پروفیسرفواد سیزگین (Fuat Sezgin )موجودہ زمانے کے ایک عظیم محقق اور اسلامی اسکالر تھے۔ مقصد سے لگن، کام کے حجم اور حددرجہ محنت کے حوالے سے ان کا مقام و مرتبہ ناقابلِ فراموش رہے گا۔افسوس کہ وہ بر صغیر پاک و ہند میں معروف نہیں تھے، جس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جرمن زبان میں لکھتے تھے اور ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ عربی اور فارسی سے بے بہرہ اور انگریزی کی حاکمیت سے مرعوب ہیں، اس لیے انگریزی کے علاوہ دیگرزبانوں میں علوم تک رسائی نہیں رکھتے۔
فواد سیزگین ۲۴؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کو مشرقی ترکی کے صوبے بطلیس میں پیدا ہوئے۔ انٹرسائنس تک تعلیم اناطولیہ کے شہر ارض روم (Erzurum ) میں حاصل کی۔ ۱۹۴۲ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انجینیرنگ فیکلٹی استنبول یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ اسی دوران میں ایک واقعے نے زندگی کا دھارا بدل دیا، اور وہ انجینیرنگ کے بجاے دوسرے عظیم ترین میدان کی طرف چلے آئے۔ ان دنوں ایک مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر ہیلمیٹ ریٹر (۱۸۹۲ء-۱۹مئی۱۹۷۱ء) اورینٹل فیکلٹی استنبول یونی ورسٹی میں پڑھا رہے تھے، جنھیں عربی، فارسی اور ترکی زبان پر دسترس حاصل تھی۔ وہ تصوف اور فلسفے پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ ایک روز فواد کے قریبی عزیز نے کہا کہ: ’کسی روز یونی ورسٹی میں ہیلمیٹ نامی جرمن ماہر علوم اسلامیہ کا لیکچر سنو‘۔ اس ہدایت پر فواد نے ہیلمیٹ کے ایک سیمی نار میں شرکت کی۔ دورانِ گفتگو پروفیسر ہیلمیٹ نے کہا کہ: ’’اسلامی تاریخ اور عربی ادب کی عظمتوں اور وسعتوں کا کوئی حساب نہیں۔ مسلمانوں نے سائنس میں جو کارنامے انجام دیے ہیں، ان سے دُنیا ناواقف ہے، کاش! کوئی اس طرف توجہ دے؟‘‘فواد نے متاثرکن استاد کی یہ بات سن کر اسی وقت دل میں عہد کیا: ’’میں یہ کام کروں گا‘‘ اور اگلے روز انجینیرنگ چھوڑ کر اورینٹل فیکلٹی میں داخلے کے لیے درخواست دے دی، اور یہ سوچا تک نہ کہ داخلے کی تاریخ ختم ہوچکی ہے۔ پھر پروفیسر ہیلمیٹ سے التجا کرکے داخلہ لے لیا۔ استاد نے کہا: ’’عربی سیکھنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔ لیکن جب شاگرد کو پُرعزم پایا تو استاد نے فواد کو سب سے پہلے قدیم عربی میں دسترس کی طرف متوجہ کیا، جو واقعی ایک مشکل کام تھا۔ تاہم وفورِشوق میں فواد نے ۱۷، ۱۷ گھنٹے عربی سیکھنے پر صرف کیے۔
اسی دوران دوسری جنگ ِعظیم میں۱۹۴۳ء میں ہٹلر کی فوجیں بلغاریہ تک آپہنچیں، تو یونی ورسٹی طویل عرصے کے لیے بند ہوگئی۔ ان چھٹیوں میں فواد نے عربی سیکھنے کے ساتھ تفسیرطبری کو براہِ راست عربی سے پڑھنا اور قرآن پر غوروفکر شروع کیا۔ چھے ماہ بعد جب یونی ورسٹی کھلی تو استاد نے عربی میں استعداد جانچنے کے لیے امام غزالیؒ (۱۰۵۸ء-۱۱۱۱ء)کی احْیَاء عُلُومُ الدِّین سامنے رکھی۔ فواد نے اس کے مقامات پر اس طرح گفتگو کی جیسے کوئی روزنامہ پڑھ رہے ہوں۔ اس چیز سے متاثر ہوکر استاد نے ایک اور پہاڑ لاسامنے کھڑا کیا: ’’اگر علم اور مسلمانوں کی کوئی خدمت کرنا چاہتے ہو تو ساتھ ساتھ ہرسال ایک نئی زبان سیکھنے کی کوشش بھی کرو اور کم از کم ۳۰زبانیں تو ضرور سیکھو۔ یہ لسانی علم تمھیں فکر، دانش اور معلومات کی ان دُنیائوں تک لے جائےگا، جس کا کوئی شمار نہیں کرسکتا‘‘۔ اس توجہ پر بھی فواد نے عملی طور پر کام شروع کر دیا۔یوں ترکی کے علاوہ جرمن، فرانسیسی، عربی، لاطینی، سریانی، عبرانی اور انگریزی سیکھ لی، البتہ لکھنے کا زیادہ تر کام جرمنی زبان میں کیا۔
انجینیرنگ کا سابق طالب علم اب پوری دل جمعی سے دینی اور عربی علوم کے ہفت خواں طے کر رہا تھا۔ جب ۱۹۵۰ء میں ایم اے علومِ اسلامیہ پاس کرنے کے بعد اعلیٰ تحقیق کا مرحلہ آیا تو فواد اس نتیجے پر پہنچے کہ مستشرقین اور پادری حضرات، دین اسلام پر حملہ کرتے وقت بنیادی ہدف ذخیرۂ حدیث کو بناتے اور کہتے ہیں: ’سنی سنائی باتوں کا علم‘، اور بخاری ان کے نشانے پر ہوتی ہے۔ فواد نے بدنیتی پر مبنی اس حملے کا جواب علمی سطح پردینے کا عزم کیا۔ پروفیسر ہیلمیٹ کی رہنمائی میں تحقیق کرتے ہوئے البخاری کے ماخذ کے موضوع پر ۱۹۵۴ء میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ جب ۱۹۵۶ء میں استنبول سے یہ تحقیقی مقالہ شائع ہوا تو علمی حلقوں کی توجہ کا موضوع بنا۔
ڈاکٹر فواد نے ذخیرئہ حدیث کی تدوین پر ’محض زبانی سنے سنائے‘ علم کے تاثر کا جواب دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ: ’’مجموعہ ہاے حدیث میں ابتدائی زمانوں ہی سے لفظ کتاب بطوراصطلاح مکاتبت کے معنوں میں استعمال ہواہے، جس سے مراد روایت ِ حدیث کو زبانی سنے سنائے بغیر تحریری شکل میں منتقل کرنا ہے۔ اس امر کی وضاحت کے لیے اسناد میں کتب الی یا من کتاب کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔ یوں اسناد بظاہر زبانی روایت کا حوالہ رکھنے کے باوجود بسااوقات باقاعدہ تصانیف سے حرف بہ حرف نقل اور اقتباس کی جاتی تھیں‘‘۔
ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول : ’’ڈاکٹر سیزگین کی شہرت کا ایک خصوصی حوالہ علمِ حدیث میں اسناد کے طریق کار اور اس کی حقیقت و اہمیت کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر ہے، جس نے مغرب کے علمی حلقوں میں بازگشت پیدا کی اور گولڈ زیہر [۱۸۵۰ء-۱۹۲۱ء] کے گمراہ کن نتیجۂ فکر اور دیگر مغربی تحقیق کاروں کے تصورات پر سنجیدہ تجزیے اور محاکمے کی ضرورت کا احساس دلایا‘‘۔
