مشہور ہے کہ خود چور، ’’چور چور‘‘ کا شور مچا کر اپنے آپ کو بچا لیتا ہے۔ آج حقوقِ انسانی کی محافظت کی علم بردار مغربی استعماری قوتیں ’’حقوقِ انسانی‘‘ کی خوش نما ترکیب کو استعمال کرکے معاشی اعتبار سے ترقی پذیر ممالک کے عوام کو بے وقوف بنا رہی ہیں۔ ایک طرف حقوقِ انسانی کا یہ نعرہ ہے اور دوسری جانب فلسطین‘ چیچنیا‘ مشرقی یورپ‘ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کا قتلِ عام‘ لیکن اس پر زبانیں گنگ۔
اکیسویں صدی کے استعمار نے اپنی سیاسی‘ معاشی‘ عسکری اور تہذیبی بالادستی کے لیے جہاں توپ و تفنگ‘ منڈی کی معیشت ‘ تعلیم گاہوں اور ذرائع ابلاغ کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے‘ وہاں انھوں نے خاص طور پر مسلم ملکوں میں کرائے کے غدار فطرت دانش وروں کو اپنے مقاصد کے حصول کا آلۂ کار بھی بنایا ہے۔ یہ لوگ بالعموم این جی اوز کے لبادے میںکام کرتے ہیں (مستثنیات کے علاوہ)۔ ان این جی اوز کا کام کیا ہے؟ اپنے ملک‘ تہذیب‘ دین اور مفادات کے خلاف استعماری ایجنڈے کو پروان چڑھانے کی تحریری اور پروپیگنڈا مہمات میں حصہ ادا کرنا۔ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا مسلم آبادی کے دو سب سے بڑے ملک ہیں۔ ان میں فکری انتشار کی حامل یہ تنظیمات ایک باقاعدہ ان دیکھی حکومت کی صورت میں اقتدار و اختیار پر شب خون مار رہی ہیں۔
پاکستان میں ایسی این جی اوز نے ملک‘ دین‘ تاریخ اور گھر کو ہدف بنانے کے لیے چومکھی یلغار کر رکھی ہے۔ انھیں پاکستانی ’’اتاترک‘‘ کے زمانے میں پالیسی سازی کے ایوانوں میں بڑی آسانی کے ساتھ رسائی حاصل ہو گئی ہے۔ یہ کام انھوں نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ میں کرلیا ہے۔ پاکستان میں ان تنظیمات میں ریڑھ کی ہڈی قادیانی گروہ کے افراد ہیں (جنھیں حکومت میں شامل طاقت ور افراد کی براہِ راست اعانت حاصل ہے) جن کے مددگاروں میں خاص طورپر عیسائی مشنری اور سابق نام نہاد کمیونسٹ شامل ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب میں ان تنظیموں کا حقیقی چہرہ دکھانے کے لیے مختلف افراد نے اپنی مختصر یا مفصل تحریروں کے ذریعے نقاب اُلٹ دینے کی کوشش کی ہے۔ زیادہ تر اخباری و مجلاتی اور کچھ تحقیقی مضامین کا یہ مجموعہ بڑی بڑی کہانیوں کی سرخیوں اور بنیادی معلومات تک قاری کو پہنچا دیتا ہے۔ محمدمتین خالد نے اس آکاس بیل کی نشان دہی کے لیے بکھری تحریروںکی تدوین کرکے یہ قابلِ قدر مجموعہ پیش کیا اور اس طرح ایک ملّی اور دینی خدمت انجام دی ہے‘ تاہم اس موضوع پر سائنسی بنیادوں پر تحقیق و مطالعے اور تجزیے کی ضرورت باقی ہے۔ فاضل مرتب اگر اس کتاب کو دو مجموعوں میں تقسیم کر کے اس کا اشاریہ بنا دیتے تو افراد‘ تنظیمات اور موضوعات کی نشان دہی کے لیے اس کی افادیت میں مزید اضافہ ہو جاتا۔
دینی‘ سیاسی ‘ انتظامی اور تدریسی رجالِ کار اس کتاب کی مدد سے قوم میں بیداری اور ہوش مندی کی ایک لہر اُٹھا سکتے ہیں‘ اگر وہ اسے پڑھیں اور اپنی غیرتِ دینی میں کوئی اُکساہٹ محسوس کریں تو۔ (سلیم منصور خالد)
