قادیانیت (کے موضوع ) کے حوالے سے محمد متین خالد کا نام اس قدر معروف ہے کہ ان کے تعارف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ انھوں نے مسئلہ ختم نبوت اور فتنۂ قادیانیت پر مختلف زاویوں سے معرکہ آرا تصانیف وتالیفات پیش کی ہیں۔ زیر نظر کتاب اگرچہ اپنے مندرجات اور مباحث کے اعتبار سے بہت متنوع اور وسعت کی حامل ہے، اس کے باوجود انھوں نے بیسیوں موضوعات کو ناموسِ رسالتؐ سے منسلک کر کے پیش کیا ہے۔ سرورق پر موضوعِ کتاب کی توضیح ان الفاظ میں دی گئی ہے: ’اسلام اور ناموس ِرسالتؐ کے خلاف مغرب کے تعصّب، دُہرے معیار اور بھیانک سازشوں پر مبنی تحقیقی دستاویز___ ناقابلِ تردید حقائق، تہلکہ خیز واقعات ، ہوش ربا انکشافات‘‘۔
مؤلف نے بڑی محنت کے ساتھ مختلف کتابوں ، رسالوں اور اخبارات (کی خبروں اور کالموں) سے ایسے واقعات، تبصرے اور لکھنے والوں کے مشاہدات اور بعض اداروں کی رپورٹیں جمع کر دی ہیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی تنگ نظری ، تاریک خیالی، اندھے تعصّب اور دُہرے معیار کا اندازہ ہوتا ہے اور اس کی نام نہاد روشن خیالی، روا داری اور عدم برداشت کے دعوئوں کی حقیقت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ مصنف نے یہودیوں اور انتہا پسند ہندوئوں کی مسلم دشمنی کو بھی تذکرۂ مغرب سے منسلک کیا ہے۔ مغربیوں کی دیگر خرابیوں (کرپشن ، بددیانتی ، فریب کاری ، بدعہدی، نام نہاد آزادیِ اظہار ، ہم جنسیت ، اور قتل وغارت گری ) کا تذکرہ بھی کتاب میں شامل ہے۔
کتاب ایک مسلسل مضمون کی شکل میں ہے۔زمانی ترتیب کے بغیر ،مصنف کو جو مواد میسر آتا گیا ، وہ کتاب میں جمع کرتے گئے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک مفید کتاب ہے ۔(رفیع الدین ہاشمی)
پاکستان کی اردو صحا فت میں کالم نگاری کو گذشتہ ایک دو عشروں میں بہت فروغ ملا ہے مگر بیش تر کالم نگاروں کی تحریریں پڑھتے ہوئے مرزا غالب کا یہ مصرع ذہن میں گونجتا ہے ع
ہر بُل ہوس نے حسن ِ پرستی شعار کی
اگر آپ بُل ہوسی سے بالاتر کالم نگاروں کو تلاش کریں تو بہ مشکل وہ انگلیوں پر گنے جا سکیں گے۔ شاہ نواز فاروقی انھی منفرد اور صاحب ِاسلوب کالم نگاروں میں شامل ہیں۔ زیر نظر دونوں کتابوں میں جون ۱۹۹۹ء سے اکتوبر ۱۹۹۹ء تک کے کالم شامل ہیں۔ شاہ نواز فاروقی، ایک صاحبِ ایمان، بامطالعہ اور تجربہ کار صحافی ہیں۔ سلیقے سے بات کرنے کا ڈھنگ جانتے ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ اسلام اور پاکستان بلکہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کے مجاہدین (ٹیپو سلطان، اورنگ زیب عالم گیر، حضرت شاہ ولی اللہ، سیّد احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید ، علامہ اقبال ، قائد اعظم ، سید ابوالاعلیٰ مودودی ) پر تنقیدکرنے والوں کی خبر لیتے ہیں، بلکہ سیکولر اور لبرل نظریات کے علَم بر دار نام نہاد دانش وَروں کی تضادبیانی کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔ سیاست دان ہویا دانش ور یا کوئی بڑا منصب دار گروہ ،جب کوئی کمزور بات کرے گا، فاروقی صاحب کی گرفت سے بچ نہیں سکے گا۔
تقریباً ۲۰سال پیش تر انھوں نے نواز شریف کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا: ’’اور ہم نے انھی کالموں میں عرض کیا تھا کہ میاں صاحب ایک بڑے امریکی ایجنڈے کے ساتھ اقتدار میں لائے گئے ہیں اور فوج کو ہدف بنانا اس ایجنڈے کا اہم حصہ ہے‘‘۔ (۳۰ ؍اکتوبر ۱۹۹۹ء)
مذہب ، ایمان اور تقویٰ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ: ’’یہ شکایت عام ہے کہ حاجیوں اور نمازیوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مبلغین اسلام کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا ۔ کیو ں؟ اس لیے کہ دین کی کلیت کا تصور لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو گیا ہے‘‘ (ص ۳۸)۔ اور اس لیے بھی کہ مذہبی مسلمان بھی ’اپنی پوری زندگی کو دین کے حوالے ‘نہیں کرتے۔
فاروقی صاحب کے کالم بہت متنوع ہیں: پاکستان ، بھارت ،چین، امریکا، افغانستان : باہمی قربت اور فاصلے، عالمی سیاست ، ہماری مذہبیت، جماعت اسلامی کی ’امن دشمنی‘، ذرائع ابلاغ ، کھیل اور ہم، دوستووسکی، خود کشیوں کی لہر وغیرہ ۔ شاہ نواز فاروقی کے کالم قاری کے ذہن کو ایک اطمینان، سرخوشی اور یقین سے سرشار کرتے ہیں۔ ان کا استدلال اور اسلوب قاری کو ان کے موقف کا قائل کر کے ہی چھوڑتا ہے۔
