فکریں ہر طرف سے سمٹ کر اس سوال پر مرکوز ہوگئی ہیںکہ ادیانِ باطلہ کی گرفت جس نے پوری زندگی کو اپنے شکنجے میں کس رکھا ہے کیسے ہٹائی جائے‘ عبدیت کو اللہ کے لیے خالص کر دینے میں جو مزاحمتیں حائل ہیں انھیں کیسے دُور کیا جائے‘ اور دین حق کو زمین پر اور خود اپنی حیاتِ دنیا کے تمام شعبوں پر کس طرح قائم کیا جائے؟… کچھ لوگ حیران ہیں کہ اتنا بڑا مقصد اتنی شدید مزاحمتوں کے علی الرغم کیسے حاصل ہوگا؟ کچھ لوگ مزاحم طاقتوں میں سے کسی ایک طاقت سے… فوراً ٹکرا جانا چاہتے ہیں… کچھ لوگ بیچ کے تمام مراحل کو بیک جنبش خیال پھلانگ جاتے ہیں اور بالکل آخری مرحلے میں جو کچھ ہونا چاہیے ‘ اس کی تیاری ابھی سے کر ڈالنا چاہتے ہیں… کچھ لوگ مرحلۂ اوّل سے لے کر آخری مرحلے تک پورا پروگرام مفصل ٹائم ٹیبل کے ساتھ مانگتے ہیں تاکہ انھیں ٹھیک وہ تاریخ معلوم ہوجائے جب خلیفۂ راشد کا انتخاب ہوگا… کچھ لوگ کتابی دنیا میں مقیم ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو نقشے انھوں نے صفحۂ قرطاس پر کہیں دیکھے ہیں وہی عالمِ آب و گل میں ہوبہو نظر آجائیں… کچھ اور لوگ ہیں جو بار بار کہتے اور سوچتے ہیں کہ ’’کچھ ہونا چاہیے‘‘مگر خود نہیں جانتے کہ کیا ہونا چاہیے…
عملی قوتوں کے لیے ذہنی انتشار سے بڑا دشمن کوئی نہیں ہے۔ مگر اس کا صحیح علاج یہ نہیں ہے کہ لوگ سوچنا چھوڑ دیں اور بس کسی کے احکام کی تعمیل کرنے لگیں۔ اس طرح کا عمل انسانوں کا نہیں‘ حیوانوں کا خاصہ ہے اور وہ شخص خود اپنے نصب العین کے ساتھ دشمنی کرتا ہے جو افراد کو عملِ بلافکر اور اطاعت ِ بلافہم کی مشق کراتا ہے۔ انتشارِ ذہنی کے سبب سے عملی قوتوں پر جو فالج گرا ہو اس کا اصلی علاج یہ ہے کہ بروقت صحیح فکری رہنمائی کی جائے تاکہ دماغ غلط راہوں پر سوچنے کے بجاے صحیح راہ پر سوچنے لگیں اور پوری طرح یکسو ہو کر اس طرز پر کام کرنے کا فیصلہ کرلیں جس کے صحیح ہونے کا انھیں اطمینان حاصل ہوجائے۔ (’’اشارات‘‘، ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد۲۲‘ عدد ۵‘ جمادی الاولیٰ ۱۳۶۲ھ‘ مئی ۱۹۴۳ئ‘ ص ۱۳۱-۱۳۲)