دنیا میں جو بھی آیا، آزمایا گیا۔ کسی کی آزمایش اقتدار و اختیار، تاج و تخت او رمال و دولت کے انباروں سے ہوئی اور کسی کی بھوک، افلاس، ظلم و ستم اور پھانسی کے پھندوں سے۔ کامیاب وہی ٹھیرا جس نے ہر دو صورتوں میں اپنے رب کی سچی اطاعت و بندگی اختیار کی۔ اپنا اصل ہدف، ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کو رکھا۔
آج کے قومی یا عالمی حالات پر نظر دوڑائی جائے، تو آزمایشوں کی یہ سنت الٰہی نقطۂ عروج تک پہنچی دکھائی دیتی ہے۔ خون مسلم ہر جگہ پانی سے بھی ارزاں ہے۔ پہلے صرف کشمیر و فلسطین اور افغانستان کے مظلوم اہل ایمان کے لیے دُعاے رحم ہوتی تھی، اب مصر، شام، عراق، یمن، لیبیا، بنگلہ دیش، اراکان، سری لنکا، وسطی افریقا، صومالیہ اور ماوراے قفقاز ، یعنی فہرست طویل سے طویل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پہلے صرف اغیار کے قبضے اور استعمار کے مظالم کے خلاف دُعائیں ہوتی تھی، اب خود مسلمان حکمران اور ان کے مسلح لشکر، کفار کے مظالم سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔
گذشتہ صدی کے آغاز میں بھی عالم اسلام کی بندر بانٹ کی گئی تھی، تقریباً ۱۰۰ سال گزرنے کے بعد اب منقسم کو مزید تقسیم کرنے کا عمل تیز تر کیا جارہا ہے۔ ۱۹۱۵ء-۱۹۱۶ء کے درمیان فرانسیسی وزیر خارجہ فرانسوا جارج پیکو اور برطانوی وزیر خارجہ مارک سائکس نے مشرق وسطیٰ کو ذاتی جاگیر کی طرح بانٹ لیا۔ شام اور لبنان پر فرانسیسی، عراق اور خلیج پر برطانوی قبضہ ہوگیا۔ مشرقی اردن اور فلسطین بھی برطانوی نگہداری میں دیے گئے، لیکن چونکہ فلسطین کو اسرائیل میں بدلنا تھا، اس لیے ساتھ ہی وضاحت کی گئی کہ اس ضمن میں اعلان بالفور( Balfour Declaration) پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ ۲ نومبر ۱۹۱۷ء کو جاری ہونے والے اس منحوس ڈکلریشن میں پوری ڈھٹائی سے لکھا تھا:
His Majesty's Government view with favour the establishment in Palestine home for the Jewish people. شاہِ معظم کی حکومت فلسطین میں یہودیوں کے لیے وطن بنانے کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور تقسیم و تسلط کے بعد خود تو ان استعماری طاقتوں کو جانا ہی تھا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی چلے گئے، لیکن جاتے جاتے اکثر مسلم ممالک میں فوجی آمر اور اپنے غلام حکمران بٹھا گئے۔ ایسے حکمران کہ جنھیں ریموٹ کنٹرول کے ذریعے، جہاں اور جیسے چاہا استعمال کیا جاسکے۔ گذشتہ پوری صدی اُمت مسلمہ نے استعماری طاقتوں کے کاشت کردہ ان زہریلے بیجوں کی تلخ فصلیں کاٹی ہیں۔وسائل کے انبار ہونے کے باوجود عوام بھوک اور ننگ کا شکار رہے ہیں۔ ۳۰،۳۰ اور ۴۰،۴۰ سال مسند اقتدار پر براجمان رہنے کے بعد جب بعض حکمرانوں سے نجات حاصل کی گئی تو معلوم ہوا کہ، قوم کے اَربوں ڈالر خود ہڑپ کیے بیٹھے تھے یا پھر ان قیمتی وسائل کا تمام تر فائدہ استعمار اور اس کی پالتو ریاست اسرائیل کو پہنچا رہے تھے۔
