مولانا گوہر رحمن کا غم ابھی دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا کہ تحریک کے ایک اولیں خادم اور مثالی کارکن مولانا مصاحب علی کے انتقال (۱۷ اپریل ۲۰۰۳ئ) کی خبر نے غم و الم کو اور بھی گراں بار کر دیا۔ نئی نسل تو شاید ان کے نام سے بھی واقف نہ ہو لیکن میں نے تو ان کو اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک کے سرگرم قائدین کی صف میں دیکھا ہے اور جماعت کے اولیں دور کا سراپا ان کے اور ان جیسے تحریکی رہبروں کی زندگی میں دیکھا ہے۔ اپنے جمعیت کے زمانے میں‘ نواب شاہ میں‘ مجھے ان سے ملنے اور ان کی شفقت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ پھر ۱۹۵۷ء سے مرکزی شوریٰ میں ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جس کا سب سے اہم حاصل ان کی دعوتی تڑپ اور اصلاحِ احوال کا شوق تھا۔ تحریک سے وفاداری‘ کام کی لگن‘ بے لوث تنقید اور محاسبہ‘ جرأتِ اظہار---کس کس بات کا انسان ذکر کرے۔ ایک طرف ذاتی شفقت اور محبت اور دوسری طرف بڑے سے بڑے انسان پر بھرپور تنقید اور احتساب۔ ان کا خلوص‘ ان کی یکسوئی‘ ان کی اصابت ِرائے‘ ہر ایک کا نقش دل پر مرتسم ہے۔
مولانا مصاحب علی مرحوم ہمارے لیے ایک مثالی کارکن اور ان لوگوں کا ایک نمونہ تھے جن کو سید مودودی کی انقلابی ؒتحریک نے سب سے پہلے متاثر کیا اور جو اس کا ہراول دستہ بنے۔ ان کی زندگی میں دنیا طلبی کا کوئی شائبہ نظر نہ آیا۔ انھوں نے دین‘ دعوت اور تحریک کے لیے اپنے اللہ سے عہد کر کے اپنے کو وقف کر دیا‘ اور پھر آخری لمحے تک انھوں نے اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے کو پورا کیا۔ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِج (الاحزاب ۳۳:۲۳)
مولانا مصاحب علی ایک کھاتے پیتے گھرانے کے فرد تھے جو سب کچھ لٹا کر سندھ آئے لیکن تبادلے میں حاصل کی جا سکنے والی جایداد تک کے بارے میں ‘ جو ان کا حق تھا‘کسی کوشش اور تگ و دو سے مجتنب رہے۔ استاد کی حیثیت سے خدمت انجام دی اور جماعت اسلامی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ دعوت ان کی زندگی تھی اور قناعت ان کا شعار۔ اولاد کو بھی اسی راستے کی تعلیم دی اور عزیزی عبدالملک مجاہد اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے اور آج کل امریکہ میں سمعی و بصری ادارے سائونڈ وژن کے ذریعے خدمت دین کے لیے کوشاں ہیں۔ باقی اولاد بھی الحمدللہ دین اور تحریک کی خدمت کے لیے کوشاں ہے۔ مولانا مصاحب علی نے احیاے دین کی جدوجہد اور انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی پوری زندگی کو وقف کیا اور دنیا سے حتیٰ کہ تحریک سے کسی صلے کی تمنا نہیں کی۔ ان کی سوچ‘ ان کی تگ و دو‘ ان کے اضطراب اور احتساب‘ غرض ہرایک کا محور بس یہی تھا کہ جس چیز کو زندگی کا مشن بنایا ہے اس کے حصول کے لیے سب کچھ تج دیں ؎
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
مولانامصاحب علی ہماری تاریخ کا ایک روشن باب تھے۔ ایک مدت سے صاحب ِ فراش تھے۔ آخری ملاقات ان کے صاحبزادے کے گھر پر پچھلے سال ہوئی۔ زبان بند تھی۔ بار بار بے ہوشی کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ مگر جب ہوش آیا اور پہچانا تو بے حد خوش ہوئے۔ ان کی آنکھوں کی چمک اور ان کے ہاتھ سے اشاروں کو بھول نہیں سکتا۔ شفقت کا یہ عالم کہ اس عالم میں بھی بچوں کو تواضع کی ہدایات دے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول کرے‘ ان کے درجات کو بلند کرے اور انھیں جنت الفردوس سے نوازے ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے