مئی ۲۰۰۳

فہرست مضامین

خصائص سیدالانام ؐ

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم | مئی ۲۰۰۳ | نُقوشِ سیرت

Responsive image Responsive image

اللہ ربّ العالمین اپنے جن بندوں کو نہایت اہم ذمے داری سپرد کریں‘ خصوصی صلاحیتوں اور اوصاف سے بھی نوازتے ہیں۔ اللہ کے پیغام و احکامات کی تبلیغ اور انسانیت کی رہنمائی کے منصب پر فائز کائنات کی سب سے ارفع و اعلیٰ‘ محترم و بزرگ ہستیوں ‘انبیاے کرام کو ایسے خصائص عطا ہوئے جن کے باعث وہ عام انسانوں سے ممتاز اور منفرد ہوئے۔

سیدالانام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہونے والے بے شمار خصائص میں کچھ تو ایسے ہیں‘ جو کسی دوسرے کو نہیں ملے‘ خواہ وہ انبیاے سابقین ہوں یا آپؐ کی اُمت کے دیگر افراد۔ کچھ خصائص ایسے بھی ہیں جو بحیثیت نبی ٔ آخرالزماں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فضل و افتخار بنے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خصائص و کمالات کے سبب تااَبد حاصل رہنے والی بلندیوں تک تو پہنچے ہی--- بَلَغَ الْعُلٰی بِکَمَالِہٖ--- اُمت کے لیے بھی اس طرح      باعث ِ رحمت ثابت ہوئے کہ ذاتِ اقدس کا ہر حوالہ اپنے معبود اور اپنے امتیوں کے گرد گھومنے لگا۔ محمد ابن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات سے وابستہ ہر امتیاز‘ فخر‘ شان‘ فضیلت و خصوصیت محمدؐ رسول اللہ کی ہستی اور الَّذِیْنَ مَعَہُ تک پھیل گیا۔


  •   ایسوسی ایٹ پروفیسر‘ جی سی یونی ورسٹی ‘ فیصل آباد

کتب سیرت میں سیدالانامؐ کے خصائص و فضائل کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ مگر    فی الحقیقت اِنَّ فَضْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَیْسَ لَہٗ حَدٌّ ---آنحضورعلیہ السلام کے کمالات بے حد وحساب‘ جن کے بیاں سے انسان عاجز ہے۔ سیرت نگاروں نے اِن خصائص و کمالات کی وسعت کو بھی آنحضور علیہ السلام کی ایک منفرد خصوصیت اور امتیازی شان قرار دیا ہے۔

جنابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی واحد ہستی ہیں کہ جن کی حیاتِ مطہرہ کا ہر لمحہ‘ ہرعمل‘ ہر جنبش نگاہ و لب مکمل تفاصیل کے ساتھ محفوظ ہے۔ تاریخ نے اس قدر باریک بین نگاہوں‘احتیاط اور جزئیات کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات‘ خصائل و شمائل کا مطالعہ اور احاطہ کیا ہے کہ یہ بجائے خود حیرت انگیز ہے۔ تاریخ جس نے سرزمینِ عرب کو کبھی بھی درخوراعتنا نہ سمجھا تھا‘ آپؐ کے وجود سے اس قدر اَہم ہوگئی کہ ذاتِ اقدس نہ صرف عرب‘ بلکہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور معتبرحوالہ‘ محور و مرکز بن گئی۔ تاریخ کا یہ سفر شروع ہوا تو وہاں وہاں تک پہنچا‘ جہاں ذاتِ اقدس کا کوئی بھی حوالہ موجود تھا۔ حملۂ اَبرہہ کے موقع پر جدِّرسولؐ کا کردار ہو یا والدِ رسولؐ کی شرافت و نجابت کا فخر‘ اُمّ رسولؐ کی خاندانی عزت و مرتبت کا تذکرہ ہو‘ یا ولادت سے پہلے کے واقعات‘ ظہورِ قدسی کے لمحوں میں کہاں کہاں روشنیاں چمکیں! تہلکے کہاں کہاں مچے! کون کون سے آتش کدے بجھے! کیسے کیسے ہنگامے برپا ہوئے!! یہ سب مناظر تاریخ نے بنظرِغائر دیکھے اور خصائصِ رسالت مآبؐ کے طور پر محفوظ کر لیے۔