توانائی کے سنگین بحران سے دوچار ملک مصر نے، صرف ۲۰۰۸ء سے فوجی آمر حسنی مبارک کی برطرفی تک تین سالہ مدت میں اسرائیل کو صرف ڈیڑھ ڈالر فی یونٹ کی قیمت پر گیس فروخت کی۔ اسی عرصے میں گیس کی عالمی قیمت ۱۲ سے ۱۶ ڈالر فی یونٹ رہی۔ حسنی مبارک نے اپنے ایک نمک خوار حسین سالم کے ذریعے EMG نامی کمپنی کے ذریعے مصر کو اس ایک سودے میں صرف ۱۱؍اَرب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔صدرمحمد مرسی کے ایک سالہ دور میں اس نام نہاد کمپنی اور حسین سالم پر مقدمہ چلا اور کمپنی پر پابندی لگائی گئی۔ حالیہ فوجی انقلاب کے بعد حسین سالم اور کمپنی دوبارہ فعال ہوگئے ہیں۔ اب انھوں نے اُلٹا ریاست کے خلاف مقدمہ قائم کرتے ہوئے ۸؍ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کر دیا ہے۔
تیونس کو ہمیشہ اقتصادی ترقی اور خوشحالی کی روشن مثال قرار دیا جاتا رہا ہے۔ تیونس میں اقتصادی ترقی ثابت کرنے کے لیے عالمی رپورٹیں جاری کروائی گئیں۔ معلوم ہوا کہ اس کا پورا اقتصادی ڈھانچا زین العابدین بن علی اور ان کی اہلیہ کے رشتہ داروں کے ہاتھوں جکڑا ہوا تھا۔ خوش نما عالمی رپورٹوں کی تیاری میں شریک ایک عالمی ماہر اقتصاد، بوب ریکرز نے حال ہی میں اعتراف کیا ہے کہ وہ ساری عالمی رپورٹیں جعلی اور نام نہاد ترقی ایک سراب تھی۔ بن علی کے دور اقتدار کے صرف آخری ۱۰ برسوں میں سرمایہ کاری کے قانون میں ۲۵ مرتبہ ترمیم کی گئی۔ ان سب ترامیم کا اکلوتا مقصد، اقتصادی ڈھانچے پر خاندانی اجارہ داری کا استحکام تھا۔ بن علی کو رخصت ہوئے تین برس سے زائد عرصہ گزر گیا اور جاتے ہوئے دولت کے انبار ساتھ بھی لے گیا، لیکن اب بھی آئے روز ذاتی دولت و کاروبار کے نئے سراغ مل رہے ہیں۔ ۳۷۶ بنک اکاؤنٹ اور ۵۵۰ ذاتی جایدادیں دریافت ہوچکی ہیں۔ کئی خفیہ ذاتی گھروں میں ڈالروں کے ڈھیر گننے میں کئی ماہ کا عرصہ لگا۔ ابھی کرپشن کے سارے راز افشاں نہیں ہوسکے، اور اب ایک بار پھر سابقہ حکمران ٹولے کا اقتدار بحال کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
مصر میں جنرل سیسی کے خونی انقلاب کے فوراً بعد تیونس میں بھی سابقہ نظام کے کل پرزوں نے عالمی سرپرستی میں واپسی کا عمل شروع کردیا تھا۔ اپوزیشن رہنماؤں کے قتل، مسلح اسلامی دھڑوں کی اچانک تیز ہوتی ہوئی کارروائیوں اور دستور ساز اسمبلی کے اندر مسلسل بحرانوں کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ اگر اس موقعے پر تحریک نہضت سیاسی بصیرت سے کام نہ لیتی، تو اب تک تیونس کو بھی خون میں نہلایا جاچکا ہوتا۔یہاں ان غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ضروری ہے جو ایک پراپیگنڈے کی صورت میں الاخوان المسلمون مصر اور تحریک نہضت تیونس کے بارے میں اکثر پھیلائی جاتی ہیں:
اخوان کے بارے میں یہ کہ انھوں نے ضرورت سے زیادہ سختی اور عجلت دکھائی اور تحریک نہضت کے بارے میں یہ کہ انھوں نے بہت سستی دکھائی اور اقتدار کی خاطر مداہنت برتتے ہوئے بنیادی اصولوں پر سمجھوتا کرلیا اور شریعت ہی سے دست بردار ہوگئے۔
