جس معاشرے میں عدل نہ ہو، وہاں افراد کا استحصال ہوتا ہے۔ عورتیں ہو ں یا مرد سب کے حقوق ماپال ہوتے ہیں اور یہ ظلم صنفی تخصیص کے بغیر ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی اگر عورت مظلوم ہے، تو مرد بھی اس ظالمانہ نظام کی چکّی میں اسی طرح پس رہا ہے۔ ایسے میں اگر ہم یہ واویلا کریں کہ چوںکہ عورتوں کو اپنے حقوق کا علم نہیں ہے اس لیے مرد ان پر زیادتیاں کرتے ہیں، یا عورتوں کو معاشی خود مختاری دی جائے تو ان کو ظلم سے نجات مل سکتی ہے___ سچی بات یہ ہے کہ یہ سب مفروضات ہی ہوں گے، حقیقت کی دنیا میں ایسا نہیں ہے ۔ جو معاشرے سو فی صد خواندگی کا تناسب رکھتے ہیں اور جہاں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں، وہاں کی عورت تو اور بھی زیادہ مظلوم ہے۔ مسلم ممالک کے مقابلے میں مغربی ملکوں کی عورت زیادہ غیرمحفوظ ہے اور مشقت کی چکّی میں زیادہ بُری طرح پس رہی ہے۔پھر یہ کیسے تہمت لگائی جاسکتی ہے کہ ’’اسلام عورتوں سے امتیازی سلوک کرتا ہے اور اقوام متحدہ کا چارٹر عورتوں کے حقوق کا ضامن ہے‘‘۔
اوّل تو اسلامی نظام عملاً دنیا میں کہیں نافذ ہی نہیں ہے، لیکن مسلم ممالک میں جہاں بھی جس درجے میں اسلامی روایات کی پاس داری موجود ہے، وہاں کی عورت نہ صرف محفوظ ہے بلکہ مغربی عورت کی طرح جبری طور پر معاشی جدوجہد پہ مجبور بھی نہیں ہے۔
اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ اسلام عورت کو کیا سیاسی حقوق عطا کرتا ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ: ’’اسلام دین اور سیاست کو علیحدہ نہیں سمجھتا۔ وہ ہر شعبۂ زندگی کو، خواہ سیاست ہو یا معاشرت، معیشت ہو یا تمدن، الٰہی تعلیمات کے تابع کرتا ہے۔ قرآن نے ہر شعبۂ زندگی کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں، وہ صنفی تخصیص کے بغیر تمام انسانوں کے لیے ہیں۔
عام طور پر سیاست سے مراد قانون سازی کا عمل اور قانون کے عملی نفاذ کے لیے اختیارات کا حاصل ہونا ہے۔ قانون ساز اداروں میں شمولیت اور اس کے لیے کوششیں اور معاشرتی فلاحی امور میں شرکت کر کے ووٹر یا راے دہندہ کا اعتماد حاصل کرنا، یہ سب سیاسی سرگرمیاں شمار کی جاتی ہیں۔ اس طرح اسلامی شریعت کی رُو سے ہر سیاسی سرگرمی بھی خالصتاً دینی سرگرمی ہی ہے ، کیوں کہ اس کا مقصد عوام کی مدد کرنا اور معاشرے کو ظلم ،ناانصافی اور منکرات سے پاک رکھنا ہے۔
معاشرے میں فرد کی سرگرمیاں جس دائرے میں بھی ہوں، اگر وہ اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے ہیں تو وہ مثبت بھی ہوں گی اور صحت مند بھی، کیوں کہ اسلام ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھتا ہے۔ حدود اللہ کے دائرے کو ملحوظ رکھتے ہوئے خواتین کے اوپر کسی بھی طرح کی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی نہیں ہے۔ البتہ اسلام نہ صرف سیاسی بلکہ کسی بھی ایسی معاشی یا معاشرتی سرگرمیوں کو پسند نہیں کرتا کہ جہاں اختلاط ہو یا عورتوں کے تحفظ کا مسئلہ درپیش ہو۔
آغازِ اسلام میں جب ہجرت کی گئی تو وہ شدید مشکل حالات تھے۔ سرزمین کفر سے جس طرح مردوں کو ہجرت کا حکم دیا گیا، اس طرح عورتوں پر بھی ہجرت واجب تھی۔ جب مسلمانوں نے مکہ کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت حبشہ کی تو اگرچہ قافلہ مختصر تھا، مگر اس قافلے میں خواتین بھی شامل تھیں۔ (متفق علیہ)
اسی طرح ہجرتِ مدینہ کے موقعے پر خواتین، مردوں کے شانہ بشانہ تمام مشکلات کے باوجود ہجرت کرتی ہیں۔ حضرت اسماء ؓ سے مروی ہے کہ عبداللہ بن زبیرؓ اس وقت میرے حمل میں تھے اور حمل کی مدت پوری ہوچکی تھی تو میں مدینہ آئی، قبا کے مقام پر ٹھیری اور وہیں ولادت ہوئی۔ (بخاری ، مسلم)
قرآن پاک میں اللہ کریم نے عورتوں کے سیاسی حقوق سے متعلق بڑی واضح ہدایت دی ، فرمایا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمھارے پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑتال کر لو، اور ان کے ایمان کی حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر جب تمھیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں تو انھیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ وہ کفّار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال‘‘۔(الممتحنہ۶۰:۱۰)
گویا مسلمان عورت اپنے حقوق سے آشنا ہستی ہے۔ اگر وہ اپنے آبائی دین، یعنی کفر سے بغاوت کرتے ہوئے نہ صرف گھر بلکہ معاشرہ بھی چھوڑ دے تو معاشرہ اس فعل پر لعن طعن نہیں کرسکتا، بلکہ اسلام اس کو پورا تحفظ فراہم کرتا اور اسلامی سوسائٹی میں اس کی عزت وحرمت کا پاس ولحاظ کرکے باوقار مقام دیتا ہے۔ اس لیے کہ اب کفار سے ان کے تعلقات منقطع ہوچکے ہیں، لہٰذا ان کی ذمہ داری مسلم معاشرے کو اٹھانا ہوگی۔
اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔ جو مسلمان یہ کام کرتا ہے وہ ریاست کے ادارے کو مضبوط کرتا ہے۔ اس حوالے سے قرونِ اولیٰ کی مسلمان عورتوں نے بھرپور اور بااعتماد کردار ادا کیا۔
ابن سعد نے طبقات میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوطلحہ نے اُم سلیمؓ کو نکاح کا پیغام دیا۔ وہ بولیں: ’’اے ابوطلحہ! کیا تم نہیں جانتے کہ تم اپنے جس معبود کی پرستش کرتے ہو وہ زمین سے اُگنے والا ایک درخت ہے جس کو فلاں حبشی نے کاٹا ہے؟ ابوطلحہ! کیا تمھیں نہیں معلوم کہ جن خدائوں کی تم لوگ پوجا کرتے ہو، اگر تم ان میں آگ لگادو تو وہ جل جائیں گے؟ جس پتھر کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمھارا نہ نقصان کرسکتا ہے، نہ نفع پہنچا سکتاہے‘‘۔ نسائی کی روایت میں ہے، پھر ابوطلحہؓ نے اسلام قبول کرلیا اور ان کا اسلام لانا ہی اُمِ سلیمؓ سے شادی کے لیے مہر قرار پایا۔ (نسائی، کتاب النکاح)
اُم سلیمؓ کے اس واقعے پر ہمیں ٹھیر کر اس معاشرے کا جائزہ لینا چاہیے جس نے عورت کو اتنی دلیری عطا کی کہ وہ نکاح کے پیغام دینے والے کو دلائل کی بنا پر مسترد کرتی ہے کہ میرے اور تمھارے درمیان تو معبودوں کا فرق ہے۔ یہ فرق ایک خاندان کی کیسے بنیاد رکھ سکتا ہے؟ اس مثال میں انھوں نے نکاح کے لیے دلیل دین کی بنیاد پر دی ہےاور بین السطور میںحق کا پیغام دیا تھا۔ ان کی دانائی اور بینائی کو چیلنج کرتے ہوئے سوال اُٹھایا تھا:’ عقل وشعور رکھتے ہوئے یہ تم نے کون سے معبود بنارکھے ہیں؟‘ یہاں آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام والا داعیانہ انداز نظر آتا ہے کہ جب انھوں نے نمرود کو آثار کائنات سے نشانیاں دے کر چیلنج کیا تھا۔ نمرود تو عقل کا اندھا تھا مگر حضرت ابوطلحہؓ کو اللہ نے قلب ِسلیم عطا فرمایا تھا۔ رشتہ جو ٹھکرایا گیا تو ان کی عقل روشن ہوگئی کہ واقعی ایک عورت کا ایمان اس کے قلب کو کتنا منور کردیتا ہے کہ نہ انھوں نے مال ودولت اور خاندانی پس منظر دیکھا اور نہ ذرائع معاش پر بات کی، بلکہ ایمان کی کسوٹی پر انھیں مسترد کردیا، سو وہ ایمان کی دولت سے سرفراز ہوئے۔
عورتوں کی مساوات کی دہائی دینے والے تاریخ اسلام کی ان روشن مثالوں سے کیوں صرفِ نظر کرتے ہیں؟ اُس وقت کی عورت نبویؐ معاشرے میں تھی اور یہ سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہورہا تھا اور قیامت تک کے لیے مثالیں سامنے آرہی تھیں۔
بخاری اور مسلممیں ایک اور خاتون کا ذکر حضرت عمران بن حسینؓ کی روایت کے ذریعے سامنے آتا ہے کہ ایک سفر میں پانی کی سخت قلت تھی۔ ایک عورت جو سفر میں تھی اس کے دونوں پائوں دو مشکیزوں کے درمیان تھے۔ انھوںنے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ پانی بہت دُور ایک رات اور ایک دن کی مسافت پر ہے۔ ہم اس عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو آپؐ نے حکم دیا کہ: اپنے برتن بھرلو۔ ہم نے چھوٹے بڑے برتن بھرلیے۔ آپؐ نے فرمایا: تم لوگوں کے پاس جو کچھ ہے معاوضے میں اس عورت کو پیش کرو۔ ہم نے کھجوریں وغیرہ جمع کرکے اسے دے دیں، جن کو لے کر وہ اپنے گھر والوں کے پاس آئی اور بولی: میں جس آدمی کے پاس سے آئی ہوں، وہ جادوگر ہے یا نبی۔ پھر اس عورت نے اسلام قبول کرلیا۔ مسلمان آس پاس کی مشرک آبادیوں سے لڑتے تھے، مگر اس عورت کی وجہ سے اس کی قوم پر حملہ نہیں کرتے تھے۔ اس عورت نے اپنی قوم کو توجہ دلائی کہ مسلمان تم پر جان بوجھ کر ہاتھ نہیں اٹھاتے، کیا اچھا ہو کہ تم سب اسلام قبول کرلو؟ روایات میں ہے کہ لوگ اس کی بات مان کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔ (بخاری ، مسلم)
یہ ہے ایک مسلمان عورت کا قائدانہ کردارکہ اس نے خود کو امور خانہ داری تک محدود تصور نہیں کیا۔ جہاں داعیانہ کردار کی ضرورت تھی، اس نے واضح طور پر وہ کردار ادا کیا۔ مردوں نے اس کی تقلید کی اور کسی نے چیلنج نہیں کیا کہ ہم کیوں ایک عورت کی بات پر کان دھریں؟ یا یہ نہیں کہا: ’اب عورتیں مردوں کو عقل کے درس دیں گی؟‘ وہ ایک انتہائی متمدن اور دانش مند معاشرہ تھا، جس میں صنفی تعصب نہیں تھا، حق اور صرف حق کی پہچان بنیاد تھی۔ عورتوں اور مردوں کے انھی شائستہ رویوں پر مبنی پاکیزہ معاشرے کی کرنوں نے ایک زمانے کو منور کردیا۔
خانگی امور اور اولاد کی تربیت ایک مسلمان عورت کا بنیادی وظیفہ ہے۔ قرون اولیٰ کی خواتین اسلام اپنے جامع کردار سے بخوبی آگاہ رہیں۔ اگر میدان جنگ برپا ہوا، اور وہاں زخمیوں کی مدد کی ضرورت پڑی تو وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق حقِ جہاد ادا کرتی نظر آتی ہیں (یہاں لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ ’ضرورت پڑی‘ تو۔ یعنی ایسا نہیں ہواکہ طبل جنگ بجا اور عورتیں اپنے بچے، گھر اور چولہے چھوڑ کر میدانِ جنگ میں پہنچ گئیں۔ نہیں، یہ مثال ضرورت کے تابع ہے)۔
اسی طرح یہ مثال بھی موجود ہے کہ مسلمان عورت اگر کسی غیر مسلم کو پناہ دیتی ہے تو آپؐ اس کی تائید فرماتے ہیں۔ اُمِ ہانیؓ بنت ابوطالب کی روایت ملتی ہے جس میں وہ آپ ؐ سے فرماتی ہیں کہ میں نے فلاں شخص کو پناہ دی ہے، جب کہ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں وہ اس کو قتل کردیں گے۔ آپؐ نے فرمایا: اُمِ ہانی نے جسے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔ (بخاری ومسلم)
کتنے سنہرے ہیں یہ الفاظ۔ کس قدر تکریم ہے ان لفظوں میں ایک مسلمان عورت کی۔ حالاںکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کو قتل کرنے کے درپے ہیں۔ آپؐ یہ نہیں فرماتے کہ عورتیں ناسمجھ ہوتی ہیں، تمھیں کیا پتا کس کو پناہ دینا چاہیے کس کو نہیں۔ کس قدر پیارے انداز سے فرماتے ہیں کہ: ’’ جس کو اُمِ ہانی نے پناہ دی اس کو ہم نے پناہ دی‘‘۔ یعنی مسلمان امت کی ہر عورت بھی ایک دانا وبینا ہستی ہوسکتی ہے اور اس کو محض عورت ہونے کی بنا پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس روایت سے ایک عورت کا وقار کس قدر بلند ہوجاتا ہے۔
اسلام سے ناواقف اطمینان سے کہہ دیتے ہیں کہ اسلام مسلمان عورت کو قانون سازی کے حقوق ہی نہیں دیتا۔ وہ اس پر تعلیم کے دروازے بھی بند رکھتا ہے اور اس کو گھر کی چار دیواری میں قید دیکھنا چاہتا ہے وغیرہ، وغیرہ۔ اسلامی تاریخ سے اتنی واقفیت تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ شریعت کا مزاج سمجھ سکے اور ان الزامات کی حقیقت جان سکے۔
اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ حق مہر کی کوئی حد مقرر کردی جائے۔ ان کے پاس ایسے مسائل آرہے تھے کہ نوجوانوں کے لیے نکاح کرنا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ ایسی ہی مجلس میں ایک خاتون موجود تھیں جہاں انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو خاتون نے سورۂ نساء کی بیسویں آیت پڑھی کہ: ’’اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کرلو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا‘‘ (النساء۴:۲۰)۔ خاتون نے نکتۂ اعتراض اٹھایا کہ قرآن تو ڈھیر سارے مال کی بات کررہا ہے تو عمر کون ہوتے ہیں مہر کی حد مقرر کرنے والے؟حضرت عمرؓ نے فوراً اپنی راے سے رجوع کرلیا اور فرمایا :’’عمر غلط کہہ رہا تھا، یہ خاتون درست کہہ رہی ہیں‘‘(طبقات ابن سعد)۔ان روایات کی روشنی میں مسلمان عورت کو حقوق کی دہائی دینے اور سڑکوں پر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امور مملکت تک میں خواتین کے مشوروں کی قدر فرماتے۔ بخاری میں مذکور ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب معاہدے کی شقوں پر مسلمانوں کا دل تنگ ہوگیا تو آپؐ نے حکم دیا کہ اٹھو قربانی دو اور حلق کرائو۔ اس سال ہمیں واپس جانا ہوگا۔ آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا، مگر کوئی عمل درآمد کے لیے آمادہ نہ ہوا تو آپؐ نے ام سلمہ ؓ سے مشورہ کیا۔ انھوںنے فرمایا: اللہ کے نبیؐ! آپؐ خود قربانی دیں اور حجام کو بلاکر حلق کرالیں۔ آپؐ نے ایسا ہی کیا تو صحابہ کرامؓ بھی اُٹھ کھڑے ہوئے، جانوروں کی قربانی کی اور ایک دوسرے کا حلق کرنے لگے۔ وہ اُمت پر کتنا سخت وقت تھا۔ ایسے میں ایک بصیرت افروز خاتون کے مشورے سے مسلمان ایک اضطراری کیفیت سے نکل آئے۔
حضرت امیر معاویہؓ جو حاکم وقت تھے، انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خط لکھا کہ: ’مجھے نصیحت فرمائیے‘۔ حضرت عائشہؓ نے جواب میں تحریر فرمایا: ’’السلام علیکم،امابعد، میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سناہے کہ جو شخص انسانوں کی ناراضی کی پروا نہ کرے وہ اللہ کو راضی کرے گا، اور جو اللہ کو ناراض کر کے انسانوں کی رضامندی کا طلب گار ہوگا، اللہ اس کو انسانوں کے حوالے کردے گا۔ والسلام !‘‘
سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے یہ نہیں فرمایا کہ: ’اس امت کے اکابرین بھی موجود ہیں، جنھوں نے براہِ راست چشمۂ نبوت سے فیض حاصل کیا ہے۔ خلیفہ وقت ان مردوں سے مشورہ کریں۔ ایک عورت بھلا کہاں امورِ مملکت کی سوجھ بوجھ رکھتی ہے۔ عورت کا میدان کار تو اس کے گھر کا میدان ہے ،وہ بھلا سربراہِ اُمت کو کیا مشورہ دے سکتی ہے‘‘۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو مسلمان عورت کے مقام ومرتبہ سے آگاہ تھیں، انھوں نے مختصر ترین لفظوں میں اتنی بڑی حکمت آمیز نصیحت کردی کہ اللہ کا خوف اور اس کی محبت تمام بھلائیوں کی جڑ ہے۔
اسلام نے امورِ مملکت میں عورتوں پر ایسی قدغن نہیں لگائی کہ ان کو دوسرے درجے میں شمار کیا ہو۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ حساس ترین خانگی ذمہ داریوں کے سبب بڑے بڑے مناصب سے اس کو الگ رکھنا پسند کیا۔ یہ اس کی صلاحیتوں پر شک نہیں بلکہ اس کے ساتھ رعایت ہے کیوں کہ وہ پہلے ہی امور خانہ داری اور تربیت اولاد کی بھاری ذمہ داریوں میں جکڑی ہوئی ہے۔
۱۹۹۵ء میں بیجنگ میں منعقدہ خواتین کے حقوق کی عالمی کانفرنس کا مقصد عورتوں کے لیے مادرپدر آزادی، صنفی مساوات اور پالیسی ساز اداروں میں ان کی ۵۰ فی صد شمولیت کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ اسی طرح صدر مملکت، سربراہِ عدالت بننے کے مطالبے بھی شامل ہوتے جارہے ہیں۔
جن مغربی ملکوں سے حقوق نسواں کی تحریکیں اُٹھی ہیں، خود ان ملکوں کی تاریخ دیکھ لیں کہ کتنی خواتین حکومت کے کلیدی عہدوں تک پہنچی ہیں؟ پچھلے پچاس برس کے اعداد وشمار اٹھاکر دیکھ لیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے جو رپورٹس شائع کرتے ہیں ان کے مطابق دنیا بھر میں اعلیٰ حکومتی عہدوں پر تعینات خواتین کی تعداد مردوں کا صرف ۷فی صد ہے جو ان عہدوں پر فائز ہیں، جب کہ بیش تر ممالک میں تو یہ تناسب صفر ہے۔ پھر کیا واقعی عورت کی سربراہی عورتوں کے مسائل کا حقیقی حل ہے؟ ایسا ہے تو تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں۔
اسلام نے عورت کو تمدن اور معاشرت میں اس کے فطری مقام پر رکھ کر عزت وشرف کا مرتبہ عطا کیا ہے۔ ہماری اور مغربی تہذیب میں فرق یہی ہے کہ وہاں عورت کو اس وقت تک حقوق نہیں ملتے جب تک وہ مصنوعی مرد بن کر مردوں کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوجائے۔ اسلامی تہذیب عورت کو ساری عزت اور تمام حقوق عورت کی حیثیت میں ہی دیتی ہے اور تمدن کی انھی ذمہ داریوں کا بار اس پر ڈالتی ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کی ہیں۔
لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مردوعورت دنیا میں پھیلادیے۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پرنگرانی کررہا ہے۔ (النساء ۴:۱)
قرآن نے بتایا کہ جس نفس واحدہ سے مرد وجود میں آیا ہے اسی سے عورت بھی وجود میں آئی ہے اور مرد ہی کی طرح معاشرے کا ایک اہم ترین رکن ہے۔ دونوں کو معاشرے کی خدمت میں اپنی اپنی استعداد وقوت کے مطابق اپنا حصہ ڈالنا چاہیے:
اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے، اس کی تمنا نہ کرو۔ جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ۔ ہاں، اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔(النساء ۴:۳۲)
یہاں ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو خصوصیات عورتوں اور مردوں کو عطا کی گئی ہیں اس میں کسی پر کسی کی فضیلت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ قدرتِ حق نے ہر ایک کو وہی دیا ہے، جس کی اسے اپنے دائرۂ کار کے لیے ضرورت تھی۔اسلام نے اس فرسودہ تصور ہی کو ختم کر دیا ہے کہ مرد اس لیے سربلند اور باعزت ہے کہ وہ مرد ہے اور عورت اس لیے فروتر ہے کہ وہ عورت ہے۔
جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دُنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔(النحل۱۶:۹۷ )
مرد اور عورت کے درمیان فرق وامتیاز انسان کے ایک بازو اور دوسرے بازو کے درمیان فرق وامتیاز ہے۔ مردوزن کی مساوات کی اس سے بہتر مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔ اسلام کا منشا یہ ہرگز نہیں ہے کہ امورخانہ داری کے علاوہ سارے کام عورت کے لیے ممنوع ہیں۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اصلاً اور بنیادی طور پر گھر کی مالکہ اور منتظمہ ہے۔ اس کی سماجی خدمات اس کے اصل قلعہ ’گھر‘ کو کمزور کرنے کا باعث نہیں بننی چاہییں۔
دورِ اول کی مسلمان خواتین اگرچہ اعلیٰ سیاسی مناصب پر نظر نہیں آتیں، لیکن وہ اجتماعی سیاسی معاملات سے غیر متعلق بھی نہیں رہیں۔ صرف یہی نہیں کہ وہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھتی تھیں بلکہ انھوں نے بوقت ضرورت اسلامی ریاست کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی اور قربانیاں بھی پیش کیں، مشورے بھی دیے اور سیاسی خدمات بھی انجام دیں۔ جنگ جیسے حساس اور نازک مواقع پر بھی ہمیں خواتین کی شمولیت کی روایات ملتی ہیں۔
لیلیٰ الغفاریہ کے بارے میں علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں وہ جاتی تھیں، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں‘‘۔(ابن عبدالبر، الاستیعاب)
طبقات ابن سعد میں درج ہے کہ ’’اُم سلیطؓ اسلام لائیں، بیعت کی، اور خیبر اور حنین میں شریک ہوئیں‘‘۔ (ابن سعد طبقات الکبریٰ)۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’وہ ہمارے لیے احد میں مشک بھر بھر کر پانی لاتی تھیں‘۔ (الاستیعاب)
فاطمہ بنت قیسؓ مشہور صحابیہ ہیں۔ ابتدائی مہاجرین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کے حالات میں علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:’’وہ عقل وکمال والی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان ہی کے مکان پر اصحاب شوریٰ جمع ہوئے تھے اور انھوں نے وہ تقریریں کی تھیں جو ان سے منقول ہیں۔ (الاستیعاب)
اس وقت سیاسی صورت احوال یہ ہے کہ عالمی اور ملکی سطح پر خواتین کی نمایندگی تقریباً تمام شعبوں میں پائی جاتی ہے۔ عالمی منظر نامے میں خواتین سیاست میں اہم مقام حاصل کرچکی ہیں۔ وہ اجتماعی زندگی کے فیصلوں اور قانون سازی جیسے معاملات میں مستقل طور پر کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس صورتِ حال میں دین کی علَم بردار اور باحجاب خواتین یہ محاذ خالی نہیں چھوڑ سکتیں۔ ان خواتین کے لیے سیاست اپنے ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ اقامت دین کے لیے ناگزیر ہے۔ جب دین قائم ہوگا تو نظام عبادت سمیت معاشرت، تمدن ہر چیز محفوظ ہوگی۔ جب سیلابی ریلا آتا ہے تو صرف اپنے گھر کی فکر سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر ریلے کے آگے اجتماعی قوت صرف کر کے بند باندھ دیا جائے تو سبھی کی حفاظت کا اہتمام ہوتا ہے۔ محض خود کو بچانے کی کوشش سب کو بہالے جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اقامت دین کی جدوجہد کے حوالےسے رہنمائی فرمائی ہے کہ’’اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں‘‘(الحج ۲۲:۴۰)۔یعنی دین کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ لادین لوگوں کو اقتدار سے بے دخل کیا اور غیرمؤثر بنایا جائے۔ دُنیوی زندگی کی تعمیروتشکیل اور ترقی کا مرکزی ہدف عقیدے اور عمل کے فساد کا خاتمہ ہے۔
اسی وجہ سے آپ ؐکے زمانے میں خواتین نے ہجرتیں بھی کیں، جنگ کے میدانوں میں بھی گئیں، جہادی مہمات میں کھانا تیار کرنے، زخمیوں کو پانی پلانے، مرہم پٹی کرنے، شہدا کی میّتوں کو میدانِ جنگ سے اٹھا کر واپس لانے کی ذمہ داری بھی ادا کی، حتیٰ کہ ام عمارہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے سیکورٹی گروپ میں شامل ہوگئیں اور آپ ؐ کی حفاظت کا فریضہ مردانہ وار ادا کیا۔ آپ ؐ نے تحسین فرمائی ایک عورت کی اس شجاعت اور دلیری کی۔ فرمایا: ’’اُحد کے موقعے پر جدھر بھی رُخ کرتا اُمِ عمارہ کو سامنے موجود پاتا‘‘۔
آپؐ نے ام عمارہؓ کو اس خدمت پر مامور نہیں فرمایا تھا۔ اُمِ عمارہؓ نے خود یہ اجتہاد کیا کہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت دراصل اسلامی ریاست کی حفاظت ہے۔ آپؐ نے ان کی تعریف فرمائی۔ گویا اسلامی ریاست کی حفاظت عورتوں پر مردوں کی طرح لازم نہیں ہے، لیکن عورتیں اپنی صلاحیت کے مطابق حصہ لینا چاہیں اور اس دوران میں شریعت کی حدود کی پابند رہیں تو انھیں روکا نہیں جاسکتا۔ البتہ عورت کے ہاتھ میں خنجر دینا اس کی فطرت سے متصادم ہے۔ تاہم، اس کے باوجود اسلام عورتوں کو اپنی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھانے کی اجازت دیتا ہے مگر بالعموم خواتین کو فوجوں میں بھرتی کرنا اور ان سے مردوں والی خدمات لینا اسلام کی پالیسی سے خارج ہے۔
جنگ حنین میں اُمِ سلیمؓ ایک خنجر ہاتھ میں لیے پھر رہی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ: ’یہ کس لیے ہے؟‘کہنے لگیں: ’اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی‘ ( مسلم)۔اُم عطیہؓ سات لڑائیوں میں شریک ہوئیں۔ کیمپ کی حفاظت، سپاہیوں کے لیے کھانا پکانا، زخمیوں اور بیماروں کی تیمارداری کرنا ان کے سپرد تھا۔ (ابن ماجہ)
