جدے سے مدینہ طیبہ تک کا راستہ وہ ہے ، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بکثرت غزوات اور سرایا ہوئے۔ آدمی کا جی چاہتا ہے کہ غزوات کے مقامات دیکھے ، اور ضرور اس راستے میں وہ سب مقامات ہوں گے،لیکن ہم کسی جگہ بھی ان کی کوئی علامت نہ پاسکے۔ اسی افسوس ناک صورتِ حال کا مشاہدہ مدینہ طیبہ میں بھی ہوا۔ کاش، سعودی حکومت اس معاملے میں اعتدال کی روش اختیار کرے، نہ شرک ہونے دے اور نہ تاریخی آثار کو نذرِ تغافل ہونے دے۔
تاریخِ اسلام کے اہم ترین مقامات جن کو ہم سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے عہد ِ تاریخ میں پڑھتے ہیں، اور جن کے دیکھنے کی ہمیں مدت سے تمنا تھی، ان میں سے کسی بھی جگہ کوئی کتبہ لگا ہوا نہ پایا،جس سے معلوم ہوتا کہ یہ فلاں جگہ ہے، حتیٰ کہ حدیبیہ جیسا مقام بھی اس علامت سے خالی ہے، اور بدر جیسے مقام پر بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ بدر ہے۔
۲۷جولائی [۱۹۵۶ء] کو عصر کے بعد ہم لوگ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے، اور اگلے روز تقریباً مغرب کے وقت وہاں پہنچے۔ راستے میں بدر سے گزر ہوا، لیکن حج کے زمانے میں انسان کچھ اس طرح قواعد و ضوابط سے بندھا ہوتا ہے کہ اپنی مرضی سے کہیں جانا ، اور کہیں ٹھیرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ اس لیے دلی تمنا کے باوجود وہاں ٹھیرنا ممکن نہیں ہوا۔
حج سے فارغ ہوتے ہی مدینے جانے کے لیے دل میں ایک بے چینی پیدا ہوچکی تھی۔ روانہ ہونے سے مدینہ پہنچنے تک جذبات کا عجیب حال رہا، اور خصوصاً جس مقام سے گنبد ِ خضرا نظر آنا شروع ہوجاتاہے، وہاں تو جذبات کاوفور اختیار سے باہر ہوجاتا ہے۔
مجھے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی جن باتوں سے کبھی اتفاق نہ ہوسکا،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کا سفر مسجد ِ نبویؐ میں نماز پڑھنے کے لیے تو جائز بلکہ مستحسن قرار دیتے ہیں، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مزارِ مبارک کی زیارت کا اگر کوئی قصد کرے تو اس کو ناجائز ٹھیراتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ چیز کسی مسلمان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ حجاز جانے کے بعد مدینے کا قصد نہ کرے اور مدینے کا قصد کرتے وقت مزارِ پاک کی زیارت کی تمنا اور خواہش سے اپنے دل کو خالی رکھے۔
صرف مسجد نبویؐ کو مقصودِ سفر بنانا انتہائی ذہنی تحفظ کے باوجود بھی ممکن نہیں ہے، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہاں صرف یہ مسجد ہوتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مزارِ مبارک نہ ہوتا، تو کم ہی کوئی شخص وہاں جاتا۔ آخر فضیلتیں تو مسجد اقصیٰ کی بھی بہت ہیں، مگروہاں کتنے لوگ جاتے ہیں؟ اصل جاذبیت ہی مدینے میں یہ ہے کہ وہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے۔ وہاں آں حضوؐر کے آثار موجود ہیں اور خود آں حضوؐر کا مزارِمبارک بھی ہے۔
