بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کا یہ مضمون آج سے ۸۲ سال پہلے ۲۲ جون ۱۹۲۰ء کے روزنامہ زمیندارلاہور میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت برطانوی استعمار مسلم دنیا کے حصے بخرے کرنے میں مصروف تھا۔ آج پس کردار امریکہ (برطانیہ کے تعاون سے) انجام دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس خطرناک کھیل کا سب سے عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ سامراجی قوتیں مسلمانوں کو بانٹنے اور ان میں سے کچھ کو دوسروں کے تعاون یا کم از کم خاموش تائید سے مغلوب کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ یہ کھیل ۵۰۰ سال سے کھیلا جا رہا ہے لیکن مسلمانوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں اور جو بڑے دانش ور بنتے ہیں وہ یہ فلسفہ بگھارنے سے نہیں تھکتے کہ ہماری باری نہیں آئے گی۔ ہم ’’دوستوں‘‘کی پناہ میں رہیں گے۔ تاریخ کا المیہ یہی ہے کہ اس سے کم ہی لوگ سبق سیکھتے ہیں۔ جو سبق سیکھ لیتے ہیں وہی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ آج شرق اوسط کے نئے نقشے (restructuring) کا جو ڈراما رچایا جا رہا ہے وہ اس سے مماثل ہے جو سو سال پہلے دولت عثمانیہ کے ٹکڑے کرنے کے لیے کیا گیا تھا‘ افغانستان اور عراق اس جنگ کا پہلا مرحلہ ہیں۔ سید مودودیؒ کا یہ مضمون ان کی بالغ نظری اور تاریخی فہم کا شاہکار ہی نہیں آج کی اُمت مسلمہ کی آنکھیں کھولنے کے لیے بھی ایک تازیانے سے کم نہیں۔ یہ مضمون سید مودودیؒ نے اس وقت لکھا تھا جب وہ ۱۷ سال کے نوجوان تھے۔ (مدیر)
ایک ترک مدبر کا یہ قول کتنا صحیح اور مبنی برحقیقت ہے کہ ’’دنیا کی کسی چیز نے ترکوں کو اس قدر نقصان نہیں پہنچایا جس قدر انگریزوں کی دوستی پر اعتماد اور ان کی ایمان داری پر حُسنِ ظن نے پہنچایا‘‘۔
۱۵۸۷ء میں جب اسپین کا بادشاہ فلپ ثانی اپنا عظیم الشان بیڑہ لے کر انگلستان پر حملہ آور ہو رہا تھا تو ملکہ الزبتھ نے سلطان مراد سے نہایت الحاح و زاری کے ساتھ مدد کی درخواست کی تھی۔
’’اگر حضور والا اپنی عظیم الشان سلطنت کی پوری بحری طاقت بھیجنے پر تیار نہیں تو خدارا ساٹھ ستر ہی جنگی جہاز بھیج دیجیے تاکہ اسپین کے اس بت پرست بادشاہ کو سزا دے جو پوپ اور تمام بت پرستوں کی مدد کے غرور پر انگلستان کو تباہ کرنے کے درپے ہے اور پھر اس کا ارادہ ہے کہ انگلستان کو فتح کرکے جناب کی مملکت پر حملہ کرے اور دنیا کا بادشاہ بن جائے۔ اگر آلِ عثمان کا پرشکوہ فرماں روا اور انگلستان کی ملکہ‘ اسپین کی بڑھتی ہوئی ہوس کو دبانے کے لیے متحد ہوجائیں تو نہ صرف اس کا مغرور بادشاہ‘ بلکہ روما کا بت پرست پوپ اور اس کے تمام گمراہ ساتھی تباہ ہو جائیں گے۔ خداوند اپنے نیک بندوں کا محافظ ہے اور وہ ضرور دولت ِ عثمانیہ اور انگلستان کے ذریعے سے دنیا کو بت پرستوں کے وجود سے پاک کر دے گا‘‘۔
