مارچ ۲۰۰۳

فہرست مضامین

ضربِ ضمیر

ابوالامتیاز ع س مسلم | مارچ ۲۰۰۳ | تذکیر

Responsive image Responsive image

’’ضمیر‘‘ اُس خالق مطلق و علیم و حکیم کی ایسی محیرالعقول اور پُراسرارتخلیق ہے کہ آدمی اس میں جتنا بھی غور کرے‘ گم کدئہ فکروتخیل میں اتنا ہی ششدر و دنگ ہوتا جاتا ہے۔ یہ وہ حیرت کدہ ہے جس میں قوسِ قزح کے رنگ‘ کہکشانوں کی وسعت‘ سمندروں کی گہرائی اور آسمانوں کی گیرائی‘ فکروخیال کو کائنات اور ماوراے کائنات میں دعوتِ پرواز اور لذتِ نظارہ دیتے ہیں۔

خالق موجودات نے آدم کو پیدا کیا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ:

فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ o  (صٓ ۳۸:۷۲) اور پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جائو۔

چنانچہ اللہ نے آدم کے پیکرِخاکی میں روح پھونکی تو اُس میں جان پڑ گئی‘ اور وہ ایک ڈھانچے سے انسان بن گیا۔

روح جب جسدِعنصری سے پرواز کر جاتی ہے‘ یعنی جان نکل جاتی ہے تو انسان ختم ہو جاتا ہے۔ اُس پر موت طاری ہو جاتی ہے۔

لیکن ’’ضمیر‘‘کیا ہے! اِسے نہ انسان کے قالب میں پھونکا گیا‘ نہ ہم اسے کسی ایسی شے سے تعبیر کرسکتے ہیں‘ جس کے نکل جانے سے انسان کی موت واقع ہو جائے۔ اِس کے باوجود ضمیر کوئی ایسی شے ہے جو ہمہ دم انسان کے باطن میں نیزے کی اَنی کی طرح کچوکے دیتی‘ چھیڑچھاڑ کرتی اور مسلسل اپنی موجودگی کا اعلان کرتی رہتی ہے۔

اقبال کا کہنا ہے     ؎

بانگِ اسرافیل اُن کو زندہ کر سکتی نہیں

روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد

روح وہ شے ہے جو خاک کے پنجر میں پھونکی گئی تو وہ جی اُٹھا۔ اِسی سے تارِنفس قائم ہے۔ اگر جسد روح سے تہی‘ یعنی خالی اور محروم ہو گیا تو زندگی بھی ختم ہو گئی۔ لیکن وہ کون سی کیفیت ہے کہ ’’زندگی‘‘ تو قائم ہے مگر ’’روح‘‘ سے تہی ہے۔ لیکن یہ ’’زندگی‘‘ ایسی ’’موت‘‘ سے بدتر ہے جو صورِاسرافیل سے بھی بیدار ہونے کی اہلیت سے عاری ہے۔ گویا ’’زندگی‘‘ اور ’’موت‘‘ بیک وقت ایک جسد میں جمع ہیں۔

ظاہر ہے ایسا نہیں ہو سکتا۔ اِس لیے ثابت ہوا کہ یہ تعبیر کسی ایسے جوہر کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کی حقیقت ہی حیات بخش زندگی ہے۔ اِسی کے ہونے سے زندگی،’’زندگی‘‘ کہلاتی ہے۔ اور اِس جوہر کا نام ’’ضمیر‘‘ ہے۔

قرآنِ کریم میں نفس کے تین اَقسام بیان کیے گئے ہیں:

۱-  نفسِ اَمّارہ: وہ نفس جو ہمیشہ خودسری‘ سرکشی اور جرم کی آماجگاہ ہو۔  اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌم بِالسُّوْٓئِ اِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّیْ ط (یوسف ۱۲:۵۳) ’’بے شک نفسِ امارہ تو برائی ہی کی طرف مائل ہوتا ہے‘ الا اُس کے کہ جس پر میرا رب رحم فرمائے‘‘۔

۲- نفسِ لوّامہ: ’’نفس ملامت گر‘‘ جس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ اللہ نے اُس کی قسم کھائی ہے: وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ o (القیامہ ۷۵:۲)’’اور نہیں‘ میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی‘‘ (برائی سے دامن بچانے کے لیے اپنا محاسبہ کرتا رہتا ہے)۔ نفسِ لوامہ یا نفسِ ملامت گر‘ یہ ہے کہ بندے سے عملِ خیر صادر ہو تو اُس پر اِترانے کے بجائے اپنا محاسبہ کرے کہ کہیں خلوصِ نیت یا تکمیلِ کار میں خامی نہ رہ گئی ہو۔ اور اگر کوئی لغزشِ پا یا معصیت سرزد ہو جائے تو اُس پر نادم و سرنگوں ہو تاکہ توبہ اور تلافی کی توفیق نصیب ہوسکے۔

۳-  نفسِ مطمئنہ:  وہ نفس ہے جو نہ خیالاتِ شیطانی سے متزلزل ہوتا ہے ‘ اور نہ نفسانی تحریکات سے منتشر ‘ بلکہ جس کا اپنے اللہ اور اُس کے دین پر ایقانِ کامل اور اُس کی اطاعت و بندگی غیرمتزلزل ہوتی ہے‘ اُس کے لیے بشارت ہے کہ: یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْ ٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o (الفجر ۸۹:۲۷-۲۸) ’’اے نفسِ مطمئن‘ چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجامِ نیک سے) خوش اور (اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے‘‘۔

چنانچہ ’’ضمیر‘‘ وہ احساسِ شعورِ باطنی اور نفسِ لوامہ کے نفسِ مطمئنہ کی طرف عروج کی منزل‘ اور ایک طرح سے دونوں کا حسین امتزاج ہے جو انسان کو اپنے وجود‘ اپنی خودی‘ اور عزتِ نفس کی یاد دلانے کے لیے اپنے ارتعاشِ نبض سے تازیانے کی طرح ضرب لگاتا رہتا ہے۔ وہ شرر ہے‘ جو اُس کے اندر ایمان کی لَو روشن رکھتا اور اُس کی حدت و توانائی کو قائم و دائم رکھتا ہے۔ اُسے خیر کی طرف متوجہ‘ اور شر سے متنبہ کرتا ہے۔ ضمیر وہ قوت ہے جو صبرواستقلال کی طرف رہنمائی کرتی اور رَیب و گمان اور لغزش و کج روی سے روکتی ہے۔ گویا ’’ضمیر‘‘ حریمِ قلب میں   وہ آئینہ ہے جو عکسِ خیال کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے‘ اور اُس کے اسباب و نتائج کے امکانی نشیب و فراز سے صاحب ِ خیال کو آگہی عطا کرتا اور اُن کے مضمرات کی فہمایش کرتا اور اُسے راہِ راست پر گام زن رکھتا ہے۔

اِس لحاظ سے ’’ضمیر‘‘ گویا روح کی ’’روح‘‘، یعنی اُس کی جان اور اُس کی بالیدگی اور شادابی حیات کا باعث ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ وہ مرحلہ ہے جہاں ’’ضمیر‘‘، نفسِ لوا مہ سے اِرتقا پذیر ہو کر’’نفس مطمئنہ‘‘ کے مقامِ ارفع و اعلیٰ پر فائز ہوجاتا ہے۔ جہاں وہ اپنے رب کے قرب سے خوش‘ اور اُس کا رب‘ اُس کے ایمان و اطاعت سے راضی ہوتا ہے۔ یہ وہ فردوسِ اطمینان ہے جس کی جستجو میں بندے نے خُلدِبریں سے اخراج سے لے کر اَن گنت صدیاں گزاری ہیں۔

جس طرح ضربِ دل‘ جسم کی زندگی کی علامت ہے‘ اُسی طرح ضربِ ضمیر‘ انسان کی روحانی اور ذہنی صحت کا عنوان ہے۔ اقبال نے کہا ہے   ع

دلِ مُردہ دل نہیں ہے اِسے زندہ کر دوبارہ

گویا دل کا دھڑکنا‘سانس کا آنا جانا اور انسان کا چلنا پھرنا ہی زندگی کا ثبوت نہیں ہے‘ اِس کے لیے کسی اور شرر کی ضرورت ہے۔ دل کی موت دراصل ضمیر کی مرگ اور احساس کی موت ہے‘ اور یہ اُسی وقت واقع ہو جاتی ہے جب خاکستر کی چنگاری بجھ جائے‘ اللہ کی حاکمیت پر یقین نہ رہے اور ایمان کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے۔ اُس وقت گویا انسان کا اللہ سے اپنی عبودیت کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے‘ اور نہ صرف دل کی موت واقع ہو جاتی ہے‘ بلکہ اگر احساسِ زیاں بھی جاتا رہے تو ضمیر کی موت بھی ناگزیر امر ہے۔ اور موت کی یہی کیفیت ہے جس سے بقول اقبال بانگِ اسرافیل بھی بیدار نہیں کر سکتی۔

جب ایسا ہوتا ہے تواِلٰہ واحد کی جگہ‘ سیکڑوں مرئی اور غیر مرئی ’’خدا‘‘ اقلیمِ دل پر کسی مافیا کی طرح قابض ہو کر اُس کی کل گھمانے لگتے ہیں۔ آدمی زندہ ہوتے ہوئے بھی ہمہ دم موت سے ڈرنے لگتا ہے۔ ایمان و یقین کے سرچشمے خشک ہونے لگتے ہیں۔ آدرش اور اصول کے قلعے مسمار ہو جاتے ہیں۔ عزم و استقلال اور ہمت و استقامت کی فصیلیں ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں اور ’’جان‘‘ بہت عزیز ہوجاتی ہے حالانکہ اِس سے زیادہ ناپایدار اور کوئی شے عالمِ وجود میں موجود نہیں‘ یعنی ابھی ہے‘ ابھی نہیں ہے۔ ’’ہرچند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے!‘‘

فرعون سے بخت نصر تک اور نمرود سے جارج بش تک کون باقی رہنے والا ہے:

کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍo وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ  ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ o (الرحمٰن ۵۵:۲۶-۲۷) ہر چیزجو اس زمین پر ہے فنا ہوجانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

گویا سلطنتیں‘ عمارات و عجائبات‘ جہاز‘کارخانے ‘ تکنیکی مہارت‘ سائنسی ایجادات‘ میزائلیں‘ ایٹمی اثاثے‘ قلعے‘ جاہ و حشمت‘ عظمت و سطوت‘ شوکت و تمکنت‘ انسان کی بالادستی بلکہ ’’خدائی‘‘ کا تزک و احتشام‘ حتیٰ کہ چاند ستارے‘ سورج‘ کہکشائیں اور کائنات کی ہر شے فنا پذیر ہے--- اور صرف اللہ کی ذات--- عظمت و اِکرام والی ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

خلافت ِ ارضی کے مقام سے اس ذہنی تنزل کا تلازم یہ ہے کہ انسان ’’جان‘‘ کے ’’فریبِ تحفظ‘‘ میں ’’زمینی حقائق‘‘ کے نام پر حمیت و غیرت اور ننگ و ناموس سے بھی دست بردار ہو جاتا ہے۔ ایمان و عبودیت‘ عہد و اقرار اور حلف و قَسم کے ساتھ یہ سب اور صدیوں کی تمدنی‘ تہذیبی اور تاریخی اقدار، ’’روایاتِ پارینہ‘ بنیاد پرستی اور رجعت پسندی‘‘ کی علامت بن کر گردن زدنی ٹھہر جاتی ہیں۔ لیکن چونکہ انسان جبلی طور پر ہر شے سے کٹ کر نہیں رہ سکتا‘ کسی نہ کسی قسم کا تعلق بہرحال ضروری ہے‘ اِس لیے اور نہیں تو مٹی کے در و دیوار‘ اسباب بود وباش اور سازوسامانِ آسایش ہی محورِ زندگی بن جاتے ہیں۔

یہی جبلت پتھر اور دھات کے زمانے میں تو کیا‘ آج بھی کمزور دل اور وہم و گمان کے شکار انسان کو اپنے ہاتھوں پتھر اور مٹی سے بنائے ہوئے خدائوں (بتوں) کی طرف کھینچ لے جاتی ہے۔ کبھی چاند اور سورج جیسے مظاہرِفطرت کی‘ جو اُسے اپنے سے طاقت ور نظر آتے ہیں‘ پرستش پر مائل کردیتی ہے۔ اور دورِ حاضر کی اصطلاح میں‘ احساسِ کمتری بن کر‘ چڑھتے سورج کی طرح جابر و قاہر قوموں کے سامنے سجدہ ریز ہونے پر مجبور کر دیتی ہے۔

یہ درست ہے کہ ’’جان‘‘جانے کے بعد بھی انسانی زندگی کے مادی آثار دیدۂ عبرت نگاہ کی سبق آموزی کے لیے کچھ مدت تک باقی رہتے ہیں‘ لیکن تابہ کے۔ ایک دن یہ بھی ملیامیٹ ہو جائیں گے۔ یہ سارا مال و اسباب اور سازوسامان نہ تو بالآخر اِس دنیا میں اُن فریب خوردگانِ جان عزیز کے کام آئے گا‘ جنھوں نے ’’اپنا سب کچھ بچا لینے‘‘ کے وہم و گمان میں اس چند روزہ حیاتِ مستعار میں قلب و ضمیر‘ ایمان و یقین اور غیرت و حمیت کی سوداکاری کی تھی اور نہ وہ اُسے اپنے ساتھ ہی لے جا سکیں گے‘ جس طرح   ع

سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے

اِسی حقیقت کی روشنی میں حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنی خداداد حکمت و دانش اور بصیرت کی بنا پر ملت کو یہ فہمایش مناسب سمجھی     ؎

یہ مال و دولتِ دنیا‘ یہ رشتہ و پیوند

بتانِ وہم و گماں! لا الٰہ الا اللہ

اللہ تعالیٰ نے آدم کو خلافت ِ ارضی کے اعزاز سے سرفراز کیا تو اُس کی مستقل ہدایت و رہنمائی کے انتظام کے ساتھ‘ راستے کے نشیب و فراز سے بھی آگاہی بخشی۔ اُسے ازل سے بہ ہر نفس ابلیس کے حسد و عداوت‘ مکروفریب اور ترغیب و تحریص کے امتحان کا سامنا ہے اور یہ چیلنج مختلف زمانوں میں نئے نئے انداز سے اُسے درپیش رہتا ہے۔

ایک دَور میں ساری دنیا کے سر پر اشتراکیت کا بھوت سوار تھا۔ اور اس میں شک نہیں کہ وہ مسلم اقوام اور ملت ِ اسلامیہ کے لیے بھی ایک فتنۂ عظیم تھا۔ لیکن اس سے بھی بڑا اور خطرناک سفید استعمار و استحصال کا وہ فتنہ ہے جس سے ہم گذشتہ چند صدیوں سے دوچار ہیں۔ اس استعمار کا مفاد جب تک تھا‘ اُس نے اشتراکیت کے خلاف ملت ِ اسلامیہ کو استعمال کیا‘ اور ہم اپنی سادگی‘ حماقت یا عارضی شخصی مفادات کی بنا پر اُس کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے۔ لیکن مغربی اقوام جانتی تھیں کہ اُن کو اصل خطرہ اشتراکیت کے فلسفۂ شکم پروری، ’’روٹی‘ کپڑا اور مکان‘‘ سے نہیں بلکہ مسلمان کی اُس قوتِ ایمان سے ہے جو اللہ کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکتی‘ اور جس کے لیے مادی وسائل زندگی بسر کرنے کا ذریعہ تو ہیں‘ لیکن مقصد ِ زیست نہیں۔ مغربی استحصالی قوتیں ہی کیا اُن کے گرو ’’جارج ابلیس‘‘ پر بھی یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح تھی۔ چنانچہ اُس نے اپنے مریدوں‘ مشیروں اور کولیشن (colaition) پارٹنروںکو بشمول اشتراکی قیادت کے‘ بہت پہلے متنبہ کر دیا تھا:

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس اُمت سے ہے

جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو

جانتا ہے‘ جس پہ روشن باطنِ ایام ہے

مزدکیت فتنۂ فردا نہیں‘ اسلام ہے!

سفید استعمار نے جب دیکھا کہ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کے حامل ملک چین کو زیر کرنا مشکل امر ہے‘ تو انھیں افیم کی لت ڈال دی‘ تاکہ اُن کی غیرت و حمیت اور ضمیر ایک طویل خوابِ خرگوش کی مدہوشی میں اپنی حقیقت فراموش کر دے۔ تاہم اب تک برعظیم کے مسلمانوں پر متحدہ قومیت اور تصورِ وطن سمیت کسی افیم کا حربہ کارگر نہ ہو سکا تھا۔

اب کہ ’’گراں خواب چینی‘‘سنبھل کر نہ صرف ہوشیار بلکہ دنیا کی ایک عظیم طاقت بن چکے ہیں‘ اور ’’مزدکیت‘‘ کا بت ٹوٹ چکا ہے‘ کیا ہم نے ’’فتنۂ فردا‘‘ سے ترقی کر کے ’’فتنۂ امروز‘‘ کی حیثیت اختیار کر لی ہے؟ کہ زمانہ لوحِ جہاں سے ۵۸ مسلم ممالک کا وجود حرفِ مکرر کی طرح مٹا دینے کے درپے ہے؟

ہم کہ تیغوں کے سائے میں پل کر جوان ہوئے تھے‘ ستاروں پر کمندیں ڈالتے تھے اور آسماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے تھے کہ ہم باطل سے دبنے والے نہیں ہیں! ہمارے فکروخیال میں کیا تبدیلی آگئی ہے کہ ہم اپنی ’’ترکیبِ خاص‘‘ میں قومِ رسول ہاشمیؐ نہیں رہے! بلکہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر امریکہ کی خدائی کے ساتھ اُن تازہ خدائوں میں  سب سے بڑے خدا ’’وطن‘‘ کی زلف گرہ گیر کی غلامی بھی قبول کر بیٹھے ہیں۔

’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ کا فلسفہ غلط تھا؟ یا ہماری کشت ِ خیال بنجرہوگئی ہے؟ آج ’’ترقی یافتہ‘‘ دنیا کے ’’محورِخیر‘‘ کو جس عظیم ترین ’’محورِ شر‘‘ کا سامنا ہے‘ وہ نعوذباللہ اسلام اور مسلمان ہیں؟ افغانستان‘ فلسطین‘ شام‘ کشمیر‘ پاکستان‘ ایران‘سوڈان‘ شیشان‘ بوسنیا ہرزک‘ عراق‘ صومالیہ‘ لیبیا‘ الجزائر‘ تیونس‘ انڈونیشیا بلکہ سعودی عرب تک سب مسلمان ہدف ہیں‘ کوئی آج تو کوئی فردا میں۔

جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور میں ’’دہشت گردی‘‘ نہیں ہو رہی بلکہ (عیسائی) قبائل جنگ آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اور اگر تیسرا سفید فام ملک آسٹریلیا اپنی فوجیں لے کر  چڑھ دوڑتا ہے تو یہ بھی عین عملِ خیر اور امنِ عالم کے مطابق ہے‘ لیکن اگر اہل کشمیر‘ اہل شیشان‘ اہل فلسطین اور اہل کوسووا عین اپنے گھروں میں اپنی آزادی کے لیے‘اور وہ بھی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق‘ اپنے نونہال قربان کر رہے ہیں‘ تو یہ دہشت گردی ہے۔

پاکستان میں چند دھماکے دنیا بھر کے ’’دہشت گرد‘‘ اسامہ بن لادن کے سوا کسی اور کی کارستانی نہیں ہو سکتے‘ اور اس کے لیے ۱۴ کروڑ کے اِس ملک کو یرغمال بنا لینا ضروری ہے‘ لیکن گجرات (بھارت) میں ۳ ہزار مسلمانوں کا قتلِ عام چند الفاظ ملامت کا مستحق بھی نہیں ہے۔ اگر اسپین اور آئرلینڈ اِسی خلفشار میں مبتلا ہیں‘ تو یہ اُن کا اندرونی معاملہ خیال کیا جاتا ہے‘ لیکن پاکستان میں کوئی اُونچی آواز سے احتجاج بھی کرتا ہے‘ تو کہا جاتا ہے کہ یقینا بنیاد پرست   سرگرمِ عمل ہیں۔

مسلمان جو کچھ بھی کریں اُس کو دہشت گردی‘ بنیاد پرستی‘ تنگ نظری‘ عورتوں کے حقوق کی پامالی‘ سودخوری سے نفرت‘حرام کاری سے گریز‘ لواطت پر ملامت‘ اپنے دین پر استقامت‘ محمدؐ سے محبت‘ شریعت کے اتباع حتیٰ کہ ستر ڈھانپنے کی خواہش‘ غرضیکہ کوئی نام بھی دے لیں‘ یہ سب ’’اُن‘‘ کی نگاہ میں ’’محورِ شر‘‘ ہیں جن کا مٹا دیا جانا ہی اُس ’’محورِ خیر‘‘ کی زندگی کی ضمانت ہے۔

انھوں (آگ کی بھٹیوں میں اہل ایمان کو ڈالنے والوں) نے اُن میں بجز اِس کے اور کیا عیب پایا تھا کہ وہ فقط ایک الٰہ واحد پر ایمان رکھتے تھے‘ (اور کسی دوسری طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کو تیار نہ تھے) جو وہ انھیں آگ میں جھونکتے اور قتل کر رہے تھے‘ (اُس) الٰہ واحد پر جو زبردست (اور) سب سے زیادہ سزاوار حمد (وعبودیت) ہے۔ آسمانوں اور زمینوں میں سلطنت (و اختیار اور سارا نظام) اُسی کا ہے‘ (ہر دوسرا نظام خواہ اُسے ’’یک عالمی نظام‘‘ کہیں یا کچھ اور‘ باطل اور ناقابلِ قبول ہے)۔ انھوں نے مومنین و مومنات پر بہت ظلم کیا ہے‘ اور توبہ کرکے باز نہیں آئے۔ اُن کے لیے (اللہ کے ہاں) جہنم کا اور آگ میں جلتے رہنے کا عذاب ہے اور اللہ (تو) ہر شے کو دیکھ رہا ہے۔ (البروج ۸۵:۵-۱۰)

اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس میں اپنے ہی ’’برادرانِ اسلام‘‘ان دشمنانِ دین و ایمان کے آلۂ کار ہیں    ؎

من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم

کہ بامن ہرچہ کرد‘ آں آشنا کرد

کے مصداق کمین گاہ سے اپنوں ہی کے تیروں کی بارش ہو رہی ہے۔ امریکہ‘ فرانس یا اٹلی کو کیا الزام دیں کہ وہ مسلمان بچیوں کے سر پر رومالِ حجاب پہننے پر معترض ہیں‘ ترکی اور انڈونیشیا جیسے سو فی صد مسلم ممالک کیا کسی سے پیچھے ہیں! اور تو اور اِس مملکتِ خداداد پاکستان میں‘ جس کا وجود ہی ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ‘‘ اور قرآن و سنت کے عہدِنفاذ کا مرہونِ منت ہے‘ اب اُس کی سرزمین ’’پاک‘‘میں بھی مکتب و مدرسہ کے ساتھ ’’دینی‘‘ کا لاحقہ تک دہشت گردی کی علامت ٹھہرا‘ یعنی جب بھی اکبرخدا کا نام لے گا‘ رقیب فوراً اس کی رپورٹ تھانے میں درج کرائیں گے‘ جہاں امریکی ایف بی آئی منکرنکیر کے طور پر اُس سے حساب کتاب کرے گی۔

حق و باطل کی تاریخی ستیزہ کاری میں یہ تصادم قابلِ فہم ہے۔ لیکن جو بات عالمِ اسلام سے بالعموم اور نظری پاکستان کے مقتدر طبقے سے بالخصوص پوچھنے کی ہے‘ وہ یہ ہے کہ  ع

اے کشتۂ ستم! تری غیرت کو کیا ہوا!

پرانے زمانے میں خال خال لوگ حرص و طمع کا شکار ہو کر انفرادی سطح پر فروختنی اور قومی و ملّی غداری کے مرتکب ہو جاتے تھے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ آج فوج در فوج‘ صف بہ صف ہم اس دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں‘ اور سمجھتے ہیں کہ ’’ہم بچ گئے‘‘۔ کشمیر ہماری شہ رگ تھی‘ لیکن ہم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے دست برداری اختیار کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ     دہشت گردی ہے۔ ہمارے ایٹمی ’’اثاثے‘‘ جنھیں ’’بچانے کے لیے‘‘ ہم نے مسلمانوں کے قتلِ عام اور اُمت مسلمہ پر امریکی آتش و آہن کی بارش کا طوفان برپا کرنے میں ہراول کا کردار ادا کیا‘ ہمارے گلے پڑ گئے۔ ہماری حاکمیت ِ اعلیٰ امریکہ کے پائوں میں ناک رگڑ رہی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ ’’ہم بچ گئے‘‘۔

اے میرے وطن پاک کے وہ لوگو جو اِس ملک کی آزادی‘ حریت فکرونظر اور اپنے ایمان کی سرفرازی کے لیے خاک و خون کے سمندر میں سے گزرے! ہمارا کیا بچ گیا ہے؟--- اور ہم نے کیا کھویا ہے؟--- کیا ہمارا نفسِ لوامہ تھک ہار کر سو گیا ہے؟--- کیا ضمیر مردہ ہو گیا ہے؟--- کیا زندگی روح سے ایسے تہی ہو چکی ہے کہ اب بانگِ اسرافیل بھی اُسے زندہ نہیں کرسکتی؟ --- کیا نبضِ ضمیر میں کچھ ارتعاش‘ کچھ کسک باقی نہیں رہی؟