اس دعوت کا اثر جہاں جہاں بھی پہنچا ہے‘ اس نے مُردہ ضمیروں کو زندہ اور سوتے ہوئے ضمیروں کو بیدار کیا ہے۔ اس کی اوّلین تاثیر یہ ہوتی ہے کہ نفس اپنا محاسبہ آپ کرنے لگے ہیں۔ حلال اور حرام‘ پاک اور ناپاک‘ حق اور ناحق کی تمیز‘ پہلے کی محدود مذہبیت کی بہ نسبت اب بہت زیادہ وسیع پیمانے پر زندگی کے تمام مسائل میں شروع ہو گئی ہے۔ پہلے جو کچھ دین داری کے باوجود کر ڈالا جاتا تھا وہ اب گوارا نہیں ہوتا بلکہ اس کی یاد بھی شرمندہ کرنے لگی ہے۔ پہلے جن لوگوں کے لیے کسی معاملے کا یہ پہلو سب سے کم قابل توجہ تھاکہ یہ خدا کی نگاہ میں کیسا ہے ان کے لیے اب یہی سوال سب سے زیادہ مقدم ہو گیا ہے۔ پہلے جو دینی حس اتنی کُند ہوچکی تھی کہ بڑی بڑی چیزیں بھی نہ کھٹکتی تھیں اب وہ اتنی تیز ہوگئی ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی کھٹکنے لگی ہیں۔ خدا کے سامنے ذمہ داری و جواب دہی کا عقیدہ اب احساس بنتا جا رہا ہے اور بہت سی زندگیوں میں اس احساس سے نمایاں تبدیلی ہو رہی ہے۔ لوگ اب اس نقطۂ نظر سے سوچنے لگے ہیں کہ دنیا کی زندگی میں جو کچھ سعی و عمل وہ کر رہے ہیں وہ آیا خدا کی میزان میں کسی قدر و وزن کی حامل ہو سکتی ہے یا محض ھَبَأً مَنْثُورًا بن جانے والی ہے۔ پھر بحمداللہ اس دعوت نے جہاں بھی نفوذ کیا ہے بے مقصد زندگیوں کو بامقصد بنایا ہے اور صرف ان کے مقصدِزندگی ہی کو نہیں بلکہ مقصد تک پہنچنے کی راہ کو بھی ان کی نگاہوں کے سامنے بالکل واضح کر دیا ہے۔ خیالات کی پراگندگی دُور ہو رہی ہے۔ فضول اور دورازکار دلچسپیوں سے دل خود ہٹ رہے ہیں۔ زندگی کے حقیقی اور اہم تر مسائل مرکز توجہ بن رہے ہیں۔ فکرونظر ایک منظم صورت اختیار کر رہی ہے اور ایک شاہ راہِ مستقیم پر حرکت کرنے لگی ہے۔ غرض بحیثیت مجموعی وہ ابتدائی خصوصیات اچھی خاصی قابلِ اطمینان رفتار کے ساتھ نشوونما پا رہی ہیں جو اسلام کے بلند ترین نصب العین کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے اولاً و لازماً مطلوب ہیں۔ (’’اشارات‘‘، ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن‘ جلد۲۲‘ عدد۳-۴‘ ربیع الاول و ربیع الآخر‘ ۱۳۶۲ھ‘ اپریل ۱۹۴۳ئ‘ ص ۶۸-۶۹)