نومبر ۲۰۰۲

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| نومبر ۲۰۰۲ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

رشتوں کا تقدس اور اخلاقی حدود کی پامالی

دو سوالات موصول ہوئے جن میں سوال کرنے والیوں نے اپنے اوپر گزرے واقعات کو بیان کر کے رہنمائی چاہی۔ ان کا یکجا جواب دیا جا رہا ہے۔ سوالات کی نوعیت جواب سے واضح ہو جاتی ہے۔ (ادارہ)

جواب:  اُمت کی اِن دو بیٹیوں کے سوالات نے ایک ایسے نازک معاشرتی مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے جو دل و دماغ کی چولیں ہلانے والا ہے۔ ہم نے صدیوں سے جو معاشرتی نظام ورثے میں پایا ہے اس میں اسلامی تعلیمات سے دُوری کے سبب بعض وہ خرابیاں ظاہر ہونے لگی ہیں جن کے لیے ہم بلا کسی تردد مغرب کی اباحیت پسند تہذیب کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔ سرحد پار کے ٹی وی اور وڈیو پروگراموں کی طرح اب پی ٹی وی اور پی ٹی ورلڈ جو پروگرام پیش کر رہا ہے وہ خاندان کے تقدس اور تحفظ کو ناقابل برداشت حد تک تباہ کر دینے کے درپے ہیں۔ ایک ایسے گھرمیں جہاںبچے اور بڑے ایک ساتھ بیٹھ کر وہ تمام مناظر دیکھیں جو شرم و حیا کے منافی ہوں تو آخرکار اس کا اثر یہی ہونا چاہیے کہ حرام و حلال کی تمیز اور رشتوں کا تقدس بھی اس کی زد میں آجائے۔

ایک سوال میں یہ بات اٹھائی گئی ہے کہ ایک لڑکی اپنے سے عمر میں تقریباً ۱۰ سال زیادہ بڑے کزن کو اپنے بھائی کی طرح سمجھتی ہے لیکن وہی کزن ایک دن اسے تنہا پاکر اچانک اس سے بغل گیر ہونا چاہتا ہے اور وہ لڑکی کافی مزاحمت کے بعد اپنے آپ کو اس کی گرفت سے نکالتی ہے۔ یہ سانحہ اس لڑکی کے دل و دماغ میں طوفان برپا کر دیتا ہے اور وہ احساسِ گناہ کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہ جاننا چاہتی ہے کہ اصل مجرم کون ہے اور وہ کس طرح اپنے آپ کو احساسِ گناہ سے نجات دلائے؟ دوسرے سوال میں ایک ایسے گھر میں جہاں انڈین فلموں کے وڈیو اور دیگر لغویات کا چرچا ہے ایک بھائی اپنی حقیقی بہن کے ساتھ ایسی حرکات کرتا ہے جو آنکھ اور ہاتھ کے زناکی تعریف میں آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے ماحول میں ایک ایسی لڑکی جو اس ماحول کو برا سمجھتی ہو اور جسے اللہ نے ہدایت کی راہ سجھا دی ہو‘ کس طرح اپنے آپ کو محفوظ رکھے اور برائی کا مقابلہ کرے؟

یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اُمت کی ان دو بیٹیوں نے جس برائی کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے وہ انتہائی حساس اور خطرناک ہے لیکن اس طرف متوجہ کرنے سے قبل یہ بیٹیاں جس ذہنی کرب ‘ گومگو کی کیفیت اور ناقابل برداشت کرب سے گزریں‘ وہ اُمت کے ہر باشعور فرد کے لیے ایک تازیانے سے کم نہیں۔

کسی بھی انسانی معاشرے کے عروج یا زوال کا تعلق اس کی اخلاقی اقدار سے ہوتا ہے۔ اگر کہیں شرم و حیا ‘ سچائی‘ وفاداری‘ پاس عہد اور رشتوں کا احترام ختم ہو جائے تو پھر اس معاشرے سے امن‘ سکون‘ محبت‘ فلاح اور سلامتی بھی رخصت ہو جاتی ہے۔ مغربی لادینی تہذیب اپنی تمام تر مادی ترقیوں کے باوجود اس سکون سے عاری ہے اور اسی بنا پر تیزی سے روبہ زوال ہے۔

