس کا یہ حل بتاتا ہے۔ 
الحمدللہ ، ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو بہت تحفظ دیا جاتا ہے۔ شہروں کا ماحول دیہی علاقوں سے مختلف ہے، لیکن کبھی اُن بچیوں کے چہروں پر حسرت دیکھیے جو صرف اس لیے اسکول یا دینی مدرسے نہیں جا سکتیں کہ گاؤں کی گلیوں میں ایسے نوجوان موجود ہیں، جن سے ان کی عزت محفوظ نہیں اور لڑکیوں کے گھر والے، محلے دار اور گاؤں والے بجاے اس مسئلے کو حل کرنے کے، بچیوں کو گھر بٹھا لیتے ہیں۔ ضلع صوابی کے ایک گاؤں میں قیام پذیر ایک خاتون نے بتایا: ’’ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کا اسکول تو موجود ہے، لیکن گاؤں کی گلیوں میں نوجوانوں کی فقرے بازی کی وجہ سے لوگ اپنی بچیوں کو اسکول بھیجنے کے بجاے گھر بٹھانے کو ترجیح دیتے ہیں‘‘۔ چترال سے ایک نوجوان ٹیچر نے بتایا: ’’ویسے تو کوئی بچی ہراسانی کی شکایت کی ہمت نہیں کرتی، لیکن اگر کہیں ایسا ہوجائے تو باقی اساتذہ یہی کہتے ہیں کہ لڑکی کا کوئی قصور ہوگا، لڑکی ٹھیک ہو تو اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘۔ یہ اذیت ناک جملہ ہمارے ہاں ضرب المثل کی طرح بولا جاتا ہے۔ 
بڑے شہروں میں رہنے والی بچیوں کو مختلف صورتوں میں جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن دیہی علاقوں میں یہ معاشرتی برائی بچیوں کی پوری زندگی پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے اور کرتی ہے۔ آبادی کا بہت بڑا حصہ دیہی اور نیم شہری علاقوں میں مقیم ہے۔بڑے شہروں میں رہنے والی خواتین، دیہی خواتین کے مسائل کو اپنے محدود تناظر میں دیکھنے کی عادی ہیں۔ شہر کی عورت، گاؤں کی عورت کے مقابلے میں زیادہ بااختیار نظر آتی ہے۔ اس کی آواز بھی توانا ہے، اس لیے اسے نسبتاً ایسے رویے کا کم ہی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
ایک عمومی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ ’’یہ ساری دنیا میں اسی طرح ہوتا ہے‘‘۔ لیکن عمومی مشاہدے کے مطابق سعودی عرب، مصر، ترکی، مغربی یورپ، اور شمالی امریکا میں سڑکوں یا پبلک مقامات پر ایسی حرکتیں بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں، جو ہمارے مسلم اور مشرقی معاشرے کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
بلاشبہہ مغرب میں جنسی جرائم ہوتے ہیں اور بڑے ہولناک ہوتے ہیں، مگر وہ اکثر ریکارڈ پر آجاتے ہیں، اور پھر اُن کے قوانین کے مطابق وہاں اخلاقی جرائم کے اکثر متاثرین کو آسانی سے انصاف ملتا ہے۔ ’می ٹو موومنٹ‘ نے مغربی معاشرے کی بچی کھچی اخلاقیات کی ساری قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ترکی جیسے دیگر مسلم ممالک میں جنسی ہراسانی جیسی اخلاقی برائی سرے سے پائی ہی نہیں جاتی ہوگی، لیکن راقمہ نے محسوس کیا کہ معاشی اعتبار سے امیر دنیا میں اس مسئلے پر مکالمہ موجود ہے۔ اسے مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے لیے اقدار کا ایک نظام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور متاثرہ کو ترچھی نظر سے نہیں بلکہ ہمدردی سے دیکھا جاتا ہے۔ انفرادی جرائم ہوتے ہیں لیکن قانون اور معاشرہ بہ حیثیت مجموعی ان غلط رویوں کا دفاع نہیں کرتا۔ دیکھا جائے تو ہراسانی کے کلچرل دیوالیہ پن کی مناسبت سے ہمارا معاشرہ مغرب کے مقابلے میں بھارتی معاشرتی بدتہذیبی سے قریب تر ہے۔ 
 ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات اور حیا کے فطری تقاضوں کی پاس داری کے لیے بچیوں کو چھوٹی عمر سے ہی دوپٹہ یا چادر لینے اور بغیر محرم گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا جاتا ہے، جو بہت ضروری اور بہت بنیادی اقدامات ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اہلِ خانہ یا محرم کے ساتھ نکلنے پر بھی اور پردے کی پابندی کے ساتھ نکلنے پر بھی، ہراسانی کا سامنا بہرحال ہوتا ہے۔ اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ قابلِ ذکر مسئلہ زیربحث نہیں لایا جاتا، اس لیے اس کے خلاف کوئی عوامی رد عمل موجود نہیں۔ 
پھر معاشرے میں خواتین کے پردے کی کمی کو اس اخلاقی فتنے کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے، اور صنف نازک ہی کو مردوں کے اس غیر اخلاقی طرز عمل کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے۔ لڑکوں کے ایسے کسی طرزِعمل کے بارے یہ تک کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’یہ مرد کی فطرت ہے اور خواتین کا دائرۂ کار ان کا گھر ہے۔ جب خواتین گھر سے نکلیں گی تو ان کے ساتھ یہ تو ہوگا‘‘۔ 

قرآن و سنت سے رہنمائی

قرآن و سنت نے چودہ سو سال پہلے ان مسائل کو معاشرے کے اہم مسائل قرار دے کر حدود اور قیود واضح کر دی تھیں۔ ہم وہ امت ہیں، جنھیں چودہ سو سال پیش تر ان ا قدار کے لیے مرد و عورت کے اختلاط کے مقامات پر غضِ بصر اور پردے جیسی ہدایات فراہم کر دی گئی تھیں۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قرآن، اختلاط سے متعلق برائیوں کے خاتمے کی ذمہ داری مرد اور عورت دونوں پر ڈالتا ہے، لیکن معاشرہ عام طور سے مرد کے اخلاقی انحطا ط کی سزا بھی عورت ہی کو دینا چاہتا ہے۔ 
سورۂ نور آیت۳۰  میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے‘‘۔ 
اس سے اگلی آیت ۳۱ میں ارشاد فرمایا گیا:’’اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بناؤسنگھار نہ ظاہر کریں، مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، ا پنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو،  اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔ اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے‘‘۔
یہ تو وہ احتیاطیں ہیں، جو مرد اور عورتوں دونوں کو گھر سے باہر نکلنے اور نا محرموں سے بات چیت اور معاملات کے حوالے سے بتا دی گئی ہیں۔ مرد کو نظر نیچی رکھنے، اور شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا،جب کہ عورت کو سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رکھنے کا بھی اور اپنی زینت چھپانے کا بھی۔ اور ان محرم رشتوں کی تفصیل بھی بتا دی گئی ہے، جن سے باہر ہر رشتے میں یہ احتیاط ملحوظ رکھنا ہے۔ 
سورۂ احزاب آیت ۳۲ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’نبیؐ کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘۔
یہاں خواتین کو نا محرم مردوں سے بات کرتے ہوے اپنے لہجے کو راست، واضح اور  سخت رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حدود میں رہ کر ضرورت کے مطابق بات چیت کی اجازت ہے۔ اسلام بات کرنے پر پابندی نہیں عائد کرتا، اس کی تہذیب سکھاتا ہے۔
اس سے اگلی آیت ۳۳  میں ارشاد ہے:’’اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ اللہ  تو یہ چاہتا ہے کہ اہلِ بیت ِ نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمھیں پوری طرح پاک کر دے‘‘۔
یہ دو آیتیں بظاہر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو مخاطب کرتی ہیں، لیکن ایک عام اصول کے تحت اس کا اطلاق تمام مسلمان عورتوں پر ہوتا ہے۔ کیوںکہ نبیؐ کی بیویاں ہمارے لیے مثال ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت ہمارے معاشرے اور خصوصاً دینی طبقات وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ  کا جو مطلب لیتے ہیں، کیا دورِ نبویؐ میں بھی اس کا مفہوم وہی تھا، یا اس معاملے میں آج کے مسلم معاشرے اور خصوصاً بر صغیر جنوب مشرقی ایشیا کی مسلم معاشرت افراط و تفریط کا شکار ہے؟ 
 جہاں تک قرآن کے اس حکم کا تعلق ہے کہ’’اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ بیٹھو۔ دورِجاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو‘‘، تو دورِ رسولؐ کی مختلف مثالوں سے یہ بات واضح ہے کہ اس سے مقصد بناؤ سنگھار دکھانا اور بے پردہ نکلنے ہی کی ممانعت تھی ورنہ اسلامی تاریخ پر معمولی نظر رکھنے والا بھی اس امر سے واقف ہے کہ اس دور میں گھر سے باہر خواتین کے آنے جانے اور خرید و فروخت کی سرگرمیوں میں حصہ لینا عام تھا، بلکہ جو حدود و قیود اسلا م عورت کے لیے متعین کرتا ہے، وہ خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس کا باہر نکلنا مطلقاً منع نہیں۔ البتہ عورتوں کی تربیت کے ساتھ مردوں کی تربیت کا سامان بھی اسلام پیش کرتا ہے۔

