جولائی ۲۰۱۴

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جولائی ۲۰۱۴ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

سوال: زکوٰۃ اور نیت کی تبدیلی

 کسی شخص نے کوئی عمارت فروخت کرنے کی خاطر بنوائی، لیکن برسوں بعد بھی وہ فروخت نہ ہوسکی۔ کیا اب اس کے لیے جائز ہے کہ فروخت کرنے کی نیت تبدیل کرکے اسے کرایے پر اُٹھا دے؟ ایسی صورت میں اس کی زکوٰۃ کس طرح ادا کی جائے گی، کیونکہ پہلے تو یہ عمارت فروخت کی خاطر بنائی گئی تھی لیکن اب کرایے پر اُٹھا دی گئی ہے؟

جواب:

  جب تک اس کی نیت یہ تھی کہ اسے عمارت فروخت کرنی ہے، اس وقت تک اس عمارت کو عروض التجارۃ (مالِ تجارت)سمجھ کر اسے اس کی قیمت کا اندازہ کر کے اس پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ لیکن جب اس نے اپنی نیت تبدیل کرلی اس وقت سے زکوٰۃ اس عمارت کی قیمت پر نہیں بلکہ اس کے کرایے پر ادا کرنی ہوگی۔ رہا یہ مسئلہ کہ وہ اپنی نیت تبدیل کرسکتا ہے یا کہ نہیں؟ تو یہ اس کا شرعی حق ہے کہ ضرورت پڑنے پر جب چاہے اپنی نیت تبدیل کرسکتا ہے۔ (ڈاکٹر یوسف القرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی، دارالنوادر، لاہور ،ص ۱۳۸)

سوال: پٹے پر حاصل زمین پر زکوٰۃ

 بعض لوگ لیز، یعنی پٹے پر حکومت سے زمین حاصل کرتے ہیں، پھر تجارت کی غرض سے اس زمین پر آفس یا گودام وغیرہ بنالیتے ہیں۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ لیز کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ زمین حکومت کو واپس کرنی پڑتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اتنی ہی یا اس سے کم مدت کے لیے دوبارہ زمین لیز پر مل جاتی ہے۔ کیا اس زمین پر زکوٰۃ واجب ہے؟

جواب:

لیزپر حاصل کی ہوئی زمین پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، کیونکہ یہ زمین دراصل حکومت کی ملکیت ہے نہ کہ زمین حاصل کرنے والے کی۔ زکوٰۃ اس چیز پر ادا کی جاتی ہے، جو اپنی ملکیت میں ہو۔ رہی وہ عمارت یا آفس جو اس زمین پر بنائی جاتی ہے تو اس پر بھی زکوٰۃ نہیں ہے کیوں کہ آفس یا عمارت عروض التجارۃ (مالِ تجارت) نہیں ہے۔زکوٰۃ اس مالِ تجارت سے ادا کی جائے گی جو اس آفس یا عمارت میں فروخت کرنے کی غرض سے رکھا جاتا ہے۔(ڈاکٹر یوسف قرضاوی، ایضاً، ص ۱۳۹)

سوال: رویت ہلال کا فرق اور اعتکاف

صوبہ خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں رمضان المبارک ایک دن پہلے شروع ہوتا ہے۔ جب ہمارے ہاں رمضان کی ۲۰تاریخ ہوتی ہے تو پنجاب میں ۱۹رمضان ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں کا کوئی آدمی پنجاب میں اعتکاف کے لیے بیٹھنا چاہے تو وہ اپنے ۲۰رمضان کے حساب سے بیٹھے یا پھر ایک دن بعد پنجاب کے ۲۰رمضان کے حساب سے۔ اسی طرح کا مسئلہ اعتکاف کے اختتام پر بھی پیش آتا ہے۔ اسی بنا پر ہمارے ہاں بعض لوگ یہاں کے ۲۰رمضان کے مطابق وہاں اعتکاف کے لیے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر یہاں کے ۲۹ یا ۳۰رمضان کو اعتکاف ختم کر کے واپس آتے ہیں حالانکہ وہاں اعتکاف ابھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو پنجاب ہی کے حساب کے مطابق اعتکاف شروع کرتے ہیں اور ختم کرتے ہیں۔ تحقیق طلب مسئلہ یہ ہے کہ صحیح طرزِعمل کیا ہے؟

جواب:

خیبرپختونخوا یا بلوچستان اور کسی دوسرے پاکستانی علاقے کو پاکستان میں قائم رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو اپنانا چاہیے۔ حکومت کا یہ کام شریعت کے مطابق ہے کہ اس نے رویت ہلال کے لیے کمیٹی قائم کی ہے اور اس کا ایک سربراہ مقرر کیاہے۔ وہ کمیٹی ہر ماہ رویت ہلال کے لیے اجلاس بھی کرتی ہے اور چاند کو دیکھنے کا اہتمام بھی کرتی ہے۔ اس کی یہ کوشش قابلِ قدر ہے، لہٰذا اس کے فیصلے کے مطابق چلنا چاہیے۔

اگر اعتکاف کسی ایسے علاقے میں ہو جہاں کی بیسویں رمضان خیبرپختونخوا کے بعد ہو، خیبرپختونخوا میں اس دن جب لاہور، راولپنڈی، مری میں بیس ہو ، ۲۱رمضان ہو تو اعتکاف میں جہاں اعتکاف کرے گا اسی جگہ کا اعتبار ہوگا۔ اگرچہ اس نے ایک دن پہلے روزہ رکھا ہو ۔ اسی طرح اعتکاف سے نکلنا بھی اس جگہ کے اعتبار سے ہوگا جہاں اعتکاف میں بیٹھا ہے۔ جب وہاں کے لوگ حکومت کی رویت ہلال کمیٹی کے مطابق چاند کا اعلان ہونے پر اعتکاف سے نکلیں تو و ہ بھی نکلے اگرچہ اس علاقے میں لوگ ایک دن پہلے اعتکاف سے اُٹھ چکے ہوں اور ایک دن پہلے عید کرچکے ہوں۔واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

سوال: اقامت ِ دین کے لیے مسجد کو زکوٰۃ دینا

زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک اقامت ِ دین ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مسجد اقامت ِ دین کا فریضہ اداکرنے کے لیے قائم کی گئی ہو تو کیا وہاں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟

جواب:

وہ مسجد جو اقامت ِدین کی غرض سے قائم کی گئی ہو اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ خیال رہے کہ اس زکوٰۃ کو مسجد کے مصارف میں خرچ نہیں کیا جاسکتا صرف اقامت ِ دین کے اُمور میں صرف کیا جاسکتا ہے جو فی سبیل اللہ کی مد میں آتے ہیں، یا دیگر مصارف پر جو سورئہ توبہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

سوال: غیرمسلموں سے مالی تعاون کا حصول

  1. مسلمانوں کا کوئی گروہ اگر خدمت ِ خلق میں مصروف ہو اور کوئی غیرمسلم  اس میں عملی، مالی یا کسی اور صورت میں تعاون کرنا چاہے، تو اس کے لیے کیاشرعی حکم ہے؟
  2. زیرتعمیر مسجد میں اگر کوئی غیرمسلم علانیہ قابلِ ذکر تعاون کرنا چاہے تو خادمین مسجد ، اہلِ محلہ کے لیے کیا حکم ہے؟ مندرجہ بالا حالات میں اگر نیت میں فتور نظر آرہا ہو، اور مقصد اور نیت دونوں میں خلوص نظر آرہا ہو، ہر دو صورتوں میں لائحہ عمل کیا ہوگا؟
  3. کیا اسلامی ریاست اپنے غیرمسلم ممالک سے اچھے پڑوس اور بہتر تعلقات کے علاوہ عوام کی فلاح و بہبود، تعلیم، سائنس، ٹکنالوجی اور جنگی سازوسامان میں تعاون لے سکتی ہے، اگر غیرمسلم ریاست کی نیت میں بظاہر فتور نظر نہ آتا ہو؟
  4. اگر مسلمان کہیں جہاد کے لیے اُٹھیں اور غیرمعاہد غیرمسلموں کا کوئی گروہ اپنے اسٹرے ٹیجک مفاد، اپنی حفاظت، مجاہدین کے رعب، مسلمان اکثریت یا کسی بھی وجہ سے، مجاہدین کی عسکری، عملی، مالی یا لاجسٹک مدد کرنا چاہے، تو کیا مسلمان مجاہدین کو  ان کا تعاون حاصل کرنا چاہیے؟

جواب:

  1. مسلمانوں کا وہ گروہ جو خدمت ِ خلق میں مصروف ہو اگر غیرمسلم اس میں مالی تعاون کرنا چاہیں بشرطیکہ اپنے مفادات کو، جو مسلمانوں کے مفادات سے ٹکراتے ہوں، حاصل کرنا ان کے پیش نظر نہ ہو، تومالی تعاون لے سکتے ہیں، جیسے کہ دارالکفر کے مسلمان وہاں کی حکومت سے مالی اعانت لے سکتے ہیں۔ اسی طرح ان کے عوام سے بھی مشروط مالی تعاون لیا جاسکتا ہے۔
  2. محلے کی زیرتعمیر مسجد میں اگر کوئی غیرمسلم علانیہ قابلِ ذکر تعاون کرنا چاہے اور مسجد کے معاملات میں دخل اندازی کا خطرہ نہ ہو، تو مالی تعاون لیا جاسکتا ہے اور اگر دخل اندازی کا خطرہ ہو تو پھر تعاون نہ لیا جائے۔مندرجہ بالا تمام صورتوں میں نیت میں فتور ہو تو پھر تعاون نہ لیا جائے اور اگر نیت میں خلوص نظر آتا ہو تو تعاون لیا اور دیا جاسکتا ہے۔
  3. غیرمسلم ریاست سے اگر تعاون لیا جائے تو مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ جائز ہے۔
  4. اگر کوئی غیرمسلم، غیرمعاہد گروہ اپنے حالات اور مفاد اور مسلمانوں کے رعب اور اکثریت کے سبب مسلمان مجاہدین کے ساتھ تعاون کرنا چاہے، تو ایسی صورت میں، جب کہ مجاہدین مجبور نہ ہوں، ان کا تعاون نہ لیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا نَسْتَعِیْنُ بِمُشْرِکٍ  ’’ہم مشرک سے مدد نہیں لیتے‘‘۔واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

_______________