قرآنِ مجید وہ مہتم بالشان صحیفۂ ہدایت ہے جس نے نہ صرف تاریخِ انسانی کا دھارا موڑا، بلکہ فکروعمل کا معیار بھی یکسر تبدیل کردیا۔ قرآنِ مجید کی صورت میں الہامی تعلیمات نے نہ صرف حیاتِ انسانی کو متاثر کیا، بلکہ اس کائنات کے حیرت انگیز اسرار کی پردہ کشائی کے ساتھ مدتِ دراز سے مروج ہرنوع کے افکار و نظریات کے علی الرغم کائنات کی اَبدی اور کھلی حقیقتوں پر مضبوط، مؤثر اور مستحکم دلائل پیش کیے۔
قرآنِ مجید روے زمین پر کائنات کے خالق، مالک، آقا و حاکم اور مقتدرِ اعلیٰ کی حقانیت بلکہ وجود پر سب سے بڑی، روشن اور شان دار دلیل ہے۔ اسی لیے سورۃ النساء میں اسے ’بُرہان‘ قرار دیا گیا۔ بُرہان کے لغوی معنی ’دلیل اور حجت‘ کے ہیں۔ دلیل راہنما کو بھی کہتے ہیں اور اس سے مراد وہ نظریہ، عقیدہ، فکر اور اصول بھی ہے، جو کسی بھی معاملے میں واضح اور فیصلہ کن رہنمائی عطا کرے۔
قرآنِ مجید کی ہرآیت اور ہر حرف تاقیامت دلیل و حجت اور کامل رہنمائی ہے۔ وہ لوگ جو حق و راستی کے طالب ہوں، ان کے قلوب و اذہان ہر نوع کی کجی اور ٹیڑھ سے پاک ہوں، قرآنِ کریم انھیں ہمہ پہلو دلائل و براہین سے حق کا شعور و آگہی، عمل کی توفیق اور استقامت عطا کرتا ہے۔
قرآنِ مجید نے اپنے طرزِ استدلال میں وہ تمام اسالیب اختیار کیے، جن کا تعلق انسان کی عقل و فہم ، سماعت اور مشاہدے سے ہو۔ قرآن نے مروج ادبی معیارات سے کہیں بڑھ کر بلند تر معیار کو اپناکر دقیق سے دقیق بات پاکیزہ، واضح اور مؤثرانداز میں اس طرح بیان کی کہ ہرشخص نے اپنی فہم و دانش اور ظرف کے مطابق اس سے نہ صرف صراطِ مستقیم کا شعور حاصل کیا، بلکہ اس کے جلال و کمال اور ہیبت و عظمت کے سامنے مبہوت ہوکر رہ گیا۔
قرآنِ حکیم نے اپنے دلائل و براہین پر جن لوگوں کو غوروفکر کی دعوت دی، ان میں اہلِ عقل و دانش ، اہلِ ایمان اور اہلِ علم کے ساتھ اللہ کا خوف رکھنے، آیات کو سننے اور انھیں سمجھنے کی صلاحیت رکھنے، ان سے نصیحت پکڑنے اور اس نعمت عظمیٰ پر شکر بجا لاتے ہوئے اس کی عطا کردہ راہِ ہدایت پر استقامت دکھانے والے شامل ہیں۔
قرآنِ مجید کے دلائل و براہین کا اوّلین موضوع خود اس کا اپنا وجود ہے۔ اس کی پہلی دلیل ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ (البقرہ ۲:۲)، یعنی یہ کتابِ مقدس ہر نوع کے شک و شبہے سے بالا، ہرآمیزش سے مبرا، ہرکجی سے پاک اور دونوں جہانوں کے رب کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ قرآن نے خو د کو ہدایت، موعظت، شفا، رحمت، حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا اور نصیحت قرار دیتے ہوئے نہایت قوی دلیل دی کہ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج (انعام۶:۱۵۳)، کہ میرا بیان کردہ راستہ ہی سیدھا راستہ ہے، لہٰذا اسی کی پیروی میں نجات اور اس سے انحراف سراسر گمراہی ہے۔ قرآن نے اپنے وجود مسعود و محمود کے ساتھ اپنے محفوظ ہونے پر بھی دلائل دیے کہ یہ کسی انسان کا کلام ہرگز نہیں، اس کا نازل کرنے والا اللہ بزرگ و برتر ہے، اور وہی اس کا محافظ بھی۔ قرآن نے اپنے وجود کی عظمت اور حقانیت پر دلیل دیتے ہوئے تمام جِنّ و انس کو چیلنج دیا کہ وہ سب مل کر اس کے افکار و نظریات تو دُور کی بات، اس کی ایک سورۃ یا آیت جیسا کلام بناکر دکھائیں۔ پھر خود ہی اعلان بھی کردیا: لَا یَاتُوْنَ بِمِثْلِہِ کہ سارے جِنّ و انس مل کر بھی ایسا ہرگز نہ کرسکیں گے۔ قرآن نے اپنے وجود پر ایک اور قوی دلیل یہ پیش کی کہ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر۵۴:۳۲) ، یعنی یہ معانی و مفاہیم، قرأت و تجوید اور حفظ و عمل کے اعتبار سے نہایت آسان ہے۔ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ تو ہے کوئی اس سے نصیحت حاصل کر کے اپنے سینوں میں اُتارنے اور کتابِ حیات پر نافذ کرنے والا؟
قرآن نے اپنے براہین کا دوسرا موضوع صاحب ِ قرآن کو بنایا، اور صاحب ِ قرآن کے اُمّی ہونے کو اپنے لاریب ہونے پر دلیل بنایا کہ وہ ذاتِ اقدس جو اُمیوں کے معاشرے سے اُٹھی، اور الہامی تعلیم و تربیت اور راہنمائی کے سایے میں اُس اخلاق و کردار سے متصف ہوئی ، جو خود قرآن کا پرتو، اس کی عملی تصویر اور ہمہ پہلو مجسم دلیل قرار پائی۔ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰن، اور یہی وجودِ اقدس تابہ اَبد انسانیت کے لیے نمونۂ عمل اور اسوئہ حسنہ ، معیارِ ہدایت و ضامنِ نجات قرار پایا۔ قرآن نے نہ صرف بعثت ِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل فراہم کیے، بلکہ منصب ِ رسالت پر بھی ہمہ پہلو دلائل پیش کیے۔
قرآنِ حکیم نے اپنے دلائل کا تیسرا موضوع بارگاہِ الٰہی سے بارگاہِ رسالت میں لانے والے کو بنایا، کہ وہ بھی نہایت محترم، معتبر اور مستند واسطہ ہے۔ یہ پیام رساں جبریل امین ؑ نہایت عظیم المرتبت، بارگاہِ الٰہی کا نہایت قوی مقرب، فرمانِ الٰہی کا پابند اور صاحب ِ امانت ہے۔
براہین قرآنی کا چوتھا اور کلیدی موضوع وجودِ باری تعالیٰ اور ا س کی توحید، عظمت و جلال، اختیار واقتدار، وسعت و قوت کا اعلان و اظہار ہے۔ اور نہ صرف نزولِ قرآن اور بعثت ِ رسالت مآبؐ کا مقصد ہے، بلکہ تحقیق کائنات کی غرض و غایت بھی یہی ہے۔ قرآنِ حکیم نے انسان کے اپنے وجود، تخلیق، تکوین کائنات اور بے شمار ظاہروباطن، مظاہرقدرت اور مناظر فطرت کو دلیل بناکر اللہ کی وحدانیت، عظمت، کبریائی، قوت و اختیار و اقتدار، جلال و جمال اور ذاتِ باری کے ہرپہلو کو نمایاں اور واضح کیا۔ قرآن نے اپنے دلائل سے تخلیق کائنات کا یہ مقصد واضح کیا کہ نہ تو یہ کھیل تماشے کے لیے ہے اور نہ بے مقصد۔ تخلیق جِنّ و انس اور تکوین کون و مکاں کا واحد مقصد اللہ کی ہمہ پہلو، مکمل اور مسلسل عبادت، یعنی بندگی ہے۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo (الذاریات ۵۱:۵۶) ’’میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔
قرآنِ حکیم اس حقیقت پر بھی بُرہان ہے کہ یہ کائنات اَبدی نہیں، فانی ہے۔ بقا و دوام تو فقط ذاتِ باری تعالیٰ کو ہی ہے۔ اس کائنات کا انجام آخرت ہے، جو بہرصورت اور بہت جلد برپا ہوگی۔ عدلِ الٰہی کا تقاضا ہے کہ حیاتِ دنیوی میں آزمایش کے لیے بھیجے جانے والوں کی مہلت ِ عمل مکمل ، امتحان کا اختتام ہو اور فیصلے کا دن برپا کر کے جزا و سزا کے ذریعے اہلِ کفر اور اہلِ ایمان میں وعدے کے مطابق فرق و امتیاز کیا جائے۔ قرآنی دلائل کی روشنی میں دنیا تو دارالعمل، متاعِ قلیل اور بے وقعت ہے، جب کہ آخرت بہتر، دائمی اور دارالجزا ہے۔ وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰیْo (الاعلٰی۸۷:۱۷)
براہین قرآن کا چھٹا موضوع تسخیر کائنات ہے کہ یہ بحروبَر، شمس و قمر، لیل و نہار، سب بندئہ مومن کے لیے اور اس کی میراث ہیں۔ اَلَمْ تَـرَوْا اَنَّ اللّٰہَ سََخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ (لقمان۳۱:۲۰) ’’کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمھارے لیے مسخر کررکھی ہیں‘‘۔ مومن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انھیں امانت تصور کرتے ہوئے آقا و مولا کی مرضی و منشاء کے مطابق استعمال تو کرے، لیکن ان میں گم اور غرق ہوکر نہ رہ جائے۔ اس کائنات کے اسرار و رُموز سے آگاہی حاصل کرکے اپنے رب کی معرفت اور اپنی شب تاریک سحر تو کرے، اس دنیا کے زینت و تفاخر اوردھوکے میں ڈالنے والی رعنائی و دل کشی کا اسیر ہرگز نہ بنے۔
ساتواں موضوع جسے قرآنِ حکیم نے اپنے دلائل و براہین کا مرکز بنایا، وہ قوموں کا عروج و زوال ہے۔ اُممِ سابقہ کے تذکرے، انبیا اور ان کے اصحاب کے قصے، قوموں کے انفرادی و اجتماعی کردار، معاشرتی رویے، آیاتِ الٰہی کی تکذیب، عناد اور مخالفت کے انجام، اہلِ کفر اور اہلِ ایمان کے معرکہ ہاے حق و باطل، ظلم و جبر کی داستانیں، صبرواستقلال اور عزیمت کے واقعات، انسانوں پر انسانوں کی خدائی کے جھوٹے دعوے اور ان کے عبرت ناک انجام___ ان سب کو قرآن نے اس امر پر دلیل بنایا کہ حق و باطل ہمیشہ سے برسرِپیکار رہے ہیں، لیکن غلبہ بالآخر اہلِ حق کو ہی حاصل ہوا۔ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْن (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۳۹) ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔
قرآنِ حکیم نے ان چند بنیادی موضوعات پر بار بار، تفصیلی اور مستحکم دلائل دینے کے علاوہ بعض دیگر اُمور اور حقائق کے بارے میں بھی مدلل رہنمائی عطا کی، جن میں:
قرآنِ مجید کی ہر آیت کسی نہ کسی انسانی رویے کے حُسن و قبح پر دلیل اور کسی نہ کسی اَبدی اور سچی حقیقت کی غماز ہے۔ یہ سب دلائل و براہین انسان کی ہدایت کا سامان اور قلب ونظر کے اطمینان ، اور دنیا کی فلاح اور عقبیٰ کی نجات کا باعث ہیں۔
