اگست ۲۰۱۸

فہرست مضامین

اُمت کے نام

سید عمر تلمسانی ؒ | اگست ۲۰۱۸ | یادداشت

Responsive image Responsive image

ہمیں اسلام نے جو تعلیم دی ہے، اس کاتقاضا ہے کہ ہماری زبان اور قلم سے نکلنے والا ہرلفظ با مقصدہو ، کلمۂ حق کی سربلندی پیشِ نظر ہو، اور اس ساری جدوجہد کا مقصد حقیقی اپنے خالق و مالک کی رضا اور جنت کاحصول ہو۔ مومن بے تکی باتیں کرنے اور بے پر کی اڑانے سے کوسوں دُور ہوتا ہے۔ مسلمان کبھی حق اور قوت کی علامت تھے۔بد قسمتی سے آج جس ذلت و پستی سے مسلمان دوچار ہیں، اس سے نکلنے کی کوئی فکر نہیں کی جارہی۔ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے معاملات کے فیصلے ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ وہ ہمارے علم اور اجازت کے بغیر جو چاہتے ہیں طے کردیتے ہیں۔ میں غیرت کی روح بیدار کرنا چاہتا ہوں جس سے امت کا ہر فرد زندہ احساسات کی مجسم تصویر نظر آئے، اور اس کے لیے اُمت کی ذلت ناقابل برداشت ہو جائے اور وہ اپنے  آپ کو انگاروں پر لوٹتا ہوا محسوس کرے۔ آج مسلمان حاکم ہوں یا عوام، ذلت کی چادر اوڑھے خوابِ خرگوش میں مست ہیں۔ کسی فرد کی ذات پر حملہ ہو تو وہ خاصا مشتعل ہوجاتا ہے اور بسا اوقات انتقام پر بھی اُتر آتا ہے۔ عقیدہ اور ایمان جو ذاتی شرف سے کہیں زیادہ قیمتی ہے، ان حاکموں اور عوام الناس کی نظروں میں کسی اہمیت کے مستحق دکھائی نہیں دے رہے۔ میری تمنا ہے کہ آج کا نوجوان غیرتِ اسلامی سے سرشار ہو کر اسلام کی حقیقی عزت کو بحال کرنے کا عزم لے کر اُٹھے اور جس طرح اس کے اسلاف نے تاجِ سرِدارا کو پاؤں میں کچل دیا تھا، اسی طرح یہ بھی ہر طاغوت کو سرنگوں کرنے کا عزم باندھ لے۔

 پستی سے نکلنے کی راہ :

یہودیوں نے ارض فلسطین پر قبضہ جما رکھا ہے اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ اس کے باوجود کئی مسلمان ایسے ہیں، جو یہودیوں سے دوستانہ تعلقات اور میل ملاقات برقرار رکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ گویا ان لوگوں کے نزدیک فلسطین، ارضِ مسلمہ نہیں ہے۔متاعِ کارواں لُٹ جانے کا غم ہی کیا کم تھا کہ اب کارواں کے دل سے احساسِ زیاں بھی غائب نظر آتا ہے۔

روس نے افغانستان پر جارحانہ حملہ کرکے [۱۹۷۹ء میں]قبضہ جمایا [روس کی جگہ ۲۰۰۱ء سے امریکا قابض ہے] اور کئی مسلمان اس ظالمانہ حرکت کو قطعاً کوئی اہمیت نہیں دیتے بلکہ وہ [اس] کی تائید تک کرتے ہیں۔ جولان اور جنوب لبنان کو اسرائیلی اپنے ناپاک قدموں تلے روند رہے ہیں اور ہمارے اہلِ اقتدار سواے زبانی جمع خرچ کے کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ ان کھوکھلے اور رسمی احتجاجی بیانات سے اسرائیل خوش ہوتا ہے،جب کہ مخلص مسلمانوں کے دلوں پر یہ گیدڑبھبکیاں آرے چلانے کے مترادف ہیں۔ ہم اس غیرت کو بیدار کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں اپنے مقاماتِ مقدسہ کی بازیابی پر آمادہ کرسکے۔ ہم دلوں پر چڑھی ہوئی غفلت کی ان تہوں کو اتارنا چاہتے ہیں، جنھوں نے ہماری زندگیوں کو بے مقصد اور ہمارے وجود کو بے معنی بنا دیا ہے۔ ہماری کوششیں اگر کامیاب ہوجائیں تو فلسطین، جولان، جنوب لبنان، افغانستان اور ہر مقبوضہ مسلم خطہ امت مسلمہ کے دلوں کی دھڑکن کا حصہ بن جائے۔ یہ عزیز خطے دشمنوں کے پنجے سے اسلامی غیرت ہی کے ذریعے واگزار کرائے جاسکتے ہیں۔

