اگست ۲۰۱۸

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اگست ۲۰۱۸ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

قرآن کریم، اسلامی ریاست اور مولانا مودودیؒ

سوال : مولانا مودودی ؒ نے اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ  [یوسف۱۲:۶۷]اور دوسری آیات سے حاکمیت الٰہیہ کا جو سیاسی نظریہ پیش کیا ہے، یہ درست نہیں ۔ وہ تمام آیات جن سے مولانا مودودیؒ استدلال کرتے ہیں ان سے تکوینی نظام مراد ہے ۔ اسلام دوسرے مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے اور یہ ہر شخص کی نجی زندگی کو کنٹرول کرتا ہے اگر کوئی اس مذہب کو تسلیم کرے ۔

جواب : مولانا مودوی ؒ کی کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں  نے عالمِ اسلام میں جو فکری انقلاب برپا کیا ہے، اس پر اب عالم اسلام کے علما اور مفکرین کا اجماع ہو گیا ہے۔اسلام کی اس تعبیر سے اہل مغرب بہت پریشان ہیں ۔ وہ عالم اسلام کے بعض فکری منحرفین سے ایسی کتابیں اور مقالات لکھواتے ہیں، کہ جن سے مولانا مودودی کی جانب سے تشریح کردہ اسلامی سیاسی نظریے اور اسلامی جمہوری انقلاب کے نظریے اور اسلامی جہاد کے نظریے کی نفی ہوجائے۔ 

یہاں پر سب سے پہلی بات یہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ نظریہ کوئی مولانا مودودی کا ذاتی حیثیت میں وضع کردہ نظریہ نہیں ہے کہ جس میں انھوں نے چند آیات کی صرف لغوی تشریح کردی ہو۔ مذکورہ کتاب میں قرآنی آیات کی تشریح کی پشت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل سیرت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلافت راشدہ کے قیام کی تمام عملیات کھڑی ہیں اور قرآن و سنت کی واضح تصریحات بھی اس کے لیے شاہد عادل ہیں ۔ مولانا نے جن آیات سے استدلال کیا ہے، ان کے علاوہ انھوں نے اپنی کتاب سیرت سرور عالمؐ میں بھی استدلال کیا ہے اور قرآن کی   بے شمار تعبیرات اور سنت کی لا تعداد تصریحات سے بھی دلائل و نظائر کو پیش کیا ہے ۔ ان میں سے اہم تصریحات یہ ہیں:

۱- سورۂ قصص آیت ۵ میں ہے: وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِيْنَ۝۵ۙ (القصص ۲۸:۵)’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنا دیں اور ان ہی کو وارث بنائیں‘‘۔اگر مذہب کے اندر امامت کا کوئی دخل نہیں ہے تو اللہ نے یہ حکم کیوں دیا؟ لہٰذا، یہ کہنا کہ جب لوگ ایمان قبول کریں گے تو خود بخود اسلامی نظام قائم ہو جائے گا محض تکلف ہے۔اللہ تعالیٰ صراحت سے فرماتا ہے کہ ہمارا ارادہ اور حکم یہ تھا کہ غریب عوام کی امامت قائم ہواور پیغمبروں نے اس پر عمل کیا۔

۲-اسی طرح سورئہ مائدہ آیات ۴۴ تا ۵۰ میں ہے: تمام اُولوالعزم پیغمبروںؑ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ نظام عدل قائم کریں اور اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے کریں۔ پھر سخت تنبیہ کی گئی کہ اگر تم عدل نہیں کرو گے تو تم ظالم ہو گے ، فاسق ہوگے اور کافر ہو گے۔ اس سے تکوینی احکام مراد نہیں کہ تم بارشیں بر سائو اور زلزلے برپا کرو ۔ ان آیات کے آخر میں مسلمانوں کو بھی عدل کا حکم دیا گیا ہے ۔ مزید یہ کہ کیا قرآن میں حضرت دائود علیہ السلام کے نظام عدل اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے عدل اور حکومت کے قصے آخر ویسے ہی تو بیان نہیں کیے گئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس اعتبار سے تمام انبیاؑ دعوت اور کام کے اعتبار سے ’سیاسی لوگ‘ تھے اور احادیث میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمُ الْاَنْبِیَاءُ  (البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ما ذکر فی بنی اسرائیل، حدیث: ۳۲۸۶) ’’بنی اسرائیل کے سیاسی امام بھی انبیا تھے‘‘۔ تعجب ہوتاہے کہ ان منحرفین کو   کس طرح یہ غیرعقلی شبہہ لاحق ہو گیا ۔ کیا انھوں نے سیرتِ رسولؐ اور سیرت انبیا علیہم السلام نہیں پڑھیں؟

