۱۱مئی ۲۰۱۳ء کو منعقد ہونے والے قومی انتخابات کو، اپنی تمام تر خامیوں اور بے قاعدگیوں کے باوجود، ملکی حالات میں تبدیلی اور اصلاح کے باب میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا سمجھا جا رہا تھا اور توقع تھی کہ دو بار کا تجربہ رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے صدر جناب نواز شریف صاحب کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت مشرف اور زرداری اَدوار کی روش کے مقابلے میں پاکستان کے حقیقی مفادات اور عوام کے جذبات اور توقعات کے مطابق اور خود اپنے ماضی کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادے گی جس میں وہ پھنسی ہوئی ہے۔ سب ہی نے کھلے دل سے اس کو موقع دیا اور اچھی توقعات وابستہ کیں۔ راے عامہ کے جائزے اور اخبارات کے صفحات اس کے غماز ہیں۔
اس فضا میں پارلیمنٹ کی تمام پارٹیوں نے اپنے اپنے انداز میں اور سارے تحفظات کے باوجود، دست ِ تعاون بڑھایا اور نواز شریف صاحب نے بھی ملک کے دستور اور مسلم لیگ (ن) کے منشور کی پاس داری کے دعوے کے ساتھ اچھی طرزِ حکمرانی کا وعدہ کر کے اُمیدوں کے کچھ چراغ روشن کیے۔ عدلیہ سے ماضی کی حکومت کا جو ٹکرائو چل رہا تھا، وہ ختم ہوتا نظر آیا۔ سول اور عسکری اداروں میں نئے صحت مند تعاون اور اعتماد باہمی کی بات ہونے لگی۔ میڈیا کا رویہ بھی بحیثیت ِ مجموعی مثبت اور اُمید افزا تھا اور پھر صوبہ سندھ میںپیپلزپارٹی اور صوبہ خیبرپختونخوا میں تحریکِ انصاف کی اکثریت کا احترام کرتے ہوئے ان کی حکومتوں کے قیام، اور بلوچستان کے مخصوص حالات کی روشنی میں قومی وطن پارٹی کی اکثریت نہ ہوتے ہوئے بھی مسلم لیگ (ن) کی مدد سے مخلوط حکومت کا قیام ایک اچھا آغاز تھا۔ لیکن چند ہی ہفتوں میں پرانی سیاست کے تاریک سایے مطلع کو سیاہ آلود کرنے لگے، عوامی مسائل اور انتخابی وعدے پسِ پشت پڑنے لگے اور شخصی ترجیحات اور خاندانی سیاست ایک نئی شان کے ساتھ جلوہ فگن ہوگئی۔ اُمیدیں دم توڑنے لگیں، تصادم اور کش مکش کی لہریں اُٹھنے لگیں، مفادات کا کھیل پھر شروع ہوگیا، اور اُمیدوں کے جو چراغ روشن ہوئے تھے، ایک ایک کرکے بجھنے لگے۔ عوام اور سیاسی حلقوں میں مایوسی کی ایک لہر اُبھرنے لگی جو اَب شدید مایوسی کا رُوپ اختیار کرچکی ہے۔ گیلپ کے تازہ جائزے کی رُو سے ملکی آبادی کا ۴۴ فی صد حکومت کی کارکردگی سے غیرمطمئن ہے اور صرف ۸ فی صد نے مکمل طور پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ پہلے ہی سال کی اس ’کارکردگی‘ پر بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
جنرل مشرف کے اقتدار کے نو سال اور پیپلزپارٹی کی حکمرانی کے پانچ سال ہماری تاریخ کا تاریک باب ہیں۔ دونوں کی پالیسیوں میں ایک گونہ تسلسل تھا اور یہ اُس این آر او (مفاہمتی گٹھ جوڑ) کا ایک حد تک فطری نتیجہ تھا، جس کے تحت پیپلزپارٹی برسرِاقتدار آئی تھی اور جو امریکا اور برطانیہ دونوں کے بنائے ہوئے نقشے کے مطابق اور ان کی سفارت کاری کا ثمرہ تھا۔ یہ اور بات ہے کہ حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی اور حزبِ اختلاف نے ایک خاص کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں گو جنرل مشرف کو سلامی دے کر بھی ملک سے رخصت کردیا گیا، مگر بدقسمتی سے مشرف کی بنائی ہوئی پالیسیوں کو اس کے ساتھ رخصت نہ کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں نوازشریف صاحب نے جب جون ۲۰۱۳ء میں اپنے دورِ حکومت کا آغاز کیاتو ملک اندرونی اور بیرونی ہرمحاذ پر شدید ترین بحرانوں کی گرفت میں تھا۔
یہ تھے وہ سات بڑے بڑے چیلنج جو نواز حکومت کو درپیش تھے اور توقع تھی کہ وہ ان میں سے ہر ایک کے باب میں مناسب اور مؤثر حکمت عملی بنائے گی اور ایک واضح نقشۂ راہ کے ذریعے ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی خدمت انجام دے گی۔
