ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم


الْحَکِیْمِ ___ آخری کتابِ الٰہی کے متعدد ناموں میں سے ایک ہے جوسورئہ یونس کی پہلی آیت: الۗرٰ۝۰ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ۝۱  ، سورئہ لقمان کی دوسری آیت: الۗمّۗ۝۱ۚ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ۝۲ۙ ، اور سورئہ یٰسٓ کی دوسری آیت: يٰسۗ۝۱ۚ  وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ۝۲ۙ میں وارد ہوا ہے۔

الْحَکِیْم  کے تین معنی بیان کیے گئے ہیں: الْمُحْکَمْ ، پختہ ، بلاشبہہ۔ الْمُبِیْن کھلا ہوا۔ المُوَضّحَ ، واضح۔یہ تینوں معنی قرآن حکیم پر اس طرح صادق آتے ہیں کہ یہ کتاب لاریب اپنی آیات، تعلیمات، احکامات، مواعظ و نصائح ، امثال و عبِر، ہرحوالے اور پہلو سے حکمت و دانش سے لبریز ، ہر بات کو کسی اُلجھن ، جھجک اور مصلحت کے بغیرکھول کر، پوری وضاحت اور تفصیل سے بیان کرنے والی ہے۔ الۗرٰ ۝۰ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ  (ھود۱۱:۱) ’’ال ر، فرمان ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہیں‘‘۔

الْحَکِیْمِ ___اس کتاب کو نازل کرنے والے اللہ ذوالجلال والاکرام کا صفاتی نام بھی ہے۔ اس لیے اسے ’قولِ حکیم‘ قراردینا زیادہ اَنسب ہے۔ سورئہ ہود میں ارشاد ہوا: مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ۝۱ۙ  (ھود۱۱:۱) ’’یہ قرآن صاحب حکمت و آگہی کی جانب سے ہے‘‘۔ سورئہ فصلت میں ارشاد ہوا: تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ۝۴۲  (حٰمٓ السجدہ ۴۱:۴۲) ’’حمدوثنا کے سزاوار اور صاحب ِ حکمت کی طرف سے نازل کردہ ہے‘‘۔ سورۃ الجاثیہ اور سورۃ الاحقاف میں بیان ہوا: تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللہِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ۝۲ (الاحقاف۴۶:۲)، ’’اس کتاب کا نزول اللہ غالب و صاحب ِ حکمت کی طرف سے ہے‘‘۔

مفصل و محکم آیات، واضح تعلیمات، روشن حقائق، الہامی علوم و معارف اورقطعی ارشادات و احکامات پر مشتمل صاحب ِحکمت و تدبیر، صاحب ِ تحمید و تمجید ، صاحبِ قوت و اختیار، صاحب ِ غلبہ واقتدار، صاحب ِ علم و آگہی ، مالکِ عرش و اَرض، خالق و مدبر و منتظم و متصرفِ کائنات، ربِّ جِنّ و انس، ربِّ عالمین، ربِّ مشرقین و مغربین کی جانب سے نازل کی جانے والی کتاب بلاشبہہ اور یقینی طور پر سرچشمۂ حکمت و دانش ’کتابِ حکیم‘ ہے۔ جو نہ شاعرانہ تخیل ہے، نہ لفظوں کی جادوگری، نہ کاہنوں کی لفاظی، نہ نثرنگاروں کا لفظی کمال، نہ دانش وروںکے تجاربِ حیات، نہ جادوٹونے کی کتاب، نہ وظیفوں، چلّوں،دُعا و مناجات کا مجموعہ، نہ تاریخ کےعبرو مواعظ کا خزینہ اور نہ محض کچھ لفظوں، پاروں، سورتوں سےبھرے اوراقِ مقدّسہ کا بے کیف و سُرور ، بے معنٰی و مطلب اور بے نتیجہ و ثمر، بے سندوحوالہ محض ایک کتاب، دیگربےشمارکتابوں کی طرح۔ یہ تو سب کتابوں کی سردار، سب سے جدا، سب سے منفرد، سب کی حکمتوں کا ماخذ، منبع و مصدر و مرجع ہے۔ اسی لیے یہ الْکِتٰبْ   قرار دی گئی، بلکہ اُمُّ الْکِتٰبْ  کے نام سے بھی موسوم ہوئی۔

قرآنِ حکیم ___ ہرعہد کے انسانوں کے تصورات، اندازوں اوررویوں کے یکسرعلی الرغم حکمت و دانش کا مُرقّع، نصیحت کا مؤثر و بلیغ شاہکار، علوم و معارف کا بحرِ ذخّار، حقائق و مظاہرِ قدرت کا راہنما، قلب و نظر، روح و فکر،عقیدہ و عمل کا مرکز و محور ہے۔ دنیا وآخرت کی صلاح و فلاح اور نجات کاضامن ہے۔ نظامِ حیات کے ہرپہلو کا مُرشد و مُقتدا، ہرجسمانی وروحانی ضرورت، ہرفکری وعملی اُلجھن کی سُلجھن، ہرعہد اور ابناےانسانی کی ہمہ جہت ضرورتوں کا کفیل ہے۔

قرآنِ حکیم ___ اس امر کا واضح اعلان اور اس حقیقت کا روشن اظہارہے کہ بندگانِ خدا کےپاس موجود علم و آگہی، شعور و حکمت،دانش و مہارت سب کچھ ہیچ اور نامکمل اور محض ایک انتہائی قلیل حصہ ہے اُس حکمت و دانش کے مقابل ، جو صاحب ِحکمت خداے لم یزل نے کتاب ِ حکمت، قرآنِ حکیم کی صورت میں انسانیت کو عطا کی۔ اُن کے پاس آسمان کی بلندیوں، زمین کی پنہائیوں، سورج و چاندکی تسخیر، ہواؤں، فضاؤں اورسمندر کی لہروں پر تسلّط اور ذرّوں کو ہولناک قوتوں میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کےدعوے اور مظاہر، قسم قسم کے بے شمار علوم و فنون سب محدود، نامکمل اوربے کار ہیں۔ اگروہ کتابِ علم و حکمت کے اس اَزلی و اَبدی سرچشمۂ ماضی سے مربوط اور اس کے زیراثر نہ ہوں، اورانسان کو اپنی ذات، مقام و مرتبت، فرائض و حدودِ کار کے شعورسے آگاہ و خبردارنہ کریں اوراس کا تابع بناکر طاقتوں کے واحد مرکز اپنے خالق و مالک اورپالنہار، محسن و مُنعم سے مربوط اور اس کے سامنے سربسجود ہونےپر مجبورنہ کردیں، اوراُسی کے بندوں کو معبودِ حقیقی و اصلی، معبودِواحد کی بندگی کی چوکھٹ پرلاکھڑا کرکے بے بندگی کی ذلّت، شرمندگی اوراَبدی ہلاکت، بربادی، تباہی اورخُسرانِ عظیم سے محفوظ نہ کردیں۔

اس ’کتابِ حکیم ‘ اور’قولِ حکیم‘ کے مہبط، معلّم اور مُبلّغ، مُفسِّر مُبین اور شارح صاحب ِ حکمت اللہ عزوجل کا وہ فرستادہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے، جس سے بڑا حکیم و دانا، نہ کبھی پیدا ہوا ، نہ ہوسکے گا۔ جس کی حکمت و دانش کے سارے حوالے اورناتے وحی الٰہی کے سلسلوں پرمبنی اور منبع علم و حکمت سے مسلسل مربوط تھے، جس نےفرائض منصبی کے پہلے تعارفی اورکلیدی نکتے کے طورپر اقرأ کے   حکمِ الٰہی کے ذریعے علم کو اختیار کیا اور اس علم و حکمت کے فروغ کولائحہ عمل بنایا۔ وہ معلّم کتاب و حکمت کہلایا۔

کتابِ حکمت، قرآنِ حکیم نے اس کا تعارف اور فرائض رسالت کو یوں بیان کیا: یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ  وَالْحِکْمَۃَ  ج (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴)۔ وہ لوگوں کو حکمت اور کتاب کی تعلیم دیتا ، اوراُن کی زندگیوں سے بے حکیمانہ، جاہلانہ، مفسدانہ نظریات، افکارو اعمال کو اُکھاڑ پھینکتا ہے۔ اس ظلمت و جہالت کے نتیجے میں غیرحکیمانہ رویوں، طریقوں، پابندیوں اور بوجھوں کو اُتارکر روشنیوں سے ہمکنار کرتا ہے: يَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ (اعراف ۷:۱۵۷) اور يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ۝۰ۭ (البقرہ۲: ۲۵۷)۔

وہ ہستی(صلی اللہ علیہ وسلم) جس کے بطورِ رسول تقرر کے اعلان و تصدیق کے لیے سرچشمہ و حکمت ___ کتابِ حکمت کی قسم کھائی گئی: يٰسۗ۝۱ۚ وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ۝۲ۙ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝۳ۙ (یٰسٓ ۳۶: ۱-۳) ’’یٰس،قسم ہے قرآنِ حکیم کی کہ تم یقینا رسولوں ؑ میں سے ہو‘‘۔ یہ محض ائمہ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رفعت ِ شان،عُلُوِّ عظمت، شکوہ حُسن و جمال، پاکیزگی و کردار، اعلیٰ نسبی اوربے شمار ذاتی و صفاتی خصائص کے بجاے سلسلۂ حکمت سے جوڑا اور اسے منصبی فرض قرار دیا۔

اس داعی و مُبلّغ حکمت صلی اللہ علیہ وسلم کواس کتابِ حکمت کی تشریح و توضیح کا ذمہ دار بناکر،  عَلٰی  صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ،بالکل درست، سیدھی اور بَرحق راہِ ہدایت و نظامِ حیات کا راہبر و راہنما قرار دے کر انسانیت کے لیے تاقیامت اسوئہ کامل ، اسوئہ حسنہ اور واجب الاتباع بناکر شریعت و رسالت کا حرفِ آخر ٹھیرایا گیا۔ اس کی اطاعت و محبت کو دُنیا و آخرت کی کامیابیوں کاواحد ذریعہ بتایا گیا۔

اس کتابِ حکمت، مجمع حکمت، صراطِ حکمت اور صاحب ِحکمت رسولؐ کی نسبت اجرا و اِصدار، الْعَزِیْزِ الرَّحِیْم ، غالب و مہربان ربّ کی طرف کی گئی، تَنْزِيْلَ الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ ۝  (یٰٓس ۳۶:۵)۔

اس رسولِ حکمت صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب، اس کی توضیح و تبیین طے کر دیا گیا کہ یہ نازل کرنے والے حکیم ربّ کی حکمت و علم کا تقاضا تھا: وَيُبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۱۸ (النور۲۴:۱۸) ’’اللہ تمھیں صاف صاف ہدایات دیتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے‘‘۔

اس کتابِ حکیم میں موجود اور رسولؐ کو عطا کردہ حکمت ِ الٰہی کے سرچشموں اور وحی الٰہی کے ذریعے حاصل ہونے والی حکمت و دانش کی تبلیغ کے مراحل کار طے کر دیے گئے۔ یَتْلُوْا  عَلَیْھِمْ اٰیٰــتِہٖ۔ زبانِ جبرائیل ؑ کے ذریعے صدرِ رسولؐ تک پہنچائے جانے والے قرآن کی کسی کمی بیشی، تغیروتبدل، ترمیم و اضافے کے بغیر انسانوں تک منتقلی بذریعہ تلاوتِ آیات۔پھر اُن کے نفوس کی پاکیزگی، فکری و عملی طہارت کے اقدامات، تزکیہ و تربیت کے ذریعے، وَیُزَکِّیْھِمْ۔ ذہنوں اور دلوں کی آمادگی کے بعد يُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۚ (ال عمرٰن ۳:۱۶۴)، کتاب حکمت کےعلوم و معارف اور حکمتوں کا بیان اورحکیمانہ رویوں، کردار،اخلاق،اوصاف،اعمال سے آگہی کا مربوط و مسلسل کارِنبوت۔  بندگانِ خداے حکیم و خبیر پر پروردگار کی نعمتوں اور احسانات کی تکمیل کا بڑا مظہر۔ اُن کی تعلیم، سرچشمۂ حکمت کے اصولوں، ضابطوں کے مطابق۔ گویا فرائض رسالت کا ہرحوالہ، ہرراستہ، ہربنیاد حکمت ودانش کے ساتھ مربوط ومستحکم کردیا گیا۔ واضح اعلان ہوا: وَاِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ۝۶  (النمل ۲۷:۶) ’’اور(اےنبیؐ) بلاشبہہ تم یہ قرآن ایک حکیم و علیم ہستی کی طرف سے پارہے ہو‘‘۔

حکمت و دانش کا یہ حوالہ ، یہ نسخۂ کیمیا، یہ راہنما ،یہ مصدرو منبع اور مرجع___ قرآنِ حکیم کے سوا اورکچھ نہیں، جو معلم کتاب و حکمت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکیمانہ انقلاب کا بنیادی ہتھیار، ترجیح اوّل اورحتمی ہدف تھا۔ جس نے اِقْرَاْ کے ذریعے اس سرچشمۂ حکمت، ربّ کائنات سے متعارف و مربوط کیا، جس نے قلم کے ذریعے علم و حکمت کو فروغ دیا___  اِقْرَاْ  بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ۝  (العلق ۹۶:۱) اور عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۝   (العلق ۹۶:۴)___  اور انسانیت کو سلسلۂ علم و حکمت کے بنیادی آلات و اوزار___  قلم و قرطاس___  کے ساتھ جوڑدیا۔

سورۃ النساء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت و تدبر اور اس کے مصادر پر مُہرتصدیق ثبت کر دی گئی۔ وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ۝۰ۭ (النساء: ۴:۱۱۳) ’’اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تم کو وہ کچھ بتایا ہے جو تمھیں معلوم نہ تھا‘‘۔ آپؐ کو کتاب و حکمت بھی عطا کی گئی، حکمت کے سب زاویے اور پہلوبھی آشکار کیے گئے اور کائنات کی وہ ساری حقیقتیں عیاں اورمعلومات فراہم کردی گئیں، جو فرائضِ رسالت کی ادایگی کے لیے ضروری اور ربِ علیم و حکیم کےعلم و حکمت کاپرتو اور تقاضا تھا۔

بندگانِ خدا کی حیات و ممات اور دُنیا و آخرت کے لیے تین فیصلہ کن اور مؤثر و غالب کردار___  اللہ، رسولؐ اورکتاب___  طے ہوئے اور ’حکمت‘ اِن کا مشترک حوالہ اوراَصل قرارپایا۔ اور یہی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ قرآن کا ۲۳سالہ الٰہی طریقہ اور اس کی تعلیم، تبلیغ اور تنفیذ کا لائحہ عمل ٹھیرایا گیا۔ معلم کتاب و حکمت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا: اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (النحل ۱۶:۱۲۵)،’’اے نبیؐ! اپنے ربّ کےراستے کی طرف دعوت دو حکمت اورعمدہ نصیحت کےساتھ‘‘۔ حکمت، نصیحت، دعوت اورفکری وعملی تغیر و تبدل کا تدریجی وارتقائی عملی نمونہ بھی اِسی حکمت کا ۲۳سالہ مظاہرہ بن کر داعیانِ حق کے لیےراہنما اُصول بن گیا۔

’حکمت‘ انسانیت پربہت بڑی نعمت ِ خداوندی ہے۔یہ حکمت کسے اور کتنی دینی ہے؟ اور اس سے کیا نتائج اخذ کرنے ہیں؟ یہ حکیمِ کبیر، علیم و خبیر، عزیز و رحیم کی اپنی صواب دید ہے، مگر یہ حقیقت ظاہر و کائنات پرغالب ہے: وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۶۹)، جسے ’حکمت‘ جب ، جتنی اور جس مقصد کے لیے عطا کی گئی ، دراصل اُسے دُنیا جہان کی سب سے بہتر، قیمتی، مفید، مؤثر،فیصلہ کن نتائج، بھلائیوں، کامرانیوں اورعظمتوں کی کنجی عطا کردی گئی۔

اللہ ربّ العزت نےاپنی حکمت و مشیت کے تحت اوّلاً اپنے انبیاؑ و رُسلؑ کو ’حکمت‘ عطا کی۔ یہ اپنےاپنے عہد کے خیرالخلائق، پاکیزہ، خدا کے مقرب ترین اورتااَبد انسانیت کے لیےمقتدا و راہنما ہیں۔ اسی طرح کچھ دیگر نیک اورپارسا لوگوں کو بھی حکمت کی دستارِ فضیلت سے نوازتا رہا ہے اور اُن کے اقوالِ حکمت اورطریق حکمت کو کتابِ حکمت ’قرآنِ حکیم‘ میں ذکرکرکے اُنھیں اَمر کردیا۔ حضرت لقمانؑ جو اغلباً پیغمبرنہیں تھے مگر حکمت الٰہی کےوصول کنندہ ہوئے۔ وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَۃَ (لقمٰن ۳۱:۱۲)’’ہم نے لقمان ؑ کو حکمت سے نوازا‘‘۔ یقینا یہ اللہ ہی ہے، جو حکمت بھی دیتا ہے اور اُس راہِ حیات کے انتخاب اور افکار و اعمال کا شعوربھی عطا کرتاہے اور پاکیزہ و قائدانہ کردار کی مسند تک پہنچاتا اور حکمت سے بہرہ مند ہونے والوں کو انسانیت کا راہنماقرار دیتا ہے، جو حکیمانہ فکروعمل کا لازمی نتیجہ ہے۔ جس علم و حکمت سے یہ نتائج حاصل نہ ہوں، وہ نہ علم ہے، نہ حکمت۔

اگر بنظر غائر دیکھا جائے، تو ’حکمت‘ تو ہرذی نفس کو کسی نہ کسی صورت اور مقدار میں ضرور ملتی ہے۔ بالخصوص انسان اس حکمت و تدبر سے کام لے کر اپنی معاش کا خوب اہتمام کرتا ہے، مگرحکمت ِ رسالت و نبوت سے اِعراض کرکے اپنی معاد (آخرت) کا سامان نہیں کرپاتا۔ اس طرح غیرانسانی مخلوق کو بھی اتنی حکمت و صلاحیت ضرور دی جاتی ہے، جس سے وہ کم از کم اپنی خوراک حاصل اور اسے استعمال اور اپنے مالک کی تابع داری کرسکیں، مگر اللہ نے اِن غیرانسانی مخلوقات کو عطا کردہ حکمت کے نتیجے میں اُنھیں نہ کوئی اختیاردیا ہے، نہ اپنی بندگی کا شعوری پابند ہی بنایا ہے۔ اُن کو حاصل حکمت محض محدود و معدود مقاصد کے لیے ہی ہے۔ البتہ انسان کو حکمت ِ الٰہی ، حکمت نبوی اور حکمت ِ قرآنی کے ذریعے بہت سے تقاضوں کا مکلف ٹھیرایا ہے۔ ان کےدو بڑے مقاصدو تقاضے بتائے گئے ہیں۔

سورہ لقمان میں پہلا تقاضا بیان ہوا: وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَۃَ اَنِ اشْكُرْ لِلہِ۝۰ۭ  (لقمٰن۳۱:۱۲)’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کاشکرگزارہو‘‘۔ اللہ کی شکرگزاری کا لازمی اورمستقل رویہ و معمول، بے حدوحساب، بے شمارنعمتوں جن کا ذکرو شمار انسانی حد سے یقینا باہر___  وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا۝۰ۭ (ابراہیم ۱۴:۳۴)۔ انسان کی تخلیق، تجسیم، تصویر، تشکیل ، عقل، شعور، آگہی، تعلیم، ربوبیت کے جملہ تقاضوں کی تکمیل، خیروشر کی تمیز، غلط اور صحیح کی صلاحیت ِ تفریق، قوتِ فکر، طاقت ِ اظہار، مرضی اپنانے کی آزادی، زندگی گزارنے کے لیے ہرعمر، ماحول،مزاج کے موافق بے شمار نعمتیں، وسائل، مواقع اور عیش و عشرت کے سارے سامان، ہدایت و ضلالت کے سب راستوں کا شعور اور ردّ وقبول کا اختیار۔ اور ان سب نعمتوں میں سب سے بڑی، جامع، کامل، اَتم و اَہم نعمت، زندگی گزارنے کا درست طریقہ، عزّت و عظمت کا راستہ، صلاح و فلاح کاضامن ضابطہ، دین اسلام، دین ہدایت، دین حکمت، دین فطرت،دین یُسر۔ ہرپہلو سےواضح،روشن اورمکمل۔ ایک کتاب ِ حکمت کی محفوظ، جامع، مفصل اور واضح آیات و تعلیمات کے ساتھ ایک رسولِ حکمت کے اُسوہ وسیرت کےذریعے حق و باطل کو واضح کرتے ہوئے اِنذار و تبشیر، تعلیم و تبلیغ کے ذریعے ، تدریج کے حکیمانہ اُسلوب، نصیحت و موعظت کو طریق کار بناکر، کسی جبرواِکراہ کے بغیردعوتِ اِلَی الحق، دعوتِ اِلَی اللہ، دعوت الی الخیر، دعوتِ اِلَی المغفرۃ ،دعوت اِلَی النجاۃ، دعوت اِلَی الفوز والفلاح، دعوتِ اِلَی الخیر والابقٰی اور دعوتِ اِلَی السلم کافۃ ، دعوتِ اِلَی الجنۃ اوردعوت اِلَی العتق من النار کے منبع و مصدر و معطیٔ حکمت، دین حکمت، کتابِ حکمت ، رسولِؐ حکمت کی طرف رہنمائی کی نعمت عظمیٰ و کبریٰ پر شکرگزاری، تسلیم و رضا، اطاعت و وفاکے ذریعے حکمت کے اس بلیغ، اعلیٰ اور انتہائی مطلوب و مقصود درجے حِکْمَۃٌ بَالِغَۃٌ تک پہنچنا ہے، جو اتمامِ حجت کا مظہر اور اس کے لیے کافی اور حتمی حد ہے۔

اس حکمت کا دوسرا تقاضا کائنات اور مظاہر قدرت اور حکیم و علیم و خبیر کے افعال و احکامِ حکمت پرغوروتدبرہے۔ کتاب ِ حکمت ___ قرآنِ حکیم ___ اَوَلَمْ  یَرَوْا ،اَوَلَمْ یَنْظُرُوْا ، اَوَلَمْ  یَتَدَّبَّـرُوْا، اَوَلَمْ  یَتَفَکَّرُوْا  ، اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا   ، ترغیبات و تنبیہات و احکامات کے ذریعے اس حکمت آمیز دین اور اس کے احکام کی طرف متوجہ کررہی ہے، مگر اُسے جواس پرایمان لائے صدقِ دل سے، اس کے ہرحرف، لفظ ،حکم کوتسلیم کرے اور روشنی و ہدایت طلبی کے لیے اس میں غوطہ زن ہو۔اپنے دل کےقفل توڑ کر، جہالت کی عصبیتوں کے حصار سے نکل کر اور ظلمتوں کے اندھیروں اور خودساختہ رسوم و قیود کی بیڑیاں توڑ کر ظلمات سے نُور کے اُجالوں کی جانب سفرکا آغاز کرے اوراس پر مُدام چلتا رہے۔ اپنےدائمی نفع و ضرر کا شعور حاصل کرے۔قدرت کے مظاہرکا مشاہدہ کرکے، اس کی نشانیوں کا مطالعہ کرکے اپنی فطرتِ سلیمہ سے آشنائی حاصل کرے۔ اپنے مقصدِ حیات کااِدراک کرے، اپنے ربّ، محسن و منعم حقیقی کو پہچانے۔ مظاہر قدرت و فطرت میں حکیم اعلیٰ و بالا کی حکمت کی نشانیاں تلاش کرے۔ فِعْلُ  الْحَکِیْمِ  لَا یَخْلُوْ  عَنِ  الْحِکْمَۃِ کہ اُس دانا و بینا کا کوئی کام حکمت ودانش سے خالی نہیں۔ بے مقصدیت اورافراط و تفریط کاشکار ہے، نہ عدم توازن سے دوچار۔بندگانِ خدا پرلازم ہے کہ حکمت الٰہی کےاس مشاہدہ و مطالعہ کے نتیجے میں کائنات کے تمام شاہ کاروں کو حکمت الٰہی کی تصویروں اور دلیلوں اور اُس کی کارفرمائی کی شہادتوں کےطورپر قبول کرے، اور زندگی کے غلط راستوں،ضابطوں اورطریقوں کےانتخاب میں گمراہی سے محفوظ ہوجائے۔

اللہ و رسولؐ اور الکتاب کی حکمت کا لازمی نتیجہ ’صراطِ مستقیم‘ ہے، جو بندگی کےمکمل اورلازمی اظہارکے طورپرقبول کیا جانا شکرگزاری کا واحدذریعہ ہے۔ یہ صراطِ مستقیم بندگانِ خدا کو اپنے فرائض، دوسروں کے حقوق، دُنیا میں ذمہ داریوں کے تعین، ان کی ادایگی کے طریق، روحانی و اُخروی سعادت اور برتری کے سلسلوں کے تتبع کے ذریعے کامیابی و کامرانی اورفوزِ مُبین و عظیم کی منزلِ مراد تک پہنچاتا ہے۔ جس کے بارے میں منبع حکمت نے فرمایا: اَنَّ  ھٰذَا  صِرَاطِیْ مُسْتَقِیـْمًا  ،فَاتَّبِعُوْہُ اور جس کی طلب کی بنیادی دُعا بندگانِ خدا کو سکھائی گئی: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۔ یہی راستہ اللہ کے محبوب بندوں کا راستہ ہے، جنھیں وہ بےپناہ نعمتوں اور سعادتوں، عزّتوں، عظمتوں سے نوازتا ہے۔ حکمت ِ قرآنی سےباغی علم و شعور اور حکمت و دانش کی خودفریبی،بلاشبہہ جہالت وذلّت کا راستہ ہے۔ جو حکمت کے یکسرمخالف بلکہ اس سے متصادم ہے اوراللہ کے غضب کاشکار ہونےوالوں کا طرزِعمل۔

