جس معاشرے میں عدل نہ ہو، وہاں افراد کا استحصال ہوتا ہے۔ عورتیں ہو ں یا مرد سب کے حقوق ماپال ہوتے ہیں اور یہ ظلم صنفی تخصیص کے بغیر ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی اگر عورت مظلوم ہے، تو مرد بھی اس ظالمانہ نظام کی چکّی میں اسی طرح پس رہا ہے۔ ایسے میں اگر ہم یہ واویلا کریں کہ چوںکہ عورتوں کو اپنے حقوق کا علم نہیں ہے اس لیے مرد ان پر زیادتیاں کرتے ہیں، یا عورتوں کو معاشی خود مختاری دی جائے تو ان کو ظلم سے نجات مل سکتی ہے___ سچی بات یہ ہے کہ یہ سب مفروضات ہی ہوں گے، حقیقت کی دنیا میں ایسا نہیں ہے ۔ جو معاشرے سو فی صد خواندگی کا تناسب رکھتے ہیں اور جہاں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں، وہاں کی عورت تو اور بھی زیادہ مظلوم ہے۔ مسلم ممالک کے مقابلے میں مغربی ملکوں کی عورت زیادہ غیرمحفوظ ہے اور مشقت کی چکّی میں زیادہ بُری طرح پس رہی ہے۔پھر یہ کیسے تہمت لگائی جاسکتی ہے کہ ’’اسلام عورتوں سے امتیازی سلوک کرتا ہے اور اقوام متحدہ کا چارٹر عورتوں کے حقوق کا ضامن ہے‘‘۔
اوّل تو اسلامی نظام عملاً دنیا میں کہیں نافذ ہی نہیں ہے، لیکن مسلم ممالک میں جہاں بھی جس درجے میں اسلامی روایات کی پاس داری موجود ہے، وہاں کی عورت نہ صرف محفوظ ہے بلکہ مغربی عورت کی طرح جبری طور پر معاشی جدوجہد پہ مجبور بھی نہیں ہے۔
اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ اسلام عورت کو کیا سیاسی حقوق عطا کرتا ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ: ’’اسلام دین اور سیاست کو علیحدہ نہیں سمجھتا۔ وہ ہر شعبۂ زندگی کو، خواہ سیاست ہو یا معاشرت، معیشت ہو یا تمدن، الٰہی تعلیمات کے تابع کرتا ہے۔ قرآن نے ہر شعبۂ زندگی کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں، وہ صنفی تخصیص کے بغیر تمام انسانوں کے لیے ہیں۔
عام طور پر سیاست سے مراد قانون سازی کا عمل اور قانون کے عملی نفاذ کے لیے اختیارات کا حاصل ہونا ہے۔ قانون ساز اداروں میں شمولیت اور اس کے لیے کوششیں اور معاشرتی فلاحی امور میں شرکت کر کے ووٹر یا راے دہندہ کا اعتماد حاصل کرنا، یہ سب سیاسی سرگرمیاں شمار کی جاتی ہیں۔ اس طرح اسلامی شریعت کی رُو سے ہر سیاسی سرگرمی بھی خالصتاً دینی سرگرمی ہی ہے ، کیوں کہ اس کا مقصد عوام کی مدد کرنا اور معاشرے کو ظلم ،ناانصافی اور منکرات سے پاک رکھنا ہے۔
معاشرے میں فرد کی سرگرمیاں جس دائرے میں بھی ہوں، اگر وہ اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے ہیں تو وہ مثبت بھی ہوں گی اور صحت مند بھی، کیوں کہ اسلام ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھتا ہے۔ حدود اللہ کے دائرے کو ملحوظ رکھتے ہوئے خواتین کے اوپر کسی بھی طرح کی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی نہیں ہے۔ البتہ اسلام نہ صرف سیاسی بلکہ کسی بھی ایسی معاشی یا معاشرتی سرگرمیوں کو پسند نہیں کرتا کہ جہاں اختلاط ہو یا عورتوں کے تحفظ کا مسئلہ درپیش ہو۔