یہ ستمبر ۲۰۱۳ء کی بات ہے، بھارت کے صوبے اتر پردیش میں ایک لڑکی کو چھیڑنے کے مسئلے پر تین قتل ہو گئے اور بعد ازاں ایک وڈیو کے منظرعا م آنے کے بعد ہندو مسلم فسادات  پھوٹ پڑے۔ بی بی سی کے مطابق تقریباً ۵۰؍ افراد ہلاک ہوئے اور ۴۰ہزار افراد جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی انھیں نقل مکانی کرنا پڑی۔ دراصل ایک وڈیو کے ذریعے افواہ اڑی تھی کہ: ’’دوہندو جاٹ لڑکے مُردہ حالت میں پائے گئے ہیں، جنھیں مسلمانوں نے ہلاک کیا‘‘۔ یہ وڈیوعام (وائرل) ہونے پر جاٹ ہجوم اتنا برافروختہ ہوگیا کہ انھوں نے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر لوگوں کے گلے کاٹے ،حالاںکہ اس سے قبل متاثرہ علاقے میں جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی جھگڑا سامنے نہ آیا تھا۔ قتل عام اور خون کی بارش تھم گئی تو پولیس نمودار ہوئی اور معلوم ہوا کہ وہ وڈیو دراصل پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے والے دو بھائیوں کی تھی اور ایک سال پرانی تھی۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق ان دو لڑکوں کی ہلاکت بھی غلط فہمی اور افواہوں، یعنی غیر مصدقہ خبروں کی وجہ سے ہوئی تھی، جس نے ہجوم کو اتنا مشتعل کر دیا کہ اس نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور خود ہی ان لڑکوں کو سڑک پر سزا دینے کا فیصلہ کرلیا۔

اسی طرح۲۰۱۶ء میں پنجاب میں بچوں کے اغوا کی خبروں کے اسکینڈل سے اندازہ ہوا کہ ہمارا میڈیا غیر تصدیق شدہ خبروں پر کتنا انحصار کرتا ہے اور سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرہ کتنے دباؤ میں ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ انتشار پھیلانے والی خبریں بڑے خلوص سے ’فارورڈ‘ کی گئیں کہ: ’بچوں کے والدین ہوشیار ہو جائیں‘۔ بعد میں غیر جانب دارانہ تحقیقات سے معلوم ہوا کے اصل اعداد وشمار آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور جن بچوں کے اغوا کی رپورٹیں درج کروائی گئیں، ان میں سے بھی زیادہ تر بچے خود گھر سے کسی ناراضی یا ڈر کی وجہ سے بھاگے تھے۔ پنجاب کے بعض مقامات پر اغوا کے شبہے میں معصوم افراد کے ساتھ بلاجواز مارکٹائی اور تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے۔

ان مثالوں سے کسی کے ذہن میں یہ خیال نہ آئے کہ ایسا صرف غربت زدہ تیسری دنیا میں ہوتا ہے۔ گذشتہ سال امریکی انتخابات کے دوران سوشل میڈیا پر ​ٹرمپ کے غیرمصدقہ ​حقائق پر مبنی بیانات مسلسل گردش میں ر​ہے ​اور بڑے پیمانے پر انھیں آگے شیئر کیا جاتا رہا۔ فیس بک آج دنیا میں نشرو اشاعت کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ جہاں کل کا اخبار بین، اب خود صحافی ہے اور خبر بنانے سے لے کر اس کو منٹوں میں نشر کرنے کے تمام وسائل اسے حاصل ہیں۔ ایک طرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر صحافتی اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے، تو دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ آج ہر وہ فرد جسے کمپیوٹر یا موبائل پر انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے بلاگر، فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، پر خبر بنا رہا ہے۔ اس طرح صحافی اورعام شہری کے درمیان فرق ختم ہو چکا ہے۔ عام شہری جو پہلے خبر یا میڈیا کا صارف تھا، اب ٹیکسٹ، تصویر، وڈیو کی ترسیل کے ذریعے خبرسازی میں براہِ راست حصہ لے رہا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کی آمد سے جہاں اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں کی اجارہ داری ختم ہوئی ہے، وہاں خبروں کی غیر ذمہ دارانہ ترسیل کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ صحافت کے بنیادی اصول، یعنی تصدیق اور احتساب کو بُری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے۔ بیک وقت ’صحافی اور قاری‘ عموما ً خبر کی تصدیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور نہ خبروں کے غلط یا صحیح ہونے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے، اور سب سے بڑھ کرحوالہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ پوسٹ کا ماخذ کیا ہے۔ خبر یا پوسٹ کا محض دل چسپ ہونا ہی اسےوائرل کرنے کے لیے سب سے بڑی اہلیت ہے۔ 

جھوٹی خبریں معاشرے میں ہمیشہ موجود رہی ہیں۔ ان جعلی خبروں کے پیچھے ​سیاسی اور عسکری مقاصد کے لیے ​منظم پروپیگنڈا کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے اور بیمار ذہن کے افراد محض سنسنی اور افراتفری پھیلانے کے لیے بھی ان کی ترسیل کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر منافع بھی سنسنی خیز جعلی خبروں، غلط مگر دل چسپ تاریخی اور من گھڑت مذہبی واقعات کی ترسیل کو پُرکشش بناتا ہے۔ اس میں ضرررساں پہلو یہ ہے کہ انھیں پھیلانے والے نیٹ ورک میں اکثر ان لوگوں کا حصہ ہوتا ہے جنھیں خود نہیں معلوم ہوتا کہ خبر جھوٹی ہے۔ وہ مذہبی عقیدت یا قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے دین نے ابلاغ کے جو اصول واضح کیے ہیں اور اس حوالے سے جو عالمی اصول موجود ہیں، ان سے واقفیت عام معاشرے میں تو کیا پڑھے لکھے افراد میں بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سے معاشرے میں انتشار پھیل رہا ہے۔ نسل پرستی، انتہا پسندی یہاں تک کہ دہشت گردی میں بھی ​کئی گنا ​اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ​ موجودہ دور کا ایک ایسا چیلنج ہے   جس سے نبرد آزما ہونا وقت کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے۔​

 اس حوالے سے ​قرآن و سنت کی تعلیمات اور عالمی معیارات کے مطابق عوام کو ​میڈیا کے ​محتاط ​استعمال​ کی​ آگاہی​ دینا ضروری ہے۔​ اس مضمون میں ہم نے عالمی معیارات اورقرآنی تعلیمات کی روشنی میں سوشل میڈیا کے لیے کچھ اصول مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔​ امید ہے کہ اہل علم اس بحث کو آگے بڑھانے میں مددگار ہوں گے۔​

  • ذرائع ابلاغ کے لیے ضابطہ ٔ  اخلاق: دل چسپ بات یہ ہے کہ موجودہ مغربی دنیا میں میڈیا کے حوالے سے پچھلی دو ایک صدیوں میں جن اصولوں کو تسلیم کیا گیا، قرآن کریم جسے ’فرقان‘ بھی کہا گیا (یعنی غلط اور صحیح میں تمیز کرنے والا)، ہمیں چودہ سو سال پہلے بہت سادہ الفاظ میں ان اصولوں سے آگاہ کرتا ہے۔ ہمارے محدثین، فقہا اور علما نے ان اصولوں کی آبیاری کے لیے اپنی زندگیاں لگا دیں۔ لیکن آج مسلمان ہی وہ قوم ہیں، جنھیں ان اصولوں کا تذکرہ بھی گوارا نہیں۔ مروجہ عالمی معیار کے مطابق میڈیا کے تین اہم اصول ہیں: ان میں ایک ہے شفافیت (transparency )، یعنی خبر کے منبعے یا سورس کا حوالہ یا سند دینا، دوسرا تصدیق (verification)، اور تیسرا اصول احتساب یا مواخذہ (accountability) کے نظام کی موجودگی۔

آئیے ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کی مثال کے ذریعے صحافت کے ان اہم اصولوںکو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے اور ایک صحافی بھی انسان ہوتا ہے۔ یہاں مثال پیش کرکے انھیں ہدف بنانا مقصود نہیں ہے۔ صرف ایک ایسے عمل کا، جو ابلاغ کے حوالے سے اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہوا یا ہو سکتا تھا کا تنقیدی جائزہ پیش نظر ہے۔  ڈاکٹر شاہد صاحب نے ایک چینل پر زینب قتل کے بارے میں کچھ انکشافات کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’ملزم عمران کا ایک غیر ملکی مافیا سے تعلق ہے اور اس کے درجنوں غیر ملکی اکاؤنٹس موجود ہیں اور بااثر سیاسی شخصیات اس کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ثبوت خود ان کے پاس موجود ہیں۔ بعد ازاں معاملہ عدالت تک پہنچنے پر اور بات بہت زیادہ بڑھ جانے پر انھوں نے یہ کہہ کر معافی مانگی کہ وہ ایک باپ کے طور پر جذباتی ہو گئے تھے۔ ایک ذمہ دار صحافی کی حیثیت سے یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ ٹی وی پر اتنے بڑے دعوے کرنے سے پہلے وہ اپنے طور پر اس معاملے کی تصدیق کرتے، مثلاً خود اپنے ذرائع استعمال کر کے بنک سے آفیشل ڈیٹا نکلواتے۔

دوسرے، اگر اپنے طور پر تصدیق کے بجا​ے​وہ کسی سورس پر بھروسا کر رہے تھے تو سورس کے نام سے قوم کو مطلع کرتے۔ اگر کسی وجہ سے سورس اپنا نام اور شناخت پبلک کرنا نہیں چاہتا تھا، تو کم از کم اس کی شناخت ظاہر کیے بغیر مثلاً 'ایک قومی بنک کے وائس پریذیڈنٹ یا اعلیٰ عہدے دار کے ذریعے معلوم ہوا ’یا 'ایک اہم سیاسی شخصیت‘ جیسے الفاظ استعمال کرتے۔ یہ شفافیت، یعنی ٹرانسپیرنسی کا اصول ہے کہ خبر کا ذریعہ، سورس یا ماخذ سے خبر کے صارف (قاری، سامع یا ناظر)کو مطلع کیا جائے۔ ہم نے دیکھا کہ اس معاملے میں شفافیت کے اس اصول کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔ اب آخری اصول رہ جاتا ہے احتساب یا مواخذہ۔ یہ اصول ہمیں بہرحال نظر آتا ہے کہ انھوں نے اس خبر کی پوری ذمہ داری شروع سے آخر تک لی (ویڈیو ریکارڈنگ کی موجودگی میں اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا)، اور اسی لیے آخرکار قوم کے سامنے یہ بات آ گئی کہ خبر صحیح نہیں تھی بلکہ ڈاکٹر شاہد صاحب جذبات میں آ کر افواہوں اور اپنی ذاتی راے​کو حقیقت سمجھ بیٹھے تھے۔

  • حق و انصاف ، یعنی سچ کا احترام: قرآن چودہ سو سال پہلے حق اور انصاف کی بات کرنے کو متعدد سورتوں میں لازم قرار دیتا ہے۔ ​یہ ہمارے نزدیک میڈیا کا پہلا اصول ہے۔ ​

سورۂ احزاب آیت ۷۰  میں کہا گیا:’’اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو‘‘۔ اس آفاقی کتاب میں حق بات کرنے کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ دشمن کی دشمنی میں بھی اشتعال سے پرہیز اور انصاف کی گواہی کا حکم دیا گیا ہے۔ سورۂ مائدہ آیت ۸ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔

 سورۂ نساء آیت ۱۳۵ میں انصاف کی گواہی کو ایک دوسرے زاویے سے موضوعِ بحث بنایا گیا ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘۔

بظاہر ان آیات کی شان نزول اور سیاق و سباق مختلف محسوس ہو سکتا ہے اور قاری یہ محسوس کرسکتا ہے کہ ابلاغ سے ان قرآنی تعلیمات کا براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ لیکن ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کی آیات اور تعلیمات ہرزمانے اور ہر طرح کے حالات میں مشعل راہ ہیں اور ان کے مفاہیم بہت وسیع اور تعلیمات آفاقی ہیں۔ ان آیات کے مفاہیم کا آج کے سیاق و سباق میں اطلاق بھی بہت اہم دینی اور دنیوی ضرورت ہے۔

کولمبیا جرنلزم سکول کے پروفیسر جم کیری کے مطابق، صحافت کی بنیاد دراصل ’سچ کا سفاک احترام‘ ہے اور تصدیق کے بغیر سچ کی جانچ پڑتال ممکن نہیں۔ تصدیق درحقیقت صحافت کا اصل کام ہے۔  دراصل یہی اسے ادب کی دوسری اصناف اور پروپیگنڈا سے ممیز کرتا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی خبر کی ترسیل کا ضابطۂ اخلاق یہی ہونا چاہیے۔