رُشد و ہدایت اورسلامتی فکروعمل کے اِن تینوں منابع و مراکز نے اس ’حکمت‘ کو اختیار اورخودپرلازم ٹھہرانے والوں کو حکمت و دانائی کےہرسرچشمے کا وارث و حق دار اوراہل قراردےکر اسے لازماً اختیارکرنے اورمَہدسے لحد تک اکتسابِ علم و حکمت کرتے رہنے کا حکم دیا۔ الْحِکْمَۃُ  ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ  ،’’مومن کی گم شدہ میراث یہی حکمت ہے‘‘۔ اس پر لازم ہے کہ ان تینوں اساسی مصادرو منابع سے وابستہ رہتے ہوئے،ان ہی کے زیراثر ہر سرچشمہ تک رسائی حاصل کرے۔ یہ ہر مردوزن پربالخصوص اسلام کے حلقہ بگوش ہونے والوں پرفرض و واجب ہے۔ جہاں سے بھی، جس صورت میں حکمت و دانائی کا کچھ بھی حصہ ملے، وہ اُسے اپنی گم شدہ میراث سمجھتے ہوئے، اُچک لے، حاصل کرلے اور اپنی جبینِ فضیلت پر حکمت کا ہرروشن چراغ اور دانش کے تاج سجا کر اپنےماتھے کا جھومر بنالے، مگراس یقین،اعتماد اورحقیقت کے اعتراف کےساتھ کہ حکمت کے یہی تینوں سرچشمے ہیں۔ واجب القبول اورصلاح و فلاح کے ساتھ دُنیاو آخرت کی ہرعظمت کے ضامن___ ’ذاتِ حکیم‘ ، ’رسولِ حکیم‘ اور’ قولِ حکیم‘۔

تُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ ___! یہ قرآنِ مجید کی بڑی جامع پکار اور بار بار متوجہ کرنے والی یاددہانی ہے، جس پر اہلِ ایمان کو زندگی کے تمام معمولات سرانجام دیتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ اپنی توجہ دینی اور مہلت ِ عمل ختم ہونے، یعنی موت آنے سے پہلے پہلے اپنی خطاؤں، قصوروں اور غلطیوں کی معافی طلب کرنی چاہیے ، اور یہ عمل باربار دُہرانا چاہیے۔ اپنے خالق و مالک اور معبودِ حقیقی کے حضور استغفار کرنا نہ تو شرم کا باعث ہے، نہ عار کی بات۔ یہ تو بندگی کی شان اور اُس کے اور ربّ کے درمیان معاملہ ہے۔ مگر ہے بہت اہم اور انسان کے دائمی مستقبل، یعنی آخرت کے لیے انتہائی فیصلہ کن۔
اِس بات کا قوی امکان ہے کہ بشری تقاضوں اور انسانی فطرت کے زیراثر انسان سے خطائیں سرزد ہوں، قصور اور کوتاہیاں ظاہر ہوں، اپنے ربّ کے حق میں بھی اور اُس کے بندوں، مخلوق کے حق میں بھی۔ مگر اللہ ہمارا خالق و مالک، آقا و مولا جو بہت رحمٰن و رحیم ہے، نے اپنے بندوں کو بھی نہ تو گناہوں، خطاؤں کی ظلمتوں میں بھٹکتا چھوڑ ا ہے، نہ کسی بندگلی میں دھکیلا ہے، جہاں تلافیِ مافات کی کوئی صورت نہ ہو اور نہ کوئی واپسی ہی کا راستہ میسر ہو۔ توبہ ایسا ہی ایک اللہ کو بے حد پسندیدہ عمل ہے جو انسان کو ضمیر کا بوجھ اور قصورو خطا کی دلدل سے نجات عطا کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ اور اُس کے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ ایمان ہی نہیں، کائنات کے تمام انسانوں کو توبہ و استغفار کی بار بار دعوت دی اور تلقین کی ہے۔

توبہ کا مفہوم: توبہ کا لفظی معنٰی پلٹنا، واپس آنا ، رجوع کرنا ہے۔ انسان سے اگر کوئی ایسی خطا اور قصور سرزد ہوجائے، جو شرعی طور پر بھی ممنوع ہو اور اخلاقی طور پر بھی۔ جب بھی اُسے اپنی غلطی اور کوتاہی کا احساس ہو، وہ اپنے اُس رویے سے رجوع کرے، غلطی کی اصلاح اور تلافی کرنے کا فیصلہ کرے، غلط راستے کو فوری طور پر ترک کرکے درست رویہ اور سمت اختیار کرلے ، تو تائب کہلائے گا اور اُس کا یہ رویہ توبہ کے مترادف ہوگا۔ یہ کس قدر جہالت اور حماقت ہوگی کہ ایک انسان کو اُس کے راستے، رویّے، عمل یا عقیدے کی غلطی کا علم بھی ہوجائے اور وہ اُس کی خرابیوں، خامیوں ، ہلاکتوں اور نقصانات و بُرے نتائج سے آگاہ ہونے کے باوجود اُسی راستے پر چلتا رہے۔ کسی بھی ذی شعور انسان کے لیے ایسا ممکن ہے، نہ مناسب۔ یقینا وہ درست راستے کی طرف پلٹ کر جانب ِ منزل روانہ ہوگا۔
اسلامی تعلیمات میں توبہ کا تعلق انسان کے عقائد و اعمال سے ہے۔ اِن سب کی تفصیل اور درست راستوں کی وضاحت اور مطلوب اعمال و عقائد کی نشان دہی، اللہ اور اُس کے رسولؐ کی تعلیمات ، احکامات، یعنی قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ اہلِ ایمان کے لیے تو ہرگز جائز ہے    نہ ممکن کہ وہ اِن بتائے گئے راستوں، اُصولوں اور عقائد و اعمال سے مختلف رویوں کا انتخاب کریں۔ اس حوالے سے اُن پر لازم ہے کہ وہ حددرجہ محتاط رہیں۔ قرآن و حدیث، سنت ِ طیبہ اور سیرتِ طیبہ کے ساتھ علماو صلحا و اتقیاے اُمت کے ساتھ فکری و عملی طور پر وابستہ رہیں۔ یقینا گمراہی کے امکانات کم ہوجائیں گے۔ اور اگر شیطان کے بہکاوے، بشری کمزوریوں یا کسی دوسری وجہ سے اُن سے قصور، خطا، اور غلطی سرزد ہوجائے تو اُن پر لازم ہے کہ فوراً  تَـابَ وَاَصْلَحَ ،درست راستے کی طرف پلٹ کر، اپنی غلطی کی اصلاح اور تلافی کرکے رب، رحمٰن و رحیم کی بارگاہ میں مغفرت طلبی کے لیے رجوع کریں۔ اسی عمل کو توبہ کہا جاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ گناہ کرنے سے انسان کے دل پر سیاہ نقطے پڑ جاتے ہیں اور اگر وہ انسان توبہ کرلے تو یہ سیاہی دُور ہوجاتی ہے، بصورتِ دیگر یہ سیاہی سارے دل پر پھیل کر انسان کو توبہ و استغفار اور غلطی کے احساس و شعور سے محروم کر دیتی ہے۔

خطاکار بندے اور اللہ کا  تعلق : قرآنِ عظیم میں گناہ سرزد ہوجانے کو دل پر مَیل چڑھ جانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ  (المطففین ۸۳:۱۴) ’’خبردار! لوگوں کے دلوں پر میل کچیل کی تہیں چڑھی ہوتی ہیں‘‘۔ انسان طبعاً گندگی کو ناپسند کرتا اور کراہت محسوس کرتا ہے۔ مگر جب میل کچیل کی تہیں بڑھ جائیں، تو اُس کی ناگواری کی حِس دَم توڑ دیتی اور اُس سیاہی، گندگی اور اُس کی بُو کو قبول کرلیتی ہے۔ پھر وہ شخص اِس کے وجود اور شعور سے عاری ہوجاتا ہے اور اُسے دُور کرنے کی فکر سے بے نیاز۔ اسلام نے تو معمولی سے معمولی گندگی اور کراہت کی ہرچیز خواہ وہ منہ کی بدبو ہو ، بالوں، ناخنوں میں بے ہنگم اضافہ، یا جسم سے خارج ہونے والی ریح، خون، پیپ یا کوئی اور صورت کو ناپسند کیا ہے۔ غسل، وضو، صفائی کا حکم اس طرح دیا کہ اُسے نصف ایمان گردانا گیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ طہارت و پاکیزگی کا علَم بردار دین دل کے زنگ، آلودگی، میل اور سیاہی کو پنپنے دے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک معروف حدیث کے مطابق دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جیساکہ لوہا اگر وہ کھلی فضا میں پڑا رہے تو نمی سے زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ دل گناہوں سے زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔اس زنگ کو دُور کرنے اور دل کو مجلّٰی و مصفّٰی بنانے کا طریقہ تلاوتِ قرآن اور موت کے ذکر کی کثرت کو بتایا گیا۔ بالکل اسی طرح دل کے میل، گندگی اور آلایشوں سے نجات و خلاصی کا دوسرا اور بنیادی طریقہ اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں توبہ و استغفار ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت کردہ ایک حدیث کے مطابق اللہ اپنے اُس خطاکار بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو اپنےقصور و خطا کی معافی طلب کرنے کے لیے اُس کی بارگاہ میں سرجھکائے، ہاتھ اُٹھائے اور توبہ کرے۔اُس شخص کی خوشی سے بھی زیادہ، جو لق ودق صحرا میں سفر کرتے ہوئے اپنے سامانِ زیست سے لَدی ہوئی اُونٹنی سے محروم ہوجائے، اُسے اپنی موت سامنے نظر آرہی ہو، پھر اچانک وہ اُونٹنی اُسے مل جائے۔ نااُمیدی، مایوسی اور ہلاکت کے اندیشوں سے نجات کے عالم میں اُس کی ناقابلِ بیان خوشی کا جو انداز اور اظہار کا جو بے ساختہ پن ہوگا اور خوشی و بے خودی کے عالم میں وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اُسے اپنا بندہ اور خود کو اُس کا ربّ کہہ گزرے، تو اللہ ربّ العالمین اُس پر غصہ کرنے کے بجاے مسکرا دیتے ہیں۔ اللہ کی یہ خوشی توبہ کرنے والے بندے کے لیے اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
اللہ یقینا يَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ  ’’اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتے ہیں‘‘ مگر اس کے لیے ایک مہلت طویل بھی ہے اور محدود بھی۔ انسان سے ساری زندگی میں بلااِرادہ بے شمار قصور سرزد ہوں، لیکن اگر موت سے پہلے اور زندگی کی آخری ہچکی سے قبل توبہ کرلے، تو اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے___ تَوَّابٌ رَحِیْمٌ۔ مگر یہ مہلت اس طرح محدود ہے کہ کسی کو کیا خبر کہ اُس کی موت کب آئے گی، وہ کتنا اور جیئے گا اور کب اُس کی آخری ہچکی ظہورپذیر ہوگی؟ اِس اعتبار سے توبہ کی مہلت بہت قلیل ہے۔ بندے کو غلطی کا احساس ہونے کے بعد توبہ میں ہرگز تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اور فوراً ربّ، رحمٰن اور رحیم کی بارگاہ میں سر جھکا دینا اور ہاتھ اُٹھا دینے چاہییں۔
اگر انسان جان بوجھ کر گناہ، قصور اور خطا نہ کرے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے مطابق جسے امام مسلمؒ نے اپنے مجموعۂ احادیث میں شامل کیا کہ ایک دن میں بندئہ خدا ایک سو بار بھی خطا کرے اور اللہ کے حضور معافی طلب کرے تو اُس کی توبہ قبول کی جاتی ہے۔  تُوْبُوْا اِلَی اللہِ  وَاسْتَغْفِرُوْہُ  ’’اللہ سے توبہ اور استغفار کرتے رہا کرو‘‘۔ فَاِنِّیْ  اَتُوْبُ فِیْ الْیَوْمِ مِأَۃَ مَرَّۃٍ ۔ اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دن میں سو بار خطائیں اور قصور سرزد ہوتے تھے۔ یقینا وہ تو معصوم عن الخطا تھے۔ یہ تو اُمت کے لیے تعلیم ہے کہ خواہ خطائیں ہوں یا نہ ہوں، وہ بار بار بارگاہِ الٰہی میں توبہ اور مغفرت طلب کرتے رہیں۔ ممکن ہے اُن سے اَنجانے میں کچھ ایسے قصور سرزد ہوگئے ہوں، بڑے یا چھوٹے، جن کا اُنھیںشعورو اِدراک نہ ہوسکا ہو۔ یوں وہ بھی معاف ہوجائیں گے۔ اور اگر یہ نہ بھی ہو تو بھی اللہ کو اپنے بندوں کا اپنی بارگاہ میں بار بار پلٹنا، رجوع کرنا اور توبہ کرنا ، استغفار کرنا یقینا بہت محبوب ہے۔اور یہ استغفار بندوں کے لیے دیگر بے شمار انعاماتِ الٰہی کا موجب بن جاتا ہے۔
توبہ کے حوالے سے قرآنِ عظیم نے دو مختلف رویوں کی نشان دہی کی۔ ایک حضرت آدم  و حوا علیہما السلام کا رویہ اور دوسرا شیطانِ مردود کا طرزِعمل۔ اللہ ربّ العزت نے حضرت آدم ؑ و حواؑ کو جنّت میں ایک مخصوص درخت کے پاس جانے اور اُس کا پھل کھانے سے منع کیا۔ جب اُن سے غلطی سرزد ہوگئی، تو فوراً اُس کا احساس و ادراک ہوجانے کے بعد ربّ العزت کی بارگاہ میں پلٹے، اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور مغفرت کے خواستگار ہوئے: رَبَّنَا  ظَلَمْنَآ  اَنْفُسَنَا ’’اے ہمارے پروردگار ہم سے بھول ہوگئی اور ہم نے خود اپنے ہاتھوں خود پرظلم ڈھا لیا‘‘۔ وَ  اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا  وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ  مِنَ الْخٰسِرِیْنِ ۝۲۳  (الاعراف ۷:۲۳)’’اے مالک! اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو یقینا ہم بڑے خسارے سے دوچار ہوجائیں گے‘‘۔
دوسری طرف جب شیطان مردود نے اللہ کے بے شمار انعامات، احسانات، تقرب و فضیلت عطا کیے جانے کے باوجود اللہ کے حکم کی مخالفت کی، بجاے اپنی غلطی تسلیم کرنے اور طالب ِ مغفرت ہونے کے سرکشی، بغاوت اور طغیانی کا راستہ اپنایا۔ اپنی اصلاح اور توبہ کے بجاے اپنی غلطی کا الزام بھی اللہ پر لگا دیا۔ لہٰذا، اللہ نے اُس پر ہمیشہ کے لیے توبہ کے دروازے بند کردیے اور اُسے اپنی بارگاہ سے مستقلاً خارج کر دیا۔

قبولیتِ توبہ کی شرائط: قبولیت ِ توبہ کے لیے قرآن میں چند شرائط کا ذکر ہے۔ پہلی یہ کہ انسان اپنی غلطی کا احساس ہوجانے پر حضرت آدم ؑ و حواؑ کی طرح اعترافِ خطا کرے۔ خودکو کسی فریب کا شکار ہونے دے نہ کسی بے بنیاد اور بے حیثیت سہارے کے آسرے پر رہے۔ اللہ کے سوا معاف کرنے اور سزا سے بچانے پر کوئی ذرّہ برابر بھی قادر نہیں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ معافی کے لیے انسان اللہ کی طرف رجوع کرے۔ کسی قسم کی فکری و عملی بغاوت، سرکشی اور بے نیازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ انسان کودنیا بھر میں کہیں امان مل سکتی ہے نہ سکون، سواے رب العالمین، پروردگار و مالک، رحیم و کریم خداے برحق کے دامنِ عفو وکرم اور سائبانِ رحمت کے۔تیسری شرط یہ ہے کہ وَاَصْلَحَ  ، انسان فی الفور اپنی غلطی کی اصلاح، کوتاہی کی تلافی کرے، بگڑی ہوئی بات کو درست کرلے۔ یہ گناہ، خطا اور کوتاہی برقرار رہے،توبہ کی قبولیت اور مغفرت کی اُمید کی جائے، ناممکن ہے کہ بارآور ہو، توبہ قبول اور معافی مل سکے۔ قرآن میں یہ دونوں شرائط بار بار دُہرائی گئیں: تَابُوْا  وَاَصْلَحُوْا ، اس کے ساتھ ایک اور شرط لگائی گئی: وَبَیَّنُوْا ، اپنی غلطی کو اچھی طرح جان کر  اس عزم و ارادے اور اعلان کو واضح کیا جائے کہ وہ دوبارہ اس بُرے کام اور غلطی سے شعوری طور پر خود کو دُور اور باز رکھے گا۔ اس عزم و اعلان کے بغیر بھی توبہ کی قبولیت ممکن نہیں۔
توبہ کی قبولیت کی ایک اہم شرط ندامت اور اللہ کے حضور آنسو بہاکر، گڑگڑاکر توبہ کرنا ہے۔ جو شخص توبہ کی فوری قبولیت کا خواہش مند ہو، اُس پر لازم ہے کہ دل میں اپنے گناہ اور خطا پر شرمندگی محسوس کرے اور حتی الوسع تلافی کے بعد اللہ کے حضور پیش ہو۔ گناہ اور خطا پر بغاوت، سرکشی، اطمینان کا احساس اور پشیمانی کے جذبے سے عاری توبہ شاید زبان سے بھی اچھی طرح ادا نہ ہوسکے اور توبہ توبہ کے لفظ ادا ہو بھی جائیں تو دل کا حال تو اللہ خوب جانتا ہے۔ توبہ لوگوں کو دکھانے، جتانے کے لیے نہ کی جائے۔دل کے خالص جذبے، شرمندگی کے قوی احساس، غلطی کے واضح شعور، تلافی اور عاجزی کے ساتھ ربّ، رحمٰن و رحیم کی بارگاہ میں چھپ چھپا کر، لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر، سجدے میں گرکر، آہ و زاری کے ساتھ پیش کی جائے، تو توبہ کہلائے گی۔
توبہ کرنے والے پرلازم ہے کہ حُسنِ عمل کے ذریعے اپنے ربّ کو اپنی سچائی اور خلوصِ نیت کا یقین دلائے ۔اگرچہ اللہ کو سب کچھ خبرہے۔ نیتیں، ارادے، عزائم، سینے کے راز، سب کچھ۔ تاہم، عملِ صالح بھی مطلوب ہے، جو اس توبہ کو مزید مؤثر و کارگر بنا دے گا۔ سورئہ مریم میں ارشاد الٰہی ہے: مَنْ تَابَ  وَاٰمَنَ  وَعَمِلَ  صَالِحًا(مریم ۱۹:۶۰) ’’جو توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عمل اختیار کرلیں‘‘۔
توبہ کے ساتھ تلافیِ مافات اس لیے ضروری قرار دی گئی کہ مہلت ِ عمل اور زندگی محدود ہونے کے باعث ممکن ہے کہ گناہ وخطا کی تلافی یا حُسنِ عمل کا موقع میسر نہ آئے، اگر تاخیر کی جائے۔ بالکل اُسی طرح جیسے فرعون نے مرتے وقت ایمان لانے اور توبہ کرنے کا اعلان کیا، مگر اُس کے پاس مہلت ِ عمل ختم اور موت کا لمحہ حتمی طور پر قریب آچکا تھا۔ لہٰذا یہ بھی توبہ کی شرائط میں سے ہے کہ گناہ کے فوراً بعدتوبہ کی جائے، اس کو نہ تو مؤخر کیا جائے، نہ ٹالا جائے۔ قرآن نے رہنمائی عطا کی: اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَي اللہِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ يَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ(النساء۴:۱۷)۔ اس آیت میں ایک اور پہلو سے رہنمائی کی گئی۔ اللہ پر توبہ کی قبولیت واجب ہے، مگر اُن لوگوں کے لیے جو محض نادانی میں گناہ و خطا کربیٹھیں اور پھر فوراً توبہ کرلیں۔ جان بوجھ کر اور مسلسل اور عرصۂ دراز تک گناہ کیے چلے جانا اور وقت ِ آخر توبہ کی رسمی کارروائی توبہ کے دروازے بند کرنے کا موجب ہوسکتی ہے۔ سورۃ النساء میں ارشادِ الٰہی ہے: وَلَيْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ۝۰ۚ حَتّٰٓي اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْـــٰٔنَ (النساء۴:۱۸) ’’مگر توبہ اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو بُرے کام کیے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے، اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی‘‘۔
ساری زندگی خوب جی بھر کر گناہ کیے اور خطائیں کیں اور موت آنے پر توبہ کرنا چاہی، ایسے لوگوں کے لیے توبہ کا دروازہ بندہے۔ البتہ وقت ِ آخر کوئی گناہ ہوگیا، ندامت کے احساس، تلافی کے جذبے اورسچے عزم کے ساتھ توبہ کی جائے، تو موت کی آخری ہچکی سے پہلے توبہ کادروازہ کھلا رہتا ہے، مگر عادی مجرم اور سرکش و باغی انسان کے لیے نہیں۔
سورۃ النساء ہی میں قبولیت ِ توبہ کے کچھ اور پہلو بتائے اور دُہرائے گئے:تَـابُوْا، لوگ  توبہ کریں، وَاَصْلَحُوْا، کیے گئے گناہ یا خطا کی تلافی اور اصلاح احوال کرلیں۔ وَاَعْتَلَمُوْا بِاللہِ  ، اللہ کی تعلیمات، احکامات ، ہدایات، اللہ کی ذات سے جڑ جائیں،یعنی شیطان اور بُرائی کے راستوں سے یکسر خود کو علیحدہ کرکے اللہ کے راستے پر چلنے لگیں۔ وَاَخْلَفُوْا  دِیْنَھُمْ لِلٰہِ ، اپنے دین، یعنی  نظام و معاملات و معمولاتِ حیات کواللہ کے لیے خالص، اُس کے اور رسولؐ کے احکامات و قوانین اور  فرامین کے تابع کرلیں، تو اُن کی توبہ قبول ہوگی، اور فَأُوْلٰئِکَ  مَعَ  الْمُؤْمِنِیْنَ  ، ایسے لوگوں کا شمار اور معاملہ اہلِ ایمان کے ساتھ ہوگا۔
ایسے لوگ جو اِن شرائط کو پورا اور ہدایات کو اختیار کرتے ہوئے بارگاہِ ربّ العالمین میں توبہ کے لیے دست ِ دُعا اُٹھائیں گے، آنسو بہائیں اورگڑگڑائیں گے تو اللہ فرماتے ہیں: اَنَا  التَّوَابُ الرَّحِیْمِ ، میں بہت بہت توبہ قبول کرنے والا اور اپنے بندوں پر اُن کی توقعات سے بڑھ کر رحم و کرم کا معاملہ کرنے والا ہوں۔ اللہ ایسی سچّی اور مخلصانہ توبہ کرنے والوں کو بہت محبوب رکھتا ہے، اِنَّ اللہَ  یُحِبُّ  التَوَّابِیْنَ  ۔اللہ جس سے محبت کرے، اُس کی نیک بختی، خوش نصیبی اور سعادت کا کیا ٹھکانہ ہوگا، اور کون بندہ ایساہوگا جو گناہ و خطا بھی کرے اور اللہ کی محبت اور رحم و کرم کا متمنی نہ ہو اور بے نیازی کا رویہ اختیار کرے۔