آغازِ اسلام میں جب ہجرت کی گئی تو وہ شدید مشکل حالات تھے۔ سرزمین کفر سے جس طرح مردوں کو ہجرت کا حکم دیا گیا، اس طرح عورتوں پر بھی ہجرت واجب تھی۔ جب مسلمانوں نے مکہ کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت حبشہ کی تو اگرچہ قافلہ مختصر تھا، مگر اس قافلے میں خواتین بھی شامل تھیں۔ (متفق علیہ)
اسی طرح ہجرتِ مدینہ کے موقعے پر خواتین، مردوں کے شانہ بشانہ تمام مشکلات کے باوجود ہجرت کرتی ہیں۔ حضرت اسماء ؓ سے مروی ہے کہ عبداللہ بن زبیرؓ اس وقت میرے حمل میں تھے اور حمل کی مدت پوری ہوچکی تھی تو میں مدینہ آئی، قبا کے مقام پر ٹھیری اور وہیں ولادت ہوئی۔ (بخاری ، مسلم)
قرآن پاک میں اللہ کریم نے عورتوں کے سیاسی حقوق سے متعلق بڑی واضح ہدایت دی ، فرمایا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمھارے پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑتال کر لو، اور ان کے ایمان کی حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر جب تمھیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں تو انھیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ وہ کفّار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال‘‘۔(الممتحنہ۶۰:۱۰)
گویا مسلمان عورت اپنے حقوق سے آشنا ہستی ہے۔ اگر وہ اپنے آبائی دین، یعنی کفر سے بغاوت کرتے ہوئے نہ صرف گھر بلکہ معاشرہ بھی چھوڑ دے تو معاشرہ اس فعل پر لعن طعن نہیں کرسکتا، بلکہ اسلام اس کو پورا تحفظ فراہم کرتا اور اسلامی سوسائٹی میں اس کی عزت وحرمت کا پاس ولحاظ کرکے باوقار مقام دیتا ہے۔ اس لیے کہ اب کفار سے ان کے تعلقات منقطع ہوچکے ہیں، لہٰذا ان کی ذمہ داری مسلم معاشرے کو اٹھانا ہوگی۔
اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔ جو مسلمان یہ کام کرتا ہے وہ ریاست کے ادارے کو مضبوط کرتا ہے۔ اس حوالے سے قرونِ اولیٰ کی مسلمان عورتوں نے بھرپور اور بااعتماد کردار ادا کیا۔
ابن سعد نے طبقات میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوطلحہ نے اُم سلیمؓ کو نکاح کا پیغام دیا۔ وہ بولیں: ’’اے ابوطلحہ! کیا تم نہیں جانتے کہ تم اپنے جس معبود کی پرستش کرتے ہو وہ زمین سے اُگنے والا ایک درخت ہے جس کو فلاں حبشی نے کاٹا ہے؟ ابوطلحہ! کیا تمھیں نہیں معلوم کہ جن خدائوں کی تم لوگ پوجا کرتے ہو، اگر تم ان میں آگ لگادو تو وہ جل جائیں گے؟ جس پتھر کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمھارا نہ نقصان کرسکتا ہے، نہ نفع پہنچا سکتاہے‘‘۔ نسائی کی روایت میں ہے، پھر ابوطلحہؓ نے اسلام قبول کرلیا اور ان کا اسلام لانا ہی اُمِ سلیمؓ سے شادی کے لیے مہر قرار پایا۔ (نسائی، کتاب النکاح)
اُم سلیمؓ کے اس واقعے پر ہمیں ٹھیر کر اس معاشرے کا جائزہ لینا چاہیے جس نے عورت کو اتنی دلیری عطا کی کہ وہ نکاح کے پیغام دینے والے کو دلائل کی بنا پر مسترد کرتی ہے کہ میرے اور تمھارے درمیان تو معبودوں کا فرق ہے۔ یہ فرق ایک خاندان کی کیسے بنیاد رکھ سکتا ہے؟ اس مثال میں انھوں نے نکاح کے لیے دلیل دین کی بنیاد پر دی ہےاور بین السطور میںحق کا پیغام دیا تھا۔ ان کی دانائی اور بینائی کو چیلنج کرتے ہوئے سوال اُٹھایا تھا:’ عقل وشعور رکھتے ہوئے یہ تم نے کون سے معبود بنارکھے ہیں؟‘ یہاں آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام والا داعیانہ انداز نظر آتا ہے کہ جب انھوں نے نمرود کو آثار کائنات سے نشانیاں دے کر چیلنج کیا تھا۔ نمرود تو عقل کا اندھا تھا مگر حضرت ابوطلحہؓ کو اللہ نے قلب ِسلیم عطا فرمایا تھا۔ رشتہ جو ٹھکرایا گیا تو ان کی عقل روشن ہوگئی کہ واقعی ایک عورت کا ایمان اس کے قلب کو کتنا منور کردیتا ہے کہ نہ انھوں نے مال ودولت اور خاندانی پس منظر دیکھا اور نہ ذرائع معاش پر بات کی، بلکہ ایمان کی کسوٹی پر انھیں مسترد کردیا، سو وہ ایمان کی دولت سے سرفراز ہوئے۔
عورتوں کی مساوات کی دہائی دینے والے تاریخ اسلام کی ان روشن مثالوں سے کیوں صرفِ نظر کرتے ہیں؟ اُس وقت کی عورت نبویؐ معاشرے میں تھی اور یہ سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہورہا تھا اور قیامت تک کے لیے مثالیں سامنے آرہی تھیں۔
بخاری اور مسلممیں ایک اور خاتون کا ذکر حضرت عمران بن حسینؓ کی روایت کے ذریعے سامنے آتا ہے کہ ایک سفر میں پانی کی سخت قلت تھی۔ ایک عورت جو سفر میں تھی اس کے دونوں پائوں دو مشکیزوں کے درمیان تھے۔ انھوںنے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ پانی بہت دُور ایک رات اور ایک دن کی مسافت پر ہے۔ ہم اس عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو آپؐ نے حکم دیا کہ: اپنے برتن بھرلو۔ ہم نے چھوٹے بڑے برتن بھرلیے۔ آپؐ نے فرمایا: تم لوگوں کے پاس جو کچھ ہے معاوضے میں اس عورت کو پیش کرو۔ ہم نے کھجوریں وغیرہ جمع کرکے اسے دے دیں، جن کو لے کر وہ اپنے گھر والوں کے پاس آئی اور بولی: میں جس آدمی کے پاس سے آئی ہوں، وہ جادوگر ہے یا نبی۔ پھر اس عورت نے اسلام قبول کرلیا۔ مسلمان آس پاس کی مشرک آبادیوں سے لڑتے تھے، مگر اس عورت کی وجہ سے اس کی قوم پر حملہ نہیں کرتے تھے۔ اس عورت نے اپنی قوم کو توجہ دلائی کہ مسلمان تم پر جان بوجھ کر ہاتھ نہیں اٹھاتے، کیا اچھا ہو کہ تم سب اسلام قبول کرلو؟ روایات میں ہے کہ لوگ اس کی بات مان کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔ (بخاری ، مسلم)
یہ ہے ایک مسلمان عورت کا قائدانہ کردارکہ اس نے خود کو امور خانہ داری تک محدود تصور نہیں کیا۔ جہاں داعیانہ کردار کی ضرورت تھی، اس نے واضح طور پر وہ کردار ادا کیا۔ مردوں نے اس کی تقلید کی اور کسی نے چیلنج نہیں کیا کہ ہم کیوں ایک عورت کی بات پر کان دھریں؟ یا یہ نہیں کہا: ’اب عورتیں مردوں کو عقل کے درس دیں گی؟‘ وہ ایک انتہائی متمدن اور دانش مند معاشرہ تھا، جس میں صنفی تعصب نہیں تھا، حق اور صرف حق کی پہچان بنیاد تھی۔ عورتوں اور مردوں کے انھی شائستہ رویوں پر مبنی پاکیزہ معاشرے کی کرنوں نے ایک زمانے کو منور کردیا۔
خانگی امور اور اولاد کی تربیت ایک مسلمان عورت کا بنیادی وظیفہ ہے۔ قرون اولیٰ کی خواتین اسلام اپنے جامع کردار سے بخوبی آگاہ رہیں۔ اگر میدان جنگ برپا ہوا، اور وہاں زخمیوں کی مدد کی ضرورت پڑی تو وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق حقِ جہاد ادا کرتی نظر آتی ہیں (یہاں لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ ’ضرورت پڑی‘ تو۔ یعنی ایسا نہیں ہواکہ طبل جنگ بجا اور عورتیں اپنے بچے، گھر اور چولہے چھوڑ کر میدانِ جنگ میں پہنچ گئیں۔ نہیں، یہ مثال ضرورت کے تابع ہے)۔
اسی طرح یہ مثال بھی موجود ہے کہ مسلمان عورت اگر کسی غیر مسلم کو پناہ دیتی ہے تو آپؐ اس کی تائید فرماتے ہیں۔ اُمِ ہانیؓ بنت ابوطالب کی روایت ملتی ہے جس میں وہ آپ ؐ سے فرماتی ہیں کہ میں نے فلاں شخص کو پناہ دی ہے، جب کہ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں وہ اس کو قتل کردیں گے۔ آپؐ نے فرمایا: اُمِ ہانی نے جسے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔ (بخاری ومسلم)
کتنے سنہرے ہیں یہ الفاظ۔ کس قدر تکریم ہے ان لفظوں میں ایک مسلمان عورت کی۔ حالاںکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کو قتل کرنے کے درپے ہیں۔ آپؐ یہ نہیں فرماتے کہ عورتیں ناسمجھ ہوتی ہیں، تمھیں کیا پتا کس کو پناہ دینا چاہیے کس کو نہیں۔ کس قدر پیارے انداز سے فرماتے ہیں کہ: ’’ جس کو اُمِ ہانی نے پناہ دی اس کو ہم نے پناہ دی‘‘۔ یعنی مسلمان امت کی ہر عورت بھی ایک دانا وبینا ہستی ہوسکتی ہے اور اس کو محض عورت ہونے کی بنا پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس روایت سے ایک عورت کا وقار کس قدر بلند ہوجاتا ہے۔
اسلام سے ناواقف اطمینان سے کہہ دیتے ہیں کہ اسلام مسلمان عورت کو قانون سازی کے حقوق ہی نہیں دیتا۔ وہ اس پر تعلیم کے دروازے بھی بند رکھتا ہے اور اس کو گھر کی چار دیواری میں قید دیکھنا چاہتا ہے وغیرہ، وغیرہ۔ اسلامی تاریخ سے اتنی واقفیت تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ شریعت کا مزاج سمجھ سکے اور ان الزامات کی حقیقت جان سکے۔
اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ حق مہر کی کوئی حد مقرر کردی جائے۔ ان کے پاس ایسے مسائل آرہے تھے کہ نوجوانوں کے لیے نکاح کرنا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ ایسی ہی مجلس میں ایک خاتون موجود تھیں جہاں انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو خاتون نے سورۂ نساء کی بیسویں آیت پڑھی کہ: ’’اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کرلو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا‘‘ (النساء۴:۲۰)۔ خاتون نے نکتۂ اعتراض اٹھایا کہ قرآن تو ڈھیر سارے مال کی بات کررہا ہے تو عمر کون ہوتے ہیں مہر کی حد مقرر کرنے والے؟حضرت عمرؓ نے فوراً اپنی راے سے رجوع کرلیا اور فرمایا :’’عمر غلط کہہ رہا تھا، یہ خاتون درست کہہ رہی ہیں‘‘(طبقات ابن سعد)۔ان روایات کی روشنی میں مسلمان عورت کو حقوق کی دہائی دینے اور سڑکوں پر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امور مملکت تک میں خواتین کے مشوروں کی قدر فرماتے۔ بخاری میں مذکور ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب معاہدے کی شقوں پر مسلمانوں کا دل تنگ ہوگیا تو آپؐ نے حکم دیا کہ اٹھو قربانی دو اور حلق کرائو۔ اس سال ہمیں واپس جانا ہوگا۔ آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا، مگر کوئی عمل درآمد کے لیے آمادہ نہ ہوا تو آپؐ نے ام سلمہ ؓ سے مشورہ کیا۔ انھوںنے فرمایا: اللہ کے نبیؐ! آپؐ خود قربانی دیں اور حجام کو بلاکر حلق کرالیں۔ آپؐ نے ایسا ہی کیا تو صحابہ کرامؓ بھی اُٹھ کھڑے ہوئے، جانوروں کی قربانی کی اور ایک دوسرے کا حلق کرنے لگے۔ وہ اُمت پر کتنا سخت وقت تھا۔ ایسے میں ایک بصیرت افروز خاتون کے مشورے سے مسلمان ایک اضطراری کیفیت سے نکل آئے۔
حضرت امیر معاویہؓ جو حاکم وقت تھے، انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خط لکھا کہ: ’مجھے نصیحت فرمائیے‘۔ حضرت عائشہؓ نے جواب میں تحریر فرمایا: ’’السلام علیکم،امابعد، میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سناہے کہ جو شخص انسانوں کی ناراضی کی پروا نہ کرے وہ اللہ کو راضی کرے گا، اور جو اللہ کو ناراض کر کے انسانوں کی رضامندی کا طلب گار ہوگا، اللہ اس کو انسانوں کے حوالے کردے گا۔ والسلام !‘‘
سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے یہ نہیں فرمایا کہ: ’اس امت کے اکابرین بھی موجود ہیں، جنھوں نے براہِ راست چشمۂ نبوت سے فیض حاصل کیا ہے۔ خلیفہ وقت ان مردوں سے مشورہ کریں۔ ایک عورت بھلا کہاں امورِ مملکت کی سوجھ بوجھ رکھتی ہے۔ عورت کا میدان کار تو اس کے گھر کا میدان ہے ،وہ بھلا سربراہِ اُمت کو کیا مشورہ دے سکتی ہے‘‘۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو مسلمان عورت کے مقام ومرتبہ سے آگاہ تھیں، انھوں نے مختصر ترین لفظوں میں اتنی بڑی حکمت آمیز نصیحت کردی کہ اللہ کا خوف اور اس کی محبت تمام بھلائیوں کی جڑ ہے۔
اسلام نے امورِ مملکت میں عورتوں پر ایسی قدغن نہیں لگائی کہ ان کو دوسرے درجے میں شمار کیا ہو۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ حساس ترین خانگی ذمہ داریوں کے سبب بڑے بڑے مناصب سے اس کو الگ رکھنا پسند کیا۔ یہ اس کی صلاحیتوں پر شک نہیں بلکہ اس کے ساتھ رعایت ہے کیوں کہ وہ پہلے ہی امور خانہ داری اور تربیت اولاد کی بھاری ذمہ داریوں میں جکڑی ہوئی ہے۔
۱۹۹۵ء میں بیجنگ میں منعقدہ خواتین کے حقوق کی عالمی کانفرنس کا مقصد عورتوں کے لیے مادرپدر آزادی، صنفی مساوات اور پالیسی ساز اداروں میں ان کی ۵۰ فی صد شمولیت کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ اسی طرح صدر مملکت، سربراہِ عدالت بننے کے مطالبے بھی شامل ہوتے جارہے ہیں۔
جن مغربی ملکوں سے حقوق نسواں کی تحریکیں اُٹھی ہیں، خود ان ملکوں کی تاریخ دیکھ لیں کہ کتنی خواتین حکومت کے کلیدی عہدوں تک پہنچی ہیں؟ پچھلے پچاس برس کے اعداد وشمار اٹھاکر دیکھ لیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے جو رپورٹس شائع کرتے ہیں ان کے مطابق دنیا بھر میں اعلیٰ حکومتی عہدوں پر تعینات خواتین کی تعداد مردوں کا صرف ۷فی صد ہے جو ان عہدوں پر فائز ہیں، جب کہ بیش تر ممالک میں تو یہ تناسب صفر ہے۔ پھر کیا واقعی عورت کی سربراہی عورتوں کے مسائل کا حقیقی حل ہے؟ ایسا ہے تو تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں۔