اس واقعہ سے تین صدی بعد ہی جب آلِ عثمان کے اس پُرشکوہ بادشاہ کی اولاد کی حالت پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو خدا کی قدرت کا عجیب تماشا نظر آتا ہے کہ اسی آلِ عثمان کے شہنشاہ کو اسی ملکہ الزبتھ کے فرزند درئہ دانیال لے کر‘تھریس لے کر‘ آبنائے باسفورس لے کر اگر قسطنطنیہ میںرہنے کی اجازت دیتے ہیں تو لارڈ چمسیفرڈ کے نزدیک یہ بھی ’’ان کا ایک احسان ہے‘‘۔
کیا ہم سامراجیوں کو اپنا دوست سمجھ سکتے ہیں؟
ترکی کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والا وتعزّمن تشاء وتزلّ من تشاء کی صداقت پر سب سے زیادہ مضبوط ایمان رکھنے والا ہوگا۔ ترکی کی بدقسمتی کا آغاز تو اٹھارہویں صدی سے شروع ہوگیا تھا۔ اور اس ’’مردبیمار‘‘ کے لیے ڈیڑھ دو سو برس پہلے سے ہی یورپ سے نکل جانے کا نسخہ تجویز کیا گیا مگر واقعہ یہ ہے کہ ’’دنیا کی کسی چیز نے ترکوں کو اس قدر نقصان نہیں پہنچایا‘ جس قدر انگریزوں کی دوستی پر اعتماد اور ان کی ایمان داری پر حسنِ ظن نے پہنچایا ہے‘‘۔
پیٹراعظم اور نکولس تو ترکوں کو یورپ سے نکل جانے کی نصیحت کرتے مرگئے۔ مگر آج الزبتھ کے فرزندوں نے محب ِ شفیق اور رفیقِ صمیم بن کر انھیں نہ صرف یورپ سے بلکہ دنیا سے نکل جانے کا پیام سُنا دیا ہے۔
لیکن یہ عجیب معمّہ ہے کہ ترکوں کی عظیم الشان سلطنت کو ریاستِ نظام بنا کر بھی انگریز اپنے آپ کو ترکوں کا دوست کہتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے۔ اینگلو انڈین کو تو جب کبھی اس لڑائی اور اس تباہی کا الزام ترکوں پر رکھنا ہوتا ہے تو وہ نہایت سنجیدگی سے کہہ دیتا ہے کہ ’’ہم ترکوں کے ہمیشہ دوست بنے رہے۔ مگر انھوں نے ہم سے دشمنی پیدا کی‘‘--- لیکن صداقت اور سچائی کے جنازے پر مجھے بہت آنسو بہانے کی ضرورت ہوئی جب میں نے لارڈ چمسیفرڈجیسے ذمہ دار شخص کی زبان سے یہ سُنا کہ ’’اس جنگ سے پہلے انگریزوں کے تعلقات ترکوں سے نہایت دوستانہ رہے ہیں‘‘۔ تعجب ہے انگلستان کا اتنا بڑا آدمی جسے ملکِ معظم نے ہندوستان پر اپنا نائب بناکر بھیجنے کے لائق سمجھا‘ اس تہذیب و تمدن کے زمانے میں ایسی شدید بے باکی سے اتنا صاف جھوٹ بول سکا۔میں یقین نہیں کرسکتا کہ لارڈ چمسیفرڈ نے دوستی کا لفظ اسی مفہوم کے لیے استعمال کیا ہے جو اس لفظ کے لیے ہمارے دماغوں میں ہے۔ کیا کریمیا میں ساتھ دینے کے ایک دو سال بعد ہی جدّہ پر گولہ باری کرنے والے کو ہم دوست کہہ سکتے ہیں؟ کیا عہدنامہ سین سٹی فانو کی سختیوں کو کم کرانے کا وعدہ کرکے خود قبرص لینے اور آسٹریا کو بوسنیا اور ہرذی گونیا دلوانے کو ہم دوست کہہ سکتے ہیں؟ کیا محمدعلی والی ٔ مصر کی بغاوت میں اسکندریہ پر گولہ باری کرانے اور تمام مصر پر قبضہ کرنے والے کو ہم دوست کہہ سکتے ہیں؟ یقینا ہماری مصطلحاتِ سیاست سے ناآشنا زبان میں دوست اور دوستی کی تعریف اس سے جدا ہے۔ مگر برطانوی لغت میں دوست اسی کو کہتے ہیں جس کے بارے میں مرزا غالب نے کہا تھا ؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
اس دوستی کا مفہوم ہمیشہ کے لیے سمجھ لیجیے
انگریزوں کی اسی دوستی کی حیرت انگیز تاریخ اگر لکھنا چاہوں تو شاید کئی جلدوں میں تیار ہو۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ وثائق و حقائق کے دفتر سے انگریزی دوستی کی پوری تشریح کر دوں‘ تاکہ آیندہ اگر کسی انگریز کے منہ سے ’’دوستی‘‘ کا لفظ نکلے تو لوگوں کو اس کے سمجھنے میں کوئی دقّت نہ ہو۔
یہاں میں اٹھارہویں صدی سے آخری جنگ روس تک کے چند واقعات پیش کرتا ہوں۔
ہر شخص جانتا ہے کہ روس ابتدا سے ترکوں کا جانی دشمن رہا ہے۔ اس دشمنی کا جوش پیٹر کے بعد اس کی بیوی کتھرائن میں بہت زیادہ موجزن تھا۔ اس کو مشیروں نے مشورہ دیا کہ اب تک تو ترکوں پر بّری حملے کیے گئے تھے۔ مگر اب ایک بحری حملہ بھی کرنا چاہیے۔ چنانچہ تجویز ہوئی کہ بحیرئہ بالٹک سے یورپ کا چکر کاٹ کر بحیرئہ روم میں جہاز داخل کیے جائیں اور درّۂ دانیال پر حملہ کرکے قسطنطنیہ چھین لیا جائے۔ انگریز اس تجویز کے حامی تھے اس لیے یہ رائے قرار پائی کہ روسی بیڑہ انگلستان کی بندرگاہ میں جاکر جملہ سازوسامان سے آراستہ کیا جائے اور کپتان اور ملاح بھی وہیں سے حاصل کیے جائیں۔ چنانچہ فوراً تیاریاں شروع ہوئیں اور روسی جہاز انگلستان پہنچ گئے۔ یہاں بیڑہ تیا رکیا گیا۔ امیرالبحر انفنسٹن اور بہت سے انگریزی کپتان اس پر سوار ہوئے اور انگریزوں ہی کی مدد سے یہ جہاز اتنا طویل سفرطے کر سکے۔
انگریزی حکومت نے اسپین اور فرانس کی حکومتوں کو لکھ دیا کہ اگر ترکوں کی حمایت میں تم نے اس بیڑے کو کوئی نقصان پہنچایا تو پہلے سے اعلانِ جنگ قبول کرلو--- آخر انگریزوں کی کوشش سے یہ بیڑہ ۱۷۶۹ء میں بحیرئہ روم میں داخل ہوا۔ اور ۱۷۷۰ء کی ابتدا میں شام کے سواحل پر پہنچ گیا۔ قسطنطنیہ پر حملہ نہ کیا جا سکا۔ لیکن محض انگریز افسروں کی ہوشیاری سے نہ صرف یہ بیڑہ بچ کر نکل گیا بلکہ بندرچشمہ پر تمام ترکی بیڑہ صرف انھی کی چالاکی سے تباہ ہو گیا۔ ورنہ روسی امیرالبحر اورلوف تو تمام بیڑے کو خطرے میں ڈال چکا تھا۔
اس جنگ کا سلسلہ عرصہ تک جاری رہا۔ فرانس ترکوں کی مدد کرنا چاہتا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ کسی طرح ترکی کی حمایت کا موقع مل جائے مگر انگلستان کی مخالفت کا ڈر تھا اس لیے مجبوراً خاموش رہا۔
لڑائی میں برابر نقصان اٹھانے اور زیادہ طویل عرصہ تک سلسلہ جنگ جاری رہنے سے بیزار ہوکر وزراے عثمانیہ نے خفیہ طریقہ سے آسٹریا سے مصالحت کرانے کی درخواست کی۔
’’باوجودیکہ انگریزی جہاز اور فوجیں روسی بیڑے میں شامل ہیں انگریزوں کو ثالث بنتے ہوئے شرم نہیں آئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ثالث بن کر وہ ہم کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں‘‘۔
’’دوسری عیسائی قومیں تو کچھ نہ کچھ سچی بھی ہیں۔ مگر انگریزوں کے قول و فعل کا توکسی طرح اعتبارہو ہی نہیں سکتا‘‘۔
’’تمھارا معبود صرف پیسہ ہے۔ تمھارا مذہب صرف طمع ہے اور بس--- تم نے عیسائیت کو محض دھوکابازی کے لیے ایک آڑ بنایا ہے جو تمھاری مکّاری و بدنیتی کی پردہ دری کر رہی ہے‘‘۔
اس حملہ کی تجویز روسیوں کی تھی اور جہاز بھی زیادہ تر روسی تھے‘ اس لیے مجبوراً اسے روسیوں ہی سے منسوب کرنا پڑتا ہے لیکن درحقیقت اسے انگریزی مہم کہنا چاہیے۔ کارآمد افسر انگریز تھے۔ اس زمانہ کا بہترین سامان جنگ انگریزی تھا۔ پورا سفر صرف انگریزی کوششوں سے ہوسکا اور کامیابی محض انگریزوں کی بدولت ہوئی۔ پھر اس حملہ کو انگریزی حملہ کہنے میں کون سی چیز مانع ہے۔
سرویا کے معاملات میں دل چسپی لینے اور برابر غاصبانہ ارادوں سے دلاشیا اور مالڈیویا کے حکام اعلیٰ سے بغاوت کراتے رہنے کی وجہ سے روس اور ٹرکی کے تعلقات نہایت کشیدہ تھے۔ روس نے جو مطالبات پیش کیے تھے وہ دلاشیا اور مالڈیویا سے ٹرکی کے اقتدار کا بالکل خاتمہ کرنے والے تھے--- انگریز اس وقت بھی روس کے ساتھی تھے یعنی لارڈ چمسیفرڈ کی زبان میں ترکوں کے ’’دوست‘‘ تھے اور روسی سفیرکے ساتھ معاملات طے کرانے کے لیے انگریزی سفیرآرتھ ناٹ بھی قسطنطنیہ آیا ہوا تھا۔ سفراء بابِ عالی سے گفتگو کر رہے تھے اور ابھی کوئی تصفیہ نہ ہوا تھاکہ روس نے بلااعلانِ جنگ دلاشیا اور بالڈیویا پر حملہ کر دیا اور باقی صوبوں پر تصرف کرکے بلغاریہ کی طرف بڑھنے لگا۔ ظاہر ہے کہ یہ حرکت بالکل خلافِ آئین اور سخت وحشیانہ تھی۔ روسی سفیرنے بہت افسوس کا اظہار کیا اور قسطنطنیہ سے چلا گیا۔ مگر انگریزی سفیرنے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ دولت ِ عثمانیہ کے سامنے چند عجیب و غریب شرطیں پیش کیں۔ مثلاً:
۱- نپولین کے سفیرکو (جو روس کے مقابلہ میں دولت ِ عثمانیہ کو بہت ہمت دلا رہا تھا) قسطنطنیہ سے نکال دو۔
۲- مالڈیویا اور دلاشیا روس کو دے دو۔
۳- درّہ دانیال کے قلعے اور توپ خانہ ہمیں دو۔ ورنہ ہم قسطنطنیہ پر حملہ کر دیں گے وغیرہ وغیرہ۔
’’آپ کو انصاف سے کام لیناچاہیے۔ روس نے بلااعلانِ جنگ ہمارے ملک پر حملہ کر دیا اور برابر خلاف آئین و خلافِ تہذیب حرکات کررہاہے۔ مگر ہم صرف امن کی خاطر یہ سب ذلّتیں برداشت کر رہے ہیں۔ جلالت سلطانی نے دلاشیا اور مالڈویا کے باغی گورنروں کو محض امن کی خاطر بحال کرنے کی بھی ذلّت گوارا کر لی ہے۔ مگر پھر بھی روس اپنی حرکات سے باز نہیں آتا۔ لہٰذا اب ہم اعلانِ جنگ پر مجبور ہیں۔ اور ہمارے اُوپر فرض ہے کہ اپنی حفاظت کریں۔ میں امید کرتا ہوں کہ انگریز ہماری امن پسندی اور صبروتحمل کی ضرور قدر کریں گے۔ لیکن اگر وہ اس صریح خلافِ آئین ظلم کے بعد بھی روس کی مدد پر آمادہ ہیں تو ہم مدافعت کا ارادہ کرچکے ہیں۔ اور اگر ترکی کی قسمت میں بربادی ہی ہے تو یقین رکھو کہ وہ آخر وقت تک اپنی عزت کے لیے لڑتا رہے گا‘‘۔
اس کے بعد مزید نامہ و پیام نہایت تہدید آمیز انداز میں ہوتا رہا اور آخرکار جنوری ۱۸۰۷ء کو انگریزی بیڑہ امیرالبحرڈک ورتھ کے ماتحت طمنی ڈرس پہنچ گیا۔ ۱۹ فروری کو عین عیدالفطر کے دن جب کہ ترک عید کی مسرتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے‘ انگریزی بیڑہ کسی اعلانِ جنگ کے بغیر درّہ دانیال میں داخل ہو گیا۔ یہ وقت دولت ِ عثمانیہ کے لیے بہت نازک تھا۔ انگریزی بیڑہ جزائر شہزادگان تک پہنچا۔ وہاں ٹھہر کر انگریزی سفیرآرتھ ناٹ نے دوبارہ اپنے مطالبات باب عالی کے پاس بھیجے اور دھمکی دی کہ انھیں قبول کرلو ورنہ قسطنطنیہ پر گولہ باری کی جائے گی۔ سلطان کو وزرا نے مشورہ دیا کہ فرنچ سفیرکو دارالخلافہ سے چلے جانے کا حکم دیا جائے۔ مگر فرنچ سفیر نے اس کی نہایت شدومد کے ساتھ مخالفت کی اور سلطان کے سامنے ایسی پُرجوش تقریر کی کہ سلطان نے فوراً مدافعت کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اور دیکھتے دیکھتے تمام سامان تیار ہو گئے۔ انگریزی امیرالبحر نے جب دیکھا کہ قسطنطنیہ تو خطرے سے نکل گیا مگر ہم مصیبت میں پھنس گئے تو وہ فوراً درّہ دانیال سے بھاگا۔ مگر پھر بھی اس کے چند جہاز غرق کر دیے گئے۔ درّہ دانیال میں کافی نقصان اُٹھا کر انگریزی بیڑہ مالٹا چلا گیا اور کوشش شروع کر دی کہ ترکوں کے کسی اور صوبہ پر حملہ کا موقع ہاتھ آجائے۔
اس زمانہ میں محمدعلی پاشا اور مملوکیوں کے درمیان مصر میں لڑائی ہو رہی تھی۔ انگریزوں کی تاریخ میں ایسے موقعوں پر فائدہ نہ اُٹھانے کی منحوس مثال ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گی۔ وہ فوراً پانچ ہزار سپاہی لے کر اسکندریہ اور اسے فتح کرکے قاہرہ کی طرف بڑھے۔ محمد علی پاشا مقابلہ کے لیے نکلا اور پے درپے شکستیں دیتا ہوا اسکندریہ تک پسپا کرتا چلا گیا۔ وہاں چند مہینے محصور رہے اور بصد حسرت و یاس ڈیڑھ ہزار جانیں لے کر رخصت ہو گئے۔
۱۸۴۱ء میں محمد علی پاشا نے خود سلطان کے خلاف بغاوت کر دی۔ اور اس کی فوجیں قسطنطنیہ سے تھوڑے ہی فاصلہ پر رہ گئیں۔ سلطان محمد مرحوم نے مجبوراً بہت کمزور شرائط پر صلح کرلی۔ دوبارہ چند ہی برسوں کے بعد اس نے پھر ۱۸۳۹ء میں بغاوت کی اور خراج دینے سے انکار کر دیا۔ اور روضہ نبوی پر سے ترکی محافظین و خدام کو علیحدہ کرکے مصریوں کو مقرر کیا۔ سلطان عبدالمجید مرحوم حرم کا تصفیہ کرنے اور تمام حرکات سے چشم پوشی کرنے پر تیار ہو گئے تھے کہ دول عظمیٰ نے انھیں روکا اور مدد کا وعدہ کیا--- دول کے ساتھ انگریزوں نے بھی فوجی مدد کا وعدہ کیا تھا لیکن فوراً ہی اپنے اس وعدے کی قیمت میں عرب کی بہترین بندرگاہ عدن پر بھی قبضہ کرلیا۔ یہ واقعہ ایک روسی جنرل نے عجیب و غریب لکھا ہے:
’’انگریزوں کو ہندوستان کے راستہ میں ایک بحری مستقرکی ضرورت تھی۔ اس کے لیے عدن سے بہترین مقام اور کون سا ہو سکتا تھا۔ اس کے حاصل کرنے کے لیے انگریزوں نے جو تدبیر استعمال کی‘ اس کی نظیر صرف انھی کی تاریخ میں مل سکتی ہے۔ انھوں نے ایک انگریز کمپنی کے جہاز کو عدن کے قریب سمندر میں غرق کر دیا۔ اور پھر فوراً اس کی حمایت کے لیے پہنچ گئے۔ جہاز کے غرق ہونے کا الزام عدن کے عربوں پر لگایا اور شیخ یمن کو گولہ باری کی دھمکی دی۔ وہ بے چارہ اس آفت سے سہم گیا اور مجبوراً تاوانِ جنگ جیب میں رکھ کر ان حضرات نے شیخ کو عدن کی فروخت پر آمادہ کر لیا اور بہت سی رقم کا لالچ دے کر بیع نامہ لکھوا لیا۔ جب قیمت ادا کرنے کا وقت آیا توشیخ کی خاص مُہرکسی طرح چُرا کر یا چوری کرا کے رسید پر لگا لی اور قانوناً شیخ کو ایک پیسہ دیے بغیر عدن پر قبضہ کر لیا۔ سلطان ترکی اس وقت اپنی ہی مصیبت میں پھنسے ہوئے تھے‘ عدن کی کیا فکر کرتے‘‘۔
اس واقعہ کی صحت و عدم صحت کا ذمّہ دار تو جنرل فیڈروف ہے لیکن اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ عدن پر انگریزی قبضہ آج بھی موجود ہے۔