پروفیسر خورشید احمد | نومبر ۲۰۰۲ | اشارات
۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابی نتائج ایک آئینہ ہیں جن میں پاکستانی قوم کی مجموعی فکر کا عکس صاف صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ ان انتخابات کو نہ مکمل طور پر شفاف کہا جا سکتا ہے اور نہ ان قواعد و ضوابط اور انتظامات کو مبنی برعدل قرار دیا جا سکتا ہے جن کے تحت یہ انتخاب منعقد ہوئے۔ اس لیے کہ دستوری ترامیم‘ انتخابی قواعد اور الیکشن کے انتظامات میں اس امر کی پوری کوشش کی گئی کہ برسراقتدار انتظامیہ اپنے مفید مطلب نتائج حاصل کرلے اور اپنے پسندیدہ عناصر کو کامیاب کرا لے۔ لیکن ان تمام تحدیدات (limitations) کے باوجود پاکستانی عوام نے بحیثیت مجموعی اپنے جذبات و عزائم کے اظہار کا راستہ نکال لیا اور پنجاب اور سندھ کے متعدد حلقوں اور بلوچستان کے چند مقامات پر کھلی دھاندلی‘ سرکاری مداخلت اور زورآور گروہوں کی دراندازی کے باوجود عوام نے اپنا پیغام اور فیصلہ ارباب اقتدار اور عالمی راے عامہ دونوں کو کسی لاگ لپیٹ کے بغیر پہنچا دیا ہے۔
اب ملک کے مستقبل اور یہاں جمہوریت کے فروغ اور امن و ترقی کے حصول کا انحصار اس پر ہے کہ جنرل پرویز مشرف‘ فوجی قیادت اور سیاسی جماعتیں سب اپنے اپنے تحفظات کے علی الرغم عوام کے اس فیصلے کو قبول کریں اور اس پر اس اسپرٹ کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں جو انتخابی نتائج سے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس میں نہ کسی کی فتح ہے اور نہ شکست۔ اس میں سب کی بھلائی اور سب سے بڑھ کر ملک و ملت کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اس سے ہٹ کر کوئی اور راستہ اختیار کیا گیا۔ جیساکہ کچھ عناصر--- جن میں ملک کی کچھ کھلی اور مخفی قوتیں اور ان کے بیرونی سرپرست شامل ہیں--- ڈھکے چھپے ہی نہیں نیم وا انداز میں حکمرانوں کو اس خطرناک راستے پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ تو یہ ملک کے لیے تباہی کا راستہ ہوگا۔کچھ لوگ ’’فاتح افغانستان‘‘ جنرل ٹامی فرینکس کے دورۂ پاکستان (۱۸ اکتوبر ۲۰۰۲ء) اور حکومت افغانستان کے ایک نمایندے اور بھارتی وزیرخارجہ کے اظہاراضطراب (concern) کو اسی پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔ لیکن بیشتر پاکستانی اخبارات کے ادارتی تبصرے‘ کالم نگاروں کے واضح اشارات اور قومی جماعتوں کے نمایندوں کے واضح اور متوازن بیانات اس امر پر شاہد ہیں کہ ان حالات میں ملک اور اس کی قیادت کے لیے ایک ہی معقول راستہ ہے اور وہ یہ کہ کسی اینچ پینچ کے بغیر‘ انتخابی نتائج کو تسلیم کرے اور بلاتاخیر ان پر ان کی اسپرٹ کے مطابق عمل درآمد کرے۔
جنرل پرویز مشرف اور ملک کی فوجی قیادت ‘جس نے گذشتہ تین سال سے حکمرانی کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی اور جو عدالت عالیہ کی دی ہوئی مہلت کے مطابق جمہوری عمل کے احیا کی پابند ہے‘ اور امریکہ‘ دولت مشترکہ اور مغربی اقوام جو ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے مختلف انداز میں دبائو ڈالتے رہے ہیں‘ اب آزمایش کی کسوٹی پر جانچے جا رہے ہیں کہ وہ عوام کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں یا خدانخواستہ اسے ناکام کرنے کے لیے چال بازی اور کسی نئے سیاسی کھیل کا خطرناک راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ہم اس امر کا برملا اظہار کرنا چاہتے ہیں کہ حکمرانوں اور قومی قیادت ‘دونوں کو خود اپنے ملک کے ماضی کے تجربات اور تاریخ کے وسیع تر مگر‘ ناقابل تردید شواہدکی روشنی میں وہی راستہ اختیار کرنا چاہیے جو معقول بھی ہے اور مثبت نتائج کا ضامن بھی--- یعنی عوام کی رائے کا مکمل احترام اور ان کے فیصلے پر پوری سپردگی کے ساتھ عمل۔ ہماری دعا ہے کہ جنرل مشرف اور ان کے رفقا قوم کے پیغام (message) کو بے چون و چرا قبول کریں‘ اور اس طرح اپنی عزت میں اضافہ کریں‘ ماضی کی خود اپنی اور دوسروں کی غلطیوں کی تلافی کا کچھ سامان کریں‘ ایک بہتر مثال قائم کرنے کی سعادت حاصل کریں اور ملک کو جمہوریت اور دستور اور قانون کی حکمرانی کے راستے میں آگے بڑھنے کا سامان فراہم کریں۔
