روزہ جہاں تقویٰ پیدا کرنے کا ذریعہ ہے وہاںیہ ایک نئی ثقافت ، ایک نئی فکر اور ایک نئے تصورِ حیات سے روشناس کرانے کا نام بھی ہے۔چنانچہ رمضان ایک ایسی ثقافت کو پروان چڑھاتا ہے جس کی بنیاد تقویٰ اور توحید ہے۔ یہ تہذیب اپنے مظاہراور اپنے اثرات کے لحاظ سے ایک منفرد پہچان اور شخصیت کی حامل ہے۔ ہم عام طور پر ثقافت اس مجموعی تہذیبی عمل کو کہتے ہیںجس میں اس تہذیب کی اقدارِ حیات، فنونِ لطیفہ، شعر و ادب، فن تعمیر، قانون، تعلیم معاشرت او رمعیشت اس تہذیب کے نظریے کی عکاسی کرتی ہوں، مثلاً مغربی ثقافت کی بنیادی قدر (value) مادہ پرستی اور لذت پرستی ہے۔ چنانچہ مغربی تہذیب کی معیشت ہو یا شعر وادب، فنون لطیفہ ہو یا تعلیم اور قانون، تمام شعبوں میں مادیت اور لذت پرستی اور لادینیت کے واضح اثرات پائے جاتے ہیں۔
مغربی ہی نہیںکوئی بھی مادی تہذیب ایسی نہیں پائی جاتی جو زندگی کو دو خانوں میں تقسیم نہ کرتی ہو، یعنی مادی اور روحانی معاملات۔ مغربی تہذیب کے معاشی اور سیاسی نظام میں مادیت کو مرکزی اور کلیدی مقام حاصل ہے۔ اس تہذیب میں مذہب کو ایک ذاتی فعل سمجھا جاتا ہے۔ گویا لادینی نظام میں مذہب کو صرف اس حد تک آزادی ہوتی ہے کہ ایک شخص جن کاموں کو مذہبی سمجھتا ہو انھیں اپنی ذات کی حد تک کر سکے۔ گرجا میں جا کر عبادت کرنی ہو یا شادی بیاہ کے موقعے پر مخصوص مذہبی رسوم، وہ ان سب کا اہتمام کرتا ہے لیکن اس کی معیشت اور سیاست میں مذہب کے لیے کوئی مقام نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ مغربی تہذیب میں مذہب کو انفرادی معاملہ سمجھتے ہوئے ایک ذاتی سرگرمی قرار دیا جاتا ہے۔ اس بنیادی تصور کا انعکاس مغربی تہذیب کے ہر ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی تہذیب و ثقافت کی بنیاد توحید، یعنی اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت پر ہوتی ہے۔ چنانچہ معاشرتی مسائل ہوں یا معاشی، سیاسی اُمور ہوں یا ثقافتی، ان سب کی بنیاد تقویٰ اور توحید کے قرآنی اصولوں پر رکھی جاتی ہے۔
ثقافت اور تہذیب کی اصطلاحات میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے اور یہ اکثر بطور متبادل کے استعمال ہوتی ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو ثقافت کا بڑا حصہ ان اصول و مبادی پر مبنی ہوتا ہے جو کسی نظریۂ حیات کی اساس ہوتے ہیں، مثلاً وہ کائنات کے بارے میں کیا تصور رکھتے ہیں، ان کا خالق کائنات کے بارے میں کیا عقیدہ ہے، وہ اچھائی اور برائی کے کن معیارات کو اپنی زندگی کے معاملات کو طے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ اصول و مبادی اور یہ ثقافت ایسے علم کو، ایسی معیشت کو، ایسی معاشرت کو اور ایسی تہذیب (civilization) کو پیدا کرتے ہیں جو بنیادی ثقافتی اقدار کی نمایندہ ہوں، مثلاً اسلامی ثقافت کی بنیاد توحید اور تقویٰ پر ہے۔ توحید کا تقاضا ہے کہ تہذیبی مظاہر (manifestations) میں شرک کا وجود نہ ہو مثلاً فن تعمیر میں جان دار تصاویر، وہ انسانوں کی ہوں یا جانوروں کی، ان کا استعمال نہ کیا جائے۔ چنانچہ اسلامی فن تعمیر ہو یا خطاطی اور مصوری اس کے اعلیٰ نمونوں میں انسانی شکل اور حیوانی مجسمے اور شکلیں نہیں بنائی جاتی ہیں۔