جس حدیث سے امام ابن تیمیہؒ نے استدلال کیا ہے، اس کا مطلب بھی وہ نہیں ہے جو انھوں نے سمجھا۔ بلاشبہہ آں حضوؐر نے فرمایا ہے کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے سفر جائز نہیں ہے۔ لامحالہ اس کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں۔ یا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ: ’دُنیا میں کوئی سفر جائز نہیں سواے ان تین مسجدوں کے‘ اور یا پھر یہ مطلب ہوگا کہ: ’تین مسجدوں کے سوا کسی اور مسجد کی یہ خصوصیت نہیں ہے کہ اس میں نماز پڑھنے کے لیے آدمی سفر کرے‘۔
اگر پہلے معنی لیے جائیں تو مدینہ کیا معنی، دُنیا میں کسی جگہ بھی سفر کرکے جانا جائز نہیں رہتا، خواہ وہ کسی غرض کے لیے ہو، اور ظاہر ہے کہ اس معنی کا کوئی قائل نہیں، خود ابن تیمیہؒ بھی اس کے قائل نہیں تھے۔
اور اگر دوسرے معنی کو اختیار کیا جائے اور وہی صحیح ہے تو حدیث کا تعلق صرف مساجد سے ہے، غیرمساجد سے نہیں۔ اور منشا صرف یہ ہے کہ مسجد نبویؐ، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ تو ایسی مسجدیں ہیں کہ ان میں نماز پڑھنے کا ثواب حاصل کرنے کی نیت سے آدمی ان کی طرف سفر کرے، لیکن دُنیا کی کوئی اور مسجد یہ حیثیت نہیں رکھتی کہ محض اس میں نماز پڑھنے کی خاطر آدمی سفر کر کے وہاں جائے۔ لیکن اس کو خواہ مخواہ زیارتِ قبرِ رسولؐ پر لے جاکر چسپاں کر دینا کسی دلیل سے بھی صحیح نہیں۔
مدینہ پہنچ کر مسجد نبویؐ میں حاضری دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخینؓ کے مزارات کی زیارت کی۔ یہاں کی کیفیات نمایاں طور پر مسجد حرام کی کیفیات سے مختلف ہوتی ہیں۔ مسجدحرام میں محبت پر عظمت و ہیبت کے احساس کا شدید غلبہ رہتا ہے۔ اس کے ساتھ آدمی پر کچھ وہ کیفیات سی طاری ہوتی ہیں، جو کسی بھیک مانگنے والے فقیر کی حالت سے ملتی جلتی ہیں۔ لیکن حرمِ نبویؐ میں پہنچ کر تمام دوسرے احساسات پر محبت کا احساس غالب آجاتا ہے، اور یہ وہ محبت ہے جس کو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی جزوِ ایمان فرمایا ہے۔
مسجد نبویؐ اب جدید توسیع کے بعد بہت شان دار اور نہایت خوب صورت بن گئی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر میں شروع ہی سے اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ تمام توسیعوں کے نشان الگ رہیں۔ اصل مسجد جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنائی تھی اس کے نشانات الگ ہیں، اور صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کتنی تھی۔
چہارشنبہ، ۴ محرم ۱۳۶۹ھ ، ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۹ء: صبح کو مدینہ منورہ کا سفر شروع ہوا۔ مغرب کے بعد موٹر چلتی رہی۔ یہ راستہ کویت اور ریاض کے درمیانی راستے سے اچھا ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ اس راہ میں پانی جابجا ملتاہے۔ عاجز صحرا کے سفر کا خاصا عادی ہوچکا ہے۔ کھانسی کی تکلیف نہ ہوتی تو یہ سفر ایک گونہ دل چسپ اور نشاط انگیز ہوتا۔ قلب و روح کی حد تک تو اب بھی نشاط انگیز ہے۔ مدینے کی قربت خود بخود مُردہ جسم میں جان ڈال رہی ہے۔ سانس کی تکلیف کے باوجود گنگنانے کو جی چاہتا ہے۔ رات مفرق کے مقام پر بسر ہوئی۔