اس امر کے واضح ہو جانے کے بعد کہ اب ملک و قوم کے لیے ایک ہی جائز اور مبنی برحق راستہ عوام کے مینڈیٹ کا‘ جیسا بھی وہ ہے‘ احترام اور اس پر عمل ہے‘ یہ بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ذرا تفصیل میں جاکریہ متعین کیا جائے کہ وہ مینڈیٹ کیا ہے اور اس پر عمل کے کیا تقاضے ہیں؟ معلق پارلیمنٹ اور منقسم مینڈیٹ کے الفاظ بہ کثرت استعمال ہو رہے ہیں اور ان کے بین السطور سیاسی عدم استحکام کے اندیشے اور بیرونی سرمایے اور سیاسی تائید سے محرومی کے اشارے بھی کچھ خاص حلقوں کی طرف سے دیے جا رہے ہیں۔ اس لیے اس بات کو اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت کی ۲۰۰ سالہ تاریخ میں نہ معلق پارلیمنٹ کوئی نئی چیز ہے اور نہ منقسم مینڈیٹ۔ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ دنیا کے بیشتر جمہوری ممالک کو کسی نہ کسی دور میں اس نوعیت کے نتائج سے سابقہ پڑتارہا۔ امریکہ‘ فرانس‘ اٹلی‘ ہالینڈ‘ جاپان‘ کون سا ملک ہے جسے کبھی نہ کبھی اسی نوعیت کی صورت حال سے سابقہ پیش نہ آیا ہو۔ مخلوط حکومت بھی کوئی اجنبی چیز نہیں۔ اس سے متوحش ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مینڈیٹ کی اصل حقیقت کو‘ ملکی حالات اور پالیسیوں کے معروضی پس منظر میں‘ ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے اور اس پر عمل کے لیے خطوط کار متعین کیے جائیں۔
۱- سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں عوام نے جنرل پرویز مشرف کے تین سالہ دورِ حکومت اور اندازِ حکمرانی کے بارے میں ایک واضح فیصلہ دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو وہ اپنی اصلاحات کا نام دے رہے ہیں‘ وہ عوام کی نگاہ میں مطلوبہ اصلاحات نہیں ہیں۔ عوام نے جنرل صاحب کے حامی عناصر کو ساری سرکاری سرپرستی‘ گورنروں کے الطاف و انعامات‘ انتظامیہ کی ترغیبات و ترہیبات ‘ ناظمین کے التفات و توجہات اور انتخابی مشینری کی نوازشات اور سہولیات کے باوجود حکمرانی اور تسلسل کا اختیار نہ دے کر صاف پیغام دے دیا ہے کہ وہ تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ اب ساری توجہ اس تبدیلی کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے ہونی چاہیے جو عوام کو مطلوب ہے۔ کسی فرد‘ گروہ یا جماعت کو عوام پر اپنی رائے مسلط کرنے کا حق اور اختیار نہیں۔
۲- عوام نے فوج کو بھی ایک واضح پیغام دے دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے اب اپنی بیرکوں کا رخ کرنا چاہیے۔ سیاست میں کسی مستقل کردار کی تلاش ایک نئی کش مکش کو جنم دینے کا باعث ہو سکتی ہے۔ ہم شروع سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ملک کی فوج کی حقیقی ضروریات کو پورا کرنا قوم کی ذمہ داری ہے۔یہ کام باہم مشورے سے اور عزت و احترام کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ فوج مضبوط ہو اور قوم کے اعتماد اور محبت و عقیدت کا مرکز و محور بنے۔ وہ سیاست میں فریق بن کر متنازع نہ بنے۔ اس کی ساری توجہ اعلیٰ ترین درجے کی پیشہ ورانہ مہارت کے حصول پر مرکوز رہے۔ ملک اور فوج دونوں کا مفاد اسی میں ہے۔ ۱۰ اکتوبر کے انتخابات نے بڑے کھلے انداز میں فوج اور اس کی قیادت کو یہ پیغام دے دیا ہے جس پر جتنی جلد عمل ہو‘ اتنا ہی سب کے لیے بہتر ہے۔
۳- ان انتخابات سے یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ پاکستانی قوم ایک آزادی پسند اور باغیرت قوم ہے اور خود کو اُمت مسلمہ کا ایک باوقار حصہ سمجھتی ہے۔ وہ دنیا کے تمام ممالک اور خصوصیت سے آج کی بڑی طاقتوں بشمول امریکہ سے ‘جو اب واحد عالمی قوت ہے‘ دوستانہ تعلقات چاہتی ہے‘ لیکن اپنی آزادی‘ قومی وقار اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے حقیقی مفادات کے فریم ورک میں۔ اس کے بڑے اہم مضمرات ملک کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں‘ خصوصیت سے معاشی پالیسیوں کے لیے ہیں۔ ملک کی سیاسی قیادت کو پوری دیانت‘ حکمت اور بالغ نظری کے ساتھ ان تقاضوں کو متعین کرنے اور ان کے حصول کے لیے صحیح منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ البتہ یہ کام بڑے سوچے سمجھے انداز میں اور ٹھنڈے غوروفکر کے ساتھ انجام دیا جانا چاہیے۔
