مئی ۲۰۰۳

فہرست مضامین

بغداد کا المیہ : چند سبق

پروفیسر خورشید احمد | مئی ۲۰۰۳ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

۹ اپریل ۲۰۰۳ئ---!

یہ ایک عام دن نہیں ہے کہ جس کے شمار سے کوئی پہلو بچا کر نکل جائے۔ اسلامی‘ عالمی اور سیاسی تاریخ میں یہ دن کئی اعتبار سے حوالے‘ عبرت اور نئی منزلوں کی تلاش کا دن قرار پائے گا۔ اور اگر کوئی عبرت پکڑنے کے لیے تیار ہو تو قدرتِ حق کا یہ تازیانہ‘ بے عملی اور نفاق میں  مبتلا قوموں کو راست رو بنا دے گا‘ اگر شکستہ جسم و جان کے باوجود ذہن و ضمیر میں زندگی کی   رمق موجود ہوئی تو اس یوم سے وابستہ دکھ ‘ نہ صرف صف بندی کرائے گا‘ بلکہ منزل پر پہنچنے اور شکست و خجالت کے داغ دھونے کاکام بھی کرے گا۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس خوش گمانی کی کوئی بنیاد موجود ہے؟

گذشتہ ایک صدی کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بظاہر ایسی اُمید افزا بات کہنے کے لیے کوئی بڑے قابلِ قدر حوالے دکھائی نہیں دیتے۔ تاہم اس موضوع پر کلام کرتے ہوئے ۹ اپریل کی شام بغداد کی دھواں دار فضا‘ اور تحیّروصدمے سے پتھرایاہوا شہر---جہاں ۵۰ لاکھ انسانوں کے اس شہر میں صرف ۱۵۰ افراد دیوانگی یا مسرت کا اظہار کر رہے ہیں‘ نگاہوں کے سامنے  گھوم جاتا ہے۔

اس روز بغداد کی تیسری تباہی کا علامتی سطح پر اظہار ہوا‘ جسے برقی خبر رسانی اور تصویرکشی کے سہارے کروڑوں انسانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ تاتاری لشکروں کی بغداد میں خوں آشامی تو ماضی بعید کی تاریخ کا ایک حصہ ہے‘مگر آج کا انسان جو کچھ عراق میں ہو رہا ہے اسے بہ چشم سر دیکھ رہا ہے ‘ اور انسان کی پستی‘ ظلم‘ زیادتی‘ بے بسی و بے چارگی کا  بار بار مشاہدہ کر رہا ہے۔

میں ان معنوں میں تو تاریخ کا طالب علم نہیں جن معنوں میں پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کوئی مورخ ہوتا ہے‘ لیکن اُمت مسلمہ کے بہی خواہ اور تاریخ کے موضوع میں دل چسپی رکھنے والے ایک شخص کی حیثیت سے اس کی کئی سطحیں میرے سامنے آتی ہیں۔

بغداد کی پہلی تباہی (۱۲۵۸ئ) اپنے اندر بڑے سبق رکھتی تھی اور رکھتی ہے۔ اس کے بعد پہلی جنگ ِ عظیم (۱۸-۱۹۱۴ئ) کے اختتام پر دولت ِ عثمانیہ کا انتشار‘ لارنس آف عریبیا کی زیرقیادت عرب قومیت کے فریب کی پرورش‘ اور پھر برطانیہ کی عراق پر فوج کشی اور بغداد پر قبضہ اور اب سقوطِ بغداد کا وہ واقعہ جو ہم میں سے بیشترنے ٹی وی پر دیکھا ہے ‘ یہ ہماری تاریخ کے وہ الم ناک لمحے ہیں جن پر آنسو بہائے گئے ہیں اور آنسو بہائے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ دکھ‘ کرب اور غصے کی حالت میں مقید رہنے کے بجائے آگے بڑھیں‘ قرآن عزیز کے اوراق پر قوموں کے عروج و زوال اور ناکامی و کامرانی کا قانون پڑھیں۔ اس سے جو سبق سیکھنا چاہیے‘ اُس کی طرف توجہ دیں۔