توبہ کرنے والوں کے لیے انعامات: قرآن بتاتا ہے کہ اللہ توبہ کرنے والوں کو   متعدد انعامات سے نوازتا ہے۔ حضرت آدم ؑ نے جب جنّت میں اپنے قصور پر معافی مانگی، تو اللہ ربّ العالمین نے اُنھیں نبوت عطا کرکے انسانیت کی رُشد و ہدایت کے منصب پر فائز کردیا اور انسانوں کا باپ، جدالاجداد بنا دیا اور قیامت تک اُن کی نسل کو تکریمِ آدمیت اور شرفِ انسانیت سے بہرہ وَر کرکے اشرف المخلوقات بنا دیا۔
ظلم، زیادتی اور گناہ و خطا کے بعد توبہ اور اصلاحی اعمال کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اللہ بھی بندے کی طرف متوجہ ہوتا اور اُسے اپنی رحمتوں اور مغفرتوں کے حصار میں لے لیتا ہے۔ سورۃ المائدہ میں ارشاد الٰہی ہے: فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللہَ يَتُوْبُ عَلَيْہِ۝۰ۭ(المائدہ ۵:۳۹)۔ گویا اللہ بھی اُس کی طرف توجہ فرمائے گا۔ ایک دوسری جگہ سورۃ الانعام میں ارشاد فرمایا: مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْۗءًۢ ا بِجَــہَالَۃٍ  ثُمَّ تَابَ مِنْۢ  بَعْدِہٖ  وَاَصْلَحَ۝۰ۙ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۵۴ (الانعام ۶:۵۴)۔ جو شخص نادانی سے کوئی خطا کربیٹھے، پھر اُس کے فوراً بعد اللہ کی طرف پلٹ آئے، توبہ واستغفار کرے اور غلطی کو درست کرلے، تو اللہ بہت معاف اور رحم کرنے والا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ اپنے بندے کی طرف رُخ نہ کرے، توجہ نہ کرے، اُس کی توبہ قبول نہ کرے ، اُسے معاف نہ کرے، اُس پر اپنے رحم و کرم کا سایہ نہ کرے۔ اللہ کا بندے کی طرف پلٹنا یہی ہے کہ وہ اُسے معاف کردے، اُس کے دامن سے اُس قصور کو دھو ڈالے ، اور اُس پر اپنے انعامات کی بارش برسا دے اور اُس کو اہلِ ایمان میں شمار کرتے ہوئے اپنی محبت سے نوازے۔
اللہ توبہ کرنے والے بندوں پر ایک اور بڑاا نعام یہ کرتا ہے کہ اُن کی خطاؤں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے ۔ سورۃ الفرقان میں ارشاد ہوا: اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ (۲۵:۷۰)، توبہ، ایمان اور عملِ صالح اُس بندے کو اس انعام کے اہل بنادیتے ہیں کہ ربِّ کریم اپنی خاص رحمت سے گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے کا انوکھا انعام کرتا ہے، جو اُس کے سوا کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ اس قدر لطف و کرم، بخشش و عطا صرف اُسی کا کام ہے۔

توبۃ النصوح: اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بار بار اہلِ ایمان کو متوجہ کرکے توبہ کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلانا اپنے بندوں پر رحم و کرم کے سوا کسی اور چیز کا ثبوت نہیں۔ بس یہ کہ اُس کے بندے اُس کی طرف پلٹ آئیں، اُس کی بارگاہ میں عاجزی، اِلحاح و زاری اور مغفرت طلبی کا رویہ اپنائیں۔ زبان سے توبہ توبہ کرنے کے بجاے عملی طور پر توبہ کے سچے اور حقیقی راستے کا انتخاب کریں اور مثبت رویہ اپنائیں۔ قصور و خطا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ اس سے خبردار اور محتاط رہنا لازم ہے، مگر گناہ سرزد ہونے کی صورت میں، جو ناممکن نہیں___ اللہ کی بارگاہ میں پلٹنا، توبہ کرنا، قصور کا اعتراف کرکے معافی مانگنا ،اُس کی تلافی ، اصلاح کرنا ہی بچاؤ اور دین و دنیا کی سلامتی کا واحد ذریعہ اور راستہ ہے۔ بندگانِ خدا سے مطلوب ’توبۃ النصوح‘ ہے۔ ایک سچی، کھری، پُرعزم اور آیندہ نہ کرنے کے پختہ ارادے کی توبہ۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ توبہ کے بے شمار کھلے دروازوں اور مواقع کے باوجود توبہ کیوں نہیں کرتے؟ اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ   اِلَی اللہِ  وَیَسْتَغْفِرُوْنَہُ  ط (المائدہ ۵:۷۴)۔کیوں اُس سے مغفرت نہیں مانگتے حالانکہ وَاللہُ  غَفُوْرٌ  رَحِیْمٌ  ، اللہ بہت معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔توبہ نہ کرنا اور اس آس و اُمید پر بیٹھے رہنا کہ اللہ معاف کر ہی دے گا، درست رویہ نہیں۔ یہ خام خیالی اور حددرجہ جہالت و حماقت ہے کہ انسان گناہ پر گناہ کرتاچلا جائے۔ توبہ و استغفار سے منہ موڑے رکھے اور اللہ پر توقع اور اُمید باندھے کہ وہ توبہ و مغفرت طلبی کے بغیر ہی اس کے گناہ دھو ڈالے گا۔
اہلِ کفر بھی اگر اپنے کفر و شرک سے باز آجائیں، اللہ و رسولؐ پر ایمان لاکر، حلقہ بگوشِ اسلام ہوجائیں،اپنے ماضی کو بھلا کر گناہوں کی سچے دل کے ساتھ معافی طلب کریں، تو لازماً بخشے جائیں گے، مگر اُن پر لازم ہوگا کہ بقیہ زندگی کو اللہ کے احکام اور شریعت کے قوانین کے مطابق بسر کریں اور سابقہ گناہوں سے محتاط رہیں۔
اہلِ ایمان کو توبہ و مغفرت طلبی کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں یہ دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ رَبَّنَا  لَا تُزِغْ  قُلُوْبَنَا  بَعْدَ  اِذْ ھَدَیْتَنَا ، اے ہمارے ربّ، ہدایت و راستی عطا کرنے کے بعد، دلوں کو ہرقسم کی فکری و عملی کجی، خرابی، ٹیڑھ اور گندگی و آلودگی سے بچاتے رہنا۔ وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ  رَحْمَۃً ج ،  اور اپنی جناب سے ہمیں رحمت سے نوازتے رہنا۔ اِنَّکَ  اَنْتَ الْوَھَّابُ  (اٰلِ عمرٰن ۳:۸)،  اے پروردگار! آپ بہت عطا کرنے والے ہیں۔ مغفرت، رحم، کرم، انعام، ہدایت و راستی، سلامتیِ فکروعمل، ایمان پر استقامت و استقلال اور استحکام، سب عطا فرما۔ آمین!

قرآنِ مجید وہ مہتم بالشان صحیفۂ ہدایت ہے جس نے نہ صرف تاریخِ انسانی کا دھارا موڑا، بلکہ فکروعمل کا معیار بھی یکسر تبدیل کردیا۔ قرآنِ مجید کی صورت میں الہامی تعلیمات نے نہ صرف حیاتِ انسانی کو متاثر کیا، بلکہ اس کائنات کے حیرت انگیز اسرار کی پردہ کشائی کے ساتھ مدتِ دراز سے مروج ہرنوع کے افکار و نظریات کے علی الرغم کائنات کی اَبدی اور کھلی حقیقتوں پر مضبوط، مؤثر اور مستحکم دلائل پیش کیے۔

قرآنِ مجید روے زمین پر کائنات کے خالق، مالک، آقا و حاکم اور مقتدرِ اعلیٰ کی حقانیت بلکہ وجود پر سب سے بڑی، روشن اور شان دار دلیل ہے۔ اسی لیے سورۃ النساء میں اسے ’بُرہان‘ قرار دیا گیا۔ بُرہان کے لغوی معنی ’دلیل اور حجت‘ کے ہیں۔ دلیل راہنما کو بھی کہتے ہیں اور اس سے مراد وہ نظریہ، عقیدہ، فکر اور اصول بھی ہے، جو کسی بھی معاملے میں واضح اور فیصلہ کن رہنمائی عطا کرے۔

قرآنِ مجید کی ہرآیت اور ہر حرف تاقیامت دلیل و حجت اور کامل رہنمائی ہے۔ وہ لوگ جو حق و راستی کے طالب ہوں، ان کے قلوب و اذہان ہر نوع کی کجی اور ٹیڑھ سے پاک ہوں، قرآنِ کریم انھیں ہمہ پہلو دلائل و براہین سے حق کا شعور و آگہی، عمل کی توفیق اور استقامت عطا کرتا ہے۔

قرآنِ مجید نے اپنے طرزِ استدلال میں وہ تمام اسالیب اختیار کیے، جن کا تعلق انسان کی عقل و فہم ، سماعت اور مشاہدے سے ہو۔ قرآن نے مروج ادبی معیارات سے کہیں بڑھ کر بلند تر معیار کو اپناکر دقیق سے دقیق بات پاکیزہ، واضح اور مؤثرانداز میں اس طرح بیان کی کہ ہرشخص نے اپنی فہم و دانش اور ظرف کے مطابق اس سے نہ صرف صراطِ مستقیم کا شعور حاصل کیا، بلکہ اس کے جلال و کمال اور ہیبت و عظمت کے سامنے مبہوت ہوکر رہ گیا۔

دلائل و براھین

قرآنِ حکیم نے اپنے دلائل و براہین پر جن لوگوں کو غوروفکر کی دعوت دی، ان میں اہلِ عقل و دانش ، اہلِ ایمان اور اہلِ علم کے ساتھ اللہ کا خوف رکھنے، آیات کو سننے اور انھیں سمجھنے کی صلاحیت رکھنے، ان سے نصیحت پکڑنے اور اس نعمت عظمیٰ پر شکر بجا لاتے ہوئے اس کی عطا کردہ  راہِ ہدایت پر استقامت دکھانے والے شامل ہیں۔

  • کتاب لاریب:

قرآنِ مجید کے دلائل و براہین کا اوّلین موضوع خود اس کا اپنا وجود ہے۔ اس کی پہلی دلیل ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ (البقرہ ۲:۲)، یعنی یہ کتابِ مقدس ہر نوع کے شک و شبہے سے بالا، ہرآمیزش سے مبرا، ہرکجی سے پاک اور دونوں جہانوں کے رب کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ قرآن نے خو د کو ہدایت، موعظت، شفا، رحمت، حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا اور نصیحت قرار دیتے ہوئے نہایت قوی دلیل دی کہ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج (انعام۶:۱۵۳)، کہ میرا بیان کردہ راستہ ہی سیدھا راستہ ہے، لہٰذا اسی کی پیروی میں نجات اور اس سے انحراف سراسر گمراہی ہے۔ قرآن نے اپنے وجود مسعود و محمود کے ساتھ اپنے محفوظ ہونے پر بھی دلائل دیے کہ یہ کسی انسان کا کلام ہرگز نہیں، اس کا نازل کرنے والا اللہ بزرگ و برتر ہے، اور وہی اس کا محافظ بھی۔ قرآن نے اپنے وجود کی عظمت اور حقانیت پر دلیل دیتے ہوئے تمام جِنّ و انس کو چیلنج دیا کہ وہ سب مل کر اس کے افکار و نظریات تو دُور کی بات، اس کی ایک سورۃ یا آیت جیسا کلام بناکر دکھائیں۔ پھر خود ہی اعلان بھی کردیا: لَا یَاتُوْنَ بِمِثْلِہِ کہ سارے جِنّ و انس مل کر بھی ایسا ہرگز نہ کرسکیں گے۔ قرآن نے اپنے وجود پر ایک اور قوی دلیل یہ پیش کی کہ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر۵۴:۳۲) ، یعنی یہ معانی و مفاہیم، قرأت و تجوید اور حفظ و عمل کے اعتبار سے نہایت آسان ہے۔ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ تو ہے کوئی اس سے نصیحت حاصل کر کے اپنے سینوں میں اُتارنے اور کتابِ حیات پر نافذ کرنے والا؟

  • صاحبِ قرآن:

قرآن نے اپنے براہین کا دوسرا موضوع صاحب ِ قرآن کو بنایا، اور صاحب ِ قرآن کے اُمّی ہونے کو اپنے لاریب ہونے پر دلیل بنایا کہ وہ ذاتِ اقدس جو اُمیوں کے معاشرے سے اُٹھی، اور الہامی تعلیم و تربیت اور راہنمائی کے سایے میں اُس اخلاق و کردار سے متصف ہوئی ، جو خود قرآن کا پرتو، اس کی عملی تصویر اور ہمہ پہلو مجسم دلیل قرار پائی۔ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰن، اور یہی وجودِ اقدس تابہ اَبد انسانیت کے لیے نمونۂ عمل اور اسوئہ حسنہ ، معیارِ ہدایت و ضامنِ نجات قرار پایا۔ قرآن نے نہ صرف بعثت ِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل فراہم کیے، بلکہ منصب ِ رسالت پر بھی ہمہ پہلو دلائل پیش کیے۔

  • جبریلِ امینؑ:

قرآنِ حکیم نے اپنے دلائل کا تیسرا موضوع بارگاہِ الٰہی سے بارگاہِ رسالت میں لانے والے کو بنایا، کہ وہ بھی نہایت محترم، معتبر اور مستند واسطہ ہے۔ یہ پیام رساں جبریل امین ؑ نہایت عظیم المرتبت، بارگاہِ الٰہی کا نہایت قوی مقرب، فرمانِ الٰہی کا پابند اور صاحب ِ امانت ہے۔

  • ھستی باری تعالٰی:

براہین قرآنی کا چوتھا اور کلیدی موضوع وجودِ باری تعالیٰ اور ا س کی توحید، عظمت و جلال، اختیار واقتدار، وسعت و قوت کا اعلان و اظہار ہے۔ اور نہ صرف نزولِ قرآن اور بعثت ِ رسالت مآبؐ کا مقصد ہے، بلکہ تحقیق کائنات کی غرض و غایت بھی یہی ہے۔ قرآنِ حکیم نے انسان کے اپنے وجود، تخلیق، تکوین کائنات اور بے شمار ظاہروباطن، مظاہرقدرت اور مناظر فطرت کو دلیل بناکر اللہ کی وحدانیت، عظمت، کبریائی، قوت و اختیار و اقتدار، جلال و جمال اور ذاتِ باری کے ہرپہلو کو نمایاں اور واضح کیا۔ قرآن نے اپنے دلائل سے تخلیق کائنات کا یہ مقصد واضح کیا کہ نہ تو یہ کھیل تماشے کے لیے ہے اور نہ بے مقصد۔ تخلیق جِنّ و انس اور تکوین کون و مکاں کا واحد مقصد اللہ کی ہمہ پہلو، مکمل اور مسلسل عبادت، یعنی بندگی ہے۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo (الذاریات ۵۱:۵۶) ’’میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔

  • حقیقتِ کائنات:

قرآنِ حکیم اس حقیقت پر بھی بُرہان ہے کہ یہ کائنات اَبدی نہیں، فانی ہے۔ بقا و دوام تو فقط ذاتِ باری تعالیٰ کو ہی ہے۔ اس کائنات کا انجام آخرت ہے، جو بہرصورت اور بہت جلد برپا ہوگی۔ عدلِ الٰہی کا تقاضا ہے کہ حیاتِ دنیوی میں آزمایش کے لیے بھیجے جانے والوں کی مہلت ِ عمل مکمل ، امتحان کا اختتام ہو اور فیصلے کا دن برپا کر کے جزا و سزا کے ذریعے اہلِ کفر اور اہلِ ایمان میں وعدے کے مطابق فرق و امتیاز کیا جائے۔ قرآنی دلائل کی روشنی میں دنیا تو دارالعمل، متاعِ قلیل اور بے وقعت ہے، جب کہ آخرت بہتر، دائمی اور دارالجزا ہے۔ وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰیْo (الاعلٰی۸۷:۱۷)

  • تسخیر کائنات:

براہین قرآن کا چھٹا موضوع تسخیر کائنات ہے کہ یہ بحروبَر، شمس و قمر، لیل و نہار، سب  بندئہ مومن کے لیے اور اس کی میراث ہیں۔ اَلَمْ تَـرَوْا اَنَّ اللّٰہَ سََخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ (لقمان۳۱:۲۰) ’’کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمھارے لیے مسخر کررکھی ہیں‘‘۔ مومن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انھیں امانت تصور کرتے ہوئے آقا و مولا کی مرضی و منشاء کے مطابق استعمال تو کرے، لیکن ان میں گم اور  غرق ہوکر نہ رہ جائے۔ اس کائنات کے اسرار و رُموز سے آگاہی حاصل کرکے اپنے رب کی معرفت اور اپنی شب تاریک سحر تو کرے، اس دنیا کے زینت و تفاخر اوردھوکے میں ڈالنے والی رعنائی و دل کشی کا اسیر ہرگز نہ بنے۔

  • قوموں کا عروج و زوال:

ساتواں موضوع جسے قرآنِ حکیم نے اپنے دلائل و براہین کا مرکز بنایا، وہ قوموں کا عروج و زوال ہے۔ اُممِ سابقہ کے تذکرے، انبیا اور ان کے اصحاب کے قصے، قوموں کے انفرادی و اجتماعی کردار، معاشرتی رویے، آیاتِ الٰہی کی تکذیب، عناد اور مخالفت کے انجام، اہلِ کفر اور اہلِ ایمان کے معرکہ ہاے حق و باطل، ظلم و جبر کی داستانیں، صبرواستقلال اور عزیمت کے واقعات، انسانوں پر انسانوں کی خدائی کے جھوٹے دعوے اور ان کے عبرت ناک انجام___ ان سب کو قرآن نے اس امر پر دلیل بنایا کہ حق و باطل ہمیشہ سے برسرِپیکار رہے ہیں، لیکن غلبہ بالآخر اہلِ حق کو ہی حاصل ہوا۔ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْن (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۳۹) ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔

  • دوسرا یہ کہ اہلِ حق خواہ تھوڑے ہی ہوں، مگر صبرواستقامت کے کوہِ گراں ہوں، تو فتح و نصرت اُن ہی کا مقدر ہے: کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ (البقرہ ۲:۲۴۹) ’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے‘‘۔
  • تیسرا یہ کہ وہ قومیں جو اپنے اجتماعی و انفرادی کردار کی طرف توجہ اور اصلاحِ احوال کی کوشش سے غفلت برتیں، اللہ ان کا ساتھ نہیں دیتا۔
  • چوتھا یہ کہ جس قوم کے اصحابِ ثروت عیش و عشرت اور بدکاریوں میں مبتلا ہوں، جہاں عدل و انصاف کے بجاے ظلم کا بازار گرم ہو، وہ قومیں جو اللہ کے دین سے اعراض اور اس کے رسولوں کی تکذیب کی مجرم ہوں، کبھی سربلند اور معزز نہیں رہ سکتیں۔ ان کا انجام دنیا میں بھی رُسوا کن اور عبرت ناک ہوا،ان کی زندگیاں تلخ سے تلخ تر اور مصائب شدید سے شدید تر ہوئے اور آخرت کی اَبدی ذلت اور دائمی عذاب بھی اُن کا مقدر بنا۔قرآن نے اہلِ حق کو یہ دعوت دی کہ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ (انعام ۶:۱۱) کہ زمین میں عبرت کی نگاہ لیے چلو پھرو اور دیکھو کہ مفسدین و مکذبین کا انجام کیا ہوا؟

چند مزید حقائق

قرآنِ حکیم نے ان چند بنیادی موضوعات پر بار بار، تفصیلی اور مستحکم دلائل دینے کے علاوہ بعض دیگر اُمور اور حقائق کے بارے میں بھی مدلل رہنمائی عطا کی، جن میں:

  •  شیطان کو انسان کا کھلم کھلا دشمن قرار دے کر، اس کی چالوں سے آگاہ و خبردار رہنے کے ساتھ، اس کے نقشِ قدم پر چلنے سے منع فرمایا۔
  •  جنت: اللہ کا وعدہ اور اس کی رضا و خوشنودی کی مظہر ہے۔ یہ ہرمومن کا مقصد، تمنا اور آرزو ہے۔ قرآن نے دلائل سے واضح کیا کہ جنت کا راستہ اس قدر آسان نہیں۔ اس کی قیمت تو اللہ کا تقویٰ، ہواے نفس سے اجتناب، رسولؐ کی کامل اطاعت و اتباع اور قرآن کی پیروی کے ساتھ راہِ حق کی ہر آزمایش میں صبرواستقامت کا مظاہرہ ہے۔ اور جو اس کا اُمیدوار اور خریدار ہو، اسے بطورِ قیمت اپنی جان اور مال اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنا ہوگا۔ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط (التوبۃ ۹:۱۱۱) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں‘‘۔
  • بلاشبہہ قرآنِ حکیم اس امر پر بھی بُرہان ہے کہ اللہ کا دین اس کی نعمت بن کر مکمل ہوچکا ہے۔ اس میں نہ کمی کا اختیار ہے، نہ اضافے کی گنجایش۔ دین اسلام ہی اللہ کا پسندیدہ اور  اس کی بارگاہ میں مقبول ترین ہے۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۹)۔ اس کے علاوہ کوئی اور نظریۂ حیات، فلسفۂ تہذیب و تمدن، اصولِ اخلاق و سیاست، نظامِ معیشت و معاشرت اللہ کے نزدیک غیرمقبول ہیں۔
  • دلائل قرآنی میں ایک اور قوی دلیل معیارِ تقویٰ و فضیلت کے بارے میں ہے۔ اس کے براہین کی روشنی میں قوم، زبان، رنگ، وطن، دولت وقوت، شان و شوکت ہرگز معیارِ فضیلت نہیں۔ اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط (الحجرات ۴۹:۱۳)،درحقیقت اللہ کے نزدیک   تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔ اللہ کی بارگاہ میں معیارِ شرف و عزت فقط ’تقویٰ‘ یعنی خوفِ خدا ہے۔ تقویٰ بہترین توشۂ آخرت، اہلِ دانش کی میراث ہے۔ تقویٰ مسجد کی دیواروں، ماتھے کی محرابوں اور تسبیح کے دانوں میں نہیں، اس کا مرکز تو دل ہے۔
  • قرآن نے اس حقیقت پر بھی بُرہان پیش کی کہ نیکی کا مروّج تصور اور اللہ کا عطا کردہ ضابطہ معروف و منکر مختلف ہیں۔ اللہ کی نگاہ میں مشرق و مغرب کی طرف رُخ کر کے عبادت کرنا، قربانی کا خون اور گوشت اس کی نذر کرنا، مقدس مقامات کی تعمیر، یا مفادِ عامہ کے چند کام انجام دے لینا ہی نیکی نہیں، بلکہ نیکی تو حقوق اللہ کی ادایگی کے ساتھ حقوق العباد کی تکمیل کا نام ہے۔
  • قرآن اس حقیقت پر بھی بُرہان ہے کہ اللہ کے طے کردہ ضابطوں کے مطابق کوئی اچھا یا بُرا عمل خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، ہرگز نظرانداز نہ کیا جائے۔ اللہ جو انسان کے ظاہر وباطن سے آگاہ اور خبردار ہے، انھیں حکم دیتا ہے کہ تمھارا کام تو فقط خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ عمل کرنا ہے۔ اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُوْلُـہٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط (التوبۃ ۹:۱۰۵)’’تم عمل کرو، اللہ اور اس کا رسولؐ اور مومنین سب دیکھیں گے کہ تمھارا طرزِعمل اب کیا رہتاہے‘‘۔

قرآنِ مجید کی ہر آیت کسی نہ کسی انسانی رویے کے حُسن و قبح پر دلیل اور کسی نہ کسی اَبدی اور سچی حقیقت کی غماز ہے۔ یہ سب دلائل و براہین انسان کی ہدایت کا سامان اور قلب ونظر کے اطمینان ، اور دنیا کی فلاح اور عقبیٰ کی نجات کا باعث ہیں۔

قرآن کا مطالبہ

قرآن دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ یہ انسان کی بیش بہا خوش بختی ہے کہ وہ حاملِ قرآن ہے مگر بحیثیت مجموعی اس کی سب سے بڑی بدبختی بھی یہی ہے کہ وہ تارکِ قرآں ہے۔ وہ اس سے غافل ہی نہیں ہے، بلکہ اپنی زندگی کے ہرمعاملے میں اس سے اعراض برتے ہوئے ہے۔ اسی کا نتیجہ اس کی ذلت و رُسوائی، بے سکونی اور بے اطمینانی ہے۔

قرآنِ مجید کی تمام تعلیمات اور دلائل و براہین اپنے مخاطبین سے صرف ایک ہی تقاضا کرتے ہیں، اور وہ ہے ایمان باللہ اور اس کی عطا کردہ تعلیماتِ قرآنی کو تھام لینا۔ گویا اللہ کی ذات، صفات، اختیار وغیرہ پر کامل ایمان کے ساتھ اس کے لازمی تقاضوں پر بھی غیرمتزلزل ایمان کے بعد اعتصام بحبل اللّٰہ… یعنی عقائد کی درستی اور پھر اعمالِ صالح۔ سورۃ العصر بھی ان ہی امور کی تفصیل بیان کرتی ہے کہ ایمان، عملِ صالح اور حق کی وصیت کے ساتھ باہم صبرواستقامت کی تلقین۔ یہ چیزیں اللہ کی رحمت، فضل، اس کی جانب سے صراطِ مستقیم کی رہنمائی اور اس کی رضا کا موجب ہیں۔

قرآنی فلسفۂ حیات میں معاشرتی زندگی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن اس میں اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنانے کا درس دیتا ہے اور اس کی تعلیمات کا مرکزو محور یہ نکتہ ہے کہ اجتماعی زندگی گزارتے ہوئے سعادت اور کامیابی کا انحصار اس امر پر ہے کہ کوئی حق دار محروم نہ ہو اور کسی پر زیادتی اور ظلم نہ ہو۔ قرآن میں بیان کردہ تمام اخلاقی قوانین اسی محورکے گرد گھومتے ہیں۔

غیبت، سوء ظن، تمسخر، بدعہدی، ناپ تول میں کمی، فحش گوئی وغیرہ سے اجتناب کی ہدایت، اہلِ خانہ اور والدین سے حُسنِ سلوک ، عفو و درگزر، تحمل و وقار، پاک بازی، راست بازی ، امانت کا تحفظ، عدل و انصاف کا قیام، ہر فرد کے حقوق کا تحفظ، انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے معاشرے کی صلاح و فلاح، ایک دوسرے کی ضرورتوں کی تکمیل کا احساس ___ہمارے معاشرتی رویوں سے متعلق قرآنی ہدایات کے چند نکات ہیں۔

قرآن کے تمام ہمہ پہلو دلائل و براہین ساری انسانیت اور بالخصوص اہلِ ایمان کو دعوت دے رہے ہیں کہ اگر ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے نہیں، تو وہ ان پر غور کریں، ان سے نصیحت اور رہنمائی حاصل کر کے انھیں اپنی زندگیوں کا مرکز و محور بنائیں۔

قرآن کی پکار ہے:

اے اہلِ ایمان! اگر تم مسلمان کی حقیقی آن بان اور شان کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہو تو نِیست ممکن جز بہ قرآں زیستن… قرآن کے بغیر باعزت زندہ رہنے کا تصور ممکن ہی نہیں۔اور ڈرو میدانِ حشر کے اس لمحے سے جب رسولؐ بارگاہِ الٰہی میں فریاد کناں ہوں گے: یٰـرَبِّ اِِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا (الفرقان ۲۵:۳۰) کہ اے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا اور تب یہ قرآن بھی ہمارے خلاف حجت بن کر اُٹھ کھڑا ہوگا۔

اللہ ربّ العالمین اپنے جن بندوں کو نہایت اہم ذمے داری سپرد کریں‘ خصوصی صلاحیتوں اور اوصاف سے بھی نوازتے ہیں۔ اللہ کے پیغام و احکامات کی تبلیغ اور انسانیت کی رہنمائی کے منصب پر فائز کائنات کی سب سے ارفع و اعلیٰ‘ محترم و بزرگ ہستیوں ‘انبیاے کرام کو ایسے خصائص عطا ہوئے جن کے باعث وہ عام انسانوں سے ممتاز اور منفرد ہوئے۔

سیدالانام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہونے والے بے شمار خصائص میں کچھ تو ایسے ہیں‘ جو کسی دوسرے کو نہیں ملے‘ خواہ وہ انبیاے سابقین ہوں یا آپؐ کی اُمت کے دیگر افراد۔ کچھ خصائص ایسے بھی ہیں جو بحیثیت نبی ٔ آخرالزماں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فضل و افتخار بنے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خصائص و کمالات کے سبب تااَبد حاصل رہنے والی بلندیوں تک تو پہنچے ہی--- بَلَغَ الْعُلٰی بِکَمَالِہٖ--- اُمت کے لیے بھی اس طرح      باعث ِ رحمت ثابت ہوئے کہ ذاتِ اقدس کا ہر حوالہ اپنے معبود اور اپنے امتیوں کے گرد گھومنے لگا۔ محمد ابن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات سے وابستہ ہر امتیاز‘ فخر‘ شان‘ فضیلت و خصوصیت محمدؐ رسول اللہ کی ہستی اور الَّذِیْنَ مَعَہُ تک پھیل گیا۔


  •   ایسوسی ایٹ پروفیسر‘ جی سی یونی ورسٹی ‘ فیصل آباد

کتب سیرت میں سیدالانامؐ کے خصائص و فضائل کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ مگر    فی الحقیقت اِنَّ فَضْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَیْسَ لَہٗ حَدٌّ ---آنحضورعلیہ السلام کے کمالات بے حد وحساب‘ جن کے بیاں سے انسان عاجز ہے۔ سیرت نگاروں نے اِن خصائص و کمالات کی وسعت کو بھی آنحضور علیہ السلام کی ایک منفرد خصوصیت اور امتیازی شان قرار دیا ہے۔

جنابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی واحد ہستی ہیں کہ جن کی حیاتِ مطہرہ کا ہر لمحہ‘ ہرعمل‘ ہر جنبش نگاہ و لب مکمل تفاصیل کے ساتھ محفوظ ہے۔ تاریخ نے اس قدر باریک بین نگاہوں‘احتیاط اور جزئیات کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات‘ خصائل و شمائل کا مطالعہ اور احاطہ کیا ہے کہ یہ بجائے خود حیرت انگیز ہے۔ تاریخ جس نے سرزمینِ عرب کو کبھی بھی درخوراعتنا نہ سمجھا تھا‘ آپؐ کے وجود سے اس قدر اَہم ہوگئی کہ ذاتِ اقدس نہ صرف عرب‘ بلکہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور معتبرحوالہ‘ محور و مرکز بن گئی۔ تاریخ کا یہ سفر شروع ہوا تو وہاں وہاں تک پہنچا‘ جہاں ذاتِ اقدس کا کوئی بھی حوالہ موجود تھا۔ حملۂ اَبرہہ کے موقع پر جدِّرسولؐ کا کردار ہو یا والدِ رسولؐ کی شرافت و نجابت کا فخر‘ اُمّ رسولؐ کی خاندانی عزت و مرتبت کا تذکرہ ہو‘ یا ولادت سے پہلے کے واقعات‘ ظہورِ قدسی کے لمحوں میں کہاں کہاں روشنیاں چمکیں! تہلکے کہاں کہاں مچے! کون کون سے آتش کدے بجھے! کیسے کیسے ہنگامے برپا ہوئے!! یہ سب مناظر تاریخ نے بنظرِغائر دیکھے اور خصائصِ رسالت مآبؐ کے طور پر محفوظ کر لیے۔

رسولِ محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و خصائل پر شاہد اور راوی آپؐ کے پاکیزہ ساتھی تو ہیں ہی! تعجب انگیز گواہی اُن لوگوں کی ہے‘ جو آپؐ کے نہ تو پیروکار تھے‘ نہ دین کے   علم بردار‘ اور نہ آپؐ کے اطاعت گزار! ساری زندگی نظریاتی اختلاف‘ اور تکذیب و عداوت کے مسلسل رویوں کے باوجود عظمت مصطفویؐ اور فضیلت مرتضوی ؐ کے شاہد۔ کبھی شاہِ رُوم کے محل میں‘ کبھی نجاشی کے دربار میں‘ کبھی اپنوں کی مجلس میں اور کبھی اصحابِ رسولؐ کے سامنے!!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی ذاتی خصوصیت أَنَا دَعْوَۃُ أبِیْ اِبْرَاھِیْمَ --- میں اپنے جدِّامجد ابراہیم علیہ السلام کی دُعا ہوں! رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ --- اللہ نے اپنے خلیل کی یہ دعا قبول کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری خصوصیت ’’اُمت پر احسان‘‘ منظرعام پر آئی۔ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری خصوصیت تشریف آوری سے قبل ماقبل الہامی کتب میں آمد کا تذکرہ ‘ فاران کی پہاڑیوں پر روشنیوں کے طلوع کی خبر--- یَأْتِی مِنْ بَعْدِیْ اِسْمُہُ أَحْمَدْ--- کی بشارت ‘ مقدس‘ منور القلب‘ مبارکِ عالم کائنات کے القاب سے تعارف!

سیدالانام ؐ کی چوتھی خصوصیت --- اسمِ مبارک ’’محمدؐ‘‘ اور ’’احمدؐ‘‘ ---  رب العالمین کے اسمِ پاک ’’محمود‘‘ کا حصہ۔ کائنات کا سب سے منفرد‘ ممتاز نام۔ جو نہ پہلے کسی کو عطا ہوا‘ نہ کوئی اِس کا مصداق ٹھہرا‘ نہ بامسمّٰی پیدا ہوا۔ رسولؐ اللہ عالمِ ہست و بود کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ تعریف کی ہوئی ہستی قرار پائے! یہ خصوصیت بھی آپؐ ہی کا امتیاز ہے کہ اہل ایمان کے ناموں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کا لاحقہ ہمیشہ عطا ہونے والی فضیلتوں اور برکتوں کا موجب ہے۔

خیرالانامؐ کی پانچویں ذاتی خصوصیت آپ علیہ السلام کی رسالت کی شہادت ہے۔ جس ذاتِ اقدس کی آمد پر کائنات میں روشنی بکھر گئی‘ قیصروکسریٰ کے محلات کے در و دیوار بجنے لگے‘ فارس کے آتش کدے بجھ گئے‘ منصب رسالت پر فائز کیے جانے کے بعد راستے میں آنے والے شجر عظمتِ رسالتؐ کے سامنے جھک گئے‘ مٹھی میں بند حجررسالت کے گواہ بن کر بول پڑے۔ خود ربّ العالمین نے قسم کھاکر رسالت کی گواہی دی۔ یٰسٓ، وَالْقُرْآنِ الْحَکِیْمِ ‘ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ --- رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر مخالفین کے اعتراضات کی بوچھاڑ ہوئی تو سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھٹی خصوصیت سے نوازا گیا۔ خود بارگاہِ الٰہی سے اعتراضات کا جواب آیا۔  مَا أَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ --- مَا ضَلَّ صَاحِبْکُمْ وَمَا غَوَیٰ --- وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیٰ  --- اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی۔

آقاے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی ساتویں خصوصیت اللہ عزوجل کی طرف سے قرآنِ عظیم میں براہِ راست ذاتی نام سے خطاب کی بجائے صفاتی ناموں کا استعمال ہے۔ یَا اَیُّھَا الْمُزَمِّلْ ، یَا اَیُّھَا الْمُدَّثِّر۔ آپؐ کے یہ صفاتی نام بھی آپؐ کی خصوصیت قرار پائے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آٹھویں خصوصیت یہ کہ قرآنِ حکیم میں اللہ جل جلالہ نے لَعَمْرُکَ، آپؐ کی زندگی کی قسم اُٹھائی‘ آپؐ کی جاے اقامت کی قسم--- لَا اُقْسِمُ بِھٰذَا الْبَلَدِ‘ آپؐ کے عہد کی قسم--- وَالْعَصْرِ--- آپؐ کی ذات سے متعلق مختلف چیزوں کی قسم!

سرورِ کائنات علیہ افضل التحیات کی نویں خصوصیت --- ختمِ نبوت--- کہ آپؐ عمارتِ نبوت کی تکمیل کرنے والے‘ سلسلۂ رسالت کے آخری تاجدار‘ اس کی آخری اینٹ۔ ختم بِی الْنُبُوَّۃ --- لَانَبِیَّ بَعْدِیْ --- تاریخیت‘ کاملیت‘ جامعیت‘ ابدیت‘ عملیت اور عالمیت کی ہمہ گیر خصوصیات کے ساتھ متصف نبوت کے حامل قرار پائے۔ شجروحجرجن کی رسالت کے گواہ‘ جن و انس جن کی اُمت میں شامل--- جن کی شریعت تمام شریعتوں کی ناسخ‘ جو جبرئیل امین اور وحی الٰہی کے آخری مہبط--- جن کا ہر لفظ قانون‘ دین و شریعت‘ جن کا ہر عمل واجب الاتباع‘ جن کا ہر قول حرزِ جاں‘ جن کا ہر فرمان عالی شان‘ علم و حکمت‘ جامعیت و معنویت کا خزینہ--- اہل ایمان کو نہ اختلاف کی اجازت‘ نہ سرتابی کی جرأت‘ نہ انکار کی گنجایش--- وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلَہُ اَمْرًا،  اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ۔ ان کے دامنِ پاک سے وابستگی‘ ان کو معیارِ حق تسلیم کرنا‘ دل و جان سے غیرمشروط اطاعت‘ بے چون و چرا تعمیلِ ارشاد‘ دین و دنیا کی سعادتوں‘ نجات اور بخشش کی ضمانت قرار پائے۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا دسواں شرف --- اُمّی لقب--- رسمی تعلیم‘ تحریر و کتابت سے ناآشنا‘ روایتی مَدْرَسوں اور مُدَرِّسوں سے بے نیاز۔ براہِ راست اللہ ذوالجلال کی زیرنگرانی تربیت یافتہ--- اَدَّ بَنِیْ رَبِّیْ فَاَحْسَنَ تَأْدِیْبِیْ--- مزید یہ کہ اسرارِکائنات‘ علوم و معارف‘ دین و دنیا کی رہنمائی کے لیے اَلَمْ نَشْرَحَ لَکَ صَدْرَکَ کی فضیلت سے بہرہ ور ہوئے۔

اُمت کے معلّم‘ مربی‘ مزکی‘ زبان سے منشاے الٰہی کے مبلغ و شارح‘ عمل سے اُمت کے لیے نمونۂ کامل اور اُسوۂ حسنہ۔ نگاہِ ناز سے دلوں کو جِلا بخشنے‘ تطہیرقلوب‘ تعمیرافکار‘ اور تربیت کردار کرنے والے‘ قول و عمل کو ہم آہنگی عطا کرنے اور زندگی کے تضاد ختم کرنے‘ دل کی کدُورتیں صاف کرنے‘ غلامی کے طوق اُتارنے‘ ذلّت و پستی کی زنجیریں توڑنے اور آگ کے گڑھے سے بچا بچا کر رحمت ِ ایزدی کے سائے تلے لاکھڑا کرنے کی بے شمار خصوصیات بھی آپؐ کی ذاتِ مبارک کے نمایاں پہلو ہیں!

سرورِ کون و مکان صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارھویں خصوصیت ’’اُمت کثیر‘‘ سے نوازا جانا ہے۔ کوہِ صفا پر توحید و رسالت کا اعلان کرنے والے تن تنہا‘ بے یارومددگار‘ جانب ِ منزل اکیلے ہی چلنے والے--- ۲۳ برسوں کے محدود عرصے میں لاکھوں جاں نثاروں کے مقتدیٰ‘ ضعیفوں کے ملجا اور یتیموں کے ماویٰ اور انسانیت کے راہبر و رہنما بن گئے۔ تاریخ نے حجۃ الوداع کے دن شوکت و سطوت کا وہ عظیم الشان منظر بھی دیکھا کہ دائیں بائیں‘ آگے پیچھے سوا لاکھ سے زیادہ پاکیزہ اصحاب‘ جاں نثاری و فداکاری کے جام ہاتھوں میں تھامے کھڑے‘ آقا کے اشارئہ ابرو پر اپنے ماں باپ اور اپنا وجود قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ انسانوں کا اس قدر جمِ غفیر‘ اتنا بڑا سوادِاعظم کہ اُفق نظروں سے غائب ہوگیا۔ وہ مرحلہ آپہنچا--- یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا۔ آپؐ کا یہ فضل کہ آپؐ کی اُمت بڑھتی ہی گئی۔ قیامت تک بڑھتی رہے گی۔ آپؐ اُمتیوں کی کثرت پر فخر کریں گے۔ آپؐ کو یہ خصوصیت بھی عطا ہوئی کہ آپؐ کی اُمت سب سے بڑی‘ آخری اور بہترین--- خَیْرَاُمَّۃٍ --- اور ’’اُمت وسط!‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارھویں نمایاں خصوصیت --- أصْحَابِیْ کَالْنُّجُوْمِ--- ستاروں کی مانند--- کائنات کے سب سے محترم‘ معتبر اور پاکیزہ نفوس آپؐ کے صحابہ قرار پائے۔ انھوں نے صحبت رسولؐ کا فیض پایا۔ دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر اُنھیں چاہا‘ جنت کے بدلے جانوں کے سودے کا عہد نبھایا۔ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاھَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ۔ اللہ اُن سے اور وہ اللہ سے راضی--- رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۔ ایسے پاکیزہ اور قدسی نفوس‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مجسم معجزے‘ تاقیامت اُمت کے لیے ہدایت کے سرچشمے۔ روشنی کے مینار--- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فخر یہ بھی تھا کہ آپؐ کے صحابہ کا تذکرہ‘ آپؐ کے ذکر کے ساتھ قرآن اور ماقبل الہامی کتب میں کیا گیا۔ مَثَلُھُمْ  فِی الْتَّوْرَاۃ وَمَثَلُھُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ۔

خیرالانام کی متعدد خصوصیات میں یہ بھی شامل ہے کہ آپؐ ’’باب رحمت‘‘ اور ’’مفتاح الجنۃ‘‘ ہیں۔ جنت سب سے پہلے آپؐ کے لیے کھولی جائے گی ‘ اور آپؐ کے بعد آپؐ کے اُمتیوں میں سے نفوس مطمئنہ‘  رَاضِیَۃً مَرْضِیَّۃً --- اور ان کے بعد دوسرے داخلے کی اجازت پائیں گے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق و باطل کی وضاحت کرنے‘ انسانیت کو ظلمات سے نکل کر روشنیوں سے ہم کنار کرنے‘ آگ کے گڑھوں سے بچا بچا کر جنت کے دروازوں پر لاکھڑا کرنے‘ اُمت کی بخشش کی سعی ٔ مسلسل اور راتوں کو دعائیں کرتے رہنے کے باعث نَبِیُّ الرَّحْمَۃِ اور نَبِیُّ الْتَوْبَۃِ کے امتیازات و خصائص سے بھی متصف ہوئے!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ذُوْالقِبْلَتَیْنِ--- ساری اُمتوں کی مشترکہ میراث--- صَاحِبِ خَیْرُالْقُرُوْنِ --- زمانوں میں سب سے بہتر زمانے والے۔ عرب ہی نہیں کائنات کے سب سے محترم‘ بزرگ اور اشرف خاندان‘ خوب صورت و نیک سیرت مرد و عورت کے گھر ولادت کے باعث۔ اَشْرَفُ النَّاسِ ، اللہ کے بعد کائنات کی سب سے مکرم و محترم ہستی--- اَکْرَمُ الْخَلْقِ کے خصائصِ ذاتی سے بھی مشرف ہوئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود بُرھَانٌ و  بَیِّنَۃٌ کے القاب سے متصف‘ حیاتِ مبارکہ حق کی روشن و مستحکم دلیل‘ آپؐ صاحب ِ خلقِ عظیم--- جس کی شہادت قرآن نے --- اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ--- حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے قبل از نبوت کے اوصافِ حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کے ذکرسے--- اِنَّکَ لَتَصِلُ الْرَّحِمَ--- آپؐ صلۂ رحمی کرتے ہیں‘ وَتَصْدُقْ الْحَدِیْثَ--- سچی بات کہتے ہیں‘  وَتَحْمِلُ الْکَلَّ--- کمزور کا بوجھ اُٹھاتے ہیں‘ وَتُکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ---ضرورت مند کی حاجت روائی کرتے ہیں‘ وَتَقْرِیْ الْضَّیْفَ ---مہمان نوازی کرتے ہیں‘ وَتْعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ--- اور حق کی راہ میں مشکلات پر مددگار بنتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے --- کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰن--- کے ذریعے دی۔ اور یہ صفات بھی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خصائص کا حصہ قرار پائیں!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کے مونس و غم خوار‘ اس کے درد اور دُکھ میں اپنی جان گھلانے کی صفت سے متصف--- لَعَلَّکَ بِاخِعٌ نَفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِھِمْ--- راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اُمت کی ہدایت‘ بخشش و مغفرت اور نجات کی مسلسل دُعائیں‘ قدمِ مبارک پر ورَم اور    سینۂ اطہر سے اُبلتی ہوئی ہانڈی کی طرح نکلنے والی آوازوں کے ساتھ--- خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص کا حصہ ہیں۔

رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر مرضی ٔ مولا‘ پیمانۂ محبت خدا--- اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ --- معیار صراطِ مستقیم--- وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا--- اپنے پر ایمان لانے والوں---  فَالَّذِیْنَ آمَنُوْا بِہٖ‘ اپنی توقیر کرنے والوں--- وَعَزَّرُوْہُ ،اپنی مدد کرنے والوں--- وَنَصَرُوْہُ، اپنے لائے ہوئے نورِ ہدایت کا کامل اتباع کرنے والوں---  وَاتَّبَعُوْا الْنُّوْرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗ کے لیے نجات و کامیابی کی ضمانت --- اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک منفرد خصوصیت‘ شان اور کمال یہ بھی ہے کہ آپؐ کو جو نسخۂ کیمیا عطا ہوا۔ ہر شک‘ شبہے‘ تحریف اور ملاوٹ سے پاک۔ لَارَیْبَ فِیْہِ--- دائیں بائیں‘ آگے پیچھے‘ باطل کے حملوں سے محفوظ--- لَایَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ۔

جملہ الہامی تعلیمات کا مجموعہ‘ علوم و معارف کا خزینہ‘ حکمت و موعظت اور قلب ونظر کی شفا و رحمت کا سرچشمہ--- قرآن حکیم--- زندہ و جاوید‘ پایندہ و تابندہ معجزہ۔ آپؐ کا یہ امتیاز و خصوصیت بھی کہ آپؐ ہی اس کی تبیین‘ تشریح اور توضیح کے مختار قرار پائے!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرھویں خصوصیت کبریٰ --- اُوْتِیْتُ جَوَامَعَ الْکَلِمِ۔ فصاحت و بلاغت کے مرکز‘ شعروخطابت کے ماحول میں زبردست قدرتِ کلام‘ بے پناہ فصاحت و بلاغت--- أنَا أَفْصَحُ الْعَرَبِ--- بلندپایہ خطیب‘ ماہرعالم نفسیات‘ لوگوں کے مزاج اور طبائع سے آشنا۔ زبردست اور دل نشیں طرزِ کلام‘ موثر اندازِ تخاطب کی حامل ہستی کے بے مثل ابلاغ کے عکاس۔ آپؐ کے ’’جوامع الکلم‘‘ --- پاکیزہ اور مختصر جملے‘ لفظی‘ ادبی اور صوتی حسن کے شاہکار‘ وسعت ِ معانی کے نمونے‘ حیاتِ انسانی کے فلسفے اور حقائق کا واضح بیاں‘ مسائل‘ اُلجھنوں اور عُقدوں کا حل چند اشاروں میں--- کوزے میں دریا--- تاریخ انگشت بدنداں ‘ عقل محو تماشاے لب بام--- کہ یہ سب اُس کی زباں سے ادا ہوئے‘ جو لکھنے پڑھنے کی حاجت اور عالموں کی صحبت سے بے نیاز تھا۔ مَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتَابِ وَلَا تَخُطُّہُ بِیْمِیْنِکَ۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ پاکیزہ جملے زبانِ اطہر سے نکلتے‘ سماعتوں سے ٹکراتے اور دلوں میں اُترجاتے۔ جسم ہی نہیں‘ قلب ونظر فتح ہوتے چلے جاتے۔ یک بیک کایا پلٹتی‘ راستی و ہدایت کے دَر کھلتے‘ صراطِ مستقیم آشکار ہوتا چلا جاتا۔ سننے والا بے اختیار پکار اُٹھتا--- اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدًا عبدہٗ ورسولہٗ!!

سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور امتیازی خصوصیت نُصِرْتُ بِالْرُّعْبِ---   بے مثال رعب و دبدبہ‘ شان و شوکت‘قوت و سطوت‘ جلال و جمال سے آپؐ کی مدد--- الْنَّصْرُ قَادِمُہُ - وَالْفَتْحُ خَادِمُہُ ۔ نصرت و فتح ہمیشہ آپؐ کی خدمت میں موجود---! غلبہ ایسا کہ فتحِ مکّہ کے روز سارے عرب کے سرنگوں۔ نصرت ایسی کہ کَمْ مِنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ       فِئَۃً کَثِیْرَۃً  بِاِذْنِ اللّٰہِ --- شان و شوکت ایسی کہ فتحِ مکہ کی شب تاحدِّنظر پھیلا ہوا لشکرِاسلام۔ لہراتے ہوئے رنگ برنگ ہزاروں عَلَم اور خیموں میں روشن چراغ--- جس سے کفر لرزہ براندام!!

سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور خصوصیت --- أَنَا رَحْمَۃٌ مُھْدَاۃٌ --- انسانیت کے لیے بطور ہدیہ عطا کی گئی‘ دنیا و آخرت میں سراپا رحمت۔ وَمَا اَرْسَلْنَکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ---! پیکرعفو و درگزر‘ مجسم رأفت و رحمت‘ اُمت کی ہدایت و مغفرت پر حریص۔ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ‘ اس کی پریشانیوں پر کُڑھنے اور تڑپنے والے--- عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ، اپنے پر ایمان لانے والوں--- بِالْمُؤْمِنِیْنَ کے لیے رَوء فٌ رَحِیْمٌ---!! آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی انھی شفقتوں نے پروانوں‘ فرزانوں اور مستانوں کا ہجوم آپؐ کے ارد گرد جمع کر دیا۔ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَاْ نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ--- اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگ یوں دیوانہ وار اپنا تن ‘من‘ دھن نثار نہ کرتے۔

آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائصِ ذاتی میں یہ بھی شامل ہے کہ تکلم فرماتے‘ تو دل کے اندھیرے دُور ہوتے‘ تبسم فرماتے تو گھر روشن ہوجاتے‘ دل اس قدر نرم کہ زندہ گاڑی جانے والی بچیوں کے ذکر پر رقت طاری ہوگئی‘ ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوگئی۔ ستونِ حنانہ جدائی برداشت نہ کر سکا‘ رو دیا تو تڑپ اُٹھے‘ خطبہ موقوف کر دیا۔ اُونٹ نے مالک کے ظلم کا رونا رویا‘ تو دل بھر آیا‘ تھیلے میں تڑپتے پرندوں کی آوازسنی تو رہائی کا حکم دیا۔ معصوم حسنین کریمین دورانِ نماز پشت مبارک پر چڑھ گئے‘ تو سجدہ طویل کر دیا۔

ساری زمیں کو آپؐ کے اور اُمت کے لیے سجدۂ گاہ اور پاکیزہ بنا دیا جانا--- جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْض مَسْجِدًا وَطُھُوْرًا--- غنائم کاحلال کیا جانا--- اُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ۔ آپؐ کی ازواجِ مطہرات سے نکاح کی حُرمت‘ بیٹیوں پر سوکن لانے کی ممانعت‘ اپنے اہل بیت ؓ کے لیے زکوٰۃ سے دست برداری‘ مکہ و مدینہ کو سارے شہروں اورآپؐ کی مسجد کو تمام مساجد پر فضلیت‘ جسدِاطہر کا معطّرپسینہ‘ موئے مبارک کی برکتیں‘ انگلیوں سے پانی کی روانی‘ لعابِ دہن سے امراض کا علاج اور کھانے کی فراوانی۔ شق قمر اور شق صدر کے حیرت انگیز واقعات‘ عہدِماضی کی خبریں‘ آنے والے واقعات کی پیش گوئیاں‘ نمازِ جمعہ‘ اذان‘ اقامت‘ لیلۃ القدر اور ماہِ رمضان۔ دورانِ نماز ’’آمین‘‘، شعارِ اسلام--- یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی نمایاں امتیازات اور ذاتِ اقدس کے منفرد خصائص ہیں۔

شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں ’’شفاعت‘‘ اُمت کے لیے بہت بڑا تحفہ اور آنجناب علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کی بے مثال خصوصیت ہے۔ روزِ محشرجب جلالِ الٰہی کا آفتاب جوبن پر اور لِمَنِ الْمُلْکَ الْیَوْمَ ،  لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارْ کی صدا ہر سمت گونج رہی ہوگی۔ عرشِ الٰہی کے سائے اور آقاے دوجہاںؐ کے مقامِ محمود اور حوضِ کوثر کے سوا کہیں جاے اماں نہ ہوگی۔ نفسانفسی کا عالم‘ انسانوں کے جھکے ہوئے سر‘ اُمت محمدی علیٰ صاحبھا الصلوات والتسلیمات کی طرح دیگر اُمتیں شفاعت ِ محمدیؐ سے فیض یاب ہونے کی اُمیدوار اور بے قرار۔ ایسے میں ایک صدا اُبھرے گی‘ صاحب جلال و جبروت رب عرش و اَرض کی رحمت بھری آواز--- مژدۂ جانفزا‘ پیامِ امن و سلامتی--- یَامُحَمَّدْ! اِرْفَعْ رَأسَکَ۔ اے محمدؐ! سراُٹھایئے!  قُلْ تُسْمَعْ --- کہتے جایئے‘ آپ کی سنی جائے گی‘ اِسْئَلْ تُعْطَ --- سوال کرتے جایئے‘ آپ کا من چاہا ملتا جائے گا‘ اِشْفَعْ تُشَفَّعْ--- شفاعت کیجیے ‘آپؐ کی شفاعت قبول کی جائے گی!!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور خصوصیت ’’کمالِ عبدیت‘‘ ہے۔ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلٰی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی--- شبِ معراج مسجدحرام سے مسجدِاقصٰی کا سفر پلک جھپکتے میں‘ آدم علیہ السلام سے عیسٰی علیہ السلام تک انبیا و رسُل کی امامت کی سرفرازی‘ براق کی سواری‘ جنت ودوزخ کا مشاہدہ‘ آسمان پر انبیا سے ملاقات‘ سدرۃ المنتٰہی پر دو قوس--- قَابَ قَوْسَیْنِ --- یا اس سے بھی کم فاصلے---       أَوْ اَدْنٰی۔ پر اپنے رب کے ساتھ ہم کلامی کا شرف آپؐ کے خصائص کا حصہ ہیں!!

خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خصوصیت بھی نمایاں ہے کہ آپؐ کا دین‘ مکمل ترین--- الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ--- آپؐ پر الٰہی نعمت ِ عظمیٰ--- راہِ مستقیم--- کا اتمام--- اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ، آپؐ کا دین اللہ کا پسندیدہ و محبوب دین ۔ رَضِیْتُ لَکَمْ الْاِسْلَامَ دَیْنًا۔ اور اس کی بارگاہ میں مقبول۔ وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَالْاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ۔ آپؐ کا دین آسان ترین دین ---  الْدِّیْنُ یُسْرٌ، آپؐ کا دین غالب ترین دین۔  جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ--- بلاشبہہ آپؐ کے وجودِ پاک سے حق غالب ہوا اور باطل مٹ گیا---

لاکھ ستارے ہر طرف ظلمت ِ شب جہاں جہاں

اِک طلوعِ آفتاب ، دشت و چمن سحرسحر

سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ آپؐ کے لائے ہوئے دین میں نہ کسی کو کمی کا اختیار ہے‘ نہ اضافے کی اجازت‘ نہ تغییرو تبدیل کی گنجایش‘ نہ پیوندکاری کی ضرورت--- اس میں ادخُلُوْا فِی الْسِلْمَ کَآفَّۃً کا پیغام‘ جَاھِدُوْا فِیْ اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ کا حکم‘ اعلاے کلمۃ اللہ کی جدوجہد کی رہنمائی--- لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَائ، دشمنانِ حق کی مکمل سرکوبی اور فتنہ و فساد کے مکمل خاتمے کی ہدایت---  قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃً۔ غلبۂ حق کی تکمیل منزل کی جانب بڑھتے رہنے کا فرض۔  وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلَّہُ لِلّٰہِ --- وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا --- اتحاد و اتفاق اُمت کی کلیدِ کامرانی‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا نسخہ کیمیا‘ یہ سب دین اسلام کے امتیازات اور اس کے جامع و کامل ہونے کے    ہمہ پہلو دلائل ہیں!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور باکمال خصوصیت و امتیاز‘ اُمت کے لیے باعث ِ فخر--- کہ بّروبحر‘ زمین و آسمان‘ انفس و آفاق میں ظاہروباطن‘ جلی و خفی‘ صبح و شام ‘ہر جگہ‘ ہر وقت‘ ہر صورت آپؐ کا ذکر کائنات کے ہر ذی نفس سے بلندتر اور عام ہے۔ یہ مظہر ہے آپؐ کی شانِ رَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ کا۔ ارشاد الٰہی ہے: اِذَا ذُکِرْتَ ذُکِرْتَ مَعْیِ۔ جب بھی مجھے یاد کیا‘ میرا نام لیا جائے گا۔ آپ علیہ السلام کا ذکر بھی ہوگا۔ قرآن کی تلاوت ہو یا اذان‘کے نغمے‘ انسانوں کی مجلسیں ہوں یا فرشتوں کی محفلیں۔ دُعا کے لیے اُٹھے ہاتھ ہوں یا مناجات کے لیے تڑپتے ہونٹ‘ بے قرار سجدے ہوں یا خشوع و خضوع کے مظہر رکوع‘ تسبیح کے دانے ہوںیا انگلیوں کی پوریں--- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاکیزہ ذکر حرزِجاں اور باعث سکون و اطمینان‘ راحت قلب و نظر بنا رہے گا۔

سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور امتیاز آپؐ کا بے مثال ادب و احترام--- اُمت کو اس کی تلقین‘ خصوصی احتیاط کی ہدایت --- لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتِکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ۔رسول محترمؐ کی آواز سے اپنی آواز اُونچی نہ کرو۔ لاَ تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِبَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ۔ بارگاہِ رسالت مآب میں ایک دوسرے کی طرح بلند آواز نہ کرو۔ پاسِ ادب ہر لمحہ ملحوظِ خاطر رہے۔ شانِ عالی مرتبت کبھی ذہن سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ کوئی ایسا قدم نہ اُٹھے‘ نہ زباں سے حرف نکلے‘ نہ اطاعت میں کوئی کوتاہی ہوجائے۔ رسالت مآب کی مرضی اور حکم پر تسلیم دل و جاں کے سوا کچھ نہ ظاہر ہو‘ انکار کی تو مجال ہی نہیں‘ کبیدگی ٔ خاطر بھی گوارا نہیں! ذرا سی بے احتیاطی کی اتنی بڑی سزا کہ تصور سے ماورا--- اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ۔ دنیا بھی خراب اور عقبیٰ بھی تباہ!!

سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی خصوصیت‘ امتیاز و کمال کہ جس کے ذکر کے بغیر ہمارا اظہارِ عقیدت نامکمل رہے گا۔ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ بارگاہِ ربّ العالمین سے حضورِانور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تاقیامت درود و سلام کی بارش۔ فرشتوں کو اس کی ہدایت اور اہل ایمان کو بے پناہ دنیوی و اخروی فضیلتوں‘ برکتوں اور رحمتوں کے تحفے کے ساتھ حکم۔ یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا۔

آیئے! بارگاہِ سیدالانام علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام میں اپنے اظہار عقیدت و محبت کا اختتام لاکھوں درود اور کروڑوں سلام سے کریں کہ جو خود یتیم تھا‘ یتیموں کے حقوق کا محافظ اور ان کا سہارا بنا‘ خود مسکین تھا‘ دُنیا بھر کے مسکینوں کا آسرا ٹھہرا‘ خود مادّی سہاروں سے محروم تھا‘ کائنات کے مجبوروں‘ مقہوروں اور مظلوموں کا ملجا و ماویٰ بنا‘ خطائوں سے پاک تھا‘ اُمت کی لغزشوں‘ خطائوں اور گناہوں کا طلب گار ہوا۔ سارے جہاں کے لیے رحمت و شفقت کا سائبان بنا۔ جس کے قبضے میں دنیا جہان کے خزانوں کی کنجیاں‘ مگر اَلْفَقْرُ فَخْرِی پر نازاں۔ جو اپنے وجود‘ خصائل و شمائل‘ خصائص و امتیازات کے سبب اولین و آخرین۔ کائنات کے ہر ذی نفس کے لیے وجہِ افتخار اور باعث ِ نجات!!

اللھم صلی وسلم علی النبی الأمّی وعلٰی آلٰہٖ وأصحابہ وبارک وَسَلِّم!!

آقاے دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے تمام پہلو اور زاویے حیرت انگیز اور  بے مثل ہیں۔ ایسا ہی ایک یگانۂ روزگار پہلو اور انوکھا معجزہ ہے: انسانی دلوں اور ذہنوں کی تسخیر___! انسان کائنات کی سب سے پُراسرار‘ پیچیدہ اور حیرت انگیز چیز ہے‘ جسے آنحضورعلیہ السلام نے بیک نظر مسخرکرلیا۔ یہ تسخیر جسموں کی نہیں‘ دلوں کی تھی۔ جس نے ایک بار ذاتِ گرامی کو دیکھا‘ دیوانہ ہوگیا۔ ایک بار سنا‘ فریفتہ و شیدا ہوگیا۔ نبیؐ کے فیضانِ نظر نے ایسا انقلاب برپا کر دیا کہ عقل و فکر‘ شعوروآگاہی‘ سب یکسر بدل کر رہ گئے۔ ان پاکیزہ نفوس نے نور کے اس نیروتاباں منارہ سے روشنی لے کر اپنے مَن میں اُجالے کیے۔ انھیں دیکھا‘ سنا تو ہر حرف‘ ہر لمحہ اور ہر جنبش کو اسوۂ عمل بنا لیا۔ لمحوں میں ایسا انقلاب برپا ہوا کہ اونٹوں کے چرانے والے دنیا میں تہذیب و تمدن کی شمعیں روشن کرنے لگے۔ بات بات پر تلوار نکالنے ‘ خون کے دریا بہانے اور صدیوں کی دشمنیاں پالنے والے‘ اب  سمعنا واطعنا--- ہم نے سنا اور مان لیا کا اعلان کرنے لگے۔ اپنے حسب ونسب پر فخر و غرور کرنے‘ شان و شوکت پر اِترانے والے اُس ذاتِ والاتبار پر فداہ ابی وامی--- اپنے ماں باپ قربان کرنے لگے۔ پتھروں کی طرح سخت دل خوفِ الٰہی سے معمور ہوگئے۔ اپنی خاطر مٹنے والے دوسروں کے لیے قربانی و ایثار کے خوگر ہوگئے۔ کفرونفاق کی جگہ صدق و صفا‘ خلوص و وفا نے لے لی۔ حرص وہوس کے بجائے فقروغنا‘ خونریزی اور سفاکی کے بجائے اخوت و محبت کا چلن ہوا۔ دنیا کی راحتوں پر مر مٹنے والے آخرت کی نعمتوںکے متمنی اور مشتاق ہوگئے۔

یقینا یہ معجزہ ہی تھا--- ایک تاابد زندۂ و جاوید رہنے والا معجزہ--- کہ بیک نظر‘ بیک لمحہ اتنا بڑا انقلاب برپا ہوا کہ چند ہی سالوں میں حجۃ الوداع تک ایک لاکھ ۲۴ ہزار سے بھی زائد ایسے پاکیزہ نفوس کی جماعت وجود میں آگئی جن میں سے ہر ایک کی حیات--- ہر ایک کا کردار--- سرکارِ دوجہاں کی حیاتِ مقدسہ کا عکس تھا۔ اعلیٰ اخلاق‘ عفت و پاک بازی‘ حق گوئی و بے باکی‘ دیانت و امانت --- عدل و انصاف‘ گفتار و کردار‘ توکل و استغنا‘ شجاعت و استقامت‘ قربانی و ایثار‘ جاں فروشی و جانثاری کے روشن ستارے دشت وچمن میں سحر کرنے لگے۔ روشنی و ہدایت کے یہ ستارے قیامت تک آنے والوں کے راہنما و راہبر قرار پائے۔ انھی کے بارے میں تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أصْحَابی کالنُّجومُ‘ میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں--- بِأیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ‘ ان میں سے جسے بھی تم پیشوا بنا لو‘ ہدایت پالوگے۔ اپنے صحابہؓ کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو تنبیہہ کی:  اللّٰہ اللّٰہ فِی اَصْحَابِی‘ میرے اصحاب کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ لاَ تَتَّخِذُوْھُمْ مِنْم بَعْدِیْ غَرَضًا ‘ میرے بعد اُنھیں طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنانا۔ اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ مجھ سے محبت کا معیار میرے صحابہؓ سے بھی محبت ہے۔ ان سے نفرت و بُغض مجھ سے نفرت و بُغض ہے۔ انھیں ایذا دینا مجھے ایذا دینے کے مصداق ہے‘ اور مجھے ایذا دینا اللہ کو ایذا دینا ہے۔

یہ پاکیزہ نفوس اور مقدس ہستیاں وہ ہیں جنھیں قرآنِ حکیم نے بڑی عظمت و مرتبت سے نوازا ہے۔ نہ صرف قرآن میں بلکہ ان کا ذکر اپنے آقا و مولا کے ساتھ تورات و انجیل میں بھی بیان ہوا ہے۔ مَثَلُھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ۔

قرآنِ مجید میں اصحاب نبیؐ کی عظمت و بلند مرتبت کا جابجا ذکر موجود ہے۔ سورئہ فاطر میں اللہ نے انھیں اپنے منتخب بندے اور کتاب کے وارث قرار دے کر خصوصی سلام بھیجا:  وَسَلاَمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی---  اور فرمایا: اَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا--- دراصل یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی دعوتِ حق سنی تو فوراً اُسے قبول کیا اور اس کی خاطر ہر طرح کا ستم اور ظلم سہا۔

قرآن نے خود ان صحابہؓ کا قول بیان کیا: رَبَّنَا ٓاِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنادِیْ لِلاِْیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا (آل عمران ۳:۱۹۳) ۔اللہ کریم نے ان کے لیے اپنے فضل اور رضا کا اعلان کیا جنھوں نے راہِ حق میں اپنے گھر اور مال لٹا دیے---  لِلْفُقَرَآئِ الْمُھَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوا مِنْ دِیَارِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ ورِضْوَاناً (الحشر ۵۹:۸)۔ قرآن نے انھیں دین حق کی راہ پر ’’السابقون الاولون‘‘ قرار دیا اور فرمایا:  رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ ورَضُوْا عَنْہُ --- کہ اللہ بھی اُن سے راضی ہوا اور یہ بھی اپنے مالک و آقا کی نعمتوں اور عنایات پر راضی ہو گئے۔ اور ان کے لیے جنت کا انعام اور وہاں ہمیشہ قیام کا وعدہ فرمایا۔ اور اسے ’’اَلْفَوْزُالْعَظِیْمُ‘‘ یعنی بڑی کامیابی قرار دیا (توبہ ۹: ۱۰۰)۔ قرآن مجید نے ان صحابہؓ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا:  رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ  (الاحزاب ۳۳:۲۳)’’یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا‘‘۔

قرآن نے انھیں خیر اُمت اور اُمت وسط قرار دے کر نیکی پھیلانے اور بدی کی بیخ کنی کا منصب سونپا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ قیامت کے روز‘ جب لوگ رسوائی کے خوف سے پریشان ہوں گے‘ اللہ انھیں رسوائی سے بچائے گا۔  یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ج (التحریم ۶۶:۸)

قرآن کریم نے ان اصحاب نبی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقام و مرتبہ کے علاوہ ان کی صفات بھی بیان فرمائیں۔ جن کی وجہ سے انھیں نبی کی قربت اور اپنے مالک و آقا کی رضا و مغفرت اور اجرِعظیم‘ رزقِ کریم اور فوزِ عظیم کی بشارتیں عطا ہوئیں۔ قرآن نے انھیں اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤمِنُوْنَ--- حقیقی مومن --- الصادقون--- سچے لوگ---  الراشدون --- ہدایت یافتہ --- المفلحون --- فلاح یافتہ --- الفائزون--- کامیاب قرار دیا۔ اس لیے کہ انھوں نے ایمان کو اپنے دلوں میں جگہ دی۔ کفر‘ فسق اور آقا کی نافرمانی سے قولی و عملی کنارہ کشی اختیار کی۔ یہ لوگ گناہِ کبیرہ-- الفواحش--- یعنی فحش باتوں اور برے اعمال سے اجتناب کرتے رہے اور جب غصہ میں ہوتے تو معاف کر دیتے۔  وَاِذَا  مَا  غَضِبُوْاھُمْ یَغْفِرُوْنَ (الشوریٰ ۴۲:۳۷)--- یہ لوگ اپنی خواہشات اور ضروریاتِ کو قربان کر کے اپنے ساتھیوں کی ضروریات کو ترجیح دینے والے تھے۔  یُؤثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌط (الحشر۵۹:۹)۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ساتھی قرآن کی نظر میں  رُحْمَآئُ بَیْنَھُمْ --- حلقۂ یاراں میں بریشم کی طرح نرم‘ اور اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفّارِ--- رزمِ حق و باطل میں فولاد--- یعنی دشمن کے لیے سخت اور دوست کے لیے نرم۔ شب و روز اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز‘ رُکَّعًا سُجَّدًا--- ایک اور جگہ یوں بیان فرمایا:  یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا ---کہ یہ لوگ اپنی راتیں قیام و سجود میں گزارتے ہیں اور ہر دم  یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ ورِضْوَاناً  --- اپنے پروردگار کی رضا اور فضل کے طلب گار رہتے ہیں۔

سورئہ السجدہ میں اس بات کو اس طرح بیان کیا گیا کہ تَتَجَا فٰی جُنُوبُھْمْ عَنِ المَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا --- کہ اپنے رب کے خوف اور مغفرت کی امید میں ان کے پہلو بستروں سے علیحدہ رہتے ہیں۔ ان کی ایک صفت  وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ--- کہ اللہ کے عطا کردہ مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں‘ بھی بیان کی گئی۔قرآن نے ہدایت کے ان میناروں کی کچھ اور صفات بیان کیں۔ ’’یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا--- یہ زمین پر آہستہ آہستہ چلتے ہیں‘ یعنی فخروتکبر سے پاک چال--- اور اِذَا  ٓ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا--- جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی اور اِسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں۔

اصحاب نبیؐ اپنے رب پر ایمان لائے‘ اپنے آقا و مولا پر فدا و نثار ہوئے‘ اُن کے فرمان پر سرتسلیم خم کیا اور اُن کے ہر قول و عمل کے مطابق اپنی ساری زندگی بدل کر رکھ دی۔ اپنے مولا کے حکم پر جان و مال سے جہاد کیا اور راہِ خدا میں ہجرت بھی کی۔ یہ وہ لوگ تھے--- اَلَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ (انفال ۸:۲)‘ جب اللہ کا ذکر ہوتا تو اُن کے دل خوف زدہ ہو جاتے۔ وَاِذا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا (۸:۲۰)‘  اور جب اُن کے سامنے رب کی آیات تلاوت کی جاتیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا۔ یہ وہ لوگ تھے--- کہ اپنے آقا و مولا کے فرمان کو نہیں ٹالا‘ نہ لیت و لعل سے کام لیا۔ نہ سوچ بچار میں پڑے اور نہ کسی مصلحت کا شکار ہوئے۔ جونہی اللہ اور رسولؐ کا حکم پہنچا‘ رضا معلوم ہوئی‘ اپنا سب کچھ مطیع بنا دیا۔

اِن صحابہؓ کی حیاتِ طیبہ کے یہ نقوش قرآن عظیم کے صفحات پر تاابد روشن رہیں گے‘ اور قیامت تک انسانیت کے لیے راہنما اور ہدایت کا مرکز و منبع رہیں گے۔ اُمت مسلمہ آج بھی اور ہر دور میں انھی سے ایمان کا نور حاصل کرتی رہے گی۔ مگر محض تذکروں--- یادوں اور باتوں سے نہیں--- اسی طرزِحیات ‘ اِسی اسوئہ عمل کو اپنا کر --- انھی مقدس ہستیوں کے نقشِ قدم پر چل کر --- !

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

شوال کا چاند ہلال عید بن کر ہر آنگن میں اُتر رہا ہے۔ اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہُ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ،   اے اللہ! اس چاندکو ہمارے لیے امن و سلامتی‘ خوش حالی و فراخی کا موجب اور ایمان میں اضافے اور استقامت کا باعث بنا--- وَالْسَّلاَمَۃِ وَالْاِسْلاَمِ --- اور سلامتی ٔ روح و جسم‘ فکروشعور اور اطاعت و فرماں برداری‘ تسلیم و رضا کا پیغام بر بنا۔ وَالْتَّوْفِیْقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی--- اور اس چاند کے ذریعے طلوع ہونے اور شروع ہونے والے مہینے میں اپنی رضا و پسند کے کاموں کی توفیق سے نواز۔ اے ہلال عید!  رَبَّنَا وَرَبُّکَ اللّٰہُ --- ہمارا اور تمھارا آقا‘ پروردگار اور پالنہار‘ مالک و مختار صاحب ِ شان و شوکت اللہ جل جلالہ ہی ہے!

عیدالفطر کی روشن صبح طلوع ہو رہی ہے۔ اہل ایمان کو مبارک ہو!

عیدالفطر--- اللہ کی عظمت و کبریائی کے اعلان و اظہار کا دن ہے!  لِتُکَبِّرُوْا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدَاکُمْ--- رمضان کے مہینے میں ہدایت کی شاہراہِ مستقیم پر چلنے کے بے شمار مواقع عطا کرنے والے    اللہ کے احسانِ عظیم کا بس ایک ہی تقاضا--- ہر شاہراہ پر ‘ ہر گلی محلے‘ بازارو دکان‘ ہر گھر اور مکان میں--- زمین کے ہر کونے اور ہر گوشے میں اعلانِ عام---  اللّٰہُ اَکْبَرْ--- اللہ ہی بڑا ہے۔ اللّٰہُ اَکْبَرْ---   اللہ ہی بڑا ہے--- لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ --- اس کے سوا کوئی عبادت و بندگی ‘ اطاعت و فرماں برداری‘    سجدہ و رکوع‘ حمدوثنا‘ عزت و عظمت‘ شان و شوکت‘ غلبہ و اقتدار‘ حکم و اختیار کا سزاوار نہیں---!!      وَاللّٰہُ اَکْبَرْ--- فی الحقیقت وہی بڑا ہے۔ سب سے بڑا--- کائنات کا ذرہ ذرہ ‘بروبحر‘ شجروحجر‘ شمس و قمر‘ زمین و آسماں‘ گلستان و بیاباں--- سب زبانِ حال و قال سے یہی گواہی دے رہے ہیں کہ وہی --- صرف وہی--- سب سے بڑا ہے۔ اللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ--- اور سب عظمتیں‘ تعریفیں‘ بزرگیاں اُسی کے لیے ہیں!!

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ--- بندئہ مومن سرِنیاز خم کر دے اپنے حمدوثنا کے سزاوار رب کے حضور! اس کی اَن گنت بخششوں اور عطائوں کے اظہار شکر کے لیے! تسبیح--- تسبیح کے دانوں پر بھی--- اور دشمنانِ حق کے ٹھکانوں پر بھی--- نفس کے بت خانوں اور شیطان کے آستانوں پر بھی--- کفر کے قانون‘ معاشرے کے رسوم و رواج‘بے حیائی کے مراکز‘ ظلم وجبر کے ایوانوں پر بھی--- حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ--- فتنوں کی مکمل سرکوبی تک!

عیدالفطر--- اہل ایمان کی بخشش کا دن ہے! ارشاد نبویؐ ہے جب لوگ عید کی نماز پڑھ چکتے ہیں تو ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے: اَلَا اِنَّ رَبَّکُم قَدْ غَفَرَ لَکُمْ--- سنو لوگو! تمھارے رب نے تمھیں بخش دیا ہے۔ فَارْجِعُوْا رَاشِدِیْنَ اِلٰی رِحَالِکُمْ--- پس اب کامیاب و کامران اپنے گھروں کو لوٹ جائو۔ فَھُوَ یَوْمَ الْجَائِزَۃِ--- یہ دن تمھارے لیے انعام کا دن ہے! اِس دن کو فرشتوں کی دنیا--- یعنی آسمان--- میں انعام کا دن کہا جاتا ہے۔

عیدالفطر--- اہل ایمان کی یک جہتی اور اتحاد کا مظہر ہے۔ سب اہل اسلام روشن صبح کے نکھرے اُجالوں میں اُجلے کپڑوں اور اُجلے دامن کے ساتھ--- ایک ہی نغمہ و ترانۂ عظمت ِ الٰہی گاتے--- کھلے میدانوں میں ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر‘ ایک ہی مالک کے حضور سجدئہ شکر و امتنان بجا لاتے ہیں۔ کشادہ سینوں میں محبت و اخوت کے زمزمے رواں‘ نفرتیں دُور‘ دشمنیاں ختم اور اخلاص و محبت کا اظہار‘ مصافحے‘معانقے‘ مبارکباد--- یہ سب اُمت کے جسد واحد اور بُنیانٌ مَرْصُوْص ہی کی تو تصویریں ہیں!!

عیدالفطر --- اللہ کی خاطر محبت اور اللہ کی خاطر دشمنی کے عملی اظہار کے ذریعے تکمیلِ ایمان کا موقع ہے۔ مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَأعَطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ--- یہ دن ایمان سے محبتوں‘ دوستیوں‘ وفاشعاریوںکی تجدید اور نفرتیں دُور کرنے ‘ اللہ کی خاطر دینے‘ لینے اور اپنی نفرتوں اور محبتوں کو اللہ کے حوالے سے ترتیب دینے کا دن ہے!

عیدالفطر--- ہمدردی و غم گساری کے مہینے کی عطا کردہ تربیت کے مطابق--- صدقۂ فطر کی ادایگی‘ صلۂ رحمی‘ پڑوسیوں اور مہمانوں کے حقوق کی ادایگی‘ تحفے تحائف دینے‘ خوشیوں کے پیام پہنچانے اور مبارک دینے کے ذریعے اخوت و محبت کے اظہار کا نقطۂ عروج ہے۔ معاشرے کے محروم‘ لاچار‘ مسکین اور فقیر‘ ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنے‘ فاقے دُور کرنے‘ غم اور دُکھ ہلکے کرنے اور اُن میں خوشیاں بانٹ کر--- اس کنبے کے مالک و سربراہ ---اللہ کو خوش کرنے کا دن ہے!!

عیدالفطر--- یومِ عزم ہے!

رمضان میں نازل ہو کر اِسے جشن بہاراں بنانے والے--- قرآنِ عظیم کی تلاوت و سماعت کرکے اپنے سینوں کو منور کرنے کے بعداِسے لے کر اُٹھنے‘ اس کے غلبہ و نفاذ اور اس کی حکمرانی و کارفرمائی اور ساری دنیا پر اس کے سائے کو پھیلا دینے ‘ اس کے پیغام کو عام کر دینے اور اس کی سربلندی کا فریضہ ادا کرنے اور کرتے رہنے کا عزم کرنے کا دن!

عیدالفطر دن ہے--- اتباع و نفاذِ شریعت کے عزم کا--- اللہ و رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی و اطاعت‘ اُن کے ہر حکم و مرضی پر راضی‘ مطمئن و مسرور رہنے کے عزم کا--- بندگی کے جملہ تقاضوں کو ہر جگہ ‘ ہر وقت‘ ہر لحظہ پورا کرتے رہنے کے عزم کا۔

اے روزہ دار! بندئہ مومن!

عید اس کے لیے نہیں--- لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ شَرِبَ وَاَکَلْ --- جس نے محض کھایا‘ پیا‘ لذیذ و متنوع سحری‘ مرغن اور مشتہی افطاری--- روزہ بھی--- اور نافرمانی کا ہر رویہ‘ ہر طرزِعمل‘ بداخلاقی‘ فساد اور پستیٔ کردار کا ہر مظاہرہ--- اللہ کی اطاعت و بندگی کا کہیں نہ اقرار نہ اظہار۔ اُسے عید منانے کا کوئی حق نہیں۔ عید تو اُس کی ہے --- اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ اَخْلَصَ لِلّٰہِ وَالْعَمَلِ--- جس نے اپنی ذات اور اپنے ہرعمل کو اللہ ذوالجلال کے لیے خالص کر لیا--- جو سب سے کٹ کر صرف اُسی کا بن گیا--- اپنی زندگی کا مرکز و محور اور مطمح نظر اُس کو اور اُس کے حکم کی بجاآوری کو بنا لیا!!

عید اُس کے لیے نہیں--- لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ رَکِبَ الْمَطَایَا--- جو شان و شوکت‘ فخروغرورکے اظہار کے طور پر‘ اپنی عظمت و کبریائی کی خاطر--- سواریوں پر چڑھا‘ عیش و عشرت میں غرق اور یادِ خدا سے غافل ہوا--- اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ تَرَکَ الْخَطَایَا، اصل عید تو اُس کی ہے اور جشن منانے کا حق دار بھی وہی ہے‘ جس نے خطاکاری سے اجتناب اور اس کے ہر راستے سے گریز کیا‘ اور اسے اپنی عمومی زندگی کا طرزعمل بنایا۔

عید اُس کے لیے نہیں--- لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ لَبِسَ الْجَدِیْدَ--- جس نے فقط نئے اور    خوب صورت لباس میں اپنے جسم و روح کی ناپاکی‘ گندگی اور غلاظت کو چھپایا--- اس کا فقط ظاہر ہی اُجلا، ہوا۔ دل روشنی اور سعادت سے محروم رہا۔ نہ تطہیر فکر ہو سکی‘ نہ تعمیر افکار‘ قلب و نظر کے اندھیرے دُور نہ ہو سکے‘ نہ دل کے سیاہ داغ دُھل سکے۔ تن تو اُجلا بن گیا‘ من پاکیزہ و صاف اور روشن نہ بن سکا---!! عید تو اس کے لیے ہے! اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ خَافَ الْوَعِیْدَ--- جس نے اللہ کی آیات‘ احکامات ‘ فرامین و ہدایات‘  اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو پڑھا‘ سنا‘ سیکھا‘ سمجھا--- صدقِ دل سے ایمان لایا--- اپنے دل اور عمل پر اُسے نافذ کیا--- اور اُس کی سزا کے خوف سے لرزہ براندام رہا۔

عیدالفطر کا دن--- جائزے اور تقابل کا دن ہے! اللہ کی رحمتوں اور اپنی لغزشوں کے تخمینے‘ جائزے اور موازنے کا دن!! کہ اے بندئہ مومن! اپنے رحیم و کریم رب کے مقابل تو کہاں کھڑا ہے؟ کیا تیرے دامن میں کوئی بھی ایسا عمل ہے‘ جو اُس کی لامحدود عنایتوں کے مقابل وفاداری کا حوالہ بن سکے؟ پھر آخر مَا غَرَّکَ بَرِبِّکَ الْکَرِیْمِ؟ اپنے رب کریم‘ رحیم کے مقابل تجھے کس چیز نے اس قدر سرکش وباغی اور جری اور بے وفا بنا دیا اور دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے؟ تیرے لیے عیدالفطر کا پیغام یہی ہے کہ رمضان کی طرح پلٹ آ-- اسی عفو بندہ نواز کے دامن میں---! سر جھکا دے‘ اسی آقا و مولا کی بارگاہ میں--- اور اسی دَر کا سوالی بن جا--- اور اسی کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو جا‘ اسی کے دامن رحمت سے لپٹ جا‘ اور اسی شجرعاطفت سے وابستہ رہ اور اُمید بہار رکھ--- کہ اس کے سوا کوئی جاے پناہ و اماں نہیں---!!

عیدالفطر--- فی الحقیقت --- اے بندئہ مومن--- تیرے طویل امتحان کا آغاز ہے۔ رمضان کی تربیت گاہ میں حاصل کردہ تعلیم و تزکیہ کا نصاب تجھے اس امتحان میں سرخرو کر سکتا ہے۔ اگر تو اس عزم و تجدیدعہد اور تجدید وفا کے جذبے سے عید منائے--- تو تو بڑا نیک نصیب ہے‘ تو ہی عید منانے کا حق دار ہے۔ عیدالفطر--- تیرے لیے --- منزل نہیں‘ نشانِ منزل ہے--- جہاں سے نیکیوں کا سفر ایک بار پھر شروع ہو رہا ہے۔ عیدالفطر کے روز شروع ہونے والا تیرا یہ سفر یقینا تیری حقیقی منزل --- جنت--- تک پہنچ کر ہی ختم ہو گا---!! ان شاء اللہ!!

 

یَابَاغِیَ الْخَیْرِ اَقْبِلْ ___ اے نیکی کے طلب گار آگے بڑھ!! سعادتوں اور عظمتوں‘ برکتوں اور مغفرتوں کے وہ سعید لمحے ‘ وہ جانفزا شب و روز‘ وہ رُوح پرور نظارے پھر سے اس کائنات پر جلوہ فگن ہونے والے ہیں‘ جن کی عظمتوں کا کوئی حساب نہیں‘ جن کی برکتوں کا کوئی شمار نہیں!! یہ خبر یقینا تیرے قلب و جاں کے لیے باعث راحت و سکون ہوگی کہ فضیلتوں کا حامل شہرعظیم ___رمضان___ ایک بار پھر تیری زندگی کے مستعار لمحوں میں تجھے اپنی نجات کا سامان کرنے کی دعوت دینے سایہ فگن ہونے والا ہے۔ وہی مہینہ جس کی آمد پر سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم جھوم اٹھتے۔ شعبان کے آخری دنوں میں خطبہ ارشاد فرماتے___!

قَدْ اَظَلَّکُمْ شَھْرٌعَظِیْمٌ مُبَارکٌ ___ لوگو! تم پر ایک عظیم اور مبارک مہینہ اپنی عظمتوں اور برکتوں کا سائبان کھولنے آ رہا ہے___!

یقینا یہ مہینہ عام مہینوں سا‘ اس کے شب و روز عام دنوں کی طرح ہیں___ اُن لوگوں کے لیے جو اُس کی عظمت سے ناآشنا ہیں! اپنی عاقبت و آخرت کی بجائے‘ دنیا کی زیب و زینت کے شکار‘ اس کی زُلفِ گرہ گیر کے اسیر‘ اس کے پیچ و خم میں اُلجھے ہوئے‘ اس کو کمانے کی فکر میں غلطاں و پریشاں‘ اسی کی دوڑ میں بگٹٹ بھاگے چلے جا رہے اور اسی کی محبت میں ہلکان ہو رہے ہیں۔ وہ لوگ جو مقصدِحیات کے شعور سے عاری‘ زندگی کی قدروقیمت سے غافل اور حیاتِ مستعار کی قیمتی ساعتوں کی اہمیت سے بے خبر ہیں۔ یقینا اُن کے لیے یہ مہینہ عام سا ہے___!

لیکن ___ اے نیکی کے طلب گار! یہ شہرعظیم ___ تیرے لیے بے شمار نعمتوں اور سعادتوں کا پیام لارہا ہے___ !  کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْصِّیَامُ___ روزے پہلی اُمتوں کی طرح سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہراُمتی پر فرض کر دیے گئے ہیں۔ جسے اپنی زندگی میں یہ سعید لمحے میسر آجائیں ‘ اس کی خوش بختیوں اور    نیک نصیبوںکے کیا کہنے___! اس پر لازم ہے کہ فَلْیَصُمْہُ ___ وہ روزے ضرور رکھے!!

اے نیکی کے طلب گار ___ ! تو بڑا خوش نصیب ہے ‘ جو اس عظیم موقع سے فیض یاب ہو رہا ہے___ ورنہ کتنے ہی اللہ کے بندے اس تمنا کو دل میں چھپائے اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون! آگاہ و خبردار رہ‘ ہوشیار ہو جا کہ ان سعید ساعتوں سے فیض یاب ہونے میں کوتاہی نہ ہونے پائے۔ زندگی کا کیا بھروسا! یہ مبارک لمحے پھر میسر آئیں یا نہ آئیں! کمرہمت باندھ لے۔

اے بندئہ مسلم! اطاعت و تسلیم کے خوگر مومن! رمضان تیری تسلیم و رضا کا اظہار بھی ہے___! تو نے اسلام قبول کر کے شعوری طور پر خود کو مالکِ ارض و سما کے حوالے کر دیا۔ اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ‘ حَنِیْفاً ___ اس کامل عبودیت اور یکسوئی کا تقاضا ہے کہ اپنے آقا و مولا کے فرض کردہ اس حکم پر عمل کے لیے کمربستہ ہو جا___  بُنِیَ الِاسْلاَمُ عَلٰی خَمْسٍ___ شَھَادَۃُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ… وَصَومُ رَمضَانَ… آنحضورؐ کا یہ فرمانِ عالی شان تیرے پیش نظر رہنا چاہیے کہ روزہ اسلام کی بنیادوں میں سے ہے۔ اس کے بغیر تیری بندگی اور اطاعت نامکمل ہے! اسلام اپنے ماننے والوں کو جس عظیم مقصدِحیات ___  کلمۃ اللّٰہ ھی العلیا ___ اللہ کے کلمے کا غلبہ___ اُسی کے حکم کا چلن‘ اُسی کے دستور و قوانینِ حیات کا نفاذ___ اُسی کو حلال و حرام کا اختیار‘ اُسی کی رضا کی طلب___ اُسی کی عظمت‘ اُسی کی کبریائی سے آگاہ کرتا‘ اور اُسے بجا لانے کا تقاضا کرتا ہے۔ روزہ اُسی جہاد کی تربیت کا ایک پہلو اور نشانِ منزل ہے۔ بندئہ مومن و مسلم کے خلوص کا اظہار اور آقا و مولا کی قبولیت کا اعلان! اللہ نے اس ماہِ تقدس کے روزوں کو فرض اور نالۂ نیم شبی کو بندے کے اظہار عبدیت کا نشان قرار دیا ہے۔ جَعَلَ اللّٰہُ صِیَامَہٗ فَرِیْضَۃً ___ وَقِیَامَ لَیْلِہٖ قَطُوَّعاً ___! تطوع___ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں بندے کی وارفتگی اور پُرخلوص وابستگی کا عملی اظہار ہے۔

فرض عبادت تو بہرطور کرنا ہی ہے کہ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں۔ اسلام میں داخلہ پورا نہیں۔ جیسے جیسے اے بندئہ مومن تیرا دل رب سے آشنا ہوتا چلا جائے‘ تیری راتیں بے قرار ہو جائیں‘ تیرے سینے میں عبدیت کے اظہار کے مظاہر مچلنے لگیں‘ تیرے جسم کو تیرے بستر پر سکون نہ ملے‘ تو تڑپ تڑپ کر رات کے اندھیروں میں بارگاہ رب العزت میں قیام و سجود‘ دعا و مناجات‘ حمدوثنا‘ تسبیح و استغفار میں مشغول ہو جائے۔ کوئی دیکھنے والا نہ ہو‘ اس کے سوا۔کوئی سننے والا نہ ہو‘ اُس کے بجز___ وہ اور تو___ آمنے سامنے! اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَانَّکَ تَرَاہُ  ___! ایسے جیسے مالک و مختار‘ آقا و مولا نگاہوں کے سامنے بالکل پاس۔ اگر تجھے شعور کی یہ دولت نصیب ہو جائے تو یاد رکھ:  نَحْنُ اَقْرَبُ اِلیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ‘ ہم تو اپنے بندے کی  شہ رگ سے بھی قریب تر ہیں___ اگر تو اُسے اپنے سامنے‘ قریب نہیں پاتا‘ محسوس نہیں کرتا‘ بھٹکتا رہتا ہے___ تو بتا___ قصور تیرا ہے یا اُس کا جو تیری رگِ جاں سے قریب‘ تیری ایک پکار پر لبیک کہنے‘ نچھاور ہوجانے کے لیے تیار___ اِذَا سَئَالَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ___ تیری دعائوں کے ایک ایک لفظ کو پورا کرنے والا___ آمادہ و تیار___ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَ ادَعَانِ ___ !اے نیکیوں کے طلب گار! رمضان کی راتوں میں___ آگے بڑھ اور محبتوں کے اس غیر رسمی تقاضے کی تکمیل کا پختہ ارادہ کر لے! رسمی ایمان کے تقاضے یقینا کچھ اور ہیں اور محبت‘ اطاعت اور تسلیم و رضا کی تکمیل کے مظاہر کچھ اور___ ! مَن کی اسی موج اور عبدیت کے اسی اظہار کے تقاضے نے کائنات کے سب سے محترم‘ معظم اور معصوم عن الخطاء صلی اللہ علیہ وسلم کو بارگاہِ الٰہی میں اَفَلاَ اَکُونَ عَبْدًا شَکُوْرًا ___ کے جذبے کے ساتھ راتوں کو کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا___!

اے نیکیوں کے طلب گار! رمضان کی ان خوب صورت ساعتوں میں خود کو قیام اللیل کا اس قدر خوگر بنالے کہ تجھے اس کے سوا چین نہ آئے‘ کسی پل قرار نصیب نہ ہو۔ راحت ِ دل اور سکونِ جاں تجھ سے روٹھ جائیں___ سکون اور قرار ملے___ تو فرائض سے کہیں بڑھ کر نوافل کی ادایگی اور عبدیت کے اظہار کے ان بے لوث جذبوں اور طریقوں میں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان خَصْلَۃٌ مِنَ الْخَیْر ___ کا  یہی مفہوم ہے!   اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلوبُ ___ کا اس سے کارگر اور بہتر طریقہ اور کوئی نہیں۔  سکون و اطمینان‘ یکسوئی اور فراغت کے ان لمحوں میں اپنے رب سے ہم کلامی‘ رضاجوئی اور مغفرت طلبی سے مبارک کام شاید ہی کوئی اور ہو!

رمضان ___ شَھْرُ الصَّبْرِ ___ صبرواستقامت کا مہینہ ہے۔ اس میں انجام دی جانے والی عبادت کا نام ’’صوم‘‘ ہے۔ اس کے معنی باز رہنا‘ ترک کر دینا اور چھوڑ دینا___ یہ حقیقت تو بڑی واضح ہے کہ اللہ کو اپنے بندے کا کھانا پینا چھوڑ دینا ہرگز مطلوب نہیں‘ یہ تو محض ایک علامتی عمل ہے___ اطاعت و تسلیم و رضا کے اظہار کا۔ اصل مقصود تو ضبطِ نفس ہے‘ اپنی خواہشات ‘ تمنائوں اور کاموں کو ___ زندگی کے ہر لمحے کو ___ رب کے حکم کے تابع کر دینا۔ اپنے آپ پر اس قدر کنٹرول حاصل کر لینا کہ نفس کا بے لگام گھوڑا‘ اللہ و رسولؐکے مکمل سپرد اور تابع بن جائے‘ اُسی کی اطاعت کے دائرے کے کھونٹے سے بندھا رہے‘ اسی کے گرد چکر لگاتا رہے‘ اللہ کی مقرر کردہ حدود و قیود کا پابند ہو جائے۔ ان سے تجاوز سے گریزاں رہے‘ خواہشاتِ نفس نہ تو اُس پر غالب آئیں نہ دنیا کی زیب و زینت اور چمک دمک اُس کی نگاہوں کو خیرہ کر کے اپنے دامِ فریب میں گرفتار کر سکیں!

رمضان ___ استقامت کا مہینہ ہے! اطاعت و فرمانبرداری کے اعلان پر ڈٹ جانے کا مہینہ___ ہوا ہو گو تندوتیز لیکن‘ چراغِ حق جلائے رکھنے کا مہینہ___ ابتلا و آزمایش میں ثابت قدم رہنے کا مہینہ___ اصحاب بدر کی طرح غلبۂ حق کے لیے ہتھیلیوں پر نذرانۂ جاں لے کر ہر آگ میں کود پڑنے‘ ہر خطرے کو سہہ لینے اور ہر آزمایش میں سرخرو ہو جانے کا نام ہے___ رزمِ حق و باطل میں ۳۱۳ عالی قدر‘ پاکیزہ‘ عظمت و عزیمت کے پہاڑوں کی طرح اٹل ہو جانے کا مہینہ ہے۔

رمضان ___ اسی صبرواستقامت کے نتیجے میں قطار اندر قطار فرشتوں کے نزول‘ معاونت و موافقت اور عددی کم تری کے باوجود نصرت الٰہی کے لازوال اظہار کا مہینہ ہے۔  وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَاَنْتُمْ أَذِلَّۃٌ ___ یہ کَمْ مِنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ ___ اللہ کے حکم سے مخلص و مومن بندوں کے چھوٹے سے گروہ کے بھاری بھرکم لشکرِباطل پر غلبہ کے معجزاتی اظہار کا مہینہ ہے! لیکن شرط وہی ہے___ ایمان‘ اخلاص‘ تسلیم و رضا‘ صبرواستقامت___! پہلا معرکۂ حق و باطل___ شریعت اسلامیہ کے پہلے ماہِ رمضان میں برپا ہوا___ بھوک اور پیاس کے ساتھ ساتھ اطاعت و فرمانبرداری کا امتحان!

نیکیوں کا وہ طلب گار جو رمضان کے مہینے میں صبرواستقامت کے ان جذبوں اور طرزعمل سے محروم وناآشنا رہے۔ اللہ کو اُس کی بھوک‘ پیاس کی کوئی حاجت نہیں‘ نہ اُس کی بارگاہ میں اِس کی کوئی قدروقیمت ہے۔ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجۃٌ اَن یَّدَعَ طَعَامَہُ وَشَرابَہُ۔

رمضان ___ شَھْرُ الْمُؤَاسَاۃ___ ہمدردی اور خیرخواہی اور غم گساری کا مہینہ___ حلقۂ یاراں میں بریشم کی طرح نرم ہو جائے‘ اللہ کی مخلوق___ اللہ کے کنبے ___ اَلخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ ___ سے حسن سلوک کا مہینہ ___ اپنی بھوک پیاس پر قیاس کر کے دیگر محرومین‘ بندگانِ خدا کی ضروریات کا ادراک و احساس اور ان کی تکمیل کا مہینہ ہے۔ ہر صبح و شام سحروافطار کے لمحوں میں اِسی احساس کی بیداری کا نام کہ تمھارے دسترخوان پر سجی ہوئی خدا کی بے شمار انواع و اقسام کی نعمتیں ایک جانب ___ تو دوسری جانب کسی یتیم‘ بیوہ‘ مسکین‘ فقیر‘ حاجت مند کے گھر کا چولہا شاید نجانے کتنے دنوں سے آگ کی حدّت سے محروم ہو۔ کتنے گھروں میں فاقے ہوں‘ اور کتنے منہ نانِ جویں کے لیے ترس رہے ہوں!

اے نیکیوں کے طلب گار___ !یہی تو مہینہ ہے‘ قربانی دینے کا۔ حاجت مندوں کے دُکھ دُور اور حاجتیں پوری کرنے کا___ سیدنا علی ؓ کی طرح کئی دن کے مسلسل روزوں کے باوجود سائل کی صدا پر روٹی کے موجود چند ٹکڑے بھی قربان کر دینے کا۔ یہی تو حقیقی اہل ایمان ہیں جو یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ۔ اپنی شدید ترین ضرورتوں کے باوجود اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا دیتے ہیں۔ یہ تو عظمت اور عزیمت کی داستانیںہیں___ اللہ کو تو فقط اپنے بندے کا جذبۂ اخلاص مطلوب ہے۔ اس ماہِ محترم میں ہمدردی و غم گساری اور روزہ کھلوانے کے لیے خواہ دودھ کا ایک کٹورا ہو‘ یا کھجور کا ایک ٹکڑا___ یا پھر نمک کے چند دانے___ اللہ کی بارگاہ میں اُسی طرح محترم و معزز ہیں جیسے غزوئہ تبوک کے موقع پر ایک مسلمان کی شب بھر کی کمائی چند کھجوروں کا آدھا حصہ صدیق اکبرؓ کے گھر کے ذرے ذرے اور عمر فاروقؓ کے آدھے گھریلو سامان اور عثمانؓ غنی کے ہزاروں درہم و دینار اور اناج کے ڈھیر پر بھاری تھے!

اے بھلائیوں کے طلب گار! آگے بڑھ کر اس ماہِ محترم کا استقبال کر___کہ سعادتوں اور برکتوں کے یہ مواقع صرف تیری قسمت بنانے‘ تیرے نصیب جگانے کے لیے تجھے عطا کیے جا رہے ہیں۔ یقینا شیطان اپنی چالوں کو آزمائے گا۔ تجھے اپنی ضرورتوں کا شدت سے احساس دلائے گا___مگر یہ یاد رکھ___ اس مہینے میں ہر نیکی کا اجر ۷۰۰ گنا سے بھی زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ اور ارشاد نبویؐ ہے: شَھَرُ یُزَادُ فِیْہِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِیْنِ ___ اس مہینے میں مومن کا رزق معمول سے کہیں زیادہ کر دیا جاتا ہے___ ذراسوچو!___  چند کھجوروں‘ روٹی کے ٹکڑوں اور استطاعت کے مطابق مسکینوں اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کے عوض یہ سودا کس قدر نفع بخش ہے!! اور پھر آخرت کی مصیبتوں اور تکلیفوں میں سے کسی مصیبت اور تکلیف سے نجات___ سونے پر سہاگہ۔  مَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسلمٍ کُرْبَۃً… فَرَّجَ اللّٰہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِنْ کُرْبَاتِ یَومِ القِیَامَۃِ!!

کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ … لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ‘ اہل ایمان پر روزوں کی فرضیت کا ایک مقصد انھیں تقویٰ کا خوگر بنانا ہے۔ وہ جذبہ و احساس اور شعور بیدار کرنا ہے کہ وہ کارزارِ حیات میں سنبھل سنبھل کر چلیں‘ اپنے دامن کو بچا بچا کر دنیا کی شاہ راہوں پر سے گزریں‘اس کی گندگی اور آلودگی سے اپنی قباے کردار کو محفوظ رکھیں___ تقویٰ یقینا مختلف مظاہر رُسوم میں نہیں‘ نہ ہی عباو قبا‘ نہ تسبیح ومحراب اور نہ ظاہر کے مخصوص انداز میں پوشیدہ ہے۔ تقویٰ کا مرکز تو دل ہے‘ دل و نگاہ جو مسلمان نہیں‘ خوفِ خدا سے لبریز نہیں‘ اس کی حیا دامن گیر نہیں___ تو کچھ نہیں!!تقویٰ تو اِس احساس کا نام ہے کہ بندئہ مومن زندگی کے تمام اُمور سرانجام دیتے ہوئے‘ فرار کی ہر راہ سے بچتے ہوئے‘ جملہ فرائض ادا کرتے ہوئے‘ تمام ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے___ ہرقدم‘ ہر موڑ‘ ہر گامِ حیات پر___ اللہ کی عزت و عظمت‘ جلال و جبروت‘ اختیار واقتدار‘ طاقت و حکومت‘ سماعت و بصارت‘ حکمت و غلبے کے جملہ تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی فکر اور عمل کو اس کے احکام کے تابع اور اس کی مرضی و منشا کے مطابق رکھے ___ ! تقویٰ___  بندئہ مومن کے اس جذبے کا نام ہے کہ اُس کا رب اُسے وہاں نہ پائے جہاں جہاں سے اُس نے اُسے روک رکھا ہے۔ لَا یَرَاکَ مَوْلاَکَ حَیْثُ یَنْھَاکَ ۔ اے بھلائیوں کے متمنی اور نیکیوں کے طلب گار!!

رمضان اسی تقویٰ کی افزایش اور نشوونما کا چند روزہ آفاقی تربیتی نصاب ہے! اَیَّامًا مَعْدُوْدَاتٍ___  یہ چند روزہ مسلسل تربیت اس امر کا تقاضا ہے کہ رب کی رضا اور نیکیوں کے حصول کے لیے یہی صراطِ عمل تجھے اپنی زندگی کے باقی دنوں‘ شب و روز اور ماہ و سال میں اختیار کرنا ہے۔

یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ___ اللہ کریم رؤف الرحیم نے تیرے لیے اس نصاب کو حددرجہ آسان کر دیا ہے!جس دین میں تو داخل ہوا‘ جسے تو نے اختیار کیا___ وہ تودین فطرت ہے‘ تیری ضرورتوں‘ وسعتوں اور طاقتوں‘ مزاج‘ ماحول اور نفسیات کے مطابق___ کوئی بھی تعلیم‘ ہدایت اور حکم ایسا نہیں جو بندئہ مومن و مسلم مخلص پر گراں ہو___ !  الْدِّیْنُ یُسْرٌ  ___  دین تو سراسر آسان ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے وارثانِ دین متین کو یہی ہدایت فرمائی۔  یَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا ___ دین کو آسان بنائو‘ مشکل نہیں۔ بَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا  ___بشارتیں بانٹو‘ نفرتیں نہیں___ !! تو اے بندۂ مومن! تیرے آقا و مولا نے رمضان کی بے حد وحساب فضیلتوں والی ساعتوں میں تیرے لیے کتنی ہی آسانیاں پیدا کر دیں___ کوئی مریض ہو یا مسافر___ روزہ نہ رکھ سکے تو___  فَعِدَّۃًٌ  مِنْ اَیَّامٍ اُخَرٍ___ اپنی آسانی کے مطابق پھر کبھی جب ممکن ہو___ روزے رکھ کر ایک مہینے کی گنتی پوری کر لو___ ! اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو___ تو پھر اللہ کے کچھ بندوں کو اپنی حیثیت کے مطابق کھلا کر___ فدیے کے ذریعے اس محرومی کی تلافی کر لو!

لیکن یاد رکھو___ ! یہ تو رخصت ہے۔ اصحاب عزیمت رخصتوں کے نہیں عظمتوںکے طلب گار رہتے ہیں___ نیکیوں اور بخششوں کے تمنائی تو زندگی کی محدود ساعتوں کے ہر لمحے کو نیکیوں کے حصول میں صرف کرنے کو ترجیح دیتے ہیں___ قرآن کی رہنمائی بھی یہی ہے۔ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَکُمْ ___  اگر تم رخصتوں کے باوجود روزے رکھ لو___ تو تمھارے کیا کہنے___ ! تمھارے اجر و ثواب کی کیا ہی بات ___ تمھارے لیے سراسر خیر اور بھلائی___ !! اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ___ عارضی راحت و آرام تو رخصت اختیار کرنے میں ہے‘ مگر سکون قلب اور روحانی راحت___ تو راہ عزیمت اختیار کرنے میں ہی ہے۔ اگر تمھیں اس کے بارے میں علم ہو جائے! اور یہ شعور و آگہی ___ اے نیکیوں کے طلب گار! اگر تیری طلب صادق اور جذبے پُرخلوص ہوں تب ہی یہ تجھے حاصل ہو سکتے ہیں!

اے بھلائیوں کے متمنی ___ !تیرے لیے رمضان کی صورت میں نیکیوں کی فصل بہار میں رحمتوں کے گل و گلزار اس لیے سجائے گئے کہ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ___ یہ مہینہ بھی عام مہینوں جیسا ___ ہزاروں سال سے اس کے شب و روز بھی یکساں قدروقیمت کے حامل___ مگر اسے یہ عظمت اور تقدس اُسی وقت حاصل ہوا جب تاجدار نبوتؐ اپنی عمر عزیز کے اکتالیسویں سال اُتر کر حرا سے سوئے قوم آئے اور اپنے ہمراہ آفاقی‘ الہامی اور ابدی نسخۂ کیمیا ساتھ لائے: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍo اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o  الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ ___ یہ بجلی کا کڑکا تھا یا       صوتِ ہادی___ بلاشبہہ اس دعوت اور صدا نے ساری سرزمین عرب ہلا دی! جھوٹے خدائوں کی خدائی___  انسان پر انسان کی حاکمیت___ ظلم‘ جبر‘ ناانصافی‘ بدامنی‘ توہین انسانیت‘ ذلت و رسوائی‘ حقوق غصبی‘ بداخلاقی‘ فحش و بے حیائی‘ لامحدود گمراہیوں اور پستیوں کے پھیلے ہوئے بدترین منحوس سائے اور اس کے نتیجے میں ظَھَرَالفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ___  خشکی و تری___  ہر جگہ‘ ہر قوم‘ ہر تہذیب‘ ہر رنگ‘ ہر نسل اور ہرعلاقے میں ضلالت کی بھڑکتی ہوئی آگ اور فکری‘ عملی‘ اخلاقی‘ سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی___ فَسَادَ ___ کے عالم میں ایک شان دار‘ ہمہ گیر اور عالم گیر انقلاب کا پیش خیمہ ___ نقطۂ آغاز ___ صراطِ مستقیم___ راحت ِ قلب و نظر‘ ہدایت فکروعمل ___ ھُدًی لِّلنَاسِ___ انسانیت کے لیے تاابد سرچشمۂ ہدایت___  اس کے دکھوں کا مداوا  شِفَا ئٌ  لِّلنَاسٍ ___  حق و باطل کے مابین حدِّفاصل‘ امتیاز اور فرق___ الفرقان___  عبرت ونصیحت کا مرقع___ منشاے الٰہی کا بیان___ البیان___ القرآن___ مبارک ذکر___ بے ریب و بے شک___  ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ___  اپنے نازل کرنے والے کی لاریب ذات‘ اپنے نزول کے مرکز کی صداقت و امانت کے مسلّمہ کردار اور اپنے پیامبر___ وحی لانے والے جبریل ؑامین کی اطاعت و امانت کی مجسم دلیل___ اور اپنی تعلیمات کی حقانیت و صداقت اور انسانیت کی ہمہ پہلو‘ جامع و مکمل رہنمائی کی شہادت‘ ناطقہ بن کر ظہور پذیر ہونے  والے ___ قرآن عظیم___  کے آغازِ نزول کا مہینہ!!

رمضان کی یہ عزت و عظمت ___ یہ قدرومنزلت___  یہ شرف و مرتبت___  اسی نعمت ِ تمام کے باعث ___ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ___ میں نے تمھارے لیے اپنا پسندیدہ ‘ مرغوب‘ مطلوب اور برحق دین اسلام___ اس قرآن کی نعمت عظمیٰ کی صورت میں‘ اس کی آیات کے حوالوں میں ___ مکمل کر دیا۔ یہی سب سے بڑی نعمت و احسان ہے اللہ رب العالمین کا اپنے بندوں پر۔ زندگی گزارنے کا سامان تو جانور بھی بالآخر کر ہی لیتا ہے۔ پہاڑوں کے غاروں میں بسنے والے درندوں‘جنگل اور بیابانوں میں رہنے والے وحشیوں‘ پتھر کے اندر‘ سمندر کی تہوں اور زمین کی گہرائیوںمیں موجود کیڑے مکوڑوں ‘ آسمان کے پرندوں___ ہر کسی کو وہ اپنے فضل و کرم سے رزق تو عطا کر ہی دیتا ہے___   وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرضِ اِلاَّ عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھا۔ لیکن اللہ کا اصل احسان___  اور انعام تو___ ہدایت___ کا یہی سرچشمہ ہے۔ جو اُس نے فقط اپنے بندوں کو ___ انسانوں کو عطا کیا___  اس عظیم قرآن کو سنبھالنے اور اس کا بوجھ اٹھانے اور امانت سنبھالنے سے زمین و آسمان نے انکار کر دیا۔  اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَحْمِلْنَھَا ___ مگر انسان کے نصیب میں یہ سعادت کبریٰ لکھی گئی۔ اس کے مقدر میں یہ عظمت آئی___  وَحَمَلَھَا الْاِنْسَان___ !! رمضان___  فی الحقیقت جشن نزولِ قرآن ہے۔ عظیم امانت کے بار ذمہ داری کے احساس دہی اور حق کی ادایگی کی یاد دہانی کا مہینہ ہے!

وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلَی مَا ھَدَاکُمْ ___ رمضان بندئہ مومن پر اس لیے بھی فرض ہوا کہ اللہ کے بندے اس کی عظمت و کبریائی کے ترانے گائیں‘ اپنے قول و عمل سے اُسی کی بڑائی کا اقرار و اظہار کریں۔ نمازوں کے اوقات میں___ اذان و تلاوت میں___  رکوع و سجود میں‘ تسبیح و تہلیل میں___ دعا مناجات میں___  اللّٰہ اکبر‘ اللّٰہ اکبر ___  وللّٰہ الحمد ___ سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم___  حمدوثنا‘ پاکیزگی و عظمت ___ سب اُسی برتر و بزرگ کے لیے! جس نے ہدایت سے آشنا کیا۔ قرآن کی نعمت ِ عظمیٰ کی صورت میں زندگی گزارنے اور آخرت کا سامان کرنے کا جامع‘ ہمہ پہلو قرینہ سکھایا۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں عمل کا اعلیٰ‘ کامل اور بہترین اسوہ عطا کیا۔

رمضان کی صبحوں‘ شاموں‘ دن اور راتوں میں زمین و آسمان کے مابین لامحدود وسعتوں میں انسانوں‘ فرشتوں‘ پرندوں کی یہ تسبیح‘اللہ کی یہ تسبیح‘ اللہ کی یہ حمدوثنا‘ احسان شناسی اور اعترافِ نعمت ہے عَلٰی مَا ھَدَاکُمْ___ اُس ہدایت کی اُس فضیلت کا جس سے اے بندئہ مومن___  فقط تو فیض یاب ہوا___ اعلانِ کبریائی کے اس روزانہ و شبانہ نصاب کے اختتام پر یومِ عید سجدئہ شکر بجا لانے کے لیے جاتے ہوئے‘ گلیوں‘ محلوں‘ شاہراہوں‘ بازاروں‘ گھروں___ ہر سمت‘ ہر جانب یہی ترانۂ شکر‘ یہی نغمۂ کبریائی___  اللّٰہ اکبر‘ اللّٰہ اکبر لا الٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد___ یہ تو زبان ہے اور پھر زندگی کا ہر لمحہ‘ عمل کا ہر میدان___ اسی کا عملی اقرار___ اللہ کے حکم اور عظمت کے شعوری غلبے‘ اللہ کے دشمنوں کی ___  اس کے دین___  اس کے قرآن کی مخالفت___  اس کے رسولؐ کی عدم اطاعت کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی سرکوبی ___ یہی تو مومن مخلص کی زندگی کا مقصد___ اُس کا منصب___  اور اس کا فرض ___ اُس کی زندگی کا خِراج اور بندگی کا اصلی اظہار ہے۔ یہی نعت ِ ہدایت کی حق شناسی ہے!!

وَلََعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ___ رمضان انھی نعمتوں پر شکرگزاری کاآفاقی لائحہ عمل ہے! اللہ کی نعمتیں  بے شمار ___  اس کے احسان لامحدود۔ اِنْ تَعُدُّوا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا  اور ان میں سب سے بڑی نعمت___ قرآن___  ہدایت___ دین حق کا شعور‘ اقامت دین کا جذبہ___  داعی ٔ حق کا اسوہ و سیرت___  وارثانِ دین متین کی رہنمائی___ اہل ایمان‘ اہل حق کی رفاقت: تحریک اسلامی ___  اللہ کے دین کے غلبے‘ اس کے اعلاء اور اس کی عظمت و کبریائی کی جدوجہد میں شرکت ___ یہ سب اللہ کی لازوال‘ انمول نعمتیں ہیں۔ انھی کا حق اور تقاضا کہ اعترافِ نعمت کی ہر جدوجہد اور ہر صورت میں پُرخلوص‘ مکمل اور بھرپور شرکت!!

اے نیکیوں کے خوگر ___ بندئہ مومن!!

رمضان کے انھی شب و روز کی سعید ساعتوں میں اپنے مقصد___ نیکیوں کے حصول کے سفر کے دوران کچھ خاص لمحے اللہ کی قربت کے___ تیرے مَن کی مراد بَر لانے ‘ تجھے عطا ہوں گے۔ تجھے ان لمحوں سے خوب اور بھرپور فائدہ اٹھانا ہے۔ مالکِ مختار و مقتدر کے حضور دست ِ سوال دراز کیے رکھنا ہے‘ جب تک تجھے وہ سب کچھ نہ مل جائے‘ جس کا تو متمنی و مشتاق ہے___  جس کے لیے تو سرگرداں ہے! انھی سعید لمحوں میں تیرا رب تجھے پکار پکار کر کہے گا___  اِنِّیْ قَرِیْبٌ - اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ___  میں اپنے بندوں کے دل و دماغ‘ جسم و جاں‘ اور شہ رگ کے قریب ہوں۔ ان کے وجود کا حصہ ہوں۔ وہ مجھے پکاریں تو سہی ___ میں ہمہ وقت اُن کی دعا___  اُن کی صدا___ اُن کی پکار سننے‘ ان کی حاجت روائی کرنے‘ ان کی مرادیں پوری کرنے کے لیے مستعد و تیار رہتا ہوں۔ وہ اگر مجھے ہی پکاریں___  صرف اور صرف مجھے___ تو میں اُن کی آنکھیں‘ ہاتھ پائوں‘ کان اور جسم کا حصہ بن کر‘ اپنے معجزے اور کرشمے دکھاتا ہوں! میں اپنے بندوں کی ہر دعا سنتا ہوں۔ اُن کی ہر خواہش پوری کرتا ہوں۔ میرے لامحدود‘ وسیع خزانوں میں اتنی بھی کمی واقع نہیں ہوتی جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبو کر واپس لانے سے ہوتی ہے۔ یہ تو میرا بندہ ہی تھڑدلا اور کم ظرف ہے جو مجھ سے صرف وہی مانگتا ہے‘ جو وہ نہ بھی مانگے‘ تو بھی بحیثیت ربّ العالمین___ پروردگارِ خلائق___  میں اُسے اُس کے مقدر کا لکھا بہرصورت‘ عطا کرتا ہی رہوںگا۔

اے بندئہ مومن! اُسی خالق ارض و سما نے تو تیرے لیے زمین و آسمان مسخر کر دیے‘ ہر چیز تیری خدمت میں___ تیری سہولت کے لیے فراہم و میسر___  اپنے رب کے حکم کی تکمیل میں تیرے لیے مصروفِ عمل___ یہ زمین و آسمان ___ شجروحجر___  درند و پرند___ آسمان کی برکتیں اور زمینوں کے خزانے___ سب تیرے لیے___ ! مگر تو ہی ناداں جو چند کلیوں پر قناعت کرگیا!گلشن ہستی میں تیرے لیے ہی تو اقتدار و اختیار ‘ خلافت و امامت‘ سیادت و قیادت___ کیا کچھ نہ تھا___ ! تو ہی اس نظامِ ہستی کا سب سے معزز و محترم اور اشرف___  اس جیسے کتنے ہی آفاق تیرے وجود کا حصہ___ مگر کس قدر بدنصیب ہے تو___  اے بندئہ مومن! کہ کافر کی طرح اپنے وجود کے ہزار آفاقوں کو چھوڑ کر اسی عارضی و ناپایدار‘ حقیر و کم تر آفاق میں گم ہے۔ اپنے مقصد و مرتبت‘ فرض اور ذمہ داری سے غافل ہے!

اللہ کی قربت کے ان سعید لمحوں میں___ سب تمنائوں کو دل سے جھٹک کر___  فقط رشد و ہدایت‘ مغفرت و رحمت‘ بخشش و غفران کی دعا ہی کرنا‘ دنیا کا کچھ نہ مانگنا‘ یہ مل بھی جائے۔ یقین رکھ مَن چاہا سب کچھ ضرور ملے گا___ اس لیے کہ اُس نے کہہ دیا___ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ___ جب بھی وہ پکارے‘ جو چاہے میں ضرور پوری کرتا ہوں۔ جو دنیا کے طلب گار ہوں گے‘ انھیں دنیا ملے گی‘ جو آخرت کے طلب گار ہوں انھیں نہ صرف دائمی زندگی آخرت کی عزت و شرف‘ عظمت و راحت میسر آئے گی بلکہ نَزِذْلَہٗ فِیْ حَرْثِہٖ ___ ہم اس کی تمنا‘ طلب‘ آرزو‘ جستجو میں بھرپور اضافہ کریں گے اور اس کی فصلِ اُمید کو خوب ہرا بھرا بنائیں گے۔ یاد رکھ___ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی فانی راحتوں اور عارضی سہاروں اور وقتی فائدوں کی تمنا کرنے والوں کو  نؤتہ منھا ___ ہم یہ سب کچھ دیں گے___  وَمَا لَہُ فِی الْآخِرَۃِ مِنْ نَصِیْبٍ آخرت میں ان کا دامن بالکل خالی ہوگا۔ کف افسوس مَلنے‘ دنیا میں واپس جا کر ایک بار پھر اطاعت و وفاشعاری کی راہِ مستقیم پر چلنے‘ تلافی ٔ مافات کرنے کی تمنا___  اب بے کار ہوگی___ !

اے بندئہ مومن! تیرے لیے بہتر طرزِعمل بس یہی ہے___  فقط یہ دعا کرنا___  رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الْآخِرَۃِ حَسَنَۃَ ___ اے پروردگار! اے مالک! دنیا و آخرت کی ساری بھلائیاں‘ ساری نعمتیں‘ ساری بخشش و عطا جو تو نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو دیں___ ہمیں بھی عطا کر دے___  بندئہ مومن! اپنی ذات کے لیے بھی مانگنا‘ اور اُمت کے لیے بھی___ سب اہل ایمان کے لیے___  اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِلْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ اَلْاَحیَائُ مِنْھُم وَالْاَمْوَاتِ ___ اِنَّک مُجِیْبُ الْدَّعْوَات ___  اور پھر یہ دعا بھی کرنا___  وَقِنَا عَذابَ النَّارِ___ اے اللہ!ہمیں محفوظ رکھنا___ کسی بھی چھوٹی بڑی لغزش‘ بے احتیاطی‘ فکری و عملی کوتاہی سے___ جو تیرے غضب کو دعوت دے اور عذاب جہنم سے قریب تر کر دے!

اے بندئہ مومن! یہ دعا بھی کرتے رہنا ___ اور بار بار کرنا! اے اللہ! عطاے ہدایت و ایمان کے بعد لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا ___ ہمارے دلوں کو ہر قسم کی کجی سے پاک رکھنا۔ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً___  بس اپنی رحمت ہی کا سزاوار بنانا!! پیغمبرعلیہ السلام‘ اصحاب عالی مرتبت اور اولیاء و صلحا سب ہی اللہ کے فضل و کرم کے طفیل نجات سے ہمکنار اور جنت سے سرفراز ہوں گے___  ہم جیسے سیہ کار‘ خطاکار اور اپنے رب سے غافل___  موقع پرست تو اس فضل و رحمت کے زیادہ___ بہت زیادہ طلب گار ہیں!

تِلْکَ حُدْودُ اللّٰہِ ___  رمضان المبارک کا تقدس و احترام‘ اس کی عظمت و مرتبت کا لحاظ‘ اس کے احکام و مسائل کا لحاظ اور پابندی‘ روزے اور اس سے متعلق جملہ الہامی ہدایات پر عمل درآمد۔ یہ سب ایک طرف تو اللہ کی رحمت و نعمت اور بخشش و غفران کے وسیلے ہیں‘ تو دوسری طرف اللہ کی حدود___ جنھیں اللہ نے اپنی کتاب میں بڑی وضاحت اور حدیث رسولؐ کے ذریعے بڑی صراحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ لہٰذا ان کے حوالے سے بھی بندئہ مومن کو محتاط و خبرداررہنا لازم ہے۔

اے نیکیوں کے طلب گار! آ‘ کہ رمضان کے اس جشن بہاراں کا بھرپور استقبال کرنے کے لیے‘ اپنے دامن کو خطائوں‘ غلطیوں اور لغزشوں سے جھاڑنے کے لیے‘ مغفرتوں‘ بخششوں اور رحمتوں کو سمیٹنے کے لیے ___ دل میں اعترافِ جرم کے احساس‘ جبین پر ندامت کے قطرے اور آنکھوں میں خشیت کے دیپ سجائے‘ سر جھکائے‘ ہاتھ اٹھائے سوچ اور عمل کی تعمیر و تطہیر کے جذبے سینے میں چھپائے___ راہبر و رہنما___ آقا و مولا___ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن پاکیزہ نقوشِ سیرت اور روشن روشن اُسوہ اور قدم قدم ہدایت کے منور راستوں‘ باتوں اور حدیثوں میں روشنی کی منزل‘ ہدایت کی قندیل اور عمل کی راہیں تلاش کریں!!

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ ___ جب رمضان سایہ فگن ہوتا ہے تو___

فُتِحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ ‘ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ___ جنت: ہرمومن مخلص کی اول و آخرت شدید تمنا!  یَطْمَعُ کُلُّ امْریٍٔ مِنْھُمْ اَنْ یُدْخَلَ جَنَّۃَ نَعِیْمٍ - ہر شخص جنت میں داخلے کا آرزومند! وہی اس کا وارث‘ وہی اس کا مستحق ___  اُسی کے لیے تیار و ہموار! جنت تو ہے ہی اللہ کے نیک بندوں کی___ بڑی بدنصیبی ہے کہ وہ اپنے اعمال کے سبب اس سے محروم رہیں۔ بندئہ مومن اپنی کوتاہیوں کا ادراک و استغفار کرکے رمضان کے موسمِ بہار میں جنت میں داخلے کا ساماں کر سکتا ہے۔ جنت کے بہت سارے دروازے ___  بندئہ مومن کے باعزت داخلے کے لیے___ مگر ایک خاص دروازہ ___  باب الریان ___ جو صرف اہل صوم یعنی روزے داروں کے لیے مخصوص ___ لَا یَدْخُلُہٗ اِلاَّ الْصَّائِمُوْنِ ___ ان کے سوا کسی اور کو یہاں سے داخلے کی اجازت نہ ہوگی۔ بندئہ مومن رمضان کی سعید ساعتوں میں اپنے اخلاص و اسلام (سپردگی اور اطاعت ِ کامل) کا اس قدر بکثرت مظاہرہ کرے کہ وہ ان آٹھ بہشتی دروازوں میں سے کسی ایک بالخصوص باب الریان سے داخلے کا مستحق قرار پائے!

غُلِّقَتْ اَبْوَابُ جَھَنَّمَ ___ جہنم کے دروازے بندئہ مومن کے لیے بند کر دیے جاتے ہیں! جہنم تو ہے ہی ناشکروں‘ محسن کشوں‘ ناسپاسوں کے لیے___ ! جو اپنے عمل سے اور کردار سے دعوت حق ٹھکرانے‘ اس سے فکری و عملی اعراض کرنے اور اپنے مالک و خالق کی نافرمانی کے رویے سے اس کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ کچھ اہل ایمان بھی___ غفلت اور شیطان کی چالوں کا شکار ہو کر ان کے رفیق و قرین بن کر جہنم کے دروازوں کے قریب ہو جاتے ہیں___  فَسَآء قَرِیْنًا یہ دوست بھی بے حد بُرے‘  وَسآئَ تْ مَصِیْرًا ___ اور جہنم بدترین ٹھکانہ ___ بندئہ مومن کے لیے یہ بشارت بھی ہے کہ موت کے آخری لمحے سے پہلے جہنم کے بالشت بھر فاصلے پر پہنچ جانے کے باوجود وہ اپنے اخلاص و حسنِ عمل سے جہنم سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ رمضان کا مہینہ اُسے یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ توبہ و استغفار کے ذریعے جنت سے قریب اور جہنم سے دُور ہو جائے۔ اَللّٰھُمَّ اَجَرْنِیْ مِنَ النَّار یَامُجِیْرُ یَامُجِیْرُ یَامُجِیْرُ ___  کی دُعا اِسی راستے کی صداے نجات ہے!

سُلْسِلَتِ  الْشَیَاطِیْنَ ___ شیطان جکڑ دیے جاتے ہیں___ !شیطان تو بندئہ مومن کا کھلا دشمن ہے___  عَدُ وٌّ مُبِیْنٌ___ بڑا بااثر‘ چال باز‘ اور بڑا متاثر کن بلکہ گمراہ کن‘ بدترین دوست اور قبیح ترین دشمن ہے۔ اللہ کا کھلا باغی‘ مغرور‘ متکبر‘ سیہ کار و بدکار ہے۔ اہل ایمان کواسی سے سب سے زیادہ محتاط و خبردار رہنے کی ہدایت کی گئی۔  فَاتَّخِذُوْہ عَدُوًّا ___  اسے دوست نہیں___  دشمن ہی سمجھنا!!

رمضان میں وہ ماحول اور فضا قائم ہوتی ہے‘ جو شیطان کے لیے اللہ کے مخلص بندوں کو بہکانے اور گمراہ کرنے میں سازگار اور معاون نہیں رہتی۔ اللہ کے بندے اپنے رب کے حضور حاضر اور اس سے وابستہ رہتے ہیں۔ شیطان کا کام مشکل بلکہ ناممکن بن جاتا ہے‘ البتہ بدبخت و محرومین کے لیے شیطان کی کارگزاریاں موثر ثابت ہوتی رہتی ہیں۔ اللہ کا ذکر___ قرآن کی تلاوت ___ موت کے بعد حاضری اور جواب دہی کا احساس‘ تصور اور یقین ___  بندئہ مومن کے لیے شیطان کے حملوں سے بچنے کا کارگر نسخہ ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ وہی پیغام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور فرمانِ عالی شان:  الصوم جُنَّۃٌ ___  روزہ ڈھال ہے___  میں مستور ہے۔ رسولؐ اللہ کا یہ فرمان کس قدر برحق اور لائق صداحترام ہے کہ روزہ بندئہ مومن کے گرد ایک ایسا ہالہ‘ حصار اور حدِّفاصل باندھ دیتا ہے‘ جو اُسے آلودئہ خطا ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔ اُسے ہدایت ہے کہ روزے کی حالت میں اگر کوئی اُس سے لڑے‘ گالی دے‘ یا آمادئہ معصیت کرے___  وہ فقط اِسی ڈھال کو اپنے وجود کے گرد تان لے___  اِنِّیْ امرُؤ صَائِمٌ ___  اے شیطان کے چیلے! میں تیری چال کا شکارہرگز نہیں بن سکتا کیونکہ میں روزے سے ہوں___  اللہ کی پناہ میں ہوں اور روزے کے حصار میں ہر خطرے سے محفوظ ہوں___ !

اے نیکیوں کے طلب گار اور جنت کے متمنی!!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہدایت بھی پیش نظر رہے! جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو فلایرفث___ تو بُری بات نہ کہے___  ولا یضحب لڑائی جھگڑا اور دنگا و فساد نہ کرے۔ برائی زبان اور ہاتھ دونوں سے___  اس کے قریب نہ پھٹکے۔اگر کوئی اُسے مجبور کرے تو کہہ دے___  انی امرؤٌ صَائِمٌ___  میں تو روزے سے ہوں___ ! زبان کی برائی ہمیشہ بڑے فساد کا سبب بنتی ہے۔ زبان کا یہی غلط استعمال جنت سے محرومی کا سبب بنتا ہے۔ اسی لیے حفاظت لسان پر جنت کی ضمانت دی گئی ہے! برائی کا یہ معمولی آغاز‘ حدود اللہ سے تجاوز اور جہنم میں داخلے کا سبب بن جاتا ہے۔ اے اللہ! ہمیں زبان اور ہاتھ کے غلط استعمال سے محفوظ رکھ۔ رمضان___  اسی تربیت کا ایک موثر نصاب ہے۔ روزے کا احساس بندئہ مومن کو براہِ راست اللہ کی نگرانی‘ پناہ اور حفاظت میں دے کر بندئہ مومن کو گناہوں سے اور برائیوں سے ہمیشہ کے لیے بچتے رہنے کا عادی بنا دیتا ہے!!

اَوَّلَہٗ رَحْمَۃٌ ___ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا پیام ہے___  رمضان کے آتے ہی رحمتوں کے دَر کھل جاتے ہیں۔ قدم قدم پر رحمتیں سایہ فگن ہو جاتی ہیں۔ نیکی کے بے شمار مواقع میسر آتے اور بے پناہ‘ کئی گنا اجر و ثواب کا باعث بنتے ہیں۔ برائیوںسے نفرت کا جذبہ اُبھرتا‘ اور اس اجتناب کا داعیہ پیدا ہونا___ یقینا اللہ کی رحمت ہے۔ اذان کی آواز___ باجماعت نمازوں کے غیرمعمولی روح پرور مناظر‘ تلاوت قرآن کی صدائیں‘ توبہ و استغفار کی دعائیں‘سحر و افطار کے پُرکشش مناظر___  بندگی و اطاعت کے مظاہر___ یہ سب اللہ رب العالمین کی وسیع رحمتوں کے لازوال اشارے ہی تو ہیں___ !

اَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ___  رمضان کا دوسرا عشرہ۔ مغفرت___گناہوں سے بخشش طلبی کا شان دار موقع ہے___ رحمتوں سے فیض یاب ہونے والا بندئہ مطیع و سلیم اب اپنی دعائوں اور مناجاتوں‘ تلاوتوں اور نمازوں کی باقاعدگی اور روزوں کی پابندیوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ اب اس بات کا سزاوار اور اہل ٹھہرتا ہے کہ بارگاہ ذوالجلال میں دست ِ دُعا دراز کرسکے۔ اپنی خطائوں پر عرقِ ندامت بہا سکے‘ اپنی لغزشوں کا اعتراف کر سکے‘ اور پھر توبہ و استغفار کے ذریعے مغفرت کی درخواست پیش کر سکے!

بشارت ہے اے بندئہ مومن و مخلص تیرے لیے___ !  مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ___  وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَلَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ___  اگلے پچھلے تمام گناہوں سے مغفرت مشروط ہے رمضان المبارک میں پورے اخلاص اور سچائی کے بے لوث جذبوں کے ساتھ اللہ کے حکم پر مکمل ایمان‘ اُس کی عظمت و قدرت کے مکمل ادراک‘ اس کی رحمتوں اور مغفرتوں کی بھرپور تمنائوں اور اُمیدوں‘ اپنی خطائوں اور بدعملیوں کے مکمل اعتراف و احساس‘ ندامت اور شرمساری‘ آیندہ نہ کرنے کے عزم و اقرار کے ساتھ___ ! اگر بندئہ مومن ان جذبوں سے آشنا ہو جائے تو پھر رمضان کے دنوں میں بھوک‘ پیاس برداشت کرنا‘ لذتوں اور راحتوں سے دُور رہنا‘ گناہوں اور خطائوں سے اجتناب کرنا اور راتوں کو تراویح و تہجد میں سر نیاز خم کرتے رہنا‘ چپکے چپکے آنسو بہا بہا کر رحمت و مغفرت کی التجائیں کرنا___ اُس کے لیے گناہوں سے کفارے اور نجات کا موجب ہوگا___ 

وَآخِرُہ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ___  رمضان کا آخری عشرہ۔ اللہ کی عنایتوں اور عطائوں کے عروج کا زمانہ ہے۔ صرف آخری عشرہ ہی نہیں___ ترمذی کی ایک روایت کے مطابق:  لِلّٰہِ عُتَقآء مِنَ النَّارِ - وَذٰلک کُلَّ لَیْلَۃٍ___ رمضان کی ہر رات اللہ کی رحمت اپنے جوبن پر ہوتی اور بندئہ مخلص کے لیے آگ سے نجات اور رہائی کا سبب بنتی ہے۔

اے بندئہ مومن! اے نیکیوں کے طلب گار!! اے نجات و غفران کے متمنی!! تجھے آخر اور کیا چاہیے؟ ایک بندے‘ ایک غلام کو آقا و مولا کی رضا اور اس کی مغفرت کے علاوہ کچھ اور عزیز و مطلوب ہونا ہی نہیں چاہیے!! جہنم سے آزادی کا یہ پروانہ یقینا رمضان کے بعد اس کی پابندیوںکو بھلا دینے اور ایک بار پھر شیطان کی غلامی اور دنیا کی اسیری کا اجازت نامہ ہرگز نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو خَسِرَ الدُّنیَا وَالآخِرَۃ___ اے بندئہ مومن! تیرا تو بڑا ہی گھاٹا ہوگیا___  دنیا بھی تباہ ہوئی___ عقبیٰ بھی برباد___  نہ ہی خدا ملا‘ نہ وصالِ صنم!! جہنم سے یہ آزادی تو مشروط ہے۔ رب کائنات و منعمِ حقیقی کی مستقل وفاداری‘ وفا شعاری اور کامل اطاعت گزاری سے!

اے روزہ دار___  بندئہ مومن!

تیرے لیے نیکیوں کے اس موسم بہار میں خوشیوں‘ فرحتوں کے بے شمار لمحے ہیں۔ اس کا ہر روز روز عید‘ ہر عید شب برأت‘ ہر عمل باعث نجات___ مگر خاص طور پر دو مواقع تو خوشیوں کی انتہا قرار دیے گئے۔ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَان ___  روزہ دار کے لیے دو خوشیاں۔ فَرْحَۃٌ عِنْدَ فِطْرَہ ___ ایک خوشی آقا و مولا کے حکم کی بے لوث‘ بے ریا‘ بے خطا تکمیل پر رمضان کی ہر شام ڈھلنے پر___ اذان کی آواز بلند ہونے___  روزہ افطار ہونے پر___  اور دوسرا  فَرْحَۃٌ عِنْدَ لِقَائِ رَبِّہِ ___  اپنے اَن دیکھے آقا و مولا‘ جس کی اطاعت و فرماں برداری میں تو نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ بسر کیا‘ جس کی خاطر دنیا کو ٹھکرا دیا‘ اس کی ہر زیب و زینت کو مسترد کر دیا‘ اپنے نفس کو اللہ و رسول کی مرضی کے تابع بنا کر خواہشات سے دُور رکھا۔ اللہ کی خاطر محبت‘اسی کی خاطر نفرت‘ اُسی کی رضا مقدم‘ اُسی کی جانب کامل توجہ‘ اُسی کے حکم کی پاسداری‘ اُسی کے دین کے غلبے کی جدوجہد‘ اُسی کے نام کی سربلندی کے لیے کوشش___  اُسی سے زندگی کی ہر اُمید‘ ہر تمنا‘ ہر درخواست اور ہر خواہش کی وابستگی‘ اُسی کے در پر جبین نیازخم‘ اور اُسی کے فیصلوں پر صابر و شاکر۔ اُسی کا پروردہ اور اُسی کا غلام___ جسم و جاں‘ فکروعمل‘ قلب و نظر___ ہر ایک اُسی کے اشاروں کے تابع۔ اُسی عظمت و جبروت کے مالک سے ملاقات___ اس کی بارگاہ میں حاضری___  اُسی کا سامنا‘ اور اُسی کی رضا کی عطا کا لمحۂ سعید!! اپنے رب کا دیدار اور اس سے ملاقات!!  ___  سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم!!

اے نیکیوں کے طالب___ ! خوش ہو جا کہ رمضان اور قرآن دونوں تیرے لیے شفیع بن جائیں گے‘ اُس روز جب کوئی سفارش‘ فدیہ اور مدد و معاونت کام نہ آئے گی!

پیغمبر اور رسول‘ ولی اور قطب‘ شقی اور سعید‘ صالح اور بد‘ مومن و کافر سب ہی میدان حشر میں‘ نفسانفسی کے عالم میں مضطرب‘ بے قرار اور کانپتے ہوں گے۔ اذنِ الٰہی کے بغیر کوئی بھی ایک لفظ کہنے کی جرأت نہ کر سکے گا۔ ہر شخص شفاعت کا منتظر‘ اور متمنی ہوگا‘ ایسے میں اے روزہ دار___  الصَّیِامُ وَالْقُرآنُ یُشْفِعَان لِلْعَبْدِ___  قرآن اور روزے بندئہ مومن کے سفارش بن جائیں گے۔ روزہ کہے گا اے رب! میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور شہوات نفس سے باز رکھنے کو کہا تو یہ بندہ اس کو بجا لایا۔ میری سفارش قبول کر۔ قرآن کہے گا___  اسے میں نے راتوں کو نیند سے دُور رہنے‘ مجھے پڑھنے‘ سننے‘ سمجھنے اور غوروفکر کرنے کی دعوت دی‘ تو تیرا یہ اطاعت شعار بندہ اس کو بھی مان گیا___ لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش بھی قبول کر___ ! اے نیکیوں اور مغفرتوں کے طلب گار! تیرے پُرخلوص روزوں کے صدقے رب العالمین تیرے حق میں یہ دونوں سفارشیں قبول کرلے گا___ ! اگر تو نے کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرا دیا تو بھی تیرا اجر ویسا ہی۔اگر کسی کو پانی پلا دیا تو قیامت کے روز اللہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوضِ کوثر سے پانی نصیب کرے گا‘ پھر تو کبھی پیاسا نہ رہے گا یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔

اے روزہ دار ___ ! تیری عظمت اور اللہ کے ہاں تیری قدرومنزلت کے کیا کہنے!! تیرے روزے اور بھوک پیاس کے سبب تیرے منہ کی بساند بھی اللہ کو مشک و عنبر سے زیادہ محبوب۔  لَخَلُوفُ فَمِ الصَّائِمَ اطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِن رِیح یمسک___  اور رمضان کے اس عظیم مہینے اور اس کی رفعتوں کا نقطۂ عروج و کمال___  لَیْلَۃُ القَدْرِ - خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ شَھْرٍ۔ ایک بے پناہ اجر و ثواب‘ انسان کے فہم و شعور کی حدود سے کہیں بڑھ کر عظمتوں کی حامل ہزار مہینوں کی عبادتوں سے کہیں زیادہ برکتوں کی رات‘ تاحد فرش و عرش فرشتوں کے غول در غول‘ جبریل ؑ امین کی آمد___ اور عرشِ الٰہی پر اپنے بندوں کی عبادتوں‘ ریاضتوں اور اطاعتوں سے آگاہ ہونے اور اُن کے قریب تر ہونے کے لیے اللہ ذوالجلال والاکرام کی تشریف آوری___  سَلامٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْر___ کائنات کے ہر اطاعت شعار‘ وفادار اور عبادت گزار کے لیے طلوع فجر تک امن و سلامتی‘ بخشش و عطا‘ رحمت و مغفرت کی نہایت قدرومنزلت‘عزت و عظمت اور شرف و مرتبت والی رات___ !!

اے نیکیوں کے طلب گار! آگے بڑھ! اور اس شب وصل کی ساری لذتیں‘ ساری نعمتیں___  اپنے دامن میں سجا لے۔ رحمتوں کی اس برکھا سے اپنے مَن کو بھی سیراب کرلے! بجا کہ اس شب ِ قدر کی سعادتیں‘ رحمتیں اور مغفرتیں لامحدود___ اور تیراظرف___ بہت ہی محدود___! مگر ___ آگے بڑھ اپنے دامن میں جس قدر سمیٹ سکے‘ سمیٹ لے۔ اگر تو اس شب کی سعادتوں اور خیروبھلائی سے محروم رہ گیا___  تو فَقَدْ حُرِمَ الخَیْرَ کُلَّہٗ ___ سب کچھ اکارت گیا‘ ساری ریاضت بے ثمر رہی اور تیرا دامن خالی ہی رہا۔ یہ بڑی محرومی اور بڑی بدبختی ہے!

شب ِ قدر کا ہر لمحہ ___  رب کی رضا‘ قبولیتِ توبہ اور رحمت و غفران کا لمحہ ہے! اس رات کی ہر ساعت گراں قدر اور بیش بہا ہے۔ ممکن ہے آسمان سے کوئی نور بھی برستا ہو۔ کوچہ و بازار‘ گلیاں‘ محلے‘ سڑکیں شاہراہیں‘ آسمان و زمین کی وسعتیں روشن ہو جاتی ہوں۔ مگر___ شب قدر میں اصل روشنی اور نور تو انسان کے اپنے اندر پھوٹتا ہے! اس کی وفاشعاری‘ اطاعت گزاری‘ اخلاص نیت و عمل‘ اس کی بے لوث ریاضت و عبادت‘ اُس کی خفیہ وعلانیہ دعا و مناجات___ اُس کے قلب و نظر کو روشن و منور کر دیتے ہیں___ محض تسبیح کے دانے‘ ماتھے کے محراب اور حضوری و شوق‘ اضطراب و تڑپ سے عاری سجدے‘ مفہوم و معانی سے محروم تلاوت‘ خشیت و اخلاص سے خالی ذکر___ لیلۃ القدر کی عظمتوں سے ہمکنار نہیں کرسکتے!!

رمضان کی کسی بھی شب‘ کسی بھی ساعت___ اور بالخصوص آخری عشرے کی طاق راتوں کے مخصوص لمحات میں اگر اے بندئہ مومن! تیرے دل کو سُراغ زندگی مل جائے‘ ہدایت کی روشنی نکھر آئے‘ فکروعمل اور مقصدِحیات کا شعور عطا ہو جائے‘ نیت کا خلوص اور عمل کا جذب و کیف اور داعیہ پیدا ہو جائے۔ تو سمجھ لے کہ یہی شب قدر ہے جس نے تجھے بدل کر رکھ دیا ہے‘ تیری شب ِ تاریک کو سحر کر دیا ہے۔ تجھے یہ رات مل بھی جائے___ ! مگر تیرے اندر انقلاب پیدا نہ ہو‘ تحریک و اضطراب برپا نہ ہو۔ یہ فقط رَت جگا ہے! دکھلاوا___  ریاکاری اور رسمِ دنیا ہے___ لیلۃ القدر کی عطا نہیں___ اس سے محرومی ہے!!

اے نیکیوں کے طلب گار ! اس شب کو اگر تجھے دل کا سرور اور ہدایت کا نور عطا ہو تو ہاتھ پھیلا کر فقط یہی دعا کرنا___  اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفْوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ___ اے مالک! تو بڑا بخشنے والا ہے‘ معافی کو پسند کرتا ہے‘ بس! مجھے اور کچھ نہیں صرف تیری مغفرت چاہیے۔ یہی سب سے بڑی نعمت مجھے بھی عطا کردے!!

اے نیکیوں کے طلب گار! تیرے خلوص اور وفاشعاری کے جذبوں کے لیے ایک اور مژدئہ جانفزا___  الصَّوْمُ لِیْ وَانَا اَجْزِیْ بِہٖ ___ روزہ تو ہر ریا سے پاک‘ نمایش کے ہر خدشے سے مبرا اور شرکت کے ہر شائبے سے خالی___  فقط میرے لیے ہے! لہٰذا میں اپنے تمام ضابطوں‘ قاعدوں اور طریقوں سے مختلف ___ تیرے خیال و شعور سے کتنا ہی آگے‘ بے حدوحساب ___  اجر و جزا سے نوازوں گا___ بلکہ اَجْزِیْ بہٖ ___  میں مالکِ ارض و سما‘ اپنے آپ کو تیرابنا دوں گا تو میرا بن گیا‘لے! میں بھی تیرا ہو گیا___  بتا! تجھے اب اور کیا چاہیے!! تو نے میری خاطر اپنی نیند‘ آرام‘ خواہشاتِ نفس‘ کھانا پینا‘ سب کچھ قربان کر دیا۔ میری ہی بارگاہ سے وابستہ اور پیوستہ رہا___  دیکھ! تیری وفائوں کا کتنا بڑا صلہ دیا ہے میں نے!!

اے بندئہ مومن!! اے نیکیوں کے طلب گار!!

رمضان تیری وفائوں‘ شکرگزاریوں اور ایمان و عمل کا امتحان ہے! تیرے اخلاص و محبت کے دعوئوں کی آزمایش ہے۔ کھرے اور کھوٹے کی کسوٹی ہے۔ کون ہے جو رب کی بارگاہ میں تسلیم و رضا کے ساتھ سر خم کیے رکھتا ہے‘ اور کون ہے جو رمضان کی سعید ساعتوں اور قدم قدم مغفرتوں کے مواقع کے باوجود اپنا دامن خالی رکھتا اور اپنے مقدر میں دین و دنیا کی محرومیاں لکھ لیتا ہے!

رمضان ___ شکرگزاری‘ تقویٰ اور ہدایت کا صراطِ مستقیم ہے___ جس کی تمنا اللہ کی حمدوثنا کرنے والا ہر بندئہ مومن  اھدنا الصراط المستقیم ___کی دعائوں کے ساتھ کرتا ہے۔

رمضان ___ کتاب ہدایت ___ قرآنِ عظیم کی تعلیمات سے آگاہی‘ غوروفکر اور تدبر کا مہینہ ہے۔ دلوں کے زنگ دُور کرنے اور بصیرتوں کے قفل توڑنے‘ فکروشعور کی جلا اور علم و عمل کی راستی کا ساماں کرنے کا مہینہ ہے۔

رمضان ___ معاشرے کی اصلاح‘ غلبہ حق کے جذبے سے سرشاری‘ اقامت دین کی جدوجہد اور دعوت و تحریک کا مہینہ ہے۔ برائی کی سرکوبی اور نیکی کے فروغ کی تحریک برپا کرنے کا عملی خاکہ ہے۔

رمضان ___  صبر وا ستقامت‘ ہمدردی و غمگساری ‘ اخوت و محبت‘ نصرت و معاونت‘ اخلاق و مروت‘ ایثار و قربانی کا پیام بر ہے۔

اے نیکی کے طلب گار___ ! آگے بڑھ!

رمضان اپنی تمام تر عظمتوں‘ فضیلتوں‘ رحمتوں‘ مغفرتوں‘ سعادتوں اور نعمتوں کے ساتھ تیرے درِ دل پر دستک دے رہا ہے۔ آگے بڑھ اور اس کی تمام برکتوں کو سمیٹ لے___ تیرے بخت بڑے ہیں کہ تیری زندگی میں ایک بار پھر یہ لمحات تجھے عطا ہو رہے ہیں۔

اِنَّ المُسلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَات … وَالصَّائِمِیْنَ وَالصَّائِمَاتِ … اَعَدَّ اللّٰہ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً واجرًا عظیمًا___  اللہ نے فرماں بردار مرد و عورت… روزے دار مرد و عورت کے لیے مغفرت اور اجرعظیم کا سامان تیار کر رکھا ہے!!

یاباغی الشر اقصر! اور اے بدی کے طلب گار___ رُک جا!

اے غافل و بے خبر بندئہ مومن!! ٹھہر جا___ ذرا پیچھے مڑ کر تو دیکھ___ رمضان تجھے بھی پکار رہا ہے۔ اپنے عفو کرم میں تجھے بھی سمیٹنے کو تیار ہے۔ گمراہی‘ بدی‘ معصیت کے راستوں اور شیطان کی رفاقتوں کے چنگل سے واپس پلٹ آ۔ تیرے جرمِ خانہ خراب کو اُسی رب رحمن و رحیم کی بارگاہ سے عفووکرم کی امان  مل سکتی ہے۔ رمضان کے یہ بابرکت لمحات___  تیری واپسی ہی کا تو سامان ہیں___  اللہ کو اپناپلٹ آنے والا خطاکار بندہ بہت محبوب ہے۔ ربِ غفور اپنے ہر بندے کو معاف کرنے‘ توبہ قبول کرنے اور بخش دینے والا ہے___ ! رُک جا‘ تھم جا___ اور بلاتاخیر اُس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجا___ یہی رمضان کا پیغام ہے۔

آنے والا رمضان ___ اُمت مسلمہ کے لیے حد درجہ اہم‘ روشنی کی کرن اور اُمید کی صبح بن کر طلوع ہو رہا ہے! اللہ کرے! اُمت کی دعائیں مقبول ہوں۔ خطائوں سے درگزر اور کوتاہیوں سے صرفِ نظر ہو۔ لغزشیں معاف ہوں۔ انفرادی بھی اور اجتماعی بھی! اُمت مسلمہ  مع العسر یسرًا کی صبح روشن دیکھے۔ اس کی آزمایشیں کم ہوں___ اور سرزمین پاک سے وحدتِ اُمت اور غلبۂ حق کا وہ خواب تعبیر بن جائے‘ جو صدیوں سے اُمت کے کروڑوں بندگانِ ایمان و اخلاص دیکھتے چلے آ رہے ہیں اور ہر سال رمضان کی سعید ساعتوں میں جس کی تمنا کرتے رہے ہیں۔ خدا کرے نیکی کے یہ طلب گار آگے بڑھ کر ___ پورے عالم کو نیکیوں کے غلبے سے معمور کر کے‘ نغمہ توحید کو سربلند اور ظلمتِ شب کو چاک اور کلمۂ حق کو نافذ کرسکیں۔ آمین!