جمعرات ، ۵ محرم ۱۳۶۹ھ ، ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۹ء: صبح ہوئی ، قافلہ روانہ ہوا اور مدینہ منورہ کی قربت طبیعت کو اُکسانے لگی۔ ابھی تین چار گھنٹے کی مسافت باقی ہے، لیکن دل ابھی سے لرزنے لگا ہے۔ مدتیں گزریں، زمانہ بیت گیا، مدینے کی حاضری کا شوق دل میں چٹکیاں لیتا رہا۔ بارہا فرطِ شوق میں آسی غازی پوری کا یہ پُرکیف مطلع پڑھتا رہا ہوں:
صبا تو جا کے یہ کہنا مرے سلام کے بعد
کہ تیرے نام کی رَٹ ہے خدا کے نام کے بعد
وہ کیا ساعت ہوگی جب یہ گنہگار، رُو بہ رُو حضرت عالیؐ میں سلام عرض کرے گا۔ جب کبھی یہ خیال آتا، آنکھیں نم ہوجاتیں، درود پڑھتا اور اُردو، عربی کے مناسب حال شعر زبان پر جاری ہوجاتے۔
کچھ دیر کے لیے مسیجید کے اسٹیشن پر موٹر رکی، پھر قافلہ آگے روانہ ہوا۔ اب یہ گنہگار ہمہ تن شوق ہے۔ ’وہابیت‘ کی خشکی کے باوجود دل پسیج رہا ہے۔ جانے ان راستوں پر حضورانور صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی گزر ہوا ہو۔موٹر نہ ہوتی تو گردِ راہ سے پوچھتا، شایدنقش پا کے کھوئے ہوئے اثرات کا سراغ لگتا۔ شاعر کی زبان میں محبوب کے گزرنے سے تمام وادی نعمان معطر ہوگئی تھی تو کیا سرورِ عالم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی گزرگاہ میں ہوائیں مشک آفریں اور عنبربیز پسینے کی خوش بُو سے خالی ہوں گی؟ مدینہ پاک کی سرزمین قریب ہوتی جارہی ہے اور خاکسار کھانسی کے حملوں سے چور کھویا ہوا،گنگناتا اور درود پڑھتا چلا جا رہا ہے۔
اتنے میں شور ہوا، ’ذوالحلیفہ آگیا‘۔ سن کر دل بَلّیوں اُچھلنے لگا۔ یہ اہلِ مدینہ کا میقات ہے۔ یہاں سے مدینہ چار پانچ میل سے زیادہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے جانثار ساتھیوں نے یہیں سے حج کا احرام باندھا ہوگا۔ جی چاہا غسل کر کے کپڑے بدل لیے جائیں اور یہاں سے پیدل چلیں۔ عرصے سے تمنا تھی کہ مدینہ پاپیادہ داخل ہوں۔ امام مالکؒ مدینہ منورہ میں سواری استعمال نہیں کرتے تھے۔ کہتے: ’’جہاں رسولِ کریم ؐکی قبر ہے،اس زمین کو کسی جانور کے ٹاپوں سے روندنا حرام سمجھتا ہوں‘‘۔عربی کا ایک دل آویز شعر بڑے ذوق و شوق سے پڑھا کرتا تھا:
وَاِذَا الْمَطِیُّ بِنَا بَلَغْنَ مُحَمَّدًا
فَظُھُورُھُنَّ عَلَی الرِّجَالِ حَرَامٗ
[جب سواریاں ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لے کر پہنچیں گی تو اس وقت ان کی پیٹھیں مسافروں پر حرام ہوں گی، یعنی وہ اب پیدل چلنے لگتے ہیں، اور سواریاں چھوڑ دیتے ہیں۔]
مگر جب اس تمنا کے پورا ہونے کا وقت آیا تو مرض نے بے بس کر دیا۔ واے ناکامی! عاصم [الحداد] صاحب سے راے طلب کی کہ صرف کپڑے ہی بدل لیے جائیں؟ گردوغبار کی وجہ سے ان کی راے نہ ہوئی۔ آخر صبر کر کے بیٹھ رہا۔ لیکن دل کے اندر سے ایک آواز آرہی تھی:
نگاہیں فرشِ راہ ہوں، حمیدؔ سر کے بل چلو
ادب! ادب! یہ کوچۂ حبیب کردگار ہے
مگر سنے کون؟ مسعود و بے نوا تو [دمے اور]کھانسی سے چُور، قہوہ خانے میں بیٹھا اپنے ساتھیوں کو اُمیدبھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ ایک قہوہ خانے میں چائے پی اور پہلی بار مدینہ کے انگور کھائے۔ انگور اچھے اور لذیذ تھے، شوقِ محبت نے انھیں اور لذیذ بنا دیا۔