اس وقت اُمت مسلمہ پر صلیبی، صہیونی اور لادینی حملہ ہوچکا ہے۔ یہ حملہ اس وقت سے ہے جب انگریز اور دیگر سامراجی قوتوں نے مسلم علاقوں پر قبضے کیے۔ اس وقت سے ان قوتوں نے اللہ کے نظام کو معطل کر کے طاغوتی نظام رائج کیے۔ آزادی کے بعد بھی اس نے اس بات کا اہتمام کیا ہوا ہے کہ اس کا نظام جاری وساری رہے۔ اگر کسی ملک میں جزوی طور پر اسلامی احکام جاری ہوگئے ہیں، تو انھیں منسوخ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس بنا پر پاکستان میں اسلامی حدود، تعزیرات اور ناموس رسالتؐ کے قوانین کو ختم کرنے کے لیے کوششیں اور شور برپا کیا جاتا ہے۔
عالمی ایجنڈوں کے تحت خواتین کی مساوی شمولیت کی کوششیں بڑی قوت سے ہو رہی ہیں۔ اس وقت خواتین کو سیاست میں نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ ایسے میں دین دار خواتین کی اس میدان کے لیے عملی تربیت نہ کی گئی تو بڑے خسارے کا سودا ہوگا۔ مسلم اُمہ کے مجموعی طور پر اجتماعی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی حالات بہت دگرگوں ہیں۔ جس میں اجتماعی سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے۔
اس بات کو اگر بڑی واضح مثال کے ساتھ پیش کیا جائے تو ذہن میں یہ منظر سامنے رکھیے: جس وقت خواتین لادینیت کی تبلیغ کررہی ہوں، تو کیا دین دار خواتین کو میدان لادین طبقے کے لیے خالی چھوڑ دینا چاہیے؟ بدقسمتی سے آج سیاسی میدان میں لادین قوتیں سرگرم عمل ہیں۔ خواتین اسلام ان کے لیے میدان کیوں خالی چھوڑدیں۔
قابل مبارک باد ہیں وہ خواتین جو ایک طرف چادر اور چار دیواری کے تقاضوں کے ساتھ اپنے خانگی امور انجام دے رہی ہیں، تو دوسری طرف سیاست کے میدان میں لادین عورتوں کا مقابلہ کررہی ہیں۔ ان شاء اللہ وہ اللہ کے ہاں دہرے اجر کی مستحق ہوں گی۔
(مآخذ: lاسلام اور مسلم خواتین،سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ lعورت اور سیاسی حقوق، جماعت اسلامی حلقہ خواتین lعورت اور اسلام،مولانا سید جلال الدین عمری)
ہر سال ۴ستمبر پوری دنیا میں ’عالمی یوم حجاب‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کا انعقاد فرانس میں حجاب پر پابندی کے بعد لندن میں ۲۰۰۴ء میں ایک کانفرنس کے موقعے پر عالم اسلام کے ممتاز رہنمائوں نے طے کیا تھا، جس کی قیادت علامہ یوسف القرضاوی کرر ہے تھے۔
اس کا پس منظر یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے مذہبی شعائر کے خلاف مغربی میڈیا کا تعصب بڑھتا ہی جارہا ہے۔ حجاب کے خلاف کہیں پارلیمنٹ میں قانون سازی ہورہی ہے تو کہیں جرمانے عائد کیے جارہے ہیں۔ ان شعائر کو جو اسلامی تہذیب کی علامات ہیں: انتہا پسندی، قدامت پرستی اور دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے۔ فرانس، ہالینڈ، ڈنمارک، بلجیم اور اٹلی حجاب پر پابندی عائد کرچکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سابق فرانسیسی وزیر برنر سٹازے کی زیرصدارت کمیٹی نے تمام سرکاری اداروں میں حجاب پر پابندی لگاتے ہوئے کہا: ’’ہم کوئی بھی دینی علامت لے کر تعلیمی اداروں میں آنے کی اجازت نہیں دے سکتے چاہے وہ حجاب ہو یا صلیب کا نشان ہو یایہودی ٹوپی ’کیپا‘‘‘، جب کہ مسلم ملک تیونس کے صدر نے برملا کہا کہ ’’حجاب میں جارحیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے‘‘۔
مشاہدے کی بات ہے کہ سیکورٹی فورسز کا ایک ملازم یہ چاہتا ہے کہ اس کے لباس سے لوگ اندازہ کرلیں کہ وہ قانون کا محافظ ہے، ایک عیسائی نن کے لباس یا ڈاکٹر کے سفید کوٹ سے لوگ ان کے کردار کی شناخت کرلیں۔ بالکل اسی طرح ایک مسلمان عورت کاساتر لباس یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ لوگ اس کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آئیں، تو پھر یہ حجاب ان کی نظر میں تشدد کی علامت کیسے ہوگیا؟
ایک اور ظلم یہ کہ آزادیِ افکار کا راگ الاپنے والے معاشرے مسلمانوں کو حجاب کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ جب بھی حجاب کی وجہ سے مسلمانوں سے امتیازی سلوک کی شکایت کی جاتی ہے، تو جواب میں ایک ایسا پروپیگنڈا شروع کردیا جاتا ہے کہ جس میں دنیا کے سارے جرائم اور تشدد کو مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن گرداننے والے یہ مغربی انتہاپسند، مسلمان عورت کو گز بھر کپڑا سر پر رکھنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں، جب کہ حجاب صرف عورتوں ہی کی ضرورت نہیں بلکہ معاشرے کو بھی پاکیزہ بناتا ہے۔ جس طرح عریانی اور فحاشی کے معاشرے پر اثرات ہوتے ہیں اس طرح حجاب کے بھی معاشرے پر گہرے مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ لیکن چاہے حجاب ہو یا داڑھی، ان کو بلاجواز متنازعہ بناکر ان پر پابندیاں لگائی اور طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں باحجاب طالبات کی تضحیک کی جاتی ہے اور ان کے اسکارف اتروائے جاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمان ان متعصب رویوں اور امتیازی قوانین کی وجہ سے بہت سے مسائل سے دوچار ہیں۔
ہمیں اس چیلنج کو سمجھنا ہوگا کہ مسلمان خاندان اور ان کے اسلامی شعائر، سامراج کی نظروں میں کھٹکتے ہیں اور دنیا بھر میں استحصالی قوتیں مسلمان عورت کے اس بنیادی حق کو سیکولر ازم کے بالمقابل دہشت گردی کی علامت کے طور پر پیش کررہی ہیں۔ باحجاب مسلمان عورت، مغرب یا مغرب زدہ لوگوں کی نظر میں ’پس ماندہ اور فرسودہ‘ ہے، جب کہ اس کے برعکس یہی مسلمان عورت حجاب میں خود کو زیادہ محفوظ اور باوقار محسوس کرتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان عورت کو حجاب نے کبھی صحت مند معاشرتی کردار ادا کرنے سے نہیں روکا۔
oحجاب، عورت کو تقدس ہی نہیں تحفظ بھی عطا کرتا ہے۔ یہ شیطان اور اس کے حواریوں کی ناپاک نظروں سے بچنے کے لیے ایک محفوظ قلعہ ہے۔
oجب عورت پردہ اتار دیتی ہے تو اس کی مثال فوج کے اس سپاہی جیسی ہوتی ہے، جو میدان جنگ میں اپنے ہتھیار پھینک دے اور خود کو دشمن کے حوالے کردے۔ کیوں کہ پردہ مسلمان عورت کی ڈھال ہے۔
oایک مسلمان عورت کے لیے یہ ایمان کے بعد خوب صورت ترین تحفہ ہے، جو معاشرے سے بے حیائی کی جڑ کاٹ کر اس کی نسلوں کو پاکیزہ ماحول مہیا کرتا ہے۔
oحجاب، عورت کو ظاہری نمود ونمایش اور غیر ضروری اخراجات سے روکتا ہے اور سادگی سکھاتا ہے۔
oشرم وحیا، عورت کا سب سے بڑا زیور ہے اور اس قیمتی زیور کی حفاظت پردے کے بغیر ممکن نہیں۔
oایک باحجاب عورت بلاضرورت گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرتی ہے۔ اس طرح وہ اپنے گھریلو فرائض کے لیے زیادہ وقت نکال سکتی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کا جہاد کہا ہے۔
oایک باحجاب عورت خود کو محفوظ سمجھتی ہے، اور اسے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
oوہ ماحول کی آلودگی اور موسم کی شدتوں سے دیگر خواتین کی بہ نسبت زیادہ محفوظ ہوتی ہے۔
oایسی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکیں گی۔
بتولےؓ باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرےؓ بگیری
[ارمغانِ حجاز]
سیّدہ فاطمۃ الزہرا [بتول] بن جائو، اور اس زمانے کی نظروں سے چھپ جائو کہ تمھاری گود میں ایک شبیرؓ پرورش پاسکے۔
ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ کو یہ حجاب اور پردے کی صفت اتنی محبوب ہے کہ ہر تخلیق کرنے والی ہستی کو اپنی طرح حجاب میں رہنے کا پابند بناتا ہے، تاکہ وہ اپنی تخلیق کی بہتر حفاظت اور پرورش کرسکے۔ چنانچہ ایک شعر میں فرماتے ہیں ؎
حفظِ ہر نقش آفریں از خلوت است
خاتمِ اُورانگین از خلوت است
[جاوید نامہ]
ہر نقش آفریں کی حفاظت خلوت سے ہے، اورخلوت ہی اس کی انگوٹھی کا نگینہ ہے۔
مراد یہ ہے کہ آفاق کے سارے ہنگامے پر نظر ڈالو۔ تخلیق کرنے والی ہستی کو جلوت کے ہنگاموں کی تکلیف نہ دو۔ اس لیے کہ ہر تخلیق کی حفاظت کے لیے خلوت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے صدف کا موتی خلوت میں جنم لیتا ہے۔
پھر فرماتے ہیں[ارمغانِ حجاز] :
بہل اے دخترک ایں دلبری ہا
مسلماں را نہ زیبدکافری ہا
منہ دل بر جمالِ غازہ پرورد
بیاموز از نگہ غارت گری ہا
اے میری پیاری بیٹی، دلبری (آرایش وزیبایش) کے انداز چھوڑ دو کہ مسلمانوں کو یہ کافرانہ ادائیں زیب نہیں دیتیں ۔(یعنی، اس مصنوعی آرایش وغازے کی سرخی کو چھوڑ کر کردار کی طاقت سے دلوں کو مسخر کرنا سیکھو)۔
ایک ایسے وقت میں، جب کہ اقبال کی شاعری کو بطور فیشن ہر مقرر اپنی تقریر کی زینت بنارہا ہے ہمیں اُن کی شاعری کے اصل پیغام کو سمجھنا اور اُس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
ہمیں کیا کرنا ہے؟
oہمیں مغرب کے منافقانہ طرز عمل کے خلاف ہر سطح پر آواز اٹھانا چاہیے اور دنیا بھر میں پردے اور حجاب کی بنیاد پر امتیازی سلوک یا تعصب کا نشانہ بننے والی خواتین کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنا چاہیے۔
oمیڈیا اور کاروباری ادارے جس طرح عورت کی خوب صورتی کو تجارتی اور گھٹیاتشہیری مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، یہ عورت کی توہین ہے۔ خود خواتین کی جانب سے اس کی مذمت اور مخالفت کی جانی چاہیے۔
oمعاشرے میں حیا کے چلن کے فروغ کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے، جس کے لیے قرآن وسنت دونوں اصناف (مردوں اور عورتوں) کو واضح ہدایات دیتے ہیں۔
oمعاشرے میں عورت کے اس تحفظ اور احترام کو یقینی بنانا چاہیے، جس کی بنیاد پر ہم اسلام اور مسلمانوں کو مغرب سے بہتر سمجھتے ہیں اور اس برتری کو ثابت بھی کرتے ہیں۔
oمغربی اور بھارتی فلمی کلچر کے اثرات کے باعث عورتوں کو عریانیت کی طرف لانے والے عوامل کی اصلاح کرنی چاہیے۔
oیہ بتانا چاہیے کہ حجاب نہ صرف دل اور آنکھ کا ہے اور نہ صرف اُوڑھے ہوئے برقعے، چادر یا اسکارف کا، بلکہ آنکھ اور دل بھی ان کے ہم رکاب ہونے چاہییں۔
m ۴ستمبر یوم حجاب کے طور پر منایا جاتا ہے [یہ دن تو ایک علامت ہے، وگرنہ ایک مسلمان کے لیے ہر روز، ’یومِ حجاب‘ ہے]۔اس موقعے پر ہم اس بات کا عزم کریں کہ حجاب محض سر لپیٹنے کا نام نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنے پورے معاشرے کو شیطان اور اس کے چیلوں سے آزادی دلانی ہے۔ یہ نظام شیطانی اخلاق سے آزادی حاصل کرنے اور اپنے معاشرے اور اپنے خاندان کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کا نظام ہے۔
oحجاب ایک تحریک ہے، چادر بتولؓ اور یادگارِ فاطمہؓ و عائشہؓ ہے۔ بس یہی ایک ذریعہ ہے جس سے ہم اپنے معاشرے اور مستقبل کا تحفظ کرسکتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک پاکیزہ نسلِ انسانی کو چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔
oاپنے بہترین خاندانی نظام اور اقدار کی حفاظت وقدردانی کریں اور اپنی نسلوں کی تربیت قرآن وسنت کی روشنی میں کریں تاکہ حیا کا کلچر پروان چڑھے۔
عورت ہی تہذیب کی عمارت کا ستون ہے۔ وہ مایوسیوں میں اُمید کے چراغ کو روشن کرتی ہے۔ اپنے خون جگر سے ایک بے جان لوتھڑے کو انسان بناتی ہے۔ وہ ایک روشن مشعل کی طرح اندھیروں سے لڑبھڑ جانے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ کبھی نہ بجھنے والے چراغ کی مانند نسلِ نو کی رہنمائی کرتی ہے۔ اُس کی پکار ہمیشہ محبت کی پکار ہوتی ہے۔ اُس کی صدا زندگی کا پیام بن کر صدیوں سے راہیں منور کررہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اُس کی ردا اُسے لوٹانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔
یہ فائل سپورٹ نہیں کررہی
رمضان المبارک کا اہم ترین تحفہ ’دُعا‘ ہے۔ عرش اُٹھانے والے فرشتوں کو فارغ کر کے روے زمین کی جانب روانہ کردیا جاتا ہے کہ روزہ داروں کی دعائوں پر ’آمین‘ کہیں۔ دعا کے لیے اس سے قیمتی، اس سے زیادہ مبارک اور یاقوت و الماس سے گراں و نایاب لمحات اور کون سے ہوسکتے ہیں!
قرآنِ مجید میں بھی رمضان المبارک کے احکام و فضائل بیان کرتے ہوئے درمیان میں دعا کا اچانک ذکر آجاتا ہے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرشُدُوْنَo(البقرہ ۲:۱۸۶) ’’اور اے نبیؐ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے ، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ شاید کہ وہ راہِ راست پالیں‘‘۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ ’رمضان‘ اور ’دعا‘ میں انتہائی گہرا ربط پایا جاتا ہے، اور دعا کی مقبولیت کے قیمتی ترین لمحات اسی ماہ میں رکھے گئے ہیں۔ رمضان عبادت کے لیے موسمِ بہار ہے اور دعا کے بارے میں کہا گیا کہ اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ’’دعا عبادت کا مغز ہے‘‘(ترمذی)۔ اسی بناپر احادیث میں رمضان المبارک میں کثرت سے دعا مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔
بندئہ مومن کی تو شان ہی یہ ہے کہ وہ تنگی و فراخی ہرحال میں دست ِ دعا دراز کیے رکھتا ہے، اور اپنے ضُعف کے مقابلے میں مالکِ دوجہاں کی قوت اور اپنے فقروعجز کے مقابلے میں اپنے رب کے خزانوں اور اس کی عطا پر نظر رکھتا ہے۔ رب کو بندے کے پھیلے ہوئے ہاتھ اور قلب ِ منیب ہی مطلوب ہے۔ اسی لیے دعا نہ مانگنے کو تکبر سے تعبیر کیا گیا ہے: ’’ تمھارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘(المومن۴۰:۶۰)۔ یعنی رب کو نہ پکارنا، اس کی جناب میں التجا سے بے نیازی برتنا گویا کبر کی علامتوں میں شامل ہے۔ اسی طرح سنن ترمذی میں رسول اکرمؐ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ’’جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضب ناک ہوجاتا ہے‘‘۔ سنن ابوداؤد میں حضرت سلمانؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا کہ ’’تمھارا رب حیا کا پیکر اور صاحب ِ عزت و تکریم ہے۔اسے اس بات سے حیا آتی ہے کہ بندے کے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی ہاتھ لوٹا دے‘‘۔ نہ صرف یہ کہ وہ خالی ہاتھ لوٹاتے ہوئے شرماتا ہے بلکہ وہ ہمیں خود بلاتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہم اس سے مانگیں اور صرف اسی کے آگے دست ِ سوال دراز کریں۔ وہ قرآن میں جگہ جگہ ہمیں پکارتا ہے کہ آئو اپنے گناہوں کی معافی مانگو، مجھ سے استغفار طلب کرو، اور مخلوق کی شان بھی یہ ہے کہ خالق سے رجوع کرے۔ ہر حاجت اس سے طلب کرے۔ کھڑے، بیٹھے، لیٹے اسی کو پکارے۔ دعا کے ذریعے رب سے جو تعلق پیدا ہوتا ہے، وہی عبادت کی اصل روح ہے جو ہرحاضرو موجود سے بیزار کرکے اسی کے دَر سے وابستہ کردیتا ہے اور یہی ’حقیقی وصال‘ ہے۔
قرآن جہاں دعا مانگنے کی بار بار تاکید کرتا ہے وہاں دعا کے کچھ آداب اور شرائط بھی بیان کرتا ہے: وَّ ادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ط (الاعراف ۷:۲۹) ’’اور پکارو اس کو خالص اس کے فرماں بردار ہوکر‘‘۔ اور روزے اور طاق راتوں کی عبادت کے لیے بھی یہی لازم ہے کہ وہ ’ایمان اور احتساب‘ کے ساتھ ادا کی جائیں۔ لہٰذا رمضان میں جب جب دست ِ دعا دراز کریں تو قرآن کی شرط ’دین خالص‘ کو ضرور یاد رکھیں کہ کیا واقعی ہم نے دین کو رب کے لیے ’خالص‘ کردیا ہے، یا دوسرے نظریات یا اپنی نفسانی خواہشات کی بھی کہیں کہیں آمیزش ہے۔ نیز یہ کہ ’دین‘ کہیں ہماری شخصیت میں محض ضمیمے کے طور پر تو موجود نہیں کہ مروجہ غیراسلامی رسوم و رواج کے بھی ہم غلام رہیں۔ ہمارے سود و زیاں کے پیمانے بھی وہی ہوں جو دین سے بے نیاز لوگوں کے ہیں۔ ہمارا نفس بھی رعایتوں کا خوگر رہے۔ ہم نے بھی خود کو ’حالت ِ اضطرار‘ میں سمجھتے ہوئے بہت کچھ ناجائز اپنے لیے جائز ٹھیرا لیا ہو اور ہمارے اجتماعی دینی رویوں میں سارا زور عبادات پر ہو اور معاملات ہم غیراللہ کے حوالے کردیں اور ان کی رہنمائی میں سرانجام دیں۔ جب ہماری بندگی اور اطاعت اللہ کے لیے خالص ہوگی تب ہی دعائوں میں بھی اثر پیدا ہوگا۔
قبولیت ِ دعا کے لیے اہم ترین شرط ’رزقِ حلال‘ بھی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا: اپنے مومن بندوں سے اس نے کہا ہے: اے ایمان والو! تم میری دی ہوئی روزی میں سے حلال اور پاک چیزیں کھائو۔ پھر آپؐ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو کسی مقدس مقام پر طویل سفر طے کرکے آتا ہے۔ پریشان حال اور غبارآلود ہے مگر حال یہ ہوتا ہے کہ اس کا کھانا حرام، لباس حرام اور اس کا جسم حرام غذا سے پلاہوا۔ پس اس شخص کی دعا کس طرح قبول ہو (ترمذی)۔ ہم میں سے اکثر لوگ اپنی دعائوں کی عدم قبولیت پر مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر اس حدیث کو ہم مدنظر رکھیں تو دعائوں کی عدم قبولیت کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جس معاشرے میں مالی بدعنوانی عام ہو، حلال و حرام کا فرق مٹ جائے، رشوت کا چلن عام ہو، سودی نظام معیشت ہو اور پھر ہم شکوہ کریں کہ اللہ ہماری دعائیں قبول نہیں کرتا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان سب سیاہ کاریوں کے باوجود اب بھی اس نے ہماری دعائوں کے لیے آسمانوں پر اپنے دروازے بند نہیں کیے ہیں اور وہ ہمارے پلٹنے اور رجوع کا منتظر ہے۔
قرآن دعا کا ایک ادب یہ بیان کرتا ہے کہ اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًاط (اعراف۷:۵۵) ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے‘‘۔ گویا صرف الفاظ میں عاجزی اور مسکنت نہ ہو، بلکہ دعا مانگنے والا اللہ کے سامنے اپنی ذلت، درماندگی، ضعف، پستی اور بندگی کا زندہ شعور رکھتا ہو۔ اور ’خوف‘ اور ’رجا‘ سب اسی کے ساتھ وابستہ ہو۔ وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ط (اعراف۷:۵۶) ’’اس کو پکارو خوف اور اُمید کے ساتھ‘‘۔ اور یہ خوف اور اُمید کے درمیان رہنا ہی مومن کو راہِ اعتدال پر قائم رکھتا ہے۔ صرف ’اُمید‘ انسان کو نڈر اور بے نیاز بنادیتی ہے اور وہ بے خوفی سے حدودِ الٰہی سے رُوگردانی کرسکتا ہے، جب کہ صرف ’خوف‘ انسان کو دل شکستہ اور غمگین بنا دیتا ہے اور انسان میں کم حوصلگی پیدا کرتا ہے،اور زندگی کو یاسیت میں دھکیل سکتا ہے۔ اسی لیے مومنانہ شان یہ ہے کہ خوف اگر ایک طرف بُرائی سے باز رکھتا ہے تو اُمید نیکیوں میں سبقت پر اُبھارتی ہے، اور یہی تقویٰ کی شان ہے۔ روزے کا بنیادی مقصد ہی لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ بتایا گیا ہے۔ سورئہ سجدہ میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘ (السجدہ ۳۲:۱۶)۔ گویا اللہ کے بندوں پر اور اقامت ِ دین کی راہ میں رزق خرچ کرنا درحقیقت ان کی دعائوں کے اخلاص کا مظہر ہے۔ قرآن کی اس آیت کی رُو سے اگر ان کا تقویٰ ان کو بستروں سے دُور کر کے، رب سے راز و نیاز میں مصروف رکھتا ہے تو وہ صرف خدا کو راضی کرنے کی تگ و دو میں اس کی مخلوق سے بے نیاز نہیں ہوجاتے، بلکہ ان کے تقویٰ کی تکمیل خلقِ خدا کی فلاح سے وابستہ ہے، جو ان کی دوڑ دھوپ کے لیے قوتِ محرکہ بنتی ہے۔ لہٰذا اگر ہم اپنی دعائوں کے اثرات و قبولیت کے متمنی ہیں تو اس کے لیے اپنے مال کو بھی جنت کے حصول کا ذریعہ بنانا ہوگا۔
قرآنِ مجید حضرت زکریاؑ کی دعا کا ان الفاظ میں تذکرہ کرتا ہے کہ ’’جب انھوں نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا‘‘ (مریم ۱۹:۳)۔ لفظ ’چپکے چپکے‘ سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ جس کو ہم پکار رہے ہیں وہ ہمارے بے حد قریب ہے۔ نہ صرف قریب ہے بلکہ ہماری جانب متوجہ بھی ہے اور سمیع بھی ہے۔ وہ ہروقت سننے پر تیار ہے، دینے پر تیار ہے، ہرلمحے منتظر ہے کہ کب ہم پلٹیں، رجوع کریں اور دستِ سوال دراز کریں۔ وہ اپنے عاصی بندوں کو اپنی رحمتوں کی چادر میں ڈھانپنے کو بے تاب ہے اور ماہِ رمضان ان رحمتوں کی سمت پلٹنے اور مغفرت طلب کرنے کا بہت قیمتی موقع ہے۔ نصف شب کے بعد بیداری اس سمیع و بصیر سے سرگوشیاں کرنے کا نادر موقع ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اس کے قرب کو محسوس کریں۔ جیسے اپنے دل کی دھڑکنیں سنتے ہیں، جیسے پہلو میں بیٹھے ساتھی سے سرگوشی میں بات کرتے ہیں۔ وہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے اور منتظر ہے کہ ہم کب اس کو پکاریں!
امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’بندے کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے اور جب تک وہ جلدی نہ مچائے‘‘۔ قطع رحمی اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ لہٰذا اگر ہم قبولیت ِ دعا کی خواہش رکھتے ہیں تو رمضان کی ان مبارک ساعتوں میں اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ اپنے رحم کے رشتوں کے حقوق کے معاملے میں ہم کتنے حساس ہیں اور دورانِ سال ہم سے ان حقوق کی ادایگی میں کہاں کہاں کوتاہی سرزد ہوئی ہے۔ نیز رحم کے رشتے جوڑنے میں ہم نے کہاں تک اپنی ذمہ داریاں پوری کیں۔ دجّالی فتنوں کے اس دور میں صرف ہمارے بچے ہی نہیں بلکہ اپنے اور شوہر کے بہن بھائیوں کے بچے بھی ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ ان کی تربیت بھی کسی درجے میں ہماری توجہ کا عنوان ہو۔ ایک موقعے پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں برکت ہو، وہ رحم کے رشتوں کو جوڑے‘‘۔ گویا قطع رحمی کرنے والا خود کو مستجاب الدعوات سمجھنے کا حق دار نہیں ہے۔
علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ ؑ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تین لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ حرام مال کھانے والا، غیبت کرنے والا اور وہ شخص جس کے دل میں اپنے مسلمان بھائی کے لیے بُغض یا حسدہو‘‘۔ گویا دست ِ دعا دراز کرنے سے قبل اپنے آئینۂ دل کو بُغض اور حسد سے پاک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جس دل میں اس کی مخلوق کے لیے ناپسندیدہ جذبات ہوں گے، وہ کبھی ’ قلب ِ سلیم‘ کے درجے پر فائز نہ ہوسکے گا۔ پس ثابت ہوا کہ ’مناجاتِ مقبول‘ کے لیے ’قلب ِ مطہر‘ بھی شرطِ لازم ہے۔ پھر صرف دل ہی نہیں زبان بھی ان گناہوں میں آلۂ کار نہ ہو۔ غیبت بھی قبولیت ِ دعا کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کے اس قول کی روشنی میں بھی ہم اپنی دعائوں کی حقیقت کا بے لاگ جائزہ لے سکتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
قرآنِ مجید نے ہمیں بہت سی دعائیں سکھائی ہیں۔ پیغمبروں ؑ کی دعائوں کے بھی تذکرے کیے ہیں۔ خود سورۃ الفاتحہ بہترین دعا ہے۔ نبی کریمؐ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق تھا اس کا اظہار اُن دعائوں سے ہوتا ہے جو آپؐ نے مختلف مواقع پر مانگیں، مثلاً: ایک دعا کے الفاظ ہیں:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ الْاَشْیَائِ اِلَیَّ وَاجْعَلْ خَشْیَتَکَ اَخْوَفَ الْاَشْیَائِ عِنْدِیْ وَاقْطَعْ عَنِّیْ حَاجَاتِ الدُّنْیَا بِالشَّوْقِ اِلٰی لِقَائِکَ وَاِذَا اَقْرَرْتَ اَعْیُنَ اَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ دُنْیَاھُمْ فَاَقْرِرْ عَیْنِیْ بِعِبَادَتِکَ (کنزالعمال، عن ابی بن مالکؓ) اے اللہ! اپنی محبت کو تمام چیزوں سے زیادہ محبوب بنادے اور اپنے ڈر کو تمام چیزوں کے ڈر سے زیادہ کردے اور مجھے اپنے ساتھ ملاقات کا ایسا شوق دے کہ میری دنیا کی محتاجیاں ختم ہوجائیں، اور جہاں تو نے دنیا والوں کی لذت ان کی دنیا میں رکھی ہے، میری لذت اپنی عبادت میں رکھ دے۔
آپؐ کی ایک بہت پیاری دعا کے الفاظ یہ ہیں:
رَبِّ اجْعَلْنِیْ لَکَ ذَکَّارًا لَکَ شَکَّارًا لَکَ رَھَّابًا لَکَ مِطْوَاعًا لَکَ مُطِیْعًا اِلَیْکَ مُخْبِتًا اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُّنِیْبًا (ترمذی، عن ابن عباسؓ) میرے رب، مجھے ایسا بنا دے کہ میں تجھے بہت یاد کروں، تیرا بہت شکر کروں، تجھ سے بہت ڈرا کروں، تیری بہت فرماں برداری کیا کروں، تیرا بہت مطیع رہوں، تیرے آگے جھکا رہوں، اور آہ ، آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں‘‘۔
نبی پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائوں کو زبان پر لاتے ہوئے یہ بات بھی یاد رہے کہ آپ ؐ نے یہ دعائیں بدر کی گھاٹیوں، اُحد کے پہاڑوں،طائف کے بازاروں میں پتھروں کی بارش کے دوران، شعب ابی طالب میں معاشی مقاطعے کے دوران، گھوڑے کی پیٹھ پر اور تلواروں کی چھائوں میں مانگی تھیں۔ ان دعائوں کی قبولیت ہمارے سامنے ہے۔ ہم یہ دعائیں مانگتے ہوئے حق اور باطل کی کش مکش میں اپنے کردار پر بھی نظر ڈالیں۔
ایک عورت کے نقوشِ پا جس پر انسانیت کے قافلے شرف کے ساتھ دوڑ رہے ہیں، اور جب تک دنیا قائم ہے ’سعی‘کا یہ عمل جاری و ساری رہے گا۔ لبیک اللھم لبیک کی صدائوں کے ساتھ لوگ دیوانہ وار لپک رہے ہیں، منزلِ مراد پارہے ہیں، طواف کے بعد صفا اور مروہ کی سعی کررہے ہیں، اور اس واقعے کی یاد تازہ کر رہے ہیں جب حضرت ابراہیم ؑ کی زوجۂ محترمہ حضرت ہاجرہؓ اپنے ننھے لخت ِ جگر حضرت اسماعیل ؑ کے لیے پانی کی تلاش میں دوڑ رہی تھیں۔پیروں کی وہ دھول کیسی معتبر ٹھیری، مشقت کی وہ ادا کیسی پسند آئی، کیسا اکرام دیا رب نے ان نسوانی قدموں کے نشانات کو کہ اُمت کے مرد بھی کروڑوں کی تعداد میں ان نقوش پا پر دوڑ چکے ہیں کہ دوڑنے کی وہ ادا تو محبوبِ رب ٹھیری۔
آخر ایسا کیا تھا اس ادا میں جو قبولیت کی اس معراج کو پہنچی کہ شرفِ انسانیت قرار پائی، کمالِ نسوانیت قرار پائی۔ ایک عورت کی وہ قربانی جس نے صدیوں کو نور بخشا ہوا ہے، منور کیا ہوا ہے، ان قدموں کی وہ تابناکی، وہ ضوفشانی کہ انسانیت راہِ راست پر رہے گی جب تک ان قدموں کے نشانات اور اسی جذبے کو سنگ ِ میل بنائے رکھے گی۔ صدیوں کی گرد جھاڑیئے___ چشمِ تصور کو ماضی کے ان لمحوں میں وا کیجیے اور دیکھیے کہ حضرت ابراہیم ؑ جو خلیل اللہ ہیں، مسلم حنیف ہیں___ اب تک کی ہرآزمایش میں پورا اُتر چکے ہیں، عشق سے بڑھ کر فدائیت کی منزلوں میں ہیں___ حکمِ ربی ہوتا ہے کہ اپنی اہلیہ اور صاحب زادے اسماعیل ؑ کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین میں لے جاکر چھوڑ دیں۔ حکم ربی کی تعمیل فرماتے ہیں۔ حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑ کو اس غیرآباد اور بنجرسرزمین میں چھوڑ کر چلے آتے ہیں۔ نہ آدم ، نہ آدم زاد، نہ سبزہ نہ پانی، نہ دُور تک کسی چرندپرند کا نام و نشان___ایسا ویران ایسا سنسان جنگل جہاں سانسوں کی بھی آہٹ محسوس ہوتی ہو۔ نومولود اور اس کی ماں اس ویرانے کو آباد کرنے آئے ہیں۔ امکانات اور نتائج پر نظر رکھنے والے تو سرجھٹک کر اسے دیوانے کی بڑ ہی کہیں گے۔ناممکن العمل اور ناقابلِ یقین ہی گردانیںگے، مگر یہاں تو تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہونے جا رہا ہے۔ عزیمتوں کی ناقابلِ تصور داستان کا ایک سنہرا باب!
حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑ کے لیے توشہ بھی کیا ہے؟ ملاحظہ کیجیے: چمڑے کا تھیلا کھجوروں سے بھرا، اور ایک چھوٹا سا پانی کا مشکیزہ___ حضرت ہاجرہؓ کے حوالے کر کے حضرت ابراہیم ؑ پلٹ جاتے ہیں۔ اب کیا ہونا ہے؟ آگے کیا کرنا ہے؟ مستقبل کی صورت گری کیا ہوگی؟ آگے کے منصوبے کیا ہیں؟ اس ویرانے میں ان دو کمزور جانوں کا تیسرا پُرسانِ حال کون ہوگا؟ ایک نسوانی ذات کے ساتھ یوں بھی لاکھ تحفظات ہوتے ہیں___کون چھوڑتا ہے یوں محبت کرنے والی بیوی اور نورالعین کو___اگر کوئی جنگلی درندہ ہی آنکلا تو کیا ہوگا؟اندیشے ہیں، وسوسے ہیں، خطرات ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کو جو جاتے دیکھا تو حضرت ہاجرہؓ پیچھے لپکیں۔ کب آئیں گے واپس؟آگے کیا ہوگا؟ محبوب بیوی پکار رہی ہے، روک رہی ہے کہ سوالوں کے جواب تو دے کر جائیں لیکن ابراہیم ؑ رُک جاتے تو تاریخ ٹھیرجاتی___ زمان و مکان کی گردش رُک جاتی کہ تاریخ کو تو تیزی سے بغیر رکاوٹ کے اپنا یہ باب رقم کرناتھا۔ عشق و فدائیت کی یہ لازوال داستان اُدھوری رہ جاتی۔ اگر ابراہیم پلٹ کر دیکھ لیتے تو شفقت ِ پدری غالب آجاتی یا حضرت ہاجرہؓ کی بے چارگی پیروں کی زنجیر بن جاتی ۔ اس لیے صدائیں سماعتوں سے ٹکراتی رہیں اور حضرت ابراہیم ؑ نے پلٹ کر نہ دیکھا کہ یارا ہی نہ تھا دیکھنے کا! آخر ایک رقیق القلب دل کے مالک تھے___ وہ قلب جس کی مدح سرائی خود قرآن کرتا ہے، وہ شخصیت جس کا ذکر رب اس محبت سے کرتا ہے کہ خود لفظ ’محبت‘ معتبر ہوجاتا ہے۔
جب حضرت ابراہیم ؑ نے کسی صدا پر کان ہی نہ دھرا تو حضرت ہاجرہؓ ایک سوال کرتی ہیں۔ وہ سوال جس سے گردشِ افلاک لمحہ بھر کو ٹھیر سی جاتی ہے۔بس وہ سوال ہی انسانیت کی تاریخ کا بنیادی سوال تھا___ اور اسی سوال کے جواب میں انسانیت کی فلاحِ کل بھی مضمر تھی اور آج بھی مضمر ہے۔ اسی سوال کے جواب میں تو پیغمبربھیجے گئے___ شریعتیں اُتاری گئیں___ وہ سوال جو یکایک حضرت ہاجرہؓ کے پریشان حال، غمگین دل میں روشنی بن کر پیدا ہوا کہ ’’کیا اللہ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے؟‘‘ اب اسی سوال کے جواب پر باقی ماندہ منصوبۂ رب تشکیل پانا تھا۔ تیزتیز چلتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ نے بن پلٹے اس سوال کا یک لفظی جواب دیا اور لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہوگئے اور حضرت ابراہیم ؑکا وہ جواب تھا: ’ہاں‘۔ اس جواب نے خوف، وحشت، یاس کے سب سایے نگل لیے۔ ڈولتے وجود کو لمحوں میں قرار آگیا۔ تپتے ریگستان کو رحمتوں کی بدلیوں نے اپنے حصار میں لے لیا۔ اُمید اور آرزو نے ان نسوانی مُردہ قدموں میں جان ڈال دی۔ کیسا یقین___ بن دیکھے رب پر لازوال ایمان!