یہ دونوں الزامات محض تہمت ہیں، جن کی کوئی بنیاد نہیں۔ دونوں تحریکیں حکمت، احتیاط اور ثابت قدمی سے چلیں۔ دونوں کے خلاف پہلے روز سے سازشوں کا آغاز ہوگیا۔ لیکن ایک تو تیونس کے پڑوس میں کوئی اسرائیلی ناسور نہیں تھا اور دوسرے وہاں کی فوج کو ابھی براہِ راست اقتدار کا چسکا نہیں لگا، اس لیے اسے مصر نہ بنایا جاسکا۔ تحریک نہضت کو حاصل وسیع عوامی تائید اور دستور ساز اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہونے کے باوجود، انھیں اپنے دو وزراے اعظم اور بالآخر حکومت سے تو دست بردار ہونا پڑا، لیکن جناب راشد الغنوشی کے الفاظ میں: ’’ہم نے اقتدار کھو دیا لیکن ملک کو پہلا متفق علیہ دستور دے کر ملک و قوم کو جیت لیا‘‘۔ تیونسی دستور یقینا کوئی مثالی دستور نہیں، لیکن اس سے ایک ایسی بنیاد ضرور فراہم ہوگئی ہے جس پر ایک ’’خوش حال، آزاد، اسلامی ریاست‘‘ کی بنیاد رکھی جاسکے۔ اب آیندہ نومبر میں وہاں پہلے پارلیمانی انتخاب ہونا ہیں اور دسمبر میں صدارتی۔ بعض اندرونی و بیرونی قوتیں، انتخاب کا التوا اور عبوری حکومت کاامتداد چاہتی ہیں، لیکن اب تک کے واقعات کی روشنی میں یہ توقع بجا طور کی جاسکتی ہے کہ سازشی عناصر ان شاء اللہ ناکام رہیں گے۔
تیونس میں مصری تجربہ دہرائے جانے میں ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ پورا ایک سال گزر جانے اور بدترین سفاکیت کی باوجود، مصری فوجی انقلاب کامیاب نہیں ہوسکا۔ بظاہر تو وہ اپنا دستور بھی لے آئے، جنرل سیسی کو نیا حسنی مبارک بھی بنادیا گیا، لیکن مصر میں طلوع ہونے والا ہردن اس کے لیے ایک نئی مصیبت لے کر آتا ہے۔ اخوان کے ۸ہزار سے زائد شہدا، ۲۳ ہزار سے زائد گرفتار اور اتنی ہی تعداد میں کارکنان روپوش یا لاپتا ہیں۔ مصر کی نام نہاد عدالتیں، درجنوں نہیں سیکڑوں کی تعداد میں پھانسی کی سزائیں سنا رہی ہیں، لیکن یہ بات حلفیہ دعوے اور کامل یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ خونی انقلاب کے خلاف عوامی تحریک میں ایک دن کا توقف بھی نہیں آیا۔ اخوان کے کارکنان ہی نہیں، امریکی اور مغربی تجزیہ نگار بھی مسلسل اعتراف کررہے ہیں کہ فوجی انقلاب کو بالآخر رخصت ہونا ہوگا۔
سیسی حکومت سے عوامی بیزاری کا تازہ ترین مظہر وہاں کا حالیہ صدارتی انتخابی ڈراما بھی ہے۔ بھرپور ابلاغیاتی مہم اور پوری سرکاری مشینری استعمال کرلینے کے باوجود، دو روز تک جاری رہنے والی پولنگ ختم ہوئی، تو حکومتوں صفوں میں ہر طرف صفِ ماتم بچھ گئی۔ درجنوں ٹی وی چینلوں پر بیٹھے رنگ برنگے تجزیہ کار، عوام کو بالفعل گالیاں دینے لگ گئے کہ وہ اپنے ’’نجات دہندہ‘‘ سیسی کو ووٹ دینے کیوں نہیں نکلے۔ ذرا غیر جانبدار میڈیا کا معیار ثقاہت ملاحظہ کیجیے: ’’عوام جوتوں کے قابل ہیں‘‘، ’’پہلے انھیں کمر پر پڑتے تھے، اب ان کے سروں پر جوتے برسانے چاہییں‘‘، ’’جو لوگ فیلڈ مارشل عبدالفتاح سیسی کو ووٹ ڈالنے نہیں نکلے، ان کی ماؤں نے انھیںتمیز ہی نہیں سکھائی‘‘، ’’اگر جنرل سیسی کو ووٹ دینے نہ نکلے تو تاریخ کی بدترین خوں ریزی ہوگی‘‘۔