نومبر ۲۰۰۲

فہرست مضامین

اجتما عی تقویٰ

خرم مراد | نومبر ۲۰۰۲ | گوشہ رمضان

Responsive image Responsive image

تقویٰ سو چ اور عمل کی وہ روش ہے جو دنیا اور آخرت کی ساری بھلا ئیو ں کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔

اللہ کی کتاب اور جو کچھ اللہ کے رسول ؐ نے کہا ہے اور ہدایت دی ہے اس کا مقصد بھی تقویٰ پیدا کر نا اور متقی بنا نا ہے۔ قرآن مجید اُن کے لیے کتابِ ہدایت ہے جو اپنے اندر تقویٰ کی صفت رکھتے ہو ں۔ اس کے ایک معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ اس کی ہدا یت حا صل کر نے کے لیے ‘اس کی راہ پر چلنے کے لیے‘  تقویٰ ضروری اور نا گزیر ہے۔ ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ کتاب اصل میں متقی بنا نے کے لیے نا زل ہوئی ہے۔

تقویٰ

تقویٰ کو ہم سب جا نتے اور پہچا نتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اس کا تصور اور تاریخ ہمارے درمیان موجو دہے۔ یہ عربی کے جس لفظ (وقایۃ)سے نکلا ہے اس کے معنی’’ بچنے‘‘ کے ہیں۔اسی سے تقویٰ کا لفظ نکلا ہے اور تقویٰ کے لغوی اوراصطلاحی معنی یہ ہو ں گے کہ اپنے آپ کو بچا لو۔

اللہ تعا لیٰ نے انسا ن کی فطرت میں کسی بھی نقصان دہ اور ضرر رساں چیز سے بچنا ‘ودیعت کیا ہے۔جو چیز بھی ہمیں نقصان پہنچا تی ہو ‘اس سے ہم بچنا چا ہتے ہیں اور بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر غور کیا جائے تو ہماری پوری زندگی کا تانا بانا انھی دو چیزوں سے بُنا جا تا ہے۔ ایک یہ کہ اپنے آپ کوان چیزو ں سے بچائیں جن کو ہم اپنے لیے نقصان دہ سمجھتے ہوں‘ اور دوسرے یہ کہ ان چیزوں کو حاصل کیا جائے جن میں ہم اپنے لیے نفع اور فا ئدہ دیکھتے ہو ں۔ نفع اور نقصان کا پیما نہ مختلف ہوسکتا ہے لیکن مومن ہو یا کافر‘ انسا ن کی فطرت میں یہی دو جذ با ت موجزن رہتے ہیں‘ اور زندگی کی ساری سو چ اور ساراعمل ان ہی دو چیزوں سے متعین ہوتا ہے۔ جس چیزسے جان و مال اور عزت و آبرو کو نقصا ن پہنچتا ہو‘ آدمی اس کے خلا ف دفا ع کرتا ہے اور اپنے آپ کو بچا تا ہے ‘اور جہا ںبھی وہ نفع دیکھتا ہے--- پڑھنے لکھنے میں ‘ کیرئیربنا نے میں ‘ تجارت میں ‘ دوسرو ں پر اپنا حکم جتا نے اور اپنی عزت بنا نے میں--- اس کے لیے وہ کا م کرتا ہے۔

ایک لحا ظ سے یو ں محسو س ہو تا ہے کہ تقویٰ دراصل ایک منفی صفت ہے جو اپنے آپ کو اُن چیزوں سے بچا نے کا نا م ہے جو نقصا ن پہنچا نے والی ہوں ۔ جب آدمی اپنے منصو بے کو ہر اس چیز سے بچا لے جو اس کو نقصان پہنچا نے والی ہو‘تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس کا منصوبہ کامیاب ہو گیا۔اگر کسا ن بیج ڈال کر اپنی کھیتی کو ہر اس آفت سے بچالے جوکھیتی کو نقصا ن پہنچاسکتی ہو توکھیتی لہلہا اٹھے گی اورفصل بھی دے گی۔ اس لحا ظ سے تقویٰ دراصل اپنی پوری زندگی کو اچھے اعمال سے بھردینے کا نا م بھی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے  کہ اچھے اعمال کو اختیار کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ کم سے کم آدمی ان چیزو ں سے رک جا ئے جو نقصان پہنچا نے والی ہو ں۔

لغوی معنو ں کے لحا ظ سے دین میں تقویٰ کا تصور اس لحا ظ سے وسیع اور جا مع ہے کہ اس میں اُن چیزو ں سے بچنا پیش نظر ہے جو زندگی کے مقصد کے خلا ف ہوں۔ اگر زندگی کامقصد اللہ کی بندگی ا ور اس کی رضا وجنت کی طلب ہے تو ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس سے اس راہ میں رکا وٹ پڑتی ہو‘ جس سے یہ منزل کھو ٹی ہوتی ہو ‘ جس چیز سے اس منصوبے کواور زندگی کے اس مشن اور کیریئر کو کہ آخرت بنے ‘اللہ کی رضا حاصل ہو اوروہ خو ش ہو جائے‘ نقصان پہنچتا ہو‘ اس سے بچنا دراصل تقویٰ ہے۔ اسی لیے تقویٰ کا اظہار اگرچہ پوری زندگی میں ہو تا ہے لیکن فی الواقع اس کی جڑ انسا ن کے دل میں ہوتی ہے۔ دل میں اگر خدا کی بندگی ‘ اس کی محبت‘ اس کی جنت کی طلب‘ اس کی آگ کا احسا س اور اس سے بچنے کی تڑپ مو جو د ہو تو پھر وہ استعداد‘ صلا حیت اور قوت پیدا ہو تی ہے جس سے ہم اپنے آپ کو ان چیزو ں سے رو ک سکتے ہیں جو اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی ہیں ۔ اسی لیے قرآن مجید میں بھی اس کی طرف اشا رہ کیا گیا ہے کہ تقویٰ تودراصل دل کا تقویٰ ہے۔ جو لو گ اللہ کے رسولؐ کے سامنے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں‘ ان کے بارے میں فرما یا:  اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ  لِلتَّقْوٰیط (الحجرات ۴۹:۳) ’’درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے‘‘۔

نبی کریمؐ کا بھی ایک ارشاد ہے‘  ایک طویل حدیث میں‘جس میں آپؐ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلما ن کے حقو ق شما ر کرائے ہیںاور پھر آپؐ نے فر ما یا: التقویٰ  ھاھُنا‘ تقویٰ یہاں ہے۔ تین مر تبہ  آپ ؐنے اپنے سینۂ مبا ر ک کی طرف اشا رہ فر ما یا کہ تقویٰ دراصل یہاں ہے۔

تقویٰ کے اس جامع تصور کی اصل بنیاد دل کی اس کیفیت کا نام ہے کہ اللہ مو جو دہے اور کوئی کام ایسا نہیں ہونا چا ہیے جو اس کو نا را ض کر نے والا ہو ۔ ہر وقت یہ دھیا ن لگا رہے اور خیال رہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔اگر کبھی اس سے غفلت ہوجائے جوزندگی میں بالکل ممکن ہے‘ توپھر لوٹ کراسی کی طرف آجائے۔ جیسے ہی ہو ش آ ئے‘ تنبیہ ہویا خیا ل آجا ئے کہ میں کو ئی ایسا کا م کر گزرا ہوں جو اُس کی مرضی کے خلاف تھا ‘ تو وہ فوراً پلٹ آئے‘ یہ بھی تقویٰ میں سے ہے۔ تقویٰ کی صفت یہ نہیں ہے کہ آدمی کبھی کو ئی غلطی ہی نہ کرے‘ بلکہ تقویٰ یہ ہے کہ اگر کبھی غلطی ہو جائے تو وہ لو ٹ کر واپس اپنی اصل کی طرف آجا ئے۔ بدقسمتی سے یہ بنیاد نگاہوں سے محو ہوگئی اور تقویٰ کا یہ تصور جوپو ری زندگی پر حا وی ہے ‘ آہستہ آہستہ کم ہو تا گیا اور بالا ٓخر چند ظاہری مراسم تک محدود ہو گیا۔ وضع قطع‘ اٹھنا بیٹھنا ‘ آدا ب‘ بس ان تک تقویٰ کا تصور محدود ہوکر رہ گیا ۔

اجتماعی تقویٰ

ہم نے اس موضوع میں ’’اجتما عی تقویٰ‘‘ کے لفظ کو اختیا ر کیا ہے مگر یہ لفظ قرآن و سنت میں نہیں پایا جاتا۔ اس لحاظ سے یہ ایک نیا لفظ ہے‘ اور نیا لفظ اختیا ر کرنے کی کو ئی نہ کو ئی غر ض ہو نی چاہیے۔ اس کی غرض یہ ہے کہ تقویٰ کی زند گی کا وہ دا ئرہ جو اجتما عیت سے تعلق رکھتا ہے ہم اس کے بارے میں کچھ گفتگو کریں۔ اس لیے کہ یہ ایک ایسا دا ئرہ ہے جو عمو ماً نگا ہو ں سے محو ہو چکا ہے اور تقویٰ کے حدود سے بھی باہر نکل چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حرام و حلا ل کا تصور بھی بہت محدود ہو گیا ہے ۔ ہم جب حرا م اور حلا ل کا لفظ بو لتے ہیں تو حرا م کے ساتھ ہمارے ذہن میں سود‘ شراب ‘ زنا اور مالِ حرا م ‘ اس قسم کی چیزیں توآتی ہیں لیکن ذہن میں یہ بات بہت کم آتی ہے کہ معاملات میں ‘اور انسانوں کے ساتھ تعلقا ت میں ‘ اور حقوق و فرا ئض کی ادایگی میں بھی بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو حرا م ہیں اور بہت سا ری چیزیں ایسی ہیں جو نما ز اورزکوٰۃ کی طرح فرض کی گئی ہیں۔ خو ن بہا نا‘کسی کا حق ما رنا ‘حسد کرنا‘ یہ سب چیزیں حرا م ہیں۔ غیبت کر نا بھی حرا م ہے۔ مردار کھا نا یقینا حرام ہے‘ اس لیے کہ قرآن نے کہا ہے کہ یہ حرا م ہے۔ اسی طرح سور کا گوشت بھی حرام ہے لیکن غیبت کر نا بھی مردار گوشت کھا نے کے برابر ہے‘ اس لیے وہ بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح دیگر چیزیں حرام ہیں۔ لیکن شراب کا جام دیکھ کر تو ہما رے اندر ایک کرا ہیت اور تنفرکی کیفیت پیدا ہو تی ہے اور کو ئی مسلما ن یہ نہیں سوچ سکتا کہ وہ شرا ب کے جام کو ہا تھ لگا ئے یا سور کا گوشت کھائے یا وہ کو ئی اور اس قسم کی با ت کرے‘ اس لیے کہ یہ حرا م ہیں ‘ان کو حدیث میں بھی حرا م ٹھیرایا گیا اورقرآن میں بھی حرا م کیا گیا ہے‘لیکن ہم غیبت کو اس طرح سے حرام نہیں سمجھتے ہیں۔

درحقیقت اگر قرآن یہ کہہ دے کہ یہ مت کرو تو وہ چیز حرا م ہو جا تی ہے۔ سود  کے بارے میں اس نے یہ کہا ہے کہ سود مت کھا ئو ‘ تو سود حرا م ہو گیا ۔ شراب کے بارے میں کہا گیا کہ شراب کے قریب مت جا ئو تو شراب حرام ہو گئی۔ زنا کے بارے میں اس نے کہا کہ زنا کے قریب مت جا ئو تو زنا حرا م ہو گئی ۔ اسی طرح اس نے کہا کہ تجسس مت کرو ‘ بد گما نی مت کرو ‘  غیبت مت کرو ‘ کسی کا تمسخر مت اڑا ئو ‘ برے القاب سے مت پکارو‘ اور گالیاں نہ دو‘ یہ سارے کے سارے احکام بھی ویسے ہی احکا م ہیں‘ جس طرح قرآن میں نمازپڑھنے کا حکم ہے‘ زکوٰۃ دینے کا حکم ہے ‘ چور کا ہا تھ کا ٹنے کا حکم ہے‘ شراب سے رک جا نے کا حکم ہے اور سود  نہ کھا نے کا حکم ہے ۔ ان کے درمیان قرآن مجید نے کو ئی فرق نہیں کیا ہے‘ لیکن چو نکہ یہ مشکل کام ہیں اس لیے آہستہ آہستہ یہ تقویٰ کی تعریف سے بلکہ حرا م چیزو ں کی تعریف سے بھی خا رج ہو تے گئے اورآج کا ایک مسلمان جو اللہ کے دین کی پابندی کر رہا ہو وہ یہ تو نہیں سو چتا کہ میں شرا ب پی لوں ‘ یا سو ر کا گو شت کھالوں مگر اس کو غیبت کر نے میں‘جھو ٹ بو لنے میں ‘ کسی کا حق ما رنے میں‘ کسی کے ساتھ بدعہدی کرنے میں‘ کسی کے ساتھ برا سلوک کر نے میں کو ئی عار محسو س نہیں ہوتی ۔ ان گناہوں کے ارتکاب پر اس کے ضمیر میں معمولی سی خلش بھی پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے اندر سے نفرت کی کوئی لہراس طرح سے نہیں اٹھتی جس طرح کہ اور چیزو ں کے بارے میں ہو تی ہے۔چونکہ تقویٰ کا یہ پہلو اجتما عی زندگی سے متعلق ہے ‘ اس لیے ہم نے ’’اجتماعی تقویٰ‘‘کی اصطلا ح وضع کر کے اس کو وا ضح کر نے کی کوشش کی ہے۔

قرآن مجید سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ تقویٰ کی جتنی بھی اس نے تعریفیں کی ہیں ان کے اندر یہی پہلو سب سے اہم اور نما یاں ہے جس کو اس نے ہما رے سامنے رکھا ہے۔ سورۃ البقرہ کی یہ مشہو ر آیت کہ:

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ  قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ …وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo (البقرہ ۲:۱۷۷) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف‘ بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر‘ مسکینوں اور مسافروں پر‘ مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے ‘ نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں ‘ اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔

قرآن مجید نے جہا ں جہا ں بھی احکام کا ذکر کیا ہے ‘نکا ح و طلاق کے احکا م ہوں یا ورا ثت کے‘ یا اجتما عی زندگی سے متعلق ‘ وہاں یہی کہا کہ اللہ کے رسولؐسے اپنے آپ کو آگے نہ بڑھا ئو۔ واتقوا اللّٰہ ’’اللہ سے تقویٰ اختیا ر کرو‘‘ ۔ اپنی آوا زو ں کو اونچا نہ کرو‘ یہ بھی تقویٰ کی نشا نی ہے۔ مجلس میں کہا جا ئے کہ پھیل جا ئو تو پھیل جا ئو ‘اور اگر کہا جا ئے کہ سکڑ جا ئوتوسکڑ جا ئو۔ جب کہا جا ئے کہ اٹھ جا ئو تو اٹھ جا ئو‘ یہ بھی بڑی نیکی ہے ۔ یہ معمو لی نیکیا ں نہیں ہیں۔ یہ بھی اجتما عی اخلاق سے تعلق رکھتی ہیں ۔ پھر وہ حکمران جو دوسرو ں پر جبر و استبداد کرتے ہیں ان کے لیے بھی یہی بات کہی گئی ہے کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے اور اس کے خلا ف بھی قرآن مجید نے ساری با تیں کھو ل کے بیان کی ہیں ۔ اللہ کے جو نبی بھی آئے‘ انھو ں نے جہا ںاس بات کی دعوت دی کہ اللہ کی بندگی کرو کہ اس کے سوا کو ئی الٰہ نہیں ہے وہا ںقرآن مجید نے ایک تواتر سے ہر نبی کی یہ دعوت بھی  نقل کی ہے کہ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ (اٰل عمرن ۳:۵۰)‘ اللہ سے تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔گویا اس کتا ب سے مستفید ہونے کے لیے تقویٰ لاز می اور ناگزیر ہے۔

اجتماعی تقویٰ کی اہمیت

اجتما عیت کے مختلف پہلو الگ الگ شما رکیے جا سکتے ہیں۔ اجتما عیت کا ایک پہلو آدمی اور آدمی کے درمیان تعلقا ت اور معا ملا ت ہیں ‘ اور اگر غور کیا جائے تو یہ ایک ایسا دا ئرہ ہے جس کی حدود میں زندگی کا بیشترحصہ آجاتا ہے۔ ما ں با پ‘بھا ئی بہن‘ دوست احبا ب ‘ محلے والے‘ کا روبار کے ساتھی‘ سب اس کے اندر آجاتے ہیں۔ ایک دوسرا پہلو وہ تعلق ہے جو اجتماعیت سے آدمی کا قا ئم ہو تا ہے۔ اپنے ذمہ دارو ں سے تعلق خواہ وہ حکمران ہو یا کسی کمپنی کا مالک ‘یا کسی تنظیم کا سر برا ہ‘ جو بھی ذمہ داران ہوں‘ ان کے اپنے سے نیچے والوں سے تعلقات ہوں یا نیچے والوں کے اوپر والوں سے تعلقات یا ایک پو ری اجتما عیت سے آدمی کے تعلقات ہوں--- یہ سب کے سب اجتماعی تقویٰ کے دائرے میں آتے ہیں۔ یہی دراصل وہ اجتما عی تقویٰ ہے جو اللہ تعا لیٰ کے ہا ں جوا ب دہی اور مسئو لیت کے لیے سب سے زیادہ نا زک مقام ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے اور اسے حضرت عا ئشہ ؓ نے روا یت کیا ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سامنے اعمال تین رجسٹروں کی شکل میں پیش ہوں گے۔ ایک اعمال کا رجسٹر وہ ہو گا جس کو اللہ تعا لیٰ ہر گز معاف نہیں کرے گا‘ ایک اعمال کا رجسٹر وہ ہو گا جس کی اسے کو ئی پروا نہیں ہوگی‘ اور ایک اعمال کا رجسٹر وہ ہو گا جس کا حسا ب لیے بغیر وہ نہیں چھو ڑے گا۔ پہلا رجسٹر شر ک سے متعلق ہے۔ شرک کو معاف نہیں کیا جا ئے گا ۔ دوسرے رجسٹر میں وہ چیزیں ہیں جو آدمی نے اپنے نفس کے اوپر ظلم کیے۔ اس کا تعلق اس کی ذات سے ہے یا اللہ سے‘ مثلاً نمازچھو ٹ گئی‘ یا اس میں کو تا ہی ہو گئی ‘ یا روزے میں کو ئی کو تاہی ہوگئی۔ یہ وہ اعمال ہیں جن کی اللہ کو کو ئی پروا نہیں ہوگی۔ یہ بھی آدمی کی بھلا ئی کے لیے ہیں۔ اگر وہ چا ہے گا تو معاف کر دے گا اور اگر چاہے گا تو اس پر حساب لے لے گا ۔ لیکن جو تیسرا رجسٹرہے‘ یہ ان معا ملا ت کا ہے جو انسا ن اور انسا ن کے درمیا ن ہیں اور یہی در اصل اجتما عی معا ملات ہیں۔یہی وہ رجسٹرہے جس کا حساب لیے بغیر وہ ہر گز نہیں چھوڑے گا۔ اس سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ اجتما عی تقویٰ کا معاملہ سب سے ناز ک معاملہ ہے‘ دنیا میں بھی اور آخرت کی نجا ت کے لیے بھی ۔

نبی کریم ؐ نے مختلف انداز میں اپنے صحا بہ کے ذوق اور ان کے مزا ج کے پیش نظر ان کی سوچ کی تعمیر اس طرح کی کہ وہ یہ سمجھ لیں کہ انسا ن اور انسان کے درمیا ن معا ملات دراصل تقویٰ کا وہ دائرہ ہے جس میں ان کو سب سے زیا دہ ہو شیاررہنے اور سب سے زیا دہ اپنی خبر گیری کرنے کی ضرورت ہے۔یہ اس لیے کہ اس کا مداوا نہیں ہو سکتا نہ عبا دات ہو سکتی ہیں اور نہ کو ئی دوسری نیکیا ں۔چنا نچہ آپؐ نے ایک دفعہ ایک بہت ہی خوب صورت مثا ل کے ذریعے اپنے اصحا ب سے یہ پو چھا کہ جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے کہا کہ مفلس تو ہم اس کو سمجھتے ہیں جس کے پاس رو پیہ پیسہ اور دنیا کا مال و متاع نہ ہو ۔حضورؐنے فر ما یا کہ نہیں بلکہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نما ز‘ رو زہ اور صدقات کی بہت ساری نیکیا ں لے کر آئے گا لیکن اس حا ل میں آئے گا کہ کسی کو گا لی دی ہوگی‘کسی کے اوپر بہتان لگا یا ہو گا ‘کسی کا خو ن بہا یا ہو گا‘ کسی کا مال کھا یا ہو گا اور کسی کا حق مارا ہو گا۔سارے دعوے دار وہا ں پر کھڑے ہو جا ئیں گے ‘ ان کے دعوئوں کا تصفیہ کیا جا ئے گا اور قصا ص دلوایا جائے گا۔ اس کے بعد اس کی نیکیا ں لے کر ان لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں گی۔ آپؐنے پورا منظر کھینچ کر دکھا دیا کہ اِس دعوے دار کو نیکیا ں دے دی جا ئیں گی‘ اُس دعوے دار کو نیکیا ں دے دی جا ئے گی‘ اس لیے کہ وہا ں سوائے نیک اعمال کے کو ئی اور کر نسی نہیں ہو گی کہ جس کے تحت آدمی کے اعمال کا فیصلہ ہو ۔ جب اس کی تمام نیکیا ں ختم ہو جا ئیں گی تو دعوے دارو ں کی برا ئیا ں اور گناہ لے کر اس کے سر پر ڈا ل دیے جا ئیں گے اور بالآخر وہ آگ میں ڈا ل دیا جا ئے گا ۔

ایک اور حدیث میں آپ ؐنے اسی بات کو مزید موثر انداز میں یوں بیان فرمایا کہ آدمی جب اپنے اعما ل نا مے پر نگا ہ ڈا لے گا اور نیکیا ں دیکھے گا تو سمجھے گا کہ میں تو نجا ت پا گیا یہا ں تک کہ دعوے دار کھڑے ہو جا ئیں گے ۔ جب دعوے دار دعویٰ کر نا شروع کر دیں گے اور ایک ایک دعوے کا تصفیہ کیا جائے گا اور فیصلہ صادر ہو گا تو آخر میں معلوم ہو گا کہ نیکیو ں کا سارے کا سارا ذخیرہ تو دوسرو ں کی نذر ہو گیا اور اپنے پاس کچھ بھی نہیں رہا کہ جس پر آخرت میں نجا ت کا ساما ن ہو ۔ لہٰذا آخرت میں بھی اس کی اہمیت ہے اس لیے کہ کو ئی عبادت بھی اس کا بدل نہیں ہو سکتی۔ دین نے جو قدرو ں کا پیما نہ دیا ہے اس میں اسی کو سب سے اہم بات کے طور پر رکھا گیا ہے ۔

ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریمؐ کے سامنے دو عورتو ں کا ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ ایک عورت تو بہت نما زیں پڑھتی ہے‘ صدقہ دیتی ہے‘ روزے رکھتی ہے لیکن ا س کے پڑوسی اس کی بد زبانی سے تنگ ہیں۔ اس کا کیا انجا م ہو گا؟ آپؐ نے فر ما یا:  ھی فی النار ’’یہ جہنم میں جا ئے گی‘‘۔ ایک دوسری عورت کا ذکر ہوا کہ وہ فرض نما زیں پڑھ لیتی ہے ‘ کچھ پنیر کے ٹکڑے صدقہ کردیتی ہے‘ رمضا ن کے روزے رکھ لیتی ہے اور کو ئی خاص عبادات نہیں کرتی۔ لیکن یہ کہ پڑو سی اس کی خو ش کلا می اور شیریں بیا نی سے بہت خو ش ہیں۔ آپؐ نے فر ما یا: ھی فی الجنۃ ’’یہ جنت میں جا ئے گی‘‘۔

ایک اور واقعہ احا دیث کی کتا بو ں میں آتا ہے کہ ایک صا حب حضورؐ کی مجلس میں آئے اور اٹھ کر چلے گئے۔ آپؐ نے فرما یا کہ کسی کو جنتی کو دیکھنا ہو تو ان کو دیکھ لے ۔حضرت عبداللہ ابن عمر ؓنے جب یہ سنا تو ان کو یہ شوق ہوا کہ وہ جا کر یہ معلوم کریں کہ آخر وہ کیا چیز ہے کہ جو اِن کوجنت میں لے جا نے والی ہے اور یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اگر جنتی کو دیکھنا ہو تو ان کو دیکھ لو ۔ ان کو جنت میں جا نے کا شوق تھا‘  اس کی تلاش میں رہتے تھے ۔ وہ ان کے پاس گئے‘ کو ئی بہا نہ کیا اور کہا کہ میری گھر میں لڑا ئی ہوگئی ہے‘ ناراضی ہو گئی ہے‘ اس لیے میں آپ کے پاس کچھ وقت کے لیے رہنا چا ہتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ شوق سے ٹھیرجائیں۔ انھو ں نے دیکھا کہ رات آئی اور پوری رات گزرگئی یہاں تک کہ فجر کا وقت آگیا ۔ انھوں نے کھڑے ہو کر تہجد نہیں پڑھی ۔ ان کو بڑا تعجب ہوا کہ یہ آدمی تہجد بھی نہیں پڑھتا تو یہ جنت میں کیسے جا ئے گا؟ پھردن بھر انھیں دیکھتے رہے‘ ان کے اعمال کا عبادات کے لحا ظ سے ‘ تقویٰ کے معیار کے لحا ظ سے جائزہ لیتے رہے مگر انھیں کوئی خا ص با ت نظر نہیں آئی۔ تیسرے دن انھوں نے ان سے رخصت لی اور کہا کہ میں تو دراصل اس لیے آیا تھا کہ آپ کے بارے میں رسولؐ اللہ نے فرمایا تھا کہ کسی نے اگر جنتی کو دیکھنا ہو تو انھیں دیکھ لے مگر میں نے تو آپ کے اندر ایسی کو ئی خاص بات نہیں پا ئی۔ اس پر انھو ں نے کہا کہ میں جو کچھ بھی ہوں آپ کے سامنے ہو ں‘ اتنا ہی جا نتا ہوں ۔ بس اتنی بات ضرور ہے کہ میرے دل میں کسی مسلمان کے لیے کو ئی کینہ اور دشمنی نہیں ہے۔ انھو ں نے کہا کہ یہی دراصل وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے اللہ کے رسولؐنے آپ کے بارے میں یہ بشا رت دی کہ یہ آدمی جنتی ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ عبادات کے درمیان ان چیزو ں کا کیا مقا م ہے!