اب نظر یہ آ رہا ہے کہ مغربی لادینی معاشرے کی دیگر بہت سی خرابیوں اور قباحتوں کے ساتھ ہمارے خاندان کا تقدس بھی پامال ہونے والا ہے۔ یہ سوالات اسی طلاطم کی غمازی کررہے ہیں۔

ہماری نگاہ میں اس انتہائی مہلک صورت حال کا پہلا سبب گذشتہ ۵۵ سالوں میں ہماری اپنی اخلاقی اقدار سے بے توجہی اور قرآن و سنت کی واضح ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔ ہم نے اسلام کو محض عبادات اور عقائد تک محدود سمجھ لیا اور شخصیت و کردار اور معاملات کو پس پشت ڈال دیا‘ جب کہ اسلام درحقیقت معاملات ہی کا دین ہے کہ ایک شخص کس طرح اپنے رب اور مالک حقیقی‘ والدین ‘ اہل خانہ‘ ہمسایہ‘ کاروباری شریک‘ حتیٰ کہ دشمن کے ساتھ معاملہ کرے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم نے مشرقی روایات و رواج کے نام پر وہ معاشرت اختیار کر لی ہے جو اسلام کے بنیادی مقاصد اور اصولوں سے ٹکراتی ہے۔ حدیث شریف میں ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا کہ جب بچہ ۱۰ سال کا ہو جائے تو اس کا بستر الگ کر دیا جائے۔ جب لڑکی بالغ ہو جائے تو چہرے اور ہاتھ کے سوا تمام جسم کو ڈھانک کر سامنے آئے۔ جن رشتوں کے ساتھ نکاح جائز ہے وہ تنہائی میں ایک دوسرے کے ساتھ نہ بیٹھیں خصوصاً دیور کے حوالے سے شدت سے یہ بات فرما دی ہے کہ وہ اپنی بھاوج کے ساتھ تنہا نہ ہو‘ اور نہ وہ بے تکلفی اور بے حجابی اختیار کی جائے جو ہماری نام نہاد مشرقیت کی پہچان ہے اور جس میں دیور اور بھاوج اس طرح گھلتے ملتے ہیں جس طرح حقیقی بھائی بہن کے لیے بھی جائز نہیں کیا گیا ہے۔

اسلام سے زیادہ صلہ رحمی کسی دین میں نہیں پائی جاتی۔ وہ قطع رحمی ]تعلقات کے منقطع کرنے[ کو حرام قرار دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ رشتوں کا حق پورے احترام سے ادا کیا جائے لیکن اس کے ساتھ ہی حیا کو ایمان کی پہچان قرار دیتا ہے‘ اور چاہتا ہے کہ خود ماں باپ بھی اپنی اولاد کے ساتھ اپنے طرزعمل کو عمر اور بلوغت کے لحاظ سے متعین کریں۔ چنانچہ ایک حقیقی باپ بھی اپنی بیٹی کے ساتھ وہ بے تکلفی نہیں برت سکتا جو وہ اپنی بیوی کے ساتھ اختیارکر سکتا ہے۔ بیٹی کے احترام میں کھڑا ہو جانا‘ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر محبت کا اظہار کرنا‘ اسلامی ثقافت اور تہذیب کی پہچان ہے۔ بھائی ہو یا باپ‘ ان کے سامنے سر پر آنچل ہونا‘ سینہ اور دیگر اعضا کا ڈھکا ہونا سنت کی پیروی ہے۔ اس لیے پہلی فکر ماحول کی ہونی چاہیے کہ بچپن سے لڑکیوں اور لڑکوں کو یہ احساس ہو کہ عمر کے ساتھ ان کا ایک دوسرے کے جسم کو چھونا (body contact)کم سے کم ہونا چاہیے۔ ایسے ہی ان رشتوں کا تنہائی اختیار کرنا جن کے درمیان نکاح ہو سکتا ہے حرام قرار دے کر خرابی کے ممکنہ دروازے کو بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قلب مومن میں ایک ایسے محافظ کو بٹھا دیا گیا جو ہر لمحے ہر ہر عمل کو اس زاویے سے دیکھتا ہے کہ میرا کوئی عمل حیا کے منافی تو نہیں۔

جب یہ رویہ اختیا رکیا جائے تو گھر دنیا کی سب سے زیادہ محفوظ جگہ قرار پائے گا جہاں کوئی نفسیاتی دبائو اور احساسِ گناہ جنم نہیں لے سکے گا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم ان رسوم و رواج سے اپنے آپ کو آزاد کریں جو ہمارے قبلِ اسلام کے معاشرے کی باقیات ہیں۔

جہاں تک سوال کسی گناہ کے ارتکاب کی ذمہ داری کا ہے‘ اسلام کا اصول واضح ہے۔ اگر ایک شخص پر اس کی خواہش کے بغیر ایک برائی مسلط کر دی جائے تو تمام ذمہ داری اس فرد کی ہے جو پیش قدمی کرتا ہے‘ قوت کا استعمال کرتا ہے اور انکار کے باوجود ایک فرد پر زیادتی کرتا ہے۔ جو اپنے آپ کو بچانے کے لیے مزاحمت کرے اس پر کوئی الزام نہیں۔ حتیٰ کہ اس کش مکش میں اعتماد کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہو‘ اس کی ذمہ داری بھی پیش قدمی کرنے والے پر ہے۔ چند لمحات کے لیے جو شخص مجبوراً غلطی کا شکار ہو وہ گناہ سے مبرا ہے۔ لیکن اس کے باوجود استغفار اور توبہ اس کے ایمان کو مزید مضبوط کرنے اور رب کریم سے عاجزی کے ساتھ استقامت طلب کرنا قلبی سکون کے حصول کے لیے ضروری ہے۔

سگے بھائی کی طرف سے جو غلط رویہ اختیار کیا گیا اسے والدین کے علم میں ضرور لانا چاہیے اور اگر وہ واقعی نفسیاتی مریض ہو تو کسی صاحب ِ ایمان ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرنا چاہیے۔ جہاں تک آپ کے اپنے نفسیاتی صدمے کا سوال ہے وہ بالکل فطری ہے لیکن آپ جیسی باشعور مسلمان لڑکی نے جس ہمت اور اعتماد سے اپنا تحفظ کیا ہے وہ پوری اُمت کے لیے باعثِ فخر ہے۔ ایسے مواقع پر اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم کے ورد سے اللہ کی پناہ میں آنا اور ہر نماز کے بعد آیت الکرسی کا شعوری طور پر معنی کوسمجھتے ہوئے پڑھنا مزید تقویت کا باعث ہوگا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ برائی کے خلاف جہاد کی قوت میں اضافہ کرے گا۔ ان شاء اللہ!

ضرورت اس بات کی ہے کہ گھریلو تربیت کے ذریعے ہر لڑکے اور لڑکی کو ان اخلاقی حدود سے آگاہ کیا جائے جو معاشرتی زندگی کی بنیاد ہیں۔ اللہ کے وجود کا احساس ‘ اس کا تقویٰ اور آخرت میں جواب دہی کا شعور ہی وہ مضبوط بنیاد ہے جو انسان کو برائی سے بچاتی ہے‘ اور مزاحمت کرنے کے لیے قوت فراہم کرتی ہے۔ بُرے سے بُرے ماحول میں بھی اگر اندر کا انسان جاگ رہا ہو اور قلب و دماغ پر اللہ کی حکومت ہو تو بظاہر ایک کمزور لڑکی بھی ایک پہلوان سے زیادہ قوت کے ساتھ برائی کے مقابلے پر ڈٹ جاتی ہے۔ کوشش کیجیے کہ اللہ کی محبت اور بندگی کا احساس قلب کی ہر دھڑکن میں سمو جائے۔ یہی وہ اخلاقی اسلحہ ہے جو سیرت و کردار کو مضبوط اور طرزعمل کو درست رکھتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

شہدا کے جسموں کا محفوظ رہنا

س :  ان دنوں اکثر یہ پڑھنے میں آتا ہے کہ کسی شہید کی لاش کافی وقت گزرنے کے بعد بھی دیکھی گئی تو وہ تروتازہ تھی اور خون بہہ رہا تھا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ قرآنی آیت کے مطابق وہ زندہ ہیں اور انھیں مردہ نہیں کہنا چاہیے۔ لیکن دوسری طرف عام طبیعی عوامل کے تحت گلنے سڑنے کا عمل بھی ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس بنیاد پر شہادت پر شک کرتے ہیں۔ اس معاملے میں اصل میں حقیقی صورت کیا ہے؟ (اس سوال کا ایک جواب ہم رسالہ المجتمع (شمارہ ۱۵۱۸‘ ۱۴ ستمبر ۲۰۰۲ء)سے پیش کر رہے ہیں۔ ادارہ)

ج : اس معاملے میں حقیقی صورت حال کو جاننے کے لیے مختلف فقہا سے آرا حاصل کی گئیں۔ فقہ کے استاد ڈاکٹر احمد سعید نے شہید کے جسدِ طاہر کے بارے میں وارد روایات کے بارے میں کہا ہے کہ نصوص میں صرف اس حد تک وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاے کرام کے اجسام کی حفاظت فرماتا ہے۔ اُن کے علاوہ کسی بھی اور شخص کے جسم کی حفاظت کا وعدہ نہیں کیا گیا‘ تاہم اتنا ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض شہدا اور صالحین کے جسموں کی حفاظت کر کے ان پر خصوصی اکرام کرتا ہے۔ عموماً شہید کے جسم پر قدرتی عوامل اُسی طرح اثرانداز ہوتے ہیں جس طرح کسی بھی میت کے جسم پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ اس بنیاد پر کسی کی شہادت کے بارے میں شک نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اگر کسی شہید کے جسم کو ان عوامل سے خصوصی طور پر محفوظ رکھا ہے تو یہ اللہ کا عطا کردہ خصوصی اکرام و فضیلت ہے جسے وہ جس شہید کے ساتھ چاہے مخصوص کرسکتا ہے۔

بیہقی میں حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ اُحد کے شہدا کی قبروں سے چشمہ پھوٹ نکلنے کی بنا پر ہم نے انھیں وہاں سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے قبریں کھودیں تو حضرت حمزہؓ کے پائوں میں کلہاڑی لگی جس سے ان کے پائوں میں سے خون رسنا شروع ہو گیا۔

مقبوضہ فلسطین کے علاقے طولکرم سے تعلق رکھنے والے مفتی عمار توفیق کی رائے میں اس میں ذرا شک نہیں کہ اُمت کے شہدا اُمت کی عزت و وقار کے لیے تاج کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ بات بھی کسی شبہے سے بالا ہے کہ شہدا کو خدا کی بارگاہ میں جنت الفردوس کا بلند و بالا مقام حاصل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقاً o (النساء ۴: ۶۹) ’’بے شک جو کوئی بھی اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے انبیا‘ صدیقین‘ شہدا اور صالحین کی معیت نصیب ہوگی۔ بے شک یہ بہترین رفقاے کار ہیں‘‘۔

زیربحث مسئلے کے بارے میں درج ذیل باتوں کی وضاحت نہایت ضروری ہے:

۱- قرآن کریم کی دو آیات شہدا کی زندگی سے بحث کرتی ہیں: پہلی آیت سورۂ بقرہ کی ہے جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:  وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّلٰکِنْ  لَّا تَشْعُرُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۴) ’’تم خدا کی راہ میں قتل ہو جانے والوں کو مردہ مت کہو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ زندہ ہیں مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہے‘‘۔

دوسری آیت سورۂ آل عمران کی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:  وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتاًط بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ o (اٰل عمران ۳:۱۶۹) ’’تم خدا کی راہ میں قتل ہو جانے والوں کو مردہ مت کہو۔ درحقیقت وہ زندہ ہیں اور اپنے رب سے رزق پا رہے ہیں‘‘۔

پہلی آیت ہمیں بتاتی ہے کہ شہدا زندہ ہیں مگر انھیں ایسی زندگی دی گئی ہے جس کا ہمیں شعور و ادراک نہیں ہے۔ یہ خاص نوعیت کی زندگی ہے۔ دوسری آیت بتاتی ہے کہ شہدا زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس سے رزق بھی پا رہے ہیں۔ ظاہر ہے رزق سے زندہ ہی متمتع ہوسکتے ہیں۔ مردے کو اگر رزق ملتا ہے تو اُس کا اُسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

۲- مرنے کے بعد شہدا کو حاصل ہونے والی زندگی کا اُن کے جسم کا مثلہ بنائے جانے اور دیگر تغیرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیدالشہدا حضرت حمزہؓ کا جسم بھی مثلہ بنائے جانے سے محفوظ نہ رہ سکا تھا۔ اُن کا پیٹ چیر کر کلیجہ نکالا گیا‘ ناک اور کان کاٹ ڈالے گئے۔ مگر اُن کے جسم کے ساتھ کی جانے والی کسی بھی زیادتی سے اُن کی حیات جاوداں پر کوئی فرق نہیں پڑا اور نہ اُن کی شہادت کے مرتبے پر ہی یہ چیزیں اثرانداز ہوئی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت انسؓ بن نضرکے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔ اُن کے جسم کا اس حد تک مثلہ بنایا گیا کہ صحابہ کرامؓ اُن کی نعش کو پہچان نہ سکے۔ بالآخر اُن کی بہن نے اُن کی انگلی کی ایک علامت سے اُنھیں پہچانا۔

اُن شہدا کا کیا تذکرہ جن کے جسموں کو میزائلوں نے اُڑا کر گم کر دیا‘ توپوں اور گولوں نے اُن کے جسم جلتی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیے۔ کیا ان میں سے کوئی اقدام اُن کی شہادت کے مرتبے کو فروتر کرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں!!

۳- جہاں تک شہدا کے جسموں کا مٹی میں مل جانے اور بوسیدہ ہڈیوں میں تبدیل ہو جانے کا تعلق ہے تو قرآن و حدیث میں کوئی ایسی نص وارد نہیں ہوئی جو اُن کے جسموں میں ایسے تغیرات رونما ہونے کی نفی کرتی ہو۔ حدیث سے صرف انبیا کے جسد کے بارے میں صراحت کی گئی ہے کہ وہ اپنی اصلی حالت میں محفوظ رہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیا کے جسموں کو حرام قرار دے رکھا ہے (احمد‘ ابوداؤد‘ ابن ماجہ‘ دارمی‘ ابن خزیمہ)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ہمیں واضح رہنمائی ملتی ہے کہ ان تغیرات سے شہدا کے مقام و مرتبے کا قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپؐ نے جب حضرت حمزہؓ کے جسدِ پاک کا مثلہ بنا ہوا دیکھا تو ارشاد فرمایا: ’’اگر مجھے صفیہؓ کے غم زدہ ہو جانے کا خیال نہ ہوتا تو میں یہ نعش یوں ہی چھوڑ دیتا کہ پرندے اسے کھا جائیں اور درندے اپنا پیٹ بھریں‘‘۔

۴- جہاں تک متعدد ایسے واقعات کا تعلق ہے کہ شہید کا جسم مختلف عوامل اور تغیرات سے مکمل طور پر محفوظ رہا تو درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی معاملہ ہے جس کا تعلق معجزہ اور کرامت سے ہے۔ اس سے شہادت کا معیار متاثر نہیں ہوتا۔

جن شہدا کے جسم قبروں میں اپنی اصلی حالت میں برقرار رہے اُن میں حضرت جابرؓ کے والد عبداللہ بن حرام بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اُن کے والد نے اُن کی شہادت کے چھ ماہ بعد انھیں قبر سے نکالا تو وہ اپنی اصلی حالت میں وہاں مدفون تھے۔ اُن کے جسم میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی سوائے اُن کے کان کے جو اپنی اصل حالت میں نہ تھا دیگر تمام اعضا اُسی طرح تھے جس طرح دفن کے وقت تھے۔

اسی طرح معاویہ بن ابی سفیان کے دور میں پانی کا ایک چشمہ پھوٹ جانے سے دو شہدا کی قبریں باہر نکل آئیں۔ ان شہدا کی نعشیں ایسی حالت میں تھیں گویا ابھی کل ہی انھیں دفن کیا گیا ہو۔ بے شک یہ اللہ کی طرف سے اُن کی خاص کرامت تھی۔ (ترجمہ: خدیجہ ترابی)