’’رسائل و مسائل‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۲ء) میں نمایش فقر کے حوالے سے جس سوال کا مولانا مودودیؒ کا جواب شائع کیا گیا ہے وہ سوال اس حقیر کا تحریر کردہ ہے جو غالباً آج سے ۵۰ سال قبل جماعت اسلامی سے اپنے ابتدائی تعلق کے دوران ڈھاکہ سے میں نے بھیجا تھا۔ اس کی شان نزول یہ ہے کہ وہ زمانہ بڑی عسرت اور تنگ دستی کا ہوا کرتا تھا اور ڈھاکہ جماعت کا کل ماہانہ خرچ دو تین سو روپے ہی ہوتا تھا۔ ہمہ وقتی کارکن کی تنخواہ ۶۰ روپے تھی۔ اس زمانے میں ہمارے ہاں دو رکن یونی ورسٹی کے پروفیسر تھے۔ ایک ڈاکٹر عزیر تھے اور دوسرے کا نام یاد نہیں آ رہا (وہ حیدر آباد دکن کے تھے)۔عزیر صاحب ڈھاکہ یونی ورسٹی میں تھے اور دوسرے صاحب انجینئرنگ یونی ورسٹی میں۔ان دونوں کو یونی ورسٹی کی طرف سے اچھی رہایش ملی ہوئی تھی۔ غالباً ایک کے پاس ملازم بھی تھا۔ ان کی تنخواہ بھی اس زمانے کے معیار کے مطابق اچھی تھی جس کا اظہار ان کے لباس‘ کھانے پینے اور رہن سہن سے ہوتا تھا۔
ہم کارکنان جماعت کی تعداد اس وقت ۳۰ سے زیادہ نہ تھی۔ ہم بے چاروں کو نہ صحیح گھر نصیب تھا‘ نہ صحیح لباس اور جوتے اور نہ مناسب بودوباش ہی تھی۔ میں اس وقت نیا نیا جماعت کے قریب آیا تھا اور ذہن میں یہ سوال آیا تو میں نے مولانا مودودیؒ کو لکھ مارا۔
میں نے سوچا کہ آپ کو اس سوال کے محرک اور اس کے پس منظر سے آگاہ کر دوں۔ جب بھی ترجمان القرآن دیکھتا ہوں تو دل کی گہرائیوں سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ کی مساعی کو قبول فرمائے اور بہتر سے بہتر انداز میں کام کرنے کی توفیق دیتا رہے۔ آمین!
’’عروج کا راستہ‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۲ء) میں وحشیوں کے لیے barbarians (ص ۳۴) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یہ مناسب نہیں۔ ہمارے ہاں ’’بربریت ‘‘ کے لفظ کا بھی عام استعمال ہے‘ غالباً ہم اس کے پس منظر سے واقف نہیں ہیں۔ بربر افریقہ کے وہ جنگجو قبائل تھے جنھوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام کی سربلندی اور ظلم و استعمار کے خاتمے کے لیے بڑی جواں مردی دکھائی اور اسلام کے جیشِ اول کا کردار ادا کیا۔ مغرب کو اسلام کے غلبے سے زک پہنچی تھی۔ اس نے ایک سازش کے تحت بربر قبائل کو بدنام کرنے کے لیے لفظ بربر کو ’’بربریت‘‘ کانام دے کر ایک گالی بنا دیا‘ زبان زدعام کر دیا اور مسلمانوں کی جرأت‘ عظمت و سربلندی کی ایک پوری تصویر کو مسخ کرکے رکھ دیا۔ ہمیں یہ لفظ استعمال نہ کرنا چاہیے۔
ترجمان القرآن میں امریکی استعمار‘ مغرب اور صہیونی قوتوں کی اسلام دشمنی اور سازشوں اور دیگر اہم مسائل پر تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں جو فکری آبیاری اور شعور کی پختگی کا باعث ہوتی ہیں۔ البتہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے انصافی‘ کرپشن اور داخلی انتشار سے متعلق ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب پر مبنی تحریریں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس ملک کا وہ غریب شہری جس کا تھانیدار‘ پٹواری‘ تحصیل دار‘ بدعنوان افسران بالا‘ افسرشاہی اور انصاف کا خون کرنے والی عدلیہ سے واسطہ پڑتا ہے اور اسے نجات کی کوئی راہ نہیں سجھائی دیتی‘ اس کے لیے بھی کوئی لائحہ عمل پیش کیا جانا چاہیے تاکہ عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور بے حسی کا بھی کچھ سدباب کیا جاسکے۔
میں ستمبر ۲۰۰۲ء کے آخری ہفتے میں مولانا عبدالشہید نسیم‘ ڈائریکٹر سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ریسرچ اکیڈمی‘ ڈھاکہ کی دعوت پر بنگلہ دیش گیا۔ انھوں نے ’’مولانا مودودیؒ اور ان کے کارنامے‘‘ کے موضوع پر ایک سیمی نار منعقد کیا تھا۔ اس موقع پر میں نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے دو اہم عہدے داروں‘ یعنی امیرجماعت مولانا مطیع الرحمن نظامی اور سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد کی بطور وزیر عمومی کارکردگی کے بارے میں بھی معلومات حاصل کیں۔ مولانا مطیع الرحمن نظامی وزیر زراعت اور علی احسن مجاہد وزیر براے سماجی بہبود ہیں۔ دونوں وزرا کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ دونوں نہایت دیانت دار ہیں‘ ٹھیک وقت پر اپنے اپنے دفتر پہنچ جاتے ہیں‘ پورا وقت توجہ سے وزارتی کام میں مصروف رہتے ہیں اور تمام فائلوں کو اچھی طرح سے نمٹا کر شام کو دفتر سے گھر جاتے ہیں۔ گھر پر بھی ایک مختصر دفتر قائم ہے جس میں رات گئے تک کام میں مصروف رہتے ہیں۔ دونوں بہت مخلص ‘ سادہ زندگی گزارنے والے اور اپنے کام کو پوری طرح سمجھنے والے ہیں۔ دونوں وزرا نے وزیراعظم اور کابینہ کے دوسرے ارکان کو بہت متاثر کیا ہے۔ کابینہ میں ان کی رائے توجہ سے سنی جاتی ہے اور اس کی قدر کی جاتی ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ وزیراعظم خالدہ ضیا نے کابینہ کے ایک اجلاس میں اپنے وزرا سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ لوگوں کو جماعت کے دونوں وزرا کی اچھی مثال اپنے سامنے رکھنی چاہیے۔ وہ دونوں اپنی اپنی وزارت کے دفاتر میں ٹھیک وقت پر پہنچتے ہیں۔ سب سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ دورے بھی خوب کرتے ہیں اور اپنی جماعت کو بھی چلا رہے ہیں۔ آپ لوگوں کو بھی ان کی طرح مستعد ہونا چاہیے۔
مولانا مطیع الرحمن نظامی نے بتایا کہ ہم نے کابینہ سے مدرسہ عالیہ کے فاضل کو بی اے اور کامل کو ایم اے کے برابر قرار دینے کا فیصلہ کروا لیا ہے۔ ڈگری کی سطح تک اسلامیات کو لازمی کرنے کی تجویز زیرغور ہے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ دونوں وزرا نے اپنے حسن اخلاق اور بلند کردار سے جماعت اسلامی کے لیے عوام کے دلوں میں جگہ بنائی ہے۔ پریس میں بھی ان کی دیانت داری‘ اخلاص اور بہتر کارکردگی کی تعریف کی جاتی ہے۔