قرآن دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ یہ انسان کی بیش بہا خوش بختی ہے کہ وہ حاملِ قرآن ہے مگر بحیثیت مجموعی اس کی سب سے بڑی بدبختی بھی یہی ہے کہ وہ تارکِ قرآں ہے۔ وہ اس سے غافل ہی نہیں ہے، بلکہ اپنی زندگی کے ہرمعاملے میں اس سے اعراض برتے ہوئے ہے۔ اسی کا نتیجہ اس کی ذلت و رُسوائی، بے سکونی اور بے اطمینانی ہے۔
قرآنِ مجید کی تمام تعلیمات اور دلائل و براہین اپنے مخاطبین سے صرف ایک ہی تقاضا کرتے ہیں، اور وہ ہے ایمان باللہ اور اس کی عطا کردہ تعلیماتِ قرآنی کو تھام لینا۔ گویا اللہ کی ذات، صفات، اختیار وغیرہ پر کامل ایمان کے ساتھ اس کے لازمی تقاضوں پر بھی غیرمتزلزل ایمان کے بعد اعتصام بحبل اللّٰہ… یعنی عقائد کی درستی اور پھر اعمالِ صالح۔ سورۃ العصر بھی ان ہی امور کی تفصیل بیان کرتی ہے کہ ایمان، عملِ صالح اور حق کی وصیت کے ساتھ باہم صبرواستقامت کی تلقین۔ یہ چیزیں اللہ کی رحمت، فضل، اس کی جانب سے صراطِ مستقیم کی رہنمائی اور اس کی رضا کا موجب ہیں۔
قرآنی فلسفۂ حیات میں معاشرتی زندگی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن اس میں اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنانے کا درس دیتا ہے اور اس کی تعلیمات کا مرکزو محور یہ نکتہ ہے کہ اجتماعی زندگی گزارتے ہوئے سعادت اور کامیابی کا انحصار اس امر پر ہے کہ کوئی حق دار محروم نہ ہو اور کسی پر زیادتی اور ظلم نہ ہو۔ قرآن میں بیان کردہ تمام اخلاقی قوانین اسی محورکے گرد گھومتے ہیں۔
غیبت، سوء ظن، تمسخر، بدعہدی، ناپ تول میں کمی، فحش گوئی وغیرہ سے اجتناب کی ہدایت، اہلِ خانہ اور والدین سے حُسنِ سلوک ، عفو و درگزر، تحمل و وقار، پاک بازی، راست بازی ، امانت کا تحفظ، عدل و انصاف کا قیام، ہر فرد کے حقوق کا تحفظ، انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے معاشرے کی صلاح و فلاح، ایک دوسرے کی ضرورتوں کی تکمیل کا احساس ___ہمارے معاشرتی رویوں سے متعلق قرآنی ہدایات کے چند نکات ہیں۔
قرآن کے تمام ہمہ پہلو دلائل و براہین ساری انسانیت اور بالخصوص اہلِ ایمان کو دعوت دے رہے ہیں کہ اگر ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے نہیں، تو وہ ان پر غور کریں، ان سے نصیحت اور رہنمائی حاصل کر کے انھیں اپنی زندگیوں کا مرکز و محور بنائیں۔
اے اہلِ ایمان! اگر تم مسلمان کی حقیقی آن بان اور شان کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہو تو نِیست ممکن جز بہ قرآں زیستن… قرآن کے بغیر باعزت زندہ رہنے کا تصور ممکن ہی نہیں۔اور ڈرو میدانِ حشر کے اس لمحے سے جب رسولؐ بارگاہِ الٰہی میں فریاد کناں ہوں گے: یٰـرَبِّ اِِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا (الفرقان ۲۵:۳۰) کہ اے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا اور تب یہ قرآن بھی ہمارے خلاف حجت بن کر اُٹھ کھڑا ہوگا۔