یہی بغداد چار ساڑھے چار سو سال تک علم‘ تہذیب‘ سیاسی قوت اور عسکری طاقت کا  مرکز و محور رہا ہے‘ جو مسلمانوں کی سطوت کی علامت اور پہچان تھا۔ بلاشبہہ اس باوقار ماضی کا ایک بڑا محرک وہ تعلیمی نظام تھا‘ جس نے ہر ہر میدان میں اُمت مسلمہ کی قیادت کو پیدا کیا تھا۔ مفسرین‘ محدثین‘ فقہا‘ متکلمین‘ منتظمین ‘ مالیات کے ماہر‘ فوجی جرنیل‘ یہ سب اس نظامِ تعلیم کی پیداوار تھے‘ جسے آج مدرسے کا نظام کہتے ہیں۔ کبھی یہی مدرسہ ان تمام چیزوں کا جامع تھا۔ میرے محدود علم کی حد تک جامعہ کا تصور نہ یونان میں تھاکہ جنھوں نے تعلیم کی شمعیں روشن کیں‘ نہ چین میں تھا جو تعلیم کے میدان میں دنیا کی بہت سی تہذیبوں میں دنیا کے دوسروں ملکوں سے بہت آگے تھے۔ تعلیم کو زندگی کے اجتماعی معاملات میں اہمیت دینے والوں میں‘ اُس عہدکے مسلمان بہت اُونچے مقام پر تھے۔ یہ تصور کہ تمام علوم کو ایک محور کے گرد جمع ہونا چاہیے‘ ایک منبع سے انھیں روشنی حاصل کرنی چاہیے‘ حتیٰ کہ ایک چھت کے نیچے ان سب کو جمع کیا جائے---   یہ تھا جامعہ کا تصور‘ جسے انگریزی میں یونی ورسٹی کہا گیا۔ یونی ورسٹی کا مفہوم ہی یہی تھا کہ پوری ’ورس‘ کو ہم ایک وحدت میں لا رہے ہیں۔ وہ مدرسہ جس کو آج تحقیر کے ساتھ پکارا جاتا ہے‘ اپنے آغاز میں دراصل یہی مدرسہ اس انقلابی تصورکا علم بردار اور نمونہ تھا۔

پھر اس زمانے کی مسلم قیادت نے پلٹی کھائی‘ جس کے نتیجے میں فکری آزادی‘ جمود اور تقلید کا شکار ہوگئی۔ وہ الہامی ہدایت ‘ جسے زندگی کے ہر شعبے میں اصل رہنما اور صورت گر ہونا چاہیے تھا‘ وہ گروہ بندی‘ فرقہ بندی‘ مسلک بندی کی نذر ہوگئی۔ تحقیق‘ جستجو‘ سائنس و ٹکنالوجی‘ عمرانی علوم‘ اخلاقی پہلو‘ جن میں ہم آگے تھے روایت پسندی اور بے عملی کی یخ بستگی کا نشان بن کر رہ گئے۔ جارج سارٹنس اپنی کتاب ’ہسٹری آف سائنس‘ میں ہر ۵۰ سال پر ایک باب (chapter) باندھتا ہے اور ہر باب کے لیے ایک مفکر کو اس دور کا سب سے بڑا فکرساز اور مفکر قرار دیتا ہے۔ اس زمانے کے پانچ ابواب کے سرعنوان میں ہمیں مسلمان مفکر نظر آتے ہیں۔

اسی بغداد نے یہ بھی دیکھا کہ تعیش‘ نفس پرستی‘ فرقہ بندی‘ اندھی تقلید‘ قبرپرستی اور   اکابر پرستی ‘ محسن ناشناسی کے ایک طاعون نے انھیں گھیرلیا۔ اپنے محسنوں کی قدرافزائی     ایک بڑی قیمتی قدر ہے اور کوئی فرد اور کوئی قوم اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ لیکن جب یہی  محسن شناسی‘ قبرپرستی اور شخصیت پرستی میں بدل جاتی ہے تو پھر فکری آزادی کے سوتے سوکھ جاتے ہیں۔ وہاں پر بھی یہی المیہ رونما ہوا۔

مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب منگولوں کی سفاک فوجوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی ‘کشتوں کے پشتے لگا دیے تھے۔ بغداد کی نہریں انسانی خون سے سرخ ہو رہی تھیں‘ اس وقت مسلمانوں کے خوف کا عالم یہ تھا کہ اگر کوئی حملہ آور منگول‘ مسلمانوں سے کہتا تھا کہ تم زمین پر لیٹ جائو‘ تاکہ میں تمھیں مارنے کے لیے نیا خنجر یا تلوار اپنے خیمے سے لے آئوں‘ تو وہ اُس حملہ آور کے ’’احترام‘‘ میں وہیں لیٹا رہتا‘تاآنکہ وہ اپنی تلوار لائے اور اس کو ذبح کر ڈالے۔

آج بھی ’آیندہ کون؟‘ (Who Next?) کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ آج اس  کرئہ ارضی پر ۵۶ آزاد مسلمان ملک اور ایک ارب پچیس تیس کروڑ مسلمان ہیں۔ کس مپرسی کے عالم میں اس منظر کو دیکھ رہے ہیں اور ہر ایک یہ سوچ رہا ہے کہ ’آیندہ کون؟‘ کسی کو خیال نہیں آتا کہ اگر ہم مل کر اپنی قوت‘ اور اپنے وسائل کو استعمال کریں تو پھربے بسی‘ موت اور بربادی کے انتظار کا یہ لمحہ ختم ہو سکتا ہے۔

دوسرا واقعہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب خلیفہ کو تین یا چار دن کے فاقے کی حالت میں زنجیروں سے باندھ کر دربار میں لایا گیا تو فاتح تاتاری جرنیل نے حقارت سے پوچھا: ’’تمھیں کیا چاہیے؟‘‘ تو عباسی خلیفہ نے بے ساختہ کہا: ’’مجھے پانی چاہیے‘ کچھ کھانے کو دو‘‘۔ تو تاتاری جرنیل نے سونے کا ایک ٹکڑا اس کے سامنے ڈال دیا۔ خلیفہ نے کہا: ’’میں اس کو تو نہیں کھاسکتا‘‘۔  اس لمحے وہ دشمن یہ تاریخی الفاظ کہتا ہے: ’’اگر تم نے اس سونے کو اسلحہ بنانے کے لیے استعمال کیا ہوتا تو آج تمھیں ان حالات سے دوچار نہیں ہونا پڑتا‘‘--- ایسی صورت آج ہماری بھی ہے۔ ہم اپنے اسلحے کے لیے بھی دوسروں کے محتاج ہیں۔ہمیں اپنے دفاع کے لیے یہ اختیار بھی نہیں کہ اپنے قومی وسائل سے جو دفاعی ذرائع ہم کو درکار ہیں انھیں حاصل کر سکیں‘ یا ان کی بنیاد پر ہم اپنا دفاعی اسلحہ تیار کر سکیں اور اپنا دفاع کر سکیں۔ برطانیہ کے وزیردفاع نے ۹ اپریل ۲۰۰۳ء ہی کی شام ڈنمارک میں یہ کہہ دیا کہ ’’عراق ہی نہیں‘ جس کے پاس بھی ہم سمجھیں گے کہ مہلک ہتھیار ہیں اور وہ ہمارے لیے خطرہ ہے تو ہم ان پر بھی پیشگی حملے کا حق استعمال کریں گے‘‘۔

یہ وہ ماحول ہے جس میں آج ہم سانس لے رہے ہیں۔ جس طرح امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے عراقی عوام کے لیے بیان دیا ہے: ’’ہم آپ کی آزادی کے لیے آئے ہیں‘ آپ بالکل پریشان نہ ہوں‘‘، اگر تاریخ کے ورق اُلٹیں تو برطانیہ کے وزیراعظم نے پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد فوج کشی کے موقع پر بھی یہی کہا تھا: ’ہم عربوں کو ترکوں سے آزادی دلانے کے لیے آ رہے ہیں‘ بعینہٖ وہی الفاظ ہیں‘ بلیئرکے بیان میں درج ہیں۔اُس وقت کے وزیراعظم کا بیان ملا کر دیکھ لیجیے‘ زبان و بیان ایک ہے‘ اگرچہ زمانہ بدلا ہوا ہے۔

میں بڑے ادب سے یہ عرض کروں گا کہ تعلیم کسی غار میں نہیں دی جاتی۔ تعلیم کاتعلق تہذیب سے ہے‘ معاشرے ‘سیاست ‘عسکریت اور زندگی کے ہر پہلو سے ہے۔ تعلیم کا یہ رشتہ اگر کٹ جائے تو پھر وہ تعلیم‘ زندگی سے لاتعلق ہو جاتی ہے‘ محض وقت کاضیاع اور محکومی و غلامی کا دعوت نامہ بن جاتی ہے۔ ماضی میں جو کچھ ہوا اس میں اس بات کا بڑا دخل تھا کہ عرصہ گزرا ہمارا تعلیمی نظام‘ زندگی کے تقاضوں اور اس کے مطالبات سے اس طرح مربوط نہیں رہا کہ جس طرح اسے ہونا چاہیے تھا۔ اس کا نتیجہ وہ زوال کے حادثات بنے ۔ آج بھی ہم اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہیں۔

پچھلے ۲۰۰ سال کے حالات پر خصوصاً بیسویں صدی کے حالات و واقعات پر غور کرتے ہوئے ‘میں بڑی شدت کے ساتھ یہ محسوس کرتا ہوں کہ اُمت مسلمہ کو جو حالات درپیش ہیں ایک بنیادی فرق کے ساتھ ان میں غیرمعمولی مشابہت ہمارے اولین دور سے ہے۔

بڑا بنیادی فرق یہ تھا کہ پہلا دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور ان کے ذریعے وحی کے نور سے انسانیت کی زندگی کو منور کرنے کا دور تھا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ایک نئی تحریک اورایک نئی تہذیب اور ایک نئی عالمی رو کے اُبھرنے کا دور تھا۔ اس بنیادی فرق کے باوجود ہم دیکھتے ہیں اور جوں ہی اسلامی دعوت جزدانوں سے نکلی اور فکرورہنمائی سامنے آئی تونئی تہذیب‘  نئی ٹکنالوجی‘ حکمرانی اور قانون کے نئے نظام نے‘ ایرانی و رومی تہذیبوں یا دوسری تہذیبوں کو متاثر ہی نہیں‘ بلکہ مسخر کیا۔ ایک طرف انھوں نے اس تحریک‘ پیغام اور انقلابی رو کو مستحکم کیا اور آگے بڑھایا اور دوسری طرف نئے ادارے قائم کیے اور جو ادارے پہلے سے موجود تھے ان کا احتساب کیا۔ رد و قبول کا سلسلہ شروع کیا ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جو چار بڑے علم اس زمانے میں پروان چڑھے: علمِ تفسیر‘علمِ حدیث‘ اصول فقہ اور کلام‘ کچھ پہلو سے ان میں اصول فقہ سب سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے‘ ان سب نے ہماری فکر اور تہذیب کو استحکام عطا کیا۔

پھر قیادت‘ تعلیم‘قوت کا حصول اور قوت کے تمام ذرائع‘ جن میں علم‘ ایمان و کردار‘ سائنس و ٹکنالوجی ‘ انتظام و انصرام‘ تنظیمی مہارت‘ عسکری قوت‘ اسلحہ سازی‘ یہ چیزیں تقریباً چار صدیوں تک ہماری وسعت اور استحکام کے لیے جوہری بنیاد بنی رہیں۔ تہذیبی انتشارکے شروع ہو جانے کے باوجود امام غزالی ؒنے کوشش کی کہ فکری اعتبار سے اس وقت کی تمام تحریکوں کو جوڑ کر ایک مربوط شکل دیں۔ اس کے برعکس اگر آپ پچھلے ۲۰۰ سالوں کو دیکھیں تو ایک بالکل اُلٹے پائوں چلتی ہوئی تحریک نظر آتی ہے ‘ جس کی بنیاد ‘اندرونی کمزوریوں پر استوار ہے۔

میں اس خیال کا علم بردار نہیں ہوں کہ اُمت مسلمہ کا انتشار اور ہماری سیاسی قوت کا محکوم اور منتشر ہو جانا محض بیرونی اسباب کی وجہ سے ہے۔ بلاشبہہ اس میں بیرونی اسباب ایک بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ لیکن بہرحال یہ ہماری اندرونی کمزوری تھی‘ جس نے بیرونی قوتوں کو ایک موثر کردار ادا کرنے کا موقع دیا۔ پھر ہم برابر پیچھے ہوتے چلے گئے۔ انجامِ کار جو کچھ ہوا‘ اس کا آغاز انیسویں صدی کے ابتدا میں ہوا‘ اور جس کا آخری باب ۱۹۲۴ء میں سقوطِ خلافت عثمانیہ کی شکل میں نظر آیا۔

اس زمانے میں وہ اُلٹا عمل شروع ہوا کہ جو کچھ ہم نے پہلے تین یا چار صدیوں میں حاصل کیا تھا‘ وہ رفتہ رفتہ ہم سے چھن گیا۔ اندرونی انتشار اور کمزوری‘ سیاسی شکست‘ عسکری میدان میں ہزیمت‘ ایک ایک کر کے مسلمان ممالک مغربی (یعنی: برطانوی‘ فرانسیسی‘ ہسپانوی‘پرتگالی‘ روسی‘ ولندیزی) سامراج کی زد میں آگئے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں صرف چار بیمار مسلمان ملک باقی رہ گئے جنھیں نام کا آزاد کہا جا سکتا تھا۔ یوں تاریخ میں پہلی مرتبہ قوت‘ اقتدار اور عالمی حکمرانی کے کردار سے مسلمانوں کی گرفت ختم ہوگئی۔ اس سے پہلے ۱۲۰۰ سال میں نشیب و فراز تو بہت آئے ‘ لیکن بے کسی و محکومی کا یہ سانحہ کبھی پیش نہیں آیا۔

دوسری چیز یہ کہ‘ پہلی صدی سے ہم نے جو ادارے قائم کیے تھے‘ وہ ایک ایک کر کے تباہ ہو گئے۔ بغدادکے پہلے سقوط کے بعد ہماری سیاسی قوت کو شکست ہوئی تھی‘ لیکن ہماری ایمانی اور تہذیبی اور اخلاقی قوت نے اس کو دوبارہ حاصل کیا اور اقبال نے اسی مناسبت سے فرمایا:   ؎

سبق ملا ہے یہ تاتار کے فسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

حقیقت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ہماری تاریخ میں یہ واقعہ بھی رونما ہوا کہ مغربی سامراج نے گذشتہ ۲۰۰برسوں کے دوران سیاسی قوت اور فوجی برتری حاصل کرنے کے ساتھ‘ ان اداروں کو تباہ ہی نہیں کیا‘ بلکہ ان کی جگہ متبادل ادارے مسلط (impose) بھی کیے۔ لے دے کر ۲۰۰ سال میں مجروح اور مضمحل شکل میں اگر کوئی چیز باقی رہی تو وہ تین ادارے تھے: مسجد‘ مدرسہ اور گھر۔ انھوں نے اس پورے زمانے میں ہم کو سنبھالا ہے۔ یہ بھی اپنی اصل شکل میں نہیں رہے‘ بلکہ مضمحل اور مجروح شکل میں اپنے وجود کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن باقی سارے ادارے ہمارے ہاتھ سے نکل گئے!

پھر تیسرا سانحہ یہ ہوا کہ اس زمانے میں ایک نئی قیادت اُبھری۔ یہ قیادت بظاہر مسلمانوں میں سے اُبھاری گئی اور صرف سیاسی میدان میں نہیں‘ بلکہ ہر شعبے میں فکری‘ معاشی اور سیاسی سطح پر یہ قیادت‘ حکمران قوت کے طور پر تیار کر کے مسلط کر دی گئی۔ جو شکل اور نام سے مسلم دنیا کا حصہ دکھائی دیتی ہے‘ مگر ذہن‘ کردار‘ فکر اور مفادات کے حوالے سے مغربی استعمار کی نسل در نسل آلۂ کار بن کر خدمات انجام دیتی نظر آتی ہے۔ یہی قیادت اُمت مسلمہ کو ٹکڑیوں میں توڑنے اور غلامی و بربادی کے اندھیروں میں دھکیلنے کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔

پچھلے ۵۰ سال میں ۵۶ مسلمان آزاد ملک وجودمیں آئے ہیں۔ معاشی اعتبار سے بھی توازن میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قوت پر ہماری گرفت‘ اداروں کی تباہی اور استعماریت کی کاسہ لیس قیادت کی معزولی میں ناکامی ہمارے بحران کے تین بڑے محورہیں۔

اللہ کی رحمتیں ہوں‘ ان انسانوں پر جنھوں نے دینی پس منظر میں بھی اور سیاسی پس منظر میں بھی‘ اس زمانے میں مسلمانوں میں بیداری کی تحریکوں کو جنم دیا۔ جمال الدین افغانی‘ پرنس حلیم پاشا‘ علامہ محمد اقبال‘مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا اشرف علی تھانوی‘ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی‘ مفتی محمد عبدہ‘ امیرشکیب ارسلان‘ رشید رضا‘ امام حسن البنا شہید‘ سعید نورسی‘ مالک بن نبی رحمہم اللہ الاجمعین روشنی کے وہ مینار ہیں جنھوں نے دو صدیوں کی تاریکی کو چھاننے کا مشکل کام انجام دیا اور نئی راہیں کھول دیں۔بظاہر مایوس کن منظرنامہ ہونے کے باوجود مجھے امکانات نظر آرہے ہیں‘ لیکن ابھی منزل بہت دُور ہے‘ مسائل گمبھیرہیں اور ہمیں اپنے آپ کو اس ہمہ گیر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنا ہے۔


اس وقت بغداد کا سقوط ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ آمریت کا نظام کبھی استحکام نہیں دے سکتا۔ اس کے استحکام کے دعوے بڑے بودے اور بڑے دھوکا دینے والے ہوتے ہیں۔ آمریت کے علم بردار لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے استحکام دے دیا ہے‘ لیکن وہ استحکام چشمِ زدن میں زمین بوس ہو جاتا ہے۔ دراصل استحکام وہی ہے جو اعتماد‘ مشاورت‘ محبت‘ تعاون اور باہم شراکت کی بنیاد پر ہو اور جس کا انحصار افراد نہیں قوم اور اس کے اداروں پر ہو۔ پھر یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے اس کے کیا نتائج نکل رہے ہیں۔ ہر وہ فوج جو فنی مہارت پر مشتمل فوج کے دائرے سے نکل کرسیاسی قوتوں کی آلہ کار بنی ‘ خواہ وہ ۱۹۶۷ء میں مصر کی فوج ہو‘ ۱۹۷۱ء میں پاکستان کی فوج ہو‘ یا ۱۹۹۱ء اور ۲۰۰۳ء میں عراق کی فوج--- اس فوج نے کبھی مزاحمت نہیں کی۔ عوام ہی نے  بری بھلی مزاحمت کی ہے۔

وہ تمام اندازے‘ خواہشات‘ توقعات اور پروپیگنڈا جو استعماری قوتیں اپنے میڈیا کی طاقت کے زور پر کرا رہی تھیں ان میں کوئی اندازہ پورا نہیں ہوا۔ سبھی نے صدام حسین کے علامتی بت کو زمین بوس ہوتے ہوئے دیکھا ‘کہ ۵۰ لاکھ کے شہر میں ۱۵۰ سے زیادہ افراد دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ لیکن وہ فوج کہاں گئی جس کی طرف سے مزاحمت کی بات کی گئی تھی۔ اگرچہ فوجی قوت اور ٹکنالوجی کے مابین کوئی مقابلہ نہیں تھا ‘ لیکن تاریخ میں اس سے پہلے بھی قوت میں عدمِ توازن کے ساتھ مقابلے ہوئے ہیں‘ بے جگری سے ہوئے ہیں اور وہ مقابلے سنہری حروف میں لکھے گئے ہیں۔ کیا اسی عراق کی سرزمین پر شہید کربلا کا مقابلہ تاریخ کا حصہ اور تاریخ سازی کا عنوان نہیں؟ لیکن یاد رکھیے وہ فوج لڑنے کے لائق نہیں رہتی جو کسی ایک شخص کی وفاداری کے لیے اپنی قوتیں وقف کردے‘ جسے سیاست میں ملوث کیا جائے‘ جو اپنے لوگوں کو دھوکا دینے‘ اور ان کے اُوپر ظلم ڈھانے کے لیے استعمال کی جائے۔ ایسا عمل خود‘ فوج اور قوم دونوں کے لیے ایک بڑے خطرے کا پیغام ہے۔ اگر ہم آج بھی کوئی سبق نہیں سیکھتے تو پھر معلوم نہیں کون سی چیز ہماری آنکھیں کھولنے کا ذریعہ بنے گی؟ اور کتنے زلزلے‘ کتنی قیامتیں برپا ہوں گی کہ جن سے آنکھیں کھلیں گی اور ضمیر بیدار ہوں گے۔

اس المیے کی کتنی ہی تہہ در تہہ پرتیں ہیں۔ چند ایک تو آشکارا ہوئی ہیں‘ اور بہت سی پرتیں وقت کا تندوتیز دھارا کھول کر رکھ دے گا۔ امریکہ کی قیادت میں‘ استعمار کی بدترین یلغار اور عراق کے بے بس مسلمانوں کی حسرت ناک موت و حیات‘ وہ دو انتہائیں ہیں ‘ جنھیں دیکھنے کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ ڈارون ازم کی فکری بنیادوں پر اُٹھنے والی مغربی تہذیب کا بے رحمانہ طوفان دیکھ کر‘ علامہ اقبال نے خواب دیکھا تھا   ع

مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے

تلاطم ہاے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

کیا واقعی بحیثیت مسلمان ہم اس خواب کی تعبیر پیش کرنے کے لیے کوئی تیاری کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے مقتدر طبقے‘ مذہبی قیادتیں‘ اہل قرطاس و قلم اور اساتذہ کرام‘ اس طوفانِ مغرب بلکہ عذابِ مغرب کی طوفان خیزیوںکو محسوس کر رہے ہیں۔ اگر واقعی ان میں یہ احساس پیدا ہوا ہے تو یہ نقصانِ عظیم‘ فلاح و کامیابی کا ذریعہ بن سکتا ہے اور گذشتہ ۳۰۰برس سے مسلمان جس عبرت کدے کی مجبور پتلیاں بنے ہوئے ہیں‘ اسے پیغامِ حق کا مرکز ثقل بنا سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور یہ سب کچھ کسی خوف ناک فلم کے دہشت انگیز منظر کی طرح ذہن کی اسکرین سے محو ہو جانے کا ایک عام واقعہ ہی ہے تو پھر اناللّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھے بغیر چارہ نہیں۔

ایک کے بعد دوسرے کی باری ضروری نہیں کہ ڈرٹی بموں اور میزائلوں یا نیپام بموں کی بارش کی صورت ہی میں سامنے آئے ‘ بلکہ ان کے بغیر بھی وہ سب کچھ ہو سکتا ہے کہ ایک رات قوم سو کر اُٹھے‘ تو اس کے حکمران‘ محض جدید فرعون و نمرود کی خوشنودی پر پھولے نہ سمائے ہوئے قوم کے مستقبل کا سودا کر دیں‘ اور وہ بے بس لوگ تڑپ بھی نہ سکیں۔ کل ایسا ہوا ہے اور آنے والے کل میں ایسا ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ غداری اور بے وفائی کے ان مقامی کٹھ پتلیوں کو  بے نقاب کرنے کے لیے کون کیا کردار ادا کرے گا؟

۹ اپریل ۲۰۰۳ء کے بعد یہ چند امور غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں:

۱-  جن مسلم ممالک میں اسلام کو محض اپنے اقتدار کی مدت دراز کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا‘ وہاں اسلام کا سایہ انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔

۲-  پروپیگنڈے کے زور پر‘ خود کو دھوکا دیا جا سکتا ہے لیکن قضا کو نہیں ٹالا جا سکتا۔

۳-  ایمان کی دولت اور آخرت میں کامیابی کی خوشبو سے کٹے ہوئے مسلم معاشرے کبھی کامرانی حاصل نہیں کر سکتے۔

۴-  قدرت کے خزانوں کو تعیش اور بے کار کی مہم جوئی پر صرف کرنے سے انسان خود اپنی نفی کرتا ہے‘ اور آخرکار عبرت کا نشان بن جاتا ہے۔

۵-  تعلیمی و تحقیقی دنیا کو روایتی سست روی کا نشان بنانے سے کبھی حریت اور آزادی کے پرچم نہیں لہلہایا کرتے۔

۶-  اسلام کا سب سے بڑا موضوع انسان ہے۔ اسلام کا انسانِ مطلوب تیار کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو پھر وہی ہوتا ہے ‘ جو مظلوم اہل عراق کے ساتھ اُن لٹیرے ہم وطنوں نے کیا۔ کیا یہ لوگ اَن پڑھ تھے‘ کیا یہ جدید روشنی سے بے خبر تھے‘ مگر انھیں کیا ہوگیا کہ اپنے ہی  بے بس و بے کس لوگوں کے گھروں کو لشکروں کی صورت میں لوٹنے پر آمادہ ہوگئے۔ اصل انقلاب سڑکوں‘ ڈیموں‘ بموں اور بڑے ایئرپورٹوں کی تعمیر سے نہیںرونما ہوتا‘ بلکہ انسان کے اندر حیوانی جبلت کو اشرف المخلوقات اور ایک ذمہ دار ہستی کے قالب میں ڈھالنے سے روپذیر ہوتا ہے۔

۷-  حکمرانوں کے ظلم پر خاموش رہنے والے حکمران ہی نہیں‘ بلکہ گونگے بہرے معاشرے‘ قانون الٰہی کے تحت خود ظالم کے طرف دار اور سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔

۸-  آج بھی اگر مسلم دنیا بالعموم اور عرب دنیا بالخصوص ان امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے ‘ نئے سرے سے اپنے معاملات اور عوام کے تعلقاتِ کار کو درست نہیں کرتے ‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ قومِ یہود کی عبرت انگیزیوں سے فرار کا کوئی راستہ مل سکے۔


اس موقع پر ہم یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے حکمران‘ بلکہ حکمرانی کے سرچشموں پر قابض رہنے پر مصر پاکستانی پینٹاگون کے چند ’’راج دلاروں‘‘ کو عبرت کے چوراہوں پر گھسٹنے سے پہلے توبہ کر کے اپنی اصل جگہ چلے جانا چاہیے۔ قدرتِ حق کی جانب سے عبرت کے       یہ چابک کبھی تاتاروں سے‘ کبھی یہودیوں سے‘ کبھی ہندو مہاشوں کے ہاتھوں اور اب مسیحی جنگ بازوں کے ذریعے‘ جسدِملّی پر پڑے ہیں۔ کیا ایسا انجام دیکھنے کے باوجود ‘ اپنوں کو محکوم بنانے کا نشۂ قوت ابھی تک ہرن نہیں ہوا؟

پاکستان کے ’’اصل ‘‘ حکمران طبقے کے لیے دو اقتباس پیش خدمت ہیں‘ جن میں اُن کی کارگزاری اور مستقبل کے خدشات کا ہیولا دیکھا جا سکتا ہے:

] آرمڈ [ سروسز سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ تعلیم یافتہ لوگ ہیں‘ دین کی نہیں تو کم از کم دنیا کی سمجھ رکھنے کا تو آپ کو بڑا دعویٰ ہے۔ خدارا‘ کبھی اس بات پر غور کریں کہ جن انگریزوں سے آپ نے تعلیم اور حکمرانی کی تربیت پائی ہے‘ ان کی سروسز کے اخلاق و کردار کے مقابلے میں آپ کس قدر گھٹیا اور قابلِ شرم کردارپیش کر رہے ہیں۔ وہ اپنی قوم‘ اور اس کے آئین اور اس کی پارلیمنٹ کے وفادار تھے۔ اس کا مظاہرہ ایک دو دن نہیں‘ پورے ۱۹۰ سال انھوں نے آپ کی اسی سرزمین میں کر کے دکھا دیا… جب ان کی پارلیمنٹ نے آئینی طریقے سے اتنی بڑی سلطنت سے دست بردار ہو جانے کا فیصلہ کر لیا تو ان کی سول سروس نے بھی‘ اور ان کی فوج نے بھی پورے ڈسپلن کے ساتھ اس فیصلے کے آگے سر جھکا دیا۔ ایک انگریز افسر بھی ایسا نہ تھا جو اَڑ کر بیٹھ گیا ہو‘ اور اس نے کہا ہو کہ میں لڑے بغیر اتنی بڑی سلطنت ہاتھ سے دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ مگر آپ نے دنیا بھر کو یہ دکھا دیا کہ آپ کے اندر نہ قوم کی وفاداری ہے‘ نہ اس کے آئین کی‘ نہ اس کی پارلیمنٹ کی۔ آپ نے ہر موقع پر ان اشخاص کا ساتھ دیا ہے جنھوں نے آئین کو توڑ کر‘ قوم کی مرضی کو نظراندازکرکے‘ اور پارلیمنٹ کو پاے استحقار سے ٹھکرا کر‘ یہاں اپنی مرضی چلانے کی کوشش کی ہے۔ آپ نے ہر آزمایش کے موقع پر یہ ثابت کر دیا کہ آپ کو قانون کی حکمرانی کے اصول کی ہوا تک نہیں لگی ہے۔ (سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، جلسہ عام سے خطاب‘ لاہور‘ ۲۵مئی ۱۹۶۸ئ)

اپنی قوم کے لوگوں سے مجھے یہ کہنا ہے کہ آپ اپنی آزادی کی حفاظت اس وقت تک قطعاً نہیں کرسکتے ‘جب تک آپ کے اندر یہ مضبوط اور غیرمتزلزل قومی ارادہ پیدا نہ ہو جائے کہ آپ اپنے افراد کو‘ اور اپنے ] سول اور فوجی [ ملازمین کو اپنی اجتماعی مرضی کے تابع بنا کر چھوڑیں گے۔ کسی کو اس سے منحرف نہ ہونے دیں گے۔ آپ کے ملک میں آپ کی اپنی ہی پسند کا آئین چلے گا۔ کسی شخص یا گروہ یا طبقے کے بنائے ہوئے آئین کو آپ ہرگز نہ مانیں گے‘ اور جو آئین آپ کی مرضی سے بنے اس کی پیروی اس سرزمین میں ہر شخص کو کرنی پڑے گی‘ اور اس سے انحراف کرنے والے کے ساتھ آپ قطعاًکوئی رعایت‘ کوئی مداہنت اور کوئی مصالحت نہ کریں گے۔    یہ عزم اور یہ ارادہ آپ کے اندر پیدا نہ ہوا توآئے دن کوئی نہ کوئی طاقت ور آپ پر مسلط ہوتا رہے گا اور آپ کی حیثیت بھیڑ بکریوں کے ایک گلے کے سوا کچھ نہ ہوگی‘ جسے ہر لاٹھی والا جدھر چاہے ہانک کر لے جا سکے گا۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودی‘  تحریک جمہوریت: اسباب اور مقاصد‘ ۱۹۶۸ئ‘ ص ۸۷)