اسلام نے عورت کو تمدن اور معاشرت میں اس کے فطری مقام پر رکھ کر عزت وشرف کا مرتبہ عطا کیا ہے۔ ہماری اور مغربی تہذیب میں فرق یہی ہے کہ وہاں عورت کو اس وقت تک حقوق نہیں ملتے جب تک وہ مصنوعی مرد بن کر مردوں کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوجائے۔ اسلامی تہذیب عورت کو ساری عزت اور تمام حقوق عورت کی حیثیت میں ہی دیتی ہے اور تمدن کی انھی ذمہ داریوں کا بار اس پر ڈالتی ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کی ہیں۔
لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مردوعورت دنیا میں پھیلادیے۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پرنگرانی کررہا ہے۔ (النساء ۴:۱)
قرآن نے بتایا کہ جس نفس واحدہ سے مرد وجود میں آیا ہے اسی سے عورت بھی وجود میں آئی ہے اور مرد ہی کی طرح معاشرے کا ایک اہم ترین رکن ہے۔ دونوں کو معاشرے کی خدمت میں اپنی اپنی استعداد وقوت کے مطابق اپنا حصہ ڈالنا چاہیے:
اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے، اس کی تمنا نہ کرو۔ جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ۔ ہاں، اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔(النساء ۴:۳۲)
یہاں ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو خصوصیات عورتوں اور مردوں کو عطا کی گئی ہیں اس میں کسی پر کسی کی فضیلت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ قدرتِ حق نے ہر ایک کو وہی دیا ہے، جس کی اسے اپنے دائرۂ کار کے لیے ضرورت تھی۔اسلام نے اس فرسودہ تصور ہی کو ختم کر دیا ہے کہ مرد اس لیے سربلند اور باعزت ہے کہ وہ مرد ہے اور عورت اس لیے فروتر ہے کہ وہ عورت ہے۔
جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دُنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔(النحل۱۶:۹۷ )
مرد اور عورت کے درمیان فرق وامتیاز انسان کے ایک بازو اور دوسرے بازو کے درمیان فرق وامتیاز ہے۔ مردوزن کی مساوات کی اس سے بہتر مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔ اسلام کا منشا یہ ہرگز نہیں ہے کہ امورخانہ داری کے علاوہ سارے کام عورت کے لیے ممنوع ہیں۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اصلاً اور بنیادی طور پر گھر کی مالکہ اور منتظمہ ہے۔ اس کی سماجی خدمات اس کے اصل قلعہ ’گھر‘ کو کمزور کرنے کا باعث نہیں بننی چاہییں۔
دورِ اول کی مسلمان خواتین اگرچہ اعلیٰ سیاسی مناصب پر نظر نہیں آتیں، لیکن وہ اجتماعی سیاسی معاملات سے غیر متعلق بھی نہیں رہیں۔ صرف یہی نہیں کہ وہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھتی تھیں بلکہ انھوں نے بوقت ضرورت اسلامی ریاست کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی اور قربانیاں بھی پیش کیں، مشورے بھی دیے اور سیاسی خدمات بھی انجام دیں۔ جنگ جیسے حساس اور نازک مواقع پر بھی ہمیں خواتین کی شمولیت کی روایات ملتی ہیں۔