پھر اسی دوران میں اچانک اعلان ہوا کہ ووٹنگ کے لیے ایک روز مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ وہی میڈیا جو آہ و بکا کررہا تھا، اگلی شام خوشی کے شادیانے بجانے لگا کہ ۴۶ فی صد ووٹ ڈالے گئے، جن میں سے ۹۷فی صد نے جنرل سیسی کو صدر منتخب کرلیا۔ مصری عوام نے اس موقعے پر معرکۃ الصَّنَادِیقِ الخَاوِیَۃ (خالی صندوقچیوں کا معرکہ لڑا) اس معرکے میں وہی غالب رہے اور ووٹوں کا تناسب زیادہ سے زیادہ ۱۲ سے ۱۵ فی صد رہا۔
انتخاب کی طرح ان کے جشن فتح کی مثال بھی نہیں ملتی۔ نتائج کا اعلان کرنے کے بعد میدان تحریر میں رات بھر رقص و شراب نوشی جاری رہی۔ اس دوران خواتین اور بچیوں سے بدسلوکی ہی نہیں، عصمت دری تک کی گئی۔ ایک خاتون صحافی کو جو اپنی بیٹی کے ہمراہ اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے وہاں تھیں، پورے مجمعے میں مادر زاد عریاں کردیا گیا۔ یہ واقعہ اتنا بدنما داغ ہے کہ صدارتی حلف اٹھانے کے بعد جنرل سیسی نے خود ہسپتال جاکر متأثرہ خاتون کو گلدستہ پیش کرتے ہوئے، سانحے کی شدت کم کرنے کی ناکام کوشش کی۔لیکن خواتین سے بدسلوکی اور انھیں ہراساں کرنا اب مصر کی بدترین شناخت بنتی جارہی ہے۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’جیسا راجا، ویسی پرجا‘‘۔
یہ سانحات و جرائم حکمرانوں کا تعارف تو کروا ہی رہے ہیں، ان کی وجہ سے عالمی طاقتیں بھی مسلسل بے نقاب ہورہی ہے۔ مصر اور شام میں صدارتی انتخابی ڈرامہ ہو یا بنگلہ دیش کے ڈھکوسلا انتخابات، جمہوری اقدار کی دعوے دار قوتوں نے ان کی حقیقت سے باخبر ہونے کے باوجود آنکھیں موند لی ہیں اور زبانیں گنگ کررکھی ہیں۔ یہی عالم اور پالیسی حقوق انسانی کی توہین کے بارے میں ہے۔ میدانِ تحریر میں خواتین کی بے حرمتی ہو، شامی مہاجر کیمپوں میں دم توڑتی بچیاں ہوں یا بنگلہ دیش میں ۲۰ سے ۲۴ سال کی عمر کی درجنوں طالبات کی اس الزام میں گرفتاریاں ہوں، کہ ان سے حکومت مخالف سٹکر برآمد ہوئے ہیں، دنیا کی کسی ’ملالہ فین‘ این جی او یا حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ ان کے خلاف آواز اٹھائے۔
نام نہاد مصری عدالتوں نے چند منٹ کی کارروائی کے بعد ۲۴ مارچ کو ۵۲۹؍ افراد کو سزائے موت سنادی، ’مہذب‘ دنیا نے خاموش رہ کر اس جرم میں شرکت کا ارتکاب کیا۔ عالمی رویے نے قاتل نظام کی حوصلہ افزائی کی، عدالتوں نے ۲۸؍ اپریل کو دوبارہ غضب الٰہی کو دعوت دیتے ہوئے ۷۰۰ مزید افراد کو پھانسی کی سزا سنادی۔ ۱۹جون کو مجرم جج پھر گویا ہوا، اخوان کے مرشد عام سمیت ۱۴مرکزی قائدین کو سزاے موت سنادی۔ ۲۱جون کو مرشد عام سمیت ۱۵۰؍ افراد کو دوبارہ سزاے موت سنا دی۔ لیکن دنیا یوں اندھی بہری گونگی بنی ہوئی ہے کہ جیسے انسانوں کوپھانسیاں نہیں دی جارہیں، کیڑے مکوڑوں سے نجات حاصل کی جارہی ہے۔
پھانسی اور عمر قید کی سزاؤں کی فہرست طویل ہے اور مزید طویل ہوتی جارہی ہے۔ جس طرح یہ قائدین اور کارکنان سزا سنانے والے ججوں کے فیصلے سن کر ہنستے مسکراتے انھیں کائنات کے حاکم اور منصف مطلق کی عدالت میں جمع کروادیتے ہیں، بہت ممکن ہے کسی روز اسی طرح ہنستے مسکراتے پھانسی کے پھندے چومتے دربار خداوندی میں بھی جاپہنچیں، لیکن وہ حقوق انسانی کے دعوے .... اَربوں کے بجٹ ... مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کے دعوے... ؟ امریکی وزیر خارجہ نے ۲۱ جون کو قاہرہ جاکر جنرل سیسی حکومت کے لیے ۷۶۰ ملین ڈالر امداد بحال کرکے شاید اسی سوال کا عملی جواب دیا ہے۔ لیکن اصل جواب کائنات کے رب کی عدالت سے آنا ہے اور یقیناً آنا ہے، فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ o (اعراف ۷:۷۱)، ’’اب تم انتظار کرو، میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کررہا ہوں‘‘۔
اگست ۱۹۹۰ء میں عراقی آمرِ مطلق صدام حسین کی حماقت کی آڑ میں خلیج میں در آنے کا قدیم امریکی منصوبہ مکمل ہوا، تو امریکی صدر بش کے باپ صدر بش نے ایک جملہ کہا تھا کہ ’’اب خاکِ دجلہ و فرات سے ایک نئی تہذیب، نیا عالمی نظام جنم لے گا‘‘۔ تعلیمی، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی پہلوؤں سے، اس نئی تہذیب اور نئے عالمی نظام کے کئی تعارف ہیں، یہاں صرف ایک مثال دی جارہی ہے۔
۱۹۹۱ء میں امریکی سرپرستی میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے عراق کے پورے کرد علاقے کو ’خصوصی حیثیت‘ دے دی گئی۔ قرارداد بظاہر بڑی معصومانہ ہے، تاثر یہ دیا گیا کہ کرد آبادی کو احساس محرومی سے نجات دینے اور صدام حسین کی عرب قوم پرستانہ پالیسیوں سے محفوظ کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے عظیم خدمت انجام دی ہے۔ لیکن اس ’بے ضرر قرارداد‘ کے اصل زہریلے پھل اب پک کر تیار ہوچکے ہیں۔ تقریباً ایک تہائی علاقے پر مشتمل عراق کا کرد علاقہ، اب تقریباً الگ ریاست کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ تیاری مکمل، فضا سازگار اور سب متعلقہ فریق ہمہ تن گوش ہیں کہ کسی بھی لمحے علیحدگی کا بگل بجادیا جائے گا۔ ۲۵جون کو امریکی وزیرخارجہ کے دورے کے موقع پر اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ذمہ داران نے بھی اسے ’اطلاع‘ دے دی ہے کہ کردستان ریاست کا اعلان کسی بھی گھڑی ہوسکتا ہے اور یہ کہ اسرائیل اس نئی ریاست کو تسلیم کرنے والے اولیں ممالک میں سے ہوگا۔کردستان کا الگ ریاست بنادیا جانا، صرف عراقی کردستان تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ ایران، شام اور ترکی میں موجود کرد آبادی کو بھی طویل عرصے سے اسی بخار کا شکار کیا جارہا ہے۔ توڑ پھوڑ اور تقسیم در تقسیم کا یہ مکروہ کھیل وہاں بھی کھیلا جائے گا، خواہ اس کھیل کے لیے ان ممالک کو کتنا ہی عرصہ حالت ِ جنگ میں رکھنا پڑے۔