شاہ نواز فاروقی کی تحریریں ہمارے رویوں پر تنقید کے ساتھ سلامتی کا راستہ بھی سجھاتی ہیں اور یوں موجودہ اجتماعی بحران سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے ہماری رہنمائی بھی کرتی ہیں۔ طباعت واشاعت عمدہ اور قیمت بہت مناسب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )
جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کے اطراف (اوکھلا اور جامعہ ملّیہ) کی مسلم آبادی کو بھارت کے اکثریتی ہندو طبقے نے ایک ’خطرہ‘ بنا رکھا ہے، جس کا بے جا اظہار گاہے گاہے بھارتی سیاسی رہنما، میڈیا اور بے جا طور پر عام ہندو بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کی بیش تر مسلم آبادی کو روزانہ ہی ایسی ذہنیت سے ملے جلے غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر آٹو رکشہ ، بنک بلکہ پیزا کمپنی کے کارندے بھی ان کی درخواستوں کو کئی مرتبہ نفرت سے مسترد کر دیتے ہیں ۔ اسی ذہنیت کے تابع اَن کہی اور من گھڑت کہانیاں بھی اس علاقے کو ایک ’دیو‘ اور ’عفریت‘ کی شکل میں پیش کرتی ہیں۔ علاقے میں ہر وقت پولیس فورس کی تعیناتی ڈر اور خوف کے ماحول کو مزید خوف ناک اور دہشت زدہ کرتی ہے۔
نیاز فاروقی کی یاد داشتوں پر مشتمل یہ کتاب دراصل اسی مسلم اکثریتی علاقے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر (۱۹ستمبر ۲۰۰۸ء) کے بعد علاقے میں رہنے والے مسلم نوجوانوں اور طالب علموں کو درپیش چیلنجوں اور ان کی ذہنی کیفیت کا اظہار ہے۔ کتاب کی تمہید میں اس بات کا ذکر ہے کہ اندرون بھارت دُور دراز دیہات و قصبات اور چھوٹے شہروں سے مسلم نوجوان جو اپنی تعلیم یا روزگار کی غرض سے دہلی آتے ہیں، ان میں سے کثیر تعداد جامعہ نگرکے علاقے کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔ مصنف کا آبائی وطن بیرام، گوپال گنج، بہار ہے اور حصولِ تعلیم کی غرض سے جامعہ نگر میں بہت ہی کم عمری سے سکونت پذیر ہیں۔نیاز فاروقی نے بتایا ہے کہ میرے دادا نے علّامہ اقبال کی نظم ’بچے کی دُعا‘ کے ساتھ ساتھ کبیر کی شاعری کے بارے میں بھی بچپن میں بتایا تھا۔مصنف نے اپنی کہانی کے ذریعے مسلم نوجوانوں کے دکھ درد ،غم و غصے، تجربات اور مشاہدات کو بہت ہی سادہ اور مؤثر انداز تحریر میں پیش کیا ہے۔
سیاست اور میڈیا کی ملی بھگت نے اپنی چالاکی اور منصوبہ بندی سے بٹلہ ہائوس کے ایک مشکوک انکاؤنٹر کو عام ہندوئوں کے ذہنی خوف کا مستقل حصہ بنا دیا ہے۔ کتاب نے پولیس اور میڈیا کی گمراہ کن کہانی پر بڑے ماہرانہ انداز میں پیشہ ورانہ سوالات اُٹھا کر بتایا ہے کہ: ’’بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر میڈیا کی متعصبانہ اور جانب دارانہ رپورٹنگ دیکھ کر مَیں نے بایو سائنس کے کیریئر کو ترک کرکے خارزارِ صحافت کارُخ کیا، تاکہ ان باشندگان کی آواز بنوں، جن کی آوازوں کو میڈیا شوروغوغا میں دباکر منفی انداز میں پیش کرتا ہے‘‘۔ مصنف ہندستان ٹائمز کے اسٹاف ایڈیٹر رہے، پھر نیویارک ٹائمز اور الجزیرہ کے لیے بھی رپورٹنگ کی۔
زیر نظر کتاب کے کچھ بہت ذاتی اور غیرمتعلق حصوں کو نظرانداز کر دیا جائے تو یہ ہر اس مسلم نوجوان کی آپ بیتی ہے، جس نے اس خوف ناک اور دہشت زدہ ماحول کا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے۔ یوں اس کتاب نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ مصنف کی یہ تخلیقی اور تحقیقی خدمت آج بھارت میں بسنے والے ہر مسلمان نوجوان کے کرب ، بے چینی اور گھٹن کی زندہ تصویر ہے کہ صفحۂ قرطاس پر لفظوں کی صورت گری سے فاروقی نے پوری دُنیا کو یہ بتایا ہے کہ: ’دیکھو میری اصلی تصویر یہ ہے، نہ کہ وہ تصویر جسے متعصب بھارتی میڈیا نے تخلیق کیا ہے جسے فرقہ وارایت اور نسل پرستی کے رسیا تنگ نظر و تنگ دل دانش وروں اور سیاست دانوں نے ہمارے رہایشی علاقوں، کھانے پینے کی عادات اور پہناووں کی بنیاد پر، دوسرے شہریوں کے سامنے بھیانک انداز سے پیش کیا ہے‘۔
یہ کتاب بھارتی مسلم نوجوانوں کو اپنی صداے بازگشت کی طرح محسوس ہوگی اور بھارت کے عام لوگوں کو بھی۔ اسی طرح مسلمانوں کے دُکھ اور کرب کو سمجھنے میں معاون ثابت گی۔(ادارہ)