ایک فی صد برسرِاقتدار طبقہ مغرب زدگی کے کوڑھ کواس ملک کی ۹۹ فی صد مسلم آبادی پر مسلط کردینے پر بضد ہے۔ حد یہ کہ راے عام کے دبائو کے تحت قراردادِ مقاصد میں اسلام کا کلمہ پڑھ لینے کے بعد ، پھر اس کے متوازی یہ روش بھی جاری رہی ہے کہ اخلاقی و معاشرتی لحاظ سے قوم کو اسلامی معیار سے اور زیادہ نیچے گرا دیا جائے۔ پھر مسودۂ دستور میں اسلام کے نمایاں اجتماعی تقاضوں کو صاف صاف لفظوں میں جذب کرلینے کے بعد بھی یہ الٹی مہم چلائی جارہی ہے کہ آرٹ اور کلچر اور ترقی کی اصطلاحات کے پردے میں عریانی اور فحاشی کا ایک ایسا طوفان اُٹھا دیا جائے جس کا پانی دستوری فیصلوں کے سر سے گزر جائے.....
اس موقعے پر جماعت اسلامی کی مجلسِ شوریٰ نے اپنی ایک قرارداد کے ذریعے اربابِ اقتدار کو بھی اس بارے میں متنبہ کیا ہے اور عوام کو بھی توجہ دلائی ہے۔ قراردادمنفی نوعیت کی نہیں، مثبت طور پر اسلامی ماحول بنانے کے لیے تعمیری تجاویز بھی سامنے لاتی ہے۔ اِن تجاویز میں ریڈیو اور سینما اور دوسری تفریحات کو اخلاق سوز سرگرمیوں سے ہٹاکر تعمیری مقاصد کے تابع کرنے، جائز تفریحات کے لیے شہروں اور قصبوں اور خاص طور پر نئی آبادیوں میں مناسب انتظامات کرنے، ملکی اور غیرملکی لٹریچر پر احتساب کی کڑی نگاہ جمائے رکھنے، مخلوط تعلیم کا سدِّباب کرنے، آرٹ اور کلچر کے نام سے ہونے والی سرگرمیوں میں وزرا اور سرکاری افسروں کے لیے حصہ لینے کی ممانعت کرنے اور زناکاری کے اڈّوں کا ملک بھر میں استیصال کرنے کے مطالبات پیش کیے گئے ہیں۔ یہ وہ مفاسد ہیں جنھوں نے ہردور میں انسانیت کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہے اور جن کے مضر نتائج بار بار کے عالم گیر تجربوں سے نمایاں ہوچکے ہیں۔ خاص طور پر اسلامی نظامِ اخلاق ومعاشرت تو ان کے ہوتے ہوئے کسی درجے میں بھی پروان نہیں چڑھ سکتا۔ پس ہر معقول آدمی ان تجاویز کی اہمیت کو محسوس کرسکتا ہے۔ ان میں خطاب صرف حکومت ہی سے نہیں کیا گیا بلکہ عوام سے بھی دردمندانہ اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھی اپنے آپ کو اور اپنے بھائیوں کے اخلاق کو بچانے کی سعی کریں۔ (’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۴۲، عدد۴، شوال ۱۳۷۳ھ،جولائی ۱۹۵۴ء، ص۷-۸)