نومبر ۲۰۰۲

فہرست مضامین

دین کا قرآنی مفہوم

| نومبر ۲۰۰۲ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لفظ دین کی بنیاد میں چار تصورات ہیں‘ یا بالفاظِ دیگر   یہ لفظ عربی ذہن میں چار بنیادی تصورات کی ترجمانی کرتا ہے:

غلبہ و تسلط ‘ کسی ذی اقتدار کی طرف سے‘

اطاعت ‘ تعبد اور بندگی‘ صاحب ِ اقتدار کے آگے جھک جانے والے کی طرف سے‘

قاعدہ و ضابطہ اور طریقہ‘ جس کی پابندی کی جائے‘

محاسبہ اور فیصلہ اور جزا و سزا۔

انہی تصورات میں سے کبھی ایک کے لیے اور کبھی دوسرے کے لیے اہل عرب مختلف طور پر اس لفظ کو استعمال کرتے تھے‘ مگر چونکہ اِن چاروں امور کے متعلق عرب کے تصورات پوری طرح صاف نہ تھے اور کچھ بہت زیادہ بلند بھی نہ تھے‘ اس لیے اس لفظ کے استعمال میں ابہام پایا جاتا تھا اور یہ کسی باقاعدہ نظامِ فکر کا اصطلاحی لفظ نہ بن سکا تھا۔ قرآن آیا تو اس نے اس لفظ کو اپنے منشا کے لیے مناسب پا کر بالکل واضح و متعین مفہومات کے لیے استعمال کیا اور اس کو اپنی مخصوص اصطلاح بنا لیا۔ قرآنی زبان میں لفظ دین ایک پورے نظام کی نمائندگی کرتا ہے جس کی ترکیب چار اجزا سے ہوتی ہے:

حاکمیت و اقتدارِ اعلیٰ‘

حاکمیت کے مقابلہ میں تسلیم و اطاعت‘

وہ نظامِ فکروعمل جو اس حاکمیت کے زیراثر بنے‘

مکافات جو اقتدارِ اعلیٰ کی طرف سے اس نظام کی وفاداری و اطاعت یا سرکشی و بغاوت کے صلہ میں دی جائے۔

قرآن کبھی لفظ دین کا اطلاق معنی اول و دوم پر کرتا ہے‘ کبھی معنی سوم پر‘ کبھی معنی چہارم پر‘اور کہیں الدین بول کر یہ پورا نظام اپنے چاروں اجزا سمیت مراد لیتا ہے۔ (’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘ ‘، ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۱‘ عدد ۳-۴۔ رمضان‘ شوال ۱۳۶۱ھ/اکتوبر‘نومبر ۱۹۴۲ء‘ ص ۵۸)