اسلامی ثقافت کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ رمضان المبارک تقویٰ پیدا کرنے والا مہینہ ہے اور تقویٰ کا واضح مظہر وہ زبان، وہ لباس، وہ غذا ہوگی جو تقویٰ پر مبنی ہو، مثلاً تقویٰ مطالبہ کرتا ہے کہ لباس سادہ اور ساتر ہو، غذا حلال ہو، زبان فحش نہ ہو اور اس میں نرمی و احترام پایا جائے۔ چنانچہ جو تہذیب بھی ان بنیادوں پر قائم ہوگی اس کے ماننے والوں کے طرزِ عمل اور بودو باش میں توحید اور تقویٰ کی جھلک ہوگی۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو رمضان ایسی ثقافت کو متعارف کراتا ہے جو توحید اور تقویٰ پر قائم ہے اور جس کااظہار تہذیبی اداروں میں پایا جاتاہے۔
روزہ ایک الہامی ثقافت کو پروان چڑھاتا ہے، چنانچہ رمضان کا پورا عرصہ اس بات کی تربیت دیتا ہے کہ ایک شخص سوچنے کے زاویے کون سے اختیار کرے۔ اس کے علم کاماخذ اور مصدر کیا ہو؟ صداقت سے کیا مراد ہے؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ عدل کی حقیقت کیا ہے؟ اسلامی ثقافت ان تمام بنیادی سوالوں کے واضح جواب فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ اس مہینے کا آغاز جس چیز سے ہوتا ہے وہ رضا کارانہ طور پر اللہ کی بندگی میں آنا اور حاکمیت الٰہی کا اقرار ہے کہ ایک انسان اپنی قسمت کا، اپنے معاملات کافیصلہ کرنے والا خود نہیں ہے بلکہ یہ دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ اُس کا خالق ، اُس کا مالک، اُس کا رب کس چیز سے خوش ہوتا ہے۔ کسی بھی معاملہ کو طے کرنے کی بنیاد کیا محض ذاتی راے، محض ذاتی تجربہ، محض ذاتی مشاہدات ہوں یا فیصلے کی بنیاد اللہ کی بھیجی ہوئی وحی اور ہدایت ہوگی رمضان جس ثقافت کو قائم کرتا ہے اس کی پہچان للہیت ہے، یعنی ہر کام کو کرنے سے قبل یہ جائزہ لینا کہ اس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوں گے یا ناراض۔ یہی تقویٰ کی عام فہم تعریف ہے۔
اسلامی ثقافت جس تہذیب کو قائم کرتی ہے اس میں توازن، سادگی اور تقویٰ کا اظہار ہرعمل میں پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر لباس ایک تہذیبی علامت ہے۔ ایک شخص جو لباس پہنتا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا مقصد حیات کیا ہے؟ کیا وہ معاشرے میں بسنے والے افراد کو اپنے لباس کے ذریعے اپنی دولت اور معاشی مقام و مرتبے سے آگاہ کرنا چاہتا ہے، یا ساتر اور سادہ لباس کے ذریعے اپنی سادگی اور نمایشی کاموں سے بچنے کی عادت کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔اس لیے اگر کوئی ایسا لباس استعمال کرے جس سے نمایش مقصود ہو تو ایسا لباس اسلامی ثقافت و تہذیب کے منافی ہوگا۔ رمضان کے دوران نہ صرف لباس بلکہ گفتگو میں بھی اسلامی اخلاقی اصولوں کا لحاظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رمضان میں جو ماحول پیدا ہوتا ہے وہ ہر اچھی بات کو پھیلانے میں مدد گار ہوتا ہے اور ہربُری بات کو روکنے میں امداد کرتا ہے۔