۴- یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ قوم کی نگاہ میں تبدیلی اور قیادت پر فائز کرنے کا صحیح راستہ بیلٹ (رائے کی پرچی) ہے بولیٹ (بندوق کی قوت) نہیں‘ خواہ اس کا استعمال کرنے والے عناصر سویلین ہوں یا وہ فوجی جن کو قوم نے بندوق بطور امانت دی ہے اور جسے دشمن کی جارحیت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے مختص ہونا چاہیے۔
۵- یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور وہ عناصر جو سیکولرزم اور لبرلزم کے نام پر یہاں مغربی تہذیب و ثقافت کی ترویج چاہتے ہیں‘ وہ اس کے حقیقی نمایندے نہیں۔ یہ عناصر ملک کو نظریاتی کش مکش میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ ان کے دورِ حکمرانی کے ثمرات بجز بگاڑ اور تباہی کے کچھ نہیں۔ عوام کے اصل مسائل حل کرنے میں بھی یہ قیادتیں ناکام رہی ہیں اور اخلاقی ‘تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے بھی ملک کو پیچھے ہی لے گئی ہیں۔ قوم اب ان آزمائی ہوئی قیادتوں سے نجات چاہتی ہے۔
۶- جس طرح سیکولر اور لبرل قیادتیں ناکام ہوئی ہیں اسی طرح محض علاقے‘ نسل‘ زبان اور مقامی مفادات کی علم بردار قوتوں نے بھی ملک ہی نہیں خود اپنے علاقے‘ نسل اور زبان بولنے والوں کے لیے بھی کچھ نہیں کیا۔ بحیثیت مجموعی علاقائی قوتوں کی تائید میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور لوگ قومی سوچ رکھنے والی جماعتوں کو قیادت کی ذمہ داریاں سونپنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
۷- عوام دو جماعتی نظام کے چنگل سے نکلنے کے لیے بھی بے چین ہیں۔ جن دو بڑی جماعتوں نے خاص طور پر گذشتہ ۱۵‘ ۲۰ سال سیاسی باگ ڈور باری باری سنبھالی‘ بحیثیت مجموعی عوام اُن سے مایوس ہیں اور ایک تیسری متبادل قوت کے متلاشی ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جمہوری تحریک ایسے ہی مراحل سے گزری ہے اور بظاہر پاکستان کے عوام بھی اب ایک تیسری قوت کو آزمانا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ دینی جماعتوں کے اتحاد کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
۸- متحدہ مجلس عمل کا ایک تیسری قوت کے طور پر نمایاں ہو کر سامنے آنا ان انتخابات کا بہت ہی واضح اور مثبت حاصل ہے۔ متحدہ مجلس عمل کو سرحد اور بلوچستان میں جو پاکستان کی حالیہ تاریخ میں غیرمعمولی اہمیت حاصل کر چکے ہیں‘ نمایاں کامیابی ہوئی ہے۔ سرحد میں‘ قومی اسمبلی کے لیے ۳۳ میں سے ۲۸ نشستیں اور صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر کے اور صوبہ بلوچستان کی قومی اسمبلی کی اکثر نشستوں پر کامیاب ہوکر اور صوبائی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت اختیار کر کے وہ قومی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ سرحد اور بلوچستان کے علاوہ اسلام آباد‘ لاہور‘ کراچی اور حیدر آباد سے نمایاں کامیابی نے بھی اسے ایک موثر ملک گیر قوت بنا دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں اسے ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ یہ پاکستان کے نظریاتی مستقبل اور نظام حکومت اور اندازِ حکمرانی کے باب میں اُس بنیادی تبدیلی کی طرف پہلا قدم ہے جو آزادی کے تقاضوں اور تحریک پاکستان کے اصل مقاصد کے حصول کی طرف پیش قدمی کے لیے ضروری ہے۔ یہ تبدیلی قومی سوچ کی مظہر اور مستقبل کی ایک جھلک ہے اور اس حیثیت سے ان انتخابات کا سب سے اہم اور دُور رس اثرات کا حامل پہلو ہو سکتی ہے۔