ذوالحلیفہ سے قافلہ آگے بڑھا۔ ڈرائیور نے کچھ دیر کے بعد پکارا: ’وہ دیکھو!‘ نگاہیں اُٹھ گئیں اور دیدئہ نم نے دھندلی عمارتوں کو سلام کیا۔ جوں جوں منزل قریب ہوتی گئی، تحیر اور ذہول کی حالت طاری ہونا شروع ہوئی۔درود و سلام کے علاوہ ابن جبیر اندلس کے مشہور قصیدے کے اشعار ورد زبان تھے۔آخر مدینے کی چار دیواری میں داخل ہوئے۔
پہلا مرحلہ مسجد نبویؐ میں حاضری کا تھا۔ [عبدالعزیز] شرقی صاحب نے گرم پانی کا انتظام کرایا۔ ہم لوگوں نے غسل کیا، کپڑے بدلے، خوشبو لگائی اورشرقی صاحب کی رہنمائی میں حرم پہنچے۔ دو منٹ کی بھی راہ نہیں ہوگی۔ دروازے پر پہنچے تو مکہ مکرمہ کی خشونت اور مسجد ِحرام کی سادگی کے برعکس ساری فضا لطیف اور مسجد عروس المساجد معلوم ہوئی۔ جدھر نظر اُٹھے خطاطی اور فن کاری کے بہترین نمونے نظر آئیں۔ لیکن اس وقت خطاطی اور فن کاری پر نگاہ ڈالنے کی کسے فرصت؟ ایک مرعوبیت اور تاثیر کے عالم میں روضہ میں تحیۃ المسجد ادا کی۔ ہجوم اور شور میں دلِ پُرشوق کیا کہے۔ نماز کے بعد شباکِ نبوی (جسے عام طور پر مواجہہ شریفہ کہتے ہیں) کے پاس مؤدبانہ قدم بڑھاتے ہوئے آئے۔ سلف کے معمول کے مطابق اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ اور درود پڑھ کر آگے بڑھا اور شیخینؓ کی قبروں کے سامنے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَااَبَـابَکرِ یَاخَلِیْفَۃَ رَسُوْلِ اللہ ِ اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَیُّھَا الْفَارُوْقُ یَاعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کہتا ہوا آگے بڑھ کر ایک طرف قبلہ رُخ کھڑا ہوگیا اور وقت اور موقعے کے لحاظ سے حسب ِ توفیق دُعا کی۔
چہارشنبہ، ۲۵محرم ۱۳۶۹ھ ، ۱۶؍نومبر ۱۹۴۹ء: ارادہ سفر کا ہے، مدینہ منورہ میں بیس دن ہوگئے، پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ابھی اس سرزمین پر قدم رکھا ہے۔ در و دیوار سے انس و محبت کی خوشبو آتی ہے اور جب کبھی دُور سے سبزگنبد کی طرف نگاہ اُٹھ جاتی ہے، دل دھڑکنے لگتا ہے۔ بس میں ہوتا تو اس دَر کی جاروب کشی کرتا۔ خوش نصیب ہیں وہ جو اس دیارِ محبت و اُلفت میں رہتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں:
خاک طیبہ از دوعالم خوش تر است
اے خنک شہرے کہ آنجا دلبراست
[طیبہ کی خاک دونوں جہانوںسے بہتر ہے۔ اے پیارے شہر (مدینہ) تو کتنا اچھا ہے کہ یہاں محبوب ہے]
جمعہ ۲۷محرم ۱۳۶۹ھ ، ۱۸؍نومبر ۱۹۴۹ء: معلّم صاحب نے بھی نماز کے بعد فوراً تیار ہوجانے کا حکم دیا، پر اس دیارِ محبت سے جانے کو جی نہیں چاہتا۔ سردی کا موسم سر پر نہ ہوتا تو غالباً دوچار مہینے کا عزم ضرور ہی کرلیتا، مگر آج نماز کے بعد جی کڑا کر کے رخت ِ سفر باندھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا اور پھر اپنے محبوب کے محبوب شہر میں رہنے اور دن گزارنے کی توفیق اور موقع عنایت فرمائے۔ سفر کی تیاریاں ہیں مگر مدینۃ الرسول کا پُرمحبت ماحول اپنی طرف رہ رہ کر کھینچتا ہے۔ مدینہ کی بہار، سدابہار ہے۔ آخر کیوں نہیں؟___ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب شہر، محبوب اور دل نواز نہ ہو تو پھر کون سی جگہ دل نواز اور روح پرور ہوگی؟ جانے کو جارہا ہوں، پر دیدۂ دل میں مدینہ ہی مدینہ بسا ہوا ہے:
نظر نظر پہ چھا گئی ، دلوں میں یہ سما گئی
مدینہ کی بہار کیا ، بہار در بہار ہے
نمازِ جمعہ سے کچھ پہلے ہی حرم آیا۔ ’روضہ‘ تو کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جمعہ کی تقریب سے نمازی بہت پہلے آگئے تھے اور ہر طرف تلاوتِ قرآن کی ہلکی، مگر سامع نواز گونج سنائی دیتی تھی۔ عاجز نے ایک کنارے تحیۃ المسجد ادا کی۔ دل متاثر تھا۔ شاید اس حسین و جمیل اور مقدس مسجد میں آخری تحیہ ہو۔ پھر کشاں کشاں بارگاہِ نبوتؐ کی طرف گیا۔ اپنی جرأت پر نازاں اور بادشاہوں کے درباروں میں بے محابا جانے والا، یہاں ششدر اور مبہوت تھا۔ کیا کہے اور کیا عرض کرے؟ قدم حدودِ نبوت سے آگے بڑھنے نہ پائے، ادب و وقار کا دامن بھی ہاتھ میں رہے۔ ایک گنہگار و شرم سار اپنے آقا و مولا اور ساری انسانیت کے محسنِ اعظم (محمد سیّدالکونین من عرب و من عجم) کے حضور کھڑا کچھ کہنا چاہتا تھا مگر زبان اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ ، وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ سے زیادہ نہ کہہ سکی۔ بڑی ہمت کی تو ماثور درُود پڑھ کر آگے بڑھ گیااور شیخین رضی اللہ عنہما کو سلام کرتا ہوا ایک کنارے قبلہ رُخ ہوکر رب العالمین کی بارگاہ میں عرض مدعا کی: اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ ھٰذَا آخِرَ عَھْدِیْ بِمَسْجِدِ نَبِیِّکَ ’’اے اللہ، اس دیارِ شوق و محبت میں پھر آنے کی توفیق عطا ہو۔ اس پاک سرزمین میں بار بار آنا نصیب ہو!‘‘
آخر وہ گھڑی آگئی۔ عصر کے بہت بعد موٹر روانہ ہوئی۔ یوں تو دل دیر سے لرزاں اور تراساں تھا، مگر جب گاڑی حرکت میں آئی تو عجب حال ہوا۔ نگاہ سبزگنبد کی طرف جمی ہوئی اور زبان پر اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّد۔ایک حسرت کے ساتھ سارے ماحول پر نظر ڈال رہا تھا۔ اس شہر خوباں میں بائیس دن ہوگئے، مگر ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں معلوم ہوا۔ جوں جوں موٹر آگے بڑھتی جاتی، پلٹ پلٹ کر نگاہیں ڈالتا،تاآنکہ وہ منظر نگاہوں سے اوجھل ہوگیا اور یہ گنہگار دیر تک ایک ذہول کے عالم میں اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ ھٰذَا آخِرَ عَھْدِیْ اِلٰی بَیْتِ رَسُولِکَ کا ورد کرتا رہا۔
طور کی چوٹیاں جن کی تجلیاتِ جمال کی جلوہ گاہ بننے لگیں تو پاکوں کے پاک اور دلبروں کے دلبر موسٰی کلیم تک تاب نہ لاسکے اور اللہ کی کتاب گواہ ہے کہ کچھ دیر کے لیے ہوش و حواس رخصت ہوگئے۔ معراج کی شب جب کسی کا جمال بے نقاب ہونے لگا، تو روایات میں آتا ہے کہ اس وقت وہ عبدکاملؐ جو فرشتوں سے بھی بڑھ کر مضبوط دل اور قوی ارادے کا پیدا کیا گیا تھا، اپنی تنہائی کو محسوس کرنے لگا، اور ضرورت ہوئی کہ رفیق غارؓکا مثل سامنے لاکر آب و گل کے بنے ہوئے پیکرنورانی کی تسلی کا سامان کیا جائے ۔ یہ سرگزشت ان کی تھی، جو قدسیوں سے بڑھ کر پاک اور نُورانیوں سے بڑھ کر لطیف تھے۔ پھر وہ مشت ِ خاک جو ہمہ کثافت اور ہمہ غلاظت ہو، جس کا ظاہر بھی گندا اور باطن بھی گندا، اگر رسولؐ کی مسجد اَقدس میں قدم رکھتے ہچکچا رہا ہو، اگر اس کا قدم رسولؐ کے روضۂ اَنور کی طرف بڑھتے ہوئے ہچکچا رہا ہو، اگر اس کی ہمت رحمت و جمال کی سب سے بڑی تجلی گاہ میں جواب دینے سے جواب دے رہی ہو، اگر اس کا دل اس وقت اپنی بے چارگی اور درماندگی کے احساس سے پانی پانی ہوا جا رہا ہو، تو اس پر حیرت کیوں کیجیے؟ خلافِ توقع کیوں سمجھیے؟ اور خدا کے لیے اس ناکارہ و آوارہ، بے چارہ و درماندہ کے اس حالِ زار کی ہنسی کیوں اُڑایئے؟
مغرب کی اذان کی آواز فضا میں گونجنے لگی۔ دھڑکتا ہوا دل کچھ تھما،اور ڈگمگاتے ہوئے پیر کسی قدر سنبھلے۔ ادھر اذان کی آواز ختم ہوئی، ادھر قدم دروازے سے باہر نکالے، مکان کے جس سے بابِ جبریل اگر چند فٹ نہیں تو چند گز پر ہے، اتنا فاصلہ بھی خدا معلوم کے منٹ میں طے ہوا۔ اس وقت نہ وقت کا احساس ،نہ فاصلے کا ادراک، نہ زمان کی خبر، نہ مکان کی۔
اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت اور فضل کے دروازے کھول دے اور اپنے رسولؐ کی زیارت مجھے نصیب کر جیسی کہ تُو نے اپنے اولیا کو نصیب کی، اور اے ارحم الراحمین، میری مغفرت کردے اور میرے اُوپر رحم فرما۔
لیکن پہلی مرتبہ قدم رکھتے وقت ہوش و حواس ہی کب درست تھے جو یہ دُعا یا کوئی اور دُعا قصدو ارادہ کر کے پڑھی جاتی۔ ایک بے خبری اور نیم بے ہوشی کے عالم میں درود شریف کے الفاظ تو محض بلاقصد و ارادہ زبان سے ادا ہوتے رہے، باقی بس۔ ہوش آیا تو دیکھا کہ نماز کو شروع ہوئے دوچار منٹ ہوچکے ہیں اور امام پہلی رکعت کی قرأت ختم کر کے رکوع میں جارہے ہیں۔ جھپٹ کر جماعت میں شرکت کی ، اور جوں توں کر کے نماز ختم کی۔ یہ پہلی نماز وہاں ادا ہورہی ہے جہاں کی ایک ایک نماز پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ اللہ اللہ شان کریمی اور بندہ نوازی کے حوصلے دیکھنا! کس کو کیا کیا مرتبے عطا ہورہے ہیں:
وقت نمازِ مغر ب کا تھا اور مغرب کی نماز سورج ڈوبنے پر پڑھی جاتی ہے۔ لیکن جس کی نصیبہ دری کا آفتاب عین اسی وقت طلوع ہو رہا ہو ، جس کی سربلندیوں اور سرفرازیوں کی ’فجر‘ عین اسی وقت ہورہی ہو،کیاوہ بھی اس وقت کو مغرب ہی کا وقت کہتا اور سمجھتا رہے! لیجیے نماز ختم ہوگئی۔ فرض ختم ہوگئے اور روضۂ اطہر کے دروازے پر ہر طرف سے صلوٰۃ و سلام کی آوازیں آنے لگیں، جس پر اللہ خود درود بھیجے، اللہ کے فرشتے درود بھیجتے رہیں، اس کے آستانے پر بندوں کے صلوٰۃ و سلام کی کیا کمی ہوسکتی ہے؟
جسے دیکھیے مواجہ شریف [روضۂ رسولؐ کے سامنے کے حصے]کی طرف کھنچا چلا آرہا ہے۔ اس وقت رُخ قبلہ کی جانب نہیں، پتھر سے تعمیر کیے ہوئے کعبہ کی جانب نہیں بلکہ اس کے دَرِ اَقدس کی جانب ہے، جو دلوں کا کعبہ اور روحوں کا قبلہ ہے،کسی کا نالہ جگرگداز، کسی کے لب پر آہ و فریاد، ہرشخص اپنے اپنے حال میں گرفتار، ہرمتنفس اپنے اپنے کیف میں سرشار، گنہ گاروں اور خطاکاروں کی آج بن آئی ہے، آستانۂ شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم تک رسائی ہے:
سجدوں سے اور بڑھتی ہے رفعت جبیں کی
یہاں بھی نہ پائیں گے تو کہاں جائیں گے۔ آج بھی نہ گڑگڑائیں گے تو کدھر سر ٹکرائیں گے: وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ ……(النساء۴:۶۴) [اگر انھوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کربیٹھے تھے تو تمھارے پاس آجاتے…] وعدہ پورا ہونے کے لیے ہے۔ محض لفظ ہی لفظ نہیں ہیں۔
ادھر یہ سب کچھ ہو رہا ہے، رند و پارسا، فاسق و متقی، سبھی اس دُھن میں لگے ہوئے ہیں، ادھر ایک ننگ ِ اُمت حیران و ششدر ، فرطِ مہیب و جلال سے گنگ و مضطر، حواس باختہ ، چپ چاپ سب سے الگ کھڑا ہوا ہے۔ نہ زبان پر کوئی دُعا ہے اور نہ دل میں کوئی آرزو۔سر سے پیر تک ایک عالمِ حیرت طاری، یاالٰہی! یہ خواب ہے یا بیداری؟ کہاں ایک مشت خاک، کہاں یہ عالم پاک، جل جلالہ جہاں ابوبکرؓ و علیؓ آتے ہوئے تھراتے ہوں، جہاں عمرؓ آواز سے بولتے ہوئے لرزتے ہوں، جہاں کی حضوری جبریل ؑ کے لیے باعث ِ فخر اور شرف کا سبب ہو، آج وہاں عبدالقادردریا بادی کا فرزند عبدالماجد اپنے گندا دل اور گندا تر قلب کے ساتھ بے تکلف اور بلاجھجک کھڑا ہوا ہے۔ دماغ حیران، عقل دنگ، زبان گنگ، ناطقہ انگشت بدنداں۔ نہ زبان یاوری کرتی ہے، نہ لب کسی عرض معروض پر کھلتے ہیں۔نہ دُعائوں کے الفاظ یاد پڑتے ہیں، نہ کسی نعت گو کی نعت خیال میں آتی ہے۔ چلتے وقت دل میں کیا ولولے اور کیسے کیسے حوصلے تھے! لیکن اس وقت سارے منصوبے یک قلم غلط، سارے حوصلے اور ولولے یک لخت غائب۔ لے دے کے جو کچھ یاد پڑ رہا ہے وہ محض کلامِ مجید کی بعض سورتیں ہیں، یا پھر وہی عام و معروف درود شریف، اور زبان ہے کہ بے سوچے سمجھے اور بغیر غوروفکر کیے انھی الفاظ کو رَٹے ہوئے سبق کی طرح اضطراراً دُہرائے چلی جارہی ہے۔
اب ہم بالاخانہ سے اُتر کر نیچے آچکے ہیں۔ ہماری معلّمہ کا مزدور ہمارے ساتھ ہے۔ قصد ہے اور کہاں حاضری کا قصد ہے؟ وہاں کا جہاں کی تمنا اور آرزو نے بزمِ تصور کو سدا آباد رکھا ہے۔ خوشی کی کوئی انتہا نہیں۔ جسم کے روئیں روئیں سے مسرت کی خوشبو سی نکل رہی ہے۔ خوشی کے ساتھ ساتھ دل پر ایک دوسرا عالم بھی طاری ہے۔ یہ چہرہ جس پر گناہوں کی سیاہی پھر ی ہوئی ہے، کیا حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے مواجہ شریف میں لے جانے کے قابل ہے؟ اے آلودۂ گناہ، اے سرتا بقدم معصیت، اے غفلت شعار، ان کے حضور جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد پاکی، تقدیس، عصمت اور عظمت بس انھی کو سزاوار ہے، کس منہ سے روضۂ اَقدس کے سامنے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ کہے گا۔اس زبان نے کیسی کیسی فحش باتیں بکی ہیں، ان لبوں کو کتنی بُری بُری باتوں کے لیے جنبش ہوئی ہے، ان آنکھوں نے کیسی کیسی قانون شکنیاں کی ہیں۔ اے نافرمان غلام، اپنے آقا کے دربار میں جانے کی جرأت کس برتے پر کر رہا ہے؟
ان کی اطاعت سے کس کس طرح گریز کیا ہے، ان کے حکم کو کس کس عنوان سے توڑا ہے، ان کے اسوئہ حسنہ سے تیری زندگی کی کوئی دُور کی بھی نسبت رہی ہے!