بنیادی اصول: ایذا پہنچانے سے گریز

انسا ن اور انسا ن کے درمیان ‘ بلکہ یوں کہیے کہ انسا ن ا ور ساری مخلو قا ت کے درمیان‘ جن میں جانور ‘ پر ندے اور درخت سب آجا تے ہیں ‘ اجتماعی تقویٰ کا بنیادی اصو ل یہ ہے کہ آدمی دوسرے کو ایذا پہنچانے سے اپنے آپ کو بچا ئے ۔ صحیح با ت یہ ہے کہ ساری شریعت کی بنیا د یہی ہے۔ نکاح اور طلاق کے مسائل ہوں یا ورا ثت کے ا حکا م ‘ سیا ست کے قوانین ہوں یا شریعت کے حدود ‘ سب کا مدا ر اسی بات پر ہے کہ انسان دوسرے انسا ن کو ایذا نہ پہنچا ئے‘ کسی تکلیف نہ دے ۔ چھو ٹے چھو ٹے احکام ہیں کہ آدمی گھر میں جائے تو اجا زت لے کر دا خل ہو‘گھر میں بلااجازت دا خل ہو جائو گے تو گھر والوں کو تکلیف ہو گی اور ایذا پہنچے گی ۔ تین آدمی کھڑے ہوں تو دو آدمی آپس میں با ت نہ کریں ۔ اس لیے کہ تیسرے آدمی کو ایذا پہنچے گی اور تکلیف ہو گی۔ اس سے اپنے آپ کو بچا ئو ۔ چھو ٹے احکام ہوں یا بڑے ‘ ان سب میں بنیا دی اصول یہی ہے۔ تمام علما نے حسن اخلا ق کی تعریف یہ کی ہے کہ اچھا اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو اذیت پہنچا نے سے اپنے آپ کو روک لے ۔ مو لا نا اشرف علی تھا نوی ؒ کے الفا ظ میں اگر آدمی صرف دو با تیں اختیار کرلے تو پو ری شریعت اس کے اندر آجا تی ہے ۔ ایک یہ کہ وہ جو کام کرے خالص اللہ کی رضا کے لیے کرے ‘اور دوسری بات یہ کہ کسی بندے کو‘ کسی مخلو ق کو اپنی ذات سے ایذا نہ پہنچائے ۔ کو ئی بات ایسی نہ کہے ‘ کو ئی کام ایسا نہ کرے‘ کو ئی معا ملہ ایسا نہ ہو جس سے دوسرے انسان کو ایذا پہنچے۔ اگر لوگ صرف ان دو اصولو ں کو اپنے زندگی کے اندر اختیار کر لیں توپوری کی پوری شریعت ان کی گرفت میں آجا ئے گی۔

سیرت اور احادیث میں بہت سارے واقعات ہیں جن میں نبی کریمؐ نے فرما یا کہ کم سے کم آدمی کو اتنا تو ضرور کر نا چا ہیے کہ نیکی کی راہ سجھائے‘ دوسروں پر خرچ کرے‘ غریبوں کی خدمت کرے ‘ کما کر بھی دے اور بھلی بات کہے۔ جب لو گو ں نے کہا کہ اگر یہ بھی نہ ہو سکے۔ پھرآپؐ نے فر مایا کہ کم سے کم اپنی ذات سے دوسروں کواذیت پہنچانے سے روک لو۔ یہ توکم سے کم چیز ہے کہ جس کا آدمی سے مطا لبہ کیا جا سکتا ہے۔ حالا نکہ یہ ایک بہت بڑی چیز ہے ۔آپؐ نے یہا ںتک فر مایا:  من  اذی مسلماًً فقد اذا نی ومن اذا نی فقد اذی اللّٰہ، جو آدمی کسی مسلما ن کو ایذا پہنچا تا ہے ‘ وہ مجھے تکلیف پہنچا تا ہے اور جس نے مجھے ایذا پہنچا ئی (رسولؐ کو ایذا پہنچا ئی ) اس نے اللہ کو ایذا پہنچائی۔ اس طرح بندے کا معاملہ برا ہ راست اللہ کے ساتھ متعلق ہو گیا ۔ مسلمان کی تعریف یہی کی گئی ہے کہ مسلما ن وہ ہے جس کی زبان اور ہا تھ سے دوسرا مسلمان محفو ظ ہو‘ اور جس کے ہا تھ میں اپنے معا ملا ت دے کر مسلما ن مطمئن ہو کہ معا ملہ ٹھیک چلے گا ۔ آپؐ نے یہ بھی فر ما یا کہ مسلما ن پر مسلمان کا خو ن حرام ہے ‘ اس کی عزت حرا م ہے ‘ اور اس کا ما ل حرا م ہے۔جب حرا م میں عزت آگئی‘مال آگیا‘ جسم و جان آگئی تومحرمات کا یہ دائرہ بڑا وسیع ہوگیا‘جب کہ ہم نے حرام کا تصور بڑا ہی محدود کر دیا ہے۔ کھا نے پینے اور اسی قسم کی چیزو ں کو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حرا م ہیں لیکن اللہ کے رسول ؐ فرما تے ہیں کہ خو ن بھی حرا م ہے ‘ عزت بھی حرا م ہے اور مال بھی حرا م ہے۔ یہ دراصل وہ بنیادی اصول ہے جس کے تحت تقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے۔

ظلم و زیادتی سے اجتناب

تقویٰ کے بہت سارے احکام ہیں‘ یہاں سب کو سمیٹ کر بیان کر نے کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنا ہی کافی ہے کہ ایک بنیادی اصول ہا تھ میں آجا ئے جس کو قرآن و حدیث میں بہت ساری جگہ کبھی وا ضح طور پر ‘ کبھی با لوا سطہ‘ کبھی اشارے سے‘ مختلف طریقو ں سے واضح کیا گیا ہے ۔غور فرمایئے کہ طلاق یا نکا ح کے احکام ہوں‘ سب معا ملات میں اللہ تعا لیٰ ہر جگہ یہی بات کررہا ہے کہ کو ئی ایسی بات نہ کرو کہ جس سے بیو ی کو یا بیو ی سے شو ہر کو ایذا پہنچے۔ اسی طرح ورثے کی تقسیم اس طرح نہ کرو جس سے کسی دوسرے کی حق تلفی ہو اور اسے ایذا پہنچے۔ جتنے بھی احکا م ہیں‘ ان کے اندر اصل چیز ضرر کو مٹانا‘ حق تلفی کو ختم کرنا اور انسانوں کے تعلقات میں ایذا کو ختم کر نا ہے ۔ اسی کو دوسرے الفا ظ میںظلم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لہٰذا اجتما عی تقویٰ یہ ہے کہ انسان ظلم اور ایذا سے بچے۔ ظلم کے لفظ کو خاص طور پر بہت وسیع مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے ۔

ظلم کی بہت سی صورتیں ہیں ۔ شرک بھی ظلم ہے۔ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ o (لقمان ۳۱:۱۳) ’’بلاشبہہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔ لیکن انسا نو ں کے درمیان جو ظلم ہے اس کو اللہ تعا لیٰ نے یو ں بیا ن فرما یا ہے کہ میں نے اپنے اوپر ظلم کر نا حرا م کر دیا ہے‘ تو تم بھی آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو ۔ ظلم ایک ایسی چیز ہے جو قیا مت کے روز اندھیرا بن جا ئے گی اور پھر اس سے آدمی کی نجا ت کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔آپؐ نے جو گو رنر بھیجے ‘ جن کو مسلما نو ں کے کو ئی معاملا ت سپرد کیے ‘ دوسرو ں کے ما ل کے حوالے سے‘ یا سیاست میں ‘ حکو مت میں جن کو معا ملات پیش آتے رہے‘ ان کو آپؐ یہ وصیت کرتے رہے کہ مظلو م کی بددعا سے بچو ۔مظلو م کی بددعا اور اللہ تعا لیٰ کے درمیان کو ئی رکا وٹ نہیں ہے۔ایک اور حدیث میں فرما یا کہ  ولو کا ن فا جراًً، یعنی اگر مظلو م بہت گنا ہ گا ر ہو تب بھی اس کی بددعا ضرور لگے گی۔ اس کے گنا ہ اس کے ذمے ہیں اور تمھا را ظلم تمھا رے ذمے ہے۔ ایک اور جگہ آپؐ فرما یا کہ ولوکا ن کا فراً، اور اگر کا فر ہو‘ تب بھی اگر مظلو م ہے تو اس کی بددعا ضرور عرش الٰہی تک جا ئے گی ۔ اس لیے مظلو م کی بد دعا سے بچنا۔

جانوروں کے معاملے میں تقویٰ

ظلم کا دا ئرہ صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کو ساری مخلو قا ت تک وسیع کیا گیا ہے ۔  اس طرح مومن کا یہ مزا ج بنا یا گیا ہے کہ کسی کے ساتھ بھی زیا دتی کا نہ سوچے اور نہ زیا دتی کرے۔ جانوروں کاذکر میں اس لیے کر رہا  ہو ں تاکہ اس بات کا بھی اندا زہ ہو جا ئے کہ اجتماعی تقویٰ کے معاملے میں اسلام کی تعلیم کتنی نازک اور حسا س ہے۔ جانور توبے زبا ن ہوتے ہیں ‘ لیکن آپؐ نے فرما یا کہ ان جانوروں کے معا ملے میں بھی اللہ سے تقویٰ اختیار کرو ۔ اگر ذبح بھی کر نا ہو تو کم سے کم تکلیف دو اور تیز چھری سے ذبح کرو۔ ایک آدمی نے ایک جا نور کو لٹا دیا اور اس کے بعد اس کے سا منے چھری تیز کرنے لگا ۔ آپؐ نے فرما یا کہ اس کو تم دو موتیں کیوں ما رتے ہو؟ ایک تو اس کو مرنا ہے ‘ ذبح ہونا ہے اور دوسرے سامنے چھری تیز ہوتے دیکھ کر اس کا دل سہم جا تا ہے ۔ چھری پہلے تیزکرو پھر اس کے بعد جا نور کو لٹائو ۔ ایک عورت کے بارے میں فر مایا کہ اس نے ایک بلی کو با ندھ لیا نہ اس کو کھولتی تھی کہ جا کر وہ کھا پی لیتی اور نہ اسے غذا دیتی تھی۔ وہ مرگئی۔ میں نے معراج کے وقت اس عورت کو دیکھا۔ وہ عورت جہنم میں صرف اس لیے تھی کہ اس نے بلی کو بھوکا با ندھ دیا اور وہ مرگئی۔ غرض اونٹو ں کے بارے میں‘ جانوروں کے بارے میں‘ پرندوں کے بارے میں سب کے متعلق آپؐ نے ہدایات دی ہیں۔ کسی نے چڑیا کے بچوں کو گھونسلے سے اٹھا لیا۔ چڑیا بے قرار پھرنے لگی ۔ آپؐ نے کہا کہ ان کو چھوڑ دو اس لیے کہ جانوروں کے بارے میں بھی قصاص ہوگا ۔ اس طرف بھی آپ ؐنے اشارہ کیا ہے کہ اگر زیادتی ہوگی تو پرندہ کہے گا کہ اس آدمی نے مجھ کو بیکار مارا۔ نہ میں نے کچھ کھایا اور نہ کچھ کہا‘ اس نے خواہ مخواہ مجھے مار ڈالا۔ اس زمانے میں جانوروں کے مقابلے ہوتے تھے۔ جانوروں کو باندھ کر تیرکے نشانے باندھے جاتے تھے۔اس سب سے آپؐ نے منع فرمادیا ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے کہ جانوروں پر اس طرح کے مظالم ڈھائے جائیں ۔

ایک مرتبہ آپؐ ایک انصاری صحابی کے باغ میں گئے تو ایک اونٹ آپ ؐکے پاس آیا ۔ فاقے کے مارے اس کا پیٹ پیٹھ سے لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آپؐ نے کہا کہ اس نے مجھ سے تمھاری شکایت کی ہے کہ تم اس کو کھانے کو نہیں دیتے ہو اور کام زیادہ لیتے ہو ۔ تمھارے جانوروں کا بھی تمھارے اوپر حق ہے ۔

پرانے زمانے کے ایک پیغمبرتھے۔ ان کے بارے میں حدیث میں ہے کہ ان کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا ۔ انھوں نے چیونٹیوں کے پورے بل کے اندر آگ لگادی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو فرمایا کہ تم اسی ایک چیونٹی کو مارتے جس نے تمھیں کاٹاتھا ۔ ساری چیونٹیوں نے تو کوئی قصور نہیں کیاتھا کہ تم ان کو اس طریقے سے آگ لگاتے (بخاری)۔ لہٰذا بدلہ لینے میںبھی ظلم سے بچنے کی بڑی شدید تاکید قرآن اور احادیث کے اندر موجود ہے ۔

غور کیجیے کہ جس شریعت اور دین نے جانوروں‘ پرندوں ‘ چیو نٹیو ں وغیرہ کے بارے میں اتنا اہتمام کیا ہے ‘ اس میں انسانوں کا کیا مقام ہوگا !

انسانی جان کا احترام

ایذا اور تکلیف پہنچانے میں جو چیزیں سب سے اہم ہیں‘ وہ یہ ہیں:

سب سے پہلے انسانی جان کا معاملہ ہے ۔ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے‘ قرآن مجید کے الفاظ ہیں متعمداً‘  تو پھر اس کا بدلہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا ۔ اس کا کوئی مداوا نہیں ہے ۔ اس لیے کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ (المائدہ ۵:۳۲)

یہ انسانی جان کا احترام ہے لیکن جسم کو تعذیب دینے سے بھی منع کیا گیا ہے ۔ تعذیب کے لیے انگریزی زبان کا جو لفظ آج کل مروج ہے اور حکومتوںاور ریاستوں نے بھی اسے اختیار کر رکھا ہے‘ وہ ’’ٹارچر‘‘ہے ۔ اس کی اجازت نہیں ہے کہ کسی لحاظ سے بھی انسان کو ٹارچر کرکے جرم منوایا جائے‘ نہ اس کی اجازت ہے کہ حکومت اپنے کام کروائے‘ اور نہ اس کی اجازت ہے کہ مخالفین پر ٹارچر کیا جائے ۔

ایک موقع پر کچھ لوگ دھوپ میں کھڑے تھے کہ ایک صحابیؓ کا وہاں سے گزر ہوا۔ یہ دور خلافت کا واقعہ ہے۔ انھوں نے پوچھا کہ یہ لوگ دھوپ میں کیوں کھڑے کیے گئے ہیں؟ کہا گیا کہ ان لوگوں نے ٹیکس نہیں ادا کیا ہے۔ اس لیے ان کو دھوپ میں کھڑا کیا گیا ہے ۔ فرمایا کہ میں نے نبی کریم ؐ سے سنا ہے کہ جو آدمی بندوں کو عذاب دے تو اللہ تعالیٰ اس کو عذاب دیتا ہے ۔ اس لیے تعذیب سے ‘ ٹارچر سے‘ اور جسم کو کوئی نقصان پہنچانے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ جان کے احترام کی تعریف کے اندر آتا ہے ۔ اسی طریقے سے کوئی ایسا مذاق کرنا جس سے دوسرے کو تکلیف پہنچے ‘ اس کو بھی آپ نے سختی سے منع کیا ‘ مثلاًکسی کے جوتے چھپا دیے یا کسی کا اسلحہ چھپا دیا ۔ اگرباہمی تعلقات ایسے ہیں کہ کوئی برا نہیں مانتا تو پھر کوئی ممانعت نہیں۔ لیکن جہاں آدمی اس پر برا مانے ‘ اسے تکلیف پہنچے تو پھراس سے آپؐ نے منع فرمایا ہے ۔ احادیث میں ایسے   بے شمارواقعات ہیں جن میں آپؐ کی تنبیہات ہیں ۔ شرارت سے اشارہ کرنا ‘ تلوار سے یا کسی دوسری چیز سے کسی کو ڈرانا‘ اس سے بھی آپؐ نے کہا کہ مسلمان کو مت ڈراؤ ‘اس کو خوفزدہ مت کرو ۔ یہ سارے احکام دراصل جسم اور جان کی حفاظت کے لیے ہیں کہ مسلمان بھائی کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان کی ہرچیزمحفوظ رہے ۔ اس کا خون بھی محفوظ رہے ‘ مال بھی اور عزت و آبرو بھی ۔

عزت و آبرو کا تحفظ

اس سے اگلی چیز‘ عزت و آبرو ہے جوایک دوسرے پر حرام کی گئی ہے۔ عزت انسان کو اپنے خون سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے ۔ اس کی خاطرآدمی جان بھی دے دیتا ہے۔ مسلمان کی عزت پر کہیں سے بھی کوئی حرف آئے ‘ آدمی کوئی ایسی بات کہے جو غیبت ہو یا تمسخر‘ بدظنی ہو یا بدگمانی‘ دوسروں کے عیوب کی نقل کرتے پھرنا ہو یا باہمی تعلقات کو خراب کرنا--- اس سب کے بارے میں احا دیث کے اندر اتنی شدید وعیدیں اور تنبیہات آئی ہیں جو دیگر اعمال کے بارے میں نہیں آئی ہیں۔ غیبت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ زنا سے بھی بدتر جرم ہے ۔ کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی کا ذکر کرنا یا ایسی باتوں کا ذکر کرنا جو اس کو ناگوار ہوں‘ یہ غیبت ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کے اندر بہت عام ہے ۔ لوگ سود کھانے کو اور شراب پینے کو  توبرا سمجھتے ہیں لیکن مسلمان کا گوشت آرام سے اور مزے لے لے کر کھاتے ہیں‘اور اسے برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ چغلی کھانا ‘ایک کی بات دوسری جگہ پہنچانا‘ لوگوں کے عیوب ٹٹولنا‘ یہ بات بڑی کثرت سے پائی جاتی ہے‘جب کہ لوگوں کے عیوب پر پردہ ڈالنے کا حکم ہے ۔ لوگوں کے عیوب کی پردہ کشائی کرنے اور ان کو ذلیل کرنے سے بڑی سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے ۔ کسی کی عزت کو پامال کرنا خواہ جس بھی طریقے سے ہو ‘ گفتگو کے ذریعے سے یاکسی قسم کے اشاروں کے ذریعے سے‘ منع ہے۔ اشاروں سے لوگوں کی تحقیر کرنے کی مذمت قرآن مجید نے خود باربار کی ہے۔ وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ o (الھمزہ ۱۰۴:۱) ’’تباہی ہے ہراس شخص کے لیے جو (منہ در منہ) لوگوں پرطعن اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے‘‘۔ اس کی اجازت نہیں ہے۔تحقیر کرنے کے بارے میں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ آدمی کے برا ہونے کے لیے یہ بات بالکل کافی ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو حقیر سمجھے ‘ یا اس کو کہیں پر ذلیل کرے ۔ چنانچہ  مسلم کی مشہور حدیث ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔ وہ اس پر ظلم نہ کرے‘ اس کو بے یارومددگار نہ چھوڑے ۔ اس کو کہیں ذلیل نہ کرے‘ اور اس کو اپنے سے حقیر نہ سمجھے ۔ اسی کے اندر وہ جملہ ہے کہ التقویٰ ھٰھنا  ’’ تقویٰ اس جگہ ہے ‘‘۔ جو آدمی کسی مسلمان کو دل میں حقیر سمجھے‘ اس دل میں تقویٰ نہیں ہو سکتا ۔ تقویٰ کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ آدمی مسلمان کی عزت کرے اور مسلمان کے ساتھ تکریم کا برتاؤ کرے ۔

مال و دولت کی حرمت

اس کے بعد پھر تیسری چیزمال کی حرمت ہے ۔ کسی بھی مسلمان کا مال کسی دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ جہاں رمضان میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا کہ آدمی صبح سے شام تک کھانے پینے سے رک جائے  اور صرف رات میں سورج ڈوبنے سے لے کر فجر تک کھائے ‘ اس کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْقف (النساء ۴:۲۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو‘    لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضامندی سے‘‘۔

روزہ جو کہ دن کے اوقات میں حلال چیزوں سے بھی روک دیتا ہے‘ اسی بات کا ذریعہ ہے کہ اس سے تقویٰ پیدا ہو ۔ اس کا فطری تقاضا ہے کہ غلط طریقوں سے ایک دوسرے کا مال نہ کھایا جائے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے کہ جو آدمی جھوٹی قسم کھا کر کسی دوسرے آدمی کی کوئی چیز ہتھیا لیتا ہے‘ اس کے اوپر     اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دی اور جہنم واجب کردی ۔ ایک صاحب نے پوچھا کہ اگر چہ وہ بہت ہی حقیر سی چیز ہو۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں‘ خواہ وہ درخت کی ایک شاخ یا ٹہنی کے برابر ہی ہو ۔ اسی طرح فرمایا کہ اگر کسی نے جھو ٹی قسم کھا ئی‘ کسی کا حق ما ر لیا‘ کو ئی زمین ہتھیا لی‘ تو وہ زمین آگ کا طوق بنا کر اس کی گر دن میں ڈال دی جا ئے گی۔ گویا جوما ل آدمی کا اپنا نہیں ہے‘ کسی دوسرے کا مال ہے‘ اس کوکھا نا‘ اس کو حا صل کرنا ناجائز ہے۔ یہ بھی اجتما عی تقویٰ کا ایک حصہ ہے ۔

اسی طرح سے باہمی تعلقا ت کے اندر قدم قدم پر تقویٰ کی تا کید ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اللہ کے کوئی بھی احکا م ایسے نہیں ہیں جو تقویٰ کے حدود سے باہر جا تے ہوں یا جن پر آدمی تقویٰ کے بغیر عمل کر سکتا ہو۔ اگر سورۃ البقرہ کی تلاوت کی جائے اور مطالعہ کیا جائے جس میں معاشرتی زندگی اور خاندانی زندگی کے احکا م دیے گئے ہیں تو اس میں ہرحکم کے بعد اس قسم کی آیت ملے گی کہ واتقوا اللّٰہ ‘ اللہ سے ڈرو‘ تم کواس کی طرف لو ٹ کر جا نا ہے‘ اس کا عذا ب بڑا سخت ہے‘ وہ سن رہا ہے ‘وہ دیکھ رہا ہے ‘ یا یہ کہ وہ تمھارے ساتھ ہے ‘ لیکن واتقوا اللّٰہ اس لیے کہ یہی تقویٰ کی اصل جا نچ اور پر کھ ہے کہ آدمی معاملات کے اندر ‘ خا ندا ن کے اندر جو زیر دست ہیں ‘ یعنی بیو ی بچے ‘ملازم اور غلام‘ان کے بارے میں انصا ف کی روش پر قا ئم رہے اور حقوق میں اس کی پابندی کرے۔

یتیموں کے حقوق کی ادایگی ضروری ہے۔ یتیم کیا ہے؟یتیم بے سہارا ہے ‘ وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ جو یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ پیٹ میں آگ بھرتے ہیں ۔مسلمان بھائی اگر اپنے کسی عمل کا عذر پیش کریں تو اس عذر کو قبول کرنا بھی ضروری ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ ہر پیر اور جمعرات کو لوگوں کے اعمال اللہ کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔ لیکن جس نے شرک کیا ہو یا جس کے دل میں کسی مسلمان کے لیے کینہ اور دشمنی ہو ‘ ان کے تعلقات خراب ہوں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ان کا معاملہ مؤخر کردو ۔ ان کے باقی اعمال کے بارے میں بھی فیصلہ نہیں کیا جائے گا ۔

وعدہ کرکے اور امان دے کر کسی کو نقصان پہنچانا بھی جائز نہیں۔ یہاں تک کہ حکومتوں اور حکمرانوں کے لیے بھی آپؐ نے اس بات کو جائز نہیں قرار دیا کہ لوگوں کو کوئی فریب دے کر اپنے قابو میں لے آئیں خواہ دشمن ہوں یا مخالف یا کافر۔ بدعہدی کرنے اور ان کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں اس سے بری ہوں کہ جو آدمی کسی کوامان اور پناہ دینے کے بعد اس کو نقصا ن پہنچائے۔ پھر اسی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں اگر چہ وہ کافر ہو‘ یعنی کافرکے ساتھ بھی یہ سلوک جائز نہیں ہے کہ اس کے ساتھ جھوٹا وعدہ کرکے اور کوئی فریب دے کر اس کو اپنے قابو میں کر لیا جائے اور اس کے بعد پھر اس کو تکلیف پہنچائی جائے۔

باہمی تعلقات میں تقویٰ کے دو بنیادی اصول ہیں ۔ ایک اصول ہے عدل اور دوسرا پاسِ عہد ۔ ان کو اگر آدمی اختیار کرے تو اجتماعی تقویٰ جو باہمی تعلقا ت کا نام ہے ‘ اس کا سارے کا سارا دائرہ اس کے اندر سمٹ کر آجاتا ہے ۔

عدل کے لیے حکم دیا:  یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِز وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْاقف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیز (المائدہ۵:۸)  ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘۔ یہاں کفار قریش کا ذکر تھا جنھوں نے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے ‘ گھروں سے نکالا ‘ جنگ کے لیے اُمڈ کر آئے۔ حج اور عمرے کا راستہ بند کر دیا ۔ مسلمان وطن واپس نہیں جا سکتے تھے ۔ اس سب کے باوجود یہ کہا گیا ہے کہ دیکھو یہ کام تمھیں اس پر مجبور نہ کردے کہ تم بھی انھی کی طرح کا برتاؤ ان کے ساتھ کرنے لگو ۔ مکہ سے ۱۳ سال مظالم برداشت کرکے مدینہ آئے ‘ جنگ کی اجازت ملی تو فرمایا: وَقَاتِلُوْا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ لاَیُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo (البقرہ ۲:۱۹۰) ’’اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔یہ عدل کا حکم تھا اور ہر معاملے میں عدل کرنے کا حکم تھا ۔مسلمان اور پوری امت مسلمہ بنائی ہی اس لیے گئی ہے کہ وہ ہرمعاملے میں عدل کے اوپر گواہ بن کر کھڑی ہواور یہی تقویٰ کا راستہ ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ انصاف کے علم بردار اور خداواسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتے داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب‘ اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔ (النساء ۴:۱۳۵)

دوسری چیز پاسِ عہد ہے کہ جو بات منہ سے نکل جائے اس کی پابندی ضروری ہے ۔ کہیں بھی آدمی عہد کرے ‘ دوسرے انسان سے وعدہ کرے تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اگرکوئی امانت سپرد کی جائے اور اس کی حفاظت کرنا اور لوٹانا اپنے ذمہ لے تو پابندی ضروری ہے‘ اس لیے کہ یہ بھی عہد ہے۔

اجتماعی زندگی کے تقاضے

تقویٰ اور اجتماعی تقویٰ کا یہ دائرہ انسان کے درمیان معاملات کا ہے ۔ دوسرا دائرہ اجتماعی زندگی سے متعلق ہے۔ اس دائرے میں خاندان کا ادارہ بھی شامل ہے‘ اور مسلمان معاشرے میں جو تنظیمیں اور ادارے بنائے گئے ہیں‘ جو اُمت کے اندر موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر حکومت اور ریاست کا ادارہ ہے‘ ان سب کے بارے میں بہت واضح کرکے یہ بات بتائی گئی ہے کہ اصل میں ان سب کا مداراس تقویٰ پر ہے جو ایک انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ برتتا ہے ۔ چنانچہ اگر ریاست کی مثال کو سامنے رکھا جائے توحکمرانوں کے بارے میں بھی یہی بات کہی گئی کہ حکمران کا یہ فرض ہے کہ لوگوں کے ساتھ انصاف کرے‘ اور جو حکمران جھوٹ بولتا ہے یا بد عہدی کرتا ہے اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ حکمران سیدھا جہنم میں جائے گا ۔

