مصنف نے قدیم مفسرین کا طریقہ اختیار کیا ہے کہ اولاً قرآن کی تفسیر قرآن ہی سے کی جائے۔ اس کے بعد رسول اکرمؐ کی صحیح احادیث اور آپؐ کے افعال اور ان متعلقہ واقعات سے آیات کی تشریح کی جائے جو آیات کے نزول کے وقت پیش آئے۔ ان بنیادی ذرائع سے استفادے کے بعد‘ ابوامینہ بلال فلپس نے صحابہ کرامؓ ،خاص طور پر حضرت ابن عباسؓ کی‘ جن کو خود حضور نبی کریمؐ نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کا لقب عطا فرمایا تھا‘ تشریحات اور تعبیرات سے استفادہ کیا ہے۔ انھوں نے بعض قدیم مفسرین کی لغت اور گرامر کی تشریحات سے ممکن حد تک فائدہ بھی اٹھایاہے‘ نیز انھوں نے آیات کا مطلب بیان کرتے ہوئے موجودہ زمانے کے مسائل کے حوالے سے درست طور پر ان کا انطباق کیا ہے۔ انھوں نے کثرت سے صحیح احادیث کا حوالہ دیا ہے۔ کتاب کی ضخامت بڑھ جانے کے خوف سے احادیث کا عربی متن نہیں ‘ صرف ان کا انگریزی ترجمہ دیا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں قریباً اڑھائی سو احادیث کا بہت مفید انڈیکس بھی شامل ہے جس میں حروف ابجد کے لحاظ سے حدیث کے مضمون کا خلاصہ اور کتاب کا وہ صفحہ نمبر دیا ہے جس پر اس حدیث کا حوالہ‘ تفسیر میں دیا گیا ہے۔
آغاز میں فاضل مصنف نے ۳۲ صفحات پر مشتمل معلوماتی مقالے ’’تعارف تفسیر‘‘ (انٹروڈکشن ٹو تفسیر) میں علم تفسیر کی اہمیت وضرورت ‘ اصول التفسیر‘تاریخ علم التفسیر‘ قدیم اور جدید دور کی بعض مفید اور اہم تفاسیر ‘تفسیر اور تاویل کے فرق‘ طریق تفسیر‘ بعض منحرف تفاسیر‘صحیح مفسر کے مقتضیات اور قرأت اور تجوید کے فن پر عمدگی سے روشنی ڈالی ہے۔
بیسویں صدی کی مفید اور اہم تفاسیر کے ضمن میں مولف نے محمد رشید رضا کی تفسیرالمنار‘ سید قطب کی فی ظلال القرآن (غلطی سے مفسر کا نام سید قطب کے بجائے محمد قطب لکھ دیا ہے) اور مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا ذکر بھی کیا ہے۔ منحرف تفاسیر میں قادیانیوں کی سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۴۰ کی غلط تفسیر کا ذکر ہے اور محمد علی لاہوری کی کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے۔
سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ کے ترجمے میں ‘ لفظ باموالھمکا انگریزی ترجمہ غلطی سے چھوڑ گئے ہیں۔ تفسیرکے متن میں آیت ۱۴ کے عربی متن میں قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا… کی جگہ لم تاء منوا چھپ گیا ہے۔ ان غلطیوں کی اصلاح ہونی چاہیے۔
بحیثیت مجموعی انگریزی دان مسلمانوں کو اہل ایمان کے شایان شان آداب سکھانے‘ اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرنے والی برائیوں سے بچانے‘ قومی اور نسلی امتیازات کو ختم کرنے اور اپنی بڑائی قائم کرنے کی خاطردوسروں کو گرانے کے رجحان اور اپنے شرف پر فخر وغرور کی جڑ کاٹ دینے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ (محمد اسلم سلیمی)
کلام اقبال اور نثراقبال اتنے خوش رنگ مظاہر پر مشتمل ہے کہ ان کا ایک ایک رنگ ‘نظر کو طراوت اور روح کو بالیدگی عطا کرتا ہے۔ اس قیمتی اثاثے کا پھیلائو اتنا ہے کہ عہدحاضر کی مشینی زندگی میں‘ علم و دانش کے اس سرچشمے تک رسائی پانا اگرچہ ناممکن تو نہیں‘ لیکن ایک مشکل کام ضرور ہے۔
عصرحاضر کی علمی روایت میں ٹھوس پیش رفت ہوئی ہے یا نہیں؟ یہ ایک متنازع سوال ہے‘ لیکن اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ انسانی زندگی کی معلوم تاریخ میں مطالعے کے لیے جتنی سہولتیں‘ اور جتنے سہارے اس عہد نے دیے ہیں‘ ان کا پہلے گمان تک بھی نہ کیا جا سکتا تھا۔ کتب کی اشاریہ سازی اسی سہولت کاری کا ایک معتبرپہلو ہے۔ اہل مغرب کے ہاں یہ فن اپنے کمال کو پہنچا ہوا ہے‘ لیکن ہمارے ہاں یہ روایت پوری طرح جڑ نہیں پکڑ سکی۔ اس فضا میں وہ لوگ غنیمت ہیں جو کتابی اشاریہ سازی کا اہتمام کرتے ہیں۔
کلامِ اقبال کے متعدد اشاریے گذشتہ ۲۰ برسوں کے دوران سامنے آئے ہیں‘ جن میں الفاظ اور شعروں کی بنیاد پر اشاریے بنائے گئے ہیں۔ اسی روایت میں وسعت اور صحت کے ساتھ زیرتبصرہ اشاریہ‘ علمی دنیا اور عام لوگوں کے لیے ایک قیمتی تحفے کا درجہ رکھتا ہے جس میں‘ اقبال کے اردو کلیات کے تمام مصرعوں کو حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔ چونکہ اس وقت کلیاتِ اقبال کو متعدد ناشروں نے چھاپ رکھا ہے‘ اس لیے اشاریہ ساز نے اردو کلیاتِ اقبال کے تین معروف نسخوں (قدیم ایڈیشن‘ شیخ غلام علی ایڈیشن‘ اقبال اکادمی ایڈیشن) کے صفحات کی‘ ہر مصرعے کے سامنے نشان دہی کر دی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پورا مصرع دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا سبب یہ ہے کہ بعض اوقات ذہن میں مصرع‘ نامکمل یا تحریف شدہ حالت میں ہوتا ہے۔ اشاریے میں ہر شعر کا پہلا اور دوسرا‘ دونوں مصرعے صحت کے ساتھ‘ اپنے اپنے محل (الفبائی ترتیب) پر دیے گئے ہیں۔ اس طرح گویا پوری کلیات اقبال‘ اُردو مصرعوں کی الفبائی ترتیب کے ساتھ‘ اس اشاریے میں موجود ہے۔
یہ کتاب عام قاری کے ساتھ‘ مقرروں‘ مصنفوں اور محققوں کی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے(جو اقبال کے اشعار کی صحت کا خیال رکھنا چاہیں) اور اقبال شناسی کی روایت میں وسعت پیدا کرنے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ اشاریے میں غلطیاں موجود ہیں‘ پروف خوانی ابھی مزید ریاضت اور توجہ چاہتی ہے۔ بہرحال اس نوعیت کی مددگار کتابیں اگر رواج پکڑ لیں تو اشعار‘ جس کثرت سے غلط نقل ہوتے ہیں اور ان کے استعمال میں جو ’’ادبی جھٹکا‘‘ دیکھنے کو ملتا ہے‘ اس سے نجات پانا آسان ہو جائے گا۔ (سلیم منصور خالد)
رینے گینوں ایک نومسلم فرانسیسی فلسفی ہے جس نے فلسفے اور لاطینی ‘ یونانی اور عربی زبانوں کی تعلیم حاصل کی۔ اُس نے جوانی کے ایام فرانس اور جرمنی میں اور عمر کا آخری حصہ مصر میں گزارا۔ رینے گینوں نے آخری عمر میں اسلام قبول کر لیا تھا اور الشیخ عبدالواحد یحییٰ کا نام اختیار کیا۔
رابن واٹر فیلڈ نے رینے گینوں کی تصانیف اور افکار کا جائزہ مرتب کیا ہے۔ اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں معلومات زیادہ نہیں ہیں کیونکہ وہ انتہا درجے کا تنہائی پسند شخص تھا‘ تاہم اُس نے جو تصانیف مرتب کی ہیں‘ تبصرے تحریر کیے ہیں اور اپنے قریبی دوستوں کو اپنے خیالات کے بارے میں بتایا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مثالیت (symbolism) پر یقین رکھتا تھا۔ وہ اہل مغرب کی اس علمی و فکری روایت کا زبردست ناقد تھا جس کی رو سے یونانی اور رومی روایتِ علم ہی‘ علم کی آخری حد سمجھی جاتی ہے۔ اُس کی تصانیف میں ایک اہم تصنیف ہندومت پر بھی ہے۔ وحدتِ کائنات کی تلاش میں اُس نے ویدوں کا مطالعہ بھی کیا اور مصر میں قیام کے دوران قدیم مذہبی صحیفوں کے اصل متن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
زیرنظر کتاب کے دقیق اور پیچیدہ اندازِ بیان کو پروفیسر اشرف بخاری نے انتہائی کاوش کے ساتھ اُردو میں منتقل کرنے کی سعی کی ہے (اگرچہ کئی مقامات پر ترجمہ اور نامانوس اصطلاحات کھٹکتی ہیں)۔ دراصل ایک زبان کے افکار و تصورات کو دوسری زبان میں منتقل کرنا آسان نہیں ہے۔ فاضل مترجم نے کئی اہم تصورات کے بارے میں کتاب کے آخر میں وضاحتی حاشیے بھی شامل کیے ہیں۔ الٰہیات‘ علم فلسفہ اور مغرب کی تہذیبی اُٹھان کے منطقی پس منظر سے واقفیت کے لیے یہ کتاب مفید ہے۔ (محمد ایوب منیر)
بہشتی زیور کی شہرت خواتین کے حوالے سے ہے‘ گو اس میں عام زندگی کے عمومی تمام ہی گوشوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مدرسہ بیت العلم کراچی کے اساتذہ نے اپنے مدرسوں کے طلبہ کی ضرورت کے لحاظ سے اسے نئی ترتیب دی ہے اور زبان و بیان کی قدامت دُور کر دی ہے۔ فقہی کتاب کی طرح عنوانات (طہارت‘ عبادات‘ معاشرت‘ معیشت) بنا دیے ہیں اور مسئلے اور سوال و جواب کا انداز اختیار کیا ہے۔ خواتین سے متعلق مسائل حذف کر دیے ہیں (لڑکیوںکے مدرسے اپنی درسی کتاب مرتب کریں تو مردوں کے مسائل نکال دیں!)۔ اب یہ ایک مفید درسی کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ ہر گھر کی ضرورت بن گئی ہے۔ ائمہ مساجد بھی اس کے حوالے سے مسائل بیان کر سکتے ہیں۔ (مسلم سجاد)
ابوالامتیاز مسلم صاحب نے ذہنی طور پر پس ماندہ اور خصوصی توجہ اور نگہداشت کے مستحق افراد کی معذوری کے مختلف پہلوئوں پر نہایت منفرد اور موثرانداز میں روشنی ڈالی ہے اور ذہنی پس ماندگی کی نوعیت‘ علامات‘ نیز فسادِ دماغ کے بارے میں نہایت سلیس اور دل چسپ انداز میں ایک عمومی جائزہ پیش کیا ہے جس سے ذہنی پس ماندگی کے اسباب و علل کی تفہیم‘ اس کی انتہائی اور شدید‘ نیز متوسط اور خفیف کیفیات کا ادراک اور اُن کی تشخیص اور تدارک کے لیے اقدامات کرنا یقینا آسان ہو جاتا ہے۔
مصنف نے ذہنی پس ماندگی کے ضمن میں ایک نہایت اہم موضوع‘ یعنی معاشرتی رویوں کا بھی خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا ہے کہ والدین کا اپنے معذور بچے کے بارے میں مثبت رویہ‘ نگہداشت اور خصوصی تعلیم و تربیت کے لیے انتہائی اہم قدم ہوتا ہے۔ مسلم صاحب نے خالصتاً اسلامی شعائر کے تحت معذوروں کے حقوق کو پیش نظر رکھا ہے۔ انھوں نے خود بھی احکامِ الٰہی کی روشنی میں اپنے معذور بچے کو صبروشکر کرکے سینے سے لگایا ۔ حیاتیاتی اور نفسیاتی اعتبار سے اپنے معذور بیٹے کے لیے بہتر سے بہترماحول ترتیب دیا اور اُس کی خصوصی پرورش اور تربیت کی مثال قائم کی۔ صرف یہی نہیں‘ انھوں نے ذہنی پس ماندگی کے شکار لاکھوں بچوں کی تعلیم و تربیت اور بحالی جیسے امور کا بیڑا بھی اٹھایا اور اسے علمی موضوع بناکر اُس کی تفصیل بھی اس کتاب میں پیش کی ہے۔
کتاب میں ذہنی طور پر معذور بچوں کی صحت اوراُن کی محدود صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے‘ درجہ وار خصوصی تعلیم و تربیت اور بحالی سے متعلق ممکن ذرائع کی نشان دہی بھی کی ہے جس سے یقینا متعلقہ معاشرتی ادارے بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔بلکہ یہ کتاب عمومی آگاہی کے علاوہ‘ باقاعدہ تربیت اور تعلیم و تحقیق کے دروازے کھولنے میں بھی ممد و معاون ثابت ہوگی۔ کتاب ہٰذا والدین‘ طلبہ‘ اساتذہ سے لے کر ماہرین نفسیات‘ اطبا اور میڈیکل ڈاکٹر حضرات تک سب کے لیے افادیت کی حامل ہے۔ (ڈاکٹر احسان اللّٰہ خان)
دورِ جدید میں اسلام کے عالم گیر پیغام کو عام کرنے اور رسالت مآبؐ کی سیرت سے دنیا کو روشناس کرانے کی بے حد ضرورت ہے۔ اُمت مسلمہ نہ اپنے کردار سے آگاہ ہے نہ درپیش چیلنج سے۔ قلمی محاذ ہو یا تحقیق کا میدان‘ مسلسل اور تکلیف دہ خاموشی‘ عالم اسلام کی دگرگوں حالت‘ حال و مستقبل کی آئینہ دار ہے۔
زیرنظر کتاب کے سرورق پر عنوان دیکھ کر میرا خیال تھا کہ شاید اس کتاب میں بتایا گیا ہوگا کہ اکیسویں صدی کے نئے عالمی نظام‘ تشدد‘ دہشت گردی‘ سیاست عالم‘ مغرب کے اقتصادی غلبے اور مسلمانوں کی دگرگوں حالت کے پیش منظر میں سیرت طیبہ ہماری کیسے اور کس طرح راہنمائی کر سکتی ہے۔یہ بھی ذہن میں آیا کہ اُمت مسلمہ جن مصائب اور مسائل میں گرفتار ہے (فرقہ بندی‘ جدیدیت‘ لبرلزم‘ ترقی پسندی‘ مادہ پرستی‘ شریعت کی نئی تعبیرات‘ سود‘ بیمہ‘ مخلوط تعلیم‘ رقص و سرود اور ٹی وی کی خرافات) ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے‘ رسالت مآبؐ کی سیرت سے راہنمائی حاصل کی گئی ہوگی‘ لیکن جب کتاب کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ مصنف کے سیرت‘ قرآن اور چند کتابوں پر لکھے گئے تبصروں کا مجموعہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی بلندپایہ علمی حیثیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اُن کی ۳۴ سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں (جن میں سے متعدد کتابوں پر ترجمان میں تبصرے چھپ چکے ہیں)۔ بلاشک و شبہہ بلوچستان میں قرآن مجید کے تراجم و تفاسیر‘ حرمین شریفین کے سفرناموں اور تذکرئہ سیرت‘ نیز فارسی نعت کے مجموعوں کے تعارف والے‘ مصنف کے مضامین بھی سیرت ہی کے حوالے سے ہیں لیکن احقر کی راے میں عنوان کتاب‘ ان تحریروں کے حسب حال نہیں ہے۔ (م - ا - م)
محمد شریف بقا‘ علامہ اقبال اور ان کے فکر وکلام سے دیرینہ وابستگی رکھتے ہیں۔ برطانیہ میں ذکراقبال کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ‘ تشریحاتِ اقبال کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے وہ علامہ کے انگریزی خطبات اور ایک معروف نظم کی شرح شائع کر چکے ہیں (بہ عنوان: خطبات اقبال پر ایک نظر- ابلیس کی مجلس شوریٰ)۔ اب بال جبریل کی نظم ’’ذوق و شوق‘‘ ، رموز بے خودی کے ایک حصے اور پس چہ باید کرد کے ایک حصے کی تشریح پیش کی ہے۔ انداز شرح یہ ہے: پہلے متن‘ پھر مشکل الفاظ و اصطلاحات کے معانی‘ بعدازاں ’’مطلب‘‘ اور تشریح--- سیاق و سباق اور پس منظر بھی دیا جاتا تو قاری کے لیے تفہیم زیادہ آسان ہوتی۔ (ر-ہ)