مارچ ۲۰۰۳

فہرست مضامین

عالم اسلام کے لیے امریکی منصوبے

عبد الغفار عزیز | مارچ ۲۰۰۳ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

ہزاروں سال پہلے بھی فرعون نے یہی کہا تھا جو آج کہہ رہا ہے مَآ اُرِیْکُمْ اِلاَّ مَآ اَرٰی وَمَآ اَھْدِیْکُمْ اِلاَّسَبِیْلَ الرَّشَادِ o (المومن ۴۰:۲۹) ’’میں تمھیں بھی اسی نظر سے دکھائوں گا جس سے خود دیکھتا ہوں‘ میں تمھیں درست سمت ہی لے کر جائوں گا‘‘۔ میں نے اعلانِ جنگ کر دیا ہے تو اب سب کو میرا ساتھ دینا ہوگا ورنہ سب دہشت گرد قرار دے دیے جائیں گے۔ میرے اعلانِ جنگ کے بعد دنیا بھر میں کروڑوں افراد کا "No War" (جنگ نہیں) کا نعرہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ انسانیت کی معلوم تاریخ میں اتنے بڑے عالمی مظاہروں کی مثال نہیں ملتی لیکن جمہوری اقدار کا نام نہاد محافظ امریکہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء سے بھی اہم اس واقعے کو معمولی حیثیت دینے پر بھی آمادہ نہیں۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ عراق پر حملہ اور پورے خطے پر قبضہ جمہوریت کی ترویج کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۲ء کو واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک میں امریکی وزیرخارجہ کولن پاول نے ایک ’’تاریخی‘‘ دستاویز پیش کی جس کا عنوان تھا: ’’امریکی شرق اوسطی شراکت براے جمہوریت و ترقی‘‘۔ اس منصوبے کو اگرچہ شراکت کا نام دیا گیا ہے اور ہدف جمہوریت و ترقی قرار دیا گیا ہے لیکن عملاً یہ پورے خطے کو امریکی استعمار کے تحت لانے کا منصوبہ ہے۔

کولن پاول کے بقول عالم عرب پوری دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کا مرکز بن چکا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’عرب ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ۸۰ کے عشرے سے دنیا بھر میں دہشت گردی کا اصل سرچشمہ بن گئے ہیں۔ ۸۲ فی صد دہشت گردوں کا تعلق عرب ممالک سے ہے (شاید باقی ۱۸ فی صد دہشت گرد وہ ہوں گے جن کے ہاتھوں کشمیر‘ فلسطین‘ چیچنیا‘ بوسنیا‘کوسووا‘ فلپائن‘ برما‘ جنوبی سوڈان اور اریٹریا کے لاکھوں افراد کا خون ہو رہا ہے)۔ ان ۸۲ فی صد دہشت گردوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘‘۔ کچھ متوسط تعلیم کے حامل ہیں اور معمولی تعداد میں اَن پڑھ بھی ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ان ممالک کے تعلیمی نصاب‘ تعلیمی اداروں کی بدانتظامی اور درست تعلیمی پالیسیوں کے فقدان نے ان دہشت گردوں سے درپیش خطرات کو دوچند کر دیا ہے‘‘۔

وہ اس خطرناک صورت حال کی بنیادی وجوہات بیان کرتے ہیں:

ا- اقتصادی عمل میں جمود‘ جمہوری اقدار کا فقدان‘ کرپشن‘ رشوت۔

۲- آبادی میں غیرمنظم اضافہ جو مزید اقتصادی بدحالی کا سبب بنا۔

۳- بے روزگاری۔

۴- فاسد نظام تعلیم۔

اپنے تئیں مرض اور اسباب بیان کرنے کے بعد علاج یہ تجویز ہوتا ہے کہ مختلف عرب ممالک میں امریکی تعلیمی ادارے کھولے جائیں جن میں تعلیم کے ساتھ ساتھ مغربی اقدار بھی سکھائی جائیں۔ تعلیمی ماہرین اور اساتذہ کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو تربیت دی جائے۔ امریکی نصاب تعلیم عام کیا جائے اور اس پورے عمل میں طلبہ و اساتذہ کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک کرنے کے لیے فیسیں کم رکھی جائیں۔ ان مدارس اور امریکی اداروں میں تعلیم پانے والوں کو بڑی بڑی تنخواہوں پر ملازمتیں مہیا کی جائیں۔ انھیں معاشرے میں بڑھاچڑھا کر پیش کیا جائے اور اہم سیاسی و حکومتی مناصب تک پہنچنے میں ان کی مدد کی جائے۔ یہ لوگ امریکہ کے ساتھ جذباتی لگائو کے حامل اور مستقبل میں امریکی پالیسیوں کی حمایت کرنے والے اصل    کل پرزے ہوں گے۔

علاج کا دوسرا اہم عنصر ان ممالک کے زیادہ سے زیادہ افراد کو سیاسی‘ اقتصادی‘ معاشرتی اور تعلیمی تربیتی کورس کروانا ہے جس کے لیے ہمارے پاس طے شدہ پروگرام موجود ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ امریکی کتب کا ترجمہ کر کے ان ممالک کے اہم اداروں‘ سرکاری محکموں‘ پارلیمنٹ‘ تعلیمی اداروں‘ اہم لائبریریوں اور افراد تک پہنچائی جائیں۔ ان میں سے اہم کتب کو ان ممالک کے نصابِ تعلیم کا لازمی جزو بنا دیا جائے۔ یہ ضروری ہے کہ تراجم کا یہ کام امریکی وزارتِ خارجہ کی زیرنگرانی ہو۔

تیسری جانب ان ممالک میں جمہوری اقدار کو فروغ دیتے ہوئے پارلیمنٹ کی تشکیل یقینی بنائی جائے۔ اس ضمن میں امریکی کانگریس سے خصوصی رہنمائی حاصل کی جائے۔

علاج کا چوتھا اہم عنصر عرب خواتین کی اپنے ملک کی سیاسی اور اقتصادی زندگی میں بھرپور شرکت ہے۔ پارلیمنٹ میں خواتین کی نمایاں نمایندگی ہو اور خواتین کی بہبود کے لیے موثر کمیشن اور کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔

اس پورے پروگرام کے لیے ابتدائی طور پر ۲۹ ارب ڈالر کا بجٹ رکھا گیا ہے لیکن یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ ضمنی اور تفصیلی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے لیے مزید مالی امداد کی ضرورت ہوگی۔ وزیرخارجہ نے یہ وضاحت بھی کی کہ امریکہ جن ممالک کو بھی مالی امداد دیتا ہے آیندہ ان کی امداد اس پروگرام پر عمل درآمد کے تناسب سے مربوط کر دی جائے گی۔

اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے نظام الاوقات طے کیا جائے گا اور اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ اس پر عمل درآمد ۲۰۰۳ء میں شروع ہو کر ۲۰۰۶ء میں مکمل ہو جائے۔ امریکی وزیرخارجہ نے اس پروگرام کو نافذ کرنے کے لیے خطے کے ممالک کو چار گروپوں میں تقسیم کیا ہے۔

۱-  وہ ممالک جنھیں یہ اصلاحات خود نافذ کرناہیں ان میں سعودی عرب اور مصر جیسے اہم ممالک شامل ہیں۔ انھیں یہ یقین دہانی کروائی جائے گی کہ امریکہ ان کی حکومتیں تبدیل نہیں کرنا چاہتا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ان اصلاحات کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔ امریکہ اس ضمن میں ان کی کڑی نگرانی کرے گی۔ اگر ان ممالک کو پروگرام کی کسی جزئیات پر کوئی اعتراض ہو تو انھیں خود اس کا ایسا متبادل پیش کرنا ہوگا جو امریکی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔

۲- وہ ممالک جہاں یہ اصلاحات عسکری قوت کے ذریعے نافذ کرنا ہیں‘ ان میں عراق‘ شام‘ لیبیا‘ ایران جیسے ممالک شامل ہیں۔ عراق پر حملہ خواہ القاعدہ سے تعلق کے الزام کی بنیاد پر ہو یا وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کے الزام میں‘ سب ایک کھلا جھوٹ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عراق کو نئے امریکی استعمار کا نقطۂ آغاز بنانا مقصود ہے۔ یہ منصوبہ بھی کوئی راز نہیںرہا کہ تین سے پانچ سال تک کے لیے عراق پر قبضہ کرنا مقصود ہے تاکہ ایک تیر سے کئی شکار کیے جاسکیں۔

امریکی وزیرخارجہ کے مطابق عراق کے بعد لیبیا کی باری ہے‘ کیونکہ اس کے ساتھ مفاہمت کی کوئی ادنیٰ اُمید باقی نہیں رہی۔ ’’خطے کے ممالک کو ابھی سے اس ضمن میں ہمارا ساتھ دینا چاہیے اور اس ضمن میں کوئی مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ لیبیا کے خلاف یہ کارروائی ۲۰۰۳ء کے اواخر یا ۲۰۰۴ء کے اوائل میں ہو سکتی ہے‘ لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ متبادل قیادت کی تیاری عمل میں آجائے‘‘۔

کولن پاول منصوبے کے مطابق اگرچہ شام بھی اسی گروپ میں شامل ہے لیکن اس کے خلاف عسکری قوت کا استعمال کچھ مؤخر کیا جا سکتا ہے۔ پہلے اسے مختلف سیاسی ‘اقتصادی‘ علاقائی اور اندرونی دبائو کے ذریعے اصلاحات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ البتہ ایران کے متعلق مزید تفصیل منصوبے میں شامل نہیں ہے۔

۳-  وہ ممالک کہ جنھوں نے عملاً اصلاحات کا عمل شروع کر دیا ہے۔ انھیں ہمارا پورا تعاون حاصل رہے گا۔ ان میں بحرین‘ کویت‘مراکش اور تیونس وغیرہ جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک کو دیگر ممالک کے لیے بہتر مثال بنانا ہوگا اور ان کے مؤثر افراد کو تربیتی کورس کرواتے ہوئے مختلف سیاسی‘ غیر سیاسی اور این جی اوز کے نیٹ ورک میں فعال بنانا ہوگا۔ ان ممالک میں مقامی و بلدیاتی حکومتوں کے نظام کو مستحکم کرتے ہوئے حکومتی مرکزیت کو کم سے کم کرنا ہوگا۔

۴-  وہ ممالک کہ جو امریکہ کے حلیف ہیں اور اس کے ساتھ عملی شراکت کا آغاز کرچکے ہیں ان میں قطر‘ اُردن اور یمن جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان کے متعلق کہا گیا ہے کہ ’’مناسب اوقات میں جو بھی امریکی پروگرام دیے جائیں انھیں نافذ کرنا ہوگا۔ ان اصلاحات کے نفاذ کی ذمہ داری براہِ راست امریکی ذمہ داران پر ہوگی۔ ان حکومتوں کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ اندرونی معاملات یا قومی خودمختاری جیسی اصطلاحوں کی آڑ میں امریکی مطالبات سے راہِ فرار اختیار کریں کیونکہ ان حکومتوں سے امریکی تعاون کا اصل مقصد وہاں مثالی حکومتی نظام تشکیل دینا ہے تاکہ تمام رکاوٹوں اور مشکلات سے بآسانی نمٹا جاسکے‘‘۔ اس منصوبے کے مکمل متن کا عربی ترجمہ اس ویب سائٹ پر ملاحظہ فرمائیں:  www.elosboa.com

اس امریکی نقشۂ کار میں پاکستان کا مقام کیا ہو سکتا ہے‘ قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔


۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے پانچ روز بعد موجودہ عالمی صورت حال کے حوالے سے کچھ مزید بیانات قابل توجہ ہیں:

  • ۱۵ ستمبر۲۰۰۱ء کو وزیرخارجہ کولن پاول نے ان واقعات کی کڑیاں عراق سے ملانے کی کوشش کی تھی۔ انھوں نے فرمایا: ’’صدام حسین کی طرف سے نیویارک اور واشنگٹن پر دہشت گردی کی واضح مذمت سامنے نہ آنا اپنے اندر بہت سے معانی رکھتا ہے‘‘۔
  • ۱۸ ستمبر کو سی آئی اے کے سابق سربراہ نے کہا کہ ۱۱ ستمبر کے واقعات‘ اسامہ بن لادن کی بجائے صدام حسین کا منظم اور بہت محنت سے تیار کیا‘ منصوبہ لگتے ہیں۔
  • ۲۱ ستمبرکو نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ بعض اہم امریکی ذمہ داران جن میں نائب وزیردفاع پال وولوویٹس اور نائب صدر ڈیک چینی کے سٹاف آفیسرلوئس لیبی بھی شامل ہیں کوشش کر رہے ہیں کہ عراق کو بھی حملے کی زد میں آنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا جائے۔ اخبار نے لکھا کہ متعدد ذمہ دار اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ صدام حسین کا کوئی تعلق ۱۱ستمبر سے نہ بھی ثابت ہو پھر بھی اس سے چھٹکارا پا لیا جائے۔
  • ۲۵ ستمبر کو کولن پاول نے کہا: ’’ہم صدام حسین کے متعلق کسی وہم کا شکار نہیں۔ وہ ہمارے اور خطے کے بارے میں اچھے ارادے نہیں رکھتا۔ وہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا اسلحہ تیار کر رہا ہے‘‘۔ مزید کہا: ’’ہم نے ۱۰ سال اسے اپنے کنٹرول میں رکھا ہے اور مزید رکھیں گے اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ جب بھی ضرورت ہوئی ہم اس پر حملہ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں‘‘۔
  • ۳۱ اکتوبر ۲۰۰۱ء اسرائیلی وزیرخارجہ پیریز نے نیوزویک کو انٹرویودیتے ہوئے کہا: ’’میرا خیال ہے عراق ان ممالک کی فہرست میں پوری طرح شامل ہے جن پر حملہ کیا جانا ہے لیکن یہ معاملہ محض عسکری تدبیر سے تعلق رکھتا ہے کہ ایک ہی وقت میں دو محاذ کھولنا ہیں یا باری باری‘‘۔

بیانات‘ رپورٹوں اور تجزیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس میں امریکی ارادوں اور صہیونی خواہشات چھلکتی دکھائی دیتی ہیں۔ ۱۹۹۱ء کی امریکی عراقی جنگ کے بعد بڑے بش نے کہا تھا کہ ’’اب عراق کی راکھ پر ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھی جائے گی‘‘۔ تب اعلان کیا گیا کہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ حل ہونے کے بعد دنیا ایک نیا مشرق وسطیٰ دیکھے گی۔ ۱۹۹۳ء میں دو سال کے خفیہ مذاکرات کے بعد اوسلو معاہدہ سامنے آیا۔ ۲۰۰۰ء تک ہر ممکنہ طریقے سے اس معاہدے اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے کئی معاہدوںکو نافذ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی تاآنکہ فلسطین میں تحریک انتفاضہ کا ایک نیا مرحلہ شروع ہو گیا جو تمام صہیونی امریکی ہتھکنڈوں کو ناکام بناتے ہوئے ابھی تک جاری ہے۔ صہیونی ریاست تمام تر امریکی و مغربی امداد کے باوجود اقتصادی لحاظ سے ۵۰سال پیچھے چلی گئی ہے۔ اعداد و شمار گواہی دے رہے ہیں کہ صہیونی ریاست میں ایسا اقتصادی بحران ۱۹۵۳ء کے بعد پہلی بار دیکھنے میں آ رہا ہے۔

اب ایک نئے زاویے سے ’’نئے مشرق وسطیٰ‘‘کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ دہشت گردی‘ ۱۱ستمبرسے تعلق‘ تباہ کن اسلحہ‘ اسلحہ انسپکٹروں سے عدم تعاون‘ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا نافذ نہ کرنا‘ جمہوری اقدار کی نفی… سب تجارتی اشتہارات ہیں۔ اصل مقصد افغانستان کے بعد ایک نیا نشانِ عبرت وجود میں لانا ہے‘ جس کی لاٹھی لہرا کر پوری دنیا کو باور کروانا ہے کہ ’’أنا ربکم الاعلٰی‘‘۔

عراق میں سعودی عرب کے بعد دنیا کا سب سے بڑا تیل کا ذخیرہ ہے۔ صدربش کے سابق اقتصادی مشیر لارنس لینڈسائی نے واضح طور پر کہا تھا کہ ’’عراق کے خلاف فوجی کارروائی کا اصل ہدف تیل ہے‘‘۔عراق اس وقت پابندی کے باوجود بھی ’’تیل بمقابل غذا‘‘ فارمولے کے مطابق ۲۴ لاکھ بیرل تیل یومیہ نکالتا ہے جو تیل کی عالمی پیداوار کا ۳.۳ فی صد ہے‘ جب کہ زیرزمین ذخیرے کی مقدار ۵.۱۱۲ ارب بیرل ہے‘ جو دنیا کے مجموعی ذخیروں کی ۱۵فی صد ہے اور الاسکا سمیت امریکہ کے تمام ذخائر سے چار گنا زیادہ ہے۔ عراقی تیل نکالنے پر فی بیرل ایک سے ڈیڑھ ڈالر خرچ ہوتے ہیں‘ جب کہ شمالی امریکہ میں یہ لاگت ۲۱ ڈالر اور جنوبی امریکہ میں ۸۱ڈالر فی بیرل آتی ہے۔ عراقی تیل اپنے معیار کے اعتبار سے بھی اعلیٰ تر ہے۔

اب اگر خاکم بدہن عراق پر امریکی قبضہ ہو جاتا ہے اور ڈیڑھ لاکھ امریکی و برطانوی فوجی وہاں تین سے پانچ سال تک کے عرصے کے لیے براجمان ہوجاتے ہیں (جیسا کہ اعلان کیا جا رہا ہے) تو اسے ’’پولوسٹپ‘‘ قراردیاجا رہاہے‘ یعنی ایسی بنیادی اور کاری ضرب کہ جس سے مضبوط مرکز زیر ہو جائے اور پھر تمام کمزور مراکز خود بخود شکست سے دوچار ہوتے چلے جائیں۔

اس جنگ میں کتنے وسائل جھونکے جائیں گے؟ مختلف اقتصادی ماہرین مختلف اندازے بتا رہے ہیں۔ ۵ دسمبر ۲۰۰۲ء کے نیویارک ریویو آف باکس میں کہا گیا کہ ’’اگر جنگ مختصر ہوئی تو اس پر ۵۰ ارب ڈالر خرچ ہوں گے جس کے بعد ۷۰ ارب ڈالر مزید درکار ہوں گے تاکہ جنگ کے نتائج پوری طرح حاصل کیے جاسکیں اور اگر جنگ طویل ہوئی تو اخراجات ۱۴۰ ارب ڈالر تک بڑھ سکتے ہیں جس کے بعد ڈیڑھ کھرب ڈالر مزید درکار ہوں گے۔ لیکن اگر امریکہ عراق اور خلیج کے تیل پر قبضہ مستحکم کر لیتا ہے تو ان اخراجات کی حیثیت‘ ان سے حاصل ہونے والے فوائد کے مقابل کچھ بھی نہیں۔

تیل کی قیمت میں صرف ایک ڈالر کی کمی آ جائے تو ایک سال میں امریکہ کے اخراجات چار ارب ڈالر کم ہو جاتے ہیں۔ ۱۹۹۸ء میں ایک بیرل کی قیمت ۳.۱۲ ڈالر تھی جو ۱۹۹۹ء میں ۸.۱۷ ڈالر اور ۲۰۰۰ء میں ۶.۲۷ ڈالر فی بیرل ہوگیا تو تمام امریکی حسابات تلپٹ ہوکر رہ گئے۔ ۱۹۷۴ء سے ۱۹۸۳ء کے دوران امریکہ کو صرف پٹرول کی تجارت میں تقریباً ۲۷ ارب ڈالر سالانہ بچت ہوتی تھی جو اب ۴۶ ارب ڈالر سالانہ خسارے میں بدل چکی ہے۔

یہ اعداد و شمار تو صرف جنگ کے امریکی اخراجات‘ عالمی تجارت اور خطے کے ممالک پر اس کے کیا بد اثرات مترتب ہوں گے اس کی کسی کو کوئی پروا نہیں۔ رہی لاکھوں انسانی جانیں‘تو ان کی کیا حیثیت‘ وہ کوئی نیلے خون والے امریکی تو نہیں کہ ان کی بھی فکر کی جائے۔

امریکہ تو اپنے ان اقتصادی‘ سیاسی‘عسکری‘ ثقافتی اور صہیونی مفادات کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر تیار‘ بلکہ باولا ہوا جا رہا ہے لیکن مسلم ممالک جو اس جارحیت کا اصل شکار ہیں انھیں دشمن ہی سے نہیں اپنے آپ سے بھی غافل کیا جا رہا ہے۔ جنوری اور فروری جنگی تیاریوں کے حوالے سے حساس ترین تھے اور پاکستان ہی میں بسنت کا جنون نہیں مراکش‘ لبنان‘اُردن‘ قطر‘ امارات اور مسقط عمان سمیت متعدد ممالک میں میلے‘ جشن اور ہاؤہو کا طوفان عروج پر تھا اور اب بھی کسی نہ کسی حوالے سے جاری ہے۔ بسنت میں جب یہاں امریکی مشروب ساز اداروں کی طرف سے اشتہاری اور ہلاکتی مہم عروج پر تھی‘ عین انھی دنوں امریکہ میں یہ مہم چل رہی تھی کہ فورویل گاڑیاں بند کی جائیں کیونکہ ان میں پٹرول کی کھپت زیادہ ہوتی ہے۔ ہم پٹرول زیادہ کھپائیں تو دہشت گرد ممالک کو پیسہ زیادہ ملتا ہے ‘ جس سے وہ ہمارے خلاف دہشت گردی کرتے ہیں‘‘۔ سعودی عرب کو اس مہم کا زیادہ نشانہ بنایا گیا۔

ایک طرف دشمن کی تیاری اور منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے‘ دوسری طرف اُمت مسلمہ نے صف بندی بھی نہیں کی ہے۔ ہمیں اس ربانی فیصلے میں تو ادنیٰ شک و شبہ نہیں ہے کہ: وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o(الصف ۶۱:۸)’’کافر کتنا ہی ناپسند کریں‘ اللہ اپنا نور مکمل کرکے رہے گا‘‘۔ لیکن اے قوم! اے سربراہانِ قوم!! غلبہ اور جیت تو ایمان و علم و عمل سے حاصل ہوتا ہے‘ کائنات کے رب پر ایمان اور کائنات میں ہر طرف بکھرے علوم تک رسائی اور پھر اجتماعی جدوجہد۔