۳-اس میں شک نہیں کہ اسلام کا مرکز مسجد ہے اور اس نے مسجد کی تعمیر اور اللہ کی عبادت کا حکم دیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ اسلام کا مرکز مسجد ہے، لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ اسلام مسجد تک محدود ہے بلکہ اسلام نے تو پوری زمین کو مسجد بنایا ہے اور واضح طور پر فرمایا ہے کہ مسجد جہاد کا سنٹر ہوگا اور فرمایا کہ مسجد کی خدمت کرنے کا ثواب تو ہے، لیکن یہ خدمت بہرحال اقامت ِ دین کے لیے زندگی بھر کی ہمہ پہلو جدوجہد سے بڑا درجہ نہیں رکھتی ۔ تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اسلامی جہاد اور انقلاب کی راہ میں اگر تجارت اور مالی سر گرمیاں حائل ہوں یا تمھاری قومیت حائل ہو تو پھر اپنے انجام کا انتظار کرو۔ اسی لیے مولانا مودودی نے سب سے پہلے نظریۂ جہاد پر قلم اٹھا یا اوریہ بتایا کہ جہاد اسلامی انقلاب کا اصل ستون ہے ۔اس میں نکتے کی بات یہ ہے کہ مولانا نے اُمت مسلمہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ جہاد سے بھی پہلے اسلامی حکومت کا قیام ضروری ہے کیونکہ جہاد اسلامی حکومت کا کام ہے ۔ اگر کچھ لوگ اسلام سے حکومت کا باب نکال کر کچھ اور منہاج بنانا چاہتے ہیں تو وہ قرآن کریم کے ایک بڑے حصے کو منسوخ کر رہے ہیں اور سنت اور سیرتِ رسولؐ  اور سیرتِ صحابہؓ سے صریح انکار کرتے ہیں۔

۴-اسی طرح سورۂ انبیاء کی آیات ۱۰ تا ۱۷  غوروفکر کی دعوت دے رہی ہیں، جن کا مفہوم  یہ ہے کہ ہم نے ایک کتاب اتاری، جس میں تمھارے لیے نصیحت ہے۔ ہم نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق اور ان میں انسانوں کی تخلیق اور ان کا عروج و زوال محض کائناتی اور تکوینی کھیل تماشا کے لیے نہیں بنایا بلکہ یہاں حق و باطل کی ایک کش مکش ہے ۔ ہم حق کو باطل پر ایک بم کی طرح پھینکتے ہیں جو باطل کا بھیجا نکال دیتا ہے اور جس سے ظالم اقوام کو پیس کر رکھ دیا جاتا ہے۔ وہ اس لیے کہ       وہ ظالم ہوتی ہیں اور ہم نے ان کے نظام کی جگہ ایک عادلانہ نظام قائم کرنا ہوتا ہے ۔ یہ آیات خالص اقوام کے عروج و زوال اور عادلانہ نظام کے بارے میں ہیں ۔ سائنسی اعتبار سے تو یہ کائنات پہلے سے عادلانہ اصولوں پر چلتی ہے ۔ کوئی ستارہ دوسرے پر ظلم نہیں کرتا ۔ سورج چاند کو نہیں پکڑ سکتا۔ یوں تکوینی اعتبار سے کائنات پوری ہم آہنگی سے چلتی ہے۔

۵-پورے قرآن کریم اور سنت رسولؐ میں تذکیر و تبشیر کے ساتھ جرائم اور ان کی سزائوں کا ذکر بھی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن و سنت میں جرم و سزا کا تصور نہیں اور کوئی حکومت نہیں ہے تو پھر اسلام نے سزائیں کیوں مقرر کیں ہیں ؟ میں نے مصرکے فقیہ ڈاکٹر عبد العزیز عامر کی ایک کتاب مولانا مودودی کی ہدایت پر ترجمہ کی تھی ۔ اس کے حصہ اول پر مولانا مودودی نے خود نظرثانی کی۔ یہ کتاب اسلام کا قانونِ جرم و سزا  کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔جو لوگ اسلامی نظام کے مختلف پہلوؤں ، سول کوڈ،کریمینل کوڈ اور معاشی نظام، مثلاً حرمت سود کا انکار کرتے ہیں، ان کے لیے آسان طریقہ تو یہ ہے کہ وہ سرے سے اسلام سے وابستگی کا انکار کر دیں، اللہ ہمیں ہدایت دے کیوںکہ ہم بدیہیات کا انکار کرتے ہیں۔

۶-سورۃ الفرقان کی آخری آیات ۶۳ تا ۷۷  میں عباد الرحمٰن، یعنی نبی آخر الزماںؐ اور  صحابۂ کرامؓ کا جو پروگرام دیا گیا ہے کہ یہ لوگ کن خصوصیات کا معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے ۔ ان آیات کے آخر میں ان کی یہ دعا نقل فرمائی ہے: وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًاکہ(ہمیں ایسی متقی سوسائٹی کا امام بنا) ۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر معاشرہ متقی نہ ہو اور وہ اصلاح نہ چاہتا ہو تو صرف حکمران ڈنڈے کے زور سے کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ قیامت میں ایسے پیغمبر بھی آئیں گے، جن کے ساتھ ایک ایک امتی ہو گا۔ اس آیت میں امامت و خلافت کے قیام کی صراحت ہے اور یہ نص صریح ہے ۔

مولانا مودودیؒ کا ساتھ چھوڑنے اور جماعت اسلامی سے نکلنے والے بعض حضرات ابہام پیدا کرتے آئے ہیں اور اس اعتبار سے موجودہ لبرل حضرات اور امام بخاری کے دور کے جھَمِیَّہ ایک ہی فکر رکھتے ہیں ۔ یہ لوگ اسلامی معاشرے سے مفادات تو لیتے ہیں، مگر معاشرے سے قطع تعلق نہیں کرسکتے ۔ اللہ ان کو ہدایت عطا فرمائے، آمین۔(مولانا سیّد   معروف    شاہ     شیرازی)