ایک حدیث میں ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بغیر کسی حساب کے آگ میں ڈال دے گا‘ یعنی ان کے اعمال لازماً ایسے ہوں گے کہ کسی حساب کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ ان میں سے ایک امام کاذب ہے ‘ یعنی لوگوں کا وہ قائد جو جھوٹ بولتا ہے ۔ اسی طرح جو آدمی مسلمانوں کے کسی کام کا ذمہ دار بنایا جائے اور اس کے بعد وہ اس کام میں لوگوں کو دھوکا اور فریب دے اور ان کے ساتھ معاملہ ٹھیک نہ کرے‘ فرمایا کہ فلیس منا ‘ یعنی و ہ ہم میں سے نہیں ہے اور یہ بھی تقویٰ کے خلاف ہے۔ مال ودولت اگر عوام کا ہے تو وہ ایک امانت ہے ‘ اس کے بارے میں یہ ہے کہ اگر کسی نے ایک رسی اور ایک چادر یا عبا بھی اس میں سے خیانت کر لی تو یہ اس کو جہنم میں لے جائے گی۔ یہ مال کے بارے میں اور لوگوں کے حقوق کے بارے میں احتیاطیں ہیں اور حکومت کے عہدے داروں کے لیے بھی۔ اس میں یہ تخصیص نہیں ہے کہ جو آدمی حکومت کے منصب پر فائز ہو بلکہ فرمایا: من ولی من امر المسلمین‘ جس کو مسلمانوں کے کسی کام کی ذمہ داری سپرد کر دی گئی ۔ ان سب پر تقویٰ کے یہ حدود لازم آتے ہیں ۔

پیچھے چلنے والوں کا آگے چلنے والوں سے جو تعلق ہے‘ اس کے بارے میں بھی احکام واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں اور ہدایات دی گئی ہیں۔سورۂ حجرات کے درمیان کا حصہ مسلمان اور مسلمان کے باہمی تعلقات کے بارے میں ہے‘ اور شروع کا حصہ مسلمانوں کا اپنے رسول سے تعلق کے بارے میں ہے۔ اُمت میں سے کوئی آدمی وہ مقام تو حاصل نہیں کر سکتا جو اللہ کے رسولؐ کو حاصل تھا لیکن جو افراد قیادت کررہے ہوں‘ ایک درجے میں ان کے حوالے سے قیاس کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ بھی آگے چلنے والے ہوں ‘ ان سے اپنی بات منوانے پر ضدکرنا ‘ اپنی بات پر مصر ہونا ‘ اپنی بات پر اڑ جانا اور یہ کوشش کرنا کہ ہماری بات ہی مانی جائے ‘ اسی کے لیے آدمی اپنی آواز اونچی کرتا ہے ‘ لڑتا بھڑتا ہے ‘ اگرچہ یہ بے ادبی رسولؐ اللہ کی شان میں بے ادبی تھی ‘ لیکن جو مرض تھا وہ دراصل ان اجڈ گنوار سرداروں کا تھا جو صحیح معنوں میں ایمان تو نہیں لائے تھے لیکن اسلام کا غلبہ دیکھ کر مومن ہو گئے تھے اور اب یہ چاہتے تھے کہ ان کی بات سنی جائے ‘ ان کا مشورہ مانا جائے ‘ ان کو مجلسوں کے اندر برتری دی جائے ‘ انھیں پہلے بلایا جائے تو اس سب کے بارے میں سورۂ حجرات کے شروع میں کہا گیا ہے کہ واتقوا اللّٰہ ’’ اللہ سے تقویٰ اختیار کرو ‘‘۔ اس کے بعد یہ واضح کیا گیا کہ متقی تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے اپنے آپ کو آگے نہیں بڑھاتے‘ مقدم نہیں کرتے‘ ان کے مقابلے میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں‘ بات سلیقے سے کرتے ہیں ‘ بات سننے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں فرمایا: اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ  لِلتَّقْوٰیط(الحجرات ۴۹:۳)‘ ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لیے آزما لیا ہے اور جانچ لیا ہے۔

زیادتی پر بدلہ

اجتماعی تقویٰ کے یہ مختلف پہلو میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں۔ سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ انسان اور انسان کے درمیان تعلق پر گفتگو کی گئی ہے۔ پھر اجتماعیت کے بارے میں کچھ اشارات آپ کے سامنے رکھے گئے ہیں۔ اس کے اندر جو اصل بات تھی وہ میں نے شروع میں کہی تھی وہ یہ تھی کہ کسی قسم کی بھی ایسی ایذا پہنچانا جس کی کوئی گنجایش شریعت میں دین کے کسی واضح حکم کے تحت نہ نکلتی ہو ‘ اس کی کوئی گنجایش تقویٰ کے ساتھ نہیں ہے ۔ بدلہ لینے کی اجازت ہے۔ مگر جب بدلہ لینے کی نیت ہوتی ہے اور بدلہ لینے کا جذبہ غالب ہوتا ہے تو آدمی زیادتی کر جاتا ہے۔ اس کے بارے میں بھی واضح ہدایات ہیں کہ اگرآدمی بدلہ بھی لے تو اتنا ہی لے جتنی کہ اس کے اوپر زیادتی کی گئی ہو ۔ قرآن مجید میں خود یہ بات واضح کی گئی ہے کہ جس پر زیادتی کی گئی ہے اس کو بدلہ لینے کا حق ہے لیکن اتنا ہی حق ہے جتنی اس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے ۔ اگر کہیں وہ بڑھ گیا تو پھر اس کے اوپر اپنے عمل کا وبال آجائے گا ۔ اس لیے بہتر یہ ہے آدمی معاف کردے اور اصلاح کرے ‘ صلح کر لے۔ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِط (الشوریٰ ۴۲:۴۰) ’’پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے‘‘۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ آدمی بدلہ لے کیونکہ بدلہ لینے میں کوئی ضمانت نہیں ہے کہ انسان اتنا ہی بدلہ لے گا جتنا کہ اس کے اوپر کی ہوئی زیادتی یا ظلم کا ہونا چاہیے ۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک صاحب حضورؐ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ حضورؐ میرے بہت سارے خادم ‘ نوکر اور غلام ہیں۔ وہ میرا کام کرتے ہیں لیکن مجھے جھوٹا بھی بناتے ہیں ‘ کام چوری بھی کرتے ہیں ‘ کام پورا نہیں کرتے ‘ مال بھی چراتے ہیں اور میری نافرمانی بھی کرتے ہیں۔ میرے اور ان کے درمیان معاملہ کس طرح طے ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: دیکھو تمھارے جو اعمال ہیں‘ تم نے ان کو جو سزاد ی ‘ ان کو برا بھلا کہا ‘وہ ایک طرف رکھے جائیں گے ‘اور انھوں نے جو تمھارے ساتھ زیادتیاں کی ہیں وہ دوسری طرف رکھی جائیں گی ۔ اگر دونوں برابر ہیں تو تم چھوٹ جاؤگے لیکن اگر تم نے بدلے میں زیادتی کی ہوگی تو پھر جتنی بھی زیادتی کی ہوگی تم سے اس کا قصاص لیا جائے گا اور تمھیں اس کا بدلہ دینا پڑے گا ۔ یہ سن کر وہ صاحب دور جا کر بیٹھ گئے اور رونے دھونے لگے کہ میں تو تباہ وبرباد ہو گیا ۔ پھر حضورؐ نے ان کو بلایا اور کہا کہ تم نے قرآن مجید میں یہ آیت نہیں پڑھی کہ وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًاط وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِھَاط وَکَفٰی بِنَا حٰسِبِیْنَ o (الانبیاء ۲۱:۴۷) ’’قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے‘ پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں‘‘۔ اس پر انھو ں نے کہا کہ حضور اب اس کے بعد تو اس کے علا وہ کو ئی را ستہ نہیں ہے کہ میں ان سب کو معا ف کردو ں اور ان سب کو آزاد کر دوں۔چنانچہ آج میں نے ان سب کو آزاد کر دیا ۔