  • بلاتصدیق و تحقیق پوسٹ فارورڈ نہ کرنا: آئیے دیکھیں کہ دین اسلام ہمیں اس معاملے میں کیا تعلیم دیتا ہے؟ آج سے چودہ سو سال پہلے صحافت کا سب سے اہم بنیادی اصول قرآن کریم میں واضح کردیا گیا جس پر عمل کی ضرورت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے۔ سورۂ حجرات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو‘‘(الحجرات ۴۹:۶)۔اور بغیر تحقیق پوسٹس آگے بڑھانے والوں کے لیے مسلم سے اس روایت کا اعادہ ضروری ہے کہ: ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جو بات سنے (اسے بغیر تحقیق کے) آگے بڑھا دے‘‘۔
  • تصدیق کیسے کی جائے؟  اب سوال یہ ہے کہ خبر کی جانچ پڑتال کیسے کی جائے؟  خبر یا پوسٹ ​کی نو عیت اور موضوع کے حوالے سے اس کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں مگر تھوڑا سا غورو فکر کیا جا​ئے​تو ​یہ​کام​ اتنا مشکل نہیں​۔ مثلاً اگر خبر میں کوئی تاریخی واقعہ نقل ہے تو دیکھیں خبربنانے والے نے حوالہ درج کیا ہے کہ وہ واقعہ کس کتاب سے لیا گیا ہے۔ اگر نہیں تو آپ اس پوسٹ کو ایمان افروز اور پسندیدہ ہونے کے باوجود مسترد کر دیں کہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے مطابق آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے بڑھا دے (مسلم)۔ یادرکھیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کو فارورڈ کرنا سنی سنائی بات کو آگے بڑھانا ہی ہے۔

اگر مصنف نے تاریخ کی کتاب یا تاریخ داں کا حوالہ دیا ہے تو ذرا گوگل سے کسی مستند ویب سائٹ پر یا انسائی کلوپیڈیا پر دیکھ لیں کہ اس نام کی کوئی کتاب یا تاریخ دان موجود تھا یا نہیں؟ اگر تھا تو اس کا تعلق اسی دور سے تھا کہ جس کا خبر میں ذکر کیا گیا ہے؟ یہ وہ اصول ہیں جنھیں ہمارے بزرگوں نے حدیث نبویؐ کا ذخیرہ مرتب کرتے ہوئے اختیار کیا۔ انھوں نے ایک ایک راوی کے حالاتِ زندگی کو بھی مرتب کیا تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اس سلسلے میں موجود ایک راوی، دوسرے راوی کی زندگی میں موجود بھی تھا اور اگر تھا تو کیا ان دونوں کی آپس میں ملاقات ممکن ہوئی؟ اور ایک کی عمر اتنی تھی کہ دوسرے سے اپنے ہوش کی عمر میں ملاقات کے دوران حدیث سن سکتا یا اسے یاد رکھ سکتا؟ کیا ایک نے دوسرے کی رہایش کے مقام کا سفر کیا یا نہیں؟ اسی بنیاد پر روایت کے موضوع، ضعیف یا مستند ہونے کے بارے میں فیصلہ کیا گیا اور آج بھی اسے اختیار کیا جاتا ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ حدیث کا معاملہ بہت نازک تھا کہ اس پر ہمارے دین اور ایمان کا دارومدار ہے۔ بجا ارشاد! مگر کسی انسان کی زندگی اور آبرو کی حُرمت کا تقدس تو اسلام کے اس اصول سے ظاہر ہے کہ: ’’ایک بے گناہ فرد کا قتل انسانیت کا قتل ہے‘‘۔جھوٹی خبریں انسان کے اعتبا ر اور آبرو کے ساتھ اس کی جان بھی لے سکتی ہیں،جیساکہ اس تحریر کے شروع میں مثال دی گئی ہے۔ ​جھوٹی خبروں کا معاملہ انتہائی سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔

فی الوقت عالمی منظر نامے میں دوسری قوموں کے خلاف بےبنیاد خبروں کے ذریعے افواہیں پھیلانے کا کام یورپ، امریکا، بھارت، پاکستان سمیت تقریباً دنیا کے ہر خطے میں نسل پرستی، اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔ ​ جرمنی میں سوشل میڈیا پر مہاجرین کے خلاف نفرت پھیلانے پرفیس بک کے خلاف مقدمہ اور سوش میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف قانون سازی ہو چکی ہے۔ ​ سویڈن اور کچھ دوسرے یورپی ممالک اپنے عوام کو میڈیا کے حوالے سے آگاہی کو اپنی اہم ترجیحات میں شامل کر رہے ہیں۔

  • اہلِ علم سے تصدیق : کہا جا سکتا ہے کہ ہر فرد میں تو یہ اہلیت نہیں ہوتی اور نہ ہر فرد کو صحاح ستہ میسر ہے اور نہ تاریخ کی کتابیں۔ درست بات ہے، لیکن ہر فرد پوسٹ کو آگے فارورڈ کرنے کا بھی مکلف نہیں ہوتا۔ اس کا ایک حل اور بھی ہے اور وہ بھی ہمیں چودہ سو سال پہلے    سورئہ نساء میں بتا دیا گیا ہے:’’یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوف ناک خبر سن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالاںکہ اگر یہ اُسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو اِن کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں‘‘۔(النساء۴:۸۳)

ہم کم از کم یہ تو کر سکتے ہیں کہ ہمارے درمیان جو اس شعبے کا علم رکھنے والے ہیں، ان سے اس خبر کی تصدیق کروا لیں۔ خبروں کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے، مگر یہ سادہ سا اصول جھوٹی پوسٹوں کی ترسیل کو روکنے میں بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسے مستند عالم حضرات کی کمی نہیں ہے، جو دینی معلومات کے ماخذین اور کتب کا علم رکھتے ہوں۔ یہی معاملہ دنیوی علوم کا بھی ہے۔ آج سوشل میڈیا کے دور میں رابطہ منٹوں میں کیا جا سکتا ہے اور پوسٹ کی تصدیق ان حضرات سے کی جا سکتی ہے۔ میں نے ہمیشہ اہل علم حضرات کو تصدیق کے معاملے میں ہمدرد اور معاون پایا ہے۔​ ​ ​ہمارے نزدیک دینی اور علمی ادارے افواہوں اور غلط پوسٹس کے سد باب کے لیے ہیلپ لائن بھی قائم کر سکتے ہیں۔ جہاں موجود ماہرین سے خبر یا پوسٹ کی جانچ کروائی جا سکے۔

  •  ایک سے زیادہ  ذرائع سے تصدیق: خبر کی اہمیت کے لحاظ سے کبھی کبھی ایک پروفیشنل صحافی کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ خبر کی تصدیق مختلف اور مستند ذرائع سے کی جائے۔ ایک سے زیادہ چشم دید گواہوں سے بیانات لیے جائیں۔ خبر سے متعلق اگر کوئی دستاویزات موجود ہیں، تو ان کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ ورنہ کسی ماہر سے اس بارے میں راے لی جائے۔ ایسے کسی بھی معاملے میں، جہاں ​صحافی کی ​اپنی علمی استعداد کم ہو ماہرین سے رجوع کرنا اور ان سے مواد کی تصدیق اور ان کی راے ​لینا ضروری ہے۔ اگر ثانوی مآخذ کی ضرورت ہے مثلاً اخباری بیانات، کتابیں، وڈیوز، تو اس حوالے سے یہ بات ذہن میں رہے کہ کون سا ماخذ کتنا مستند ہے۔ ابتدائی طور پر ذہن کو  کھلا رکھ کر مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں مگر لکھتے ہوئے صرف مستند ذرائع کا استعمال کرنا چاہیے۔
  • قاری کو خبر کے ذریعے سے با خبر کرنا: اگر کہیں غیر مستند ذرائع کا استعمال ناگزیر ہے تو بھی اور نہیں ہے تو بھی قاری کو اس سے باخبر کرنا ضروری ہے۔ یہ در اصل شفافیت کے زمرے میں آتا ہے، جو میڈیا کا دوسرا اصول ہے۔ شفافیت سے مراد خبر کو حاصل کرنے کا طریقہ قاری پر واضح کر دیا جائے، تاکہ قاری خود یہ فیصلہ کر سکے کہ خبر قابل اعتماد ہے یا نہیں۔​مثلاً یہ خبر بی بی سی یا فلاں ہندستانی یا اسرائیلی اخبار کی ہے۔ ​
  •  اپنی راے کو حقیقت سمجھنے سے پرہیز : اگر را​ے​کا اظہار مقصود ہو تو یہ بات واضح کی جائے کہ یہ راقم کی را​ے​ہے۔ را​ے​کی حمایت میں جو حقائق بیان ہوں، ان کا ماخذ بھی بیان کردیا جائے۔ اس بات میں فرق بھی بہت ضروری ہے کہ آپ کیا جانتے ہیں اور آپ کا گمان کیا ہے؟ بساا وقات ہمیں اپنی معلومات کے ذرائع پر یا اپنی راے پر اتنا اعتماد ہوتا ہے کہ ہم اسے حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ بار بار ڈاکٹر شاہد صاحب کی مثال پیش کرنا مناسب محسوس نہیں ہوتا، مگر  بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اور ایسا ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ ہوسکتا ہے، اگر گمان کرنے سے پرہیز نہ کیا جائے کہ جس کی قرآن میں ممانعت آئی ہے۔ مسلم معاشروں کو اس گمان پرستی کے بُرے اثرات سے بچانے کے لیے سورۂ حجرات میں تصدیق کے بغیر محض Assumption  یا گمان سے پرہیز کا حکم دیا گیا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘۔(الحجرات ۴۹:۱۲)

