جو شخص میرے اور جماعت اسلامی کے اس کام کو میرا اور جماعت کا کوئی ذاتی ’کاروبار‘ سمجھتا ہو اور اس میں بطورِ احسان ہاتھ بٹانے آرہا ہو تو وہ سخت گناہ گار ہے۔کیوں کہ دین کے نام سے کاروبارکرنا اور اس کاروبار میں حصہ لینا وہ بدترین تجارت ہے، جس سے زیادہ خسارے کا سودا شاید ہی کوئی ہو۔ کسی نے اگرآج تک یہ سمجھتے ہوئے ہماری تائید کی ہے، تو اب اسے توبہ کرنی چاہیے اور فوراً اس تائید سے دست کش ہوجانا چاہیے۔
لیکن، اگر کوئی ہمارے اس کام کو خالصتاً للہ دین کا کام سمجھ کر ہماری تائید کرنے آتا ہے تو اس کے اور ہمارے درمیان جو معاملہ بھی ہوگا، خالص حق پرستی کی بنیاد پر ہوگا۔ نہ ہم اس سے کوئی مطالبہ حق کے خلاف کرسکتے ہیں اور نہ وہ ہم سے خلافِ حق کوئی مطالبہ کرسکتا ہے۔
کسی [فرد] کے پاس اگر اس مطالبے کے لیے کوئی دلیل ہو کہ: ’’دُنیا میں اور جو بھی دینی تصوّرات اور اصولوں کے خلاف کوئی کام کرے اس کی تو خبر لے ڈالو، مگر ہمارے حضرتوں میں سے کوئی یہ کام کرے تو اس پر دم نہ مارو‘‘، تو وہ براہِ کرم اپنی دلیل پیش کرے۔ ہم بھی غور کریں گے کہ قرآن، حدیث یا سلف صالحین کے اسوے میں اس دلیل کا کوئی مقام ہے یا نہیں۔
اور اگر ایسی کوئی دلیل اس [فرد] کے پاس نہیں ہے تو ہم صاف کہتے ہیں کہ اس کا یہ مطالبہ ماننے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔ اس طرح کی شرطیں لے کر جو لوگ خدا کا کام کرنے کے لیے ہمارے ساتھ آئیں، وہ ہمارے لیے سبب ِ قوت نہیں بلکہ سراسر سبب ِ ضعف ہیں۔ ایسے لوگ دُنیا میں کبھی حق قائم نہیں کرسکتے۔ وہ سب بیک وقت ہماری تائید سے دست کش ہوجائیں تو ہم اللہ کا شکر کریں گے۔([سیّدابوالاعلیٰ مودودی] ترجمان القرآن، جلد۵۰، عدد۴، ذوالحجہ ۱۳۷۷ھ/ اگست۱۹۵۸ء، ص۵۲-۵۳)