عراق پر امریکی قبضے کے فوراً بعد جو عبوری حکومت تشکیل دی گئی، اسی میں عراق کو ٹکڑوں میں بانٹنے کا آغاز کردیا گیا تھا۔ حکومت کی تشکیل، ایک ملک کے شہریوں کی حیثیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر نہیں، مختلف مذہبی، علاقائی اور نسلی گروہوں کے لیے تناسب کی بنیاد پر کی گئی۔ شیعہ، سُنّی اور عرب، کرد اور ترکمان کی تعصباتی تقسیم گہری کرتے ہوئے، عراق میں خون کے وہ دریا بہائے گئے کہ الأمان الحفیظ۔ٹیکس گزار امریکی شہریوں کے اَربوں ڈالر اور ہزاروں امریکی شہریوں کی جانیں، عراقی الاؤ میں جھونکنے کے بعد بظاہر تو امریکی افواج عراق سے بھاگ گئیں، لیکن امریکا عملاً اب بھی وہاں موجود ہے اور اب بھی اسی کاایجنڈا نافذ ہورہا ہے۔ تیل کی بندربانٹ بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ صوبہ کردستان اور مرکزی حکومت میں ایک جھگڑا تیل سے مالامال ’کرکوک‘ شہر پر قبضے کا بھی تھا۔ حالیہ واقعات کے فوراً بعد کرد فوج ’بیشمرکہ‘ نے یہ کہتے ہوئے کرکوک پرقبضہ کرلیا کہ اسے ’داعش‘ سے خطرہ ہے۔ دوسری طرف ’بیجی‘ میں واقع عراق کی سب سے اہم آئل ریفائنری پر اہلِ سنت فورسز کا قبضہ مکمل ہوگیا۔ اس طرح ایک ملک کے بجاے اب عراقی تیل تین قوتوں کے قبضۂ اختیار میں ہے۔ تین نسبتاً کمزور مالکوں کے ساتھ سودے بازی میں عالمی قوتوں کو آسانی ہوگی۔
عراقیوں کو باہم قتل و غارت کی دلدل میں اتارنے کا سب سے مہلک ہتھیار شیعہ سنی کی آگ بھڑکانا تھا۔ یہ درست ہے کہ اس سلسلے میں طرفین نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن حکومت و اقتدار میں ہونے کے باعث شیعہ آبادی کا پلّہ بھاری رہا۔ اس آگ کو بجھانے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران جیسے پڑوسی ملک کا کردار بہت مؤثر ہوسکتا تھا، لیکن بدقسمتی سے نہ صرف یہ کہ ایسا نہیںہوسکا بلکہ عراقی عوام نے ہر قدم پر محسوس کیا کہ ایران جیسے اَہم ملک کا تمام تر و زن و نفوذ، ان کے بجائے متعصب عراقی حکومت کے پلڑے میں ہے۔ کہنے والوں نے تو اس ضمن میں بہت ساری دستاویزات و حقائق پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ عراق کی اصل حکومت تہران سے چلائی جارہی ہے۔
انتہائی مسموم ابلاغی یلغار اور گہرے احساس محرومی کی وجہ سے عراق کے اہل سنت اکثریتی علاقوں میں گذشتہ تقریباً ڈیڑھ برس سے پُرامن عوامی احتجاج جاری تھا۔ بڑے چھوٹے شہروں میں کسی ایک جگہ مشترک نماز جمعہ ادا کی جاتی اور پھر دھرنوں، ریلیوں کے ذریعے مطالبہ کیا جاتا کہ ’’اہلسنت آبادی کو جینے کا حق دیا جائے‘‘۔ ادھر بغداد سمیت مختلف عراقی شہروں میں بم دھماکوں، اندھا دھند فائرنگ اور آتش زنی کے واقعات کے ذریعے وسیع پیمانے پر شیعہ اور سنی آبادی کے قتل عام میں تیزی پیدا کردی گئی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صرف حالیہ ماہ جون کے دوران، عراق میں ۲ہزار سے زائد شہری قتل یا زخمی ہوئے (اصل تعداد یقینا زیادہ ہے)۔ اس پوری فضا میں اچانک اہل سنت اکثریتی علاقوں میں بعض مسلح گروہ اٹھے اور انھوں نے وہاں سے عراقی افواج کو بھگاتے ہوئے وسیع و عریض علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے اس پوری کارروائی کو ’داعش‘ نامی تنظیم سے منسوب کیا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ اس علاقے کی پوری آبادی کا مشترک ردعمل ہے، جس کا سامنا کرنا نوری المالکی انتظامیہ کے بس میںنہیں۔ اگرچہ اس پوری کارروائی میں نمایاں حصہ ’داعش‘ کا دکھائی دیتا ہے، لیکن کرد صدر مسعود بارزانی کے بقول اس میں داعش کا حصہ ۱۰فی صد سے زیادہ نہیںہے۔ صدام فوج کی سابق افواج، مسلح قبائلی لشکر اور عام آبادی سب ان واقعات میں شریک ہیں۔ عراقی فوج کو نکالنے کے بعد پہلے ہی دن صدام حسین کی تصاویر اُٹھا کر مظاہرے، اور پھر صدام کو سزاے موت سنانے والے جج کو پھانسی ’داعش‘ کی نہیں انھی دیگر گروہوں کی سرگرمیاں ہیں۔باقی تمام، عناصر کو چھوڑ کر صرف ’داعش‘ کا نام نمایاں کرنے کے اپنے مقاصد ہیں۔
الدولۃ الإسلامیہ فی العراق و الشام، (داع ش) یا Islamic State in Iraq & Syria (ISIS) کی حقیقت ایک معما ہے۔ یہ مسلح تنظیم گذشتہ کئی ماہ سے شام میں کارروائیاں کررہی ہے۔ اسے آغاز میں وہاں کی ’القاعدہ‘ کا نام دیا گیا۔ لیکن خود ایمن الظواہری سمیت القاعدہ قیادت نے اس سے اپنی برأت کا اعلان کردیا۔ اب اس کے بارے میں مختلف متضاد دعوے کیے جارہے ہیں۔ اس کے پیچھے سعودی عرب، امریکا، ترکی حتیٰ کہ خود ایران کا ہاتھ ہونے کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ باعث حیرت امر یہ ہے کہ ’داعش‘ کو سب ممالک اپنا دشمن اور خطے کے لیے بڑا خطرہ قرار بھی دیتے ہیں، لیکن اس کی کارروائیوں اور کامیابیوں پر ان کی غیر علانیہ طمانیت بھی چھپائے نہیں چھپتی۔ ’داعش‘ اگر عراق میں نوری المالکی فورسز سے برسرِ پیکار نظر آتی ہے، تو شام میں نوری المالکی کے ہم زاد بشار الاسد کے مخالف مزاحمتی گروہوں سے بھی جنگ کررہی ہے۔
اس غبار آلود منظر کا سب سے خطرناک پہلو عراق ہی نہیں پورے خطے میں سنی شیعہ تقسیم کا گہرا اور سنگین تر ہوجانا ہے۔ تعصب فرقہ وارانہ ہو یا نسلی، علاقائی اور لسانی، رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدبودار مُردار قرار دیتے ہوئے، اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ الحمدللہ، عالمی اسلامی تحریکات ان سارے بتوں کی پرستش سے پاک ہیں۔ یہاں بیان کردہ حقائق بھی صرف تصویر کو مکمل طور پر دیکھ سکنے کے مقصد سے پیش کیے جارہے ہیں۔
اسی بنیاد پر الاخوان المسلمون سمیت اکثر تحریکات نے اس امر پر گہری تشویش ظاہر کی ہے کہ حالیہ صورت حال کے بعد عراق کے اعلیٰ ترین شیعہ مرجع آیت اللہ سیستانی کی طرف سے شیعہ آبادی کے لیے نفیر عام نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ وزیراعظم نوری المالکی نے بھی غالب شیعہ اکثریت رکھنے والی عراقی فوج کے ہزاروں افسروں اور سپاہیوں کو فارغ کرتے ہوئے ’متبادل فوج‘ کے نام سے فرقہ ورانہ ملیشیا تیار کرکے دشمن ہی کاکام آسان کیا ہے۔ فریقین کو یہ حقیقت بخوبی معلوم بھی ہے اور یاد بھی رکھنا چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کو صفحہء ہستی سے نہیں مٹا سکتے، لیکن اس کے باوجود کوشش اور اعلانات دونوں کے یہی ہیں۔