انسانی نفسیات پر تبصرہ کرتے ہوئے سورۂ یونس کی آیت ۳۶  میں یہ بات واضح کی گئی کہ دنیا کے لوگوں کی اکثریت محض قیاس اور گمان پر چل رہی ہے:’’حقیقت یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر لوگ محض قیاس و گمان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں، حالاں کہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پُورا نہیں کرتا۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس کو خوب جانتا ہے‘‘۔

  • حقائق کے بغیر راے دینے سے پرہیز : ہمارے ہاں یہ عام بات ہے کہ مستند ذرائع سے علم کے بغیر لوگ رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں۔ مثلاً تواتر سے یہ بات دُہرائی جاتی ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا منبع مدارس ہیں، جب کہ راقمہ کی تحقیق کے مطابق اس حوالے سے کوئی مستند اعداد و شمار موجود نہیں۔ اعداد و شمار، تحقیق اور پرائمری رپورٹنگ کے بغیر یہ بیان ایک افواہ یا پروپیگنڈے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔آئیے دیکھتے ہیں قرآن کریم اس معاملے میں کیا رہنمائی دیتا ہے:

بغیر علم کے بحث کرنے والوں کے لیے سورۂ آل عمران آیت ۶۶  میں کہا گیا: ’’تم لوگ جن چیزوں کا علم رکھتے ہو اُن میں تو خوب بحثیں کر چکے، اب اُن معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہو جن کا تمھارے پاس کچھ بھی علم نہیں۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے‘‘۔ سورہ بنی اسرائیل آیت ۳۶ میں کہا گیا:’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو، جس کا تمھیں علم نہ ہو۔ یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے‘‘۔

  • افواہیں پھیلانا قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے: اس وقت جرمنی میں fake news  یا افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف قانون سازی ہو چکی ہے اور اب یہ قابل تعزیر جرم ہے۔ بہت سے یورپی ممالک اس سمت میں کام کر رہے ہیں۔ قرآن میں چودہ سو سال پہلے ان کے خلاف کارروائی کی بات کی گئی۔

سورۂ احزاب آیت ۶۰ کے مطابق:’’اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمھیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمھارے ساتھ رہ سکیں گے‘‘۔

  • حق کو جان بوجھ کر چھپانا​:بعض معاملات میں ​مصلحت​کی بنیادپر اور جان بوجھ کر حق کو چھپانا بھی معاشروں کے لیے خرابی کا با عث بنتا ہے۔ سورۂ بقرہ آیت ۴۲ میں بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے کہا گیا: ’’باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو‘‘۔ یہی مضمون سورۂ آل عمران آیت ۷۱ میں دہرایا گیا: ’’اے اہل کتاب! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو؟‘‘

یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ قومی سلامتی، یعنی نیشنل سیکورٹی کے بعض معاملات میں رازداری لازم ہے۔ سورۂ ممتحنہ اور بعض دوسری سورتوں میں اس حوالے سے بھی بات کی گئی ہے۔ اس پر آیندہ کسی مضمون میں بحث کریں گے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے یہ اصول دنیا کو متعارف کروانے والی کتاب مسلمانوں پر ہی نازل ہوئی اور ہمارے آبا نے اپنی پوری پوری زندگیاں تصدیق میں صرف کر دیں اور شفافیت کے اصولوں کو رواج دیا، مگر آج ہم ہی وہ قوم ہیں جو ان اصولوں کا ذکر سننا بھی پسند نہیں کرتے۔ اقبال سچ ہی کہہ گئے: ’گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی‘۔ اور کتابوں کے ساتھ ساتھ ان اخلاقی اصولوں کو ’جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا ‘۔

خبروں کو بغیر تصدیق کے پھیلانا ہمیشہ سے انسانی معاشرے کے لیے نقصان دہ رہا ہے، لیکن اب ایک عام آدمی اور صحافی کے فرق مٹ جانے کی صورت میں یہ اور زیادہ ضرر رساں ہو گیا ہے، کیوںکہ اب خبروں کی ترسیل تو آسا​ن​ہو گئی ہے مگر صحافت کے اس نئے دور میں تصدیق، شفافیت اور مواخذہ ناپید ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک عام شہری خبر بنا تو رہا ہے مگر اس کو بنانے اور پھیلانے کے اخلاقی اصولوں سے بے بہرہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ​اسکولوں کا ​نصاب اور میڈیا دونوں عالمی معیارات اور دینی تعلیمات کی روشنی میں میڈیا کے اصولوں کی آگاہی دینے والے ہوں۔

ہر زمانے کے اپنے وسائل اور اپنے مسائل ہوتے ہیں، لیکن بنیادی قدروں میں ردوبدل نہیں ہوتا۔ ہمارے اس عہد میںسوشل میڈیا ایک نیا وسیلۂ ابلاغ وخبر ہے۔ اس وسیلے سے وابستہ جس کلچر نے جنم لیا ہے اسے ہم ’منقول کلچر‘ کہہ سکتے ہیں۔ یعنی اپنے طور پر کوئی چیز لکھنے یا تشکیل کرنے سے زیادہ، دوسروں کی چیزوں کو نقل کرنے کا کلچر۔

منقول کلچر کا جو رُوپ ہمارے سامنے آیا ہے، اس میں دو خرابیاں حددرجہ ہیں:ایک یہ کہ ہمیں خبر، پوسٹ یا تحریر کے مصنف کا علم نہیں ہوتا کہ جس کی بنیاد پر اس کے جعلی یا غلط ہونے کی صورت میں مواخذہ کیا جاسکے۔ اس کمی کے باعث احتساب یا اصلاح ممکن نہیں ہوتی۔ دوسرے، تحریر کے خالق کو اس کے حق سے محروم کر دینا بھی بڑی زیادتی کی بات ہے۔

آج کل سوشل میڈیا پر یہ کلچر بہت عام ہو گیا ہے کہ لوگ مصنف کا نام دینے کے بجائے ’منقول‘ لکھ دیتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اخلاقی ذمہ داری پوری ہو گئی۔ اکثر ایسی پوسٹس یا پورے پورے مضامین فیس بک اور واٹس اَیپ پر نظر آتے ہیں، جو بہت محنت سے لکھے گئے ہوتے ہیں لیکن مصنف کا نام موجود نہیں ہوتا۔ اگر بھیجنے والے سے پوچھا جائے کہ یہ کس نے بھیجا ہے؟ تو وہ کہتا ہے ہمیں خود کسی نے فارورڈ کیا تھا۔ اچھا لگا تو ہم نے آگے بڑھا دیا۔ سوشل میڈیا پر رائج   اس رواج اور چلن کو ہم ’منقول کلچر‘ کا نام دیں گے۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ مصنف کے نام کے بجاے ’منقول‘ لکھ دینے سے وہ ’فکری ملکیت‘ (Intellectual property) کی چوری کے اخلاقی جرم سے بری ہو جاتے ہیں۔ حالاںکہ چوری چوری ہوتی ہے چاہے وہ مفاد عامہ کے لیے مخلصانہ نیت سے ہی کیوں نہ ہو۔ ’منقول‘ کا یہ استثنا صرف اس صورت ممکن العمل ہے، جب تحریر کی اشاعت ناگزیر ہو اور مصنف کا نام معلوم ہونے کا کوئی طریقہ نہ ہو۔ مثلاً تحریر ماضی بعید میں لکھی گئی ہو اور کسی وجہ سے سر ورق یا مصنف کا نام پڑھا جانا ممکن نہ ہو۔ لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ پورا پورا مضمون کاپی کر کے بڑے خلوص سے مصنف کے نام کی جگہ ’منقول‘ لکھ کر پوسٹ کو پھیلا دیا جاتا ہے اور چوںکہ پھیلانے والے کا ذوق بہت اچھا یا سنسنی خیز ہوتا ہے تو پیغام (post) عام (viral) ہو جاتا ہے، لیکن مصنف اپنے استحقاق سے محروم ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’کوئی فاسق [گناہ گار ] تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو‘‘ (الحجرات ۴۹:۶)۔اب سوال یہ ہے کہ ’منقول پوسٹ‘ میں تو خبر لانے والے کا نام ہی نہیں معلوم ہوتا۔ ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ اس کے بارے میں فیصلہ کیا جا سکے۔ جہاں تک کاپی رائٹس کا تعلق ہے، تو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں یہ ایک حق ہے کہ کسی قسم کے آرٹ (تحریریں، موسیقی، مجسمہ سازی، نقاشی و صورت گری، آرٹ کی تعریف میں شامل ہیں) کی تخلیق کرنے والا اس کی اشاعت سے متعلق فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے، یعنی اس کے نام سے شائع ہونے کی صورت میں بھی اس کی اجازت لینا ضروری ہے، اِلّا یہ کہ ٹیکسٹ کی تھوڑی بہت مقدار کاپی کی جائے یا مصنف نے خود استعمال کی اجازت دی ہو۔ اس پس منظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی کیا یہ قوانین لاگو ہوتے ہیں یا نہیں؟ اس معاملے کی بہت سی باریکیاں ہے، جنھیں سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ پھر بھی ہم سوشل میڈیا پر اس کی خلاف ورزی سے متعلق کچھ بنیادی باتوں کو زیر بحث لانے کی کوشش کرتے ہیں۔

مصنف کا نام پوسٹ پر نہ ہونے کے نقصانات

مصنف کا نام پوسٹ (پیغام) پر نہ ہونے کے نقصان کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔   شہرقصور میں بچی زینب کے قتل کے سلسلے میں ایک معروف اینکرپرسن کے انکشافات سے پہلے ڈارک ویب کے حوالے سے ایک پوسٹ راقمہ کو بغیر نام کے موصول ہوئی۔ تحریر بہت پختہ، مربوط اور دلائل سے بھر پور تھی جس میں مصنف نے مالی پیش قدمی، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ پر ڈیٹا ٹریفک کی جانچ کے ذریعے تفتیش کی بہت معقول تجاویز پیش کی تھیں، جن پر عمل سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی تھی کہ واقعی اس قتل کا تعلق چائلڈ پورنوگرافی کے انٹرنیشنل مافیا سے ہے یا نہیں۔ قصور میں پہلے بھی اس نوعیت کا ایک گھناؤنا اور رُسوا کن جنجال (اسکینڈل) سامنے آچکا تھا، اس لیے اگر ایسا ہوتا تو یہ کوئی اچنبھا شمار نہ ہوتا۔ انٹرنیٹ کے آغاز سے ہی (بلکہ اس سے پہلے بھی) بہت سے ممالک میں ایسے گروہ پکڑے جاچکے ہیں، جو بچوں کے ساتھ بد فعلی کرکے ان کی ویڈیوز بناکر انھیں مختلف طریقوں سے مارکیٹ کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ لیکن تحریر پر نام نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اس روایت (اسٹوری) کو آگے منتقل کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

چند دن بعد ’دلیل‘ نامی آن لائن نیوز آؤٹ لیٹ پرایک صحافی جمیل فاروقی کی اس سے  ملتی جلتی تحریر سامنے آئی۔ چونکہ صحافی کا نام موجود تھا اور ’دلیل‘ ایک قابل اعتماد آن لائن اخبار ہے، اس لیے میں نے اسے اپنے فیس بک پیج پر بغیر کسی تبصرے کے پیش کیا۔ کچھ ہی دیر بعد لندن میں مقیم میری ایک کالم نگار دوست کا اعتراض سامنے آیا کہ: اس روایت کردہ مضمون میں جس ہندستانی لڑکی رادھا کی کہانی بیان کی گئی ہے، اس کا ذکر انٹرنیٹ پر کہیں موجود نہیں۔ میں نے گوگل سے تصدیق کی تو ان کی بات صحیح نکلی۔ ایسے کسی کیس کا تذکرہ ہندستانی اخبارات میں موجود نہیں تھا۔ اب چوںکہ آن لائن ’دلیل‘ اور مصنف ذمہ دار تھے، اس لیے میں نے پوسٹ حذف کرنے کے بجاے ’دلیل‘ کو تبصرہ (کمنٹ) بھیج دیا۔ ’دلیل‘ کے ایڈیٹر نے فوراً اس کا جواب دیا کہ: ’یہ صحافی   ٹی وی پر اوریا مقبول کے ساتھ پروگرام کرتے ہیں اور مستند صحافی ہیں۔ ان سے پوچھ لیتے ہیں۔ اگرچہ جواب تاحال موصول نہیں ہوا۔ ان شاء اللہ خبر کے غلط یا صحیح ہونے کی صورت میں سچ سامنے آ جائے گا، بلکہ معروف اینکرپرسن ڈاکٹر شاہدمسعود کم از کم عدالت کے سامنے جواب دہ ہوئے اور یوں ثبوت فراہم نہ کرپانے کی صورت میں ڈیڑھ دو ماہ میں سچ سامنے آ گیا۔ اگر یہی پوسٹ ’منقول‘ ہوتی تو ہم کسی کا مواخذہ کرنے کے بجاے صرف ہوا میں تیر تکّے چلاتے رہتے اور بہت سے لوگ اس پر یقین کرتے بلکہ کر رہے تھے۔ ایسی جعلی خبروں سے معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے۔ ایک عام آدمی کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی آتی ہے۔ وہ مایوسی میں بہتر فیصلہ کرنے کی اہلیت کھو دیتا ہے۔

اسی دوران مجھے ڈارک ویب کے بارے میں برکت علی برق صاحب کی ایک تحریر  واٹس ایپ پر موصول ہوئی۔ تحریر میں ڈارک ویب سے متعلق جتنے تشویشناک قصے سنائے اور دعوے کیے گئے تھے ان میں سے کسی کے ماخذ (source) کا حوالہ موجود نہیں تھا۔ اب اس کا فیصلہ قاری کرسکتے ہیں کہ بھلا ایسی کسی تحریر پر ہمیں کتنا بھروسا کرنا چاہیے؟

برکت علی برق نامی مصنف کی بظاہر معقول، مگر دی گئی معلومات ماخذ کے بغیر تحریر کسی اخبار یا رسالے میں کیوں نہ آئی اور صرف سوشل میڈیا پر کیوں گردش کر رہی ہے؟ اس ضمن میں یہ بات ذہن میں رہے کہ سوشل میڈیا پر باقاعدہ ایجنڈے کے تحت با معاوضہ کام کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ان لکھاریوں کی مالی مدد کون کرتا ہے، اور مالی معاونت کرنے والوں کے مقاصد کیا ہوتے ہیں؟ یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔      

کچھ لوگ ایمان کی حد تک ان روایات اور تحریروں پر یقین کرلیتے ہیں، جو ان کا پسندیدہ صحافی یا پسندیدہ فیس بک لکھاری سامنے لے کر آئے۔ ایک عام آدمی کو یہ آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے کہ آپ کا پسندیدہ اینکر ہو یا سوشل میڈیا کی کوئی پوسٹ، اگر یہ فرد ماخذ کا حوالہ اپنے مضمون میں نہیں دے رہا تو ایسی خبر بظاہر کتنی ہی کارآمد اور اچھی کیوں نہ ہو، اسے مسترد کر دیں۔ استثنا صرف اس صورت میں ہے جب کوئی معقول وجہ موجود ہو۔

عملی سطح پر صورت حال یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دانش وروں ،یہاں تک کہ صحافیوں تک سے یہ بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ:’’ اگر خبر پر نام موجود نہ ہو تو ’منقول ‘کہہ کر آگے پھیلادینے میں کیا حرج ہے؟ ہمیں بھی تو کسی نے فارورڈ کی تھی۔ اصل میں میسج بہت اچھا ہے تو سوچا اس کو اپنی حد تک محدود (hold)رکھنے کا کیا فائدہ؟ اس لیے ’منقول‘ لکھ کر آگے پھیلا دیتے ہیں‘‘۔ بظاہر یہ ایک معقول دلیل ہے کہ کسی چیز کا فائدہ زیادہ ہو اور نقصان کم، تو اسے اختیار کرنا چاہیے۔ لیکن کیا واقعی فائدہ زیادہ ہے؟ یا اس اصول کو چھوڑ دینے کے نتیجے میں ہم جعلی خبروں اور پوسٹوں کی حوصلہ افزائی کرکے معلومات رسانی کے نام پر جھوٹ، انتشار، غیبت اور تہمت لگانے کا کام کر رہے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ ، مولانا رومیؒ، یہاں تک کہ  صلاح الدین ایوبی ؒ تک سے جو دل چاہتا ہے منسوب کردیا جاتا ہے اور کہلوا لیا جاتا ہے۔ اگر ماخذ کے بارے میں پوچھا جائے تو اچھے خاصے پڑھے لکھ لوگ یہ جواب دیتے ہیں کہ: ’کیا ہوا اگر مولانا رومی کا قول نہیں، قول تو اچھا ہے‘۔ گویا کہ ایسے اقوال مارکیٹ میں لانے والے اپنے آپ کو مولانا رومی سے زیادہ سمجھ دار سمجھتے ہیں۔ کسی عام مرے ہوئے شخص کے منہ سے بھی اپنی مرضی کی بات کہلوانا انتہائی قبیح طرزِ عمل ہے۔ اس لیے ہمیشہ ریفرنس اور ماخذ پر اصرار کریں، اور یہ نہ سمجھیں کہ ’منقول کلچر‘ میں سب جائز ہے۔

کیا کوئی اچھی ’منقول‘ یا نامعلوم پوسٹ نظر آنے سے ہم پر یہ واجب ہو جاتا ہے کہ ہم اسے آگے پیغام در پیغام کریں؟ حالاں کہ اسے آگے پھیلانا اخلاقی اصولوں کے علاوہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت بھی ممنوع ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی تیس شقوں میں سے ایک کاپی رائٹس (جملہ حقوق محفوظ)سے متعلق ہے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں کاپی رائٹس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے؟ یعنی زندہ رہنے کے حق، ملکیتی حق اور انصاف کے حق کے ساتھ کاپی رائٹس کو چارٹر میں شامل کیا گیا ہے۔

کاپی رائٹس یا ’جملہ حقوق‘ کی خلاف ورزی

ہم میں سے کتنے لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ مال کی طرح تخلیق بھی جایداد میں شمار ہوتی ہے، اور تخلیقی ملکیت کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں ،اور آپ کسی کا ایک جملہ بھی اگر نقل کرتے ہیں تو آپ اخلاقی اور قانونی طور پر اس کا نام، یعنی ریفرنس دینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

ہمارا عذر یہ ہوتا ہے کہ ’’کیا ہوا اگر ہم نے پبلک کے فائدے کے لیے آگے شیئر کر دیا تو۔ اسی لیے تو لکھا تھا اس نے، اور ہمیں تو خود فارورڈ کیا تھا کسی نے‘‘۔پہلی بات تو یہ کہ ’عذر گناہ بد تر از گناہ است‘ والی بات ہے۔ چوری چاہے اپنے فائدے کے لیے ہو یا پبلک کے فائدے کے لیے چوری ہی ہوتی ہے۔ اور آپ چاہے چیز کسی کے گھر سے چرائیں یا سڑک پر پڑی ہو اُٹھا لیں اور اسے بغیر تحقیق کیے فلاح کے واسطے بانٹنا شروع کر دیں تو وہ چوری ہی رہے گی۔ 

علمی دنیا اور صحافت کا ایک مروجہ اصول یہ بھی ہے کہ ایک جملہ بھی پرنٹ یا انٹرنیٹ پر آنے کے بعد بائی ڈیفالٹ کاپی رائٹ ہو جاتا ہے۔ حوالے کے ساتھ بھی ایک دو جملوں سے زیادہ کاپی کرنے سے پہلے مصنف سے اجازت لیں اور حوالہ اور لنک ضرور دیں۔ سوشل میڈیا پر چوںکہ اکثر سائٹس پہ شیئر کی سہولت (آپشن) موجود ہوتا ہے تو اس بٹن کو دبا کر مشینی طور پر شیئر کرنے کی بائی ڈیفالٹ اجازت ہے۔ اگر اسی پوسٹ یا تحریر کو آپ ’کاٹ جوڑ‘ کر کسی وجہ سے اپنی وال، سائٹ یا صفحے پر ڈالنا چاہتے ہیں، مثلاً کسی چھپے ہوے مضمون کے کچھ جملے آپ ٹیکسٹ کی صورت تعارف کے لیے شیئر کرنا چاہتے ہیں، تو یاد رہے یہ جملے تعداد میں اتنے نہیں ہونے چاہییں کے کوئی ان کو پڑھنے کے بعد مضمون پڑھنے کی زحمت ہی نہ کرنا چاہے۔ مضمون کا لنک شامل ہونا چاہیے، تاکہ جو بندہ پورا مضمون پڑھنا چاہے، اسے وہاں وہ پڑھ سکے۔ اگر کسی کتاب کے جملے نقل کیے گئے ہیں تو وہ بھی اتنی تعداد میں نہیں ہونے چاہییں کہ آپ پوری کتاب ہی بیان کر دیں۔ کتاب اور مصنف اور ہو سکے تو پبلشر کا نام بھی دیں، تاکہ اگر کوئی خرید کر کتاب پڑھنا چاہے تو پڑھ سکے۔    