اپنی کھوئی ہوئی اراضی کو واپس حاصل کرنے کی فکر کامیابی کی جانب پہلا قدم ہے، جب کہ غفلت اور بے اعتنائی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حالات مزید بگڑ جائیں۔ امریکا، روس، اسرائیل اور شرق و غرب کی ہر اسلام دشمن قوت [مسلم ممالک کے درمیان] جنگ کو ہوا دے رہی ہے۔ اس تباہ کن جنگ سے دو مسلم ملک اپنی قوت کا خاتمہ کر رہے ہیں اور اسرائیل خوش ہے کہ اسے اپنی طاقت بڑھانے کی قیمتی فرصت حاصل ہوگئی ہے۔ خطرات کے سایے صاحب ِبصیرت اہل ایمان کو نظر آرہے ہیں  مگر عرب اور اسلامی ممالک کے ذمہ داران داد عیش میں مصروف ہیں۔ ان حکمرانوں کا وتیرا دیکھ کر ہرحلیم الطبع آدمی کا لہو کھول اٹھتا ہے اور ہر صابر مسلمان کے صبر کا پیمانہ بھی چھلک جاتا ہے۔

ہماری تمنا ہے کہ مسلمانوں کی غیرت جاگ اٹھے اور اعلیٰ سطح سے یہ اعلان عملاً کر دیا جائے کہ مسلمانوں کے دلوں سے ایمان کی چنگاری ابھی تک نہیں بجھی۔ ان پر مسلط ہو جانے والی ذلت کے باوجود اب بھی وہ عصاے کلیمی سے محروم نہیں ہوئے۔ وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ ایمان اور عزم سے سب کچھ ممکن ہے۔

جب ہم اپنی جانب سے بنیادی تقاضے پورے کرکے اور کوشش کے باوجود منزل تک نہ پہنچ پائیں تو اللہ علیم و خبیر اپنی مدد ضرور بھیجے گا۔ اپنے ذرائع و وسائل کو استعمال کرنے کے بعد جب بارگاہ ایزدی میں ہاتھ اٹھائے جائیں تو وہ خالی نہیں پلٹتے۔ رب کائنات کاارشاد ہے:

اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِط (النمل۲۷:۶۲) کون ہے جو بے قرار کی دُعا سنتا ہے، جب کہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو) تمھیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟

دشمنانِ اسلام آج ہمیں چلتے پھرتے لاشے تصور کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ہمارے اندر زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں رہی۔ اے نوجوانو! کیا واقعی تم ایسی حالت پر رضامند ہوگئے ہو؟  امام حسن البنا شہید ؒنے اپنی زندگی میں نوجوانوں کے اندر ایک برقی رو دوڑا دی تھی۔ انھیں جہاد کے لیے متحرک کر دیا تھا۔ ہمارے دشمنوں نے نوجوانوں کے اندر ان حیات بخش عزائم کو دیکھا تو کانپ اٹھے۔ انھوں نے اپنے وفادار خادم حکمرانوں کو حکم دیا کہ اس تحریک کو کچل ڈالا جائے۔ پس مسلمان حکمرانوں نے دشمنان اسلام سے وفاداری کا حق ادا کرتے ہوئے داعیان حق کے خلاف اپنی مہم شروع کر دی۔ اے نوجوانو! کیا تم تاریخ کے سپرد کوئی قیمتی یادداشتیں نہیں کرنا چاہتے کہ جن پر آنے والی نسلیں فخر کرسکیں؟

یہ بھی سن لو کہ اگر امت اسلامیہ ذلت و رُسوائی کا لباس اتار پھینکنے کے لیے کمربستہ نہ ہوئی تو ہمیشہ کی ذلّت اور اَبدی لعنت کا طوق ان کا مقدر ہوگا۔میں مایوسی کو کفر سمجھتاہوں اور ہمیشہ پُراُمید رہتاہوں۔ مجھے اُفق سے اُمید کی کرنیں اُبھرتی نظر آتی ہیں اور آسمان کی پہنائیوں سے نور پھوٹنے والا ہے۔ نااُمیدی کی کوئی وجہ نہیں۔ راہِ حق کے مسافروں کا سب سے بڑا سہارا ذاتِ الٰہی اور سب سے بڑی اُمید رحمت ِربّانی ہے۔ نیند کے متوالو! بہت سو چکے، اب اٹھو کہ نورِ سحر سے آسمان آئینہ پوش ہونے والا ہے۔