البتہ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ یہ اس اتحاد‘ اعتدال‘ مقصدیت اور پاک دامنی کا ثمرہ ہے جس کی علامت متحدہ مجلس عمل اس انتخابی مہم میں بن گئی ہے۔ یہ سیاست کا ایک نیا نمونہ (model) ہے جو عوام کے سامنے آیا ہے۔ بلاشبہہ مجلس کی کامیابی میں اس کی اسلامی شناخت اور ملکی آزادی اور وقار کے باب میں اس کے جرأت مندانہ اور واضح موقف کا بڑا دخل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ دینی قوتوں کا ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا‘ سیاسی پارٹیوں کی تقسیم در تقسیم کے پس منظر میں چھ جماعتوں کا یک رنگ ہو کر ایک جھنڈے تلے ایک قومی موقف پر جم جانے اور مخالفین کی ساری سازشوں اور دراندازیوں کے باوجود اپنی وحدت‘ یک جہتی اور بے لوث تعاون پر آنچ نہ آنے دینے کا بڑا دخل ہے۔
اس مثال نے تاریکیوں کے ماحول میں عوام کے سامنے امیداور روشنی کی ایک کرن کا منظر پیش کیا اور عوام نے ہر مفاد سے بالا ہو کر اس کو اپنی تائید سے نوازا۔ کھمبا نوچنے والوں کی کمی نہیں اور کوئی اس میں ’’خفیہ ہاتھ‘‘ دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے اور کوئی اس کا سہرا ’کتاب‘ کے نشان پر باندھنے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ خفیہ ہی نہیں صاف نظر آنے والے ہاتھ جن کی پشت پر تھے وہ کوئی راز نہیں۔ کتاب کے نشان پر ۱۹۸۵ء سے آج تک مختلف جماعتیں انتخاب لڑتی رہی ہیں لیکن یہ معجزہ اس سے پہلے کبھی واقع نہیں ہوا۔ اصل چیز وہ پیغام اور منشور ہے جو مجلس عمل نے قوم کے سامنے پیش کیا‘ وہ اتحاد ہے جس کو انھوں نے ایک حقیقت بنا دیا اور کردار کا وہ فرق ہے جو چشم سر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ دینی جماعتوں کا اتحاد اور کامیابی اب ایک ایسی سیاسی حقیقت ہے جو پاکستان کے مستقبل کی صورت گری میں ان شاء اللہ روز افزوں کردار ادا کرے گی۔ یہ ان جوہری تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے جن کی طرف یہ انتخابی نتائج اشارہ کر رہے ہیں۔
۹- ان انتخابات کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ ملک میں کوئی ایک جماعت یا قوت تن تنہا نظام کو نہ چلائے بلکہ سیاسی قوتوں کے لیے ضروری ہے کہ افہام و تفہیم اور تعاون اور اشتراک کا راستہ اختیار کریں۔ ملک تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جس طرح دینی جماعتوں نے افہام و تفہیم اور تعاون و اشتراک کے ذریعے ایک روشن مثال قائم کی ہے اسی طرح تمام سیاسی قوتوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اگر وہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہتی ہیں تو کھلے دل سے اسلامی نظریے‘ قومی آزادی ‘ ملکی مفاد اور عوام کی فلاح و ترقی کے لیے اپنے جماعتی اور گروہی مفادات سے بلند ہو کر مشترک قومی اہداف کے حصول کے لیے صف بندی کریں تاکہ کسی کو یہ زعم نہ ہو کہ ہم تنہا جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ یہی وہ ذہن تھا جس کے نتیجے میں سول حکومتیں آمرانہ نظام میں تبدیل ہو گئیں اور خود جمہوریت کے لیے خطرے کا باعث ہوئیں۔ عوام اس کھیل سے تنگ ہیں اور چاہتے ہیں کہ سیاسی قوتوں میں برداشت اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کا جذبہ پیدا ہو۔ اگر اب بھی دیانت دارانہ عمل کے راستے کو ترک کیا گیا یا کرایا گیا اور سازشوں، ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ سیاسی رشوتوں اور بلیک میل کے ذریعے غیر فطری اکثریت بنانے کی کوشش کی گئی تو یہ بات جمہوریت کے لیے سمِ قاتل ثابت ہوگی اور عوام کے مینڈیٹ کو ناکام کرنے کی مذموم کوشش ہوگی۔ البتہ ان ناپاک سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقت پسندی اور حکمت کے ساتھ لیکن بالکل صاف شفاف انداز میں اشتراکِ عمل کی راہیں تلاش کی جائیں۔ ہر سیاسی قوت کے اصل وزن کے مطابق اسے اہمیت دی جائے اور مشترک مقاصد اور اہداف کے لیے بالکل کھلی سیاست کے ذریعے ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی کوشش کی جائے جس میں ماضی کی حکومتوں‘ (بشمول جنرل پرویز مشرف کی حکومت) نے ملک کو ڈال دیا ہے۔
