جماعت اسلامی کے نزدیک پاکستان میں دراصل کسر اس چیز کی نہیں ہے کہ یہاں خدا اور آخرت اور رسالت کے ماننے والوں کی کمی ہے، بلکہ کمی اس چیز کی ہے کہ جس حق کو یہاں کے باشندوں کی اکثریت مانتی ہے وہ عملاً نافذ ہو، اور اسی پر ہمارے ملک کا پورا نظامِ زندگی قائم ہو۔ یہ کوئی معمولی کسر نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی کسر ہے، کیوں کہ اسی کی وجہ سے ہمارا یہ ملک ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود نہ اسلام کی نعمتوں اور برکتوں سے خود فائدہ اُٹھا رہا ہے، نہ دُنیا کے لیے اسلام کی حقانیت کا گواہ بن رہا ہے۔ اور یہ کسر اس لحاظ سے بھی کوئی ہلکی کسر نہیں ہے کہ اسے پورا کر دینا آسان ہو۔ اس کی پشت پر بہت سے طاقت ور اسباب ہیں، جنھیں سخت جدوجہد ہی کے بعد دُور کیا جاسکتا ہے:
ان سب پر مزید یہ کہ انگریز کے رخصت ہو جانے کے بعد جن لوگوں کے ہاتھ میں ہماری قومی زندگی کی باگیں آئی ہیں، اور جن کو اس نوخیز ریاست کی تعمیروتشکیل کے اختیارات ملے ہیں، وہ اگرچہ اسلام ہی کا نام لے کر برسرِاقتدار آئے ہیں، اسلامی دستور کا حلف لے کر ہی حکومت کی کرسیوںپر بیٹھے ہیں، اور دعویٰ یہی کرتے ہیں کہ ہم یہاں اسلام کے مطابق کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن نہ تو وہ اسلام کو جانتے ہیں ، نہ ان کی اپنی زندگیاں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ وہ اسلام کے طریقے پر خود عامل ہیں، اور نہ ان کا اب تک کا طرزِعمل یہ اُمید دلاتاہے کہ ان کے ہاتھوں یہ ملک کبھی فرنگیت کے راستے سے ہٹ کر اسلام کے راستے پر چل سکے گا۔
یہ ہیں وہ بڑے بڑے بنیادی اسباب، جن کی وجہ سے پاکستان میں اس کسر کو پورا کر دینا کوئی آسان کام نہیں ہے کہ یہاں کے باشندوں کی اکثریت جس چیز کو حق جانتی اور مانتی ہے، وہ یہاں عملاً نافذ ہو اور اسی پر یہاں کا پورا نظامِ زندگی قائم ہو۔([سیّدابوالاعلیٰ مودودی] ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۵۰، عدد۳، رمضان ۱۳۷۷ھ/ جون ۱۹۵۸ء،ص ۱۸-۱۹)
دو مختلف نظاموں میں کچھ چیزیں مشترک ہوتے ہوئے بھی، وہ الگ الگ نظام ہوتے ہیں۔ ان دونوں نظاموں کی تفصیلات کا جائزہ لیتے ہوئے ان میں بیش تر چیزیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوں، مگر اس کے باوجود ہم انھیں ایک نظام نہیں کہہ سکتے۔ دو مختلف نظاموں کا کسی ایک یا چند اُمور میں ایک دوسرے سے متفق ہو جانا بھی کبھی اُن کے ایک ہونے کی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی حال اسلام اور مغربی جمہوریت کا ہے۔
اس ضمن میں یہ چیز ذہن نشین رہے کہ کسی نظام کا اصل جوہر طریق نہیں بلکہ وہ اصولی و مقصدی روح ہوتی ہے، جو اُس کے اندر جاری و ساری رہتی ہے اور اسی روح کے متعلق ہم حکم لگاسکتے ہیں۔
(الف) مغربی جمہوریت میں حاکمیت جمہور کی ہوتی ہے اور اسلام میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مغربی جمہوریت میں کسی چیز کے حق و ناحق کا فیصلہ کرنے کا آخری اختیار اکثریت کو حاصل ہے ، مگر اسلام میں یہ حق صرف باری تعالیٰ کو پہنچتا ہے، جس نے اپنا آخری منشا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دنیا پر واضح فرما دیا۔ یہ اختلاف کوئی معمولی نہیں بلکہ اس کی بنا پر یہ دونوں نظام بنیادوں سے لے کر کاخ و ایوان تک ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتے ہیں۔
(ب) اسلامی جمہوریت میں خلافت ایک امانت ہے، جو ہرمسلمان کو سونپی جاتی ہے، اور تمام مسلمان محض انتظامی سہولت کے لیے اُسے ارباب حل و عقد کے سپرد کردیتے ہیں۔ مغربی جمہوریت میں اصحابِ اقتدار صرف اپنی پارٹی [یا منتخب ایوان] کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی ریاست میں عوام کے نمایندے خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہیں۔
(ج) یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی نظام صرف ایک طریق انتخاب تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے سارے معاملات میں اپنا ایک مخصوص نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ پیش کرتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اللہ کو آخری سند مان کر اپنی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان کے مطابق ڈھالا جائے___ پاکستان میں ’قراردادِ مقاصد‘ کے ذریعے اس اصول کو تسلیم تو کیا گیا ہے، مگر افسوس کہ اس کے نفاذ کے راستے میں ہرطرح کی رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ (’رسائل و مسائل‘ [پروفیسر عبدالحمید صدیقی]، ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۳، ربیع الاوّل ۱۳۷۷ھ، دسمبر ۱۹۵۷ء،ص ۱۸۳-۱۸۴)