ٹھیک ۱۰۰ برس قبل اور آج رُونما ہونے والے واقعات پر غور کریں تو حیرت انگیز مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ دشمن کی چالیں اور ہتھکنڈے بھی وہی ہیں اور اپنوں کی حماقتیں اور جرائم بھی وہی۔ تب بھی مغربی استعمار کا ہدف عالم اسلام کو تقسیم و تباہ کرنا تھا۔ تب بھی اس کے اصل آلہ کار، حرص اقتدار کے شکار حکمران تھے، اب بھی اس کا ہدف اور آلۂ کار یکساں ہے۔ رابطے کے تیز رفتار وسائل، ذرائع ابلاغ کے مہیب جال اور ہتھیاروں کے مزید مہلک پن نے اسے اور اس کے غلاموں کو مزید غرور و سفاکیت میں مبتلا کردیا ہے۔ گویا تاریکی اور شدائد عروج کو جاپہنچے ہیں۔
کامیابی کا حتمی تعین کرنے والی کائنات کی سب سے سچی اوراللہ کی آخری کتاب کا مطالعہ کریں تو گاہے حیرت ہونے لگتی ہے،ظلم و ستم اور عذاب و آزمایش کے سنگین ترین لمحات ہی نصرت و نجات کا آغاز ثابت ہوتے ہیں۔ ابتلا کے عروج پر بھی خالق نے اپنے سچے پیروکاروں کو اُمید اور عطا کی ہی بشارت دی ہے۔ تنگی اور عسر کے بعد نہیں، تنگی اور عسر کے ساتھ لگی ہوئی یسراور آسانی کی نوید سنائی ہے۔ انسان کو اس نے چونکہ کمزور (ضعیفًا) اور گھبرا جانے والا (ھلوعا) بنایا، اس لیے ایک بار نہیں، دو بار فرمایا: فَاِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o (الم نشرح ۹۴:۵-۶ )’’پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے‘‘۔اس کے عملی مشاہدے قرآن کریم میں جابجا دکھائی دیتے ہیں:
پوری سیرت انبیاء اور تاریخ انسانی ایسی ہی مثالوں سے معمور ہے۔ یہی نہیں خالق نے پورے کارخانۂ قدرت میں بھی اسی سنت کو نافذ کیا ہوا ہے۔ تاریکی عروج پر پہنچتی ہے تو سپیدۂ سحر طلوع ہونے لگتا ہے۔ حبس انتہا کو پہنچے، تو ابر کرم جھوم کے آتا ہے، کٹھالی میں جتنا کھولایا جائے، آلایشوں سے اتنی ہی نجات ملتی ہے۔
آج بھی رحمت خداوندی کے علاوہ سب در بند دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں اُمید کی کرن تعصبات سے پاک، بے لوث و مخلص اہل دین اور انھی اسلامی تحریکات کو بننا ہے، جنھوں نے گذشتہ صدی میں تجدید و احیاے دین کا فریضہ انجام دیا۔ گذشتہ صدی کے آغاز میں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی تھی، آج وہ لاکھوں میں ہیں۔حلقۂ یاراں ہو، یعنی اپنے ہم وطن مسلمانوں میں کام کرنا ہو تو یہ تحریکات ہزاروں شہدا اور اسیر پیش کرکے بھی پُرامن رہتی ہیں۔ دعوت و تربیت اور پُرامن سرگرمیوں پر اکتفا و انحصار کرتی ہیں۔ لیکن کشمیر، فلسطین، افغانستان اور عراق کی طرح استعمار قابض ہوجائے، تو جہاد اور فداکاری کی ناقابل یقین تاریخ رقم کردیتی ہیں۔ حقائق اور خود اغیار کی اپنی دستاویزات ثابت کررہی ہیں کہ آیندہ ۱۰ سے ۱۵ برس انتہائی اہم ہیں۔ عالمِ اسلام کو تقسیم کرنے کا ایک اہم ہدف اسرائیلی ناجائز ریاست کا دفاع قرار دیا جاتا ہے۔ اب خود اسرائیلی دانش ور سوال اُٹھا رہے ہیں کہ کیا ہم آیندہ عشرے کے اختتام تک اپنا وجود باقی رکھ سکیں گے؟غیب کا علم صرف پروردگار عالم کو ہے، لیکن آزمایشیں جتنی بڑھتی جاتی ہیں، ألَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ کی ملکوتی ندا بلند تر ہوتی جارہی ہے۔