ہماری نگاہ میں اس وقت اصل چیلنج یہ ہے کہ انتخابی نتائج کی قوسِ قزح میں جو عوامی مینڈیٹ رونما ہوا ہے اس کی روشنی میں سب سے پہلے انتقال اقتدار‘ نہ کہ محض شراکت اقتدار کا عمل مکمل کیا جائے۔ پہلا اور سب سے اہم مسئلہ جمہوری اداروں کی بحالی‘ ۱۹۷۳ء کے دستور کو برسرِعمل (operational)شکل دینا‘ پارلیمنٹ کی بالادستی اور عوام کے حقوق کی بحالی ہے۔ وہ تمام عناصر جو اس عمل پر یقین رکھتے ہیں ان کا فرض ہے کہ ملک کو تصادم سے بچاتے ہوئے تبدیلی کے اس عمل کو اولیت دیں۔ قومی اہداف اور پالیسیوں کا تعین اور تغیر اسی وقت ممکن ہے جب یہ انتقال اقتدار واقع ہو جائے۔ ان دونوں میں خلط مبحث بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے اولین اہمیت اقتدار کی تبدیلی اور دستور کے تحت پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کی ہے۔ فوج کی اس کے اصل کردار کی طرف مراجعت اس کا اہم ترین حصہ ہے۔ یہ کام حکمت کے ساتھ انجام دینے کی ضرورت ہے۔ عوام نے جن جماعتوں کو نمایندگی کی ذمہ داری سونپی ہے ان کی واضح اکثریت ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت جمہوری عمل کی قائل ہے اور جن جماعتوں نے انتقالِ اقتدار نہیں بلکہ شراکت اقتدار کا عندیہ دیا تھا ان کو بھی سمجھ جانا چاہیے کہ عوام شراکت نہیں‘ انتقال کے متلاشی ہیں اور انھیں بھی عوام کی خواہش کے مطابق اپنے موقف میں تبدیلی کرنا چاہیے تاکہ سب مل کر جمہوری عمل کو موثر بنانے میں کامیاب ہو سکیں۔
۱۰- انتخابات کا ایک اور پیغام یہ ہے کہ مرکز اور صوبوں میں ضروری نہیں کہ ایک ہی جماعت کی حکومت ہو۔ فیڈریشن کے اصول کا لازمی تقاضا حکمران جماعتوں کی تکثیر(pluralism) ہے۔ پاکستان کی بہت سی مشکلات کی جڑ مرکز اور صوبوں میں مختلف جماعتوں کا حکومت کے بارے میں عدم برداشت کا رویہ ہے۔ جو سلسلہ مشرقی پاکستان میں ’’جگتو فرنٹ‘‘ کی حکومت کو برداشت نہ کرنے سے شروع ہوا تھا وہ بالآخر ملک کی تقسیم پر منتج ہوا۔ پاکستان کے دوسرے دور میں بھی یہی سلسلہ جاری رہا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے سرحد اور بلوچستان کی حکومتوں کے ساتھ جو کچھ کیا‘ پھر بے نظیرصاحبہ اور میاں نواز شریف کے ادوار میں پنجاب‘ سندھ اور سرحد میں جو کھیل کھیلا گیا اس نے سیاست کو گندا ہی نہیں کیا بلکہ ملک میں فیڈریشن کے تجربے کو ناکام کرنے اور مرکز گریز رجحانات کو تقویت دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان انتخابات سے صاف ظاہر ہے کہ سرحد اور بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل‘ پنجاب میں قائداعظم لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کو سبقت حاصل ہے۔ اگر کسی بھی غیر فطری انداز میں ان زمینی حقائق کو بدلنے یا ان کو نظرانداز کرکے کوئی اور دروبست قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ تباہی کا راستہ ہے۔
فیڈریشن کے اصل اصول اور اسپرٹ کے مطابق عوامی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے دستور کے دائرے میں ہر ایک کو اس کے حق کے مطابق حکمرانی کا اختیار اور موقع ملنا چاہیے۔
ہماری نگاہ میں ۱۰ اکتوبر کے انتخابات کے مندرجہ بالا ۱۰ پہلو ایسے ہیں جن کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ عوام کا مینڈیٹ ان تمام پہلوئوں پر حاوی ہے اور جنرل پرویز مشرف‘ فوجی قیادت اور سیاسی جماعتوں کو ان کا احترام کرنے اور ان کے مطابق معاملات طے کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ وقت ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور پرانے حساب چکانے کا نہیں۔ مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے عوام کے مینڈیٹ پر اس کی روح کے مطابق عمل ہی میں سب کی نجات ہے۔یہ مرحلہ طے ہو جائے تو پھر پالیسی کے معاملات اور حکومت سازی سے بڑھ کر ملک سازی کا مرحلہ آتا ہے۔ بلاشبہہ بڑا چیلنج ملک سازی کا ہے اور اپنے اپنے منشور کے مطابق ہر سیاسی قوت کو اس کے لیے تیاری اور محنت کرنی چاہیے لیکن انتقالِ اقتدار کے مراحل کو طے کیے بغیر اور اس کام کو بخوبی انجام دیے بغیر اس طرف پیش رفت ممکن نہیں۔ وقت کم ہے اس لیے دونوں مرحلوں کو ٹھیک ٹھیک طے کرنے کی فکر وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ البتہ ترتیب اور ترجیحات کا احترام ضروری ہے: الاقدم فالاقدم!
