یَابَاغِیَ الْخَیْرِ اَقْبِلْ ___ اے نیکی کے طلب گار آگے بڑھ!! سعادتوں اور عظمتوں‘ برکتوں اور مغفرتوں کے وہ سعید لمحے ‘ وہ جانفزا شب و روز‘ وہ رُوح پرور نظارے پھر سے اس کائنات پر جلوہ فگن ہونے والے ہیں‘ جن کی عظمتوں کا کوئی حساب نہیں‘ جن کی برکتوں کا کوئی شمار نہیں!! یہ خبر یقینا تیرے قلب و جاں کے لیے باعث راحت و سکون ہوگی کہ فضیلتوں کا حامل شہرعظیم ___رمضان___ ایک بار پھر تیری زندگی کے مستعار لمحوں میں تجھے اپنی نجات کا سامان کرنے کی دعوت دینے سایہ فگن ہونے والا ہے۔ وہی مہینہ جس کی آمد پر سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم جھوم اٹھتے۔ شعبان کے آخری دنوں میں خطبہ ارشاد فرماتے___!
قَدْ اَظَلَّکُمْ شَھْرٌعَظِیْمٌ مُبَارکٌ ___ لوگو! تم پر ایک عظیم اور مبارک مہینہ اپنی عظمتوں اور برکتوں کا سائبان کھولنے آ رہا ہے___!
یقینا یہ مہینہ عام مہینوں سا‘ اس کے شب و روز عام دنوں کی طرح ہیں___ اُن لوگوں کے لیے جو اُس کی عظمت سے ناآشنا ہیں! اپنی عاقبت و آخرت کی بجائے‘ دنیا کی زیب و زینت کے شکار‘ اس کی زُلفِ گرہ گیر کے اسیر‘ اس کے پیچ و خم میں اُلجھے ہوئے‘ اس کو کمانے کی فکر میں غلطاں و پریشاں‘ اسی کی دوڑ میں بگٹٹ بھاگے چلے جا رہے اور اسی کی محبت میں ہلکان ہو رہے ہیں۔ وہ لوگ جو مقصدِحیات کے شعور سے عاری‘ زندگی کی قدروقیمت سے غافل اور حیاتِ مستعار کی قیمتی ساعتوں کی اہمیت سے بے خبر ہیں۔ یقینا اُن کے لیے یہ مہینہ عام سا ہے___!
لیکن ___ اے نیکی کے طلب گار! یہ شہرعظیم ___ تیرے لیے بے شمار نعمتوں اور سعادتوں کا پیام لارہا ہے___ ! کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْصِّیَامُ___ روزے پہلی اُمتوں کی طرح سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہراُمتی پر فرض کر دیے گئے ہیں۔ جسے اپنی زندگی میں یہ سعید لمحے میسر آجائیں ‘ اس کی خوش بختیوں اور نیک نصیبوںکے کیا کہنے___! اس پر لازم ہے کہ فَلْیَصُمْہُ ___ وہ روزے ضرور رکھے!!
اے نیکی کے طلب گار ___ ! تو بڑا خوش نصیب ہے ‘ جو اس عظیم موقع سے فیض یاب ہو رہا ہے___ ورنہ کتنے ہی اللہ کے بندے اس تمنا کو دل میں چھپائے اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون! آگاہ و خبردار رہ‘ ہوشیار ہو جا کہ ان سعید ساعتوں سے فیض یاب ہونے میں کوتاہی نہ ہونے پائے۔ زندگی کا کیا بھروسا! یہ مبارک لمحے پھر میسر آئیں یا نہ آئیں! کمرہمت باندھ لے۔
اے بندئہ مسلم! اطاعت و تسلیم کے خوگر مومن! رمضان تیری تسلیم و رضا کا اظہار بھی ہے___! تو نے اسلام قبول کر کے شعوری طور پر خود کو مالکِ ارض و سما کے حوالے کر دیا۔ اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ‘ حَنِیْفاً ___ اس کامل عبودیت اور یکسوئی کا تقاضا ہے کہ اپنے آقا و مولا کے فرض کردہ اس حکم پر عمل کے لیے کمربستہ ہو جا___ بُنِیَ الِاسْلاَمُ عَلٰی خَمْسٍ___ شَھَادَۃُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ… وَصَومُ رَمضَانَ… آنحضورؐ کا یہ فرمانِ عالی شان تیرے پیش نظر رہنا چاہیے کہ روزہ اسلام کی بنیادوں میں سے ہے۔ اس کے بغیر تیری بندگی اور اطاعت نامکمل ہے! اسلام اپنے ماننے والوں کو جس عظیم مقصدِحیات ___ کلمۃ اللّٰہ ھی العلیا ___ اللہ کے کلمے کا غلبہ___ اُسی کے حکم کا چلن‘ اُسی کے دستور و قوانینِ حیات کا نفاذ___ اُسی کو حلال و حرام کا اختیار‘ اُسی کی رضا کی طلب___ اُسی کی عظمت‘ اُسی کی کبریائی سے آگاہ کرتا‘ اور اُسے بجا لانے کا تقاضا کرتا ہے۔ روزہ اُسی جہاد کی تربیت کا ایک پہلو اور نشانِ منزل ہے۔ بندئہ مومن و مسلم کے خلوص کا اظہار اور آقا و مولا کی قبولیت کا اعلان! اللہ نے اس ماہِ تقدس کے روزوں کو فرض اور نالۂ نیم شبی کو بندے کے اظہار عبدیت کا نشان قرار دیا ہے۔ جَعَلَ اللّٰہُ صِیَامَہٗ فَرِیْضَۃً ___ وَقِیَامَ لَیْلِہٖ قَطُوَّعاً ___! تطوع___ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں بندے کی وارفتگی اور پُرخلوص وابستگی کا عملی اظہار ہے۔
فرض عبادت تو بہرطور کرنا ہی ہے کہ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں۔ اسلام میں داخلہ پورا نہیں۔ جیسے جیسے اے بندئہ مومن تیرا دل رب سے آشنا ہوتا چلا جائے‘ تیری راتیں بے قرار ہو جائیں‘ تیرے سینے میں عبدیت کے اظہار کے مظاہر مچلنے لگیں‘ تیرے جسم کو تیرے بستر پر سکون نہ ملے‘ تو تڑپ تڑپ کر رات کے اندھیروں میں بارگاہ رب العزت میں قیام و سجود‘ دعا و مناجات‘ حمدوثنا‘ تسبیح و استغفار میں مشغول ہو جائے۔ کوئی دیکھنے والا نہ ہو‘ اس کے سوا۔کوئی سننے والا نہ ہو‘ اُس کے بجز___ وہ اور تو___ آمنے سامنے! اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَانَّکَ تَرَاہُ ___! ایسے جیسے مالک و مختار‘ آقا و مولا نگاہوں کے سامنے بالکل پاس۔ اگر تجھے شعور کی یہ دولت نصیب ہو جائے تو یاد رکھ: نَحْنُ اَقْرَبُ اِلیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ‘ ہم تو اپنے بندے کی شہ رگ سے بھی قریب تر ہیں___ اگر تو اُسے اپنے سامنے‘ قریب نہیں پاتا‘ محسوس نہیں کرتا‘ بھٹکتا رہتا ہے___ تو بتا___ قصور تیرا ہے یا اُس کا جو تیری رگِ جاں سے قریب‘ تیری ایک پکار پر لبیک کہنے‘ نچھاور ہوجانے کے لیے تیار___ اِذَا سَئَالَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ___ تیری دعائوں کے ایک ایک لفظ کو پورا کرنے والا___ آمادہ و تیار___ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَ ادَعَانِ ___ !اے نیکیوں کے طلب گار! رمضان کی راتوں میں___ آگے بڑھ اور محبتوں کے اس غیر رسمی تقاضے کی تکمیل کا پختہ ارادہ کر لے! رسمی ایمان کے تقاضے یقینا کچھ اور ہیں اور محبت‘ اطاعت اور تسلیم و رضا کی تکمیل کے مظاہر کچھ اور___ ! مَن کی اسی موج اور عبدیت کے اسی اظہار کے تقاضے نے کائنات کے سب سے محترم‘ معظم اور معصوم عن الخطاء صلی اللہ علیہ وسلم کو بارگاہِ الٰہی میں اَفَلاَ اَکُونَ عَبْدًا شَکُوْرًا ___ کے جذبے کے ساتھ راتوں کو کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا___!