ایقان کی وہ دولت جس نے تاریخ کا دھارا موڑدیا۔ حضرت ابراہیم ؑ کا جواب سن کر حضرت ہاجرہؓ بے اختیار بول اُٹھتی ہیں: ’’پھر اللہ ہمیں ہلاک نہیں کرے گا‘‘۔ پھر پلٹ کر بھی حضرت ابراہیم ؑ کی سمت نہ دیکھا کہ اصلی وارث اور ولی جب اپنے حصار میں لے لے تو دنیاوی سہاروں سے بے نیاز کردیتا ہے۔ کیسا روشن ہوگیا تھا وہ سینہ لمحہ بھر میں ایمان سے۔ بس وہ ایک لمحہ ہی ہوتا ہے، معرفت کا لمحہ جو جادوگرانِ فرعون کو بھی رب سے آشنا کرگیا تھا، تاریخ میں امر کرگیا۔ انسانیت نے لمحہ بھر میں صدیوں کا سفر طے کرلیا اور انسانیت کو ایک درس مل گیا کہ رب کی رضاکے راہی کبھی ہلاکتوں سے دوچار نہیں ہوتے، کبھی بے راہ نہیں ہوتے، کبھی مادی پیمانوں سے سودوزیاں کا حساب کر کے اپنی منزل کھوٹی نہیں کرتے۔ بس دل کو رب کے حوالے کر کے جب منزل کو نظروں میں بسا لیتے ہیں تو ’زم زم‘ جاری ہوجایا کرتا ہے۔ صدیوں کی تاریخ سے چھنتی ایقان کی وہ روشنی آج بھی مشامِ جاں کو معطر کرنے کا سبب ہے۔
جب حضرت ہاجرہؓ ’ہاں‘کا جواب پاکر پلٹ گئیں تو حضرت ابراہیم ؑ کو بھی ایک گونہ قرار آگیا۔ پھر پہاڑی شینہ پر پہنچے۔ بیوی، بچہ نظروں سے اوجھل ہوچکے تھے۔ آسمان کی جانب دیکھا اور دل گرفتہ کھول کر رب کے سامنے رکھ دیا: ’’اے پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لابسایا ہے‘‘ (ابراہیم ۱۴:۳۷)۔
حضرت ہاجرہؓ نونہال کو چھاتی سے لگا کر دودھ پلاتی ہیں اور خود قلب ِ مطمئنہ کے ساتھ مشک سے پانی پیتی ہیں۔ بے آب و گیاہ وادی، مکہ کی گرمی، مشکیزہ کب تک ساتھ دیتا؟ پانی بالآخر ختم ہوگیا۔ دھوپ کی تمازت،تنہائی، ننھی جان کا ساتھ، لیکن پاے استقلال میں کوئی لغزش نہیں۔ زبان پر کوئی شکوہ نہیں، کوئی بدگمانی نہیں۔دل اس یقین سے شاداں و فرحاں ہے کہ رب کی رضا کا سفر ہے۔ ہر صعوبت ایک سعادت ہے یہاں۔ لیکن جسمانی تقاضوں سے کہاں مفر ہے؟ ننھے اسماعیل ؑ پیاس کی شدت سے تڑپ رہے ہیں، خود بھی حلق میں کانٹے پڑچکے ہیں۔ معجزوں کے انتظار سے کب منزلیں ملا کرتی ہیں؟ سب توانائیاں اکٹھی کر کے پانی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہیں۔ سامنے موجود پہاڑی صفا پر چڑھ جاتی ہیں۔ دُور دُور تک دیکھتی ہیں۔ اس بے آب و گیاہ میں تو سراب ہی سراب ہے۔ پہاڑی سے اُتریں، کُرتا سمیٹ کر نالے کے نشیب و فراز میں دوڑیں___ جیسے کوئی آفت رسیدہ دوڑتا ہے۔ انھیں کیا علم تھا کہ حالت ِ اضطرار میں اَٹا ہوا ان کا یہ ایک ایک قدم تاریخ کے ماتھے کا جھومر بنے گا۔ رب کو کتنے محبوب تھے اپنی راہ میں اُٹھے ہوئے یہ قدم۔ تب نالے کو پار کر کے مروہ کی پہاڑی پر چڑھیں اور بلندی پر پہنچ کر متلاشی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا کہ شاید آبِ حیات کا کوئی سراغ پالیں۔ اب پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان بے چارگی سے دوڑ رہی ہیں، سماعتوں سے ننھے اسماعیل ؑکے رونے کی آوازیں ٹکرا رہی ہیں۔ حالت ِ اضطراب میں سات چکر لگالیتی ہیں، جب کہ دل اس سے مناجات میں مصروف ہے جو کہ مسبب الاسباب ہے۔ اصل میں تو تلاش اسی کی تھی۔ جستجو کا سفر اسی کی معرفت کے حصول کے لیے تھا۔ تب ایک آواز سنتی ہیں مروہ کی بلندی پر___ عشق اپنے امتحان میں پورا اُترا۔ حضرت ہاجرہؓ ہی سرخرو نہیں ہوئیں حضرت ابراہیم ؑ کے خلیل اللہ ہونے کی لاج بھی رکھ لی اپنی استقامت سے۔
فرشتہ نمودار ہوا۔ اپنی ایڑی زمین پر ماری اور صرف حضرت ہاجرہؓ اور نومولود ہی کے لیے نہیں، رہتی دنیا کے لیے آبِ حیات جاری ہوگیا۔ ہاتھوں سے جلدی جلدی حوض بنانے لگیں، ساتھ ساتھ چلّو بھربھر کر مشک میں ڈالنے لگیں۔ کتنا معتبر ہوگیا تھا پانی ان کے ہاتھوں کا لمس پاکر___ ایسا اکرام ملا تھا پانی کو کہ خوب جوش مار رہا تھا۔ حضرت ہاجرہؓ پانی محفوظ بھی کر رہی تھیں اور اس کو حکم بھی کر رہی تھیں کہ ’’زم زم، ٹھیرجا، ٹھیرجا‘‘___ خوب سیر ہوگئیں رحمت ِرب کو پاکر۔ فرشتے نے امر کردیا ان لمحوں کو جب کہا کہ ’’اپنی جان کا خوف نہ کرو، یہاں ایک گھر بنے گا جو یہ بچہ اور اس کاباپ مل کر بنائیں گے۔ اللہ اپنے بندوں کو تباہ کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ (بخاری)
روایات میں ہے کہ اس وقت بیت اللہ کی جگہ زمین سے اُونچا ایک ٹیلہ تھا۔ اس بے آب و گیاہ وادی میں جب پانی دیکھا تو پرندے بھی آبسے اور پرندوں کے قافلوں کے ساتھ انسانوں کی آبادی بھی شروع ہوگئی۔ حضرت ہاجرہؓ کی سعی مقبول ٹھیری، معتبر ٹھیری۔ شوہر کی جدائی برداشت کی مگر حضرت اسماعیل ؑ کی تربیت میں کوئی کمی نہ آنے دی، اور ان کی پرورش کرکے اُمت کو قیادت فراہم کی۔ عورتوں کو نسوانیت پر فخر کرنا سکھایا۔ رہتی دنیا تک کے انسانوں کو زم زم کے تحفے سے فیض یاب کیا، جس کی ہربوند میں ان کی فدائیت اور عظمت کی خاموش سرگوشیاں ہیں۔
صرف ایک ’سعی‘ ہی نہیں، حج کے ہرعمل کو دیکھ لیجیے، تمام اعمال عاشقانہ ہیں اور بے تابانہ ہیں___ لبیک لبیک کا شور ہو یا کعبہ کا والہانہ طواف، حجراسود کو چومنا ہو یا صفا مروہ کی پُرجوش سعی۔ پسندیدہ بھی وہ ٹھیرا جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، جسم غبار میں اَٹا ہوا ہو کہ یہاں ہر ادا عشق کی ادا ہے۔ ایک گونہ بے خودی ہے، خود کو کھو کر کچھ پانے کی آرزو ہے۔ اور مطالبہ یہ کہ پورے دل اور دماغ کی حاضری کے ساتھ حضرت ابراہیم ؑ کی طرح مطلق عبدیت کا اعلان درکار ہے کہ: ’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا مَیں ہوں‘‘۔(الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)
حج کے افعال میں کوئی بحث و تمحیص اور فائدے کی بحث کی اجازت نہیں کہ اس عمل کا کیا فائدہ ہے؟ بس عبدیت کی شان بلاچوں و چرا اطاعت___ جس کی مثالیں وہاں کی زمین کے ہرذرّے پر بکھری پڑی ہیں اور جس میں دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لیے واضح سبق ہیں کہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے مرد تو کیا اس اُمت کی عورتوں نے بھی کسی خطرے کی پروا نہ کی۔ ایک عورت کے لیے تنہا بیابان صحرا، ایک ننھا شیرخوار وجود___ کیا کیا خطرات نہ تھے لیکن اللہ کے دین کی سربلندی ہرخطرے پر غالب رہی۔ حضرت ہاجرہؓ کے اسوے سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ حاجات و ضروریات سب ایک ہستی سے وابستہ کرلی جائیں۔ وہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ اسباب ظاہری پر بھروسا انسان کی مومنانہ شان کے خلاف ہے۔ حضرت ہاجرہؓ کی طرح آج بھی ہر سعی مشکور اور ہر دعا مقبول ہوسکتی ہے، اگر مسبب الاسباب کا حکم ہو تو___ کیا سعی کا یہ عمل، صفا و مروہ کے بیچ ریت کے وہ ذرّے جو حضرت ہاجرہؓ کے جذبۂ فدائیت سے مشک بار ہیں، حجاج کرام سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ فروغِ دین کے لیے اپنی محبوب ترین چیزوں کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہ کریں۔ بیوی بچوں کی زندگیاں بھی عبدیت کی راہ میں حائل نہ ہونے دیں۔ ہجرت بھی کرنا پڑے، غریب الدیاری سے بھی سابقہ درپیش ہو تو بھوک اور پیاس کا خوف جدوجہد کے راستے میں مزاحم نہ ہو۔ پتھروں کے دور میں جانے کا خوف قومی حمیت کو نیلام کرنے کا سبب نہ بنے کہ رزق کے خزانوں کی کنجیاں اس کے پاس ہیں جو بے آب و گیاہ وادی میں ’زم زم‘ جاری کرنے پر کل بھی قادر تھا اور آج بھی ہے۔ اسباب کی کوششیں ضرور ہوں مگر ہم اسباب کے غلام نہ ہوں۔ غیرمتزلزل اعتماد اس ذات پر ہو جس نے حضرت ہاجرہؓ و اسماعیل ؑ کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ ان سے ایک ایسی نسل چلائی جس نے اُمت مسلمہ کو سرفرازی عطا کی۔
یہ ’سفر عشق‘ ایک انقلاب کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر شعوری طور پر اس سفر کے مراحل اور افعال انجام دیے جائیں تو لاکھوں حجاج کرام، اُمت مسلمہ کے جاں باز سپاہی کے روپ میں سامنے آئیں جو دین کی سربلندی کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا عزم میدانِ عرفات سے لے کر پلٹیں کہ خانہ کعبہ سے، مسجد نبوی ؐ سے، منیٰ سے، عرفات سے، زم زم کے قطروں سے اور خاکِ حرم سے ایک ہی صدا آتی ہے اور وہ صدا ہے ___ کونوا انصاراللّٰہ، کون ہے اللہ کا مددگار؟
مضمون نگار ناظمہ حلقۂ خواتین صوبہ سندھ ہیں
پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ وقت کا رسولؐ اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی___ (اس وقت انھیں تسلی دی گئی کہ) ہاں، اللہ کی مدد قریب ہے۔ (البقرہ۲:۲۱۴)
یہی مضمون قرآن میں ان الفاظ میں دوسری جگہ بیان ہوا ہے: ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون‘‘ (العنکبوت۲۹:۱-۲)۔ صحابہ کرامؓ کی وہ آزمایش جس کا نقشہ قرآن نے سورۂ احزاب میں کھینچا ہے، اسے بھی پیش نظر رکھیے: ’’جب دشمن اُوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آگئے، اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے، اُس وقت ایمان لانے والے خوب آزمائے گئے اور بُری طرح ہلامارے گئے‘‘۔یاد کرو وہ وقت جب منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا صاف صاف کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے جو وعدے ہم سے کیے تھے وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھے‘‘۔ (الاحزاب۳۳:۱۰-۱۲)
یہ اللہ کی سنت ہے جس کی کسوٹی پر ہر وہ جماعت پرکھی جاتی ہے جو حق کی حامل بن کر کھڑی ہوتی ہے۔ ان راہوں میں جنھوں نے قدم رکھا، ان کو جو مصائب پیش آئے وہ جھنجھوڑ دیے گئے، ہِلامارے گئے۔ آپ غور تو کریں، ان الفاظ پر مَتٰی نَصْرُ اﷲِ (کب آئے گی اللہ کی مدد)۔ یہ الفاظ ان زبانوں سے ادا ہو رہے ہیں جن زبانوں پر سوائے ذکر اور شکر کے کچھ نہ ہوتا تھا۔ وہ قلوب مضمحل ہیں جو اللہ پر پختہ یقین رکھتے تھے، جن کی للہیت اور اخلاص کے بارے میں کسی کو شک اور شبہہ نہ ہوسکتا تھا۔ کس قدر ناقابلِ بیان ہوگی وہ آزمایش جو الْبَاْسَآئُ یعنی فقر و فاقہ کی بھی ہے اور الضَّرَّآئُ یعنی درد و اذیت کی بھی۔ شدید حالت ِ اضطرار میں یہ لفظ جو زبان سے ادا ہوتے ہیں مَتٰی نَصْرُ اﷲ، ان میں کوئی شکایت ہے نہ مایوسی، بلکہ ایک عرض ہے، التجا ہے، دعا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو تو بندوں کا رجوع مطلوب ہے کہ وہ رب کو پکاریں، ان کی نصرت طلب کریں ، کیونکہ نصرت کا آنا تو یقینی ہے، البتہ اس کا مقام اور وقت متعین نہیں ہے۔ اس لیے اس نصرت کی طلب ہمیشہ التجا بن کر زبان پر رہنا چاہیے۔
حقائق کی دنیا میں انسانی توقعات اور منصوبے شکست و ریخت کا شکار بھی ہوتے ہیں اور اس ناکامی میں کہیں کہیں ہماری عملی کوتاہیوں کا بھی دخل ہوتا ہے۔ ’’جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر پھول جاتے ہیں اور جب ان کے اپنے کیے کرتوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں‘‘ (الروم۳۰:۳۶)۔ ’’انسان جلد باز مخلوق ہے، ابھی میں تم کو اپنی نشانیاں دکھائے دیتا ہوں، مجھ سے جلدی نہ مچائو‘‘ (الانبیاء۲۱:۳۷)۔ جس طرح دنیاوی امور میں ہم ہر چیز کے فوری نتائج کے خواہش مند ہوتے ہیں، اسی طرح ہم دعوت اور اصلاح اور سماج کی تبدیلی کے نتائج بھی فوری دیکھنا چاہتے ہیں۔ ’’ہر گز نہیں، دراصل تم لوگ جلد حاصل ہونے والی چیز سے محبت رکھتے ہو، اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو‘‘ (القیامہ۷۵:۲۰-۲۱)۔ کبھی اس طرح کے غیر متوقع انتخابی نتائج پر ہم میں سے کچھ لوگ سوچنے لگتے ہیں کہ انتخابی جھنجھٹ کا کوئی حاصل نہیں۔ بہتر ہے کہ ہم دعوت و تبلیغ کا کام کریں، انتخابی شکست سماج میں ہمارا گراف نیچے گرا دیتی ہے۔