متحدہ مجلس عمل کی قیادت اور اس کے کارکنوں کو جہاں ہم ان کی اس تاریخی کامیابی پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتے ہیں‘ وہیں یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں ہم خود کو اور اپنے تمام ساتھیوں کو یاد دلائیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک خصوصی انعام ہے۔ قیادت کا وژن اور کارکنوں کی محبت اور قربانیاں سب اپنی جگہ‘ لیکن اصل چیز اللہ تعالیٰ کی اعانت اور نصرت ہے اور اس کے ہر انعام کی طرح یہ کامیابی بھی ایک عظیم آزمایش اور کڑا امتحان ہے۔ قرآن نے جو اصول اس باب میں بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَ زِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌo (ابراہیم ۱۴:۷) ’’اور یاد رکھو تمھارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘۔
اس آیت کریمہ پر غور کرنے سے تین باتیں خاص طور پر سامنے آتی ہیں:
اول: ہر نعمت اور ہر کامیابی اللہ اور صرف اللہ کی طرف سے ہے۔ انسانی کوشش‘ صحیح منصوبہ بندی‘ جان ماری سے جدوجہد‘ ایثار اور قربانی سب ضروری ہیں اور قدرت کے بنائے ہوئے قانون کا لازمی حصہ--- لیکن مسبب الاسباب صرف اللہ کی ذات ہے اور جو کچھ بھی انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ عطیہ الٰہی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اپنے مالک اور آقا کا احسان ماننا‘ اس سے اپنی نسبت کو مزید مستحکم کرنا‘ ہر قسم کے غرور اور تعلی سے گریز اور اپنے رب کی رحمت اور نعمت نوازی کا شعور ہے۔ کافر کامیابیوں کو اپنی فتح سمجھتا ہے اور مسلمان اسے اپنے رب کا انعام--- اور یہی چیز اسے شکر اور عجز کی راہ اختیار کرنے کا شرف بخشتی ہے۔
دوم: جس بابرکت ہستی نے ایک عظیم نعمت سے ہمیں نوازا ہے اس کا تقاضا ہے کہ اس نعمت پر شکر کے ساتھ یہ ادراک کیا جائے کہ اب اس نعمت کا کیا حق ہے۔ یہ نعمت خود مطلوب نہیں‘ بلکہ ذریعہ ہے ان مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے جو رب نے ہر نعمت کے ساتھ مقرر فرما دیے ہیں۔ اگر رزق میسر آیا ہے تو وہ اس لیے کہ ہم جسم و جان کے لیے وہ سامان فراہم کریں جن کے ذریعے یہ جسم و جان مالک کی رضا کے حصول‘ اس کے دین کے قیام اور اس کے کلمے کی سربلندی کے لیے سرگرم عمل ہوسکیں۔ اگر دولت حاصل ہوئی ہے تو وہ صرف ہماری ذات کی افزایش کے لیے نہیں‘ ان مقاصد حیات کی ترویج کے لیے دی گئی ہے جن سے زندگی عبارت ہے۔ اگر سیاسی اثر و رسوخ اور قوت و اقتدار حاصل ہوا ہے تو وہ خود مطلوب نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس کے دین کے قیام اور اس کے بندوں کی خدمت کا ایک موقع ہے۔ اس لیے ہر انعام ایک آزمایش ہے اور دل اورزبان کے مالک کے احسان و انعام کے اقرار و اعتراف کے بعد اس نعمت کے حق کو پہچاننا شکر کا دوسرا مرحلہ ہے۔
سوم: اس نعمت کا استعمال بھی شکر ہی کا ایک پہلو ہے۔کفران نعمت صرف زبان سے نعمت سے انکار نہیں‘ نعمت کا غلط استعمال یا اصل مقصد سے ہٹ کر کسی اور طرح اور کسی اور طرف اس کا استعمال بھی کفرانِ نعمت ہی کی ایک شکل ہے۔ نعمت کے حق کو سمجھنے کے بعد اس سے اگلا مرحلہ اس نعمت کے صحیح استعمال کا ہے۔ معاملہ رزق کی فراوانی کا ہو‘ یا علم کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کا‘ یا قوت و اقتدار کے حصول کا--- ہر نعمت کا صحیح استعمال اور احکام الٰہی کے مطابق اصل مقاصد کے حصول کے لیے اس نعمت سے استفادہ بھی شکر ہی کے مفہوم میں داخل ہے۔
یہیں سے یہ بات واضح ہے کہ نعمت الٰہی اور اللہ کے احکام اور ان کے اتباع میں بڑا قریبی اور ناقابل انقطاع تعلق ہے۔ نعمت ایک صلاحیت ہے اور اس صلاحیت کا جائز اور مطلوب مصرف احکامِ الٰہی کا اتباع اور نفاذ ہے۔