لیلیٰ الغفاریہ کے بارے میں علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں وہ جاتی تھیں، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں‘‘۔(ابن عبدالبر، الاستیعاب)
طبقات ابن سعد میں درج ہے کہ ’’اُم سلیطؓ اسلام لائیں، بیعت کی، اور خیبر اور حنین میں شریک ہوئیں‘‘۔ (ابن سعد طبقات الکبریٰ)۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’وہ ہمارے لیے احد میں مشک بھر بھر کر پانی لاتی تھیں‘۔ (الاستیعاب)
فاطمہ بنت قیسؓ مشہور صحابیہ ہیں۔ ابتدائی مہاجرین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کے حالات میں علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:’’وہ عقل وکمال والی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان ہی کے مکان پر اصحاب شوریٰ جمع ہوئے تھے اور انھوں نے وہ تقریریں کی تھیں جو ان سے منقول ہیں۔ (الاستیعاب)
اس وقت سیاسی صورت احوال یہ ہے کہ عالمی اور ملکی سطح پر خواتین کی نمایندگی تقریباً تمام شعبوں میں پائی جاتی ہے۔ عالمی منظر نامے میں خواتین سیاست میں اہم مقام حاصل کرچکی ہیں۔ وہ اجتماعی زندگی کے فیصلوں اور قانون سازی جیسے معاملات میں مستقل طور پر کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس صورتِ حال میں دین کی علَم بردار اور باحجاب خواتین یہ محاذ خالی نہیں چھوڑ سکتیں۔ ان خواتین کے لیے سیاست اپنے ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ اقامت دین کے لیے ناگزیر ہے۔ جب دین قائم ہوگا تو نظام عبادت سمیت معاشرت، تمدن ہر چیز محفوظ ہوگی۔ جب سیلابی ریلا آتا ہے تو صرف اپنے گھر کی فکر سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر ریلے کے آگے اجتماعی قوت صرف کر کے بند باندھ دیا جائے تو سبھی کی حفاظت کا اہتمام ہوتا ہے۔ محض خود کو بچانے کی کوشش سب کو بہالے جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اقامت دین کی جدوجہد کے حوالےسے رہنمائی فرمائی ہے کہ’’اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں‘‘(الحج ۲۲:۴۰)۔یعنی دین کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ لادین لوگوں کو اقتدار سے بے دخل کیا اور غیرمؤثر بنایا جائے۔ دُنیوی زندگی کی تعمیروتشکیل اور ترقی کا مرکزی ہدف عقیدے اور عمل کے فساد کا خاتمہ ہے۔
اسی وجہ سے آپ ؐکے زمانے میں خواتین نے ہجرتیں بھی کیں، جنگ کے میدانوں میں بھی گئیں، جہادی مہمات میں کھانا تیار کرنے، زخمیوں کو پانی پلانے، مرہم پٹی کرنے، شہدا کی میّتوں کو میدانِ جنگ سے اٹھا کر واپس لانے کی ذمہ داری بھی ادا کی، حتیٰ کہ ام عمارہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے سیکورٹی گروپ میں شامل ہوگئیں اور آپ ؐ کی حفاظت کا فریضہ مردانہ وار ادا کیا۔ آپ ؐ نے تحسین فرمائی ایک عورت کی اس شجاعت اور دلیری کی۔ فرمایا: ’’اُحد کے موقعے پر جدھر بھی رُخ کرتا اُمِ عمارہ کو سامنے موجود پاتا‘‘۔
آپؐ نے ام عمارہؓ کو اس خدمت پر مامور نہیں فرمایا تھا۔ اُمِ عمارہؓ نے خود یہ اجتہاد کیا کہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت دراصل اسلامی ریاست کی حفاظت ہے۔ آپؐ نے ان کی تعریف فرمائی۔ گویا اسلامی ریاست کی حفاظت عورتوں پر مردوں کی طرح لازم نہیں ہے، لیکن عورتیں اپنی صلاحیت کے مطابق حصہ لینا چاہیں اور اس دوران میں شریعت کی حدود کی پابند رہیں تو انھیں روکا نہیں جاسکتا۔ البتہ عورت کے ہاتھ میں خنجر دینا اس کی فطرت سے متصادم ہے۔ تاہم، اس کے باوجود اسلام عورتوں کو اپنی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھانے کی اجازت دیتا ہے مگر بالعموم خواتین کو فوجوں میں بھرتی کرنا اور ان سے مردوں والی خدمات لینا اسلام کی پالیسی سے خارج ہے۔
جنگ حنین میں اُمِ سلیمؓ ایک خنجر ہاتھ میں لیے پھر رہی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ: ’یہ کس لیے ہے؟‘کہنے لگیں: ’اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی‘ ( مسلم)۔اُم عطیہؓ سات لڑائیوں میں شریک ہوئیں۔ کیمپ کی حفاظت، سپاہیوں کے لیے کھانا پکانا، زخمیوں اور بیماروں کی تیمارداری کرنا ان کے سپرد تھا۔ (ابن ماجہ)
اس وقت اُمت مسلمہ پر صلیبی، صہیونی اور لادینی حملہ ہوچکا ہے۔ یہ حملہ اس وقت سے ہے جب انگریز اور دیگر سامراجی قوتوں نے مسلم علاقوں پر قبضے کیے۔ اس وقت سے ان قوتوں نے اللہ کے نظام کو معطل کر کے طاغوتی نظام رائج کیے۔ آزادی کے بعد بھی اس نے اس بات کا اہتمام کیا ہوا ہے کہ اس کا نظام جاری وساری رہے۔ اگر کسی ملک میں جزوی طور پر اسلامی احکام جاری ہوگئے ہیں، تو انھیں منسوخ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس بنا پر پاکستان میں اسلامی حدود، تعزیرات اور ناموس رسالتؐ کے قوانین کو ختم کرنے کے لیے کوششیں اور شور برپا کیا جاتا ہے۔
عالمی ایجنڈوں کے تحت خواتین کی مساوی شمولیت کی کوششیں بڑی قوت سے ہو رہی ہیں۔ اس وقت خواتین کو سیاست میں نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ ایسے میں دین دار خواتین کی اس میدان کے لیے عملی تربیت نہ کی گئی تو بڑے خسارے کا سودا ہوگا۔ مسلم اُمہ کے مجموعی طور پر اجتماعی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی حالات بہت دگرگوں ہیں۔ جس میں اجتماعی سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے۔
اس بات کو اگر بڑی واضح مثال کے ساتھ پیش کیا جائے تو ذہن میں یہ منظر سامنے رکھیے: جس وقت خواتین لادینیت کی تبلیغ کررہی ہوں، تو کیا دین دار خواتین کو میدان لادین طبقے کے لیے خالی چھوڑ دینا چاہیے؟ بدقسمتی سے آج سیاسی میدان میں لادین قوتیں سرگرم عمل ہیں۔ خواتین اسلام ان کے لیے میدان کیوں خالی چھوڑدیں۔
قابل مبارک باد ہیں وہ خواتین جو ایک طرف چادر اور چار دیواری کے تقاضوں کے ساتھ اپنے خانگی امور انجام دے رہی ہیں، تو دوسری طرف سیاست کے میدان میں لادین عورتوں کا مقابلہ کررہی ہیں۔ ان شاء اللہ وہ اللہ کے ہاں دہرے اجر کی مستحق ہوں گی۔
(مآخذ: lاسلام اور مسلم خواتین،سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ lعورت اور سیاسی حقوق، جماعت اسلامی حلقہ خواتین lعورت اور اسلام،مولانا سید جلال الدین عمری)