جو مسلمان یہ کہتے ہیں کہ: ’دین اسلام کے غلبے کا کام آسا ن ہے اور اس کو انجام دینے کے لیے کسی خاص مشقت کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ کام آسانی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ’غیبی مدد‘ کے ساتھ انجام دیا جاسکتا ہے، اور جو اپنی زندگی کے شب و روز اسی زعم میں گزار رہے ہیں، ان کے لیے دو چیزیں سمجھنا ضروری ہیں۔ ایک ، سورۂ مزمل و مد ثر یا نبوت کی ذمہ دار ی پر فائز ہونے کے فوراً بعد کی نازل شدہ آیات میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خطاب کہ: ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں، جس کے تقاضوں کو انجام دینے کی خاطر آپ ؐ رات کے آدھے حصے سے کم یا زیادہ وقت نماز میں گزاریں، قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھیں،اور ساتھ ساتھ اپنے ربّ پر توکل و بھروسا اورصبروثبات سے کام لینے کی مشق بھی کیا کریں۔
بالفاظِ دیگر فرمایا گیا کہ نبوت کا کام اتنا آسان نہیں ہے کہ کسی داخلی طلب کی گئی استعانت کے بغیر آپ ؐ اس کو انجام دے سکیں، بلکہ اس کارِ عظیم کو انجام دینے کی خاطر اپنے آپ کو ذاتی طور، اخلاق و روح کے بے پایاں ہتھیاروں سے لیس کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا اہم نکتہ جو اسی نکتے سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نبوت کے مدعا و مقصد کو انجام دینے کی خاطر آپ ؐ کو بڑی بڑی طاقتوں سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔جن کے پاس ہر قسم کے وسائل مہیا ہیں، وقت کی طاقت ور مشینری پر کنٹرول کے ذریعے افواہ سازی اور پروپیگنڈا میں ہر کسی سے آگے، اپنے جاسوسوں کو کام پر لگائے پل پل کی خبر رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کی صفوں کے اندر بھی اپنے ہی زر خرید ایجنٹ و منافقین بھرتی کرنے والے آ پ کے کسی بھی کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے ہی اس کی بیخ کنی میں مصروف ہیں۔
اِن حالات میں جو ہمہ گیر دعوت آپ ؐ نے برپا کی ، وہ ان تمام(اندرون و بیرون) چیلنجوں کا پورا ادراک رکھے ہوئے تھی۔ اُس انقلابی دعوت سے وابستہ افراد میں آپؐ نے اِن تمام چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کی تھی۔ اگرچہ اِن افراد سے تشکیل دی گئی جماعت مخالف سمت سے ٹکرانے والی پارٹی کے مقابلے میں انسانی اور مادی وسائل میں کمی کا شکار تھی۔ لیکن اِن تمام کمیوں کے باوجود وہ اُن تمام صفات سے متصف تھی جس کا تقاضا وقت کر رہا تھا اور جو انھیں ’حزب اللہ‘ کا لقب دینے کے لیے کافی تھا۔مسلمانوں کے اندر جس قدر جذبۂ جہاد اور شوقِ انفاق فی سبیل اللہ سرایت کر چکا تھا، وہ مخالفین کے تمام وسائل کو مات دینے کے لیے حد درجہ مؤثر تھا۔
اس صورتِ حال سے ہمیں اپنے آج کا اور خود اپنا موازنہ کرنا چاہیے کہ ہمارے لیے وہی اصل معیار ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام سے وابستگی رکھنے والی اُمت اور اس قافلۂ حق سے وابستہ افراد کی ایک بڑی تعداد، غالباً حق و باطل کے مقابلے میں آرام کی زندگی بسر کر رہی ہے اور اس کے پاس کسی قسم کا مدافعانہ سامان (بصورتِ دلیل و بیان) غالباً موجود نہیں۔ باطل جس طریقے سے اپنے حربے آزما رہا ہے، باطل کے دفاتر جس سرعت و جان فشانی سے کام کررہے ہیں، ان کے مقابلے میں اہلِ حق کی سرگرمیوں کا موازنہ کس صورت میں کیا جائے؟ باطل سویا ہوا نہیں ہے، و ہ اپنا کام دن رات کرتا ہے کہ اس کے پاس مادی وسائل اور اختیارات فراواں ہیں۔ اس فضا میں یہ اُمید کیسے کی جاسکتی ہے کہ حق کا بول بالا ہو، ظالم اپنے ہی ہاتھوں خودکشی کرکے میدان طشتری میں رکھ کر پیش کرے گا؟ مقامی سطح سے لے کر عالمی معاملات تک کا یہ نقشہ ایک معقول اور سنجیدہ غوروفکر کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ باطل کے ہرکارے روزِ اوّل سے ہی اس کام میں لگے ہوئے ہیں کہ کیسے اور کس طرح حق کے چراغ کو اپنی پھونکوں سے بجھایا جائے۔
حق کے ماننے و چاہنے والوں کا کام ہے کہ وہ اپنی محنت و لگن سے حق کو اس کا وہ مقام عطا کریں، جس کا تذکرہ قرآن وحدیث میں موجود ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ اس وقت ہوگا جب اس کے علَم بردار نظریاتی حدوں کے اندر خواب دیکھتے اور پوری دیانت داری سے ان کی تعبیر کے لیے فکرمند ہوتے ہیں۔ بقولِ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی: ’’ہمیں عوام میں عوامی تحریک (mass movement) چلانے سے پہلے ایسے آدمیوں کو تیار کرنے کی فکر کرنی ہے، جو بہترین اسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلیٰ درجے کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیر ِ افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دوسرے فرائض کو بھی سنبھال سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں عوام میں تحریک کو پھیلا دینے کے لیے جلدی نہیں کر رہا ہوں، بلکہ میری تمام تر کوشش اس وقت یہ ہے کہ ملک کے اہلِ دماغ طبقوں کو متاثر کیا جائے اور ان کو کھنگال کر صالح ترین افراد کو چھانٹ لینے کی کوشش کی جائے، جو آگے چل کر عوام کے لیڈر بن سکیں ‘‘۔(رُودادِ جماعت اسلامی، حصہ اول)
اس صورتِ حال میں اگر ہم آج کی تیز رفتار ٹکنالوجی سے منضبط نظامِ زندگی کی طرف نظر دوڑائیں، تو کچھ اہم باتیں نمایاں ہوکر سامنے آتی ہیں:
۱- محض انسانی وسائل اور ٹکنالوجی کی فراہمی کچھ معنی نہیں رکھتی، بلکہ مقصد سے وابستگی اور اسے رُوبۂ عمل لانے کے لیے پیشہ ورانہ صلاحیتوں (professional skills) کی موجودگی اہم تر ہے۔
۲- انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ انھیں ایسے آلات و اختیارات کی ضرورت ہے، جن کو استعمال میں لا کر وہ اپنے اہداف حاصل کرنے کی طرف پیش رفت کرسکیں۔
۳- انسانی وسائل اور اُن سے جڑے اختیارت و آلات کو تبھی سرعت دی جاسکتی ہے ، جب کچھ مالی وسائل بھی ہاتھ میں ہوں۔
۴- اِن تمام چیزوں کو جو ایک اہم بنیاد، اثرپذیری اور تیزی بخشتی ہے اور اسے ایک ہم آہنگ کُل (inter-related whole) کے طور پر منضبط کرتی ہے، اس کا نام انسانی مشینری ہے، جس کو بالفاظِ دیگر تنظیم ، جماعت ، حلقہ،پارٹی وغیرہ کی اصطلاحات سے بھی جانا جاتا ہے۔
سیاسی ہو یا غیر سیاسی، سرکاری ہو یا غیر سرکاری، قومی ہو یا بین الاقوامی، دینی ہویا لا دینی، کوئی بھی تنظیم ہو، اگر اُس میں پیشہ ورانہ انسانی وسائل کے پاس اختیارات، قوتِ فیصلہ ، مادی وسائل اور ٹکنالوجی نہ ہو، تو وہ ہمہ پہلو مقابلے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ محض تنظیم کا وجود اس بڑے معرکے کا بدل نہیں ہوسکتا۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حق و انصاف کا ساتھ ہمیشہ کم لوگوں نے ہی دیا ہے۔ آبادی کا غالب حصہ یا تو باطل و ظلم کے ہتھے چڑھ جاتا ہے یا لاعلمی کے عالم میں مزے سے سو رہا ہوتا ہے۔ تحریکی پس منظر میں جنھیں یہاں زیربحث لایا جارہا ہے، ان سے مراد ایسے ا فراد ہیں جن کے پاس غیرمعمولی طور پر مقصد سے وابستگی، پیشہ ورانہ صلاحیتیں، جوش ، جذبہ اور حق کے تعین کے لیے کچھ کرنے کا جذبۂ عمل اور رفتارِ عمل موجود ہو۔ ’وسائل‘ سے مراد انسانوں کا افرادی قوت کے اعتبار سے محدود مگر مربوط ہونا ہے اور’نظم‘ سے مراد ایسا طریق کار کہ جس کو عمل میں لاتے ہوئے کم سے کم(محدود) انسانی وسائل سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جاسکے۔
اِن چار اہم نکات میں انسانی وسائل کی شناخت ، تربیت، احتساب، ترقی اور ان کے ذریعے زیادہ سے زیادہ دعوت و تبلیغ اور دنیا کو بدل دینے کاکام لینا، ایک بہت بڑے علم کی حیثیت رکھتا ہے۔ تحریکاتِ اسلامی جتنی جلد اس سرمایے کی شناخت کرکے فیصلہ سازی کی اہمیت و افادیت کا ادراک کرلیںگی،اسی قدر ترقی اور پیش قدمی کرپائیں گی۔ دوسری صورت میں ڈھانچے تو موجود ہوں گے، مگر زندگی کی رمق کا وجود نہیں ہوگا اور مقابلے میں باطل سہولت سے ترقی کرتا رہے گا۔ تحریک کا اصل سرمایہ تو انسانی وسائل ہی ہیں۔ حتیٰ کہ مشین نما انسان(robot) کا بھی کنٹرول انسانوںکے ہاتھوں میں ہی ہوتا ہے۔ احادیث کی کتابوں ، بلکہ خود قرآن پاک میں حق کے غلبے کی جو بشارت دی گئی ہے، وہ اپنی جگہ برحق ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی کثیر تعداد حق کے اُس غلبے کا غلط مفہوم لے کر اِس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ’’ کسی سرعت سے کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے، حق کو غالب ہو کر رہنا ہے۔ اس سے پہلے یہ زوال، یہ کسمپرسی ، یہ تباہی، یہ ذلت و مسکنت تو پیش گوئیوں کے عین مطابق ہمارے نصیب میں ہے‘‘۔ درحقیقت اس تصور کو ذہنوں سے نکالنا بے حد ضروری ہے۔
اسلامی تنظیمات انسانی وسائل کے ایک مخصوص حصے کو تنظیم کا حصہ بناکر عام لوگوں سے بے نیاز نہیں ہوسکتیں، بلکہ اصل مسئلہ زیادہ سے زیادہ افراد کو اس کے اندر سمونے کا ہے، جس کے لیے دعوت و تبلیغ کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ لوگوں تک دعوت پہنچائی جاتی ہے ، انھیں اُن کے اصل مسائل کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، اُن کی عقل کے دریچے کھولے جاتے ہیں، اُن کے ساتھ بحث و تمحیص اور تبشیر و انذار سے کام لیا جاتا ہے اور انھیں اِس جماعت کی طرف راغب کرنے کے لیے ہر قسم کی محنت و کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد جتنے بھی لوگ اِس کاروان کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں، اُن کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے ۔ منصوبہ بندی دراصل ایک مخصوص عمل کا نام ہے جس میں متذکرہ انسانوں کی تعداد، اُن کی سکونت، اُن کے پاس صلاحیتیں، اُن کی مالی و جسمانی حیثیت وغیرہ کا پورا ریکارڈ مدنظر رکھا جاتا ہے، جس پر تنظیم کے اعلیٰ ذمہ داران یہ غور و خوض کرتے ہیں کہ کس انسان کی جگہ کہاں پر موزوں ہے یا کس انسان سے کس جگہ پر زیادہ سے زیادہ کام لیا جاسکتا ہے۔
بالفاظِ دیگر منصوبہ بندی سے انسانی وسائل کی کمی و بیشی کو تنظیم کی ضروریات کے مطابق ڈھالا جاتا ہے ۔ ایک جہاں دیدہ اور دُور اندیش قیادت اس چیز کا خاص خیال رکھتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تنظیم کے پاس پیشہ ورانہ انسانی وسائل کی کمی کے نتیجے میں تنظیم اپنے مشن کی آبیاری کی راہ میں ہچکولے ہی کھا رہی ہو، یا کہیں ایسا بھی نہ ہوکہ انسانی وسائل کی فراوانی کو لے کر تنظیم ان کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کا موقع ہی فراہم نہ کر سکے ۔ اس صورتِ حال میں یہ بات غور کرنے کے لائق ہے کہ انسانی وسائل کی کمی کا معاملہ جتنا درد انگیز ہوتاہے ، اتنا ہی ان وسائل کی فراوانی میں، انھیں سلجھے انداز سے استعمال نہ کرنا بھی ایک تاریخی المیہ ہوتا ہے۔ ترقی کی منازل کی کوئی حد نہیں۔ اس لیے انسانی وسائل کی کثرت میں تحریکات کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے دست و بازو بننے والے افراد کو ترقی وپھیلائو کے مواقع فراہم کرنے کی خاطرنئے نئے چیلنج تخلیق کرے۔ ایسا نہ ہو کہ مواقع نہ پانے کی صورت میں قیمتی افراد، تنظیم میں عدم دل چسپی یا فرار کا راستہ اختیار کریں۔
یاد رکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ تنظیم کے مددگار اور متفق افراد تین مقاصد کے لیے اپنے آپ کو تنظیم سے وابستہ کرتے ہیں: mایک ، تنظیم کے مشن کی آبیاری کرنے کا مقصد m دوسرا، تنظیم کی کارکردگی ، استحکام و نشوونما میں پیش پیش رہنے کا ہدف m اور تیسرا، اپنی ذاتی تربیت و شناخت کو قائم رکھنے کی منزل۔ انھی تین مقاصد کو لے کر تنظیم اپنے مشن کی طرف رواں دواں ہو سکتی ہے، اور انھی سے باقی معمولات و مشمولات کا نظام آگے بڑھ سکتا ہے۔
تنظیم میں کسی فرد کو ذمہ داری سونپ دینے میں اس بات کا خاص خیال رکھنا لازمی ہے کہ فرد کو اپنی ذمہ داری کا پورا ادراک ہو۔یہ نہیں کہ اسے محض ذمہ داری کے ٹائٹل کی پہچان حاصل ہوجائے اور بس۔اوراگر وہ نہیں جانتاہے تو اس کو اپنی ذمہ داری سمجھائی جائے۔ عام طور پر یہاں ان کارکنان کو ذمہ داری سونپی جاتی ہے، جنھوں نے متعلقہ ذمہ داری کے خدو خال سمجھ لیے ہوں۔ افراد شناسی کے اعتبار سے یہ ایک بہترین فارمولا ہے مگر تنظیم کے لیے یہ ایک خطرے کی گھنٹی اُس وقت بنتا ہے، جب بہترین فرد کی جگہ بہتر آدمی کو ذمہ داری دی جائے یا بہتر فرد کی جگہ غیر بہتر فرد کو سونپ دی جائے۔ اس حوالے سے پیش نظر رہنا چاہیے کہ فرد کے لیے اپنی ذمہ داری کو انجام دینے میںجتنی اہمیت ’فرض شناسی ‘کی ہے، اتنی ہی اہمیت قیادت کے لیے’ افراد شناسی‘ کی ہے۔
افراد کی تربیت کے حوالے سے ایک اور ذریعہ کار گر ثابت ہو سکتا ہے کہ اُن کی ذمہ داریوں کو کچھ وقت کے بعدبدل دیا جائے، جس کو job rotation کی اصطلاح سے بیان کیا جاتاہے۔ یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس کا تنظیم کی داخلی ضروریا ت تقاضا کرتی ہیں۔مثال کے طور پر زمان، مکان، ٹکنالوجی وغیرہ کے بدلنے سے افراد کی ذمہ داریاں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ مزید برآں ، اس سے افراد کے اندر مختلف النوع ذمہ داریاں انجام دینے کا فن پیدا ہو تا ہے اور اُن کی صلاحیتیں بھی پروان چڑھتی ہیں۔ ایسی تبدیلیا ں تنظیم کے مختلف شعبہ جات کے اندر بھی لائی جاسکتی ہیں۔ اسلامی تحریکا ت اس حوالے سے اپنے افراد کی تربیت کے لیے اگر ایسا کوئی لائحہ عمل مرتب کرلیتی ہیں تو یہ ایک انقلابی افادیت کا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
مثال کے طور پر جموں و کشمیر میں تحریک اسلامی سے وابستہ کسی کارکن کو ایک مقررہ وقت کے لیے پاکستان، ترکی یا بنگلہ دیش وغیرہ میں تحریک اسلامی کے نظامِ کار میں کچھ عرصہ گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے یا اسی طرح سے پاکستان کے کسی کارکن کوترکی، ملائشیا یا انڈونیشیا وغیرہ کی تحریک اسلامی کے خدو خال سمجھنے کا موقع دیا جائے۔ تحریکاتِ اسلامی کی تاریخ میں ایسا شاید کم ہی ہوا ہوگا، لیکن اگر اس حوالے سے ایک منصوبہ بند طریقے سے اقدامات اٹھائے جائیں تویہ تحریکاتِ اسلامی کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھے گا اور اس کے ثمرات بہت دُور رس ہونے کی اُمید ہے۔ اسی طرح یہ بھی عرض ہے کہ اگر کسی فرد نے اپنی پچھلی ذمہ داری سے انصاف کا تقاضا پور ا نہ کیا ہو تو اسے اُس سے بڑھ کر کسی بلند درجے کی ذمہ داری سو نپ دینا نامناسب ہوگا۔
افراد کی تربیت ،اُن کی صلاحیتوں کی دریافت، اُن صلاحیتوں کو پروان چڑھانا اور انھیں اپنی صلاحیتوںکے مطابق ذمہ داریاں سونپنا، اُن کی عزتِ نفس کی قدرکرنا، اُنھیں اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کرنے پر مبارک باد یاانعام سے نوازنا اور اُن کی مزید تربیت کرنا وغیرہ ایسے اقدام ہیں، جن سے انسانی وسائل کے فر وغ میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔
تحریکات ِ اسلامی کے اندر کام کرنے والےلوگ بھی باقی انسانوں کی طرح جائز خواہشات رکھتے ہیں، اُن کی بھی ایک نجی زندگی ہوتی ہے، اُنھیں بھی اہل و عیال کی ذمہ داریاں انجام دینا ہوتی ہیں، بالفاظِ دیگر انھیں بھی معاشی معاملات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ خاص کر موجودہ دور میں، جب کہ انسان کی ضروریات کئی گنا بڑھ گئی ہیں اور باقی دنیا کے ساتھ زندگی گزارنے میں ایک سے بڑھ کر ایک مشکل پیش آرہی ہے۔ اس صورت میں تحریک کے ساتھ ہمہ وقت کام کرنے والے افراد سے یہ مطالبہ مناسب نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ توازن کے ساتھ کسی معاشی مقصد کو پیش نظر نہ رکھیں۔ تاہم، یہیں پر اس چیز کی طرف توجہ مبذول کرانا نہایت ضروری ہے کہ تحریکات سے منسلک افراد کو اپنے معاشی مقصد کوثانوی حیثیت دینی چاہیے، بنیادی اور پہلی حیثیت تنظیم کے مشن کی آبیاری ہونی چاہیے۔ ورنہ، معاش کو اوّلیت دینے کے نتیجے میں افراد کہیں تنظیم کے مشن کو ہی معاش کمانے کا ذریعہ نہ سمجھ لیں۔ اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ تحریک یا تحریکی ذمہ داریوں کے وسیلے سے محض مادی وسائل کی کشش ہی انھیں کھینچ نہ لے جائے۔
قدامت پرستی اور روایت پسندی کا دور اب اس دنیا سے رحلت کر رہا ہے۔ نہ صرف انسانوں کو بلکہ تنظیمات کو بھی دنیا کے بدلتے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خصوصاً جب اس کے مخالف شر پسند عناصر اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اعلیٰ درجے پر فائز ہوں تو وہاں اسلامی تحریکات کو بھی اپنے افراد کو بدلتے تقاضوں کے پیش نظر تربیت دینا ہوگی۔
آخر میں جس چیز کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، وہ تحریکات کے اندر اختلافات کا وجود ہے۔ اختلافات یا تنازعات کا پیدا ہونا کوئی معیوب بات نہیں، اگر انھیں اخلاقی حدوں کے اندر پیش کیا جائے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اگر کسی تنظیم میں اختلاف راے پیدا نہ ہو، اور وہ بھی آج کی دنیا میں، جب کہ ’معلومات‘ کی بہتات ہے، تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ لوگ غور نہیں کر رہے یا کام میں دل چسپی نہیں لے رہے۔ جہاں پر مختلف عملی صلاحیتوں کو لے کر ایک سے زیادہ انسان کام کر رہے ہوں، وہاں پر اختلاف کا پیدا ہونا معیوب بات نہیں، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اختلافات کا نہ اٹھنا حیرت کی بات ہے۔ تاہم، اختلافات کے نبٹانے میں علم و اخلاق کے حدود کو مدِ نظر رکھنا اور افراد کے نئے خیالات کو وقعت دیتے ہوئے باہم صلاح و مشورے سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے تنظیمات کو ہمیشہ سے تیار رہنا چاہیے۔
تنظیمات کے اندر صورتِ حال تب دگر گوں ہوتی ہے، جب کسی ایک فرد کے تنظیم میں اختلاف کی صورت میں اسے خاطر خواہ اہمیت نہ دی جائے۔ ایسی سردمہری کے نتیجے میں فرد تنظیم کے ساتھ رسمی طور پر وابستہ رہتا ہے، لیکن دل اورعمل اُس کی گواہی نہیں دیتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے اختلاف کی وجہ سے تنظیم کے معمول کے کام کاج پر منفی اثر پڑتا ہے۔ دراصل ایسا فرد جسمانی زبان سے، اپنے ساتھیوں سے متوقع طور پر کم باتیں کرتا، کام میں لیت و لعل یا کام نہ کرنے پر بے جا معذرتیں پیش کرتا اور بغیر کسی مسئلے کے چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلاف کا اظہار کرتا ہے۔ پیٹھ پیچھے اختلاف ظاہر کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر تنظیمی اُمور پہ نکتہ چینی، باقی ساتھیوں کی عزت نہ کرنا اور چہ مہ گوئیوں کا بازار گرم کیے رکھنا وغیرہ ایسے اشارے ہیں ، جہاں پر تنظیم کو دیر کیے بغیر اِن مسائل اور اس فرد کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ان چیزوں کو نظرانداز کرکے فرد کو فنا ہونے کے لیے چھوڑ دینا تنظیم کے لیے زہرقاتل ہے کہ جس میں ممکن ہے ایسے فرد سے جان چھوٹ جائے، مگر تنظیم کا بھی نقصان ہوگا۔ آخر اہلِ نظم کا کام یہی تو ہے کہ وہ اپنے ساتھی کو ساتھ لے کر چلے،اس کے اشکالات دُور کرے۔
تنظیم کے اندر کچھ اختلافات ایسے ہوتے ہیں جن کو نظر انداز (avoid) کرنے ہی کے نتیجے میں اُن کا حل سامنے آتا ہے۔ کچھ اختلافات میں فریقین میں سے کسی ایک فرد کو ضرور پیچھے ہٹنا، accommodate کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح سے کچھ اختلافات کی نوعیت ایسی ہوتی ہے، جہاں پر پنجہ آزمائی (compete)کرنا پڑتی ہے۔ کبھی ایسا بھی اختلاف سامنے آجاتا ہے، جہاں پر مفاہمت (compromise) کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے اور لے دے کے مسئلے کو سلجھانا پڑتا ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ فریقین میں سے کسی ایک کی بات بہت معقول ہو، مگر اپنے موقف سے ہٹ جانے کے بعد دوسرے کی بات کو تسلیم کرنے سے انصاف کا تقاضا پورا ہوتا ہو۔
یہ نکات قیادت سے باریک بینی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی تحریک کے لیے ایمان، اخلاق اور افراد میں سے کسی ایک چیز کو بھی سو فی صدبنیادی درجے کی ضرورت سے کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسی چیز سے افراد یا انسانی وسائل کی درست منصوبہ بندی کی نیو اُٹھائی جاسکتی ہے۔