حکومت نے عوام کی اچھی توقعات اور سیاسی اور دینی قوتوں کے تعاون کی فضا میں سفر کا آغاز کیا۔ پھر نواز حکومت کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل تھی اور مخلوط حکومت کی جو مجبوریاں ہوتی ہیں، وہ اس کی راہ میں حائل نہ تھیں۔ سب سے بڑے صوبے، یعنی پنجاب میں مسلم لیگ کی اپنی حکومت تھی اور بلوچستان میں بھی مسلم لیگ کو اسمبلی میں مضبوط پوزیشن حاصل تھی اور وہ حکومت کا حصہ تھی۔ ۲۰۱۳ء تک جو سفر جمہوریت نے طے کیا تھا اس میں بھی یہ اشارے موجود تھے کہ اگر حکومت اچھی حکمرانی کا مظاہرہ کرے تو تمام دوسرے ادارے اور قوتیں دستور میں دیے ہوئے توازنِ اختیارات کی طرف سفر جاری رکھ سکیں گے اور جو عدم توازن مشرف دور میں راہ پاگیا تھا، وہ اچھی حکمرانی، آزادعدلیہ اور فعّال میڈیا کی بدولت آگے کے مراحل کامیابی سے طے کرسکے گا۔ پھر یہ بھی توقع تھی کہ مسلم لیگ کے پاس نسبتاً زیادہ تجربہ کار اور باصلاحیت ٹیم ہے جو پارلیمنٹ کی تائید اور رہنمائی میں ملک کو درپیش بحرانوں سے نکالنے اور وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ان تمام مثبت پہلوئوں کی موجودگی میں توقع کی جارہی تھی کہ حالات نئی کروٹیں لیں گے، ملک مسائل سے نکل سکے گا اور پاکستان حقیقی ترقی کی منزل کی طرف ایک آزاد اور اسلامی اور فلاحی ملک کی حیثیت سے پیش رفت کرسکے گا۔ لیکن یہ تمام توقعات ان ۱۲ مہینوں میں پاش پاش ہوگئی ہیں اور پانی کی تلاش میں سرگرداں قوم کا مقدر ایک اور سراب کا نشانۂ ستم بنتا نظر آرہا ہے۔
اس ایک سال میں نواز شریف حکومت نے جو کارکردگی دکھائی ہے، اس نے قوم کو مایوس کیا ہے اور بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔ وہ عناصر جو جمہوریت کو ترقی کرتے نہیں دیکھناچاہتے، پَرتول رہے ہیں کہ کس طرح وار کریں اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اُتار دیں۔ ہم بڑے دکھ اور دل سوزی سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ حالات کو بگاڑنے میں بیرونی عناصر کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ذمہ داری خود مرکزی حکومت کی بے عملی، غلط حکمت عملی، بُری حکمرانی، بے تدبیری ، وقتی اقدامات (adhocism) اور مہم جوئی (adventurism) پر بھی آتی ہے۔ اگر حکومت نے اپنی روش فی الفور تبدیل نہیں کی تو ہمیں خطرہ ہے کہ جمہوریت کی گاڑی کے پٹڑی سے اُترنے کے خدشات خدانخواستہ حقیقت کا رُوپ اختیار کرسکتے ہیں۔
ابھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں اور حالات کو قابو میں لانے کے لیے سرتوڑ کوشش کی جائے اور اس کے لیے تمام سیاسی اور دینی جمہوری قوتوں کا تعاون حاصل کیا جائے۔
نواز حکومت کے اس پہلے سال کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں، جن کا اِدراک اور پھر اصلاحِ احوال کے لیے مؤثر حکمت عملی کی تشکیل اور اس پر عمل ہی ملک کو تباہی سے بچاسکتے ہیں۔ وقت اور مہلت کی گھڑیاں کم ہیں، اس لیے فوری توجہ اور عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ اس جائزے سے جو باتیں سامنے آئی ہیں ان کو دو بڑی بڑی درجہ بندیوں میں بیان کیا جاسکتا ہے: ایک کا تعلق طرزِحکمرانی سے ہے اور دوسری کا پالیسی کے اہداف اور خطوط کار سے۔
طرزِ حکمرانی کے باب میں صاف نظر آرہا ہے کہ وزیراعظم صاحب نے مشاورت اور فیصلہ سازی کے معروف جمہوری اور اداراتی راستے کو اختیار کرنے کے بجاے شخصی حکمرانی اور ذاتی وفاداریوں کی بنیاد پر کاروبارِ حکومت چلانے کے طریقے کو ترجیح دی ہے، جو بگاڑ کی بنیادی وجہ ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ساری فیصلہ سازی ایک مختصر ٹولے میں محدود ہے جس کا انتخاب خون کے رشتے یا ذاتی دوستی یا مفادات کے اشتراک پر ہے‘ صلاحیت، تجربے اور فہم وفراست پر نہیں۔
اچھی حکمرانی کا انحصار اصول اور ضابطۂ کار پر اعتماد، مشاورت کے وسیع تر نظام، پالیسی سازی میں تحقیق اور تجزیے کا اہتمام، اور ہر کام کے لیے صحیح ترین فرد کا انتخاب اس کی صلاحیت اور دیانت کی بنیاد پر ہے۔ ذاتی پسند و ناپسند سے ادارے تباہ ہوجاتے ہیں اور مسائل وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔
ہر کامیاب نظام کے لیے، اور خصوصیت سے جمہوری نظام کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ، کابینہ، پارلیمنٹ اور کابینہ کی کمیٹیوں ، تحقیقی اداروں، صوبوں اور ملک کے دوسرے تمام متعلقہ اداروں اور اسٹیک ہولڈرز سے مؤثر اور مسلسل مشورہ ہو۔ اس طرح پالیسی سازی باہمی مشاورت، مذاکرات اور تعاونِ باہمی کے ذریعے انجام دی جائے۔ پارلیمنٹ اور میڈیا میں کھلی بحث ہو۔ مرکزی حکومت کے بارے میں عام شکایت یہ ہے کہ چند افراد پورے ملک کی قسمت کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں نہ کوئی قابلِ ذکر قانون سازی ہوئی ہے اور نہ پالیسی اُمور پر بحث۔ پھر وزیراعظم صاحب پورے سال میں صرف آٹھ بار پارلیمنٹ میں تشریف لائے ہیں اور وہ بھی رسمی طور پر ۔ وزیراعظم نے بمشکل دو پالیسی بیان اس زمانے میں پارلیمنٹ میں دیے ہیں۔ سینیٹ میں پورے سال کے بعد اب ایک بار چند منٹ کے لیے شریک ہوئے ہیں، وہ بھی اس شان سے کہ جو تقریر قومی اسمبلی میں کی ہے وہی سینیٹ میں دہرا کر رخصت ہوگئے، اور مقامِ حیرت ہے کہ اس تقریر میں یہ جملہ بھی اسی طرح ادا کردیا جس طرح قومی اسمبلی میں کیا تھا کہ ’’میں نے ۲۹جنوری کو اس ایوان میں جو اعلان کیا تھا‘‘ اس سہل انگاری پر ماتم کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس بار بار یاددہانی کرا رہی ہیں لیکن اہم ترین اداروں پر یا تو تقرریاں ہوہی نہیںرہی ہیں یا اگر ہورہی ہیں تو قواعد کے مطابق مستقل تقرریوں کی جگہ ایڈہاک انداز میں نامزدگیاں کی جارہی ہیں یا قائم مقام کام چلا رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ ۱۰ماہ سے خالی ہے، پیمرا کے سربراہ کا عہدہ خالی ہے، ۴۰ سے زیادہ سرکاری ادارے ہیں، جن کے سربراہوں کا تقرر اس ایک سال میں نہیں ہوسکا۔ اخباری اطلاع کے مطابق نو اہم اداروں کے سلسلے میں سمری وزیراعظم کے دفتر میں موجود ہے، لیکن ان پر فیصلے کی نوبت نہیں آتی۔ نیشنل کمیشن براے ہیومن رائٹس بل پارلیمنٹ میں مئی ۲۰۱۲ء کو منظور ہوا تھا، مگر کمیشن اور اس کے سربراہ کا تقرر آج تک معرضِ التوا میں ہے۔ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کا اعلان وزیرداخلہ نے پارلیمنٹ میں کرتے ہوئے کہا تھا کہ NACTA کے سربراہ کا تقرر، Rapid Deployment Force کا قیام اور جائنٹ انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کا نظام دواڑھائی ماہ میں متحرک ہوجائے گا۔ یہ اعلان ۱۳؍اگست ۲۰۱۳ء کو ہوا ہے مگر ان میں سے کوئی بھی ادارہ اب تک عملاً اپنا کام شروع نہیں کرسکا ہے۔
اعلان کیا گیا تھا کہ کابینہ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کا اجلاس ہر ماہ ہوا کرے گا اور دستوری ادارہ مشترکہ مفادات کی کونسل (Council of Common Intersts) کا اجلاس ہر تین ماہ میں ایک بار ضرور ہوگا لیکن کوئی بھی ادارہ اپنے وقت پر اپنا اجلاس منعقد نہیں کر رہا ہے۔ بات صرف ان ایک یا دو اداروں کی نہیں، اس سلسلے میں باقی ادارے بھی تقریباً اسی حالت میں ہیں۔
ہم بڑے دکھ سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ شخصی حکمرانی اور اہم ترین تقرریوں میں کوتاہی یا ذاتی پسند و ناپسند کا دور دورہ محض مرکز ہی میں نہیں‘ صوبوں میں بھی عام ہے۔ پنجاب تو میاں صاحب کی روایات کا اسیر ہے، لیکن خود سندھ کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں۔ کراچی جو ۳۰سال سے دہشت گردی کی لعنت کی گرفت میں ہے وہاں پولیس اور انتظامیہ سیاسی قیادتوں کی دخل اندازیوں سے تباہ ہے۔ کراچی پولیس کے سربراہ کے تقرر کو سیاسی کھیل بنایا ہوا ہے۔ پچھلے ۱۸مہینوں میں چھے سربراہ تبدیل ہوئے ہیں۔ اوسط مدت ملازمت ۱۲ہفتے بنتی ہے۔ شاہدحیات کو سب سے زیادہ زمانہ ایڈیشنل آئی جی رہنے کا موقع ملا، لیکن انھیں بھی نومہینے میں تبدیل کردیا گیا اور یہ سب اس کے باوجود کہ ڈی جی رینجرز ان کو قیامِ امن کے لیے عہدے پر فائز دیکھنا چاہتے تھے اور مرکزی وزیرداخلہ بھی اس تبدیلی پر کھلے بندوں احتجاج پر مجبور ہوئے، مگر چہیتوں کو تقرر کرنے والوں کا ہاتھ کوئی نہ روک سکا۔ شاید کچھ قوتیں چاہتی ہی نہیں کہ کراچی میں امن قائم ہو۔
سرکاری وسائل کو کس طرح ذاتی نام و نمود پر خرچ کیا جا رہا ہے، اس کی داستان بھی بڑی دل خراش اور شخصی حکمرانی کی بدترین مثال ہے۔ اس وقت جب تھر میں قحط پڑ رہا تھا اور بچے بھوک، پیاس اور ادویہ کی عدم فراہمی سے لقمۂ اجل بن رہے تھے، بلاول صاحب کے ’ذوقِ ثقافت‘ کی تسکین کے لیے موہن جوڈارو کا فیسٹیول منعقد کیا گیا جس پر ۲؍ارب روپے سرکاری خزانے سے خرچ کیے گئے۔ زرداری حکومت نے تحریکِ خواتین کی مدد کے پروگرام کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام دے کر سیاسی فائدہ اُٹھانے کا سامان کیا۔ اب سندھ حکومت نے بے نظیر شہید ڈویلپمنٹ پروگرام شروع کیا ہے۔ پھر لیاری میں سرکاری خرچ پر بلاول انجینیرنگ کالج قائم کیا جا رہا ہے اور لیاری ہی میں آصفہ انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرانکس قائم کیا جارہا ہے۔ یہ سب شخصی حکمرانی کی بدترین مثالیں ہیں۔ قومی وسائل جو ایک امانت ہیں، ان کو بے دریغ ذاتی اور سیاسی مصالح کے لیے صرف کیا جا رہا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے سمِ قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔
اندازِ حکمرانی کی اس تباہ کاری کے ساتھ قومی سلامتی و خارجہ پالیسی، اور سیاسی اور معاشی حکمت عملی کے باب میں بھی حکومت کا ریکارڈ نہایت مایوس کن ہے۔
سب سے پہلے ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کے مسئلے کو لیجیے۔ آزاد خارجہ پالیسی کی سمت میں کوئی پیش قدمی کسی سطح پر بھی نظر نہیں آتی۔ امریکا کا عمل دخل حسب سابق جاری وساری ہے۔ ڈرون حملے چھے ماہ کے تعطل کے بعد پھر اسی زور و شور سے شروع ہوگئے ہیں اور مغربی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ حکومت پاکستان کی اجازت اور فوجی انٹیلی جنس کے تعاون سے ہماری حاکمیت پر یہ حملے کیے جارہے ہیں۔ امریکاکو ۱۰سال کی کوشش اور دبائو کے بعد شمالی وزیرستان میں آپریشن کرانے میں کامیابی حاصل ہوگئی ہے اگرچہ اس کی ذمہ داری خود لی جارہی ہے، لیکن حقیقت وہی ہے جس کا اظہار ۱۵جون کے اقدام کے دو دن بعد ۱۷؍جون ۲۰۱۴ء کے انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز میں کیا گیا ہے۔ یعنی: ’’۱۰سال بعد جاکر امریکی مطالبے کو بڑی مشکل سے پذیرائی ملی، اگرچہ پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے بہت بڑا رسک ہے‘‘۔ ۲۶ جون کو امریکا میں پاکستان کے سفیر جناب جلیل عباس جیلانی نے صاف الفاظ میں اس دعوے پر یہ کہہ کر مہرتصدیق ثبت کردی ہے کہ: ’’امریکا وزیرستان آپریشن کے بارے میں مثبت رویہ رکھتا ہے اور کولیشن سپورٹ فنڈوزیرستان آپریشن کے لیے ہے ۔ امریکا پاکستانی فوج کی قربانیوں کا معترف ہے‘‘۔
قومی سلامتی اور خارجہ امور کے بارے میں وزیراعظم کے مشیر نے ایک سے زیادہ بار اس امر کا اظہار کیا ہے کہ: پاکستان افغانستان سے امریکی افواج کی ۲۰۱۴ء کے اختتام پر واپسی پر ناخوش ہے اور وہ امریکی افواج کے مزید افغانستان میں رہنے کاقائل ہے۔ حالانکہ علاقے میں امن کے قیام کا اس وقت تک کوئی امکان نہیں جب تک امریکی اور ناٹو افواج کاافغانستان سے مکمل انخلا نہیں ہوجاتا اور افغانستان میں ایک ایسی قومی حکومت وجود میں نہیں آتی، جس میں تمام افغان، بشمول طالبان، شریک ہوں۔لیکن ہماری حکومت وہی راگ الاپ رہی ہے جو مشرف نے امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کی آواز میں ملاکر شروع کیا تھا۔
طالبان کے تصورِ اسلام کے بارے میں ہمارے تحفظات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہم نے ان کا اظہار اس وقت کیا جب طالبان افغانستان میںبرسرِاقتدار تھے اور امریکا کی خفیہ تائید انھیں نہ صرف حاصل تھی بلکہ ان کے ساتھ توانائی اور معدنیات کی دریافت کے لیے کھلے مذاکرات کیے جارہے تھے۔
۱۳سال کی افغان جنگ کے بعد اب امریکی قیادت اور تحقیقی ادارے یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ طالبان افغانستان میں ایک حقیقت ہیں اور ان سے مذاکرات اور ان کی حکمرانی میں شرکت کے بغیر وہاں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ امریکا اور طالبان میں مذاکرات کے سلسلے بھی ڈھکے چھپے اورکھلے بندوں جاری ہیں اور قیدیوں کا تبادلہ بھی کھلے عام ہورہا ہے۔
ان حالات میں پاکستان کی قیادت کا ان کے خلاف اور خصوصیت سے حقانی گروپ جس سے پاکستان کوکبھی کوئی خطرہ نہیں تھا کے خلاف ہونا ایک ناقابلِ فہم معاملہ ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان اور اس کے نام پر کی جانے والی ان تمام کارروائیوں کی ہم نے ہمیشہ مذمت کی ہے، جن میں معصوم انسان شہید کیے گئے ہیں یا ریاستی اور قومی املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اسی طرح ہم قوت کے ذریعے شریعت یا جمہوریت اور سیکولر لبرلزم دونوں کے قیام کے ہمیشہ سے مخالف رہے ہیں اور اسے اسلام اور معروف جمہوری اور سیاسی اصولوں کے خلاف سمجھتے ہیں۔ نیز ہم نے ہمیشہ اس راے کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردی کی کوئی ایک قسم نہیں ہے اور اس کی ہرہرنوعیت کو سامنے رکھ کر اس کا مقابلہ اور ازالہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ لیکن ہماری آواز مقتدر حلقوں کے لیے صدابصحرا ثابت ہوئی اور فوجی آپریشن کے دائرے کو شمالی وزیرستان تک وسیع کردیا گیا ہے۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اب بھی پاکستانی حکومت، ہماری افواج اور خود طالبان کو ہدایت دے اور وہ بندوق کے بجاے دلیل اور افہام و تفہیم سے معاملات کو طے کرنے کا راستہ اختیار کریں۔ پاکستان کی افواج ہماری قیمتی متاع ہیں اور ہم قوم اور وطن کے لیے ان کی خدمات اور قربانیوں کے دل سے معترف اور ان کی قوت اور کامیابی کے لیے دعاگو ہیں لیکن جس عمل کو ہم بے فیض دیکھ رہے ہوں تو اس کے بارے میں اپنے تحفظات کے اظہار کے باب میں کسی مداہنت کو بھی صحیح نہیں سمجھتے۔ ہماری کوشش تھی کہ نوبت آپریشن تک نہ آئے اس لیے ہم مذاکرات شروع کرانے کے لیے کوشاں رہے۔ لیکن اب، جب کہ آپریشن شروع ہوگیا ہے تو ہماری خواہش اور دعا ہے کہ یہ جلد از جلد ختم ہو اور معاملات کے سدھار اور اصلاح کا کوئی معقول راستہ اب بھی نکل آئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہرممکن کوشش اس امر کی ہو کہ اس سے جو مشکلات اور مسائل علاقے کے عوام کے لیے پیدا ہوگئے ہیں، ان کے فوری حل کے لیے تمام وسائل بروے کار لائے جائیں۔
جماعت اسلامی کے کارکن اور الخدمت کے سرفروش مقدوربھر کوشش کر رہے ہیں کہ ۷لاکھ افراد جو بے گھر ہوگئے ہیں اور دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ان کی ہرممکن مدد کی جائے۔ پتا نہیں ان کی آزمایش کی مدت کتنی طویل ہوگی۔ اس موقعے پر اس امر کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ مرکزی حکومت نے اس آپریشن کے نتائج سے نبردآزما ہونے کے لیے کوئی تیاری نہیں کی، حالانکہ اسے چھے مہینے ملے تھے کہ خراب سے خراب صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے پیش بندی کرتی، صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیتی، مناسب مقامات پر بے گھر ہونے والے متاثرین (IDPs) کے قیام اور طعام کا انتظام کرتی اور اس کے لیے مناسب وسائل فراہم کرتی، تاکہ مرکز اور صوبے دونوں کے تعاون اور اشتراک سے اس صورتِ حال کا مقابلہ ہوسکتا۔
یہاں بھی حکومت نے اس سہل انگاری کا مظاہرہ کیا جو اس کے اندازِ حکمرانی کا خاصّہ بن گیا ہے۔ پہلے ۱۰ دن میں ساڑھے چار لاکھ افراد صرف بنوں کے علاقے میں رجسٹر ہوچکے تھے۔ سوات اور دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہونے والے افراد اس کے علاوہ ہیں۔ کم سے کم اندازہ ہے ان ۱۰دنوں میں ۷لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ہیں اور ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے کمالِ فیاضی سے اس کے لیے ۵۰کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا، جب کہ اقوامِ متحدہ کے تخمینے کے مطابق فوری طور پر کم از کم ۲۸؍ارب روپے درکار ہوں گے۔ اس حکومت کی ترجیحات کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اسی زمانے میں پنڈی اسلام آباد ۲۴کلومیٹر کے میٹروبس پراجیکٹ کے لیے ۴۴؍ارب ۲۱کروڑ کی رقم رکھی گئی ہے۔
یہ تو فوری ضرورت ہے، لیکن دہشت گردی کے مسئلے کا صرف یہی ایک پہلو نہیں۔ اس کے تمام پہلوئوں کے بارے میں مناسب حکمت عملی کی فوری ضرورت ہے۔ اس وقت جہاں بے گھر ہونے والے متاثرین کا مسئلہ سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے اور فوری توجہ چاہتا ہے، وہیں دہشت گردی کے تمام اسباب کو سامنے رکھ کر ہمہ گیر پالیسی بنانے کی بھی ضرورت ہے، جس سے صرفِ نظر تباہ کن ہوگا۔ امریکا سے تعلقات پر نظرثانی اور امریکی جنگ سے نکلنے کے راستوں سے غفلت بہت ہی خسارے کا سودا ہوگا۔ ملک کے باقی تمام علاقوں میں جو دہشت گردی ہے، اس سے نبٹنے کے لیے بھی صحیح پالیسی اور اقدام درکار ہیں۔ یک رُخی پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ نیز جو پالیسی محض ردعمل میں بنائی جائے یا جس کا محرک غصہ، بدلہ یا انتقام ہو، وہ خیروبرکت کا باعث نہیںہوسکتی۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ حکومت تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو اعتماد میں لے اور کھلے ذہن کے ساتھ مسئلے کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر زیادہ سے زیادہ قومی اتفاق راے پیدا کرکے ہمہ جہتی پالیسی بنائے۔ حالات کو سنبھالنا، نقصانات کو کم سے کم کرنا اور تباہ حال خاندانوں کو سینے سے لگانا اور ان کی مشکلات کو دُور کرنا ہم سب کی مشترک ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی کوتاہی بڑی مہنگی پڑسکتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فاٹا پر ہمارا دستور ۶۷سال سے لاگو نہیں ہے اور سوات، باجوڑ اور دوسرے علاقوں میں جہاں فوجی آپریشن ہوا ہے پانچ سال گزرنے کے باوجود سول نظام بحال نہیں ہوسکا ہے۔ شمالی وزیرستان کے آپریشن کے ۱۰، ۱۱ دن ہی میں جو کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور جو خطرات منڈلا رہے ہیں ان سے صرفِ نظر تباہ کن ہوگا۔ ٹی وی اینکر اور کالم نگار سلیم صافی نے بڑی دردمندی کے ساتھ متنبہ کیا ہے کہ ذرا سی غلطی کتنی خطرناک ہوسکتی ہے:
اللہ کے بندو! اس ملک اور اس قوم پر رحم کرو۔ ہماری خاطر نہیں اپنی اولاد کی خاطر۔ یہ ۷لاکھ آئی ڈی پیز [بے گھر ہم وطن] نہیں ہیں۔ آپ لوگوں کا رویہ یہ رہا تو یہ ۷لاکھ خودکش بمبار بن جائیں گے۔ آج آپ لوگ سیاست اور اقتدار کے نشے میں مبتلا ہو لیکن یاد رکھو آپ پر بھی کبھی یوسف رضا گیلانی والاوقت آسکتا ہے اور خاکم بدہن آپ میں سے بھی کسی کا بیٹا حیدرگیلانی یا شہباز تاثیر بن سکتا ہے۔ ہماری خاطر نہیں، اپنے بچوں کی خاطر ان ۷ لاکھ وزیرستانیوں کی طرف توجہ دو تاکہ وہ خودکش بمبار، طالب یا پھر اغواکار بن کر مستقبل میں آپ کے بچوں کے ساتھ وہ کچھ نہ کریں، جو انھوں نے ایک سابق گورنر اور سابق وزیراعظم کے بیٹے کے ساتھ کیا ہے۔ (روزنامہ جنگ، ۲۴جون۲۰۱۴ء)
اندازِ حکمرانی کی اصلاح کے ساتھ بیرونی اور اندرونی سلامتی کی پالیسی کی اصلاح کو اولیں اہمیت دینا وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا مرکزی ہدف درست ہونا چاہیے۔ پاکستان کی سلامتی اور اس کو درپیش حقیقی خطرات___ بیرونی اور اندرونی دونوں پر توجہ مرکوز رکھنا ضروری ہے۔ اندرونی خطرات کو نظرانداز کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا اور اندرونی خطرات کے غبار میں بیرونی خطرات سے صرفِ نظر اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اندرونی خطرات کے اسباب کے ساتھ ان کے بیرونی رابطوں کا شعور اور ان کے مقابلے کی حکمت عملی بھی سلامتی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔
افغانستان سے اختلافات اور نوک جھونک تو قیامِ پاکستان کے وقت سے رہی ہے، لیکن افغانستان سے پاکستان کی سلامتی کو کبھی حقیقی خطرہ نہیں رہا۔ پہلی بار واضح خطرے کاسگنل افغانستان میں روس کی بالواسطہ مداخلت (ترکی ریولیوشن) سے رُونما ہوا، اور ڈیڑھ سال کے اندر اندر بالآخر دسمبر ۱۹۷۹ء میں روس کی بلاواسطہ فوج کشی کی صورت میں ایک فوری خطرے کی شکل اختیار کرلی۔ پاکستان کا ردعمل اسی وجہ سے ہوا اور اسی سے ہمارے دفاعی اور سلامتی کے ڈھانچے میں ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوئی اور اس وقت سے آج تک افغانستان ہماری خارجہ پالیسی کا ایک مرکزی ایشو بن گیا۔
افغانستان میں بھارت کا کردار ۱۹۴۷ء سے تھا، مگر افغانستان پر امریکی فوج کشی اور بھارت اور امریکا کی اسٹرے ٹیجک شراکت کاری نے افغانستان میں اور افغانستان کے راستے میں بھارت کے کردار کو ایک نئی شکل دی ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں ایک ایسا رشتہ کہ دونوں ایک دوسرے کا سہارا اور پشتی بان ہوں، دونوں کے مفاد میں ہے اور اس کا راستہ ایک دوسرے کے معاملات میں حقیقی عدم مداخلت کے ساتھ تعاون اور افغانستان میں ایسے نظام کا ہے جو قومی مفاہمت اور یک رنگی سے عبارت ہو۔ تاہم، یہ اسی وقت ممکن ہے، جب افغانستان کے تمام عناصر اور خصوصیت سے پشتون، ہزارہ اور تاجک مل کر اپنے معاملات کو سنبھالیں۔ طالبان سے مذاکرات اور مفاہمت کی ضرورت خود امریکا محسوس کر رہا ہے اور پاکستان کا بہترین مفاد بھی اُس افغان یک جہتی کے حصول میں ہے جس میںسب افغان شریک ہوں۔ وزیرستان میں آپریشن اس کا ذریعہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس مقصد سے دُور کرنے کا باعث ہوگا۔ ہماری قومی سلامتی کی پالیسی میں اس پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایوں سے دوستی چاہتا ہے لیکن بھارت سے جو خطرات ہماری قومی سلامتی کو درپیش ہیں، ان سے صرفِ نظر کرنا بدترین تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ افغانستان میں نئے صدارتی انتخاب کے نتیجے میں جو بھی تبدیلی آئے گی اور جو بھی نئی قیادت برسرِاقتدار آتی ہے، پاکستان کو اس سے یک جان و دو قالب کے رشتے کو استوار کرنے کو اوّلیت دینی چاہیے۔ اس کے ساتھ بھارت میں جس نئی قیادت نے زمامِ کار سنبھالی ہے اس کے عزائم، تاریخ اور ترجیحات کا بھی گہری نظر سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور بھارت میں دوستانہ تعلقات دونوں ممالک کی ضرورت ہے، لیکن یہ مقصد یک طرفہ طور پر حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جو بنیادی تنازعات موجود ہیں، ان کو حق وانصاف کے مطابق طے کیا جائے اور محض طاقت اور معیشت کے حجم کی بنیاد پر یاجزوی اور شخصی مفادات کو اولیت دے کر لیپاپوتی کے ذریعے حالات کو نارمل بنانے یا سمجھنے کی حماقت نہ کی جائے۔ جناب نواز شریف کا ذہن اس سلسلے میں بڑا پراگندا ہے۔ وہ بھارت کی تاریخ ، اس کے سیاسی اور معاشی عزائم اور اس کی سیاست کے پیچ و خم سے واقف نہیں اور اس غلط فہمی اور خوش خیالی میں مبتلا ہیں کہ تجارت اور معاشی لین دین سے تعلقات کو نئی جہت دے سکتے ہیں۔
ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بھارت کی طرف سے خطرات کا ان کو صحیح اِدراک نہیں اور جناب نریندرمودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت کے بارے میں وہ شدید غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ اور ہماری عسکری قیادت کو حالات کا بہتر اِدراک ہے۔ بھارت سے مستقبل کے تعلقات کے مسئلے کو شخصی پسنداور ترجیحات کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا۔ اس سلسلے میں پوری سوچ بچار اور تمام پہلوئوں پر گہرے غوروفکر کے ساتھ کسی تاخیر کے بغیر ایک دیرپا پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف صاحب نے جس طرح نریندرمودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے موقعے پر معاملات انجام دیے ہیں، وہ بہت محل نظر ہیں۔ وہ اپنے کاروباری صاحب زادے حسن نواز کو اس دورے میں ساتھ لے کر گئے، چنانچہ بھارت میں لوہے کی صنعت کے کرتادھرتا سے ان کی ملاقاتوں کے بارے میں بجاطور پر سوالیہ نشان اُٹھائے گئے ہیں، جو سنجیدہ غوروفکر کا تقاضا کرتے ہیں۔ پھر کشمیر کے مسئلے پر جس طرح اس دورے میں خاموشی کا روزہ رکھ لیا گیا اور حسب سابق کشمیری قیادت سے ملاقات تک کی زحمت نہیں کی گئی وہ بہت تشویش ناک ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی کے باب میں بھارت کے بارے میں پالیسی اور جنوب سے اُبھرتے ہوئے خطرات کی روشنی میں عسکری اور سفارت کاری کے میدانوں میں صحیح حکمت عملی کی صورت گری ازبس ضروری ہے۔
آزاد خارجہ پالیسی کے سلسلے میں سب سے اہم مسئلہ امریکا سے تعلقات کی تنظیم نو ہے جو خواہشات کی بنیاد پر نہیں،اصل زمینی حقائق اور پاکستان کے مفادات کی بنیاد پر مرتب ہونی چاہیے۔ نیز مشرق وسطیٰ خصوصیت سے شام، عراق، لیبیا، مصر اور ایران کے سلسلے میں امریکا کی جو پالیسی ہے، اسے بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ حالیہ افغان جنگ میں امریکا نے جو کچھ کھو دیا ہے اور جو کچھ پایا ہے، اس پر امریکا کے علمی، سفارتی، صحافی اور سیاسی حلقوں میں بحث ہورہی ہے اور اس بحث کے دُور رس نتائج مرتب ہونے کی توقع ہے۔ امریکا کی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کو جو حیثیت حاصل ہے وہ بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح امریکا اور بھارت کے تعلقات نے جو رُخ گذشتہ ۱۰سال میں اختیار کیا ہے، اس کا پاکستان اور اس کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں سے گہرا تعلق ہے۔ امریکا میں راے عامہ اور سیاسی اور سفارتی حلقوں میں پاکستان کا جو تصور ہے، اس سے صرفِ نظر کرکے خیالی پالیسیاں بنانا بڑا خسارے کا سودا ہوسکتا ہے۔ اس لیے پوری عرق ریزی کے ساتھ اور حقیقت پسندی کا دامن تھامتے ہوئے تعلقات کا ایک نیا دروبست بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ بات بھی سامنے رہے کہ پاکستانی عوام کی نگاہ میں امریکا سب سے زیادہ ناقابلِ اعتماد ملک ہے اور امریکی راے عامہ کی نگاہ میں پاکستان کی یہی تصویر ہے۔ دونوں ممالک میں باہمی اعتماد کا شدید فقدان ہے اور تعلقات کو نئی جہت دینے کا کام ان زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے انجام دینا بڑی حماقت ہوگی۔ ہیلری کلنٹن نے اپنی یادداشتیں مرتب کی ہیں، اس میں اس نے اعتماد کے فقدان کا کھل کر اعتراف کرتے ہوئے صاف لکھا ہے کہ اسی وجہ سے ایبٹ آباد کے امریکی آپریشن کا اہتمام پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر کیا گیا۔ یہ صرف ہیلری کلنٹن کے خیالات نہیں پوری امریکی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی اور ذہنی قیادت کی سوچ کا آئینہ ہے۔ امریکا اس وقت مشرق وسطیٰ کے سیاسی نقشے کی تشکیل نو میں جو کردار ادا کر رہا ہے اور افغانستان اور عراق میں امریکی مداخلت کا جس سے گہرا تعلق ہے، اس کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ امریکی دانش ور اور عسکری تجزیہ نگار پاکستان اور عرب دنیا کے نقشوں کی ٹوٹ پھوٹ کی جو تصویریں بنا رہے ہیں، وہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔
نائن الیون کے بعد سے اسلام اور مسلم دنیا کو جس طرح ہوّا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، وہ محض شاعرانہ خوش خیالی نہیں، سیاسی عزائم اور ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔ دوستی اور تعاون کے رشتوں کو قائم رکھنے کے تمام دعوئوں کے ساتھ جو ذہن بنایا جا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ امریکا کے لیے اصل خطرہ پاکستان ہے۔ اس کا بڑا ہی کھل کر اظہار اسی مہینے شائع ہونے والی کتاب The Wrong Enemy میں کیا گیا ہے جس کی مصنفہ ایک مشہور صحافی کارلوٹا گال ہے، جس نے گذشتہ ۱۲برس افغانستان اور پاکستان سے نیویارک ٹائمز کی نمایندے کی حیثیت سے کام کیا ہے اور جسے امریکا میں دونوں ممالک پر ایک مستند حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ موصوفہ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ افغانستان پر فوج کشی کرکے ہم نے ناحق اپنے فوجیوں کی جانیں اور اپنے ٹیکس دینے والوں کی دولت کو ضائع کیا۔ ہمارا اصل دشمن تو پاکستان ہے اور جب تک اسے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا، امریکا کے مفادات معرضِ خطر میں رہیں گے۔ ملاحظہ ہو ، کیا ارشاد ہے:
جنگ ایک المیہ رہی ہے جس کی قیمت اَن گنت زندگیوں نے چکائی ہے۔ یہ بہت طویل عرصے سے جاری ہے۔افغانی کبھی بھی دہشت گردی کے وکیل نہیں رہے، لیکن نائن الیون کے بعدسزا کا اصل دبائو انھوں نے ہی برداشت کیا۔پاکستان جو اتحادی فرض کیا جاتا ہے دھو کے باز ثابت ہوا۔ اس نے افغانستان میں تشدد کو اپنی بالادستی جیسے مقاصد کے لیے آگے بڑھایا ہے۔ پاکستان کے جرنیلوں اور ملائوں نے اپنے آپ کو، اپنے افغان پڑوسیوں کو اور ناٹو کے حلیفوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ افغانستان نہیں، پاکستان حقیقی دشمن رہا ہے ۔ (The Wrong Enemy: America in Afghanistan (2001-2014) by Carlotta Gall, Houghton Mifflin Harcourt, Boston- New York-2014)
ہم ایک بار پھر واضح کرناچاہتے ہیں کہ پاکستان کو دنیا کے تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے چاہییں۔ ہم دوست بنانا چاہتے ہیں، دشمن نہیں۔ لیکن یہ تعلقات حقائق پر مبنی ہونے چاہییں، اور پاکستان کے حقیقی مفادات کے حصول کو اولیت حاصل ہونی چاہیے۔ حقائق کو نظرانداز کرکے جو اڑان بھی کی جائے گی، وہ مفید نہیں ہوسکتی ع
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
نواز حکومت نے اس ایک سال میں خارجہ پالیسی، قومی سلامتی اور دہشت گردی کے باب میں جو بھی پالیسیاں بنائی ہیں اور اقدامات کیے ہیں، ہم بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ بڑی حد تک سابقہ اَدوار کے تسلسل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات اور عوام کے جذبات جن تبدیلیوں کا تقاضا کر رہے تھے، ان کی کوئی جھلک ان میں دُور دُور نظر نہیں آتی۔ جو بات خارجہ پالیسی، قومی سلامتی کی پالیسی اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی حکمت عملی کے سلسلے میں درست ہے، کم و بیش وہی ملک و قوم کو درپیش دوسرے چیلنجوں اور مسائل پر بھی صادق آتی ہے جن پر حسب توفیق ہم آیندہ گفتگو کی کوشش کریں گے۔ البتہ اس پہلے سال کے جائزے کا یہ پیغام واضح ہے کہ ملک و قوم کو جس تبدیلی کی ضرورت تھی، اس کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ ابھی وقت ہے اورحکومت اگر چاہتی ہے کہ پاکستان اس دلدل سے نکلے اور جمہوریت کی گاڑی آگے چل سکے، تو اسے اپنی روش میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