اکتوبر ۲۰۱۳

فہرست مضامین

میدانِ عرفات کا پیام__ کونوا انصاراللہ

افشاں نوید | اکتوبر ۲۰۱۳ | تذکیر

Responsive image Responsive image

ایک عورت کے نقوشِ پا جس پر انسانیت کے قافلے شرف کے ساتھ دوڑ رہے ہیں، اور جب تک دنیا قائم ہے ’سعی‘کا یہ عمل جاری و ساری رہے گا۔ لبیک اللھم لبیک کی صدائوں کے ساتھ لوگ دیوانہ وار لپک رہے ہیں، منزلِ مراد پارہے ہیں، طواف کے بعد صفا اور مروہ کی سعی کررہے ہیں، اور اس واقعے کی یاد تازہ کر رہے ہیں جب حضرت ابراہیم ؑ کی زوجۂ محترمہ حضرت ہاجرہؓ اپنے ننھے لخت ِ جگر حضرت اسماعیل ؑ کے لیے پانی کی تلاش میں دوڑ رہی تھیں۔پیروں کی وہ دھول کیسی معتبر ٹھیری، مشقت کی وہ ادا کیسی پسند آئی، کیسا اکرام دیا رب نے ان نسوانی قدموں کے نشانات کو کہ اُمت کے مرد بھی کروڑوں کی تعداد میں ان نقوش پا پر دوڑ چکے ہیں کہ دوڑنے کی وہ ادا تو محبوبِ رب ٹھیری۔

آخر ایسا کیا تھا اس ادا میں جو قبولیت کی اس معراج کو پہنچی کہ شرفِ انسانیت قرار پائی، کمالِ نسوانیت قرار پائی۔ ایک عورت کی وہ قربانی جس نے صدیوں کو نور بخشا ہوا ہے، منور کیا ہوا ہے، ان قدموں کی وہ تابناکی، وہ ضوفشانی کہ انسانیت راہِ راست پر رہے گی جب تک ان قدموں کے نشانات اور اسی جذبے کو سنگ ِ میل بنائے رکھے گی۔ صدیوں کی گرد جھاڑیئے___ چشمِ تصور کو ماضی کے ان لمحوں میں وا کیجیے اور دیکھیے کہ حضرت ابراہیم ؑ جو خلیل اللہ ہیں، مسلم حنیف ہیں___ اب تک کی ہرآزمایش میں پورا اُتر چکے ہیں، عشق سے بڑھ کر فدائیت کی منزلوں میں ہیں___ حکمِ ربی ہوتا ہے کہ اپنی اہلیہ اور صاحب زادے اسماعیل ؑ کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین میں لے جاکر چھوڑ دیں۔ حکم ربی کی تعمیل فرماتے ہیں۔ حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑ کو اس غیرآباد اور بنجرسرزمین میں چھوڑ کر چلے آتے ہیں۔ نہ آدم ، نہ آدم زاد، نہ سبزہ نہ پانی، نہ دُور تک کسی چرندپرند کا نام و نشان___ایسا ویران ایسا سنسان جنگل جہاں سانسوں کی بھی آہٹ محسوس ہوتی ہو۔ نومولود اور اس کی ماں اس ویرانے کو آباد کرنے آئے ہیں۔ امکانات اور نتائج پر نظر رکھنے والے تو سرجھٹک کر اسے دیوانے کی بڑ ہی کہیں گے۔ناممکن العمل اور ناقابلِ یقین ہی گردانیںگے، مگر یہاں تو تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہونے جا رہا ہے۔ عزیمتوں کی ناقابلِ تصور داستان کا ایک سنہرا باب!

حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل ؑ کے لیے توشہ بھی کیا ہے؟ ملاحظہ کیجیے: چمڑے کا تھیلا کھجوروں سے بھرا، اور ایک چھوٹا سا پانی کا مشکیزہ___ حضرت ہاجرہؓ کے حوالے کر کے حضرت ابراہیم ؑ پلٹ جاتے ہیں۔ اب کیا ہونا ہے؟ آگے کیا کرنا ہے؟ مستقبل کی صورت گری کیا ہوگی؟ آگے کے منصوبے کیا ہیں؟ اس ویرانے میں ان دو کمزور جانوں کا تیسرا پُرسانِ حال کون ہوگا؟ ایک نسوانی ذات کے ساتھ یوں بھی لاکھ تحفظات ہوتے ہیں___کون چھوڑتا ہے یوں محبت کرنے والی بیوی اور نورالعین کو___اگر کوئی جنگلی درندہ ہی آنکلا تو کیا ہوگا؟اندیشے ہیں، وسوسے ہیں، خطرات ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کو جو جاتے دیکھا تو حضرت ہاجرہؓ پیچھے لپکیں۔ کب آئیں گے واپس؟آگے کیا ہوگا؟ محبوب بیوی پکار رہی ہے، روک رہی ہے کہ سوالوں کے جواب تو دے کر جائیں لیکن ابراہیم ؑ رُک جاتے تو تاریخ ٹھیرجاتی___ زمان و مکان کی گردش رُک جاتی کہ تاریخ کو تو تیزی سے بغیر رکاوٹ کے اپنا یہ باب رقم کرناتھا۔ عشق و فدائیت کی یہ لازوال داستان اُدھوری رہ جاتی۔ اگر ابراہیم پلٹ کر دیکھ لیتے تو شفقت ِ پدری غالب آجاتی یا حضرت ہاجرہؓ کی بے چارگی پیروں کی زنجیر بن جاتی ۔ اس لیے صدائیں سماعتوں سے ٹکراتی رہیں اور حضرت ابراہیم ؑ نے پلٹ کر نہ دیکھا کہ یارا ہی نہ تھا دیکھنے کا! آخر ایک رقیق القلب دل کے مالک تھے___ وہ قلب جس کی مدح سرائی خود قرآن کرتا ہے، وہ شخصیت جس کا ذکر رب اس محبت سے کرتا ہے کہ خود لفظ ’محبت‘ معتبر ہوجاتا ہے۔

جب حضرت ابراہیم ؑ نے کسی صدا پر کان ہی نہ دھرا تو حضرت ہاجرہؓ ایک سوال کرتی ہیں۔ وہ سوال جس سے گردشِ افلاک لمحہ بھر کو ٹھیر سی جاتی ہے۔بس وہ سوال ہی انسانیت کی تاریخ کا بنیادی سوال تھا___ اور اسی سوال کے جواب میں انسانیت کی فلاحِ کل بھی مضمر تھی اور آج بھی مضمر ہے۔ اسی سوال کے جواب میں تو پیغمبربھیجے گئے___ شریعتیں اُتاری گئیں___ وہ سوال جو یکایک حضرت ہاجرہؓ کے پریشان حال، غمگین دل میں روشنی بن کر پیدا ہوا کہ ’’کیا اللہ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے؟‘‘ اب اسی سوال کے جواب پر باقی ماندہ منصوبۂ رب تشکیل پانا تھا۔ تیزتیز چلتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ نے بن پلٹے اس سوال کا یک لفظی جواب دیا اور لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہوگئے اور حضرت ابراہیم ؑکا وہ جواب تھا: ’ہاں‘۔ اس جواب نے خوف، وحشت، یاس کے سب سایے نگل لیے۔ ڈولتے وجود کو لمحوں میں قرار آگیا۔ تپتے ریگستان کو رحمتوں کی بدلیوں نے اپنے حصار میں لے لیا۔ اُمید اور آرزو نے ان نسوانی مُردہ قدموں میں جان ڈال دی۔ کیسا یقین___ بن دیکھے رب پر لازوال ایمان!

ایقان کی وہ دولت جس نے تاریخ کا دھارا موڑدیا۔ حضرت ابراہیم ؑ کا جواب سن کر حضرت ہاجرہؓ بے اختیار بول اُٹھتی ہیں: ’’پھر اللہ ہمیں ہلاک نہیں کرے گا‘‘۔ پھر پلٹ کر بھی حضرت ابراہیم ؑ کی سمت نہ دیکھا کہ اصلی وارث اور ولی جب اپنے حصار میں لے لے تو دنیاوی سہاروں سے بے نیاز کردیتا ہے۔ کیسا روشن ہوگیا تھا وہ سینہ لمحہ بھر میں ایمان سے۔ بس وہ ایک لمحہ ہی ہوتا ہے، معرفت کا لمحہ جو جادوگرانِ فرعون کو بھی رب سے آشنا کرگیا تھا، تاریخ میں امر کرگیا۔ انسانیت نے لمحہ بھر میں صدیوں کا سفر طے کرلیا اور انسانیت کو ایک درس مل گیا کہ رب کی رضاکے راہی کبھی ہلاکتوں سے دوچار نہیں ہوتے، کبھی بے راہ نہیں ہوتے، کبھی مادی پیمانوں سے سودوزیاں کا حساب کر کے اپنی منزل کھوٹی نہیں کرتے۔ بس دل کو رب کے حوالے کر کے جب منزل کو نظروں میں بسا لیتے ہیں تو ’زم زم‘ جاری ہوجایا کرتا ہے۔ صدیوں کی تاریخ سے چھنتی ایقان کی وہ روشنی آج بھی مشامِ جاں کو معطر کرنے کا سبب ہے۔

جب حضرت ہاجرہؓ ’ہاں‘کا جواب پاکر پلٹ گئیں تو حضرت ابراہیم ؑ کو بھی ایک گونہ قرار آگیا۔ پھر پہاڑی شینہ پر پہنچے۔ بیوی، بچہ نظروں سے اوجھل ہوچکے تھے۔ آسمان کی جانب دیکھا اور دل گرفتہ کھول کر رب کے سامنے رکھ دیا: ’’اے پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لابسایا ہے‘‘ (ابراہیم ۱۴:۳۷)۔

حضرت ہاجرہؓ نونہال کو چھاتی سے لگا کر دودھ پلاتی ہیں اور خود قلب ِ مطمئنہ کے ساتھ مشک سے پانی پیتی ہیں۔ بے آب و گیاہ وادی، مکہ کی گرمی، مشکیزہ کب تک ساتھ دیتا؟ پانی بالآخر ختم ہوگیا۔ دھوپ کی تمازت،تنہائی، ننھی جان کا ساتھ، لیکن پاے استقلال میں کوئی لغزش نہیں۔ زبان پر کوئی شکوہ نہیں، کوئی بدگمانی نہیں۔دل اس یقین سے شاداں و فرحاں ہے کہ رب کی رضا کا سفر ہے۔ ہر صعوبت ایک سعادت ہے یہاں۔ لیکن جسمانی تقاضوں سے کہاں مفر ہے؟ ننھے اسماعیل ؑ پیاس کی شدت سے تڑپ رہے ہیں، خود بھی حلق میں کانٹے پڑچکے ہیں۔ معجزوں کے انتظار سے کب منزلیں ملا کرتی ہیں؟ سب توانائیاں اکٹھی کر کے پانی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہیں۔ سامنے موجود پہاڑی صفا پر چڑھ جاتی ہیں۔ دُور دُور تک دیکھتی ہیں۔ اس بے آب و گیاہ میں تو سراب ہی سراب ہے۔ پہاڑی سے اُتریں، کُرتا سمیٹ کر نالے کے نشیب و فراز میں دوڑیں___ جیسے کوئی آفت رسیدہ دوڑتا ہے۔ انھیں کیا علم تھا کہ حالت ِ اضطرار میں اَٹا ہوا ان کا یہ ایک ایک قدم تاریخ کے ماتھے کا جھومر بنے گا۔ رب کو کتنے محبوب تھے اپنی راہ میں اُٹھے ہوئے یہ قدم۔ تب نالے کو پار کر کے مروہ کی پہاڑی پر چڑھیں اور بلندی پر پہنچ کر متلاشی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا کہ شاید آبِ حیات کا کوئی سراغ پالیں۔ اب پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان بے چارگی سے دوڑ رہی ہیں، سماعتوں سے ننھے اسماعیل ؑکے رونے کی آوازیں ٹکرا رہی ہیں۔ حالت ِ اضطراب میں سات چکر لگالیتی ہیں، جب کہ دل اس سے مناجات میں مصروف ہے جو کہ مسبب الاسباب ہے۔ اصل میں تو تلاش اسی کی تھی۔ جستجو کا سفر اسی کی معرفت کے حصول کے لیے تھا۔ تب ایک آواز سنتی ہیں مروہ کی بلندی پر___ عشق اپنے امتحان میں پورا اُترا۔ حضرت ہاجرہؓ ہی سرخرو نہیں ہوئیں حضرت ابراہیم ؑ کے خلیل اللہ ہونے کی لاج بھی رکھ لی اپنی استقامت سے۔

فرشتہ نمودار ہوا۔ اپنی ایڑی زمین پر ماری اور صرف حضرت ہاجرہؓ اور نومولود ہی کے لیے نہیں، رہتی دنیا کے لیے آبِ حیات جاری ہوگیا۔ ہاتھوں سے جلدی جلدی حوض بنانے لگیں،  ساتھ ساتھ چلّو بھربھر کر مشک میں ڈالنے لگیں۔ کتنا معتبر ہوگیا تھا پانی ان کے ہاتھوں کا لمس پاکر___ ایسا اکرام ملا تھا پانی کو کہ خوب جوش مار رہا تھا۔ حضرت ہاجرہؓ پانی محفوظ بھی کر رہی تھیں اور اس کو حکم بھی کر رہی تھیں کہ ’’زم زم، ٹھیرجا، ٹھیرجا‘‘___ خوب سیر ہوگئیں رحمت ِرب کو پاکر۔  فرشتے نے امر کردیا ان لمحوں کو جب کہا کہ ’’اپنی جان کا خوف نہ کرو، یہاں ایک گھر بنے گا جو یہ بچہ اور اس کاباپ مل کر بنائیں گے۔ اللہ اپنے بندوں کو تباہ کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ (بخاری)

روایات میں ہے کہ اس وقت بیت اللہ کی جگہ زمین سے اُونچا ایک ٹیلہ تھا۔ اس بے آب و گیاہ وادی میں جب پانی دیکھا تو پرندے بھی آبسے اور پرندوں کے قافلوں کے ساتھ انسانوں کی آبادی بھی شروع ہوگئی۔ حضرت ہاجرہؓ کی سعی مقبول ٹھیری، معتبر ٹھیری۔ شوہر کی جدائی برداشت کی مگر حضرت اسماعیل ؑ کی تربیت میں کوئی کمی نہ آنے دی، اور ان کی پرورش کرکے اُمت کو قیادت فراہم کی۔ عورتوں کو نسوانیت پر فخر کرنا سکھایا۔ رہتی دنیا تک کے انسانوں کو زم زم کے تحفے سے فیض یاب کیا، جس کی ہربوند میں ان کی فدائیت اور عظمت کی خاموش سرگوشیاں ہیں۔