ہماری جو بھی حکمتِ عملی ہوتی ہے بہت سوچی سمجھی اور شورائی فیصلوں پر مبنی ہوتی ہے۔ خود مولانا مودودیؒ کی وہ تعلیمات ہمیں ازبر ہیں کہ چاہے جو بھی انتخابی نتائج ہوں، ہمیں یہ میدان خالی نہیں چھوڑنا ہے، اور تبدیلی جب بھی آئے گی، یہی واحد راستہ ہمارے پاس ہے۔ دعوت اور تبلیغ کی ٹھنڈی سڑک سے کب ہم تبدیلیٔ امامت کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں؟ ’’اور دونوں نمایاں راستے اسے دکھا دیے، مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی‘‘۔ (البلد۹۰:۱۰-۱۱)
ہم تو تبدیلی کا داعیہ لے کر اٹھے ہیں، اپنے نصب العین سے جذباتی وابستگی اور والہانہ لگائو کے بغیر ہماری اذانوں میں روحِ بلالی بھلا کیسے آسکتی ہے؟ کیا کوئی شکست ہمارے جذبات کو ٹھنڈا کر دے گی یا غلطیوں کے ازالے پر اصرار ہمیں سامانِ عبرت بنا دے گا؟؟
انتخابات ایک مرحلہ ہوتے ہیں۔ ہم کسی سیاسی جماعت کے انتخابی کارکن نہیں ہیں۔ ہماری داعیانہ حیثیت ہے۔ نصرتِ الٰہی کے قانون اور فطرتِ انسانی کے متعلق حقائق کو ہمیں سمجھنا چاہیے۔ جان رکھیے، دلوں کو بدلنے کی ذمہ داری اللہ نے ہرگز ہماری نہیں رکھی۔ ہماری صرف صاف صاف پہنچانے کی ذمہ داری ہے۔ ہم کوتوال نہیں ہیں، قرآن نے ۳۱ مقامات پر یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ بس تم یاددہانی کراتے جائو: ’’پس تم نصیحت کیے جائو، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو، کچھ ان پر جبرکرنے والے نہیں ہو‘‘۔ (الغاشیہ۸۸:۲۱-۲۲)
کیا ہم نے گلی گلی محلہ محلہ جاکر اپنی حجت تمام نہیں کی ہے؟ یوم سبت کے موقع پر جب نہی عن المنکر کرنے والوں کو ان کی قوم کے شرفا نے سمجھایا کہ: ’’تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنھیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والاہے، تو انھوں نے جواب دیا ہم یہ سب کچھ تمھارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں‘‘ (اعراف۷: ۱۶۴)۔ مسلم کی حدیث ہے: ’’بے شک بنی آدم کے دل اللہ رحمن کی انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ انھیں جیسے چاہتا ہے پھیرتا رہتا ہے۔ اس لیے ہم مشیت الٰہی میں دخل نہیں دے سکتے۔ مولانا مودودی سورئہ اعراف کی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’اس کی مشیت ایسی ذی اختیار مخلوق کو وجود میں لانے کی متقاضی تھی جو اپنی پسند اور اپنے انتخاب سے صحیح اور غلط ہر طرح کے راستوں پر جانے کی آزادی رکھتی ہو‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص ۵۲۸)
جان رکھیے کہ اگر ایک گروہ کے صاحبِ کردار بن جانے سے غلبۂ دین ممکن ہوتا تو مکہ میں آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں سے بڑھ کر کون صاحبِ کردار ہوگا؟ لیکن آپ کو مکہ سے ہجرت کرنا پڑی، حالانکہ آپ حق پر تھے اور تائید الٰہی بھی آپؓ کے ساتھ تھی۔ دراصل اللہ کو غلبۂ دین کے ساتھ یہ دیکھنا ہے کہ حق کا ساتھ دینے والے مخلص کتنے ہیں اور وہ کتنے جرأت مند ہیں۔ ’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا‘‘۔ (محمد۴۷:۷)
یہ ہماری فطری خواہش ہے کہ جس انقلاب کے پودے کو ہم پانی دے رہے ہیں اس کے پھل ہمیں نصیب ہوں، لیکن جان رکھیے کہ انسانی فطرت بہت مختلف ہوتی ہے۔ حق کو قبول کرنے کے مقابلے میں، کبھی تعصبات رکاوٹ بنتے ہیں تو کبھی مفادات۔ ہماری مخلصانہ خواہش ہوتی ہے کہ حق کو لوگ فوراً پہچان لیں، اس لیے کہ اس میں ان کی ہی بھلائی ہے مگر تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت علیؓ کو قبولِ حق میں ذرا بھی دیر نہ لگی، جب کہ حضرت عمرفاروقؓ جیسی جلیل القدر ہستی کو اس کش مکش میں چھے سال گزر گئے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کے حجابات مٹنے میں ۲۰ برس لگ گئے، جب کہ حضرت ابوسفیانؓ نے فیصلہ کرنے میں ۲۱ برس لیے اور آپؐ کے چچا ابوطالب زندگی کی آخری ساعتوں تک گومگو کی کیفیت میں رہے۔ اس لیے ہمارے داعیانہ کردار کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی سعی احسن طریق سے جاری رکھیں کہ مستقبل کی نقشہ گری اس کے ہاتھ میں ہے جس کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے دین کو غالب کر کے رہے گا۔
اقتدار اور بالادستی کی نئی جنگ نے جو گل کھلائے ہیں اور مظلوم انسانیت نے اس کی جو قیمت ادا کی ہے وہ ہوش ربا ہے۔ دنیا کے ہر حصے میں توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہے… سیاسی قوتوں کے نشیب و فراز، قیادتوں کی تبدیلی، انقلابات کی آمدورفت، اگر ایک طرف تبدیلی کی علامتیں ہیں تو دوسری طرف ان میں مستقبل کی تعمیر کے فکرمندوں کے لیے بڑی روشن نشانیاں اور بیش بہا قابل توجہ امکانات اور مواقع ہیں۔ قرآن کے مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس ظاہری تماشے کے پیچھے ایک عظیم مقصدِ عمل بھی جاری و ساری ہے، جس سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو تاریخ کا رخ ہم بدل سکتے ہیں۔ ’’اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ نہ ہٹاتا رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا، لیکن دنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے‘‘ (البقرہ ۲:۲۵۱)۔ ’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں، جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ (تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا) کہ اللہ دیکھنا چاہتا ہے تاکہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا ہے جو واقعی راستی کے گواہ ہوں، کیونکہ اللہ ظالم لوگوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۱۴۰)
مختلف حالات و واقعات کا ہم سب اپنے اپنے شعور و فکر کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہیں اور بلاشبہہ غور و فکر کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں صدرالدین اصلاحی صاحب کی یہ بات قابل غور ہے کہ ’’بلاشبہہ غور و فکر کی قوت انسان کا امتیازی جوہر ہے، اس لیے اس امر میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ اس قوت کا استعمال ہر شخص کا پیدایشی حق ہے.... یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جو دینِ فطرت ہے، اپنی سوجھ بوجھ سے کام لینے کو انسان کے بنیادی حقوق ہی میں نہیں بلکہ اس کے بنیادی فرائض میں بھی شمار کیا ہے۔ وہ اس شخص کو جو عقل و فہم سے کام نہ لے۔ کالْاَنْعَام (جانوروں کے مشابہ) کہتا ہے....کسی بھی جماعت کے لیے یہ قطعی ضروری ہے کہ اس کے افراد کے اندر راے میں کسرو وانکسار کی پوری صلاحیت موجود ہو۔ کوئی شخص اگر ضروری غور و فکر کے بعد ایک راے پر پہنچ جائے تو اسے اس بات کا تو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اسے مناسب موقع پر دلائل کے ساتھ پورے زور سے پیش کرے، مگر اسے یہ حق ہرگز نہیں ہوسکتا کہ تمام لوگوں سے اسی کو بہرحال صحیح اور برحق تسلیم کرلینے پر اصرار کرے۔ اس کے بخلاف اسے اس امکان کو لازماً سامنے رکھنا چاہیے کہ اس کی راے غلط بھی ہوسکتی ہے اور دوسروں کی صحیح… اس تحریک اور جماعت کا مستقبل کبھی روشن نہیں ہوسکتا جس کے افراد اجتماعی فیصلوں کے مقابلے میں اپنے ذوق و رجحان ہی کو نہیں بلکہ اپنی سوچی سمجھی راے کو بھی قربان کر دینے کے لیے تیار نہ ہوں۔ آخر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کس بشر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی راے اور صواب دید کو فیصلہ کن سمجھے، مگر ہمیں معلوم ہے کہ آپؐ نے بھی کئی بار دوسروں کی راے کے مقابلے میں اپنی راے ترک کر دی تھی۔ (اسلامی تحریکوں کی ناکامی کے اصل اسباب، صدرالدین اصلاحی، ص ۳۹-۴۳)
اس کیفیت میں ضرورت اپنے اخلاص اور للہیت کی آبیاری کی بھی ہے۔ ’’اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ تحریک کے مقصد پر دل یکسر مطمئن، اور اس کی خاطر جدوجہد کے لیے ذہن بالکل یکسو ہو… اپنی تمام دوڑ دھوپ اسی کے لیے خالص کر دی جائے۔ فکر پر وہی چھایا ہو اور عمل و حرکت کی باگیں تمام تر اسی کے ہاتھوں میں ہوں.... للہیت کا مطلب یہ ہے کہ مقصد تحریک کے ساتھ یہ تعلق اور اس تعلق میں یہ اخلاص، صرف اللہ کے لیے اور صرف اسی کی رضا کے لیے ہو۔ اس کی رضا کے سوا کسی اور کی رضا کا دل میں گزر نہ ہو۔یہی للہیت وہ خاص جوہر ہے کہ کسی تحریک کو ’اسلامی‘ بناتا ہے اور اسے دوسری تحریکات سے ممتاز کرتا ہے، ورنہ جہاں تک مطلق اخلاص کا تعلق ہے، وہ تو غیر اسلامی تحریکوں کے لیے بھی اسی طرح ضروری ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۲۰-۲۱)
آیئے! استقامت اور قبولیتِ عمل کی دعائوں کے ساتھ ڈاکٹر نذیر احمد شہید کے وہ الفاظ پھر دُہرا لیتے ہیں جو ہمارے حوصلوں کو مہمیز دیتے ہیں:
صاحب عزیمت اٹھتا ہے اور کہتا ہے، اگر وقت ساتھ نہیں دیتا تو میں اسے ساتھ لوں گا، سروسامان نہیں تو اپنے ہاتھ سے تیار کروں گا، اگر زمین موافق نہیں تو آسمان کو اترنا چاہیے، اگر ساتھ دینے والے آدمی نہیں ملتے تو فرشتوں کو بلاتا ہوں، اگر انسانوں کی زبانیں گنگ ہیں تو پتھروں کو بولنا چاہیے۔ اگر ساتھ چلنے والے نہیں تو کیا ہوا، درختوں کو ساتھ دوڑنا چاہیے۔ اگر دشمن بے شمار ہیں تو آسمان کی بجلیوں کا بھی کوئی شمار نہیں، اگر رکاوٹیں اور مشکلات بہت ہیں تو پہاڑوں اور طوفانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اٹھیں اور راستہ صاف کریں کہ ایک صاحب ِ عزیمت جادہ پیما ہے۔ … وہ زمانے پر اس لیے نظر نہیں ڈالتا کہ یہاں کیا کیا ہے جس سے دامن بھر لوں۔ وہ یہ دیکھنے کے لیے آتا ہے کہ کیا کیا نہیں ہے کہ پورا کر دوں۔ (تاریخ دعوت و عزیمت)
انتخابی مہم کے دوران ہمارے لیے دروازے بھی کھلے ہیں اور دل بھی۔ الحمدللہ ہماری دعوت میں اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ امکانات کی روشنی میں اپنے حوصلوں کو مجتمع کرتے ہوئے اس دعوت کو نتیجہ خیز بنانے کی بھرپور منصوبہ بندی کیجیے۔ آپ کا ہر قدم فوزعظیم کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ان شاء اللہ رب کی نصرتیں آپ کی منتظر ہیں۔ اللہ آپ کو استقامت اور اس راہ میں اٹھنے والے ہرقدم کا اجرِعظیم عطا فرمائے، آمین!
مضمون نگار ناظمہ حلقہ خواتین صوبہ سندھ ہیں
مالاکنڈ ڈویژن کے اضلاع بونیر، دیر اور سوات کے لاکھوں محب وطن مسلمانوں پر فوجی آپریشن ایک بلاے ناگہانی بن کر نازل ہوا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے وطن میں ہجرت پر مجبور ہوئے بلکہ ان کے گھر بار، فصلیں و باغات اور مویشی سب کچھ برباد ہوگیا۔ وہ چند سو لوگ جنھیں طالبان کہا جا رہا ہے اور جن کی تلاش میں یہ آپریشن کیا جا رہا ہے(کوئی نہیں جانتا کہ یہ طالبان ہیں یا اُن کے روپ میں امریکی اور بھارتی ایجنٹ)، اگر یہ آپریشن ناگزیر ہی تھا تو ان مٹھی بھر افراد کی خاطر ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ کیوں اُتار دیا گیا؟ ۴۰ لاکھ سے زائد معصوم اور بے گناہ لوگوں کو جن میں عورتیں اور بچے شامل ہیں کیوں گھر سے بے گھر کردیا؟ ایک طرف امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بے گناہ عام شہری بنتے ہیں تو دوسری طرف پاکستانی طیاروں کا نشانہ بھی یہی عام لوگ بن رہے ہیں۔ ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ آپریشن سے قبل ان بے گناہ شہریوں کو انخلا کا موقع تک نہ دیا گیا۔ بے رحم اور عاقبت نااندیش حکمرانوں نے نہ ان کے لیے محفوظ مقامات کا بندوبست کیا، نہ ٹرانسپورٹ کی سہولت ہی مہیا کی گئی۔ شدید گرمی، میلوں کی مسافت، بوڑھوں، بچوں، خواتین اور بیماروں پر بھوک پیاس کے عالم میں کیا بیتی ہوگی! اور پھر کیمپوں میں جن مصائب سے دوچار ہیں، ذرا ان کا تصور تو کیجیے!!