ایک: ۱۹۵۳ء کے کاروباری سفر ایران و عراق اور کویت کا ذکر‘ دوسرے: تیرھویں ایشیائی کانفرنس براے پسماندگان‘‘ (ڈھاکہ ۱۹۹۷ئ) کے سفر کا تذکرہ۔
سفر ’’وسیلۂ ظفر‘‘تو عموماً ہوتا ہی ہے‘ ع س مسلم کے لیے سفرہمیشہ ’’چشم کشا‘‘ بھی رہا۔ چنانچہ ایک بابصیرت سیاح ‘قاری کو بھی اپنے مشاہدے میں یوں شامل کرتا ہے کہ وہ قاری کی انگلی پکڑ کر اسے ساتھ ساتھ لیے چلتا ہے اور حسب موقع مشاہدات پر تبصرہ کرتا ہے اورکہیں کہیںصورتِ احوال کا تجزیہ بھی۔ ان تجزیوں میں مصنف کا ردعمل ہرچند کہ متوازن اور جچا تلا ہے‘ مگر قدرتی طور پر ایک پاکستانی مسلمان کا زاویۂ نظر غالب ہے۔ شاید اسی سبب سے (محض رودادِ سفر سے لطف اندوز ہونے والوں کے علاوہ) ایک سنجیدہ فکر قاری کو بھی اس کتاب میں کشش نظر آتی ہے۔
سفر ایران میں پاکستانی سفارت خانے اور قونصل خانے کی بے حسی اور عدم توجہی‘ اس کے مقابلے میں بھارت کی کامیاب سفارت کاری‘ ایک ترک سفارت کار کی اہلیہ سے پاکستانی سفیر راجا غضنفرعلی خاں کی عشق بازی‘ ایران میں یہ عمومی تاثر کہ پاکستان انگریزوں نے اپنے مفادات کے لیے بنایا اور کویت کے ایک مفلوک الحال ہوٹل کا حال۔ بنگلہ دیش میں بہت سے دوستوں سے ملاقاتوں کے بعد‘ مصنف کا تاثر یہ ہے کہ ہندو ابھی تک بنگلہ دیش کے رگ و پے میں سرطان کی طرح پنجے گاڑے ہوئے ہے اور ہرچند کہ عوام کا شعور بیدار ہے‘ تاہم عوامی لیگ کے خواص اپنی ذہنی اور فکری آبیاری کے لیے سیکولرزم کے نام پر انھی کے گھاٹ سے سیراب ہوتے ہیں (ص ۱۵۹)۔ دوسری طرف (اُردو زبان پرانے رشتوں کی بحالی اور باہمی رابطوں کا ایک موثر ذریعہ بن سکتی ہے‘ مگر)پاکستانی حکومت کا یہ حال ہے کہ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے اُردو شعبے اورطلبہ کے لیے نہ تعاون کی کوئی صورت ہے‘ نہ حوصلہ افزائی یا وظائف کی پیش کش اور نہ کسی اُردو چیئر یا اُردو پروفیسر کا انتظام۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس کے برعکس فارسی زبان کے فروغ کے لیے ایرانی سفارت خانے کا تحرک اور فراخ دلانہ امداد قابل ستایش ہے۔ ایرانی‘ یونی ورسٹی اساتذہ سے قریبی اور گہرے روابط رکھتے ہیںاور طلبہ کو کتابیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ایران میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف بھی دیتے ہیں۔ انھوں نے ایک عمارت تعمیر کر کے شعبۂ فارسی کو عطیہ کر دی ہے۔ نتیجہ یہ کہ اب اکثر طلبہ فارسی میں زیادہ دل چسپی لینے لگے ہیں۔
یہ ایک پُرخلوص اور خالص سفرنامہ ہے--- ’’پُرخلوص‘‘ اس لیے کہ ملّی اور قومی جذبۂ اخلاص کے ساتھ لکھا گیا ہے اور ’’خالص‘‘ اس لیے کہ مصنف نے اسے رنگ آمیزی‘ مبالغے اور سفرنامے کو افسانہ بنانے سے اجتناب کیا ہے۔
ایک تو بذاتِ خود احوال و واقعات دل چسپ ہیں‘ دوسرے (بصورتِ تبصرہ و تجزیہ) مصنف کے تعمیری اور مثبت جذبات و احساسات‘ اور تیسرے ع س مسلم کا دل کش ادبی اور انشائی اسلوبِ تحریر--- ان دو تین چیزوں نے اسے ایک دل چسپ‘ بامعنی اور قابلِ مطالعہ رودادِ سفربنا دیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
یہ انتخاب پہلی مرتبہ ۱۹۷۹ء میں شائع ہوا تھا۔ اس میں خصوصاً جماعت اسلامی کی رودادوں سے مولانا مودودیؒ کے خطبات اور ہدایات کو مدون کیا گیا ہے۔ کتاب کا موضوع خود وضاحت کرتا ہے کہ اس میں تحریک اسلامی کے کارکن کو مقصد‘ تنظیم اور عملی جدوجہد کے بارے میں ہدایات اور رہنمائی دی گئی ہے۔
’اشاعت ِنو‘ اس حوالے سے قابلِ ذکر ہے کہ ادارہ معارف اسلامی نے خصوصی اہتمام سے کتاب کے متن کی صحت کو یقینی بنانے کے لیے‘ اصل ماخذ سے موازنہ کر کے یہ نسخہ تیار کیا ہے۔ اس طرح وہ بہت سی کمیاں اور کوتاہیاں دُور کر دی گئی ہیں‘ جو اس انتخاب کی اشاعت کے روز ہی سے اس کا حصہ بن چکی تھیں۔ کتاب میں آیات اور احادیث کے ترجمے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ کتاب میں چند مقامات پر جو لفظی تغیر یا اضافہ کرنا پڑا‘ اسے قلابین میں ظاہر کر دیا گیا ہے۔ بعض تحریروں کو اس مجموعے سے قلم زد کر دیا گیا ہے۔ اس طرح اب یہ کتاب صحت و احتیاط کی ایک معیاری کوشش کے طور پر سامنے آئی ہے۔ زندگی کے آخری برسوں میں خود مولانا محترم اس حوالے سے دل گرفتہ تھے کہ ان کے کم و بیش تمام ناشرین‘ ان کی تحریروں کو شائع کرتے ہوئے نہایت بے احتیاطی اور غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس مجموعے کی یہ اشاعت خاصی احتیاط سے مرتب کی گئی ہے۔
’اشاعت ِنو‘ کی آیندہ طباعت کے وقت چند امورپر توجہ ضروری ہے: قرآن و حدیث کے متن کوکتاب کے عمومی اسلوب کے مطابق ہی پیش کیا جائے۔ یہ نہیں کہ کوئی لائن ایک ترتیب میں اور کوئی درمیان میں۔ احادیث نبویؐ کا حوالہ بھی درج کیا جائے۔ مولانا محترم اس کے اہتمام پر زور دیا کرتے تھے۔ ضمنی سرخیوں میں قلابین کا اہتمام غیرضروری ہے۔ یہ کتاب ایک طرح کی رہنما کتاب ہے اس لیے آخر میں اشاریہ ہونا چاہیے‘ تاکہ مستقبل میں مولانا کی کتب مرتب کرتے وقت یہ نمونہ ایک معیار قرار پائے۔ مزید یہ کہ اتنے رنگوں کے ہجوم سے پیدا شدہ کثافت سے سرورق کو پاک کیا جائے۔ سادگی کی خوب صورتی اور جاذبیت کو موقع دیا جائے۔ ادارہ اس پیش کش پر مبارک باد کا مستحق ہے‘ دیر آید درست آید۔ (س - م -خ )
معروف انگریزی رسالے اکانومسٹ کے ایڈیٹر نے اپنے ایک مضمون میں صلیب و ہلال کی طویل جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مستقبل میں باہمی تصادم سے بچنے کے لیے مغرب اور اسلام کو قریب تر لانے کی ضرورت ہے (۶ اگست‘ ۱۹۹۴ئ)۔ فاروقی صاحب نے محسوس کیا کہ اکانومسٹ کے اداریہ نویس بعض غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں‘ اُن کی معلومات بھی ادھوری اور نادرست ہیں اور اُن کے ہاں اسلام کا تصور بھی بہت محدود ہے۔ چنانچہ انھوں نے غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے مدیر مذکورکو ایک خط لکھا اور پھر کئی خطوں کا تبادلہ ہوا۔ اب اس طویل مراسلت کو زیرنظر کتاب میں مرتب کیا گیا ہے۔ مصنف امریکی جیلوں کے قیدیوں سے بھی مراسلت رکھتے ہیں اور انھیں اسلامی لٹریچر فراہم کرتے ہیں۔ چنانچہ بہت سے امریکی قیدیوں نے بھی یہ لٹریچر پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ زیرنظر کتاب میں اس سلسلے میں بھی کئی لوگوں کا تذکرہ شامل ہے۔
کتاب دل چسپ ہے۔ اس کے مباحث میں تنوع ہے۔ اہل مغرب کی غلط فہمیوں‘ غلطیوں اور غلط کاریوں کا تذکرہ ہے اورکچھ اُن کے تعصب اور اسلام کے خلاف دشمنیوں کا ذکر۔ کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے بذریعہ قلم و قرطاس‘ دعوت و تبلیغ کو ایک بامقصد مشغلے کے طور پر اپنایا جو بہت مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہو رہا ہے۔ (ر-ہ)
امریکہ‘ امریکہ‘ امریکہ--- ان دنوںہر طرف یہی ایک موضوع ہے۔ اخبارات میں اور ٹی وی کے چینلوں پر ماہرین‘ تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ نئے نئے نام سننے میں اور دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ لیکن وقتی نوعیت کے ان تبصروں کے ریلے میں ایسی کتابیں شاذ ہی سامنے آئی ہیں جن پر نظر ٹھہر جائے اور غوروفکر کیا جائے۔ ۸۲ صفحے کی اس مختصرکتاب نے اپنے موضوع پر سنجیدہ غوروفکر کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کی ہے۔ ۴۱صفحات تک امریکہ جو کچھ ہے‘ اس کے پورے نظام‘ طریق کار اور سوچ کو معروضی طور پر پیش کیا گیا ہے اور بعد کے ۴۱ صفحات میں اُمت مسلمہ اور پاکستان ورکنگ ریلیشن شپ کے لیے جو رویے رکھ سکتی ہے اس کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کی گئی ہے۔ مصنف نے ’’جذباتی نعروں‘ کھوکھلے دعووں‘ غلط الزامات اور فضول جنگوں‘‘ کے علی الرغم غیر جذباتی سات نکاتی راہِ عمل پیش کی ہے۔ آج ہماری حقیقی ضرورت فکری یکسوئی ہے‘ اس لیے کہ مولانا مودودیؒ کے بقول انتشار ذہنی عملی قوتوں پر گرنے والا فالج ہے۔ (مسلم سجاد)
دنیا میں سیرت النبیؐ سے زیادہ‘ شاید کسی موضوع پر نہیں لکھا گیا۔ اس ہمہ گیر و ہمہ جہت‘ تحقیقی و علمی سلسلۂ کاوش کا ایک سبب یہ ہے کہ اہل اسلام کے لیے زندگی کے ہر میدان میں رہنما اصول سیرت پاکؐ ہی سے ملتے ہیں۔ عصرِحاضر میں یہ رجحان تیزی سے ترقی کر رہا ہے کہ دورِحاضر کے مسائل کے بارے میں سیرت مجتبیٰؐ سے رہنمائی کے لیے باقاعدہ تحقیقی مقالات و کتب مرتب کی جائیں۔ اس رجحان کے فروغ میں ایک بنیادی کردار وزارتِ مذہبی امور کی قومی سیرت کانفرنس کا ہے۔
یہ کتاب متذکرہ کانفرنس میں پیش کردہ مصنف کے چند تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے۔ یہ سات مقالات اپنے موضوعات کے اعتبار سے بہت اہم ہیں۔ پہلا مقالہ سیرت طیبہؐ اور اس کے مطالعے کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے ہے۔ علاوہ ازیں ’’انسانی حقوق‘ تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں‘‘،’’عصرِحاضر کے مسائل کا حل سیرت طیبہؐ کی روشنی میں‘‘ اور ’’لسانی و گروہی اختلافات کا خاتمہ‘ سیرت طیبہؐ کی روشنی میں‘‘ بھی اپنی جگہ خوب ہیں۔ مقالات تحقیقی انداز میں تحریر کیے گئے تھے۔ ترتیب ِکتاب کے وقت غالباً استفادۂ عام کی غرض سے تحقیقی رنگ نکال دیا گیا ہے۔ اس طرح تحریر کے بھرپور تاثرمیں کسی قدر کمی کا احساس ہوتا ہے۔ بہرحال آیات و احادیث سے مزین یہ مختصر کتاب سیرت کے موضوع پر ایک اچھا اضافہ ہے۔ (ڈاکٹر محمد حماد لکھوی)
یہ علامہ اقبالؒ کی ایک مختصر سوانح عمری ہے۔ اس میں علامہ اقبالؒ کے آباواجداد‘ان کے آبائی وطن کشمیر‘ ان کی پیدایش اور تصنیفات سے لے کر ان کی وفات تک کے حالات و واقعات کو گویا ’’دریاکو کوزے میںبند کر دیا ہے‘‘۔
داستانِ اقبال اقبال کی سابقہ سوانح عمریوں کا ایک طرح سے خلاصہ ہے۔ بعض جگہ احتیاط ملحوظ نہیں رکھی گئی‘ مثلاً ابتدائی تعلیم و تربیت کے ضمن میں لکھا ہے کہ اقبال ایک سال تک مولانا غلام حسن کے مدرسے میں زیرتعلیم رہے اور پھر تین سال تک سیدمیرحسن کے مدرسے میں پڑھے۔ اس کے بعد ۱۸۸۲ء میں اسکاچ مشن اسکول میں داخل ہوئے (ص ۲۵ تا ۲۸)‘ تو کیا اقبال نے محض ایک سال کی عمر میں مولوی غلام حسن کے مدرسے میں پڑھنا شروع کر دیا؟ اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے کہ’’ اقبال نے ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو پانچ بج کر ۱۴ منٹ پر صبح کی اذانوں کی گونج میں اپنی جان خدا کے سپرد کی‘‘ حالانکہ ۲۱ اپریل کو یہ وقت طلوعِ آفتاب سے قریب ہوتا ہے اور صبح کی اذان تو تقریباً ساڑھے چار بجے ہوتی ہے۔ اسی طرح میٹرک میں اقبال کے حاصل کردہ ۴۲۴ نمبروں کا ذکر ہے (ص۳۱)۔ مگر کل نمبر کتنے تھے؟ پتا نہیں چلتا (یہ ۸۵۰ تھے)۔ گویا اقبال کے حاصل کردہ نمبر‘ ۵۰ فی صد سے بھی (ایک نمبر) کم ہیں۔
ان فروگزاشتوں کے باوجود‘ اقبال پر یہ ایک مفید تعارفی کتاب ہے۔ ڈاکٹر صدیق جاوید نے بجا طور پر مصنفہ کی ’’زبان و بیان کی سادگی اور صفاتی‘‘ کو سراہا اور توقع ظاہر کی ہے کہ یہ نوجوانوں کے لیے شوق انگیز ثابت ہوگی۔ (محمد قاسم انیس)
نائن الیون کے واقعے نے جہاں پوری دنیا کو متاثر کیا ہے وہاں عالم اسلام کے لیے اِبتلا کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ کئی اہل قلم نے ان حالات کا تجزیہ کیا ہے اور آنے والے دور کی ایک جھلک پیش کی ہے۔ زیرنظر کتاب ایک ایسی ہی کوشش ہے۔ مصنف نے مختلف شواہد کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس بڑے واقعے میں صہیونی دہشت گردوں کا ہاتھ ہے۔ انھوں نے ڈینیل پرل کیس کا بھی تجزیہ اور صہیونی عزائم کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ مستقبل قریب میں پاک بھارت جنگ ہو کر رہے گی۔ اُمت مسلمہ کو جو خطرات لاحق ہیں ان کا تجزیہ کرتے ہوئے فاضل مصنف نے ملاعمر اور اسامہ بن لادن سمیت بہت سے مجاہدین کے بارے میں یہ تاثر دیا ہے کہ یہ لوگ ایک بین الاقوامی سازش میں شامل ہیں۔ یہ بات محل نظر ہے۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ دنیا بھر میں ہر بڑی تبدیلی کے پس پردہ عالمی یہودی تنظیموں کا نادیدہ ہاتھ اب راز نہیں رہا۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)