صرف ایک ’سعی‘ ہی نہیں، حج کے ہرعمل کو دیکھ لیجیے، تمام اعمال عاشقانہ ہیں اور بے تابانہ ہیں___ لبیک لبیک کا شور ہو یا کعبہ کا والہانہ طواف، حجراسود کو چومنا ہو یا صفا مروہ کی پُرجوش سعی۔ پسندیدہ بھی وہ ٹھیرا جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، جسم غبار میں اَٹا ہوا ہو کہ یہاں ہر ادا عشق کی ادا ہے۔ ایک گونہ بے خودی ہے، خود کو کھو کر کچھ پانے کی آرزو ہے۔ اور مطالبہ یہ کہ پورے دل اور دماغ کی حاضری کے ساتھ حضرت ابراہیم ؑ کی طرح مطلق عبدیت کا اعلان درکار ہے کہ: ’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا مَیں ہوں‘‘۔(الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)

حج کے افعال میں کوئی بحث و تمحیص اور فائدے کی بحث کی اجازت نہیں کہ اس عمل کا کیا فائدہ ہے؟ بس عبدیت کی شان بلاچوں و چرا اطاعت___ جس کی مثالیں وہاں کی زمین کے ہرذرّے پر بکھری پڑی ہیں اور جس میں دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لیے واضح سبق ہیں کہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے مرد تو کیا اس اُمت کی عورتوں نے بھی کسی خطرے کی پروا نہ کی۔ ایک عورت کے لیے تنہا بیابان صحرا، ایک ننھا شیرخوار وجود___ کیا کیا خطرات نہ تھے لیکن اللہ کے دین کی سربلندی ہرخطرے پر غالب رہی۔ حضرت ہاجرہؓ کے اسوے سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ حاجات و ضروریات سب ایک ہستی سے وابستہ کرلی جائیں۔ وہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ اسباب ظاہری پر بھروسا انسان کی مومنانہ شان کے خلاف ہے۔ حضرت ہاجرہؓ کی طرح آج بھی ہر سعی مشکور اور ہر دعا مقبول    ہوسکتی ہے، اگر مسبب الاسباب کا حکم ہو تو___ کیا سعی کا یہ عمل، صفا و مروہ کے بیچ ریت کے وہ ذرّے جو حضرت ہاجرہؓ کے جذبۂ فدائیت سے مشک بار ہیں، حجاج کرام سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ    فروغِ دین کے لیے اپنی محبوب ترین چیزوں کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہ کریں۔ بیوی بچوں کی زندگیاں بھی عبدیت کی راہ میں حائل نہ ہونے دیں۔ ہجرت بھی کرنا پڑے، غریب الدیاری سے بھی سابقہ درپیش ہو تو بھوک اور پیاس کا خوف جدوجہد کے راستے میں مزاحم نہ ہو۔ پتھروں کے  دور میں جانے کا خوف قومی حمیت کو نیلام کرنے کا سبب نہ بنے کہ رزق کے خزانوں کی کنجیاں اس کے پاس ہیں جو بے آب و گیاہ وادی میں ’زم زم‘ جاری کرنے پر کل بھی قادر تھا اور آج بھی ہے۔ اسباب کی کوششیں ضرور ہوں مگر ہم اسباب کے غلام نہ ہوں۔ غیرمتزلزل اعتماد اس ذات پر ہو جس نے حضرت ہاجرہؓ و اسماعیل ؑ کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ ان سے ایک ایسی نسل چلائی جس نے اُمت مسلمہ کو سرفرازی عطا کی۔

یہ ’سفر عشق‘ ایک انقلاب کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر شعوری طور پر اس سفر کے مراحل اور افعال انجام دیے جائیں تو لاکھوں حجاج کرام، اُمت مسلمہ کے جاں باز سپاہی کے روپ میں سامنے آئیں جو دین کی سربلندی کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا عزم میدانِ عرفات سے لے کر پلٹیں کہ  خانہ کعبہ سے، مسجد نبوی ؐ سے، منیٰ سے، عرفات سے، زم زم کے قطروں سے اور خاکِ حرم سے ایک ہی صدا آتی ہے اور وہ صدا ہے ___ کونوا انصاراللّٰہ، کون ہے اللہ کا مددگار؟


مضمون نگار ناظمہ حلقۂ خواتین صوبہ سندھ ہیں