ایک طرف جہاں اس انسانی المیے پر ہمارے دل غم سے نڈھال ہیں وہیں دوسری طرف ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے مستقبل کی تاریکی یا تابناکی کا اصل انحصار اس امر پر ہوگا کہ ہم اس چشم کشا انتباہ پر واقعی آنکھیں کھولتے ہیں یا نہیں، اور یہ آزمایش بحیثیت قوم ہمارے رویوں میں کوئی تبدیلی لاتی ہے یا نہیں؟
اسے امریکی مداخلت کہہ لیں یا حکمرانوں کی بے بصیرتی اور کاسہ لیسی___ حقیقت یہ ہے کہ یہ عذابِ الٰہی کی ایک شکل اور قوم کے اجتماعی ضمیر کے لیے ایک چیلنج ہے جو ہم سب کو لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں، نہ اسے محض اتفاقی عوامل کی پیداوار قرار دیا جاسکتا ہے۔ ۶۲سالہ تاریخ میں جو پے درپے جھٹکے ہمیں لگتے رہے یہ ان میں سب سے بڑا ہے۔ اگر اس پر بھی قوم خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوئی تو خدانخواستہ ہمارا مستقبل تاریک ہوسکتا ہے۔
چاہے بیرونی طاقتوں کا زورآور ہونا ہو یا ہمارے حکمرانوں کی بے رحمانہ سوچ، حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے اعمال و احوال کا ادراک کرنا ہوگا۔ خود احتسابی، انفرادی اور اجتماعی رویوں کا جائزہ، اپنے رب سے سچی توبہ اور حقوق العباد کے معاملے میں حساسیت ہی ہمارے لیے راہِ نجات بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فہم و فراست اور شعور و ادراک کی جو نعمتیں عطا کی ہیں ان کا امتیازی پہلو ہی یہ ہے کہ وہ جہاں انسانی زندگی کے طبیعی پہلو اور حوادثِ زمانہ کا مادی حوالوں سے ادراک کرتا ہے وہیں ان حقیقتوں کو اخلاقی و روحانی سبق کی تفہیم کا ذریعہ بھی بناتا ہے۔ قرآن کا منشا ہی یہ ہے کہ حادثات و سانحات اور کامیابیوں یا ناکامیوں کے ذریعے ہم قرآن کے دیے ہوئے اخلاقی اور ابدی معیار سے وابستہ ہوجائیں!‘ اور نافرمانی کے راستے کو ترک کر کے خلوص اور ندامت کے ساتھ اپنے رب سے رجوع کرلیں، تو پھر ظلمتوں کی اس شبِ تاریک سے صبح نمودار ہونے میں کچھ بھی دیر نہیں! فرمانِ ربیّ ہے: ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے مگر انھوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اس بُری کمائی کے حساب میں انھیں پکڑلیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔ پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ آپڑے گا، جب کہ وہ کھیل رہے ہوں‘‘۔ (الاعراف ۷: ۹۶-۹۸)
آزمایش کی اس گھڑی میں ملتِ اسلامیہ پاکستان کے لیے سب سے اہم پہلو خود اپنی حالت سے عبرت پکڑنے کی فکر ہے۔ یہ وقت محض ظاہری اسباب پر ماتم کرنے کا نہیں بلکہ فساد اور بگاڑ کے حقیقی اسباب اور کائنات میں جاری و ساری اخلاقی قانون کی روشنی میں اپنا احتساب کرنے کا ہے تاکہ اس انسانی المیے سے ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی تشکیلِ نو کا سامان کرسکیں:
ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے، ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے، انھیں خوش خبری دے دو اور ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی۔ اس کی رحمت ان پر سایہ فگن ہوگی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔ (البقرہ ۲: ۱۵۵-۱۵۶)
قرآن پچھلی قوموں کا تذکرہ کرکے اور ان کے عبرت ناک انجام کا بار بار ذکر کر کے ہمیں سوچ کے اس انداز کی تعلیم دیتا ہے کہ حدود اللہ کی خلاف ورزی پر ان قوموں کو جو عذاب دیا گیا ہم ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے حال کی اصلاح کی جانب متوجہ ہوں۔ ہمیں جاننا چاہیے کہ اللہ کی گرفت کی حیثیت کب عذاب کی ہے اور کب انتباہ کی، اور وہ کون سے افعال ہیں جو آج ہمیں تباہی کے اس دہانے پر لے آئے ہیں؟
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت مؤثرانداز میں اس جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ کی روایت ہے کہ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس میں بدکاری عام ہو مگر یہ کہ وہ قحط سالی میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں رشوت پھیل جائے مگر یہ کہ اس پر خوف اور دہشت طاری ہوجاتی ہے‘‘ (مشکوٰۃ، کتاب الحدود)۔ کیا بدکاری اور رشوت معاشرے کا ناسور نہیں! حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا:
جب کسی قوم یا بستی میں نمایاں طور پر بدکاری اور سودخوری ہونے لگے تو یوں سمجھو گویا لوگوں نے اپنے آپ کو عذابِ الٰہی کے مستحق ہونے کا اعلان کر دیا۔ (ترغیب و ترہیب بحوالہ حاکم)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قیامت کے قریب لوگ مجمع میں سے مخصوص لوگوں کو سلام کریں گے اور تجارت کی طرف عام رجحان ہوجائے گا (یعنی دنیاداری بہت بڑھ جائے گی)، یہاں تک کہ عورت بھی اپنے شوہر کو تجارت میں مدد دے گی۔قیامت کے قریب لوگ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرلیں گے۔ جھوٹی گواہیاں دیں گے، سچی گواہیاں چھپائیں گے اور جوئے کا رواج عام ہوجائے گا۔ (مسنداحمد، جلداول)
حقیقت یہ ہے کہ کوتاہ بین نظریں ان حوادث و آلام کے صرف ظاہری احوال کا جائزہ لیتی ہیں لیکن ایک مومن اخلاقی اور روحانی اسباب پر نظر رکھتے ہوئے ان سے درسِ عبرت حاصل کرتا ہے۔ اِن ارشاداتِ نبویؐ میں مستقبل کے حالات و واقعات کی نشان دہی کرکے بار بار ہمیں خبردار کیا گیا ہے تاکہ ہم حالات و واقعات کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ نہ سمجھیں بلکہ یہ یاد رکھیں کہ انسانوں کی جب بھی گرفت ہوتی ہے اس میں ان کے اپنے اعمالِ بد اور ظلم و طغیان کا بھی برابر کا حصہ ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا، لوگ خود اپنے اُوپر ظلم کرتے ہیں۔ (یونس ۱۰:۴۴)
اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف ان ہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (الانفال ۸:۲۵)
اللہ رب العزت کے قوانین اٹل ہیں اور ان کا مقصد انسانوں کے لیے انتباہ اور ان کا اخلاقی تزکیہ اور روحانی تربیت ہے۔ ’’اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کردے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح احوال کرنے والے ہوں‘‘۔ (ھود ۱۲:۱۱۷)
لمحۂ موجود میں سب سے زیادہ لرزا دینے والا آپؐ کا وہ ارشاد گرامی ہے جو ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے اور آج ہمارا معاشرہ ۱۴ سو برس قبل کہے گئے ان الفاظ کی لفظ بہ لفظ عکاسی کر رہا ہے۔ اس وقت ہم جس تباہی اور ذلت و مسکنت سے دوچار ہیں، حضورِاکرمؐ کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کے لیے کہیں دُور جانے اور کسی دوسرے کو موردِ الزام ٹھیرانے کی گنجایش نہیں۔ ملاحظہ فرمایئے:
حضرت ابوبکر صدیقؓ کہتے ہیں، آپؐ نے ارشاد فرمایا: جو لوگ جہاد (دین کے لیے محنت اور جانفشانی اور مالی اور جانی قربانی) نہیں کریں گے تو اللہ ایسے لوگوں پر عذاب مسلط کرے گا (ترغیب بحوالہ طبرانی)۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ اللہ کے قانون کی گرفت (عذابوں کی صورت میں) جب واقع ہوتی ہے تو مجرموں کو چھانٹ کر علیحدہ نہیں کرلیا جاتا بلکہ اس ظالم اور باغی معاشرے کا ہرفرد ظالم اور باغی قرار پاکر اس عذاب کا شکار ہوتا ہے۔
آج جہاں ہم متاثرین مالاکنڈ کے درد و کرب کو محسوس کر رہے ہیں، ان کی مدد کر رہے ہیں، ان کی آبادکاری کے لیے فکرمند ہیں، وہیں یہ وقت اللہ سے خلوصِ دل سے توبہ واستغفار کا، اجتماعی اور انفرادی جائزے اور احتساب کا بھی ہے۔ اپنی ذات، اپنے گھر، اپنے رسوم و رواج کا جائزہ لینے کا ہے کہ علم ہوتے ہوئے ہم کس طرح دیدہ دلیری سے حدود اللہ کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم نے زمین سے نافرمانیاں، ظلم، سرکشی آسمان کی طرف بھیجی تو آسمان سے ذلت و مسکنت زمین کی طرف آئی۔ اب ہم ندامت و استغفار، آہیں اور آنسو بھیجیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی مغفرت و رحمت کا نزول نہ ہو، کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ وہ اپنی طرف پلٹ کر آنے والے ہر گناہ گار اور خطاکار کو اپنے دامنِ رحمت میں ڈھانپ لے گا:
کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات قبول کرتا ہے اور اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ (التوبہ ۹:۱۰۴)
پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ کی نظرعنایت پھر اس پر مائل ہوجائے گی، اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ (المائدہ ۵:۳۹)
اس سانحے سے گزرتے ہوئے نہ صرف انفرادی توبہ بلکہ اجتماعی استغفار کا لازمی اہتمام کیا جائے کہ ہمارے ۶۲ برس کے اجتماعی گناہوں کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو نہ بھگتنا پڑے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اے مومنو! تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پائو گے‘‘ (النور ۲۴:۳۱)۔ اس وقت سب سے اہم ضرورت استغفار کے ساتھ جائزے اور محاسبے کی ہے کہ ہم نے اللہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے؟ اللہ رب العزت نے شب قدر میں جو ملک ہمیں عطا فرمایا، ہم نے عملاً اس کی باگیں اللہ کے باغیوں کے ہاتھوں میں دے دیں۔ ہم نے اُمت مسلمہ کا ساتھ دینے کے بجاے ان قوتوں کا ساتھ دیا جنھوں نے مسلم ممالک کو تباہ و برباد کیا، جن کے ذمے دفاعِ وطن کا فریضہ تھا وہ اپنے فریضے سے غافل ہوکر غیروں سے ہدایات لیتے رہے۔ سود اور ناجائز منافع خوری کے باعث عام آدمی کے لیے زندگی ناقابلِ برداشت بوجھ بن گئی۔ تہذیبی غلامی کو ہم نے رضاکارانہ اپنی گردن کا طوق بنا لیا۔ میڈیا کی بے راہ روی کے ذریعے اخلاقی اور نظریاتی سرحدوں کو پامال کیا۔ جب حالات یہ ہوں تو پھر اللہ کی پکڑ اور اس کی سنت کیوں نہ پوری ہو کیونکہ سنت الٰہی ہے: ’’اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی‘‘۔
دورِ فاروقیؓ میں جب جزیرۃ العرب میں قحط کی کیفیت رونما ہوئی تو آپ نے اہلِ حاجت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دن رات ایک کردیے۔ ریاست کے سارے وسائل تو استعمال کیے ہی خود بھی گوشت کھانا بند کر دیا اور روکھی سوکھی پر گزارا کیا، یہاں تک کہ خوش حالی لوٹ آئی۔ ان حالات میں نہ صرف حکومت اور اہلِ ثروت بلکہ ہر ایک کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان لاکھوں بے گھر لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کی ابتدا اپنے گھر سے کریں۔ اسراف و تبذیر عام حالات میں گناہ ہیں لیکن اس وقت وہ ایسا جرم ہے جسے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اس وقت حالتِ جنگ میں ہیں۔ ہمارے مصیبت زدہ بھائی ہمارے وسائل ، کوششوں اور دعائوں کے مستحق ہیں۔ یہی اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے جس میں ہم میں سے ہر ایک کو اپنا مقدور بھر حصہ ڈالنا ہوگا۔
ان سب اقدامات کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے تزکیے کی فکر اور اپنے دل کا جائزہ لینا ہوگا۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر عفو ودرگزر کے لیے ہاتھ پھیلائے جائیں! ہمیں اللہ کے دین کے احکامات اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کرنا ہوگی جس میں حقوق العباد سے کسی طور پر صرفِ نظر ممکن نہ ہو۔ اسی طرح یہ اُمت شھداء علی الناس کے منصب اور انسانیت کو خیر کی طرف بلانے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرسکے گی۔
اگر ابتلا و آزمایش کی یہ گھڑیاں ہمارے لیے ماضی کی ڈگر کو بدلنے اور مستقبل کے لیے صحیح راہ اختیار کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں تو پھر اس شر سے خیر کے چشمے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔ صرف یہی وہ تبدیلی ہے جو دنیا و آخرت میں ہماری کامیابی کے امکان کو روشن کرسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ باطل کے غلبے کے دور میں اہلِ حق کو حق کے لیے غیرت مند ہونا چاہیے۔ باطل کے آگے ہتھیار ڈال کر اطمینان کا سانس لینا غیرت کی علامت ہے نہ حق سے محبت کی دلیل۔
حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جس شخص نے اپنے معاشرے میں کوئی برائی دیکھی اور طاقت استعمال کر کے اسے دُور کر دیا تو وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوا۔ اور جس شخص نے طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے اپنی زبان استعمال کی اور اس کے خلاف آواز اٹھائی تو وہ بھی سبکدوش ہوا۔ اور جو شخص اپنی زبان استعمال نہ کرسکے اور دل میں اس برائی سے نفرت کرے اور بُرا سمجھے تو وہ بھی مواخذے سے بچ جائے گا اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ (ترغیب و ترہیب بحوالہ نسائی)