کیسے ہی نافرمان اور بلاتوفیق سہی مگر نام لیوا تو انھی کے ہیں۔ کلمہ تو انھی کاپڑھتے ہیں۔ درود تو آپؐ ہی پر بھیجتے ہیں۔ ہم لاکھ کم ظرف اور نالائق سہی ، لیکن جن کے ہم غلام ہیں وہ تو سب کچھ ہیں۔ جس نے خون کے پیاسے دشمنوں کو معافی دے دی، اس کی وسعت ظرف، مروت، عفو وکرم اور درگزر کی بھلا کوئی حد و نہایت ہے؟ مدینہ کی طرف اپنے کو متقی، نیکوکار اور پرہیزگار سمجھ کر ہم کب چلے تھے؟ اور اپنی پارسائی کا دعویٰ کسے ہے؟ یہاں تو بھاگے ہوئے غلاموں کی طرح حاضر ہوئے ہیں۔ ایک ایک آنسو کی بوند میں پشیمانی اور ندامت کے طوفان بند ہیں۔
اسی عالم خیال و تصور میں باب السلام سے داخل ہوئے اور مسجد نبویؐ میں جاپہنچے۔ یہ سروقامت ستون، یہ مصفا جھاڑ فانوس، یہ نظرافروز نقش و نگار،ایک ایک چیز آنکھوں میں کھبی جارہی ہے۔ اور اس ظاہری چمک دمک سے بڑھ کر جمال و رحمت کی فراوانی، جیسے مسجد نبویؐ کے دَر و دیوار سے رحمت کی خنک شعاعیں نکل رہی ہیں:
دامان نگہ تنگ و گل حُسن تو بسیار
گل چین بہار توز داماں گلہ دارد
[نگاہ کا دامن تنگ ہے اور تیرے حُسن کے پھول بے شمار ہیں۔ تیری بہار سے پھول چننے والوں کو اپنے دامن کی تنگی کی شکایت ہے]
کی معنویت آج سمجھ میں آئی۔ تجلیوں کا وہ ہجوم کہ آنکھیں جلوے سمیٹتے سمیٹتے تھکی جارہی ہیں۔ یہاں کے اَنوار کا کیا پوچھنا، یہ آفتاب جہاں تاب بے چارہ اس جلوہ گاہ کے ذرّوں کا ادنیٰ غلام ہے۔ دائیں بائیں، اُوپر نیچے، اِدھر اُدھر روشنی ہی روشنی مگر لطف یہ کہ آنکھیں خیرہ نہیں ہوتیں۔ یہ آنکھوں نہیں خود یہاں کی تجلیوں کا کمال ہے۔
جب ہم مسجد نبوی ؐ میں حاضر ہوئے ہیں تو ظہر کی نماز تیار تھی۔ سنتوں کے بعد جماعت سے نماز ادا کی۔ کہاں؟ مسجد نبویؐ اور سجدہ گاہ مصطفوی میں! پیشانی کی اس سے بڑھ کر معراج اور کیا ہوگی؟
نماز کے بعد اب روضۂ اَقدس کی طرف چلے، حاضری کی بے اندازہ مسرت کے ساتھ اپنی تہی دامنی اور بے مایگی کا احساس بھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ درود کے لیے آواز بلند ہوتے ہوتے بھنچ بھی جاتی ہے۔ قدم کبھی تیز اُٹھتے ہیں اور کبھی آہستہ ہوجاتے ہیں ۔ مواجہ شریف میں حاضر ہونے سے پہلے قمیص کے گریبان کے بٹن ٹھیک کیے، ٹوپی کو سنبھالا اور پھر:
وہ سامنے ہیں ، نظامِ حواس برہم ہے
نہ آرزو میں سکت ہے، نہ عشق میں دَم ہے
زائرین بلندآواز سے درود و سلام عرض کر رہے ہیں اور کتنے تو جالی مبارک کے بالکل قریب جاپہنچے ہیں، مگر اس کمینے غلام کے شوقِ بے پناہ کی یہ مجال کہاں؟ چند گز دُور ہی ستون کے قریب کھڑا ہوگیا۔ ہاتھ باندھے ہوئے مگر نماز کی ہیئت سےمختلف، آہستہ آہستہ صلوٰۃ و سلام عرض کررہا ہوں کہ حضوؐر کی محفل کے آداب کا یہی تقاضا ہے اور یہ آداب خود قرآن نے سکھائے ہیں:
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاحَبِیْبَ اللہِ
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاخَیْرَ خَلْقِ اللہِ
زبان سے یہ لفظ نکلے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے [اور یہ اشعار ڈھل گئے]:
پاک دل ، پاک نفس ، پاک نظر ، کیا کہنا
بعد مکہ کے مدینہ کا سفر کیا کہنا
جیسے جنّت کے دریچوں سے جھلکتی ہو بہار
پہلی منزل ہی کے اَنوارِ سحر کیا کہنا
تپش شوق بھی ہے، گرمیِ موسم بھی ہے
اور پھر اس پہ مرا سوزِ جگر کیا کہنا
راہ طیبہ کے ببولوں پہ مچلتی ہے نگاہ
مرحبا! دیدۂ فردوس نگر کیا کہنا
خشک آنکھوں کو مبارک ہو یہ طغیانی شوق
ہیں رواں اَشک بہ انداز دگر کیا کہنا
سنگریزے ہیں کہ جاگی ہوئی قسمت کے نجوم
خارِ منزل ہیں کہ انگشت خضر کیا کہنا
ترتیب : سلیم منصور خالد