رمضان المبارک کا اہم ترین تحفہ ’دُعا‘ ہے۔ عرش اُٹھانے والے فرشتوں کو فارغ کر کے روے زمین کی جانب روانہ کردیا جاتا ہے کہ روزہ داروں کی دعائوں پر ’آمین‘ کہیں۔ دعا کے لیے اس سے قیمتی، اس سے زیادہ مبارک اور یاقوت و الماس سے گراں و نایاب لمحات اور کون سے ہوسکتے ہیں!
قرآنِ مجید میں بھی رمضان المبارک کے احکام و فضائل بیان کرتے ہوئے درمیان میں دعا کا اچانک ذکر آجاتا ہے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرشُدُوْنَo(البقرہ ۲:۱۸۶) ’’اور اے نبیؐ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے ، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ شاید کہ وہ راہِ راست پالیں‘‘۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ ’رمضان‘ اور ’دعا‘ میں انتہائی گہرا ربط پایا جاتا ہے، اور دعا کی مقبولیت کے قیمتی ترین لمحات اسی ماہ میں رکھے گئے ہیں۔ رمضان عبادت کے لیے موسمِ بہار ہے اور دعا کے بارے میں کہا گیا کہ اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ’’دعا عبادت کا مغز ہے‘‘(ترمذی)۔ اسی بناپر احادیث میں رمضان المبارک میں کثرت سے دعا مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔
بندئہ مومن کی تو شان ہی یہ ہے کہ وہ تنگی و فراخی ہرحال میں دست ِ دعا دراز کیے رکھتا ہے، اور اپنے ضُعف کے مقابلے میں مالکِ دوجہاں کی قوت اور اپنے فقروعجز کے مقابلے میں اپنے رب کے خزانوں اور اس کی عطا پر نظر رکھتا ہے۔ رب کو بندے کے پھیلے ہوئے ہاتھ اور قلب ِ منیب ہی مطلوب ہے۔ اسی لیے دعا نہ مانگنے کو تکبر سے تعبیر کیا گیا ہے: ’’ تمھارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘(المومن۴۰:۶۰)۔ یعنی رب کو نہ پکارنا، اس کی جناب میں التجا سے بے نیازی برتنا گویا کبر کی علامتوں میں شامل ہے۔ اسی طرح سنن ترمذی میں رسول اکرمؐ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ’’جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضب ناک ہوجاتا ہے‘‘۔ سنن ابوداؤد میں حضرت سلمانؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا کہ ’’تمھارا رب حیا کا پیکر اور صاحب ِ عزت و تکریم ہے۔اسے اس بات سے حیا آتی ہے کہ بندے کے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی ہاتھ لوٹا دے‘‘۔ نہ صرف یہ کہ وہ خالی ہاتھ لوٹاتے ہوئے شرماتا ہے بلکہ وہ ہمیں خود بلاتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہم اس سے مانگیں اور صرف اسی کے آگے دست ِ سوال دراز کریں۔ وہ قرآن میں جگہ جگہ ہمیں پکارتا ہے کہ آئو اپنے گناہوں کی معافی مانگو، مجھ سے استغفار طلب کرو، اور مخلوق کی شان بھی یہ ہے کہ خالق سے رجوع کرے۔ ہر حاجت اس سے طلب کرے۔ کھڑے، بیٹھے، لیٹے اسی کو پکارے۔ دعا کے ذریعے رب سے جو تعلق پیدا ہوتا ہے، وہی عبادت کی اصل روح ہے جو ہرحاضرو موجود سے بیزار کرکے اسی کے دَر سے وابستہ کردیتا ہے اور یہی ’حقیقی وصال‘ ہے۔
قرآن جہاں دعا مانگنے کی بار بار تاکید کرتا ہے وہاں دعا کے کچھ آداب اور شرائط بھی بیان کرتا ہے: وَّ ادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ط (الاعراف ۷:۲۹) ’’اور پکارو اس کو خالص اس کے فرماں بردار ہوکر‘‘۔ اور روزے اور طاق راتوں کی عبادت کے لیے بھی یہی لازم ہے کہ وہ ’ایمان اور احتساب‘ کے ساتھ ادا کی جائیں۔ لہٰذا رمضان میں جب جب دست ِ دعا دراز کریں تو قرآن کی شرط ’دین خالص‘ کو ضرور یاد رکھیں کہ کیا واقعی ہم نے دین کو رب کے لیے ’خالص‘ کردیا ہے، یا دوسرے نظریات یا اپنی نفسانی خواہشات کی بھی کہیں کہیں آمیزش ہے۔ نیز یہ کہ ’دین‘ کہیں ہماری شخصیت میں محض ضمیمے کے طور پر تو موجود نہیں کہ مروجہ غیراسلامی رسوم و رواج کے بھی ہم غلام رہیں۔ ہمارے سود و زیاں کے پیمانے بھی وہی ہوں جو دین سے بے نیاز لوگوں کے ہیں۔ ہمارا نفس بھی رعایتوں کا خوگر رہے۔ ہم نے بھی خود کو ’حالت ِ اضطرار‘ میں سمجھتے ہوئے بہت کچھ ناجائز اپنے لیے جائز ٹھیرا لیا ہو اور ہمارے اجتماعی دینی رویوں میں سارا زور عبادات پر ہو اور معاملات ہم غیراللہ کے حوالے کردیں اور ان کی رہنمائی میں سرانجام دیں۔ جب ہماری بندگی اور اطاعت اللہ کے لیے خالص ہوگی تب ہی دعائوں میں بھی اثر پیدا ہوگا۔
قبولیت ِ دعا کے لیے اہم ترین شرط ’رزقِ حلال‘ بھی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا: اپنے مومن بندوں سے اس نے کہا ہے: اے ایمان والو! تم میری دی ہوئی روزی میں سے حلال اور پاک چیزیں کھائو۔ پھر آپؐ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو کسی مقدس مقام پر طویل سفر طے کرکے آتا ہے۔ پریشان حال اور غبارآلود ہے مگر حال یہ ہوتا ہے کہ اس کا کھانا حرام، لباس حرام اور اس کا جسم حرام غذا سے پلاہوا۔ پس اس شخص کی دعا کس طرح قبول ہو (ترمذی)۔ ہم میں سے اکثر لوگ اپنی دعائوں کی عدم قبولیت پر مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر اس حدیث کو ہم مدنظر رکھیں تو دعائوں کی عدم قبولیت کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جس معاشرے میں مالی بدعنوانی عام ہو، حلال و حرام کا فرق مٹ جائے، رشوت کا چلن عام ہو، سودی نظام معیشت ہو اور پھر ہم شکوہ کریں کہ اللہ ہماری دعائیں قبول نہیں کرتا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان سب سیاہ کاریوں کے باوجود اب بھی اس نے ہماری دعائوں کے لیے آسمانوں پر اپنے دروازے بند نہیں کیے ہیں اور وہ ہمارے پلٹنے اور رجوع کا منتظر ہے۔
قرآن دعا کا ایک ادب یہ بیان کرتا ہے کہ اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًاط (اعراف۷:۵۵) ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے‘‘۔ گویا صرف الفاظ میں عاجزی اور مسکنت نہ ہو، بلکہ دعا مانگنے والا اللہ کے سامنے اپنی ذلت، درماندگی، ضعف، پستی اور بندگی کا زندہ شعور رکھتا ہو۔ اور ’خوف‘ اور ’رجا‘ سب اسی کے ساتھ وابستہ ہو۔ وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ط (اعراف۷:۵۶) ’’اس کو پکارو خوف اور اُمید کے ساتھ‘‘۔ اور یہ خوف اور اُمید کے درمیان رہنا ہی مومن کو راہِ اعتدال پر قائم رکھتا ہے۔ صرف ’اُمید‘ انسان کو نڈر اور بے نیاز بنادیتی ہے اور وہ بے خوفی سے حدودِ الٰہی سے رُوگردانی کرسکتا ہے، جب کہ صرف ’خوف‘ انسان کو دل شکستہ اور غمگین بنا دیتا ہے اور انسان میں کم حوصلگی پیدا کرتا ہے،اور زندگی کو یاسیت میں دھکیل سکتا ہے۔ اسی لیے مومنانہ شان یہ ہے کہ خوف اگر ایک طرف بُرائی سے باز رکھتا ہے تو اُمید نیکیوں میں سبقت پر اُبھارتی ہے، اور یہی تقویٰ کی شان ہے۔ روزے کا بنیادی مقصد ہی لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ بتایا گیا ہے۔ سورئہ سجدہ میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘ (السجدہ ۳۲:۱۶)۔ گویا اللہ کے بندوں پر اور اقامت ِ دین کی راہ میں رزق خرچ کرنا درحقیقت ان کی دعائوں کے اخلاص کا مظہر ہے۔ قرآن کی اس آیت کی رُو سے اگر ان کا تقویٰ ان کو بستروں سے دُور کر کے، رب سے راز و نیاز میں مصروف رکھتا ہے تو وہ صرف خدا کو راضی کرنے کی تگ و دو میں اس کی مخلوق سے بے نیاز نہیں ہوجاتے، بلکہ ان کے تقویٰ کی تکمیل خلقِ خدا کی فلاح سے وابستہ ہے، جو ان کی دوڑ دھوپ کے لیے قوتِ محرکہ بنتی ہے۔ لہٰذا اگر ہم اپنی دعائوں کے اثرات و قبولیت کے متمنی ہیں تو اس کے لیے اپنے مال کو بھی جنت کے حصول کا ذریعہ بنانا ہوگا۔
قرآنِ مجید حضرت زکریاؑ کی دعا کا ان الفاظ میں تذکرہ کرتا ہے کہ ’’جب انھوں نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا‘‘ (مریم ۱۹:۳)۔ لفظ ’چپکے چپکے‘ سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ جس کو ہم پکار رہے ہیں وہ ہمارے بے حد قریب ہے۔ نہ صرف قریب ہے بلکہ ہماری جانب متوجہ بھی ہے اور سمیع بھی ہے۔ وہ ہروقت سننے پر تیار ہے، دینے پر تیار ہے، ہرلمحے منتظر ہے کہ کب ہم پلٹیں، رجوع کریں اور دستِ سوال دراز کریں۔ وہ اپنے عاصی بندوں کو اپنی رحمتوں کی چادر میں ڈھانپنے کو بے تاب ہے اور ماہِ رمضان ان رحمتوں کی سمت پلٹنے اور مغفرت طلب کرنے کا بہت قیمتی موقع ہے۔ نصف شب کے بعد بیداری اس سمیع و بصیر سے سرگوشیاں کرنے کا نادر موقع ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اس کے قرب کو محسوس کریں۔ جیسے اپنے دل کی دھڑکنیں سنتے ہیں، جیسے پہلو میں بیٹھے ساتھی سے سرگوشی میں بات کرتے ہیں۔ وہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے اور منتظر ہے کہ ہم کب اس کو پکاریں!
امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’بندے کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے اور جب تک وہ جلدی نہ مچائے‘‘۔ قطع رحمی اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ لہٰذا اگر ہم قبولیت ِ دعا کی خواہش رکھتے ہیں تو رمضان کی ان مبارک ساعتوں میں اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ اپنے رحم کے رشتوں کے حقوق کے معاملے میں ہم کتنے حساس ہیں اور دورانِ سال ہم سے ان حقوق کی ادایگی میں کہاں کہاں کوتاہی سرزد ہوئی ہے۔ نیز رحم کے رشتے جوڑنے میں ہم نے کہاں تک اپنی ذمہ داریاں پوری کیں۔ دجّالی فتنوں کے اس دور میں صرف ہمارے بچے ہی نہیں بلکہ اپنے اور شوہر کے بہن بھائیوں کے بچے بھی ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ ان کی تربیت بھی کسی درجے میں ہماری توجہ کا عنوان ہو۔ ایک موقعے پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں برکت ہو، وہ رحم کے رشتوں کو جوڑے‘‘۔ گویا قطع رحمی کرنے والا خود کو مستجاب الدعوات سمجھنے کا حق دار نہیں ہے۔
علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ ؑ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تین لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ حرام مال کھانے والا، غیبت کرنے والا اور وہ شخص جس کے دل میں اپنے مسلمان بھائی کے لیے بُغض یا حسدہو‘‘۔ گویا دست ِ دعا دراز کرنے سے قبل اپنے آئینۂ دل کو بُغض اور حسد سے پاک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جس دل میں اس کی مخلوق کے لیے ناپسندیدہ جذبات ہوں گے، وہ کبھی ’ قلب ِ سلیم‘ کے درجے پر فائز نہ ہوسکے گا۔ پس ثابت ہوا کہ ’مناجاتِ مقبول‘ کے لیے ’قلب ِ مطہر‘ بھی شرطِ لازم ہے۔ پھر صرف دل ہی نہیں زبان بھی ان گناہوں میں آلۂ کار نہ ہو۔ غیبت بھی قبولیت ِ دعا کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کے اس قول کی روشنی میں بھی ہم اپنی دعائوں کی حقیقت کا بے لاگ جائزہ لے سکتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
قرآنِ مجید نے ہمیں بہت سی دعائیں سکھائی ہیں۔ پیغمبروں ؑ کی دعائوں کے بھی تذکرے کیے ہیں۔ خود سورۃ الفاتحہ بہترین دعا ہے۔ نبی کریمؐ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق تھا اس کا اظہار اُن دعائوں سے ہوتا ہے جو آپؐ نے مختلف مواقع پر مانگیں، مثلاً: ایک دعا کے الفاظ ہیں:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ الْاَشْیَائِ اِلَیَّ وَاجْعَلْ خَشْیَتَکَ اَخْوَفَ الْاَشْیَائِ عِنْدِیْ وَاقْطَعْ عَنِّیْ حَاجَاتِ الدُّنْیَا بِالشَّوْقِ اِلٰی لِقَائِکَ وَاِذَا اَقْرَرْتَ اَعْیُنَ اَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ دُنْیَاھُمْ فَاَقْرِرْ عَیْنِیْ بِعِبَادَتِکَ (کنزالعمال، عن ابی بن مالکؓ) اے اللہ! اپنی محبت کو تمام چیزوں سے زیادہ محبوب بنادے اور اپنے ڈر کو تمام چیزوں کے ڈر سے زیادہ کردے اور مجھے اپنے ساتھ ملاقات کا ایسا شوق دے کہ میری دنیا کی محتاجیاں ختم ہوجائیں، اور جہاں تو نے دنیا والوں کی لذت ان کی دنیا میں رکھی ہے، میری لذت اپنی عبادت میں رکھ دے۔
آپؐ کی ایک بہت پیاری دعا کے الفاظ یہ ہیں:
رَبِّ اجْعَلْنِیْ لَکَ ذَکَّارًا لَکَ شَکَّارًا لَکَ رَھَّابًا لَکَ مِطْوَاعًا لَکَ مُطِیْعًا اِلَیْکَ مُخْبِتًا اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُّنِیْبًا (ترمذی، عن ابن عباسؓ) میرے رب، مجھے ایسا بنا دے کہ میں تجھے بہت یاد کروں، تیرا بہت شکر کروں، تجھ سے بہت ڈرا کروں، تیری بہت فرماں برداری کیا کروں، تیرا بہت مطیع رہوں، تیرے آگے جھکا رہوں، اور آہ ، آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں‘‘۔
نبی پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائوں کو زبان پر لاتے ہوئے یہ بات بھی یاد رہے کہ آپ ؐ نے یہ دعائیں بدر کی گھاٹیوں، اُحد کے پہاڑوں،طائف کے بازاروں میں پتھروں کی بارش کے دوران، شعب ابی طالب میں معاشی مقاطعے کے دوران، گھوڑے کی پیٹھ پر اور تلواروں کی چھائوں میں مانگی تھیں۔ ان دعائوں کی قبولیت ہمارے سامنے ہے۔ ہم یہ دعائیں مانگتے ہوئے حق اور باطل کی کش مکش میں اپنے کردار پر بھی نظر ڈالیں۔