یہ ستمبر ۲۰۱۳ء کی بات ہے، بھارت کے صوبے اتر پردیش میں ایک لڑکی کو چھیڑنے کے مسئلے پر تین قتل ہو گئے اور بعد ازاں ایک وڈیو کے منظرعا م آنے کے بعد ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ بی بی سی کے مطابق تقریباً ۵۰؍ افراد ہلاک ہوئے اور ۴۰ہزار افراد جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی انھیں نقل مکانی کرنا پڑی۔ دراصل ایک وڈیو کے ذریعے افواہ اڑی تھی کہ: ’’دوہندو جاٹ لڑکے مُردہ حالت میں پائے گئے ہیں، جنھیں مسلمانوں نے ہلاک کیا‘‘۔ یہ وڈیوعام (وائرل) ہونے پر جاٹ ہجوم اتنا برافروختہ ہوگیا کہ انھوں نے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر لوگوں کے گلے کاٹے ،حالاںکہ اس سے قبل متاثرہ علاقے میں جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی جھگڑا سامنے نہ آیا تھا۔ قتل عام اور خون کی بارش تھم گئی تو پولیس نمودار ہوئی اور معلوم ہوا کہ وہ وڈیو دراصل پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے والے دو بھائیوں کی تھی اور ایک سال پرانی تھی۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق ان دو لڑکوں کی ہلاکت بھی غلط فہمی اور افواہوں، یعنی غیر مصدقہ خبروں کی وجہ سے ہوئی تھی، جس نے ہجوم کو اتنا مشتعل کر دیا کہ اس نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور خود ہی ان لڑکوں کو سڑک پر سزا دینے کا فیصلہ کرلیا۔
اسی طرح۲۰۱۶ء میں پنجاب میں بچوں کے اغوا کی خبروں کے اسکینڈل سے اندازہ ہوا کہ ہمارا میڈیا غیر تصدیق شدہ خبروں پر کتنا انحصار کرتا ہے اور سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرہ کتنے دباؤ میں ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ انتشار پھیلانے والی خبریں بڑے خلوص سے ’فارورڈ‘ کی گئیں کہ: ’بچوں کے والدین ہوشیار ہو جائیں‘۔ بعد میں غیر جانب دارانہ تحقیقات سے معلوم ہوا کے اصل اعداد وشمار آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور جن بچوں کے اغوا کی رپورٹیں درج کروائی گئیں، ان میں سے بھی زیادہ تر بچے خود گھر سے کسی ناراضی یا ڈر کی وجہ سے بھاگے تھے۔ پنجاب کے بعض مقامات پر اغوا کے شبہے میں معصوم افراد کے ساتھ بلاجواز مارکٹائی اور تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے۔
ان مثالوں سے کسی کے ذہن میں یہ خیال نہ آئے کہ ایسا صرف غربت زدہ تیسری دنیا میں ہوتا ہے۔ گذشتہ سال امریکی انتخابات کے دوران سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے غیرمصدقہ حقائق پر مبنی بیانات مسلسل گردش میں رہے اور بڑے پیمانے پر انھیں آگے شیئر کیا جاتا رہا۔ فیس بک آج دنیا میں نشرو اشاعت کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ جہاں کل کا اخبار بین، اب خود صحافی ہے اور خبر بنانے سے لے کر اس کو منٹوں میں نشر کرنے کے تمام وسائل اسے حاصل ہیں۔ ایک طرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر صحافتی اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے، تو دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ آج ہر وہ فرد جسے کمپیوٹر یا موبائل پر انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے بلاگر، فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، پر خبر بنا رہا ہے۔ اس طرح صحافی اورعام شہری کے درمیان فرق ختم ہو چکا ہے۔ عام شہری جو پہلے خبر یا میڈیا کا صارف تھا، اب ٹیکسٹ، تصویر، وڈیو کی ترسیل کے ذریعے خبرسازی میں براہِ راست حصہ لے رہا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کی آمد سے جہاں اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں کی اجارہ داری ختم ہوئی ہے، وہاں خبروں کی غیر ذمہ دارانہ ترسیل کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ صحافت کے بنیادی اصول، یعنی تصدیق اور احتساب کو بُری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے۔ بیک وقت ’صحافی اور قاری‘ عموما ً خبر کی تصدیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور نہ خبروں کے غلط یا صحیح ہونے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے، اور سب سے بڑھ کرحوالہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ پوسٹ کا ماخذ کیا ہے۔ خبر یا پوسٹ کا محض دل چسپ ہونا ہی اسےوائرل کرنے کے لیے سب سے بڑی اہلیت ہے۔
جھوٹی خبریں معاشرے میں ہمیشہ موجود رہی ہیں۔ ان جعلی خبروں کے پیچھے سیاسی اور عسکری مقاصد کے لیے منظم پروپیگنڈا کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے اور بیمار ذہن کے افراد محض سنسنی اور افراتفری پھیلانے کے لیے بھی ان کی ترسیل کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر منافع بھی سنسنی خیز جعلی خبروں، غلط مگر دل چسپ تاریخی اور من گھڑت مذہبی واقعات کی ترسیل کو پُرکشش بناتا ہے۔ اس میں ضرررساں پہلو یہ ہے کہ انھیں پھیلانے والے نیٹ ورک میں اکثر ان لوگوں کا حصہ ہوتا ہے جنھیں خود نہیں معلوم ہوتا کہ خبر جھوٹی ہے۔ وہ مذہبی عقیدت یا قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے دین نے ابلاغ کے جو اصول واضح کیے ہیں اور اس حوالے سے جو عالمی اصول موجود ہیں، ان سے واقفیت عام معاشرے میں تو کیا پڑھے لکھے افراد میں بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سے معاشرے میں انتشار پھیل رہا ہے۔ نسل پرستی، انتہا پسندی یہاں تک کہ دہشت گردی میں بھی کئی گنا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ موجودہ دور کا ایک ایسا چیلنج ہے جس سے نبرد آزما ہونا وقت کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے۔
اس حوالے سے قرآن و سنت کی تعلیمات اور عالمی معیارات کے مطابق عوام کو میڈیا کے محتاط استعمال کی آگاہی دینا ضروری ہے۔ اس مضمون میں ہم نے عالمی معیارات اورقرآنی تعلیمات کی روشنی میں سوشل میڈیا کے لیے کچھ اصول مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے کہ اہل علم اس بحث کو آگے بڑھانے میں مددگار ہوں گے۔
آئیے ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کی مثال کے ذریعے صحافت کے ان اہم اصولوںکو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے اور ایک صحافی بھی انسان ہوتا ہے۔ یہاں مثال پیش کرکے انھیں ہدف بنانا مقصود نہیں ہے۔ صرف ایک ایسے عمل کا، جو ابلاغ کے حوالے سے اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہوا یا ہو سکتا تھا کا تنقیدی جائزہ پیش نظر ہے۔ ڈاکٹر شاہد صاحب نے ایک چینل پر زینب قتل کے بارے میں کچھ انکشافات کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’ملزم عمران کا ایک غیر ملکی مافیا سے تعلق ہے اور اس کے درجنوں غیر ملکی اکاؤنٹس موجود ہیں اور بااثر سیاسی شخصیات اس کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ثبوت خود ان کے پاس موجود ہیں۔ بعد ازاں معاملہ عدالت تک پہنچنے پر اور بات بہت زیادہ بڑھ جانے پر انھوں نے یہ کہہ کر معافی مانگی کہ وہ ایک باپ کے طور پر جذباتی ہو گئے تھے۔ ایک ذمہ دار صحافی کی حیثیت سے یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ ٹی وی پر اتنے بڑے دعوے کرنے سے پہلے وہ اپنے طور پر اس معاملے کی تصدیق کرتے، مثلاً خود اپنے ذرائع استعمال کر کے بنک سے آفیشل ڈیٹا نکلواتے۔
دوسرے، اگر اپنے طور پر تصدیق کے بجاےوہ کسی سورس پر بھروسا کر رہے تھے تو سورس کے نام سے قوم کو مطلع کرتے۔ اگر کسی وجہ سے سورس اپنا نام اور شناخت پبلک کرنا نہیں چاہتا تھا، تو کم از کم اس کی شناخت ظاہر کیے بغیر مثلاً 'ایک قومی بنک کے وائس پریذیڈنٹ یا اعلیٰ عہدے دار کے ذریعے معلوم ہوا ’یا 'ایک اہم سیاسی شخصیت‘ جیسے الفاظ استعمال کرتے۔ یہ شفافیت، یعنی ٹرانسپیرنسی کا اصول ہے کہ خبر کا ذریعہ، سورس یا ماخذ سے خبر کے صارف (قاری، سامع یا ناظر)کو مطلع کیا جائے۔ ہم نے دیکھا کہ اس معاملے میں شفافیت کے اس اصول کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔ اب آخری اصول رہ جاتا ہے احتساب یا مواخذہ۔ یہ اصول ہمیں بہرحال نظر آتا ہے کہ انھوں نے اس خبر کی پوری ذمہ داری شروع سے آخر تک لی (ویڈیو ریکارڈنگ کی موجودگی میں اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا)، اور اسی لیے آخرکار قوم کے سامنے یہ بات آ گئی کہ خبر صحیح نہیں تھی بلکہ ڈاکٹر شاہد صاحب جذبات میں آ کر افواہوں اور اپنی ذاتی راےکو حقیقت سمجھ بیٹھے تھے۔
سورۂ احزاب آیت ۷۰ میں کہا گیا:’’اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو‘‘۔ اس آفاقی کتاب میں حق بات کرنے کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ دشمن کی دشمنی میں بھی اشتعال سے پرہیز اور انصاف کی گواہی کا حکم دیا گیا ہے۔ سورۂ مائدہ آیت ۸ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔
سورۂ نساء آیت ۱۳۵ میں انصاف کی گواہی کو ایک دوسرے زاویے سے موضوعِ بحث بنایا گیا ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘۔
بظاہر ان آیات کی شان نزول اور سیاق و سباق مختلف محسوس ہو سکتا ہے اور قاری یہ محسوس کرسکتا ہے کہ ابلاغ سے ان قرآنی تعلیمات کا براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ لیکن ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کی آیات اور تعلیمات ہرزمانے اور ہر طرح کے حالات میں مشعل راہ ہیں اور ان کے مفاہیم بہت وسیع اور تعلیمات آفاقی ہیں۔ ان آیات کے مفاہیم کا آج کے سیاق و سباق میں اطلاق بھی بہت اہم دینی اور دنیوی ضرورت ہے۔
کولمبیا جرنلزم سکول کے پروفیسر جم کیری کے مطابق، صحافت کی بنیاد دراصل ’سچ کا سفاک احترام‘ ہے اور تصدیق کے بغیر سچ کی جانچ پڑتال ممکن نہیں۔ تصدیق درحقیقت صحافت کا اصل کام ہے۔ دراصل یہی اسے ادب کی دوسری اصناف اور پروپیگنڈا سے ممیز کرتا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی خبر کی ترسیل کا ضابطۂ اخلاق یہی ہونا چاہیے۔
اگر مصنف نے تاریخ کی کتاب یا تاریخ داں کا حوالہ دیا ہے تو ذرا گوگل سے کسی مستند ویب سائٹ پر یا انسائی کلوپیڈیا پر دیکھ لیں کہ اس نام کی کوئی کتاب یا تاریخ دان موجود تھا یا نہیں؟ اگر تھا تو اس کا تعلق اسی دور سے تھا کہ جس کا خبر میں ذکر کیا گیا ہے؟ یہ وہ اصول ہیں جنھیں ہمارے بزرگوں نے حدیث نبویؐ کا ذخیرہ مرتب کرتے ہوئے اختیار کیا۔ انھوں نے ایک ایک راوی کے حالاتِ زندگی کو بھی مرتب کیا تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اس سلسلے میں موجود ایک راوی، دوسرے راوی کی زندگی میں موجود بھی تھا اور اگر تھا تو کیا ان دونوں کی آپس میں ملاقات ممکن ہوئی؟ اور ایک کی عمر اتنی تھی کہ دوسرے سے اپنے ہوش کی عمر میں ملاقات کے دوران حدیث سن سکتا یا اسے یاد رکھ سکتا؟ کیا ایک نے دوسرے کی رہایش کے مقام کا سفر کیا یا نہیں؟ اسی بنیاد پر روایت کے موضوع، ضعیف یا مستند ہونے کے بارے میں فیصلہ کیا گیا اور آج بھی اسے اختیار کیا جاتا ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ حدیث کا معاملہ بہت نازک تھا کہ اس پر ہمارے دین اور ایمان کا دارومدار ہے۔ بجا ارشاد! مگر کسی انسان کی زندگی اور آبرو کی حُرمت کا تقدس تو اسلام کے اس اصول سے ظاہر ہے کہ: ’’ایک بے گناہ فرد کا قتل انسانیت کا قتل ہے‘‘۔جھوٹی خبریں انسان کے اعتبا ر اور آبرو کے ساتھ اس کی جان بھی لے سکتی ہیں،جیساکہ اس تحریر کے شروع میں مثال دی گئی ہے۔ جھوٹی خبروں کا معاملہ انتہائی سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔
فی الوقت عالمی منظر نامے میں دوسری قوموں کے خلاف بےبنیاد خبروں کے ذریعے افواہیں پھیلانے کا کام یورپ، امریکا، بھارت، پاکستان سمیت تقریباً دنیا کے ہر خطے میں نسل پرستی، اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔ جرمنی میں سوشل میڈیا پر مہاجرین کے خلاف نفرت پھیلانے پرفیس بک کے خلاف مقدمہ اور سوش میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف قانون سازی ہو چکی ہے۔ سویڈن اور کچھ دوسرے یورپی ممالک اپنے عوام کو میڈیا کے حوالے سے آگاہی کو اپنی اہم ترجیحات میں شامل کر رہے ہیں۔
ہم کم از کم یہ تو کر سکتے ہیں کہ ہمارے درمیان جو اس شعبے کا علم رکھنے والے ہیں، ان سے اس خبر کی تصدیق کروا لیں۔ خبروں کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے، مگر یہ سادہ سا اصول جھوٹی پوسٹوں کی ترسیل کو روکنے میں بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسے مستند عالم حضرات کی کمی نہیں ہے، جو دینی معلومات کے ماخذین اور کتب کا علم رکھتے ہوں۔ یہی معاملہ دنیوی علوم کا بھی ہے۔ آج سوشل میڈیا کے دور میں رابطہ منٹوں میں کیا جا سکتا ہے اور پوسٹ کی تصدیق ان حضرات سے کی جا سکتی ہے۔ میں نے ہمیشہ اہل علم حضرات کو تصدیق کے معاملے میں ہمدرد اور معاون پایا ہے۔ ہمارے نزدیک دینی اور علمی ادارے افواہوں اور غلط پوسٹس کے سد باب کے لیے ہیلپ لائن بھی قائم کر سکتے ہیں۔ جہاں موجود ماہرین سے خبر یا پوسٹ کی جانچ کروائی جا سکے۔
انسانی نفسیات پر تبصرہ کرتے ہوئے سورۂ یونس کی آیت ۳۶ میں یہ بات واضح کی گئی کہ دنیا کے لوگوں کی اکثریت محض قیاس اور گمان پر چل رہی ہے:’’حقیقت یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر لوگ محض قیاس و گمان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں، حالاں کہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پُورا نہیں کرتا۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس کو خوب جانتا ہے‘‘۔
بغیر علم کے بحث کرنے والوں کے لیے سورۂ آل عمران آیت ۶۶ میں کہا گیا: ’’تم لوگ جن چیزوں کا علم رکھتے ہو اُن میں تو خوب بحثیں کر چکے، اب اُن معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہو جن کا تمھارے پاس کچھ بھی علم نہیں۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے‘‘۔ سورہ بنی اسرائیل آیت ۳۶ میں کہا گیا:’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو، جس کا تمھیں علم نہ ہو۔ یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے‘‘۔
سورۂ احزاب آیت ۶۰ کے مطابق:’’اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمھیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمھارے ساتھ رہ سکیں گے‘‘۔
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ قومی سلامتی، یعنی نیشنل سیکورٹی کے بعض معاملات میں رازداری لازم ہے۔ سورۂ ممتحنہ اور بعض دوسری سورتوں میں اس حوالے سے بھی بات کی گئی ہے۔ اس پر آیندہ کسی مضمون میں بحث کریں گے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے یہ اصول دنیا کو متعارف کروانے والی کتاب مسلمانوں پر ہی نازل ہوئی اور ہمارے آبا نے اپنی پوری پوری زندگیاں تصدیق میں صرف کر دیں اور شفافیت کے اصولوں کو رواج دیا، مگر آج ہم ہی وہ قوم ہیں جو ان اصولوں کا ذکر سننا بھی پسند نہیں کرتے۔ اقبال سچ ہی کہہ گئے: ’گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی‘۔ اور کتابوں کے ساتھ ساتھ ان اخلاقی اصولوں کو ’جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا ‘۔
خبروں کو بغیر تصدیق کے پھیلانا ہمیشہ سے انسانی معاشرے کے لیے نقصان دہ رہا ہے، لیکن اب ایک عام آدمی اور صحافی کے فرق مٹ جانے کی صورت میں یہ اور زیادہ ضرر رساں ہو گیا ہے، کیوںکہ اب خبروں کی ترسیل تو آسانہو گئی ہے مگر صحافت کے اس نئے دور میں تصدیق، شفافیت اور مواخذہ ناپید ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک عام شہری خبر بنا تو رہا ہے مگر اس کو بنانے اور پھیلانے کے اخلاقی اصولوں سے بے بہرہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکولوں کا نصاب اور میڈیا دونوں عالمی معیارات اور دینی تعلیمات کی روشنی میں میڈیا کے اصولوں کی آگاہی دینے والے ہوں۔