اس دوران ڈاکٹر فواد اورینٹل فیکلٹی، استنبول یونی ورسٹی میں بطورِ استاد خدمات انجام دیتے رہے کہ۲۷مئی ۱۹۶۰ء کو ترک جرنیل جنرل جمال گرسل (۱۸۹۵ء-۱۹۶۶ء)نے فوجی انقلاب برپا کیا۔ یہ انقلاب سخت گیر لادینی نظریات کا علَم بردار تھا۔ یہ وہی جنرل گرسل ہیں، جنھوں نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء تک دومرتبہ منتخب ترک وزیراعظم عدنان میندریس (پ:۱۸۹۹ء) کو برطرف کیا اور ۱۷ستمبر ۱۹۶۱ء کو، عدنان کابینہ کے وزیرخارجہ فطین رشدی زورلو (پ:۱۹۱۰ء) کے ہمراہ پھانسی دے دی تھی۔ عدنان میندریس شہید کا ایک ’جرم‘ یہ بھی تھا کہ انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں ۱۷جون ۱۹۵۰ء کو عربی میں اذان پر پابندی ختم کی، پھر مسجد یں کثرت سے تعمیر کیں، حج پر عائد پابندیاں ختم کیں اور محکمہ مذہبی امور قائم کیا۔ اس محکمے نے نئی اور پرانی اسلامی کتب کی اشاعت کے ساتھ، مولانا مودودیؒ (م:۱۹۷۹ء)اور سیّد قطبؒ (شہادت:۱۹۶۶ء)کی بھی چند کتب ترکی زبان میں شائع کیں۔
’ترک فوجی حکومت‘ نے ۱۴۷ پروفیسروں کو ترکی یونی ورسیٹیوں سے نظریاتی اختلاف بلکہ اسلامی غیرت و حمیت کی پاداش میں برطرف کردیا، جن میں فواد سیزگین بھی شامل تھے۔ مارشل لا حکومت سے انصاف مل نہیں سکتا تھا، اس لیے فواد نے جلاوطنی اختیار کی۔ جرمنی چلے گئے اور فرینکفرٹ یونی ورسٹی میں استاد مقررہوئے۔ ۱۹۶۵ء میں انھوں نے فلسفی، ریاضی دان اور کیمیا دان جابر بن حیان [۷۲۱ء-۸۱۵ء]پر دوسری ڈاکٹریٹ حاصل کی، تو پروفیسر کے درجے میں ترقی مل گئی۔پھر ۱۹۶۷ء میں ایک ذہین اور محنتی نومسلم جرمن مستشرقہ ارسل سے شادی کی۔ ان کے ہاں ۱۹۷۰ء میں ایک بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام ’ہلال‘ رکھا۔ (مغربی دنیا میں ’ہلال‘ [کریسنٹ] اسلام کی علامت ہے اور نام رکھتے وقت یہی پہلو پیش نظر تھا)۔
پروفیسر سیزگین کا یادگار کارنامہ عربی زبان میں علمی ذخیرے کی کیفیت کی تدوین ہے۔ جس میں ہر کتاب کے بارے اشاعت، عدم اشاعت کے ساتھ تفصیل مذکور ہے کہ یہ مخطوطہ کہاں موجود ہے۔ اس کام کی ابتدا محمد بن اسحاق الندیم (م:۹۹۵ء ) نے الفہرست کے نام سے کی تھی۔ درحقیقت ڈاکٹر فواد کا کام جرمن محقق کارل بروکلمان (Carl Brockelmann: ۱۸۶۸ء- ۱۹۵۶ء) کی اسی نام سے کتاب Geschichte der Arabischen Litteratur کی تکمیل ہے، جو ۱۸۹۸ء میں دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ اس زمانے میں اکثر کتب خانوں کی فہرستیں تیار اور شائع شدہ نہیں تھیں، اس لیے بروکلمان کی کتاب میں بہت سی کمیاں رہ گئی تھیں۔ حتیٰ کہ استنبول میں موجود قیمتی مخطوطات کا بھی ذکر نہیں تھا۔
اس بھاری بھرکم کام کی ابتدا فواد سیزگین نے ۱۹۵۴ء میں پروفیسر ہیلمیٹ ریٹر کی خواہش پر کی تھی۔ انھوں نے مجوزہ کتاب Geschichte des Arabischen Shrifttums [تاریخ التراث العربی، عربی ورثے کی تاریخ) پر ۱۹۶۱ء میں باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اس کی پہلی جلد ۱۹۶۷ء میں اور ۱۷ویں جلد فروری ۲۰۱۸ء میں شائع ہوئی۔ اب وہ ۱۸ویں جلد کی اشاعت پر کام کر رہے تھے کہ زندگی کی ساعتیں ختم ہوگئیں۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھے جانے والے ایک بڑے علمی ورثے کا احاطہ کرتی ہے، جس میں: قرآن پاک،تفسیر، حدیث، تاریخ، فقہ، علم کلام، عربی شاعری، طب، علم حیوان، کیمیا، زراعت، نباتیات، ریاضیات، فلکیات، موسمیات، تصوف، نفسیات، فلسفہ، اجتماعیات، نحو، بلاغت، لغت، کائناتی مطالعہ، منطق، ارضیات، موسیقی، ادویہ سازی، حیوانیات، نجوم، عربی زبان، جغرافیہ، نقشوں جیسے گوناگوں علوم پر عربی مخطوطات و کتب کا تذکرہ شامل ہے۔
پروفیسر فواد سیزگین نے ۱۹۸۲ء میں جرمنی کی گوئٹے یونی ورسٹی میں ’عربی واسلامی تاریخ انسٹی ٹیوٹ‘ کی بنیاد رکھی۔۱۹۸۴ء میں تحقیقی مجلّے Journal of Arab and Islamic Sciences کا اجرا کیا اور مدت تک ادارت کی۔ سائنسی علوم کے بارے میں مسلمان علما و فضلا کے لکھے چار لاکھ قدیم مخطوطوں کے آثار اور قدیم کتب کو، ۳۰سال کی مدت میں، یورپ، افریقہ، بھارت، ترکی، ایران، مصر، روس اور مشرق وسطیٰ کی لائبریریوں، ذاتی کتب خانوں اور دیہات تک میں پہنچ کر اکٹھا کیا یا معلومات لیں۔ جمع شدہ کتب کی تعداد ۴۵ہزار سے زیادہ ہے، جب کہ ۱۳ سو اصل مخطوطے اور ۷ہزار مخطوطات کے عکس شامل ہیں۔پھر ان مخطوطات و معلومات کو ایک ہزار مطبوعات کی صورت میں شائع کیا۔
ایک مشہور جرمن ماہر طبیعیات اور سائنسی علوم کے مؤرخ ڈاکٹر ایلہارڈ ویڈمین (۱۸۵۳ء-۱۹۲۸ء) نے ۱۸۹۹ء میں طے کیا کہ:’ ’میں مسلمانوں کے ایجاد کردہ ان سائنسی آلات کو جن کا تذکرہ کتب میں پڑھا ہے، عملی شکل اور نمونوں (ماڈلوں) کی صورت دوں گا‘‘۔ ڈاکٹر ایلہارڈ نے ۱۹۲۸ء تک ۳۰برسوں کی شبانہ روز کاوش سے ایسے پانچ ماڈل تیار کیے۔ اس مثال کوسامنے رکھ کر پروفیسر فواد نے دوستوں سے کہا : ’’میں کوشش کروں گا کہ کم از کم ۳۰ ماڈل اور آلات کے نمونے بناکر اس کمرے کی خالی جگہ کو پُر کروں‘‘۔ پھر اسی انسٹی ٹیوٹ میں انھوں نے اگلے سال ایک میوزیم قائم کیا، جس میں مسلمانوں کے سنہرے دور میں ایجاد اور استعمال ہونے والے آٹھ سو (۸۰۰) سائنسی آلات اور مشینوں کے اصل کے مطابق نمونے بنواکر رکھے۔
جرمن حکومت نے پروفیسر سیزگین کے ذاتی کتب خانے کو قومیا لیا تھا اور بدلے میں معقول مالی معاوضہ دیا تھا۔ ترکی منتقل ہونے کے بعد پروفیسر سیزگین نے دوبارہ ایک ایک کتاب اکٹھی کر کے استنبول میں ایک عظیم الشان کتب خانہ بنایا۔ ترکی کی موجودہ حکومت اس لائبریری کے لیے استنبول میں ایک خصوصی بلڈنگ تعمیر کر رہی ہے۔ یہاں پر ۲۰۰۸ء میں ایک میوزیم بھی قائم کیا۔ اس میوزیم میں انھوں نے اسی طرح کے ۷۰۰ماڈل اور آلات تیار کر کے رکھوائے جیسے جرمن میوزیم میں رکھے تھے۔ پھر ۲۰۱۰ء میں استنبول میں اسلامی وعربی تاریخ کا ٹرسٹ قائم کیا۔
پروفیسر فواد نے متعین کیا ہے کہ :’’ کرسٹوفر کولمبس [م: ۱۵۰۶ء]سے بہت پہلے عربوں نے شمالی امریکا دریافت کیا تھا اور ۱۸ویں صدی کے اوائل تک دنیا کے تمام نقشے مسلمانوں ہی کے بنائے ہوئے نقشوں کی نقل تھے‘‘… پھر بتایا کہ: ’’عباسی خلیفہ مامون الرشید [م: ۸۳۳ء] نے تقریباً ستّر جغرافیا دانوں کو پوری دنیا کے مطالعے کے لیے بھیجا، جنھوں نے کئی برس گھوڑوں، اُونٹوں اور سمندری جہازوں پر گھوم پھر کر دنیا بھر کے بارے معلومات اکٹھا کیں اور نقشے بنائے‘‘۔
پروفیسر سیزگین کہا کرتے تھے: ’’ مجھے اتنی سی بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں عربوں اور مسلمانوں نے جو کارنامے انجام دیے ہیں آج ہم محض انھی پر فخر کریں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آج کے مسلمان سمجھیں کہ ان کے آباء کتنے عظیم لوگ تھے، جو صرف اپنی انگلیوں پر گنتی کرکے اتنی زیادہ ترقی کرگئے۔ ہم ان سے اور دوسروں سے بہت کچھ سیکھ کر خوداعتمادی سے اپنی مشکلات پر قابوپا سکتے ہیں۔ ہم کو ان علما سے سبق حاصل کرنا چاہیے، جنھوں نے ہم سے کہیں زیادہ محنت کی اور لکھا۔ اتنی مشقت کے باوجود وہ زندگی میں ہم سے کہیں زیادہ خوش تھے‘‘۔
پروفیسر سیزگین نے لکھا ہے: ’’مسلمانوں میں نتیجہ خیز فکری و عملی سرگرمی کا آغاز پہلی صدی ہجری ہی میں ہوگیا تھا۔ علم کے بارے میں اہلِ اسلام کا رویہ بڑا فراخ دلانہ تھا۔ انھوں نے بغیر کسی نفسیاتی رکاوٹ کے، اپنے پیش روؤں کے علوم کو قبول کیا۔ اس طرح اسلامی تہذیب، مختلف قوموں کی ثقافتوں ، زبانوں اور علمی میراث کا نقطۂ اتصال ثابت ہوئی، جس سے انسانی فکر کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ مسلمان اپنے پیش روؤں کے مقلّد محض نہ تھے بلکہ جانچ پرکھ اور تنقید کے صحت مند معیارات کے قائل تھے۔ مسلمانوں نے اجنبی اقوام سے علمی فیض حاصل کرنے کا آغاز ان قوموںسے کیا جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے،اس لیے ان کے استفادے میں تعصب کا عنصر نہیں پایا جاتا تھا، لیکن اس کے برعکس لاطینیوں[اہل مغرب] نے عربوں کو اپنا دشمن سمجھ کر ان کے علوم سے استفادہ کیا، جس نے ان میں نفسیاتی اُلجھائو، تعصب اور سرقے کی روایت پیدا کی۔ اس طرح اعتراف کے بجاے دانستہ طور پر مسلمانوں کی دریافتوں کا سہرا بھی مغربیوں کے سر باندھنے کا رویہ شامل ہوگیا‘‘۔
پروفیسر فواد سیزگین کے کارناموں کو دُنیا بھر کے اہل علم نے سراہا۔ ۱۹۷۹ء میں جب ’شاہ فیصل ایوارڈ‘ کا اجرا ہوا تو پہلے ہی سال سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو اسلام کے لیے خدمات پر اور پروفیسر فواد سیزگین کو ان کی کتاب تاریخ التراث العربی (عربی ورثے کی تاریخ) پر یہ ایوارڈ دیا گیا۔ اسی طرح جرمن حکومت نے اعلیٰ ترین اعزاز ’آرڈر آف میرٹ آف جرمنی‘ دیا۔ ’اسلام میں سائنسی اور تکنیکی علوم‘ (پانچ جلدوں) پر ایک خوب صورت کتاب پر ایران نے ۲۰۰۶ء میں ’کتاب کا عالمی ایوارڈ‘ دیا۔ یہ کتاب علمی تفصیلات کے ساتھ تصویروں اور خاکوں سے مرصع ہے، اور جرمن، ترکی، انگریزی اور فرانسیسی میں شائع ہوچکی ہے۔
۱۹۷۹ء میں امام محمد بن سعود اسلامی یونی ورسٹی ، ریاض کی دعوت پر ڈاکٹر فواد نے سات خطبے دیے، جو محاضرات فی تاریخ العلوم کے عنوان سے شائع ہوئے۔ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی نے ان خطبات کا اُردو ترجمہ تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام کے نام سے کیا، جسے ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد نے ۱۹۹۴ء میں شائع کیا ہے۔
پروفیسر فواد نے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’علومِ اسلامیہ کے مطالعے اورعربی فہمی کے لیے یکسوئی عطا کرنے میں میرے استاد پروفیسر ہیلمیٹ ریٹر کا مجھ پر بے حد احسان ہے۔ جن علمی کاموں کے لیےمیں نے قدم اُٹھایا، ان راہوں کی مشکلات کو دیکھ کر ممکن ہے دوسروں کو گھبراہٹ محسوس ہوتی ہو۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں اپنے باطن کی دنیا میں گہری طمانیت اور تشکر کے جذبات رکھتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کے خوش نصیب ترین بندوں میں سےہوں، کہ جس کی توفیق اور مدد سے یہ کام کر رہا ہوں‘‘۔
پروفیسر فواد سیزگین ۳۰ جون ۲۰۱۸ء کو ۹۵ برس کی عمر میں استنبول کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے۔ جامع سلیمانیہ میں ان کی نمازِ جنازہ میں ترکی کے صدر طیب اردوان بھی موجود تھے، جنھوں نے حاضرینِ جنازہ سے خطاب کرتے ہوئے گلوگیر لہجے میں کہا: ’’میں اللہ سے دُعا کرتا ہوں کہ ہمارے عظیم محسن پروفیسر فواد کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ ہمارا وہ محسن کہ جس نے ہمیں، اسلامی تاریخ اور اسلامی تہذیب کے حوالے سے بیداری کی بہترین دولت دی۔ ہمارا وہ محسن کہ جس نے سائنسی علوم میں، زمانوں پر پھیلی ہوئی اسلامیانِ عالم کی خدمات کو وضاحت سے پیش کیا۔ میں ۲۰۱۹ء کو فواد سیزگین کے سال سے منسوب کرتا ہوں کہ : جب ہم اپنی نسل کو اسلامی علوم کی واقفیت دینے اور شوق پیدا کرنے کے لیے کانفرنسیں، سیمی نار، نمایشیں اور علمی پروگرام کریں گے‘‘۔
ایمان، عزم ، ارادے، محنت اور اَن تھک جستجو کے زادِراہ سے سفر کا آغاز کرنے والے ایک اٹھارہ سالہ نوجوان نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ جو بسترمرگ پر بھی علمی فریضہ انجام دیتا رہا۔ اس اکیلے فرد نے حالیہ زمانے میں وہ کارنامہ انجام دیا، جو کئی ادارے بھی مل کر انجام نہ دے سکے۔ کیا ہماری نوجوان نسل، عشق و جنوں کی اس وادی میں قدم رکھنے کے لیےتیار ہے؟