مارچ ۲۰۰۳

فہرست مضامین

محبت کی زندگی

خرم مراد | مارچ ۲۰۰۳ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

محبت کا لفظ خود اپنے اندر بڑی مٹھاس‘ کشش‘ کیف ‘ لذّت اور مزہ رکھتا ہے۔ کسی کے بھی تعلق کے ساتھ یہ لفظ بولا جائے تو دل میں زندگی کی ایک رو دوڑ جاتی ہے۔ ہم سب ہی محبت کے مزے سے آشنا ہوتے ہیں۔ یہ کوئی انوکھی اور اجنبی چیز نہیں ہے۔ انسانوں کے تعلق سے بھی ‘ محسوسات کے تعلق سے بھی‘ مال و دولت کے تعلق سے بھی‘ اپنی عزت اور آن کے تعلق سے بھی‘ اور خود اپنے نفس سے محبت کے تعلق سے بھی ہم سب خوب جانتے ہیں کہ محبت کیا چیز ہوتی ہے اور محبت کا مزہ اگر دل کو لگ جائے اور دل میں اتر جائے تو یہ کیا کرشمہ دکھاتی ہے۔ عام مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ شاید یہ وہ مقام اور درجہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے بڑے برگزیدہ بندوں کو حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو ایمان کی نشانی‘ ایمان کی شرط اور ایمان کی روح ہے۔ ایمان کا راستہ ہی عشق و محبت کا راستہ ہے۔  وَالَّذِیْنَ  اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ ط (البقرہ ۲:۱۶۵)’’ایمان رکھنے والے اللہ کو سب سے بڑھ کر محبوب رکھتے ہیں‘‘۔جو بھی ایمان لائیں گے وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کریں گے۔ اس کے دین پر عمل کریں گے‘ اُس کے دین کو قائم کریں گے۔ اپنی محبت کو پہلے بیان فرمایا ہے کہ جو اس کی راہ پر آجائے‘ اس کی راہ پر چل پڑے‘ اپنے آپ کو اس کے دین کے لیے لگا دے تو وہ اللہ کا محبوب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُسے پیار کرتا ہے۔ دیکھیے یہ آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے۔ یُّحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ (المائدہ ۵:۵۴) ’’اللہ ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں‘‘۔

یہ محبت تو ایمان کی روح اور ایمان کی جان ہے۔ اِس کے بغیر تو ایمان چند الفاظ کا مجموعہ ہے جو زبان سے ادا ہو جائے‘ ایک لباس ہے جس کو آدمی وضع قطع اور چال ڈھال کے مختلف طریقوں سے اپنے اوپر اوڑھ لے۔ لیکن اصل ایمان تو وہ ہے جو دل کو بھی لذّت بخشے اور جس کے پیچھے چلنے میں مزہ بھی آئے۔ اسی لیے نبی کریمؐ نے یہ بھی فرمایا: کہ جن چیزوں سے ایمان کی مٹھاس حاصل ہوتی ہے اُن میںسے ایک یہ ہے کہ ‘  اِن یکون اللّٰہ والرسول احب الیہ ممن سوآئٌ علیھم‘ اللہ اور اس کے رسولؐ ان دو کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ پیارے اور محبوب ہو جائیں ۔جب یہ کیفیت ہوتی ہے تبھی ایمان دل میں اترتا ہے‘ ایمان کا مزہ ملتا ہے اور ایمان میں لذّت آتی ہے۔

ایمان کے مطالبے آدمی دل کے تقاضے سے پورے کرتا ہے۔ محبت کی راہ میں کسی کو دھکا نہیں دینا پڑتا ہے کہ جائو اس کے کوچے میں جائو‘ جو محبوب ہے اس کی گلی میں جائو‘اس کے دروازے پر جائو‘ اس کو یاد کرو‘ اس کا نام لکھو۔ یہ سب سبق کسی کو پڑھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ محبت خود ہی استادوں میں سب سے بڑی استاد ہے ‘ سکھانے والوں میں سب سے بڑی سکھانے والی اور قوتوں میں سب سے بڑی قوت ہے۔ یہ انسانوں کے دل فتح کر لیتی ہے‘ جمادات اور نباتات کے دل فتح کر لیتی ہے۔ کسی پودے کو آپ پیار دے کر دیکھئے‘ پانی دیجئے‘ خبرگیری کیجیے وہ لہلہا اٹھتا ہے‘رنگ برنگ کے پھول آپ کی گود میں ڈال دیتا ہے۔ جس کو بھی آپ محبت دیں گے وہ مفتوح ہو جائے گا۔ اس کا دل بھی فتح ہو جائے گا اور وہ آپ کا غلام بھی بن جائے گا۔

یہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے اور اللہ کے واسطے سے اور بہت ساروں کی محبت‘ یعنی اس کے رسولؐ کی ‘ اُس کی کتاب کی ‘اُس کے دین کی ‘ اُس کی امت کی اور اس کی راہ میں ساتھ چلنے والوں کی ۔ یہی محبت کی زندگی ہے۔ اِس کی کمی اُن سارے مسائل کی جڑ ہے جو ہمیں درپیش ہیں۔ جتنی یہ محبت پیدا ہوتی جائے گی‘ دل میں اترتی جائے گی اور جتنی رچتی بستی جائے گی اتنا ہی مسائل کا جنگل صاف ہوتا چلا جائے گا۔ اس لیے میرے بھائیو اور بہنو‘ سب سے بڑھ کر تو اسی محبت کی فکر کرنی چاہیے۔

یہ محبت مصنوعی ذرائع سے پیدا نہیں کی جا سکتی۔ یہ اس طرح کی طبعی چیز بھی نہیں ہے جس طرح باپ کو بیٹے سے ہو جاتی ہے‘ ایک مرد کو عورت سے ہو جاتی ہے یا آدمی کو کسی حسین چیز سے ہو جاتی ہے۔ لیکن حُسن‘ جمال اور کمال اگر سب سے بڑھ کر کسی کے پاس ہے تو وہ حبیب حبیب ِعالمؐ ہیں۔ اُسی کے حُسن کا ایک جلوہ ہے جو کائنات میں ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔ جدھر بھی دیکھیں گے حُسن بکھرا ہوا ہے‘ پہاڑوں اور درختوں اور پھولوں اور پرندوں میں‘ ہر جگہ اُس کا حسن جلوہ گر ہے۔ یہی حسن ازلی‘ ابدی اور اعلیٰ ہے۔

حسن سے ہی احسان نکلا ہے۔ احسان کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہر ذی نفس کا ہر سانس جو اندر جاتا ہے وہ بھی اُس کا احسان ہے اور جو باہر آتا ہے وہ بھی اس کا احسان ہے۔ہر لقمہ جو آدمی اپنے ہاتھ سے منہ میں رکھ رہا ہے یہ اسی کی توفیق و عنایت ہے۔ انسان خود نہیں رکھتا۔پانی کا ہر گھونٹ جو آدمی سمجھتا ہے کہ میں نے اٹھا کر پیا ہے وہی پلاتا ہے۔ وَالَّذِیْ ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِo (الشعراء ۲۶:۷۹) ’’وہی ہے جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے‘‘ ۔ آدمی دوا کھا کر سمجھتا ہے کہ میں تو ٹھیک ہو گیا‘ ڈاکٹر نے بڑی اچھی دوا دی لیکن حقیقت یہ ہے کہ وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِo  (الشعراء ۲۶:۸۰)’’جب بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا بخشتا ہے‘‘۔ کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو اس کے بغیر مل سکتی ہے۔ اگر مل سکتی تو دینے والا خود خدا بن جاتا اور جو خدا سے بے نیاز ہو کر دے سکتا وہ تو خود خدا ہوتا۔ کائنات میں دو خدا تو نہیں ہیں۔ ایک ہی خدا ہے۔ دینے والا بھی ایک ہی خدا ہے‘ کوئی اور نہیں ہے اور ہو نہیں سکتا۔

محبت میں یہ تقاضا نہیں ہے کہ صرف اُسی سے محبت ہو‘ بلکہ یہ تقاضا ہے کہ سب سے بڑھ کر اس سے محبت ہو۔ اس نے اور بھی محبتیں رکھی ہیں‘ اور بھی چیزوں کو محبوب بنایا ہے: مال کی محبت‘ عزیز و اقربا کی محبت‘ دنیامیں اپنے لیے عزو جاہ کی محبت‘ یہ سب اُسی نے رکھی ہیں۔  زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوََّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِط (آلِ عمران ۳:۱۴) ’’لوگوں کے لیے مرغوبات نفس--- عورتیں‘ اولاد‘ سونے چاندی کے ڈھیر‘ چیدہ گھوڑے‘ مویشی اور زرعی زمینیں ---بڑی خوش آیند بنا دی گئی ہیں‘‘۔ بہت ساری چیزیں ہیں جن کی محبت رکھ دی گئی۔ لیکن فرمایا کہ سب سے بڑھ کر محبت تو اُسی کے لیے ہونی چاہیے۔ جب اس کی محبت کا تقاضا آجائے تو وہ سب پر غالب ہونا چاہیے۔ اس میں پھر کوئی اشتباہ کی گنجایش نہیں ہونی چاہیے۔ اسی لیے قرآن مجید میں تو نہیں‘ لیکن سابقہ صحِف سماوی میں اللہ تعالیٰ جب اپنی محبوب امت سے بات کرتا ہے تو جو استعارے اور تشبیہات استعمال کرتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ اے میری محبوب امت! تو بدکار عورت کی طرح جگہ جگہ جا کر آشنائیاں کیوں کرتی ہے؟یہود و نصاریٰ سے اللہ تعالیٰ جب خطاب کرتا ہے تو کہتا ہے کہ بدکار عورت کی طرح جگہ جگہ آشنائیاں کیوں کرتے پھرتے ہو؟ در در پر جا کر سر کیوں جھکاتے ہو؟ میرے ہو جائو تو میں تمھارا ہوں۔ جب میں تیرا ہوں تو دنیا میں تجھے اور کس کی ضرورت ہے؟ کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

اگر ہم اس کا کام کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں تو کتنا ہی ہم سر مار لیں‘کوشش کر لیں‘ اُسی کے بن جانے اور اُسی کی محبت میں غرق ہوئے بغیر یہ راہ طے نہیں ہو سکتی۔ مجھے تو اس بات کا یقین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا ہے کہ اگر تم نہیں تو پھر دوسری قوم لائوں گا اور سب سے بڑھ کر اُن کی پہلی صفت یہی ہو گی کہ وہ محبت کی زندگی گزاریں گے‘ میں اُن سے محبت کروں گا وہ مجھ سے محبت کریں گے۔ باقی صفات کا ذکر تو بعد میں آتا ہے سب سے پہلے یہ ہے ‘ اس کے بعد ہی وہ کام کر سکیں گے جو اُن کے سپرد کیا گیا ہے۔

محبت کوئی اجنبی چیز تو نہیں‘ جانی پہچانی چیز ہے۔ اگر آپ پوچھیں کہ محبت کیا ہوتی ہے توکوئی اس طرح بتا نہیں سکتا کہ محبت کیا ہوتی ہے۔ لیکن کس کو ان میں سے ہرچیز کا تجربہ نہیں ہے۔ محبت ہوتی ہے تو اُسی کی طرف دھیان لگا رہتا ہے‘ اسی کا خیال رہتا ہے‘ اُسی کا نام زبان پہ رہتا ہے۔ اُس سے ملاقات کے لیے جو موقع مل جائے غنیمت ہوتا ہے۔ اگر پانچ وقت مل جائے تو اس سے بڑھ کر محبت کرنے والے کی اور کیا سعادت ہو سکتی ہے؟ خود بلائے ‘ دروازہ کھول دے‘ یہ تو اس کا بہت بڑا قُرب دینے اور قریب کرنے کا اعلان ہے۔ جب اُس سے روبرو ملاقات کی گھڑی آئے تو اُس سے ملاقات کا شوق اسی محبت کی علامت اور نشانی ہے۔ پھر جو کام کریں اس طرح کریں کہ اُس کو خوش کر دیں۔ انسان دُھن میں لگا ہو توکسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ خود ہی دُھن میں لگا رہتا ہے۔ دھیان اسی میں لگا رہتا ہے اور ایسے ایسے کام بھی کرتا ہے جو محبوب نے فرض اور لازم نہیں کیے۔ جو فرض کیے وہ تو بجا لاتا ہے مگر جو فرض نہیں کیے اُن کے پیچھے بھی لگا رہتا ہے کہ اس سے بڑھ کر تو قربت کا کوئی ذریعہ ہی نہیں ۔ کہاں سے‘ کس طرح‘ کون سا ایسا موقع مل جائے جس سے اُس کو خوش کر دوں اور اس کے قریب ہوتا چلا جائوں۔

یہ سب محبت کی وہ علامتیں ہیں جو سب جانتے ہیں۔ دل میں ایک آگ لگ جاتی ہے اور اس آگ کے اندر سب تعلقات بھسم ہو جاتے ہیں۔ایک ہی تعلق طاری رہتا ہے اور دل کے اوپر چھاجاتا ہے۔ یہ سب نشانیاں آپ جانتے ہیں۔ اس کی میزان میں رکھ کے اپنے دل کو تول سکتے ہیں۔ اس کی ملاقات ‘ اُس کا ذکر‘ اُس کی یاد‘ اُس کی رضا‘ اُس کی خوشنودی کی کوشش زندگی کے اندر کتنی ہے‘ خود اپنے اندر پیدا کریں ‘ جو ساتھی آپ کے ساتھ چل رہے ہیں‘ دو ہوں ‘چار ہوں یا جتنے بھی‘ ان کے اندر پیدا کریں ‘ آپ کا اور آپ کے کام کا نقشہ بدل جائے گا۔ وہی کام جو آپ ٹہل ٹہل کر کرتے ہیں‘ وہ دوڑ دوڑ کر کریں گے۔وہی زبانیں جو دعوت کے لیے نہیں کھلتیں ‘ وہ کھلنے لگیں گی‘ اس لیے کہ پھر میں خود زبان بن جاتا ہوں۔ وہی پائوں جو اب نہیں اُٹھتے‘ وہ اٹھنے لگیں گے‘ اس لیے کہ وہ ہاتھ میں خود بن جاتا ہوں۔ وہی ہاتھ جو کام نہیں کرتے‘ وہ کام کرنے لگیں گے اس لیے کہ وہ پائوں میں خود بن جاتا ہوں۔ یہی وہ مقام ہے جب آدمی دوڑ دوڑ کے اس کے لیے کام کرتا ہے۔ ایک مختصر سی دعا حدیث میں آتی ہے کہ:

رَبِّ اجْعَلْنِیْ لَکَ ذَکَّارًا لَکَ شَکَّارًا لَکَ رَھَّابًا لَکَ مِطْوَاعًا لَکَ مُطیْعًا اِلَیْکَ مُخْبِتًا اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُّنِیْبًا (ترمذی‘ عن ابن عباسؓ)

اے میرے اللہ‘ مجھے ایسا بنا دے کہ تجھے بہت یاد کروں‘ تیرا بہت شکر کروں‘ تجھ سے بہت ڈرا کروں‘ تیری بہت فرمانبرداری کیا کروں‘ تیرا بہت مطیع رہوں‘ تیرے آگے جھکا رہوں‘ اور آہ آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں۔

یہ سب محبت کی تصویریں ہیں:خوب ہروقت مجھے یاد کرو۔ ہر وقت میرا شکر کرتے رہو۔ خوف بھی ہو‘ محبت بھی۔ محبت اور خوف کا ایک دوسرے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں دل ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے‘ پتا نہیں کب یہ محبت چھن جائے۔ اس کا خوف ہوتا ہے کہ کوئی ایسا کام نہ ہو جائے جو محبوب کو ناگوار گزرے۔یہ کوڑے کا خوف نہیں ہوتا بلکہ یہ خوف اس کا ہوتا ہے کہ نہ جانے کب کوئی ایسی چیز ہو جائے جس سے میرا محبوب‘ میرا رب مجھ سے ناراض ہو جائے۔ دوڑ دوڑ کر تیرے کام کروں۔ جو فرض نہیں ہیں وہ بھی کروں۔ لَکَ مُطیعًا تیرا بہت مطیع رہوںاور لَکَ مُخْبِتًا اور تیری طرف جھکا رہوں  اور ہائے ہائے واہ واہ کرکے تیرے در پہ لوٹ آیا کروں۔

حبیب کے حبیبؐ نے فرمایا کہ اللہ سے اس لیے محبت کرو کہ اس کے انعامات تم پر   بے پایاں ہیں اور مجھ سے اللہ کے لیے کرو (ترمذی)۔ جو اللہ کا حبیب ہے ‘ اللہ نے اس کو اپنے کام کے لیے بھیجا ہے۔ اُس کے ذریعے اُس نے ہم پر اپنی ساری نعمتیں تمام کر دیں۔ قرآن مجید‘ اپنا دین ‘ اپنی ہدایت‘ اپنی جنت کاراستہ اور جہنم سے بچنے کا راستہ ‘ سب کچھ اُنہی کے ذریعے ملا ہے۔ ان سے محبت کا تو یہ عالم تھا کہ لوگ نگاہ بھر کر دیکھ نہیں پاتے تھے۔ مجلس میں سناٹا رہتا تھا۔ وضو کا پانی زمین پر نہیں گرنے پاتا تھا۔ تھوکتے تھے تو چاہنے والے وہ بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے۔ یہ بھی محبت کی علامتیں تھیں۔ ان میں سے کوئی چیز فرض نہیں تھی۔ کسی چیز کا دین میں مطالبہ نہیں تھا۔ ایک آدمی آیا اور اس حال میں آپؐ سے ملا کہ آپؐ کے گریبان کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ عمر بھر باپ اور بیٹے نے اپنے گریبان کے بٹن بند نہیں کیے۔ دین کا کوئی مطالبہ نہیں تھا کہ ایسا کرنا ضروری ہے۔ ایک اور آدمی آیا اس نے دیکھا کہ آپؐ  کی چپل کے تسموں پر بال ہیں۔ اُس نے ہمیشہ وہی چپل پہنے۔ ایک اور آدمی آیا اس نے دیکھا کہ آپؐ سالن میں کدو کے ٹکڑے تلاش کر رہے ہیں۔ اس کے ہاں کبھی کوئی سالن نہیں پکا جس میں کدو نہ ڈلا ہو اور اس میں کدو کے ٹکڑے نہ تلاش کیے ہوں۔ اُن میں سے کوئی چیز بھی فرض نہیں تھی۔ اور جو چیزیں فرض کیں‘ جن کا مطالبہ کیا---مکے کی گلیاں ‘ عکاظ کے میلے‘ طائف کی وادی‘ بدر و حنین کے میدان--- بھلا جو قمیض کے بٹن بھی بند نہ کرتے ہوں‘ کدو کے ٹکڑے بھی نہ چھوڑتے ہوں آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ اِن میں پیچھے رہ سکتے ہیں؟ پھر انھوں نے اسپین سے لے کر چین تک سب کو بدر و حنین کا میدان بنا دیا۔ جو کام قومیں ہزاروں برس میں کرتی ہیں‘ وہ کام انھوں نے سوبرس میں کر دیا۔ یہ اِسی محبت کا نتیجہ ہے۔ یہی محبت تو اُن کا سارا سرمایہ تھی۔ ہر دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپؐ کے دل کا ایک ٹکڑا آگیا۔ ہر شخص چلتا پھرتا قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر بن گیا۔ یہی وہ لوگ تھے جن کے آگے قوموں کی قومیں ‘شہروںکے شہر او ر ملک کے ملک سپرانداز ہو گئے اور بچھتے چلے گئے۔ اس لیے کہ محبت فاتحِ عالم ہوتی ہے۔ اللہ کی محبت اور اس کے رسولؐ کی محبت یقینا سارے عالم کو فتح کر لیتی ہے۔ آپ ؐ کے پاس اس کے سوا کوئی اور نسخہ نہیں تھا۔ نہ وعظ تھے‘ نہ لٹریچر تھا‘ نہ کتابیں تھیں‘ کچھ نہیں تھا‘ بس محبت کی تفسیر تھے‘ زندہ چلتی پھرتی تصویر تھے۔

ایک آدمی آیا۔ اُس نے پوچھا قیامت کا دن کب آئے گا؟ فرمایا پوچھ تو رہے ہو‘ کچھ تیاری بھی کی ہے؟ کہا نہیں۔ نماز روزے‘ یہ تو بہت مشکل ہیں۔ صرف اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہوں۔ فرمایا جس سے محبت کرتے ہو اُسی کے ساتھ رہوگے۔ حضرت انسؓ بن مالک روایت کرتے ہیں کہ میں نے صحابہؓ کی زندگی میں اس سے زیادہ خوشی کا کوئی دن نہیں دیکھا کہ جب یہ خوشخبری سُنی کہ نمازیں بھی کم ہیں‘ روزے بھی کم‘ کوئی وسیع سرمایہ ساتھ نہیں ہے‘ بس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے۔ فرمایا کہ مجھے یہ بشارت ملی کہ پھر تو قربت بھی ہے‘ ساتھ بھی ہے اور پاس بیٹھنا بھی ہو گا اور ملنا جلنا بھی ہو گا۔

کسی نے کہا کہ آدمی محبت تو کرتا ہے مگر پہنچ نہیں سکتا۔ پہنچ نہ سکناتو بہت بلیغ بات ہے۔ ۱۴ سو برس کے زمانے کا فاصلہ ہے۔ مکان کا بھی فاصلہ ہے۔ بہت دور ہے جا نہیں سکتے۔ عمل کا بھی فاصلہ ہے کہ ہمارے عمل کی اُن کے عمل کے ساتھ کوئی نسبت نہیں ہے۔ فرمایا کہ محبت تو ایسا نسخہ ہے کہ ساری دوریوں اور فاصلوں کے باوجود آدمی اُسی کے ساتھ جائے گا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپؐ کے پیچھے چلنا اللہ کی محبت کی کسوٹی ہے۔یہ محبت کا سیدھا راستہ ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ  (آلِ عمران۳: ۳۱)۔ ’’اے نبیؐ ، لوگوں سے کہہ دو کہ ’’اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘۔اگر اللہ سے محبت کا دعویٰ ہے تو میرے پیچھے پیچھے چلو اور میرے بن جائو‘ میرے نقشِ قدم پر چلو‘ جن راستو ں سے میں گزرا ہوں‘ اُن سب سے گزرو۔ اگر میں کہوں کہ مکہ کی گلیوں سے گزرو‘ عکاظ کے میلوں سے گزرو‘ طائف کی وادی سے گزرو اور بدر و حنین کے میدان سے بھی گزرو‘ تو ان سب مقامات سے بلاجھجک گزرواس لیے کہ یہی محبت کا تقاضا ہے۔

اتّباع کے معنی اطاعت کے نہیں ہیں۔ اطاعت کا لفظ الگ ہے۔اطاعت کے معنی تو کہنا ماننے اور حکم ماننے کے ہیں‘ اور اتباع کے معنی پیچھے پیچھے چلنے کے ہیں۔ پیچھے پیچھے تو ہر آدمی چلا جائے گا‘ محبوب جدھر جائے گا اُس کے پیچھے جائے گا۔ جہاں وہ چلا ہو گا اس کے پیچھے چلے گا۔ جو نقشِ قدم اُس نے چھوڑے ہوں گے اُنہی کو وہ پیار کرے گا انہی کے اوپر وہ اپنے قدم بھی رکھے گا۔

یہ محبت بھی آسانی سے نہیں حاصل ہو سکتی۔ایک واقعہ آپ نے بھی پڑھا ہو گا‘ میں نے بھی پڑھا ہے۔ پڑھ کے دل لرز جاتا ہے اور بڑی محبت بھی پیدا ہو تی ہے۔ غزوہ احد کا واقعہ ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ زخموں سے چور اور جان بہ لب تھے۔ محبت میں یہاں تک پہنچ گئے۔ آپؐ کے پاس بھی لائے گئے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپؐ اپنا پائوں میرے چہرے پر رکھ دیں۔ لوگ تو بڑے دعوے کرتے ہیں محبت کے‘ لیکن حضورؐ کے قدموں کے نیچے آنے کے مقام تک پہنچنے کے لیے اس کیفیت میں ہیں کہ پورا جسم خونم خون‘ زار و نزار‘ جان لبوں پر ہے تو اس کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو اس کا مستحق سمجھا یا محبت میں یہ آرزو ہوئی کہ قدمِ مبارک چہرے کے اوپر ہوں۔ یہ آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔

وہ لوگ جو دین کے راستے پر ساتھ چل رہے ہیں ان کے لیے اس میں بہت رہنمائی ہے۔ آپ ؐنے فرمایا کہ اپنے آپ کو باندھ لو‘ اس کے ساتھ جمالو‘ جم جائو‘  ناگواریاں بھی ہوں تو صبر اختیار کرو۔ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْج (الکھف ۱۸:۲۸) ’’اور اُن سے ہر گز نگاہ نہ پھیرو‘‘نگاہیں ہٹنے نہ پائیں۔ یہی ساتھی سرمایہ ہیں۔کچے بھی ہیں اور پکے بھی۔ گناہ گار بھی ہیں اور نیک بھی ‘پُختہ بھی ہیں اور ناپختہ بھی ہیں۔ جو بھی ہیں وہ سب جو ساتھ چل رہے ہیں‘ ان میں سے ہر شخص قیمتی ہے۔ ہر شخص ایک سرمایہ ہے۔ کالے بھی ہیں اور گورے بھی‘ پڑھے لکھے بھی ہیں اور جاہل بھی۔ اچھے اخلاق والے بھی ہیں اور بد اخلاق بھی۔ آکے چادر کھینچ لیتے ہیں‘ بُرا بھلا کہتے ہیں‘ طعنے دیتے ہیں پھر بھی وہ محبوب رہتے ہیں۔ عذر پیش کرتے ہیں وہ قبول کر لیے جاتے ہیں۔ غلطی کرتے ہیںتو معاف کر دیے جاتے ہیں اورسینے سے لگا لیا جاتا ہے۔کوئی مثال نہیں ملتی کہ کوئی دھتکار کے باہر کر دیا گیا ہو۔

یہی تو وہ لوگ ہیں جن سے کام ہونا ہے۔ انھی کی تائید سے تو دین غالب ہوا۔ ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ o (الانفال۸:۶۲) ’’وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی‘‘۔  یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَo (الانفال ۸:۶۴) ’’اے نبیؐ ، تمھارے لیے اور تمھارے پیرو اہل ایمان کے لیے تو بس اللہ ہی کافی ہے ‘‘۔

یہ مومنین کی جماعت ہی تو ہے جس کی جدو جہد سے پورا کا پورا دین نافذ ہوگا‘ فتنہ مٹے گا اور دین کا کلمہ غالب ہو گا۔ ان میں سے تو ہر شخص بڑا قیمتی ہے۔ کوئی شخص بھی ایسا نہیں جس کی قدر و قیمت کم کی جائے۔ ہر شخص کا دل اللہ کی یاد کا مسکن ہے۔یہ تو خانۂ کعبہ سے بھی زیادہ محترم ہے۔ خانۂ کعبہ کیا ہے؟ مٹی کا گھر ہے۔ یہ تو گوشت کا دل ہے جو اللہ نے خود بنایاہے۔ جس میں وہ خود بستا ہے۔ اس کی یاد بستی ہے۔ اس کی محبت بستی ہے۔ اس کا ایمان بستا ہے۔ اس کی ناقدری کی جائے اور اس کو آدمی جھڑک دے‘ اس کو ایذا پہنچائے‘ اس کو تکلیف دے‘ اس کی پروا نہ کرے ‘ اس کی برائی کرتا پھرے‘ اس کوگالی دے‘ اس کا مذاق اڑائے‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے! اسی لیے فرمایا کہ جس نے کسی مسلمان کو خوش کیا اُس نے مجھے خوش کیا۔ جس نے مجھے خوش کیا اُس نے اللہ کو خوش کیا۔ جس نے کسی مسلمان کو ایذا پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھ ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا پہنچائی۔ آپ بتائیے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ  محبوب ہوں تو کیا اس کے بعد اب کسی ہدایت کی ضرورت ہے؟ یہ تو خود اپنی جگہ پر کافی ہے۔ جب اللہ پیارا ہے‘ اللہ کے محبوبؐ پیارے ہیں تو پھر اللہ کے کسی بندے کو‘ اپنے کسی ساتھی کو کیسے تکلیف پہنچائی جا سکتی ہے۔ کوئی ایسی بات زبان پر کیوں آئے‘ ہاتھ سے ایسا کام کیوں ہو‘ روش ایسی کیوں ہو جس سے اُس کو تکلیف ہو۔جن کو ہم نے آگے کھڑا کر دیا ہے وہ بھی اُسی طرح محبوب ہیں‘ اور جو ہمارے پیچھے ہیں وہ بھی اسی طرح محبوب ہیں۔ یہ محبت کا رشتہ ہے۔

اب کوئی آگے چلنے والا یہ حق تو نہیں رکھتا کہ وہ کہہ سکے کہ میں تمھاری جان ‘مال ‘ والدین سب سے زیادہ پیارا ہوں۔ یہ مقام تو صرف اللہ کے رسولؐ کے لیے۔ لیکن اِسی کا کچھ حصّہ کہیں نہ کہیں تو آئے گا جس سے جماعتیں مضبوط ہوں گی اور ایران و روم فتح کرنے کے قابل ہوں گے۔ خشک احتساب جماعتوں کو صحیح تو رکھ سکتا ہے‘ مگر اُن کے اندر سیلاب کی وہ قوت نہیں پیدا کر سکتا کہ دنیا کے اوپر چھا جائے۔ یہ سیلاب کی قوت تو محبت ہی پیدا کر سکتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے رحما کی مثال دی ہے ‘  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ ٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (الفتح ۴۸:۲۹) ’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘۔ اس کا نتیجہ تھا کہ وہ بیج کونپل بنی‘ درخت بنا اور پھر تناور درخت بن گیا۔ آپس کی محبت اور رحمت پر مبنی اس کی اینٹیں ایک دوسرے کے ساتھ آپس میں محبت کے سیمنٹ سے جڑی ہوئی ہیں۔وہی جماعت اس قابل ہے کہ اس کا ننھا منا بیج تناور درخت بن جائے۔ عام انسان‘ہر انسان جس کو اللہ نے پیدا کیا‘ گوشت پوست کا انسان جس کے اندر اس نے اپنی روح پھونکی ہے (نفختُ فیہ من روحی)۔ ہر انسان جو گناہ گار ہے‘ اس کا گناہ آپ کو کتنا ہی ناپسند کیوں نہ ہو‘ نفرت کا مستحق نہیںہے۔ گناہ گار بھی آتے تھے‘ جانی دشمن بھی آئے‘ چچا کا کلیجہ چبانے والے بھی آئے‘ مکے کے پورے ۱۳سال گالیاں دینے والے‘راہ میںکانٹے بچھانے والے بھی آئے‘ مرد بھی آئے‘عورتیں بھی آئیں‘ بیٹی کے اوپر برچھا مارنے والا جس کے نتیجے میں اُن کا اسقاط حمل ہوگیا وہ بھی آیا‘ سب کو گلے سے لگا لیا اور سب سے کہا کہ آئو آج سے تم میرے بھائی ہو اوروہی پھر قوت بن گئی۔

وہ چند افراد کی قوت نہیں تھی۔ مہاجرین و انصار نے ساری دنیا فتح کی۔وہ تو لیڈر تھے ‘ قائد تھے‘وہ آگے چلنے والے تھے۔ انسانی قوت تو ان سے آئی جن کے دلوں کو اونٹ دے کر اور مالِ غنیمت دے کر جیتا گیا۔

فرمایا کہ بھوکے کے پاس جائو تو اپنے رب کو وہاں پائو گے۔ تم اسے کہاں تلاش کرتے پھرتے ہو؟ پیاسے کے پاس جائو تو مجھے وہاں پائو گے‘ اور بیمار کے پاس جائو تو مجھے وہاں پائو گے۔ تم مجھے کہاں تلاش کرتے ہو؟ مجھے بندوں میں تلاش کرو۔ ان کے پاس جائو گے‘ ان سے محبت کرو گے تو پھر وہ تمھارے ہو جائیں گے اور تم اُن کے ہو جائو گے۔

میرے بھائیو اور دوستو! یہ بنیادی سبق ہے۔ یہ دین کی بنیاد ہے۔ حمد کا کلمہ بھی محبت کا کلمہ ہے۔ شکر اور تعریف محبت کے بغیرنہیں ہوسکتی اور محبت تو شکر کے بیج سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا آغاز بھی اسی کلمے سے فرمایا:  الحمد للّٰہ۔ اورجب دین تکمیل تک پہنچ گیا تو پھر فرمایا:  فسبّح بحمد ربک۔ شکر ہی تو محبت کا بیج ہے۔ اِسی سے محبت کا درخت پھوٹتا ہے‘ اس کی شاخیں نکلتی ہیں‘ پتے آتے ہیں‘ پھول کھلتے ہیں‘ پھل نکلتے ہیں۔ یہ دین کی بنیاد ہے‘ ایمان کا تقاضا ہے۔ ایمان کی راہ عشق و محبت کی راہ ہے اور اسی سے یہ منزل آسان ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی نسخہ میں نہیں جانتا۔

میں پھر اپنی بات دُہرائوں گا کہ تم اگر اس معیار پر پورے نہیںاترو گے تو پھر تمھارے ہاتھوں سے یہ کام نہیں ہو گا۔ پھر اللہ دوسرے لوگ لائے گا۔ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ (المائدہ ۵:۵۴)  ’’وہ دوسری قوم لے کر آئے گا‘‘۔ اور اس گروہ کی پہلی خصوصیت ہی ہو گی کہ وہ اللہ کی محبت کے نشے میں سرشار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہو گا۔ اس کے بعد سارے کام آسان ہوں گے‘ دین غالب ہو گا‘ پھر زندگی ٹھکانے لگے گی۔ پھر تھوڑے عمل سے بھی بڑے بڑے نتائج پیدا ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ مجھے آپ سب کو اسی محبت کا حصّہ عطا فرمائے۔ (کیسٹ سے تدوین:  م - س)