اپنے آپ کو کمزور اور حقیر سمجھ کر اپنے دشمن کے سامنے گھٹنے نہ ٹیک دو۔ حرکت میں زندگی ہے اور غفلت پیغامِ موت۔ سُستی ، کاہلی اور بے عملی کا نتیجہ بدترین نقصان اور خسارہ ہے اور مصائب جھیل کر ہی کندن بنا جاسکتا ہے۔ موت کے دروازے سے گزرنے میں ایک ہی لمحہ درکار ہے، جس کے بعد ابتلا کا خاتمہ اور جنت کی بشارت ہے۔ اس طرح جو باطل کے علَم بردار بن جاتے ہیں یا  اس کی بالادستی پر راضی ہو کر یہ حقیر اور عارضی زندگی گزارتے ہیں، انھیں بھی موت کا پیالہ پینا ہی پڑتا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان پست راہوں کے راہی موت کے دروازے سے گزر کر سیدھے واصل جہنم ہوتے ہیں۔ اب فیصلہ کرنا آپ کا اپنا کام ہے کہ دونوں ٹھکانوں میں سے  کون سا ٹھکانا آپ کا انتخاب ہے۔ انسان وہی کچھ کاٹتا ہے جو اس نے بویا ہو اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا۔

اگر مصر میں ۱۹۲۸ء میں تحریک اخوان المسلمون قائم نہ ہوتی تو کون جانے آج یہاں کیا حال ہوتا! اگر یہ تحریک نہ ہوتی تو اسرائیل فلسطین کو یوں ہڑپ کر جاتا کہ احتجاج کی کوئی صدا تک بلند نہ ہوتی۔ نہ اس کی مذمت کے لیے کوئی زبان کھلتی اور نہ کسی کو سرزنش کی توفیق ہوتی۔ امام شہیدؒ نے شروع ہی سے اس صورت حال کا احساس کرلیا تھا اور مسلسل تنبیہ اور خطرے سے ہوشیار و خبردار رہنے کے لیے پکارتے رہے۔ آپ نے عوام کے دلوں میں آنے والے خطرات کا احساس پیدا کیا اور اہلِ حل و عقد کو متحرک کرنے کی کوشش کی۔ صدافسوس کہ ذمہ داروں نے حرکت کی بھی تو اپنے ہی عوام کے خلاف، اور جہاد کی جو چنگاری لوگوں کے دلوں میں سلگ اُٹھی تھی، اسے اپنے خالی نعروں اور ہوائی تقریروں کے زور سے بجھا ڈالا۔ مسلمان حکمرانوں کی غداریوں کو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ نقراشی پاشا کی وزارت نے اسرائیل کے ساتھ امن و صلح کی گفتگو کو قبول کرکے عملاً اسرائیل کو ارضِ فلسطین پر اپنے پنجے جمانے کا جواز فراہم کر دیا۔ ہمارے لیے ضروری تھا کہ اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کی کوئی گفت و شنید نہ کرتے۔ اگر گفتگو ناگزیر ہوتی تو مصر کو برطانیہ کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہییں تھے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے برطانیہ کو فلسطین کی نگرانی سونپی گئی تھی۔ ان مذاکرات کے دوران ہمیں یہ واضح کر دینا چاہیے تھا کہ ہم اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ فلسطین پر اسے مسلط کرنے کا کسی کو حق ہے۔

 ہمارے قدم آگے بڑھ رہـے ہیں :

 ان شاء اللہ مستقبل میں اخوان کے پُرخلوص کارکنوں اور دیگر اسلامی عناصر کے ذریعے شریعت اسلامیہ نافذ ہو کر رہے گی۔ ہر اسلامی ملک سے اسلام کے علَم بردار اخبارات و مجلات شائع ہو رہے ہیں، اور دنیا بھر میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت روزافزوں ہے۔ لٹریچر کی کہیں بھی عالمی نمایش ہو آج اسلامی ادیبوں کی کتب کے بغیر اسے مکمل نہیں سمجھا جاتا۔ مسلم اور غیر مسلم ممالک میں آئے دن اسلامی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں۔ نوجوان ہرملک میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔یہ سارے تعمیری اور مثبت پہلو دورِ حاضر کی اسلامی تحریک کی کاوشوں کا ثمر ہے۔

اس تحریک کے مقابلے پر امریکا نے اپنے اپنے ڈھب کی تنظیمیں قائم کی ہیں۔ ’امریکی اسلام‘ بھلا کیسے پنپ سکتا ہے۔ اس تحریک کے اثرات کا نتیجہ ہے کہ آج جب کوئی ہاؤسنگ سکیم تیار ہوتی ہے تو اس میں مسجد بھی لازماً تعمیر ہوتی ہے۔ اخوان المسلمون نے اُمت کو یاد دلایا کہ زکوٰۃ فرض ہے، جسے لوگ بھول چکے ہیں۔ چنانچہ آج مصر کی ہر مسجد میں زکوٰۃ کمیٹیاں قائم ہوچکی ہیں۔

 

٭  الاخوان المسلمون کے تیسرے مرشدِ عام (۱۹۷۲ء-۱۹۸۶)۔ ترجمہ: حافظ محمد ادریس