اگر مومن ہر نعمت اور ہر انعام پر شکر کا راستہ اختیار کرتا ہے تو مالک السموات والارض نعمتوں اور انعام کی بارش فرماتا ہے اور یہ سلسلہ برابر بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اور اگر غرور اور تکبر کا شکار ہو جاتا ہے‘ غفلت اور خود فریبی میں مبتلا ہو جاتا ہے‘ خیروشر کے امتیاز کو نظرانداز کرتا ہے‘ سب کچھ اپنی محنت کا حاصل سمجھنے لگتا ہے‘ دوسروں کے حقوق کو پامال کرتا ہے اور اللہ کے احکام سے صرفِ نظر کرنے لگتا ہے تو پھر یہی انعام سخت بازپرس اور پکڑ کا وسیلہ بن جاتا ہے اور انسان فراز سے پستی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔
اس اصول کی روشنی میں متحدہ مجلس عمل کے تمام کارکنوں کا فرض ہے کہ سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اپنے رب کے شکر کا راستہ اختیار کریں اور اس شکر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ اسمبلیوں کی رکنیت ہماری منزل نہیں۔ اقتدار بھی ہمارا اصل ہدف اور مقصود نہیں۔ یہ سب ذریعہ ہیں اللہ کی رضا کے حصول کے لیے جدوجہد کا‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پھیلانے اور سربلند کرنے کا‘ اللہ کے بندوں کی خدمت اور ان کو رب کی عبادت کی راہ پر لگانے اور مستحکم کرنے کا--- کہ مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ حکومت اور دولت کو ‘مطلوب نہیں‘ اصل مطلوب کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ بلاشبہہ یہ ذریعہ بھی ضروری ہے لیکن یہ ذریعہ ہے‘ مقصود و مطلوب نہیں۔ اس لیے جو بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ مزید جدوجہد کے لیے ایک موقع اور آگے کے مراحل کی طرف پیش قدمی کا زینہ ہے۔ ابھی جو کچھ ہمیں حاصل ہوا ہے وہ اس جدوجہد کے لیے فتح باب کا درجہ رکھتا ہے‘ منزل مراد کا نہیں۔ یہ تو پہلا قدم ہے‘ عشق کے اصل امتحان تو اب شروع ہو رہے ہیں۔ جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ اللہ کی نصرت ہے‘ اور اللہ کی نصرت کا مزید حصول اللہ سے وفاداری‘ اپنے مقاصدِ حیات کی خدمت کے لیے مزید تیاری اور جدوجہد اور اللہ کے بندوں کو دین حق کی برکات سے شادکام کرنے کے لیے قربانی اور مسلسل سعی سے ممکن ہے۔ جہاں ہمیں جتنا اختیار حاصل ہو اسے اللہ کی بتائی ہوئی حدود کے اندر‘ اللہ کے بندوں کے لیے زندگی کو آسان بنانے اور اللہ کے دین کی اطاعت کو کاروبار حیات بنانے کے لیے استعمال کرنے میں ہماری کامیابی ہے۔ یہی شکر کی اصل راہ ہے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جو کام ہمیں انجام دینا ہے وہ حکمت اور بردباری کے ساتھ تحمل و رواداری‘ ایثار و قربانی اور خدمت اور جفاکشی کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ قوم نفس کے پجاریوں کے کرتوتوں کی ستم زدہ ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے کارکنوں کو ہر سطح پر اعلیٰ کردار اور بے لوث خدمت کی نئی مثالیں قائم کرنا ہے تاکہ دنیا پرستوں اور دین کے نام لیوائوں کا فرق ان کے سامنے آسکے اور آپ کی اچھی مثال سے روشنی کے نئے چراغ روشن ہوں۔ جو کچھ آج حاصل ہوا ہے کل اس سے کہیں زیادہ کامیابیاں آپ کا مقدر ہو جائیں اور یہ مظلوم قوم ترقی اور کامرانی کی راہوں کو استوار کر سکے اور عزت کا مقام حاصل کر سکے۔ حکمت اور تدریج‘ انصاف اور حق پرستی‘ عجزوانکسار اور جہدمسلسل ہی کامیابی کا راستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر اس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔ضروری ہے کہ قلب و نظر سے شکرادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہم سب اس لائحہ عمل پر سختی سے قائم ہو جائیں جو اس شکر کا لازمی تقاضا ہے۔ ملک شدید خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ ہمیں اپنی قوت اور اثرات کو بھی بڑھانا ہے اور ملک کو بھی ان مشکلات سے نکالنا ہے جن کی گرفت میں وہ ہے‘ یہ مشکلات اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی۔ ان سے مرحلہ وار ہی نبردآزما ہوا جا سکتا ہے۔ اس لیے جہاں وژن کے باب میں مکمل یکسوئی اور استقامت ضروری ہے وہیں تدبیر منزل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اور بروقت اقدام بھی ضروری ہیں۔ خود کو اس عظیم کام کے لیے فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر بھی تیار کرنا ضروری ہے تاکہ مسائل کے عقدے حل ہو سکیں اور عوام اسلام کی وفاشعار قیادت اور محض دنیاپرست قیادتوں کے فرق کو محسوس کر سکیں اور اچھی قیادت کے ہاتھوں اچھی حکومت اور خادم خلق طرزحکمرانی کے ثمرات سے فیض یاب ہو سکیں۔
متحدہ مجلس عمل کی اس پہلے مرحلے کی کامیابیوں سے ملک کے کچھ حلقوں میں اور اس سے بھی زیادہ بیرونی دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔ ہمیں نہ ان کو نظرانداز کرنا چاہیے اور نہ ان سے خائف ہونے کی کوئی وجہ ہے۔ پھر یہ کوئی نئی چیز بھی نہیں۔ اسلامی قوتوں کو ہر دور میں اور ہر مقام پر انھی مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ البتہ ہمیں صبرواستقامت کے ساتھ حلم و حکمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ تیاری کے بغیر تصادم بہادری نہیں‘ حماقت ہے۔ میدانِ جنگ سے فرار جرم ہے تو جنگ کے وقت‘ میدان‘ صلاحیت اور آداب ہر ایک کے باب میں صحیح حکمت عملی‘ مناسب تیاری اور بروقت اقدام کے اہتمام سے اغماض بھی کچھ کم جرم نہیں۔ سیاست کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں کہ جہاد محض میدان جنگ کی جدوجہد کا نام نہیں بلکہ زندگی کی تمام وسعتوں میں دین کے پیغام کو پہنچانے اور اللہ کی مرضی کو اللہ کے بندوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کا نام ہے۔ اگر ہماری سیاست اللہ کے دین کے قیام کے لیے ہے تو یہ بھی جہاد ہی کا ایک حصہ ہے۔
راے عامہ کی تبدیلی سے لے کر راے عامہ کے ذریعے تبدیلی اسی جدوجہد کے مختلف مراحل ہیں۔ اس لیے ہم متحدہ مجلس عمل سے وابستہ تمام ساتھیوں کو جہاں مسلسل نفس کے تزکیے اور اللہ سے تعلق اور استعانت کی نصیحت کرتے ہیں‘ وہیں یہ درخواست بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اپنی حکمت عملی پورے غوروفکر اور باہمی مشاورت سے مرتب کریں اور پوری جانفشانی اور محنت سے پارلیمانی نظام کے ذریعے تبدیلی لانے کے لیے خود کو تیار کریں اور قوم کے سامنے ایک نیا اور اعلیٰ نمونہ قائم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔
حالات پر اثرانداز ہونے کا جو موقع میسر آئے اور خدمت کی جو صورت بھی بن پڑے اس میں ہمارا کردار منفرد ہونا چاہیے۔ دینی قوتوں کے اتحاد کو قائم رکھنا اور مزید مستحکم کرنا اور تمام اچھے انسانوں کو اپنے ساتھ ملانا وقت کی ضرورت ہے۔ مرکز اور صوبوں میں‘ جہاں جو شکل بھی بنے‘ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک نئے دور کے نقیب بن جائیں اور ایک ایسے طرزِحکمرانی کو رائج کرنے کا ذریعہ بنیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں انصاف کا بول بالا ہو‘ لوگوں کے دکھ کم ہوں‘ اور جو خواص (elitist) کا معاشرہ قائم ہو گیا ہے اس کی جگہ ایک ایسا سماج وجود میں آئے جس میں کمزور کو وہ قوت فراہم کی جا سکے کہ اس کا حق اسے مل سکے اور دوسروں کا حق مارنے والوں پر ایسی گرفت ہوسکے کہ وہ دوسروں کے مال‘ جان‘ آبرو پر دست درازی کی ہمت نہ کرسکیں۔ دنیا ہمیں ہمارے دعووں سے نہیں ہمارے عمل اور نمونے سے جانچے گی۔ اب ہم جتنا بہتر نمونہ پیش کریں گے‘ آگے کی منزلیں اتنی ہی آسان ہو سکیں گی۔ آپ زمین کا نمک اور پہاڑی کا چراغ بنیں گے تو یہ زمین نعمتیں اگلنے والی زمین بنے گی اور یہ معاشرہ تاریکیوں سے نکل کر روشنی کا گھر بن سکے گا۔
۱۰ اکتوبر کے انتخابات کے نتیجے میں تبدیلی اور اصلاح کا ایک بند دروازہ کھلا ہے۔ ہماری جدوجہد اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ اس دور کے تقاضوں کو سمجھنا اور ان کو پورا کرنے کے لیے نئے عزم سے سرگرم عمل ہونا آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے ع
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا