اگست ۲۰۱۸

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| اگست ۲۰۱۸ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

مولانا محمد افضل  خان   منصوری ، سوات

ترجمان تحریک اسلامی کا ایک مستند، معیاری اور انقلابی ماہ نامہ ہے۔ قصہ یہ ہے کہ میرے ایک قریبی دوست اور ایم فل کے اسکالر فرما رہے تھے کہ اس دور میں چوں کہ ہر تحریکی ساتھی یہ بات کہتا ہے کہ ’’میرے پاس وقت نہیں ہے کہ میں کوئی مطالعہ کروں تو میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر مطالعہ نہیں کرسکتے تو ایک ترجمان  پابندی کے ساتھ اوّل تا آخر دل جمعی اور عمیق نظر سے پڑھ کر کافی معلومات لے سکتے ہو‘‘۔

جولائی کا شمارہ اس حوالے سے شان دار ہے اور اس کی ہر تحریر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے لیکن ڈاکٹر عبیداللہ فہدفلاحی کا چشم کشا مقالہ مغربی فکروفلسفے پر مولانا مودودیؒ کا تبصرہ تاریخی اعتبار سے ایک سند کا درجہ رکھتا ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریکی احباب اس مضمون کو اور اس رسالے کو بڑی تعداد میں پڑھیں اور دیگر لوگوں کو پڑھائیں۔


نوازش علی علوی ، اسلام آباد

جولائی کے شمارے میں تمام مضامین قیمتی تھے، لیکن ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی کے مقالے ’مغربی فکروفلسفہ پر مولانا مودودی کا تبصرہ‘ اپنی مثا ل آپ ہے۔ آج جب لوگوں کا کتب سے تعلق کٹ کے رہ گیا ہے، ایسے میں  یہ مختصر مقالہ نہ صرف مغربی فکروتہذیب کے تاریک پہلوئوں کو قاری کے سامنے لاتا ہے، بلکہ اس سلسلے میں ہمارے محسن سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒکی خدمات کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ کاش! ہر شمارے میں اس نوعیت کے   ٹھوس علمی ذوق کو بڑھانے والے مقالات کی اشاعت ممکن ہوسکے۔


عبدالرزاق باجوہ ، دہم تھل، نارووال

  جولائی کا ترجمان مجموعی طورپرقومی اوربین الاقوامی معلومات سے لبریز ہے۔ پروفیسر خورشید احمد صاحب نے بہترین اندازمیںعام انتخابات اورپاکستان میںجمہوریت کے مستقبل پرروشنی ڈالی،جب کہ عبدالغفارعزیزصاحب نے ترکی اورملائشیاکے انتخابی نتائج پرسیرحاصل تبصرہ کیا۔ ہم سب کے لیے غوراور عمل کا یہ ایک سوال ہے کہ اگرترکی میںاسلامی انقلاب کی راہیںہموارہوسکتی ہیںتوپاکستان میںکیوںنہیں؟ اسی طرح مریم جمیلہ مرحومہ نے ’علم کے سایے میں‘ نوجوانوں کو بامقصد مطالعے کی جانب بڑی خوبی سے متوجہ کیا ہے۔  اس مضمون کوالگ شائع کرواکرتعلیمی اداروںمیںتقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔


خدیجہ حسین ، ملتان

ماہ نامہ ترجمان اس اعتبار سے پوری قوم کا محسن ہے کہ اس میں بڑے تسلسل کے ساتھ مسئلۂ کشمیر  اور وہاں کے مظلوم بہن، بھائیوں اور بچوں کے دُکھ درد کو پیش کیا جاتا ہے۔ تازہ شمارے میں ڈاکٹر غلام نبی فائی، افتخار گیلانی اور ایس پیرزادہ کے مضامین اسی شعور کی گواہی دیتے ہیں۔


فاروق اصغر ، سکھر

میں نے زندگی میں پہلی بار ترجمان کو پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے اور بے اختیار یہ لکھنے پر مجبور ہوا ہوں کہ واقعی یہ رسالہ منفرد ہے اور بے پناہ رہنمائی کا سامان رکھتا ہے۔ تمام مضامین ایک سے بڑھ کر   ایک قیمتی ہیں۔ اسی طرح فلسطین پر ڈاکٹر حمید دباشی کا مختصر مگر نہایت مفید مضمون اور شکیل رشید کا مطالعہ کتاب ’بے گناہ قیدی‘ آنکھیں کھول دیتا ہے۔


محمد  رؤف   صابر ، گجرات

ترجمان القرآن ایک طویل عرصے سے امت کی رہنمائی کے لیے بے لاگ تجزیے ، مسائل کی نشان دہی اور ان کے حل کے لیے جامع تجاویز پیش اور اُمت کی ترجمانی میں اپنے حصے سے بڑھ کر کردار ادا کرتا آرہا ہے۔ خاص طور پر ’اشارات‘ میں آج کے گمبھیر حالات کو درست عینک سے دیکھنے، ان حالات کا پس منظر جاننے اور مشکلات سے نکلنے کے لیے جس درد کے ساتھ رہنمائی کا فریضہ انجام دیا جارہا ہے، اس پر ناصرف  خراجِ تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے بلکہ مستقل طور قومی اخبارات میں ’اشارات‘ کو شائع کروانے کی بھی ضرورت ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ترجمان  کی اشاعت اتنی ہو کہ قوم کا باشعور و تعلیم یافتہ طبقہ اس سے روشنی حاصل کرسکے ۔بزرگی، صحت کی خرابی اور وطن سے دُوری کے باوجود، عمر کے اس حصے میں پروفیسر خورشید احمد صاحب کی کوششوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور اُمت کو ایمان، ہمت اور دانش عطا فرمائے، آمین۔


راجا محمد عاصم ، موہری شریف، کھاریاں

جولائی ۲۰۱۸ء کے ’اشارات‘ میں محترم پروفیسر خورشیداحمدصاحب نے سیاسی پارٹیوں اور سیاست میں فوج کے کردار کو بھی بڑی وضاحت سے دو اور دو چار کی طرح کھول کر بیان فرمایا ہے۔


پروفیسر سیّد محمد عباس ، پشاور یونی ورسٹی

تزئین حُسن کا مضمون ’سوشل میڈیا پر منقول کلچر‘ (جون ۲۰۱۸ء) وقت کی آواز ہے۔ مجھے اس بات سے صد فی صداتفاق ہے۔ سند اور حوالے کے بغیر نہ صرف ایک دو جملے بلکہ پورے پورے پیراگراف نشر کر دیے جاتے ہیں۔ بعض ستم گر تو کسی حوالے کے بغیر مشہور مذہبی شخصیات سے بھی پورے پورے فقرے منسوب کردیتے ہیں۔اگر کسی سے سوال کیا جائے کہ آپ نے غلط معلومات کیوں ارسال کی ہیں تو اکثر یہ جواب ملتا ہے کہ: ’میں نے تو صرف forward کیا ہے‘۔ بعض لوگوں کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ معلومات کو forward کرنے سے پہلے خود پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ ایسی عادت نجانے ہمیں کہاں لے جائے گی۔