رسولِ محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و خصائل پر شاہد اور راوی آپؐ کے پاکیزہ ساتھی تو ہیں ہی! تعجب انگیز گواہی اُن لوگوں کی ہے‘ جو آپؐ کے نہ تو پیروکار تھے‘ نہ دین کے   علم بردار‘ اور نہ آپؐ کے اطاعت گزار! ساری زندگی نظریاتی اختلاف‘ اور تکذیب و عداوت کے مسلسل رویوں کے باوجود عظمت مصطفویؐ اور فضیلت مرتضوی ؐ کے شاہد۔ کبھی شاہِ رُوم کے محل میں‘ کبھی نجاشی کے دربار میں‘ کبھی اپنوں کی مجلس میں اور کبھی اصحابِ رسولؐ کے سامنے!!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی ذاتی خصوصیت أَنَا دَعْوَۃُ أبِیْ اِبْرَاھِیْمَ --- میں اپنے جدِّامجد ابراہیم علیہ السلام کی دُعا ہوں! رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ --- اللہ نے اپنے خلیل کی یہ دعا قبول کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری خصوصیت ’’اُمت پر احسان‘‘ منظرعام پر آئی۔ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری خصوصیت تشریف آوری سے قبل ماقبل الہامی کتب میں آمد کا تذکرہ ‘ فاران کی پہاڑیوں پر روشنیوں کے طلوع کی خبر--- یَأْتِی مِنْ بَعْدِیْ اِسْمُہُ أَحْمَدْ--- کی بشارت ‘ مقدس‘ منور القلب‘ مبارکِ عالم کائنات کے القاب سے تعارف!

سیدالانام ؐ کی چوتھی خصوصیت --- اسمِ مبارک ’’محمدؐ‘‘ اور ’’احمدؐ‘‘ ---  رب العالمین کے اسمِ پاک ’’محمود‘‘ کا حصہ۔ کائنات کا سب سے منفرد‘ ممتاز نام۔ جو نہ پہلے کسی کو عطا ہوا‘ نہ کوئی اِس کا مصداق ٹھہرا‘ نہ بامسمّٰی پیدا ہوا۔ رسولؐ اللہ عالمِ ہست و بود کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ تعریف کی ہوئی ہستی قرار پائے! یہ خصوصیت بھی آپؐ ہی کا امتیاز ہے کہ اہل ایمان کے ناموں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کا لاحقہ ہمیشہ عطا ہونے والی فضیلتوں اور برکتوں کا موجب ہے۔

خیرالانامؐ کی پانچویں ذاتی خصوصیت آپ علیہ السلام کی رسالت کی شہادت ہے۔ جس ذاتِ اقدس کی آمد پر کائنات میں روشنی بکھر گئی‘ قیصروکسریٰ کے محلات کے در و دیوار بجنے لگے‘ فارس کے آتش کدے بجھ گئے‘ منصب رسالت پر فائز کیے جانے کے بعد راستے میں آنے والے شجر عظمتِ رسالتؐ کے سامنے جھک گئے‘ مٹھی میں بند حجررسالت کے گواہ بن کر بول پڑے۔ خود ربّ العالمین نے قسم کھاکر رسالت کی گواہی دی۔ یٰسٓ، وَالْقُرْآنِ الْحَکِیْمِ ‘ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ --- رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر مخالفین کے اعتراضات کی بوچھاڑ ہوئی تو سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھٹی خصوصیت سے نوازا گیا۔ خود بارگاہِ الٰہی سے اعتراضات کا جواب آیا۔  مَا أَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ --- مَا ضَلَّ صَاحِبْکُمْ وَمَا غَوَیٰ --- وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیٰ  --- اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی۔

آقاے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی ساتویں خصوصیت اللہ عزوجل کی طرف سے قرآنِ عظیم میں براہِ راست ذاتی نام سے خطاب کی بجائے صفاتی ناموں کا استعمال ہے۔ یَا اَیُّھَا الْمُزَمِّلْ ، یَا اَیُّھَا الْمُدَّثِّر۔ آپؐ کے یہ صفاتی نام بھی آپؐ کی خصوصیت قرار پائے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آٹھویں خصوصیت یہ کہ قرآنِ حکیم میں اللہ جل جلالہ نے لَعَمْرُکَ، آپؐ کی زندگی کی قسم اُٹھائی‘ آپؐ کی جاے اقامت کی قسم--- لَا اُقْسِمُ بِھٰذَا الْبَلَدِ‘ آپؐ کے عہد کی قسم--- وَالْعَصْرِ--- آپؐ کی ذات سے متعلق مختلف چیزوں کی قسم!

سرورِ کائنات علیہ افضل التحیات کی نویں خصوصیت --- ختمِ نبوت--- کہ آپؐ عمارتِ نبوت کی تکمیل کرنے والے‘ سلسلۂ رسالت کے آخری تاجدار‘ اس کی آخری اینٹ۔ ختم بِی الْنُبُوَّۃ --- لَانَبِیَّ بَعْدِیْ --- تاریخیت‘ کاملیت‘ جامعیت‘ ابدیت‘ عملیت اور عالمیت کی ہمہ گیر خصوصیات کے ساتھ متصف نبوت کے حامل قرار پائے۔ شجروحجرجن کی رسالت کے گواہ‘ جن و انس جن کی اُمت میں شامل--- جن کی شریعت تمام شریعتوں کی ناسخ‘ جو جبرئیل امین اور وحی الٰہی کے آخری مہبط--- جن کا ہر لفظ قانون‘ دین و شریعت‘ جن کا ہر عمل واجب الاتباع‘ جن کا ہر قول حرزِ جاں‘ جن کا ہر فرمان عالی شان‘ علم و حکمت‘ جامعیت و معنویت کا خزینہ--- اہل ایمان کو نہ اختلاف کی اجازت‘ نہ سرتابی کی جرأت‘ نہ انکار کی گنجایش--- وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلَہُ اَمْرًا،  اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ۔ ان کے دامنِ پاک سے وابستگی‘ ان کو معیارِ حق تسلیم کرنا‘ دل و جان سے غیرمشروط اطاعت‘ بے چون و چرا تعمیلِ ارشاد‘ دین و دنیا کی سعادتوں‘ نجات اور بخشش کی ضمانت قرار پائے۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا دسواں شرف --- اُمّی لقب--- رسمی تعلیم‘ تحریر و کتابت سے ناآشنا‘ روایتی مَدْرَسوں اور مُدَرِّسوں سے بے نیاز۔ براہِ راست اللہ ذوالجلال کی زیرنگرانی تربیت یافتہ--- اَدَّ بَنِیْ رَبِّیْ فَاَحْسَنَ تَأْدِیْبِیْ--- مزید یہ کہ اسرارِکائنات‘ علوم و معارف‘ دین و دنیا کی رہنمائی کے لیے اَلَمْ نَشْرَحَ لَکَ صَدْرَکَ کی فضیلت سے بہرہ ور ہوئے۔

اُمت کے معلّم‘ مربی‘ مزکی‘ زبان سے منشاے الٰہی کے مبلغ و شارح‘ عمل سے اُمت کے لیے نمونۂ کامل اور اُسوۂ حسنہ۔ نگاہِ ناز سے دلوں کو جِلا بخشنے‘ تطہیرقلوب‘ تعمیرافکار‘ اور تربیت کردار کرنے والے‘ قول و عمل کو ہم آہنگی عطا کرنے اور زندگی کے تضاد ختم کرنے‘ دل کی کدُورتیں صاف کرنے‘ غلامی کے طوق اُتارنے‘ ذلّت و پستی کی زنجیریں توڑنے اور آگ کے گڑھے سے بچا بچا کر رحمت ِ ایزدی کے سائے تلے لاکھڑا کرنے کی بے شمار خصوصیات بھی آپؐ کی ذاتِ مبارک کے نمایاں پہلو ہیں!

سرورِ کون و مکان صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارھویں خصوصیت ’’اُمت کثیر‘‘ سے نوازا جانا ہے۔ کوہِ صفا پر توحید و رسالت کا اعلان کرنے والے تن تنہا‘ بے یارومددگار‘ جانب ِ منزل اکیلے ہی چلنے والے--- ۲۳ برسوں کے محدود عرصے میں لاکھوں جاں نثاروں کے مقتدیٰ‘ ضعیفوں کے ملجا اور یتیموں کے ماویٰ اور انسانیت کے راہبر و رہنما بن گئے۔ تاریخ نے حجۃ الوداع کے دن شوکت و سطوت کا وہ عظیم الشان منظر بھی دیکھا کہ دائیں بائیں‘ آگے پیچھے سوا لاکھ سے زیادہ پاکیزہ اصحاب‘ جاں نثاری و فداکاری کے جام ہاتھوں میں تھامے کھڑے‘ آقا کے اشارئہ ابرو پر اپنے ماں باپ اور اپنا وجود قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ انسانوں کا اس قدر جمِ غفیر‘ اتنا بڑا سوادِاعظم کہ اُفق نظروں سے غائب ہوگیا۔ وہ مرحلہ آپہنچا--- یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا۔ آپؐ کا یہ فضل کہ آپؐ کی اُمت بڑھتی ہی گئی۔ قیامت تک بڑھتی رہے گی۔ آپؐ اُمتیوں کی کثرت پر فخر کریں گے۔ آپؐ کو یہ خصوصیت بھی عطا ہوئی کہ آپؐ کی اُمت سب سے بڑی‘ آخری اور بہترین--- خَیْرَاُمَّۃٍ --- اور ’’اُمت وسط!‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارھویں نمایاں خصوصیت --- أصْحَابِیْ کَالْنُّجُوْمِ--- ستاروں کی مانند--- کائنات کے سب سے محترم‘ معتبر اور پاکیزہ نفوس آپؐ کے صحابہ قرار پائے۔ انھوں نے صحبت رسولؐ کا فیض پایا۔ دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر اُنھیں چاہا‘ جنت کے بدلے جانوں کے سودے کا عہد نبھایا۔ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاھَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ۔ اللہ اُن سے اور وہ اللہ سے راضی--- رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۔ ایسے پاکیزہ اور قدسی نفوس‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مجسم معجزے‘ تاقیامت اُمت کے لیے ہدایت کے سرچشمے۔ روشنی کے مینار--- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فخر یہ بھی تھا کہ آپؐ کے صحابہ کا تذکرہ‘ آپؐ کے ذکر کے ساتھ قرآن اور ماقبل الہامی کتب میں کیا گیا۔ مَثَلُھُمْ  فِی الْتَّوْرَاۃ وَمَثَلُھُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ۔

خیرالانام کی متعدد خصوصیات میں یہ بھی شامل ہے کہ آپؐ ’’باب رحمت‘‘ اور ’’مفتاح الجنۃ‘‘ ہیں۔ جنت سب سے پہلے آپؐ کے لیے کھولی جائے گی ‘ اور آپؐ کے بعد آپؐ کے اُمتیوں میں سے نفوس مطمئنہ‘  رَاضِیَۃً مَرْضِیَّۃً --- اور ان کے بعد دوسرے داخلے کی اجازت پائیں گے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق و باطل کی وضاحت کرنے‘ انسانیت کو ظلمات سے نکل کر روشنیوں سے ہم کنار کرنے‘ آگ کے گڑھوں سے بچا بچا کر جنت کے دروازوں پر لاکھڑا کرنے‘ اُمت کی بخشش کی سعی ٔ مسلسل اور راتوں کو دعائیں کرتے رہنے کے باعث نَبِیُّ الرَّحْمَۃِ اور نَبِیُّ الْتَوْبَۃِ کے امتیازات و خصائص سے بھی متصف ہوئے!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ذُوْالقِبْلَتَیْنِ--- ساری اُمتوں کی مشترکہ میراث--- صَاحِبِ خَیْرُالْقُرُوْنِ --- زمانوں میں سب سے بہتر زمانے والے۔ عرب ہی نہیں کائنات کے سب سے محترم‘ بزرگ اور اشرف خاندان‘ خوب صورت و نیک سیرت مرد و عورت کے گھر ولادت کے باعث۔ اَشْرَفُ النَّاسِ ، اللہ کے بعد کائنات کی سب سے مکرم و محترم ہستی--- اَکْرَمُ الْخَلْقِ کے خصائصِ ذاتی سے بھی مشرف ہوئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود بُرھَانٌ و  بَیِّنَۃٌ کے القاب سے متصف‘ حیاتِ مبارکہ حق کی روشن و مستحکم دلیل‘ آپؐ صاحب ِ خلقِ عظیم--- جس کی شہادت قرآن نے --- اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ--- حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے قبل از نبوت کے اوصافِ حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کے ذکرسے--- اِنَّکَ لَتَصِلُ الْرَّحِمَ--- آپؐ صلۂ رحمی کرتے ہیں‘ وَتَصْدُقْ الْحَدِیْثَ--- سچی بات کہتے ہیں‘  وَتَحْمِلُ الْکَلَّ--- کمزور کا بوجھ اُٹھاتے ہیں‘ وَتُکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ---ضرورت مند کی حاجت روائی کرتے ہیں‘ وَتَقْرِیْ الْضَّیْفَ ---مہمان نوازی کرتے ہیں‘ وَتْعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ--- اور حق کی راہ میں مشکلات پر مددگار بنتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے --- کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰن--- کے ذریعے دی۔ اور یہ صفات بھی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خصائص کا حصہ قرار پائیں!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کے مونس و غم خوار‘ اس کے درد اور دُکھ میں اپنی جان گھلانے کی صفت سے متصف--- لَعَلَّکَ بِاخِعٌ نَفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِھِمْ--- راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اُمت کی ہدایت‘ بخشش و مغفرت اور نجات کی مسلسل دُعائیں‘ قدمِ مبارک پر ورَم اور    سینۂ اطہر سے اُبلتی ہوئی ہانڈی کی طرح نکلنے والی آوازوں کے ساتھ--- خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص کا حصہ ہیں۔

رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر مرضی ٔ مولا‘ پیمانۂ محبت خدا--- اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ --- معیار صراطِ مستقیم--- وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا--- اپنے پر ایمان لانے والوں---  فَالَّذِیْنَ آمَنُوْا بِہٖ‘ اپنی توقیر کرنے والوں--- وَعَزَّرُوْہُ ،اپنی مدد کرنے والوں--- وَنَصَرُوْہُ، اپنے لائے ہوئے نورِ ہدایت کا کامل اتباع کرنے والوں---  وَاتَّبَعُوْا الْنُّوْرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗ کے لیے نجات و کامیابی کی ضمانت --- اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک منفرد خصوصیت‘ شان اور کمال یہ بھی ہے کہ آپؐ کو جو نسخۂ کیمیا عطا ہوا۔ ہر شک‘ شبہے‘ تحریف اور ملاوٹ سے پاک۔ لَارَیْبَ فِیْہِ--- دائیں بائیں‘ آگے پیچھے‘ باطل کے حملوں سے محفوظ--- لَایَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ۔

جملہ الہامی تعلیمات کا مجموعہ‘ علوم و معارف کا خزینہ‘ حکمت و موعظت اور قلب ونظر کی شفا و رحمت کا سرچشمہ--- قرآن حکیم--- زندہ و جاوید‘ پایندہ و تابندہ معجزہ۔ آپؐ کا یہ امتیاز و خصوصیت بھی کہ آپؐ ہی اس کی تبیین‘ تشریح اور توضیح کے مختار قرار پائے!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرھویں خصوصیت کبریٰ --- اُوْتِیْتُ جَوَامَعَ الْکَلِمِ۔ فصاحت و بلاغت کے مرکز‘ شعروخطابت کے ماحول میں زبردست قدرتِ کلام‘ بے پناہ فصاحت و بلاغت--- أنَا أَفْصَحُ الْعَرَبِ--- بلندپایہ خطیب‘ ماہرعالم نفسیات‘ لوگوں کے مزاج اور طبائع سے آشنا۔ زبردست اور دل نشیں طرزِ کلام‘ موثر اندازِ تخاطب کی حامل ہستی کے بے مثل ابلاغ کے عکاس۔ آپؐ کے ’’جوامع الکلم‘‘ --- پاکیزہ اور مختصر جملے‘ لفظی‘ ادبی اور صوتی حسن کے شاہکار‘ وسعت ِ معانی کے نمونے‘ حیاتِ انسانی کے فلسفے اور حقائق کا واضح بیاں‘ مسائل‘ اُلجھنوں اور عُقدوں کا حل چند اشاروں میں--- کوزے میں دریا--- تاریخ انگشت بدنداں ‘ عقل محو تماشاے لب بام--- کہ یہ سب اُس کی زباں سے ادا ہوئے‘ جو لکھنے پڑھنے کی حاجت اور عالموں کی صحبت سے بے نیاز تھا۔ مَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتَابِ وَلَا تَخُطُّہُ بِیْمِیْنِکَ۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ پاکیزہ جملے زبانِ اطہر سے نکلتے‘ سماعتوں سے ٹکراتے اور دلوں میں اُترجاتے۔ جسم ہی نہیں‘ قلب ونظر فتح ہوتے چلے جاتے۔ یک بیک کایا پلٹتی‘ راستی و ہدایت کے دَر کھلتے‘ صراطِ مستقیم آشکار ہوتا چلا جاتا۔ سننے والا بے اختیار پکار اُٹھتا--- اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدًا عبدہٗ ورسولہٗ!!

سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور امتیازی خصوصیت نُصِرْتُ بِالْرُّعْبِ---   بے مثال رعب و دبدبہ‘ شان و شوکت‘قوت و سطوت‘ جلال و جمال سے آپؐ کی مدد--- الْنَّصْرُ قَادِمُہُ - وَالْفَتْحُ خَادِمُہُ ۔ نصرت و فتح ہمیشہ آپؐ کی خدمت میں موجود---! غلبہ ایسا کہ فتحِ مکّہ کے روز سارے عرب کے سرنگوں۔ نصرت ایسی کہ کَمْ مِنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ       فِئَۃً کَثِیْرَۃً  بِاِذْنِ اللّٰہِ --- شان و شوکت ایسی کہ فتحِ مکہ کی شب تاحدِّنظر پھیلا ہوا لشکرِاسلام۔ لہراتے ہوئے رنگ برنگ ہزاروں عَلَم اور خیموں میں روشن چراغ--- جس سے کفر لرزہ براندام!!

سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور خصوصیت --- أَنَا رَحْمَۃٌ مُھْدَاۃٌ --- انسانیت کے لیے بطور ہدیہ عطا کی گئی‘ دنیا و آخرت میں سراپا رحمت۔ وَمَا اَرْسَلْنَکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ---! پیکرعفو و درگزر‘ مجسم رأفت و رحمت‘ اُمت کی ہدایت و مغفرت پر حریص۔ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ‘ اس کی پریشانیوں پر کُڑھنے اور تڑپنے والے--- عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ، اپنے پر ایمان لانے والوں--- بِالْمُؤْمِنِیْنَ کے لیے رَوء فٌ رَحِیْمٌ---!! آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی انھی شفقتوں نے پروانوں‘ فرزانوں اور مستانوں کا ہجوم آپؐ کے ارد گرد جمع کر دیا۔ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَاْ نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ--- اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگ یوں دیوانہ وار اپنا تن ‘من‘ دھن نثار نہ کرتے۔

آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائصِ ذاتی میں یہ بھی شامل ہے کہ تکلم فرماتے‘ تو دل کے اندھیرے دُور ہوتے‘ تبسم فرماتے تو گھر روشن ہوجاتے‘ دل اس قدر نرم کہ زندہ گاڑی جانے والی بچیوں کے ذکر پر رقت طاری ہوگئی‘ ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوگئی۔ ستونِ حنانہ جدائی برداشت نہ کر سکا‘ رو دیا تو تڑپ اُٹھے‘ خطبہ موقوف کر دیا۔ اُونٹ نے مالک کے ظلم کا رونا رویا‘ تو دل بھر آیا‘ تھیلے میں تڑپتے پرندوں کی آوازسنی تو رہائی کا حکم دیا۔ معصوم حسنین کریمین دورانِ نماز پشت مبارک پر چڑھ گئے‘ تو سجدہ طویل کر دیا۔

ساری زمیں کو آپؐ کے اور اُمت کے لیے سجدۂ گاہ اور پاکیزہ بنا دیا جانا--- جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْض مَسْجِدًا وَطُھُوْرًا--- غنائم کاحلال کیا جانا--- اُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ۔ آپؐ کی ازواجِ مطہرات سے نکاح کی حُرمت‘ بیٹیوں پر سوکن لانے کی ممانعت‘ اپنے اہل بیت ؓ کے لیے زکوٰۃ سے دست برداری‘ مکہ و مدینہ کو سارے شہروں اورآپؐ کی مسجد کو تمام مساجد پر فضلیت‘ جسدِاطہر کا معطّرپسینہ‘ موئے مبارک کی برکتیں‘ انگلیوں سے پانی کی روانی‘ لعابِ دہن سے امراض کا علاج اور کھانے کی فراوانی۔ شق قمر اور شق صدر کے حیرت انگیز واقعات‘ عہدِماضی کی خبریں‘ آنے والے واقعات کی پیش گوئیاں‘ نمازِ جمعہ‘ اذان‘ اقامت‘ لیلۃ القدر اور ماہِ رمضان۔ دورانِ نماز ’’آمین‘‘، شعارِ اسلام--- یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی نمایاں امتیازات اور ذاتِ اقدس کے منفرد خصائص ہیں۔

شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں ’’شفاعت‘‘ اُمت کے لیے بہت بڑا تحفہ اور آنجناب علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کی بے مثال خصوصیت ہے۔ روزِ محشرجب جلالِ الٰہی کا آفتاب جوبن پر اور لِمَنِ الْمُلْکَ الْیَوْمَ ،  لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارْ کی صدا ہر سمت گونج رہی ہوگی۔ عرشِ الٰہی کے سائے اور آقاے دوجہاںؐ کے مقامِ محمود اور حوضِ کوثر کے سوا کہیں جاے اماں نہ ہوگی۔ نفسانفسی کا عالم‘ انسانوں کے جھکے ہوئے سر‘ اُمت محمدی علیٰ صاحبھا الصلوات والتسلیمات کی طرح دیگر اُمتیں شفاعت ِ محمدیؐ سے فیض یاب ہونے کی اُمیدوار اور بے قرار۔ ایسے میں ایک صدا اُبھرے گی‘ صاحب جلال و جبروت رب عرش و اَرض کی رحمت بھری آواز--- مژدۂ جانفزا‘ پیامِ امن و سلامتی--- یَامُحَمَّدْ! اِرْفَعْ رَأسَکَ۔ اے محمدؐ! سراُٹھایئے!  قُلْ تُسْمَعْ --- کہتے جایئے‘ آپ کی سنی جائے گی‘ اِسْئَلْ تُعْطَ --- سوال کرتے جایئے‘ آپ کا من چاہا ملتا جائے گا‘ اِشْفَعْ تُشَفَّعْ--- شفاعت کیجیے ‘آپؐ کی شفاعت قبول کی جائے گی!!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور خصوصیت ’’کمالِ عبدیت‘‘ ہے۔ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلٰی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی--- شبِ معراج مسجدحرام سے مسجدِاقصٰی کا سفر پلک جھپکتے میں‘ آدم علیہ السلام سے عیسٰی علیہ السلام تک انبیا و رسُل کی امامت کی سرفرازی‘ براق کی سواری‘ جنت ودوزخ کا مشاہدہ‘ آسمان پر انبیا سے ملاقات‘ سدرۃ المنتٰہی پر دو قوس--- قَابَ قَوْسَیْنِ --- یا اس سے بھی کم فاصلے---       أَوْ اَدْنٰی۔ پر اپنے رب کے ساتھ ہم کلامی کا شرف آپؐ کے خصائص کا حصہ ہیں!!

خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خصوصیت بھی نمایاں ہے کہ آپؐ کا دین‘ مکمل ترین--- الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ--- آپؐ پر الٰہی نعمت ِ عظمیٰ--- راہِ مستقیم--- کا اتمام--- اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ، آپؐ کا دین اللہ کا پسندیدہ و محبوب دین ۔ رَضِیْتُ لَکَمْ الْاِسْلَامَ دَیْنًا۔ اور اس کی بارگاہ میں مقبول۔ وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَالْاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ۔ آپؐ کا دین آسان ترین دین ---  الْدِّیْنُ یُسْرٌ، آپؐ کا دین غالب ترین دین۔  جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ--- بلاشبہہ آپؐ کے وجودِ پاک سے حق غالب ہوا اور باطل مٹ گیا---

لاکھ ستارے ہر طرف ظلمت ِ شب جہاں جہاں

اِک طلوعِ آفتاب ، دشت و چمن سحرسحر

سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ آپؐ کے لائے ہوئے دین میں نہ کسی کو کمی کا اختیار ہے‘ نہ اضافے کی اجازت‘ نہ تغییرو تبدیل کی گنجایش‘ نہ پیوندکاری کی ضرورت--- اس میں ادخُلُوْا فِی الْسِلْمَ کَآفَّۃً کا پیغام‘ جَاھِدُوْا فِیْ اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ کا حکم‘ اعلاے کلمۃ اللہ کی جدوجہد کی رہنمائی--- لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَائ، دشمنانِ حق کی مکمل سرکوبی اور فتنہ و فساد کے مکمل خاتمے کی ہدایت---  قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃً۔ غلبۂ حق کی تکمیل منزل کی جانب بڑھتے رہنے کا فرض۔  وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلَّہُ لِلّٰہِ --- وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا --- اتحاد و اتفاق اُمت کی کلیدِ کامرانی‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا نسخہ کیمیا‘ یہ سب دین اسلام کے امتیازات اور اس کے جامع و کامل ہونے کے    ہمہ پہلو دلائل ہیں!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور باکمال خصوصیت و امتیاز‘ اُمت کے لیے باعث ِ فخر--- کہ بّروبحر‘ زمین و آسمان‘ انفس و آفاق میں ظاہروباطن‘ جلی و خفی‘ صبح و شام ‘ہر جگہ‘ ہر وقت‘ ہر صورت آپؐ کا ذکر کائنات کے ہر ذی نفس سے بلندتر اور عام ہے۔ یہ مظہر ہے آپؐ کی شانِ رَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ کا۔ ارشاد الٰہی ہے: اِذَا ذُکِرْتَ ذُکِرْتَ مَعْیِ۔ جب بھی مجھے یاد کیا‘ میرا نام لیا جائے گا۔ آپ علیہ السلام کا ذکر بھی ہوگا۔ قرآن کی تلاوت ہو یا اذان‘کے نغمے‘ انسانوں کی مجلسیں ہوں یا فرشتوں کی محفلیں۔ دُعا کے لیے اُٹھے ہاتھ ہوں یا مناجات کے لیے تڑپتے ہونٹ‘ بے قرار سجدے ہوں یا خشوع و خضوع کے مظہر رکوع‘ تسبیح کے دانے ہوںیا انگلیوں کی پوریں--- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاکیزہ ذکر حرزِجاں اور باعث سکون و اطمینان‘ راحت قلب و نظر بنا رہے گا۔

سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور امتیاز آپؐ کا بے مثال ادب و احترام--- اُمت کو اس کی تلقین‘ خصوصی احتیاط کی ہدایت --- لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتِکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ۔رسول محترمؐ کی آواز سے اپنی آواز اُونچی نہ کرو۔ لاَ تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِبَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ۔ بارگاہِ رسالت مآب میں ایک دوسرے کی طرح بلند آواز نہ کرو۔ پاسِ ادب ہر لمحہ ملحوظِ خاطر رہے۔ شانِ عالی مرتبت کبھی ذہن سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ کوئی ایسا قدم نہ اُٹھے‘ نہ زباں سے حرف نکلے‘ نہ اطاعت میں کوئی کوتاہی ہوجائے۔ رسالت مآب کی مرضی اور حکم پر تسلیم دل و جاں کے سوا کچھ نہ ظاہر ہو‘ انکار کی تو مجال ہی نہیں‘ کبیدگی ٔ خاطر بھی گوارا نہیں! ذرا سی بے احتیاطی کی اتنی بڑی سزا کہ تصور سے ماورا--- اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ۔ دنیا بھی خراب اور عقبیٰ بھی تباہ!!

سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی خصوصیت‘ امتیاز و کمال کہ جس کے ذکر کے بغیر ہمارا اظہارِ عقیدت نامکمل رہے گا۔ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ بارگاہِ ربّ العالمین سے حضورِانور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تاقیامت درود و سلام کی بارش۔ فرشتوں کو اس کی ہدایت اور اہل ایمان کو بے پناہ دنیوی و اخروی فضیلتوں‘ برکتوں اور رحمتوں کے تحفے کے ساتھ حکم۔ یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا۔

آیئے! بارگاہِ سیدالانام علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام میں اپنے اظہار عقیدت و محبت کا اختتام لاکھوں درود اور کروڑوں سلام سے کریں کہ جو خود یتیم تھا‘ یتیموں کے حقوق کا محافظ اور ان کا سہارا بنا‘ خود مسکین تھا‘ دُنیا بھر کے مسکینوں کا آسرا ٹھہرا‘ خود مادّی سہاروں سے محروم تھا‘ کائنات کے مجبوروں‘ مقہوروں اور مظلوموں کا ملجا و ماویٰ بنا‘ خطائوں سے پاک تھا‘ اُمت کی لغزشوں‘ خطائوں اور گناہوں کا طلب گار ہوا۔ سارے جہاں کے لیے رحمت و شفقت کا سائبان بنا۔ جس کے قبضے میں دنیا جہان کے خزانوں کی کنجیاں‘ مگر اَلْفَقْرُ فَخْرِی پر نازاں۔ جو اپنے وجود‘ خصائل و شمائل‘ خصائص و امتیازات کے سبب اولین و آخرین۔ کائنات کے ہر ذی نفس کے لیے وجہِ افتخار اور باعث ِ نجات!!

اللھم صلی وسلم علی النبی الأمّی وعلٰی آلٰہٖ وأصحابہ وبارک وَسَلِّم!!