رمضان الکریم جس ثقافت کو متعارف کرانا چاہتا ہے اس کی پہچان زبان کی احتیاط ، نگاہ کی احتیاط، کان کی احتیاط، معاملات میں احتیاط ہے۔ گویا کہ یہ ایک ایسی تہذیبی تبدیلی ہے جو ایک ماہ کے عرصے میں ایک نئی تہذیبی روایت اور ماحول کو پیدا کرتی ہے۔ جس میں تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی (جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب تعاون کرو) اور وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔المائدہ ۵:۲)کی جھلک نظر آتی ہے۔
ثقافت کے عناصر ترکیبی میں قانون بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان کے دوران اسلامی شریعت کے ہر ہر حکم کی پیروی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اس ماہ کی تربیت شریعت کے احترام اور پابندی کی عادت کو مستحکم کر دیتی ہے۔ اسلامی ثقافت کی بنیادی اقدار میں سے ایک اہم قدر خواتین کا احترام اور ان کو جنسِ تجارت بنانے (commercialization ) سے اجتناب ہے۔ اسلامی ثقافت مطالبہ کرتی ہے کہ خواتین کے اعلیٰ مقام کو پامال نہ کیا جائے اور ان کے جسم کو معاشی فائدے کے حصول کے لیے استعمال نہ کیا جائے، چنانچہ اشتہارات میں خواتین کا استعمال اسلامی ثقافت کی ضد ہے۔ اسی طرح اسلامی ثقافت چاہتی ہے کہ مردو زن میں اختلاط نہ ہو کیونکہ یہ برائی کی جانب پہلے قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔ رمضان کے دوران اس ثقافتی قدر کو باربار یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اجتماعات ہوں یا تقریبات، ان میں مرد اور عورتیں الگ الگ نشست و برخواست رکھیں۔ بعض مسلم ممالک میں ابلاغ عامہ کو چلانے والے ادارے مغربی اورسرحد پار کی غیر اسلامی تہذیبوں کے زیر اثر رمضان میں بھی اپنے خیال میں جو ’دینی‘ پروگرام کرتے ہیں ان میں ایک نوجوان اور دوسری جانب ایک بنی سنوری خاتون کو بٹھا کر اسلامی معاشرت پر قرآن و حدیث کے حوالے سے بات چیت یا سوال و جواب کراتے ہیں۔ یہ رمضان کے تقدس کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ حدیث نے حیا کو ایمان کا بڑا حصہ قرار دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جس میں حیا نہیں وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اسلامی ثقافت حیا کی ثقافت ہے اور اس ماہ میں خصوصی طور پر حیا کا اختیار کرنا روزے کو مقبول بنا دیتا ہے۔ حیا محض شرم کا نام نہیں ہے بلکہ حیا ایک وسیع تصور ہے۔ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بزرگوں کا احترام اور بچوں کے ساتھ شفقت و محبت کس طرح اختیار کی جائے۔
رمضان کے دوران دین کے علم میں اضافے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں۔ مالی اختیارات میں فضول خرچی سے بچتے ہوئے ہاتھ کی کشادگی کس طرح اور کس حد تک اختیار کی جائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے دوران اپنے اہل خانہ اور دیگر مسلمانوں پر کثرت سے خرچ کرتے تھے۔ اس انفاق کی ثقافت کو کس طرح رائج کیا جائے۔ خصوصاً ایسے افراد کی امداد جو ہاتھ پھیلانے میں شرم محسوس کرتے ہوں، ان کی ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے۔ گھروں میں قرآن کریم کی تعلیمات کو کس طرح رائج کیا جائے اور روایتی طورطریقے جو صدیوں سے گھروں میں رواج پا گئے ہیں کس طرح ان کی جگہ اسلامی اخلاقی ضابطوں کو نافذ کیا جائے۔ یہ پورا مہینہ ان تمام معاملات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں آنے کے اعلان کے ساتھ خلوص نیت سے قرآنی تعلیمات کو بتدریج اپنی زندگی میں، اپنے گھر میں اور اپنے معاشرے میں نافذ کرنے کے لیے مؤثر عملی اقدامات کیے جائیں۔
اپنے روز مرہ کے معاملات اور تعلقات کو اللہ کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کا نام ہی توحید ہے۔ جب ایک شخص اپنے آپ کو ان تمام غلامیوں سے نکالتا ہے جو بچپن سے جوانی تک اور جوانی سے بڑھاپے تک غیر محسوس طور پر اس پر اثر انداز ہوتی ہیں، وہ برادری کی روایات ہوں، والدین اور بزرگوں کے سکھائے ہوئے طریقے ہوں یا معاشرے سے اخذ کی ہوئی عادات، جب ایک شخص ان سب کو جانچنے کے لیے توحید کی کسوٹی استعمال کرتا ہے، تو پھر اس کے تعلقات، فکر اور معاش، سیاست، گھر کے فیصلے، سب کی بنیاد صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو جاتی ہے۔ یہی روزے کا مقصد ہے کہ انسان میں تقویٰ کی روش پیدا ہو، وہ اپنے قلب، دماغ، جسم خواہشات ہر چیز کو اللہ کی خوش نودی کا تابع بنائے۔ یہی توحیدی ثقافت ہے جو ہر انسانی عمل کو اللہ کی بندگی میں لے آتی ہے۔
ایک اور اہم خصوصیت جو یہ ثقافت ہمارے اندر پیدا کرتی ہے وہ احترام آدمیت اور احترام انسانیت ہے، یعنی روزے کے دوران اس بات کی شدت سے ممانعت ہے کہ ایک شخص کے ہاتھ سے کسی کو نقصان پہنچے، زبان سے کسی کو تکلیف پہنچے، اس کی گفتگوئوں سے کسی کی دل آزاری ہو۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو اس کا ایسا کرنا اسلامی ثقافت کی روح کے منافی ہوگا۔ گویااحترام انسانیت کے ساتھ وہ طرزِ عمل جوروزہ ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے یہ ہے کہ ایک مومن نہ کسی سے بلند آواز سے مخاطب ہو، نہ کسی پر ہاتھ اُٹھائے، نہ کسی کی جان لے، نہ کسی کو تکلیف پہنچائے،بلکہ اس مہینے میں اپنی تربیت اس طرح کرے کہ وہ دوسروں کی جان، مال اور عزت کا محافظ بن سکے۔
ایک اور اہم پہلو جو اس ثقافت کی پہچان ہے وہ یہ ہے کہ افراد کے ساتھ معاملات میں، بالخصوص مالی معاملات میںدیانت داری کو اختیار کیا جائے۔ چنانچہ یہ ثقافت ہمارے اندر مال کے احترام اور حُرمت کااحساس پیدا کرتی ہے کہ اگر سونے کا ڈھیر بھی کسی کے سامنے پڑا ہو تو وہ اس کو ہاتھ بھی نہ لگائے کیونکہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ جو شخص روزے کے دوران سخت پیاس اور بھوک میں بہترین کھانا سامنے ہونے کے باوجود اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھاتا، وہ یہ کیسے کرسکتا ہے کہ عام حالات میں کسی دوسرے کی دولت پر ہاتھ ڈالے۔ گویا اس ثقافت کی ایک بنیاد وہ احترا م ہے جو دوسرے کی ملکیت یا مال کے بارے میں یہ ثقافت ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتی ہے۔
اس ثقافت کا ایک اوراہم پہلو جو روزہ ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سارے معاملات کی بنیاد ایک شعوری عمل ہو، عقلی رویہ ہو جس میں ایک شخص سوچنے سمجھنے کے بعد یہ طے کرے کہ مجھے کوئی کام کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً ایک شخص اگرمعمولی سی فہم بھی رکھتا ہو، تو وہ یہ بات تسلیم نہیں کرے گا کہ اپنی زندگی کو تباہ کرنے کے لیے منشیات کا استعمال کرے، یا شراب کا استعمال کرے جو اس کواپناغلام بنا لیں۔ یہ رویہ عقل و شعور کا نہیں ہوسکتا۔ روزہ ایسی فضا پیدا کرتا ہے جس میں منشیات کے خلاف جہادکا جذبہ پیدا ہو جائے اور ایک شخص بجاے منشیات کا غلام بننے کے ایسا عقلی رویہ اختیار کرے جس میں شعوری طور پر یہ دیکھ سکے کہ اس کے لیے کیا چیز مفید ہے اور کیا نقصان دہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک ظلم یہ ہے کہ اشتہارات کے ذریعے بچوں کو بھی ایسے مشروبات پینے کی ترغیب دی جاتی ہے جو طبی معلومات کی روشنی میں صحت کے لیے مضر ہیں اور آہستہ آہستہ منشیات تک پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ رمضان کے دوران ان مُضِر مشروبات کے اشتہار افطاری کے حوالے سے دکھائے جاتے ہیں جو اسلامی ثقافت سے ناواقفیت کی علامت ہے۔
رمضان وہ ثقافت پیدا کرتا ہے جس میں محض شعوری رویہ ہی نہیں بلکہ انسانوں کے حوالے سے بھی یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ انسان اپنی فطری ضروریات کو اخلاقی ضابطے میں رہتے ہوئے کس طرح پورا کرے۔چنانچہ روزہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ روزے کے دوران کن کاموں سے اجتناب کیا جائے، مثلاً جنسی ضرورت کا پورا کرنا۔ اسلامی ثقافت میں جنس بجاے خود ناپسندیدہ چیز نہیں ہے۔ روزے کے دوران جنسی تعلق قائم نہ کرنا تزکیہ اور تربیت کا ایک ذریعہ ہے لیکن روزہ مکمل کرنے کے بعد جائز تعلق قائم کرنا تقویٰ کی علامت ہے۔ قرآن کریم رہبانیت اور مجرد رہنے کی ممانعت کرتا ہے اور ترغیب دیتا ہے کہ اہل ایمان خاندانی زندگی گزاریں۔ چنانچہ وہ حکم دیتا ہے کہ مسلمانوں میں سے جو مجرد ہوں ان کے نکاح کر دیے جائیں۔ رمضان میںجنسی تعلق کے حوالے سے قرآن پاک اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ اگر اجازت نہ دی گئی تو بعض افراد خیانت کریں گے، اس لیے روزے کے افطار کے بعد سے سحر کے وقت تک ایک شخص کو جائز خواہشات کو پورا کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ گویا اس ثقافت کی بنیاد جائز تعلقات کا احترام ہے، اُن کا باقی رکھنا، اوران کے حقوق کا ادا کرنا ہے۔ روزے کے دوران بعض کاموں سے رُک جانا اور افطار کے بعد انھی کاموں کا مباح ہو جانا یہ پیغام دیتا ہے کہ روزے کی اصل روح اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کا احترام ہے۔ یہ حدود جنسی تعلقات سے متعلق ہوں یا غذا اور آرام سے متعلق، ان پر عمل کرنا ہی روزے کو باعث اجر بناتا ہے۔
روزہ ہمارے اندروہ ثقافت پیدا کرتا ہے جواللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وجود کے احساس کے ساتھ ساتھ، اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ؐکی محبت ہمارے دلوں میں اُتارتی ہے۔ ہم ہر معاملے میں یہ چاہتے ہیں کہ یہ دیکھیں کہ خاتم النبینؐ نے کس کام کو کس طرح سے کیا۔ چنانچہ آپؐ کی سنت اور آپؐ کے عمل کی پیروی ہمارے ایمان میں وہ قوت اور تازگی پیدا کردیتی ہے جو اس با برکت موسم کا امتیاز ہے۔ روزے کے ذریعے جو ثقافت پیدا ہوتی ہے وہ گویا توحیدی ثقافت ہے۔ وہ ثقافت عدل والی ہے۔ وہ احترام اور حیا کی ثقافت ہے۔ وہ احترام مال کی ثقافت ہے۔ وہ احترام عقل و شعور کی ثقافت ہے ۔وہ اطاعتِ رسولؐ کی ثقافت ہے۔ اس کے اندر وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ایک معاشرے کو پُرامن بنا سکتی ہیں۔ اس ثقافت کو وجود میں لانے اور اس کی حیات کو روح فراہم کرنے والی شے قرآن کریم ہے جس کے نزول کی شان میں یہ عبادتوں والا مہینہ اس کلام عزیز کے بھیجنے والے نے خود منتخب فرمایا۔ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ کا اشارہ اسی جانب ہے کہ یہ محترم مہینہ ہے جو ایسی ثقافت کو وجود میں لاتا ہے جس میں ہرعمل اللہ تعالیٰ کی رضا کا پابند ہے۔ اس مہینے کو قرآن کریم کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے۔ فرمایاگیا: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَــیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ (البقرہ۲:۱۸۵)، یعنی یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل فرمایا جو ہدایت ہے انسانوں کے لیے۔ یہ فرق بتانے والا ہے اچھائی میں اور برائی میں۔ یہ ہر چیز کو واضح بیان کردیتا ہے اور ہمیں سمجھا دیتا ہے کہ کون سے کام کرنے کے ہیں اور کون سے نہ کرنے کے۔
رمضان جو ثقافت پیدا کرتا ہے وہ کوئی نمایشی اور مصنوعی ثقافت نہیں ہے، بلکہ ایک عالم گیر ثقافت ہے جس میں تمام انسانوں کے لیے بھلائی، ہدایت اور کامیابی کا راز ہے۔ یہ مہینہ قرآن کے ساتھ قریبی تعلق پیدا کرنے کا مہینہ ہے۔ اس میں ہر صاحب ایمان کتاب کے ساتھ ایک ذاتی اور گہرا تعلق پیدا کرتا ہے۔ وہ زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ توحید کی اکائی کے تحت زندگی کے تمام کاموں میں یک جہتی، یگانگت اور وحدانیت پیدا کرتا ہے۔
روزہ اس ثقافت کو پید ا کرتا اور پروان چڑھاتا ہے جو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیمات کی روشنی میںہمیں تعمیراور ترقی کے تمام مواقع فراہم کرتی ہے۔ یہ اُس ثقافت کی مخالفت کرتا ہے جو برقی ذرائع ابلاغ کے ذریعے مغربی یا ہمسایہ ملکوں کی غیر اخلاقی ثقافت کو ہم تک پہنچاتی ہو۔ یہ ثقافت، علاقائیت، رنگ و نسل، زبان اور جغرافیائی حدود کی غلام نہیں ہے بلکہ آفاقی اور عالم گیر ہے۔ قرآن کریم اپنے بارے میں یہی کہتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے، چنانچہ اس کی ثقافت بھی عالم گیر ثقافت ہے۔ یہ عالمی امن، احترامِ انسانیت اور حقوق انسانی کو بحال کرنے والی ثقافت ہے۔ اس کی پہچان اخلاقی رویہ اور انسانوں کے حقوق کو جیسا ان کا حق ہے ادا کرنا ہے۔ یہ حقوق و فرائض کی واضح تقسیم پر مبنی ثقافت ہے۔ (مقالہ نگار کی کتاب روزہ اور ہماری زندگی کا ایک باب۔، ناشر: منشورات، لاہور)