ہمارے ہاں علمی یا ’فکری ملکیت‘ کے حقوق سے عموماً لوگ واقف نہیں ہیں۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض دینی حلقوں میں مصنفین انکسار کا مظاہرہ کرتے ہوے اپنا نام تحریر کے آخر میں لکھتے ہیں۔ یہ طریقہ اصولی طور پر سراسر غلط ہے۔ کتاب پر مصنف کا نام ہمیشہ سر ورق پر ہوتا ہے، کبھی آخری صفحہ یا پشت پر نہیں ہوتا۔ نام آخر میں لکھنا بھی چوروں کی حوصلہ افزائی کا با عث بنتا ہے۔ بہت لمبی پوسٹ میں ویسے بھی لوگ نیچے جا کر مصنف کا نام پڑھنے کی زحمت کم ہی کرتے ہیں۔

ایک اور تاویل یہ پیش کی جاتی ہے کہ: ’’کیا ہو گیا اگر کسی کی تحریر اس کی اجازت اور نام کے بغیر ہم نے پبلک میں شیئر کر دی ہے۔ تحریر کا مقصد تو یہی تھا کہ لوگ اسے پڑھیں اور وہ پورا ہوگیا۔ الله مصنف کو اور شیئر کرنے والے کو جزا دے‘‘۔ یہ سب ہماری عمومی سوچ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ایک ہزار روپے کے جوتے کی قدر و قیمت کا تو احساس ہے۔ اسی لیے ہم اسے مسجد سے چرانے والے کو بُرا سمجھتے ہیں، مگر ہمیں کسی کی گھنٹوں یا ہفتوں یا چند برسوں کی دماغ سوزی اور محنت سے لکھے گئے مضمون کی قدر نہیں۔ بقول شخصے جن قوموں کی نظر میں جوتے کی اہمیت ہو اور دانش وَر    یا لکھاری کی محنت کی نہیں، اسے اسی طرح جوتے پڑنے چاہیں جیسے آج ہر طرف سے پڑرہے ہیں۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں گنتی کے لکھاریوں کو اپنی تحریروں کا معاوضہ ملتا ہے، وہاں مصنف سے اس کی تخلیق کے حقوق اور ملکیتی حق بھی چھین لینا ظلم ہے۔ لیکن ٹھیریں قصور صرف نام حذف کر کے’ منقول‘ لکھنے والے کا نہیں۔ اس کا بھی ہے جو نامعلوم پوسٹ ملنے پر ’منقول‘ لگا کر اپنی ذمہ داری سے بری ہوتا ہے، اور ہر اس فرد کا بھی جو ان نا معلوم اور ’منقول‘ پوسٹوں کو آگے شیئر کرتا ہے۔

اس طرح اچھے پیغام (message) کو چند ناظرین(viewers) کے لیے ہم چوری شدہ پیغام کو (جس میں مصنف کا نام نکال دیا ہوتا ہے)آگے روانہ کرکے، اخلاقی سطح پر ایک غلط حرکت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ایسی ہر پوسٹ کے عام (وائرل) ہونے سے چور کے حوصلے بڑھتے ہیں اور اس اچھی پوسٹ یا مضمون کے اصل مصنف کی حق تلفی ہوتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ بے چارے چور صاحب یا صاحبہ کو معلوم بھی نہیں ہے کہ وہ کوئی غلط کام کرتے ہیں۔ وہ تو اپنی دانست میں نیکی کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔

دل چسپ بات یہ کہ جب میں نے اپنی فیس بک کی ٹائم لائن پر ’منقول کلچر‘ کے خلاف اسٹیکرز (چھوٹے چھوٹے پیغامات)کے ذریعے آگاہی دینا چاہی توایک خاتون کے علاوہ جو کسی غیرملکی یونی ورسٹی میں اُردو پڑھاتی ہیں، کسی نے اس اصول کو قبول نہیں کیا۔ عام طور سے سیکڑوں فالوور رکھنے والے پڑھے لکھے خواتین اور حضرات کا خیال تھا کہ اپنے نام سے، کسی دوسرے کی پوسٹ شیئر کرنا تو اخلاقی لحاظ سے غلط ہے مگر اگر نام نہیں معلوم تو کیا کریں؟ یہ کسی نے نہیں بتایا کہ ایسی پوسٹ کو شیئر کرنا یا فارورڈ نہ کرنے سے کون سا فرض رہ جاتا ہے کہ چوری کو مباح کر لیا جائے؟ 

ایک صاحب جو بیرون ملک کسی یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے، ان کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ: ’’اگر معروف مصنف کا لکھا ہوا مضمون ہے تو نام ضرور دینا چاہیے‘‘۔ گویا غیر معروف مصنف کی پوسٹ یا تحریر استعمال کرنا جائز ہے۔ بعد میں بحث کے بعد وہ تھوڑے بہت قائل ہوئے تو بھی ان کا کہنا تھا:’’ ’منقول‘ لکھ دینا بھی اچھی خاصی احتیاطی تدبیر ہے۔کم از کم لوگ پوسٹ پر اپنا نام تو نہیں لکھ رہے۔ پہلے معاشرے کو اس کا عادی ہونے دیں پھر مزید اصول بتائیں‘‘۔

حد یہ ہے کہ حدیث کی تدوین کرنے والے اوّلین محدثین کا واسطہ دے کر بھی سمجھانے کی کوشش کی، کہ حوالے اور سند کے اصول سے تو دنیا کو روشناس ہی ہمارے بزرگوں نے کیا ہے، اور ہم ہی وہ قوم ہیں جسے نہیں معلوم کے حوالہ کسے کہتے ہیں اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ مگر سوئی وہیں اٹکی رہی کہ اگر نام نہیں معلوم تو آخر کیا کریں۔

یہ بھی سمجھایا کہ جب پوسٹ بنانے والے کا نام نہیں ہوگا تو جھوٹی خبر، غلط روایت، تاریخی واقعہ یا افواہ پر کسی کا بھی محاسبہ نہیں ہو سکے گا، مگر یہ کلچر اتنا گہرا ہو چکا ہے کہ اس کے مقابلے میں قرآن و سنت کے حوالے بھی ناکام ہیں۔

تخلیق کار کے حقوق مسلم تاریخ کے آئینے میں

دنیا میں ہمیشہ علمی، تخلیقی اور تحریری کاموں پر تخلیق کار کا نام تحریر کیا جاتا رہا ہے اور مسلمانوں نے خاص طور پر اس قدر کو رواج دیا۔ اگر یہ نہ کرتے تو آج نہ ہمیں الجامع الصحیح پر امام بخاری کا نام ملتا اور نہ تفسیر ابن کثیر پر ابن کثیر کا اور ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا ممکن نہ ہوتا کہ مستند اورغیر مستند کتب کون سی ہیں۔ اگرآپ بخاری  سے کوئی حدیث پڑھیں تو آپ کو روایت کی پوری لڑی نظر آئے گی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے حدیث ہم تک کیسے پہنچی۔ دراصل یہ اصول آج بھی تحقیق کی دنیا میں رائج ہے کہ آپ اپنے تحقیقی مقالے میں ماخذ کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔ یہی اصول صحافت میں بھی رائج ہے اور شفافیت (ٹرانسپیرنسی) کہلاتا ہے۔

 سوشل میڈیا کے اس دور میں، بڑے پیمانے پر لوگ خبر بنانے اور اسے پھیلانے میں شریک ہیں، اوروہ بھی اکثر بے سوچے سمجھے۔ ایک عام شہری کو ہی نہیں، اسکول کے بچے کو بھی    ذمہ دارصحافت کے اصولوں کی تربیت دینا آج کی اہم ضرورت ہے کہ غیر ذمہ دار صحافت فرد کے ساتھ ریاست اور معاشرے کو بھی کمزور کرتی ہے۔ اسی لیے دین اسلام نے چودہ سو سال پہلے اس کے اصول متعین کر دیےتھے کہ معاشرہ فکری بے راہ روی اور معلوماتی انتشار کا شکار نہ ہو۔