اے نیکیوں کے طلب گار! رمضان کی ان خوب صورت ساعتوں میں خود کو قیام اللیل کا اس قدر خوگر بنالے کہ تجھے اس کے سوا چین نہ آئے‘ کسی پل قرار نصیب نہ ہو۔ راحت ِ دل اور سکونِ جاں تجھ سے روٹھ جائیں___ سکون اور قرار ملے___ تو فرائض سے کہیں بڑھ کر نوافل کی ادایگی اور عبدیت کے اظہار کے ان بے لوث جذبوں اور طریقوں میں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان خَصْلَۃٌ مِنَ الْخَیْر ___ کا یہی مفہوم ہے! اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلوبُ ___ کا اس سے کارگر اور بہتر طریقہ اور کوئی نہیں۔ سکون و اطمینان‘ یکسوئی اور فراغت کے ان لمحوں میں اپنے رب سے ہم کلامی‘ رضاجوئی اور مغفرت طلبی سے مبارک کام شاید ہی کوئی اور ہو!
رمضان ___ شَھْرُ الصَّبْرِ ___ صبرواستقامت کا مہینہ ہے۔ اس میں انجام دی جانے والی عبادت کا نام ’’صوم‘‘ ہے۔ اس کے معنی باز رہنا‘ ترک کر دینا اور چھوڑ دینا___ یہ حقیقت تو بڑی واضح ہے کہ اللہ کو اپنے بندے کا کھانا پینا چھوڑ دینا ہرگز مطلوب نہیں‘ یہ تو محض ایک علامتی عمل ہے___ اطاعت و تسلیم و رضا کے اظہار کا۔ اصل مقصود تو ضبطِ نفس ہے‘ اپنی خواہشات ‘ تمنائوں اور کاموں کو ___ زندگی کے ہر لمحے کو ___ رب کے حکم کے تابع کر دینا۔ اپنے آپ پر اس قدر کنٹرول حاصل کر لینا کہ نفس کا بے لگام گھوڑا‘ اللہ و رسولؐکے مکمل سپرد اور تابع بن جائے‘ اُسی کی اطاعت کے دائرے کے کھونٹے سے بندھا رہے‘ اسی کے گرد چکر لگاتا رہے‘ اللہ کی مقرر کردہ حدود و قیود کا پابند ہو جائے۔ ان سے تجاوز سے گریزاں رہے‘ خواہشاتِ نفس نہ تو اُس پر غالب آئیں نہ دنیا کی زیب و زینت اور چمک دمک اُس کی نگاہوں کو خیرہ کر کے اپنے دامِ فریب میں گرفتار کر سکیں!
رمضان ___ استقامت کا مہینہ ہے! اطاعت و فرمانبرداری کے اعلان پر ڈٹ جانے کا مہینہ___ ہوا ہو گو تندوتیز لیکن‘ چراغِ حق جلائے رکھنے کا مہینہ___ ابتلا و آزمایش میں ثابت قدم رہنے کا مہینہ___ اصحاب بدر کی طرح غلبۂ حق کے لیے ہتھیلیوں پر نذرانۂ جاں لے کر ہر آگ میں کود پڑنے‘ ہر خطرے کو سہہ لینے اور ہر آزمایش میں سرخرو ہو جانے کا نام ہے___ رزمِ حق و باطل میں ۳۱۳ عالی قدر‘ پاکیزہ‘ عظمت و عزیمت کے پہاڑوں کی طرح اٹل ہو جانے کا مہینہ ہے۔
رمضان ___ اسی صبرواستقامت کے نتیجے میں قطار اندر قطار فرشتوں کے نزول‘ معاونت و موافقت اور عددی کم تری کے باوجود نصرت الٰہی کے لازوال اظہار کا مہینہ ہے۔ وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَاَنْتُمْ أَذِلَّۃٌ ___ یہ کَمْ مِنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ ___ اللہ کے حکم سے مخلص و مومن بندوں کے چھوٹے سے گروہ کے بھاری بھرکم لشکرِباطل پر غلبہ کے معجزاتی اظہار کا مہینہ ہے! لیکن شرط وہی ہے___ ایمان‘ اخلاص‘ تسلیم و رضا‘ صبرواستقامت___! پہلا معرکۂ حق و باطل___ شریعت اسلامیہ کے پہلے ماہِ رمضان میں برپا ہوا___ بھوک اور پیاس کے ساتھ ساتھ اطاعت و فرمانبرداری کا امتحان!
نیکیوں کا وہ طلب گار جو رمضان کے مہینے میں صبرواستقامت کے ان جذبوں اور طرزعمل سے محروم وناآشنا رہے۔ اللہ کو اُس کی بھوک‘ پیاس کی کوئی حاجت نہیں‘ نہ اُس کی بارگاہ میں اِس کی کوئی قدروقیمت ہے۔ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجۃٌ اَن یَّدَعَ طَعَامَہُ وَشَرابَہُ۔
رمضان ___ شَھْرُ الْمُؤَاسَاۃ___ ہمدردی اور خیرخواہی اور غم گساری کا مہینہ___ حلقۂ یاراں میں بریشم کی طرح نرم ہو جائے‘ اللہ کی مخلوق___ اللہ کے کنبے ___ اَلخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ ___ سے حسن سلوک کا مہینہ ___ اپنی بھوک پیاس پر قیاس کر کے دیگر محرومین‘ بندگانِ خدا کی ضروریات کا ادراک و احساس اور ان کی تکمیل کا مہینہ ہے۔ ہر صبح و شام سحروافطار کے لمحوں میں اِسی احساس کی بیداری کا نام کہ تمھارے دسترخوان پر سجی ہوئی خدا کی بے شمار انواع و اقسام کی نعمتیں ایک جانب ___ تو دوسری جانب کسی یتیم‘ بیوہ‘ مسکین‘ فقیر‘ حاجت مند کے گھر کا چولہا شاید نجانے کتنے دنوں سے آگ کی حدّت سے محروم ہو۔ کتنے گھروں میں فاقے ہوں‘ اور کتنے منہ نانِ جویں کے لیے ترس رہے ہوں!
اے نیکیوں کے طلب گار___ !یہی تو مہینہ ہے‘ قربانی دینے کا۔ حاجت مندوں کے دُکھ دُور اور حاجتیں پوری کرنے کا___ سیدنا علی ؓ کی طرح کئی دن کے مسلسل روزوں کے باوجود سائل کی صدا پر روٹی کے موجود چند ٹکڑے بھی قربان کر دینے کا۔ یہی تو حقیقی اہل ایمان ہیں جو یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ۔ اپنی شدید ترین ضرورتوں کے باوجود اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا دیتے ہیں۔ یہ تو عظمت اور عزیمت کی داستانیںہیں___ اللہ کو تو فقط اپنے بندے کا جذبۂ اخلاص مطلوب ہے۔ اس ماہِ محترم میں ہمدردی و غم گساری اور روزہ کھلوانے کے لیے خواہ دودھ کا ایک کٹورا ہو‘ یا کھجور کا ایک ٹکڑا___ یا پھر نمک کے چند دانے___ اللہ کی بارگاہ میں اُسی طرح محترم و معزز ہیں جیسے غزوئہ تبوک کے موقع پر ایک مسلمان کی شب بھر کی کمائی چند کھجوروں کا آدھا حصہ صدیق اکبرؓ کے گھر کے ذرے ذرے اور عمر فاروقؓ کے آدھے گھریلو سامان اور عثمانؓ غنی کے ہزاروں درہم و دینار اور اناج کے ڈھیر پر بھاری تھے!
اے بھلائیوں کے طلب گار! آگے بڑھ کر اس ماہِ محترم کا استقبال کر___کہ سعادتوں اور برکتوں کے یہ مواقع صرف تیری قسمت بنانے‘ تیرے نصیب جگانے کے لیے تجھے عطا کیے جا رہے ہیں۔ یقینا شیطان اپنی چالوں کو آزمائے گا۔ تجھے اپنی ضرورتوں کا شدت سے احساس دلائے گا___مگر یہ یاد رکھ___ اس مہینے میں ہر نیکی کا اجر ۷۰۰ گنا سے بھی زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ اور ارشاد نبویؐ ہے: شَھَرُ یُزَادُ فِیْہِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِیْنِ ___ اس مہینے میں مومن کا رزق معمول سے کہیں زیادہ کر دیا جاتا ہے___ ذراسوچو!___ چند کھجوروں‘ روٹی کے ٹکڑوں اور استطاعت کے مطابق مسکینوں اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کے عوض یہ سودا کس قدر نفع بخش ہے!! اور پھر آخرت کی مصیبتوں اور تکلیفوں میں سے کسی مصیبت اور تکلیف سے نجات___ سونے پر سہاگہ۔ مَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسلمٍ کُرْبَۃً… فَرَّجَ اللّٰہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِنْ کُرْبَاتِ یَومِ القِیَامَۃِ!!
کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ … لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ‘ اہل ایمان پر روزوں کی فرضیت کا ایک مقصد انھیں تقویٰ کا خوگر بنانا ہے۔ وہ جذبہ و احساس اور شعور بیدار کرنا ہے کہ وہ کارزارِ حیات میں سنبھل سنبھل کر چلیں‘ اپنے دامن کو بچا بچا کر دنیا کی شاہ راہوں پر سے گزریں‘اس کی گندگی اور آلودگی سے اپنی قباے کردار کو محفوظ رکھیں___ تقویٰ یقینا مختلف مظاہر رُسوم میں نہیں‘ نہ ہی عباو قبا‘ نہ تسبیح ومحراب اور نہ ظاہر کے مخصوص انداز میں پوشیدہ ہے۔ تقویٰ کا مرکز تو دل ہے‘ دل و نگاہ جو مسلمان نہیں‘ خوفِ خدا سے لبریز نہیں‘ اس کی حیا دامن گیر نہیں___ تو کچھ نہیں!!تقویٰ تو اِس احساس کا نام ہے کہ بندئہ مومن زندگی کے تمام اُمور سرانجام دیتے ہوئے‘ فرار کی ہر راہ سے بچتے ہوئے‘ جملہ فرائض ادا کرتے ہوئے‘ تمام ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے___ ہرقدم‘ ہر موڑ‘ ہر گامِ حیات پر___ اللہ کی عزت و عظمت‘ جلال و جبروت‘ اختیار واقتدار‘ طاقت و حکومت‘ سماعت و بصارت‘ حکمت و غلبے کے جملہ تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی فکر اور عمل کو اس کے احکام کے تابع اور اس کی مرضی و منشا کے مطابق رکھے ___ ! تقویٰ___ بندئہ مومن کے اس جذبے کا نام ہے کہ اُس کا رب اُسے وہاں نہ پائے جہاں جہاں سے اُس نے اُسے روک رکھا ہے۔ لَا یَرَاکَ مَوْلاَکَ حَیْثُ یَنْھَاکَ ۔ اے بھلائیوں کے متمنی اور نیکیوں کے طلب گار!!
رمضان اسی تقویٰ کی افزایش اور نشوونما کا چند روزہ آفاقی تربیتی نصاب ہے! اَیَّامًا مَعْدُوْدَاتٍ___ یہ چند روزہ مسلسل تربیت اس امر کا تقاضا ہے کہ رب کی رضا اور نیکیوں کے حصول کے لیے یہی صراطِ عمل تجھے اپنی زندگی کے باقی دنوں‘ شب و روز اور ماہ و سال میں اختیار کرنا ہے۔
یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ___ اللہ کریم رؤف الرحیم نے تیرے لیے اس نصاب کو حددرجہ آسان کر دیا ہے!جس دین میں تو داخل ہوا‘ جسے تو نے اختیار کیا___ وہ تودین فطرت ہے‘ تیری ضرورتوں‘ وسعتوں اور طاقتوں‘ مزاج‘ ماحول اور نفسیات کے مطابق___ کوئی بھی تعلیم‘ ہدایت اور حکم ایسا نہیں جو بندئہ مومن و مسلم مخلص پر گراں ہو___ ! الْدِّیْنُ یُسْرٌ ___ دین تو سراسر آسان ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے وارثانِ دین متین کو یہی ہدایت فرمائی۔ یَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا ___ دین کو آسان بنائو‘ مشکل نہیں۔ بَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا ___بشارتیں بانٹو‘ نفرتیں نہیں___ !! تو اے بندۂ مومن! تیرے آقا و مولا نے رمضان کی بے حد وحساب فضیلتوں والی ساعتوں میں تیرے لیے کتنی ہی آسانیاں پیدا کر دیں___ کوئی مریض ہو یا مسافر___ روزہ نہ رکھ سکے تو___ فَعِدَّۃًٌ مِنْ اَیَّامٍ اُخَرٍ___ اپنی آسانی کے مطابق پھر کبھی جب ممکن ہو___ روزے رکھ کر ایک مہینے کی گنتی پوری کر لو___ ! اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو___ تو پھر اللہ کے کچھ بندوں کو اپنی حیثیت کے مطابق کھلا کر___ فدیے کے ذریعے اس محرومی کی تلافی کر لو!
لیکن یاد رکھو___ ! یہ تو رخصت ہے۔ اصحاب عزیمت رخصتوں کے نہیں عظمتوںکے طلب گار رہتے ہیں___ نیکیوں اور بخششوں کے تمنائی تو زندگی کی محدود ساعتوں کے ہر لمحے کو نیکیوں کے حصول میں صرف کرنے کو ترجیح دیتے ہیں___ قرآن کی رہنمائی بھی یہی ہے۔ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَکُمْ ___ اگر تم رخصتوں کے باوجود روزے رکھ لو___ تو تمھارے کیا کہنے___ ! تمھارے اجر و ثواب کی کیا ہی بات ___ تمھارے لیے سراسر خیر اور بھلائی___ !! اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ___ عارضی راحت و آرام تو رخصت اختیار کرنے میں ہے‘ مگر سکون قلب اور روحانی راحت___ تو راہ عزیمت اختیار کرنے میں ہی ہے۔ اگر تمھیں اس کے بارے میں علم ہو جائے! اور یہ شعور و آگہی ___ اے نیکیوں کے طلب گار! اگر تیری طلب صادق اور جذبے پُرخلوص ہوں تب ہی یہ تجھے حاصل ہو سکتے ہیں!
اے بھلائیوں کے متمنی ___ !تیرے لیے رمضان کی صورت میں نیکیوں کی فصل بہار میں رحمتوں کے گل و گلزار اس لیے سجائے گئے کہ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ___ یہ مہینہ بھی عام مہینوں جیسا ___ ہزاروں سال سے اس کے شب و روز بھی یکساں قدروقیمت کے حامل___ مگر اسے یہ عظمت اور تقدس اُسی وقت حاصل ہوا جب تاجدار نبوتؐ اپنی عمر عزیز کے اکتالیسویں سال اُتر کر حرا سے سوئے قوم آئے اور اپنے ہمراہ آفاقی‘ الہامی اور ابدی نسخۂ کیمیا ساتھ لائے: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍo اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ ___ یہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی___ بلاشبہہ اس دعوت اور صدا نے ساری سرزمین عرب ہلا دی! جھوٹے خدائوں کی خدائی___ انسان پر انسان کی حاکمیت___ ظلم‘ جبر‘ ناانصافی‘ بدامنی‘ توہین انسانیت‘ ذلت و رسوائی‘ حقوق غصبی‘ بداخلاقی‘ فحش و بے حیائی‘ لامحدود گمراہیوں اور پستیوں کے پھیلے ہوئے بدترین منحوس سائے اور اس کے نتیجے میں ظَھَرَالفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ___ خشکی و تری___ ہر جگہ‘ ہر قوم‘ ہر تہذیب‘ ہر رنگ‘ ہر نسل اور ہرعلاقے میں ضلالت کی بھڑکتی ہوئی آگ اور فکری‘ عملی‘ اخلاقی‘ سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی___ فَسَادَ ___ کے عالم میں ایک شان دار‘ ہمہ گیر اور عالم گیر انقلاب کا پیش خیمہ ___ نقطۂ آغاز ___ صراطِ مستقیم___ راحت ِ قلب و نظر‘ ہدایت فکروعمل ___ ھُدًی لِّلنَاسِ___ انسانیت کے لیے تاابد سرچشمۂ ہدایت___ اس کے دکھوں کا مداوا شِفَا ئٌ لِّلنَاسٍ ___ حق و باطل کے مابین حدِّفاصل‘ امتیاز اور فرق___ الفرقان___ عبرت ونصیحت کا مرقع___ منشاے الٰہی کا بیان___ البیان___ القرآن___ مبارک ذکر___ بے ریب و بے شک___ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ___ اپنے نازل کرنے والے کی لاریب ذات‘ اپنے نزول کے مرکز کی صداقت و امانت کے مسلّمہ کردار اور اپنے پیامبر___ وحی لانے والے جبریل ؑامین کی اطاعت و امانت کی مجسم دلیل___ اور اپنی تعلیمات کی حقانیت و صداقت اور انسانیت کی ہمہ پہلو‘ جامع و مکمل رہنمائی کی شہادت‘ ناطقہ بن کر ظہور پذیر ہونے والے ___ قرآن عظیم___ کے آغازِ نزول کا مہینہ!!
رمضان کی یہ عزت و عظمت ___ یہ قدرومنزلت___ یہ شرف و مرتبت___ اسی نعمت ِ تمام کے باعث ___ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ___ میں نے تمھارے لیے اپنا پسندیدہ ‘ مرغوب‘ مطلوب اور برحق دین اسلام___ اس قرآن کی نعمت عظمیٰ کی صورت میں‘ اس کی آیات کے حوالوں میں ___ مکمل کر دیا۔ یہی سب سے بڑی نعمت و احسان ہے اللہ رب العالمین کا اپنے بندوں پر۔ زندگی گزارنے کا سامان تو جانور بھی بالآخر کر ہی لیتا ہے۔ پہاڑوں کے غاروں میں بسنے والے درندوں‘جنگل اور بیابانوں میں رہنے والے وحشیوں‘ پتھر کے اندر‘ سمندر کی تہوں اور زمین کی گہرائیوںمیں موجود کیڑے مکوڑوں ‘ آسمان کے پرندوں___ ہر کسی کو وہ اپنے فضل و کرم سے رزق تو عطا کر ہی دیتا ہے___ وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرضِ اِلاَّ عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھا۔ لیکن اللہ کا اصل احسان___ اور انعام تو___ ہدایت___ کا یہی سرچشمہ ہے۔ جو اُس نے فقط اپنے بندوں کو ___ انسانوں کو عطا کیا___ اس عظیم قرآن کو سنبھالنے اور اس کا بوجھ اٹھانے اور امانت سنبھالنے سے زمین و آسمان نے انکار کر دیا۔ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَحْمِلْنَھَا ___ مگر انسان کے نصیب میں یہ سعادت کبریٰ لکھی گئی۔ اس کے مقدر میں یہ عظمت آئی___ وَحَمَلَھَا الْاِنْسَان___ !! رمضان___ فی الحقیقت جشن نزولِ قرآن ہے۔ عظیم امانت کے بار ذمہ داری کے احساس دہی اور حق کی ادایگی کی یاد دہانی کا مہینہ ہے!
وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلَی مَا ھَدَاکُمْ ___ رمضان بندئہ مومن پر اس لیے بھی فرض ہوا کہ اللہ کے بندے اس کی عظمت و کبریائی کے ترانے گائیں‘ اپنے قول و عمل سے اُسی کی بڑائی کا اقرار و اظہار کریں۔ نمازوں کے اوقات میں___ اذان و تلاوت میں___ رکوع و سجود میں‘ تسبیح و تہلیل میں___ دعا مناجات میں___ اللّٰہ اکبر‘ اللّٰہ اکبر ___ وللّٰہ الحمد ___ سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم___ حمدوثنا‘ پاکیزگی و عظمت ___ سب اُسی برتر و بزرگ کے لیے! جس نے ہدایت سے آشنا کیا۔ قرآن کی نعمت ِ عظمیٰ کی صورت میں زندگی گزارنے اور آخرت کا سامان کرنے کا جامع‘ ہمہ پہلو قرینہ سکھایا۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں عمل کا اعلیٰ‘ کامل اور بہترین اسوہ عطا کیا۔
رمضان کی صبحوں‘ شاموں‘ دن اور راتوں میں زمین و آسمان کے مابین لامحدود وسعتوں میں انسانوں‘ فرشتوں‘ پرندوں کی یہ تسبیح‘اللہ کی یہ تسبیح‘ اللہ کی یہ حمدوثنا‘ احسان شناسی اور اعترافِ نعمت ہے عَلٰی مَا ھَدَاکُمْ___ اُس ہدایت کی اُس فضیلت کا جس سے اے بندئہ مومن___ فقط تو فیض یاب ہوا___ اعلانِ کبریائی کے اس روزانہ و شبانہ نصاب کے اختتام پر یومِ عید سجدئہ شکر بجا لانے کے لیے جاتے ہوئے‘ گلیوں‘ محلوں‘ شاہراہوں‘ بازاروں‘ گھروں___ ہر سمت‘ ہر جانب یہی ترانۂ شکر‘ یہی نغمۂ کبریائی___ اللّٰہ اکبر‘ اللّٰہ اکبر لا الٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد___ یہ تو زبان ہے اور پھر زندگی کا ہر لمحہ‘ عمل کا ہر میدان___ اسی کا عملی اقرار___ اللہ کے حکم اور عظمت کے شعوری غلبے‘ اللہ کے دشمنوں کی ___ اس کے دین___ اس کے قرآن کی مخالفت___ اس کے رسولؐ کی عدم اطاعت کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی سرکوبی ___ یہی تو مومن مخلص کی زندگی کا مقصد___ اُس کا منصب___ اور اس کا فرض ___ اُس کی زندگی کا خِراج اور بندگی کا اصلی اظہار ہے۔ یہی نعت ِ ہدایت کی حق شناسی ہے!!
وَلََعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ___ رمضان انھی نعمتوں پر شکرگزاری کاآفاقی لائحہ عمل ہے! اللہ کی نعمتیں بے شمار ___ اس کے احسان لامحدود۔ اِنْ تَعُدُّوا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا اور ان میں سب سے بڑی نعمت___ قرآن___ ہدایت___ دین حق کا شعور‘ اقامت دین کا جذبہ___ داعی ٔ حق کا اسوہ و سیرت___ وارثانِ دین متین کی رہنمائی___ اہل ایمان‘ اہل حق کی رفاقت: تحریک اسلامی ___ اللہ کے دین کے غلبے‘ اس کے اعلاء اور اس کی عظمت و کبریائی کی جدوجہد میں شرکت ___ یہ سب اللہ کی لازوال‘ انمول نعمتیں ہیں۔ انھی کا حق اور تقاضا کہ اعترافِ نعمت کی ہر جدوجہد اور ہر صورت میں پُرخلوص‘ مکمل اور بھرپور شرکت!!
اے نیکیوں کے خوگر ___ بندئہ مومن!!
رمضان کے انھی شب و روز کی سعید ساعتوں میں اپنے مقصد___ نیکیوں کے حصول کے سفر کے دوران کچھ خاص لمحے اللہ کی قربت کے___ تیرے مَن کی مراد بَر لانے ‘ تجھے عطا ہوں گے۔ تجھے ان لمحوں سے خوب اور بھرپور فائدہ اٹھانا ہے۔ مالکِ مختار و مقتدر کے حضور دست ِ سوال دراز کیے رکھنا ہے‘ جب تک تجھے وہ سب کچھ نہ مل جائے‘ جس کا تو متمنی و مشتاق ہے___ جس کے لیے تو سرگرداں ہے! انھی سعید لمحوں میں تیرا رب تجھے پکار پکار کر کہے گا___ اِنِّیْ قَرِیْبٌ - اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ___ میں اپنے بندوں کے دل و دماغ‘ جسم و جاں‘ اور شہ رگ کے قریب ہوں۔ ان کے وجود کا حصہ ہوں۔ وہ مجھے پکاریں تو سہی ___ میں ہمہ وقت اُن کی دعا___ اُن کی صدا___ اُن کی پکار سننے‘ ان کی حاجت روائی کرنے‘ ان کی مرادیں پوری کرنے کے لیے مستعد و تیار رہتا ہوں۔ وہ اگر مجھے ہی پکاریں___ صرف اور صرف مجھے___ تو میں اُن کی آنکھیں‘ ہاتھ پائوں‘ کان اور جسم کا حصہ بن کر‘ اپنے معجزے اور کرشمے دکھاتا ہوں! میں اپنے بندوں کی ہر دعا سنتا ہوں۔ اُن کی ہر خواہش پوری کرتا ہوں۔ میرے لامحدود‘ وسیع خزانوں میں اتنی بھی کمی واقع نہیں ہوتی جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبو کر واپس لانے سے ہوتی ہے۔ یہ تو میرا بندہ ہی تھڑدلا اور کم ظرف ہے جو مجھ سے صرف وہی مانگتا ہے‘ جو وہ نہ بھی مانگے‘ تو بھی بحیثیت ربّ العالمین___ پروردگارِ خلائق___ میں اُسے اُس کے مقدر کا لکھا بہرصورت‘ عطا کرتا ہی رہوںگا۔
اے بندئہ مومن! اُسی خالق ارض و سما نے تو تیرے لیے زمین و آسمان مسخر کر دیے‘ ہر چیز تیری خدمت میں___ تیری سہولت کے لیے فراہم و میسر___ اپنے رب کے حکم کی تکمیل میں تیرے لیے مصروفِ عمل___ یہ زمین و آسمان ___ شجروحجر___ درند و پرند___ آسمان کی برکتیں اور زمینوں کے خزانے___ سب تیرے لیے___ ! مگر تو ہی ناداں جو چند کلیوں پر قناعت کرگیا!گلشن ہستی میں تیرے لیے ہی تو اقتدار و اختیار ‘ خلافت و امامت‘ سیادت و قیادت___ کیا کچھ نہ تھا___ ! تو ہی اس نظامِ ہستی کا سب سے معزز و محترم اور اشرف___ اس جیسے کتنے ہی آفاق تیرے وجود کا حصہ___ مگر کس قدر بدنصیب ہے تو___ اے بندئہ مومن! کہ کافر کی طرح اپنے وجود کے ہزار آفاقوں کو چھوڑ کر اسی عارضی و ناپایدار‘ حقیر و کم تر آفاق میں گم ہے۔ اپنے مقصد و مرتبت‘ فرض اور ذمہ داری سے غافل ہے!
اللہ کی قربت کے ان سعید لمحوں میں___ سب تمنائوں کو دل سے جھٹک کر___ فقط رشد و ہدایت‘ مغفرت و رحمت‘ بخشش و غفران کی دعا ہی کرنا‘ دنیا کا کچھ نہ مانگنا‘ یہ مل بھی جائے۔ یقین رکھ مَن چاہا سب کچھ ضرور ملے گا___ اس لیے کہ اُس نے کہہ دیا___ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ___ جب بھی وہ پکارے‘ جو چاہے میں ضرور پوری کرتا ہوں۔ جو دنیا کے طلب گار ہوں گے‘ انھیں دنیا ملے گی‘ جو آخرت کے طلب گار ہوں انھیں نہ صرف دائمی زندگی آخرت کی عزت و شرف‘ عظمت و راحت میسر آئے گی بلکہ نَزِذْلَہٗ فِیْ حَرْثِہٖ ___ ہم اس کی تمنا‘ طلب‘ آرزو‘ جستجو میں بھرپور اضافہ کریں گے اور اس کی فصلِ اُمید کو خوب ہرا بھرا بنائیں گے۔ یاد رکھ___ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی فانی راحتوں اور عارضی سہاروں اور وقتی فائدوں کی تمنا کرنے والوں کو نؤتہ منھا ___ ہم یہ سب کچھ دیں گے___ وَمَا لَہُ فِی الْآخِرَۃِ مِنْ نَصِیْبٍ آخرت میں ان کا دامن بالکل خالی ہوگا۔ کف افسوس مَلنے‘ دنیا میں واپس جا کر ایک بار پھر اطاعت و وفاشعاری کی راہِ مستقیم پر چلنے‘ تلافی ٔ مافات کرنے کی تمنا___ اب بے کار ہوگی___ !
اے بندئہ مومن! تیرے لیے بہتر طرزِعمل بس یہی ہے___ فقط یہ دعا کرنا___ رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الْآخِرَۃِ حَسَنَۃَ ___ اے پروردگار! اے مالک! دنیا و آخرت کی ساری بھلائیاں‘ ساری نعمتیں‘ ساری بخشش و عطا جو تو نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو دیں___ ہمیں بھی عطا کر دے___ بندئہ مومن! اپنی ذات کے لیے بھی مانگنا‘ اور اُمت کے لیے بھی___ سب اہل ایمان کے لیے___ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِلْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ اَلْاَحیَائُ مِنْھُم وَالْاَمْوَاتِ ___ اِنَّک مُجِیْبُ الْدَّعْوَات ___ اور پھر یہ دعا بھی کرنا___ وَقِنَا عَذابَ النَّارِ___ اے اللہ!ہمیں محفوظ رکھنا___ کسی بھی چھوٹی بڑی لغزش‘ بے احتیاطی‘ فکری و عملی کوتاہی سے___ جو تیرے غضب کو دعوت دے اور عذاب جہنم سے قریب تر کر دے!
اے بندئہ مومن! یہ دعا بھی کرتے رہنا ___ اور بار بار کرنا! اے اللہ! عطاے ہدایت و ایمان کے بعد لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا ___ ہمارے دلوں کو ہر قسم کی کجی سے پاک رکھنا۔ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً___ بس اپنی رحمت ہی کا سزاوار بنانا!! پیغمبرعلیہ السلام‘ اصحاب عالی مرتبت اور اولیاء و صلحا سب ہی اللہ کے فضل و کرم کے طفیل نجات سے ہمکنار اور جنت سے سرفراز ہوں گے___ ہم جیسے سیہ کار‘ خطاکار اور اپنے رب سے غافل___ موقع پرست تو اس فضل و رحمت کے زیادہ___ بہت زیادہ طلب گار ہیں!
تِلْکَ حُدْودُ اللّٰہِ ___ رمضان المبارک کا تقدس و احترام‘ اس کی عظمت و مرتبت کا لحاظ‘ اس کے احکام و مسائل کا لحاظ اور پابندی‘ روزے اور اس سے متعلق جملہ الہامی ہدایات پر عمل درآمد۔ یہ سب ایک طرف تو اللہ کی رحمت و نعمت اور بخشش و غفران کے وسیلے ہیں‘ تو دوسری طرف اللہ کی حدود___ جنھیں اللہ نے اپنی کتاب میں بڑی وضاحت اور حدیث رسولؐ کے ذریعے بڑی صراحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ لہٰذا ان کے حوالے سے بھی بندئہ مومن کو محتاط و خبرداررہنا لازم ہے۔
اے نیکیوں کے طلب گار! آ‘ کہ رمضان کے اس جشن بہاراں کا بھرپور استقبال کرنے کے لیے‘ اپنے دامن کو خطائوں‘ غلطیوں اور لغزشوں سے جھاڑنے کے لیے‘ مغفرتوں‘ بخششوں اور رحمتوں کو سمیٹنے کے لیے ___ دل میں اعترافِ جرم کے احساس‘ جبین پر ندامت کے قطرے اور آنکھوں میں خشیت کے دیپ سجائے‘ سر جھکائے‘ ہاتھ اٹھائے سوچ اور عمل کی تعمیر و تطہیر کے جذبے سینے میں چھپائے___ راہبر و رہنما___ آقا و مولا___ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن پاکیزہ نقوشِ سیرت اور روشن روشن اُسوہ اور قدم قدم ہدایت کے منور راستوں‘ باتوں اور حدیثوں میں روشنی کی منزل‘ ہدایت کی قندیل اور عمل کی راہیں تلاش کریں!!
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ ___ جب رمضان سایہ فگن ہوتا ہے تو___
فُتِحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ ‘ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ___ جنت: ہرمومن مخلص کی اول و آخرت شدید تمنا! یَطْمَعُ کُلُّ امْریٍٔ مِنْھُمْ اَنْ یُدْخَلَ جَنَّۃَ نَعِیْمٍ - ہر شخص جنت میں داخلے کا آرزومند! وہی اس کا وارث‘ وہی اس کا مستحق ___ اُسی کے لیے تیار و ہموار! جنت تو ہے ہی اللہ کے نیک بندوں کی___ بڑی بدنصیبی ہے کہ وہ اپنے اعمال کے سبب اس سے محروم رہیں۔ بندئہ مومن اپنی کوتاہیوں کا ادراک و استغفار کرکے رمضان کے موسمِ بہار میں جنت میں داخلے کا ساماں کر سکتا ہے۔ جنت کے بہت سارے دروازے ___ بندئہ مومن کے باعزت داخلے کے لیے___ مگر ایک خاص دروازہ ___ باب الریان ___ جو صرف اہل صوم یعنی روزے داروں کے لیے مخصوص ___ لَا یَدْخُلُہٗ اِلاَّ الْصَّائِمُوْنِ ___ ان کے سوا کسی اور کو یہاں سے داخلے کی اجازت نہ ہوگی۔ بندئہ مومن رمضان کی سعید ساعتوں میں اپنے اخلاص و اسلام (سپردگی اور اطاعت ِ کامل) کا اس قدر بکثرت مظاہرہ کرے کہ وہ ان آٹھ بہشتی دروازوں میں سے کسی ایک بالخصوص باب الریان سے داخلے کا مستحق قرار پائے!
غُلِّقَتْ اَبْوَابُ جَھَنَّمَ ___ جہنم کے دروازے بندئہ مومن کے لیے بند کر دیے جاتے ہیں! جہنم تو ہے ہی ناشکروں‘ محسن کشوں‘ ناسپاسوں کے لیے___ ! جو اپنے عمل سے اور کردار سے دعوت حق ٹھکرانے‘ اس سے فکری و عملی اعراض کرنے اور اپنے مالک و خالق کی نافرمانی کے رویے سے اس کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ کچھ اہل ایمان بھی___ غفلت اور شیطان کی چالوں کا شکار ہو کر ان کے رفیق و قرین بن کر جہنم کے دروازوں کے قریب ہو جاتے ہیں___ فَسَآء قَرِیْنًا یہ دوست بھی بے حد بُرے‘ وَسآئَ تْ مَصِیْرًا ___ اور جہنم بدترین ٹھکانہ ___ بندئہ مومن کے لیے یہ بشارت بھی ہے کہ موت کے آخری لمحے سے پہلے جہنم کے بالشت بھر فاصلے پر پہنچ جانے کے باوجود وہ اپنے اخلاص و حسنِ عمل سے جہنم سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ رمضان کا مہینہ اُسے یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ توبہ و استغفار کے ذریعے جنت سے قریب اور جہنم سے دُور ہو جائے۔ اَللّٰھُمَّ اَجَرْنِیْ مِنَ النَّار یَامُجِیْرُ یَامُجِیْرُ یَامُجِیْرُ ___ کی دُعا اِسی راستے کی صداے نجات ہے!
سُلْسِلَتِ الْشَیَاطِیْنَ ___ شیطان جکڑ دیے جاتے ہیں___ !شیطان تو بندئہ مومن کا کھلا دشمن ہے___ عَدُ وٌّ مُبِیْنٌ___ بڑا بااثر‘ چال باز‘ اور بڑا متاثر کن بلکہ گمراہ کن‘ بدترین دوست اور قبیح ترین دشمن ہے۔ اللہ کا کھلا باغی‘ مغرور‘ متکبر‘ سیہ کار و بدکار ہے۔ اہل ایمان کواسی سے سب سے زیادہ محتاط و خبردار رہنے کی ہدایت کی گئی۔ فَاتَّخِذُوْہ عَدُوًّا ___ اسے دوست نہیں___ دشمن ہی سمجھنا!!
رمضان میں وہ ماحول اور فضا قائم ہوتی ہے‘ جو شیطان کے لیے اللہ کے مخلص بندوں کو بہکانے اور گمراہ کرنے میں سازگار اور معاون نہیں رہتی۔ اللہ کے بندے اپنے رب کے حضور حاضر اور اس سے وابستہ رہتے ہیں۔ شیطان کا کام مشکل بلکہ ناممکن بن جاتا ہے‘ البتہ بدبخت و محرومین کے لیے شیطان کی کارگزاریاں موثر ثابت ہوتی رہتی ہیں۔ اللہ کا ذکر___ قرآن کی تلاوت ___ موت کے بعد حاضری اور جواب دہی کا احساس‘ تصور اور یقین ___ بندئہ مومن کے لیے شیطان کے حملوں سے بچنے کا کارگر نسخہ ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ وہی پیغام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور فرمانِ عالی شان: الصوم جُنَّۃٌ ___ روزہ ڈھال ہے___ میں مستور ہے۔ رسولؐ اللہ کا یہ فرمان کس قدر برحق اور لائق صداحترام ہے کہ روزہ بندئہ مومن کے گرد ایک ایسا ہالہ‘ حصار اور حدِّفاصل باندھ دیتا ہے‘ جو اُسے آلودئہ خطا ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔ اُسے ہدایت ہے کہ روزے کی حالت میں اگر کوئی اُس سے لڑے‘ گالی دے‘ یا آمادئہ معصیت کرے___ وہ فقط اِسی ڈھال کو اپنے وجود کے گرد تان لے___ اِنِّیْ امرُؤ صَائِمٌ ___ اے شیطان کے چیلے! میں تیری چال کا شکارہرگز نہیں بن سکتا کیونکہ میں روزے سے ہوں___ اللہ کی پناہ میں ہوں اور روزے کے حصار میں ہر خطرے سے محفوظ ہوں___ !
اے نیکیوں کے طلب گار اور جنت کے متمنی!!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہدایت بھی پیش نظر رہے! جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو فلایرفث___ تو بُری بات نہ کہے___ ولا یضحب لڑائی جھگڑا اور دنگا و فساد نہ کرے۔ برائی زبان اور ہاتھ دونوں سے___ اس کے قریب نہ پھٹکے۔اگر کوئی اُسے مجبور کرے تو کہہ دے___ انی امرؤٌ صَائِمٌ___ میں تو روزے سے ہوں___ ! زبان کی برائی ہمیشہ بڑے فساد کا سبب بنتی ہے۔ زبان کا یہی غلط استعمال جنت سے محرومی کا سبب بنتا ہے۔ اسی لیے حفاظت لسان پر جنت کی ضمانت دی گئی ہے! برائی کا یہ معمولی آغاز‘ حدود اللہ سے تجاوز اور جہنم میں داخلے کا سبب بن جاتا ہے۔ اے اللہ! ہمیں زبان اور ہاتھ کے غلط استعمال سے محفوظ رکھ۔ رمضان___ اسی تربیت کا ایک موثر نصاب ہے۔ روزے کا احساس بندئہ مومن کو براہِ راست اللہ کی نگرانی‘ پناہ اور حفاظت میں دے کر بندئہ مومن کو گناہوں سے اور برائیوں سے ہمیشہ کے لیے بچتے رہنے کا عادی بنا دیتا ہے!!
اَوَّلَہٗ رَحْمَۃٌ ___ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا پیام ہے___ رمضان کے آتے ہی رحمتوں کے دَر کھل جاتے ہیں۔ قدم قدم پر رحمتیں سایہ فگن ہو جاتی ہیں۔ نیکی کے بے شمار مواقع میسر آتے اور بے پناہ‘ کئی گنا اجر و ثواب کا باعث بنتے ہیں۔ برائیوںسے نفرت کا جذبہ اُبھرتا‘ اور اس اجتناب کا داعیہ پیدا ہونا___ یقینا اللہ کی رحمت ہے۔ اذان کی آواز___ باجماعت نمازوں کے غیرمعمولی روح پرور مناظر‘ تلاوت قرآن کی صدائیں‘ توبہ و استغفار کی دعائیں‘سحر و افطار کے پُرکشش مناظر___ بندگی و اطاعت کے مظاہر___ یہ سب اللہ رب العالمین کی وسیع رحمتوں کے لازوال اشارے ہی تو ہیں___ !
اَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ___ رمضان کا دوسرا عشرہ۔ مغفرت___گناہوں سے بخشش طلبی کا شان دار موقع ہے___ رحمتوں سے فیض یاب ہونے والا بندئہ مطیع و سلیم اب اپنی دعائوں اور مناجاتوں‘ تلاوتوں اور نمازوں کی باقاعدگی اور روزوں کی پابندیوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ اب اس بات کا سزاوار اور اہل ٹھہرتا ہے کہ بارگاہ ذوالجلال میں دست ِ دُعا دراز کرسکے۔ اپنی خطائوں پر عرقِ ندامت بہا سکے‘ اپنی لغزشوں کا اعتراف کر سکے‘ اور پھر توبہ و استغفار کے ذریعے مغفرت کی درخواست پیش کر سکے!
بشارت ہے اے بندئہ مومن و مخلص تیرے لیے___ ! مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ___ وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَلَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ___ اگلے پچھلے تمام گناہوں سے مغفرت مشروط ہے رمضان المبارک میں پورے اخلاص اور سچائی کے بے لوث جذبوں کے ساتھ اللہ کے حکم پر مکمل ایمان‘ اُس کی عظمت و قدرت کے مکمل ادراک‘ اس کی رحمتوں اور مغفرتوں کی بھرپور تمنائوں اور اُمیدوں‘ اپنی خطائوں اور بدعملیوں کے مکمل اعتراف و احساس‘ ندامت اور شرمساری‘ آیندہ نہ کرنے کے عزم و اقرار کے ساتھ___ ! اگر بندئہ مومن ان جذبوں سے آشنا ہو جائے تو پھر رمضان کے دنوں میں بھوک‘ پیاس برداشت کرنا‘ لذتوں اور راحتوں سے دُور رہنا‘ گناہوں اور خطائوں سے اجتناب کرنا اور راتوں کو تراویح و تہجد میں سر نیاز خم کرتے رہنا‘ چپکے چپکے آنسو بہا بہا کر رحمت و مغفرت کی التجائیں کرنا___ اُس کے لیے گناہوں سے کفارے اور نجات کا موجب ہوگا___
وَآخِرُہ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ___ رمضان کا آخری عشرہ۔ اللہ کی عنایتوں اور عطائوں کے عروج کا زمانہ ہے۔ صرف آخری عشرہ ہی نہیں___ ترمذی کی ایک روایت کے مطابق: لِلّٰہِ عُتَقآء مِنَ النَّارِ - وَذٰلک کُلَّ لَیْلَۃٍ___ رمضان کی ہر رات اللہ کی رحمت اپنے جوبن پر ہوتی اور بندئہ مخلص کے لیے آگ سے نجات اور رہائی کا سبب بنتی ہے۔
اے بندئہ مومن! اے نیکیوں کے طلب گار!! اے نجات و غفران کے متمنی!! تجھے آخر اور کیا چاہیے؟ ایک بندے‘ ایک غلام کو آقا و مولا کی رضا اور اس کی مغفرت کے علاوہ کچھ اور عزیز و مطلوب ہونا ہی نہیں چاہیے!! جہنم سے آزادی کا یہ پروانہ یقینا رمضان کے بعد اس کی پابندیوںکو بھلا دینے اور ایک بار پھر شیطان کی غلامی اور دنیا کی اسیری کا اجازت نامہ ہرگز نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو خَسِرَ الدُّنیَا وَالآخِرَۃ___ اے بندئہ مومن! تیرا تو بڑا ہی گھاٹا ہوگیا___ دنیا بھی تباہ ہوئی___ عقبیٰ بھی برباد___ نہ ہی خدا ملا‘ نہ وصالِ صنم!! جہنم سے یہ آزادی تو مشروط ہے۔ رب کائنات و منعمِ حقیقی کی مستقل وفاداری‘ وفا شعاری اور کامل اطاعت گزاری سے!
اے روزہ دار___ بندئہ مومن!
تیرے لیے نیکیوں کے اس موسم بہار میں خوشیوں‘ فرحتوں کے بے شمار لمحے ہیں۔ اس کا ہر روز روز عید‘ ہر عید شب برأت‘ ہر عمل باعث نجات___ مگر خاص طور پر دو مواقع تو خوشیوں کی انتہا قرار دیے گئے۔ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَان ___ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں۔ فَرْحَۃٌ عِنْدَ فِطْرَہ ___ ایک خوشی آقا و مولا کے حکم کی بے لوث‘ بے ریا‘ بے خطا تکمیل پر رمضان کی ہر شام ڈھلنے پر___ اذان کی آواز بلند ہونے___ روزہ افطار ہونے پر___ اور دوسرا فَرْحَۃٌ عِنْدَ لِقَائِ رَبِّہِ ___ اپنے اَن دیکھے آقا و مولا‘ جس کی اطاعت و فرماں برداری میں تو نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ بسر کیا‘ جس کی خاطر دنیا کو ٹھکرا دیا‘ اس کی ہر زیب و زینت کو مسترد کر دیا‘ اپنے نفس کو اللہ و رسول کی مرضی کے تابع بنا کر خواہشات سے دُور رکھا۔ اللہ کی خاطر محبت‘اسی کی خاطر نفرت‘ اُسی کی رضا مقدم‘ اُسی کی جانب کامل توجہ‘ اُسی کے حکم کی پاسداری‘ اُسی کے دین کے غلبے کی جدوجہد‘ اُسی کے نام کی سربلندی کے لیے کوشش___ اُسی سے زندگی کی ہر اُمید‘ ہر تمنا‘ ہر درخواست اور ہر خواہش کی وابستگی‘ اُسی کے در پر جبین نیازخم‘ اور اُسی کے فیصلوں پر صابر و شاکر۔ اُسی کا پروردہ اور اُسی کا غلام___ جسم و جاں‘ فکروعمل‘ قلب و نظر___ ہر ایک اُسی کے اشاروں کے تابع۔ اُسی عظمت و جبروت کے مالک سے ملاقات___ اس کی بارگاہ میں حاضری___ اُسی کا سامنا‘ اور اُسی کی رضا کی عطا کا لمحۂ سعید!! اپنے رب کا دیدار اور اس سے ملاقات!! ___ سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم!!
اے نیکیوں کے طالب___ ! خوش ہو جا کہ رمضان اور قرآن دونوں تیرے لیے شفیع بن جائیں گے‘ اُس روز جب کوئی سفارش‘ فدیہ اور مدد و معاونت کام نہ آئے گی!
پیغمبر اور رسول‘ ولی اور قطب‘ شقی اور سعید‘ صالح اور بد‘ مومن و کافر سب ہی میدان حشر میں‘ نفسانفسی کے عالم میں مضطرب‘ بے قرار اور کانپتے ہوں گے۔ اذنِ الٰہی کے بغیر کوئی بھی ایک لفظ کہنے کی جرأت نہ کر سکے گا۔ ہر شخص شفاعت کا منتظر‘ اور متمنی ہوگا‘ ایسے میں اے روزہ دار___ الصَّیِامُ وَالْقُرآنُ یُشْفِعَان لِلْعَبْدِ___ قرآن اور روزے بندئہ مومن کے سفارش بن جائیں گے۔ روزہ کہے گا اے رب! میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور شہوات نفس سے باز رکھنے کو کہا تو یہ بندہ اس کو بجا لایا۔ میری سفارش قبول کر۔ قرآن کہے گا___ اسے میں نے راتوں کو نیند سے دُور رہنے‘ مجھے پڑھنے‘ سننے‘ سمجھنے اور غوروفکر کرنے کی دعوت دی‘ تو تیرا یہ اطاعت شعار بندہ اس کو بھی مان گیا___ لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش بھی قبول کر___ ! اے نیکیوں اور مغفرتوں کے طلب گار! تیرے پُرخلوص روزوں کے صدقے رب العالمین تیرے حق میں یہ دونوں سفارشیں قبول کرلے گا___ ! اگر تو نے کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرا دیا تو بھی تیرا اجر ویسا ہی۔اگر کسی کو پانی پلا دیا تو قیامت کے روز اللہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوضِ کوثر سے پانی نصیب کرے گا‘ پھر تو کبھی پیاسا نہ رہے گا یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔
اے روزہ دار ___ ! تیری عظمت اور اللہ کے ہاں تیری قدرومنزلت کے کیا کہنے!! تیرے روزے اور بھوک پیاس کے سبب تیرے منہ کی بساند بھی اللہ کو مشک و عنبر سے زیادہ محبوب۔ لَخَلُوفُ فَمِ الصَّائِمَ اطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِن رِیح یمسک___ اور رمضان کے اس عظیم مہینے اور اس کی رفعتوں کا نقطۂ عروج و کمال___ لَیْلَۃُ القَدْرِ - خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ شَھْرٍ۔ ایک بے پناہ اجر و ثواب‘ انسان کے فہم و شعور کی حدود سے کہیں بڑھ کر عظمتوں کی حامل ہزار مہینوں کی عبادتوں سے کہیں زیادہ برکتوں کی رات‘ تاحد فرش و عرش فرشتوں کے غول در غول‘ جبریل ؑ امین کی آمد___ اور عرشِ الٰہی پر اپنے بندوں کی عبادتوں‘ ریاضتوں اور اطاعتوں سے آگاہ ہونے اور اُن کے قریب تر ہونے کے لیے اللہ ذوالجلال والاکرام کی تشریف آوری___ سَلامٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْر___ کائنات کے ہر اطاعت شعار‘ وفادار اور عبادت گزار کے لیے طلوع فجر تک امن و سلامتی‘ بخشش و عطا‘ رحمت و مغفرت کی نہایت قدرومنزلت‘عزت و عظمت اور شرف و مرتبت والی رات___ !!
اے نیکیوں کے طلب گار! آگے بڑھ! اور اس شب وصل کی ساری لذتیں‘ ساری نعمتیں___ اپنے دامن میں سجا لے۔ رحمتوں کی اس برکھا سے اپنے مَن کو بھی سیراب کرلے! بجا کہ اس شب ِ قدر کی سعادتیں‘ رحمتیں اور مغفرتیں لامحدود___ اور تیراظرف___ بہت ہی محدود___! مگر ___ آگے بڑھ اپنے دامن میں جس قدر سمیٹ سکے‘ سمیٹ لے۔ اگر تو اس شب کی سعادتوں اور خیروبھلائی سے محروم رہ گیا___ تو فَقَدْ حُرِمَ الخَیْرَ کُلَّہٗ ___ سب کچھ اکارت گیا‘ ساری ریاضت بے ثمر رہی اور تیرا دامن خالی ہی رہا۔ یہ بڑی محرومی اور بڑی بدبختی ہے!
شب ِ قدر کا ہر لمحہ ___ رب کی رضا‘ قبولیتِ توبہ اور رحمت و غفران کا لمحہ ہے! اس رات کی ہر ساعت گراں قدر اور بیش بہا ہے۔ ممکن ہے آسمان سے کوئی نور بھی برستا ہو۔ کوچہ و بازار‘ گلیاں‘ محلے‘ سڑکیں شاہراہیں‘ آسمان و زمین کی وسعتیں روشن ہو جاتی ہوں۔ مگر___ شب قدر میں اصل روشنی اور نور تو انسان کے اپنے اندر پھوٹتا ہے! اس کی وفاشعاری‘ اطاعت گزاری‘ اخلاص نیت و عمل‘ اس کی بے لوث ریاضت و عبادت‘ اُس کی خفیہ وعلانیہ دعا و مناجات___ اُس کے قلب و نظر کو روشن و منور کر دیتے ہیں___ محض تسبیح کے دانے‘ ماتھے کے محراب اور حضوری و شوق‘ اضطراب و تڑپ سے عاری سجدے‘ مفہوم و معانی سے محروم تلاوت‘ خشیت و اخلاص سے خالی ذکر___ لیلۃ القدر کی عظمتوں سے ہمکنار نہیں کرسکتے!!
رمضان کی کسی بھی شب‘ کسی بھی ساعت___ اور بالخصوص آخری عشرے کی طاق راتوں کے مخصوص لمحات میں اگر اے بندئہ مومن! تیرے دل کو سُراغ زندگی مل جائے‘ ہدایت کی روشنی نکھر آئے‘ فکروعمل اور مقصدِحیات کا شعور عطا ہو جائے‘ نیت کا خلوص اور عمل کا جذب و کیف اور داعیہ پیدا ہو جائے۔ تو سمجھ لے کہ یہی شب قدر ہے جس نے تجھے بدل کر رکھ دیا ہے‘ تیری شب ِ تاریک کو سحر کر دیا ہے۔ تجھے یہ رات مل بھی جائے___ ! مگر تیرے اندر انقلاب پیدا نہ ہو‘ تحریک و اضطراب برپا نہ ہو۔ یہ فقط رَت جگا ہے! دکھلاوا___ ریاکاری اور رسمِ دنیا ہے___ لیلۃ القدر کی عطا نہیں___ اس سے محرومی ہے!!
اے نیکیوں کے طلب گار ! اس شب کو اگر تجھے دل کا سرور اور ہدایت کا نور عطا ہو تو ہاتھ پھیلا کر فقط یہی دعا کرنا___ اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفْوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ___ اے مالک! تو بڑا بخشنے والا ہے‘ معافی کو پسند کرتا ہے‘ بس! مجھے اور کچھ نہیں صرف تیری مغفرت چاہیے۔ یہی سب سے بڑی نعمت مجھے بھی عطا کردے!!
اے نیکیوں کے طلب گار! تیرے خلوص اور وفاشعاری کے جذبوں کے لیے ایک اور مژدئہ جانفزا___ الصَّوْمُ لِیْ وَانَا اَجْزِیْ بِہٖ ___ روزہ تو ہر ریا سے پاک‘ نمایش کے ہر خدشے سے مبرا اور شرکت کے ہر شائبے سے خالی___ فقط میرے لیے ہے! لہٰذا میں اپنے تمام ضابطوں‘ قاعدوں اور طریقوں سے مختلف ___ تیرے خیال و شعور سے کتنا ہی آگے‘ بے حدوحساب ___ اجر و جزا سے نوازوں گا___ بلکہ اَجْزِیْ بہٖ ___ میں مالکِ ارض و سما‘ اپنے آپ کو تیرابنا دوں گا تو میرا بن گیا‘لے! میں بھی تیرا ہو گیا___ بتا! تجھے اب اور کیا چاہیے!! تو نے میری خاطر اپنی نیند‘ آرام‘ خواہشاتِ نفس‘ کھانا پینا‘ سب کچھ قربان کر دیا۔ میری ہی بارگاہ سے وابستہ اور پیوستہ رہا___ دیکھ! تیری وفائوں کا کتنا بڑا صلہ دیا ہے میں نے!!
اے بندئہ مومن!! اے نیکیوں کے طلب گار!!
رمضان تیری وفائوں‘ شکرگزاریوں اور ایمان و عمل کا امتحان ہے! تیرے اخلاص و محبت کے دعوئوں کی آزمایش ہے۔ کھرے اور کھوٹے کی کسوٹی ہے۔ کون ہے جو رب کی بارگاہ میں تسلیم و رضا کے ساتھ سر خم کیے رکھتا ہے‘ اور کون ہے جو رمضان کی سعید ساعتوں اور قدم قدم مغفرتوں کے مواقع کے باوجود اپنا دامن خالی رکھتا اور اپنے مقدر میں دین و دنیا کی محرومیاں لکھ لیتا ہے!
رمضان ___ شکرگزاری‘ تقویٰ اور ہدایت کا صراطِ مستقیم ہے___ جس کی تمنا اللہ کی حمدوثنا کرنے والا ہر بندئہ مومن اھدنا الصراط المستقیم ___کی دعائوں کے ساتھ کرتا ہے۔
رمضان ___ کتاب ہدایت ___ قرآنِ عظیم کی تعلیمات سے آگاہی‘ غوروفکر اور تدبر کا مہینہ ہے۔ دلوں کے زنگ دُور کرنے اور بصیرتوں کے قفل توڑنے‘ فکروشعور کی جلا اور علم و عمل کی راستی کا ساماں کرنے کا مہینہ ہے۔
رمضان ___ معاشرے کی اصلاح‘ غلبہ حق کے جذبے سے سرشاری‘ اقامت دین کی جدوجہد اور دعوت و تحریک کا مہینہ ہے۔ برائی کی سرکوبی اور نیکی کے فروغ کی تحریک برپا کرنے کا عملی خاکہ ہے۔
رمضان ___ صبر وا ستقامت‘ ہمدردی و غمگساری ‘ اخوت و محبت‘ نصرت و معاونت‘ اخلاق و مروت‘ ایثار و قربانی کا پیام بر ہے۔
اے نیکی کے طلب گار___ ! آگے بڑھ!
رمضان اپنی تمام تر عظمتوں‘ فضیلتوں‘ رحمتوں‘ مغفرتوں‘ سعادتوں اور نعمتوں کے ساتھ تیرے درِ دل پر دستک دے رہا ہے۔ آگے بڑھ اور اس کی تمام برکتوں کو سمیٹ لے___ تیرے بخت بڑے ہیں کہ تیری زندگی میں ایک بار پھر یہ لمحات تجھے عطا ہو رہے ہیں۔
اِنَّ المُسلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَات … وَالصَّائِمِیْنَ وَالصَّائِمَاتِ … اَعَدَّ اللّٰہ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً واجرًا عظیمًا___ اللہ نے فرماں بردار مرد و عورت… روزے دار مرد و عورت کے لیے مغفرت اور اجرعظیم کا سامان تیار کر رکھا ہے!!
یاباغی الشر اقصر! اور اے بدی کے طلب گار___ رُک جا!
اے غافل و بے خبر بندئہ مومن!! ٹھہر جا___ ذرا پیچھے مڑ کر تو دیکھ___ رمضان تجھے بھی پکار رہا ہے۔ اپنے عفو کرم میں تجھے بھی سمیٹنے کو تیار ہے۔ گمراہی‘ بدی‘ معصیت کے راستوں اور شیطان کی رفاقتوں کے چنگل سے واپس پلٹ آ۔ تیرے جرمِ خانہ خراب کو اُسی رب رحمن و رحیم کی بارگاہ سے عفووکرم کی امان مل سکتی ہے۔ رمضان کے یہ بابرکت لمحات___ تیری واپسی ہی کا تو سامان ہیں___ اللہ کو اپناپلٹ آنے والا خطاکار بندہ بہت محبوب ہے۔ ربِ غفور اپنے ہر بندے کو معاف کرنے‘ توبہ قبول کرنے اور بخش دینے والا ہے___ ! رُک جا‘ تھم جا___ اور بلاتاخیر اُس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجا___ یہی رمضان کا پیغام ہے۔
آنے والا رمضان ___ اُمت مسلمہ کے لیے حد درجہ اہم‘ روشنی کی کرن اور اُمید کی صبح بن کر طلوع ہو رہا ہے! اللہ کرے! اُمت کی دعائیں مقبول ہوں۔ خطائوں سے درگزر اور کوتاہیوں سے صرفِ نظر ہو۔ لغزشیں معاف ہوں۔ انفرادی بھی اور اجتماعی بھی! اُمت مسلمہ مع العسر یسرًا کی صبح روشن دیکھے۔ اس کی آزمایشیں کم ہوں___ اور سرزمین پاک سے وحدتِ اُمت اور غلبۂ حق کا وہ خواب تعبیر بن جائے‘ جو صدیوں سے اُمت کے کروڑوں بندگانِ ایمان و اخلاص دیکھتے چلے آ رہے ہیں اور ہر سال رمضان کی سعید ساعتوں میں جس کی تمنا کرتے رہے ہیں۔ خدا کرے نیکی کے یہ طلب گار آگے بڑھ کر ___ پورے عالم کو نیکیوں کے غلبے سے معمور کر کے‘ نغمہ توحید کو سربلند اور ظلمتِ شب کو چاک اور کلمۂ حق کو نافذ کرسکیں۔ آمین!