آقاے دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے تمام پہلو اور زاویے حیرت انگیز اور بے مثل ہیں۔ ایسا ہی ایک یگانۂ روزگار پہلو اور انوکھا معجزہ ہے: انسانی دلوں اور ذہنوں کی تسخیر___! انسان کائنات کی سب سے پُراسرار‘ پیچیدہ اور حیرت انگیز چیز ہے‘ جسے آنحضورعلیہ السلام نے بیک نظر مسخرکرلیا۔ یہ تسخیر جسموں کی نہیں‘ دلوں کی تھی۔ جس نے ایک بار ذاتِ گرامی کو دیکھا‘ دیوانہ ہوگیا۔ ایک بار سنا‘ فریفتہ و شیدا ہوگیا۔ نبیؐ کے فیضانِ نظر نے ایسا انقلاب برپا کر دیا کہ عقل و فکر‘ شعوروآگاہی‘ سب یکسر بدل کر رہ گئے۔ ان پاکیزہ نفوس نے نور کے اس نیروتاباں منارہ سے روشنی لے کر اپنے مَن میں اُجالے کیے۔ انھیں دیکھا‘ سنا تو ہر حرف‘ ہر لمحہ اور ہر جنبش کو اسوۂ عمل بنا لیا۔ لمحوں میں ایسا انقلاب برپا ہوا کہ اونٹوں کے چرانے والے دنیا میں تہذیب و تمدن کی شمعیں روشن کرنے لگے۔ بات بات پر تلوار نکالنے ‘ خون کے دریا بہانے اور صدیوں کی دشمنیاں پالنے والے‘ اب سمعنا واطعنا--- ہم نے سنا اور مان لیا کا اعلان کرنے لگے۔ اپنے حسب ونسب پر فخر و غرور کرنے‘ شان و شوکت پر اِترانے والے اُس ذاتِ والاتبار پر فداہ ابی وامی--- اپنے ماں باپ قربان کرنے لگے۔ پتھروں کی طرح سخت دل خوفِ الٰہی سے معمور ہوگئے۔ اپنی خاطر مٹنے والے دوسروں کے لیے قربانی و ایثار کے خوگر ہوگئے۔ کفرونفاق کی جگہ صدق و صفا‘ خلوص و وفا نے لے لی۔ حرص وہوس کے بجائے فقروغنا‘ خونریزی اور سفاکی کے بجائے اخوت و محبت کا چلن ہوا۔ دنیا کی راحتوں پر مر مٹنے والے آخرت کی نعمتوںکے متمنی اور مشتاق ہوگئے۔
یقینا یہ معجزہ ہی تھا--- ایک تاابد زندۂ و جاوید رہنے والا معجزہ--- کہ بیک نظر‘ بیک لمحہ اتنا بڑا انقلاب برپا ہوا کہ چند ہی سالوں میں حجۃ الوداع تک ایک لاکھ ۲۴ ہزار سے بھی زائد ایسے پاکیزہ نفوس کی جماعت وجود میں آگئی جن میں سے ہر ایک کی حیات--- ہر ایک کا کردار--- سرکارِ دوجہاں کی حیاتِ مقدسہ کا عکس تھا۔ اعلیٰ اخلاق‘ عفت و پاک بازی‘ حق گوئی و بے باکی‘ دیانت و امانت --- عدل و انصاف‘ گفتار و کردار‘ توکل و استغنا‘ شجاعت و استقامت‘ قربانی و ایثار‘ جاں فروشی و جانثاری کے روشن ستارے دشت وچمن میں سحر کرنے لگے۔ روشنی و ہدایت کے یہ ستارے قیامت تک آنے والوں کے راہنما و راہبر قرار پائے۔ انھی کے بارے میں تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أصْحَابی کالنُّجومُ‘ میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں--- بِأیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ‘ ان میں سے جسے بھی تم پیشوا بنا لو‘ ہدایت پالوگے۔ اپنے صحابہؓ کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو تنبیہہ کی: اللّٰہ اللّٰہ فِی اَصْحَابِی‘ میرے اصحاب کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ لاَ تَتَّخِذُوْھُمْ مِنْم بَعْدِیْ غَرَضًا ‘ میرے بعد اُنھیں طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنانا۔ اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ مجھ سے محبت کا معیار میرے صحابہؓ سے بھی محبت ہے۔ ان سے نفرت و بُغض مجھ سے نفرت و بُغض ہے۔ انھیں ایذا دینا مجھے ایذا دینے کے مصداق ہے‘ اور مجھے ایذا دینا اللہ کو ایذا دینا ہے۔
یہ پاکیزہ نفوس اور مقدس ہستیاں وہ ہیں جنھیں قرآنِ حکیم نے بڑی عظمت و مرتبت سے نوازا ہے۔ نہ صرف قرآن میں بلکہ ان کا ذکر اپنے آقا و مولا کے ساتھ تورات و انجیل میں بھی بیان ہوا ہے۔ مَثَلُھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ۔
قرآنِ مجید میں اصحاب نبیؐ کی عظمت و بلند مرتبت کا جابجا ذکر موجود ہے۔ سورئہ فاطر میں اللہ نے انھیں اپنے منتخب بندے اور کتاب کے وارث قرار دے کر خصوصی سلام بھیجا: وَسَلاَمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی--- اور فرمایا: اَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا--- دراصل یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی دعوتِ حق سنی تو فوراً اُسے قبول کیا اور اس کی خاطر ہر طرح کا ستم اور ظلم سہا۔
قرآن نے خود ان صحابہؓ کا قول بیان کیا: رَبَّنَا ٓاِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنادِیْ لِلاِْیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا (آل عمران ۳:۱۹۳) ۔اللہ کریم نے ان کے لیے اپنے فضل اور رضا کا اعلان کیا جنھوں نے راہِ حق میں اپنے گھر اور مال لٹا دیے--- لِلْفُقَرَآئِ الْمُھَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوا مِنْ دِیَارِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ ورِضْوَاناً (الحشر ۵۹:۸)۔ قرآن نے انھیں دین حق کی راہ پر ’’السابقون الاولون‘‘ قرار دیا اور فرمایا: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ ورَضُوْا عَنْہُ --- کہ اللہ بھی اُن سے راضی ہوا اور یہ بھی اپنے مالک و آقا کی نعمتوں اور عنایات پر راضی ہو گئے۔ اور ان کے لیے جنت کا انعام اور وہاں ہمیشہ قیام کا وعدہ فرمایا۔ اور اسے ’’اَلْفَوْزُالْعَظِیْمُ‘‘ یعنی بڑی کامیابی قرار دیا (توبہ ۹: ۱۰۰)۔ قرآن مجید نے ان صحابہؓ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا: رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ (الاحزاب ۳۳:۲۳)’’یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا‘‘۔
قرآن نے انھیں خیر اُمت اور اُمت وسط قرار دے کر نیکی پھیلانے اور بدی کی بیخ کنی کا منصب سونپا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ قیامت کے روز‘ جب لوگ رسوائی کے خوف سے پریشان ہوں گے‘ اللہ انھیں رسوائی سے بچائے گا۔ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ج (التحریم ۶۶:۸)
قرآن کریم نے ان اصحاب نبی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقام و مرتبہ کے علاوہ ان کی صفات بھی بیان فرمائیں۔ جن کی وجہ سے انھیں نبی کی قربت اور اپنے مالک و آقا کی رضا و مغفرت اور اجرِعظیم‘ رزقِ کریم اور فوزِ عظیم کی بشارتیں عطا ہوئیں۔ قرآن نے انھیں اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤمِنُوْنَ--- حقیقی مومن --- الصادقون--- سچے لوگ--- الراشدون --- ہدایت یافتہ --- المفلحون --- فلاح یافتہ --- الفائزون--- کامیاب قرار دیا۔ اس لیے کہ انھوں نے ایمان کو اپنے دلوں میں جگہ دی۔ کفر‘ فسق اور آقا کی نافرمانی سے قولی و عملی کنارہ کشی اختیار کی۔ یہ لوگ گناہِ کبیرہ-- الفواحش--- یعنی فحش باتوں اور برے اعمال سے اجتناب کرتے رہے اور جب غصہ میں ہوتے تو معاف کر دیتے۔ وَاِذَا مَا غَضِبُوْاھُمْ یَغْفِرُوْنَ (الشوریٰ ۴۲:۳۷)--- یہ لوگ اپنی خواہشات اور ضروریاتِ کو قربان کر کے اپنے ساتھیوں کی ضروریات کو ترجیح دینے والے تھے۔ یُؤثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌط (الحشر۵۹:۹)۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ساتھی قرآن کی نظر میں رُحْمَآئُ بَیْنَھُمْ --- حلقۂ یاراں میں بریشم کی طرح نرم‘ اور اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفّارِ--- رزمِ حق و باطل میں فولاد--- یعنی دشمن کے لیے سخت اور دوست کے لیے نرم۔ شب و روز اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز‘ رُکَّعًا سُجَّدًا--- ایک اور جگہ یوں بیان فرمایا: یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا ---کہ یہ لوگ اپنی راتیں قیام و سجود میں گزارتے ہیں اور ہر دم یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ ورِضْوَاناً --- اپنے پروردگار کی رضا اور فضل کے طلب گار رہتے ہیں۔
سورئہ السجدہ میں اس بات کو اس طرح بیان کیا گیا کہ تَتَجَا فٰی جُنُوبُھْمْ عَنِ المَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا --- کہ اپنے رب کے خوف اور مغفرت کی امید میں ان کے پہلو بستروں سے علیحدہ رہتے ہیں۔ ان کی ایک صفت وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ--- کہ اللہ کے عطا کردہ مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں‘ بھی بیان کی گئی۔قرآن نے ہدایت کے ان میناروں کی کچھ اور صفات بیان کیں۔ ’’یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا--- یہ زمین پر آہستہ آہستہ چلتے ہیں‘ یعنی فخروتکبر سے پاک چال--- اور اِذَا ٓ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا--- جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی اور اِسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں۔
اصحاب نبیؐ اپنے رب پر ایمان لائے‘ اپنے آقا و مولا پر فدا و نثار ہوئے‘ اُن کے فرمان پر سرتسلیم خم کیا اور اُن کے ہر قول و عمل کے مطابق اپنی ساری زندگی بدل کر رکھ دی۔ اپنے مولا کے حکم پر جان و مال سے جہاد کیا اور راہِ خدا میں ہجرت بھی کی۔ یہ وہ لوگ تھے--- اَلَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ (انفال ۸:۲)‘ جب اللہ کا ذکر ہوتا تو اُن کے دل خوف زدہ ہو جاتے۔ وَاِذا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا (۸:۲۰)‘ اور جب اُن کے سامنے رب کی آیات تلاوت کی جاتیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا۔ یہ وہ لوگ تھے--- کہ اپنے آقا و مولا کے فرمان کو نہیں ٹالا‘ نہ لیت و لعل سے کام لیا۔ نہ سوچ بچار میں پڑے اور نہ کسی مصلحت کا شکار ہوئے۔ جونہی اللہ اور رسولؐ کا حکم پہنچا‘ رضا معلوم ہوئی‘ اپنا سب کچھ مطیع بنا دیا۔
اِن صحابہؓ کی حیاتِ طیبہ کے یہ نقوش قرآن عظیم کے صفحات پر تاابد روشن رہیں گے‘ اور قیامت تک انسانیت کے لیے راہنما اور ہدایت کا مرکز و منبع رہیں گے۔ اُمت مسلمہ آج بھی اور ہر دور میں انھی سے ایمان کا نور حاصل کرتی رہے گی۔ مگر محض تذکروں--- یادوں اور باتوں سے نہیں--- اسی طرزِحیات ‘ اِسی اسوئہ عمل کو اپنا کر --- انھی مقدس ہستیوں کے نقشِ قدم پر چل کر --- !
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!