بدلہ لینے کا معا ملہ بھی یہی ہے کہ اگر ایک کو ڑا بھی زیادہ ما را جا ئے گا تو اس کوڑے کا قصا ص اور بدلہ انسا ن سے لیا جا ئے گا ۔ بدلہ لینے میں جو جذبہ پنہاں ہے وہ آدمی کو کبھی غیبت پر آما دہ کرتا ہے ‘ کبھی زیادتی پر آما دہ کرتا ہے ‘ وہ اسے حسد میں مبتلا کر دیتا ہے کہ مجھے یہ نقصا ن پہنچا ‘ میری عزت پر یہ حرف آیا ‘ اس نے میر ا یہ حق ما ر لیا ‘ اس نے میرے اوپر یہ ظلم کیا اور اس طرح غیظ و غضب میں اور غصے وا نتقا م کے جذبے میں آدمی حق سے نکل جا تا ہے۔ خواہ مال کی حرص میں آدمی دوسرے کے حقوق ما رے یا انتقام یا بدلہ لینے کی نیت سے اقدام کرے‘ یہ انسا ن اور انسا ن کے درمیان تعلقات کا سب سے نا زک معاملہ ہے۔ بہت ساری احا دیث سے اس بات کو واضح کیا جا چکا ہے کہ عبادات سے زیا دہ یہ چیز اہم ہے کہ انسان کسی دوسرے انسان پر زیادتی نہ کرے اور اسے اذیت نہ پہنچائے اور یہی انسا ن کا امتحا ن ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کے خو ف سے آپس میں صلح و صفا ئی سے رہیں۔

ایمان اور تقویٰ کی روش

جب اللہ تعا لیٰ نے فرشتو ں کے سا منے اس بات کا اعلان کیا کہ میں ز مین میں اپنا نا ئب بنا نے والا ہوں  تو فر شتو ں نے کہا تھا کہ کیا آپ کو ئی ایسی مخلوق بنا رہے ہیں جو خو ن بہا ئے گی اور زمین میں فسا د مچائے گی‘جب کہ تسبیح و تقدیس کا کام تو ہم کر ہی رہے ہیں ۔ سجدہ اور رکو ع کو ئی ایسا کام نہیں جس کے کر نے والے موجودنہ ہوں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ آسمان پر کو ئی چارانچ کی جگہ بھی خالی نہیں ہے جہاں پر کو ئی فرشتہ رکوع میں نہ ہو‘ سجدے میں نہ ہو‘ قیام میں نہ ہو‘ تسبیح نہ کر رہا ہو ‘ حمد نہ کر رہا ہو ‘ یا تکبیر نہ پڑھ رہا ہو۔ دراصل اللہ نے خلیفہ تواس لیے بنایا تھا کہ وہ اللہ کی خلا فت کی ذمہ داری سنبھال کر یہاں پر عدل قا ئم کرے اور فساد سے بچا ئے۔ انسا ن ‘ انسا ن کا خون نہ بہائے‘ اس کی عزت پر حملہ نہ کرے‘ اس کے مال کو غصب نہ کرے۔ یہی دراصل ‘ اصل امتحان ہے اور یہی انسا ن سے مقصود ہے‘اور اسی سے تقویٰ کا وہ دائرہ بنتا ہے جو پو ری زندگی کے اوپر حا وی ہے ۔ اگر یہ دائرہ ہا تھ سے چھو ٹ جا ئے ‘ اس میں کو تا ہی ہو ‘ تو پھر عبادات اس کا مداوا نہیں کرسکتیں بلکہ پو ری عبادات آدمی سے چھینی جا سکتی ہیں۔ اگر یہی ایک بات آدمی کو یا درہے کہ ہرمظلو م اٹھ کر کھڑا ہو جا ئے گا اور جس ظلم کے لیے میرے پاس کو ئی معقول توجیہہ نہیں ہو گی اس پر مجھے سزا دی جا ئے گی تو یہ بہت ساری برا ئیوں کے ارتکاب سے اسے روک سکتی ہے۔

ایک دفعہ امام ابوحنیفہ ؒ سے کسی نے کہا کہ فلاںآدمی نے آپ کی غیبت یا برا ئی کی ہے تو انھو ں نے اس کو ایک طشت میں کھجو ریں تحفے کے طور پر بھجوائیں اور اس سے کہا کہ آج تم نے اپنی بہت ساری نیکیا ں میرے حوا لے کردی ہیں۔ میں اس کا کو ئی بدلہ تونہیں دے سکتا البتہ یہ کچھ کھجوریں تحفے کے طور پر تمھیں بھجوا رہا ہو ں۔

پس جو آدمی بھی زیادتی کرتا ہے دراصل اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے‘ اس کے اعمال نامے میں سے نیکیا ں کم ہو تی جاتی ہیں۔ دوسری طرف دنیاکی زندگی بھی فساد اور بے چینی کا شکا ر ہوتی ہے اوردل بھی جلتا ہے‘ کبھی حسد کی آگ میں ‘ کبھی انتقا م کی آگ میں‘ اور کبھی بے اطمینانی کی آگ میں۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ حسد اور کینہ ایسی چیزیں ہیں جو نیکیوں کو کھا جا تی ہیں۔ اس لیے کہ ان سے جو آگ بھڑک اٹھتی ہے‘ یعنی انتقا م اور حسد کی آگ‘ اور دوسرے سے بدلہ لینے کی آگ ان کی بنیاد پر آدمی وہ کا م کر گزرتا ہے جو اس کی ساری نیکیو ں کو غارت کر دیتا ہے‘ اور جلا کر بھسم کر دیتا ہے ۔ یہی وہ بیماریاں ہیں جو نیکیوں کو آگ کی طرح کھا لیتی ہیں۔ ایک بار جب تعلقات کے اندر فساد پیدا ہو جا ئے تو اس کے بارے میں نبی کریمؐ نے فرما یاہے کہ یہ فساد استرے کی طر ح ہے‘ اور یہ ایسا استرا ہے جو سر کے بال  ہی نہیں صاف کرتا بلکہ یہ پورے دین کو مونڈڈا لتا ہے۔

خدا کے انعامات اور بشارتوں کا سبب

اجتما عی تقویٰ کا یہ وہ پہلو ہے کہ جو ہر وقت نگا ہو ں کے سامنے رہنا چاہیے اور جس کی فکر کر نا چاہیے ‘ اس لیے کہ نماز ‘رو زہ اور مختلف عبادات اس وقت تک کا م نہیں آتیں جب تک کہ تقویٰ کا یہ کردار تشکیل نہ پائے۔ یہی تقویٰ ساری خوبیوں اور بھلا ئیو ں کا ما حصل ہے۔ اللہ تعا لیٰ نے دنیا اور آخرت میں اپنی ساری  بشا رتیں اور سارے انعا مات تقویٰ کے ساتھ وابستہ کیے ہیں۔ وہ قومیں زمین اور آسمان کی ساری کی ساری برکات سے مالا مال ہوں گی جو تقویٰ کی روش اختیار کریں۔ ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرتے تو ہم ان کے اوپر آسمانوں سے بھی اور زمین سے بھی برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘ (اعراف ۷: ۹۶)۔ اور جہاں تک آخرت کا معاملہ ہے تو بار با ر کہا گیا ہے کہ جنت تو ہم نے بنا ئی ہی متقین کے لیے ہے:  اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَo (اٰل عمٰرن ۳:۱۳۳)’’یہ جنت متقین کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘۔  اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَعِیْمٍo (الطور۵۲:۱۷) ’’متقی لوگ وہاں باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے‘‘۔یہ جنت انھی کی ورا ثت ہے جو تقویٰ کی روش اختیار کریں ۔

تقویٰ کا مفہو م آپ کے سامنے ہے۔ اصل میں تو یہ دل کی دھڑکن‘ دل کا یہ اندیشہ اور خوف ہے  کہ کوئی ایسی با ت منہ سے نہ نکلے اور کو ئی ایسا کا م سرزد نہ ہو جا ئے جو اللہ کو نا راض کرنے والا ہو ۔ پھر یہ احساس ہے کہ اللہ کو نارا ض کرنے والے کا موں میں سے وہ کون سے کا م ہیں جو اُ س کو زیا دہ ناراض کرنے والے اور زیا دہ غضب میں لانے والے ہیں۔ یہ بات بھی جاننا چاہیے کہ دراصل جو چیزیں حرا م کی گئی ہیں وہ صرف کھانے پینے ‘ اوڑھنے بچھو نے کی حد تک نہیں ہیں بلکہ انسا نی معا ملات اور تعلقا ت میں بھی اللہ تعالیٰ نے بے شمار چیزیں حرا م کی ہیں اور بے شمار چیزیں فرا ئض میں دا خل کی ہیں۔ جو آدمی عبادات میں ‘ اور کھانے پینے میں توحلا ل و حرام کی پا بندی کرتا ہے لیکن معاملات میں حلال و حرام کی پروا نہیں کرتا ‘ تو وہ بھی اسی طرح گناہ گار ہو تا ہے جس طرح نماز چھوڑنے والا یا کو ئی سود کھا نے والا یا شراب پینے والا گناہ گار ہوتا ہے۔ درحقیقت مومن کے ضمیر کو تو ایک ترازو کی مانند ہونا چاہیے کہ اگرذرا سا بال برابر بھی کوئی وزن بڑھ جائے‘کسی پر ظلم کا ‘کسی پر زیا دتی کا ‘ کسی حق کے ادا کرنے میں کوتاہی کا ‘ تو ترازو فوراً جھک جا ئے اور اس کے ضمیر میں خلش پیدا ہو۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طٰئِٓفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَاھُمْ مُّبْصِرُوْنَ o (اعراف ۷:۲۰۱)

حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انھیں چھو بھی جاتا ہے تو فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انھیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کواس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)


کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور