مارچ ۲۰۰۳

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| مارچ ۲۰۰۳ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

سلیم منصور خالد‘گوجرانوالہ

پردے کی بحث میں محترمہ رخسانہ جبیں کے مدلل مقالے ’’آیاتِ حجاب و ستر اورموڈریٹ اسلام‘‘ اور ’’رسائل و مسائل‘‘ (فروری ۲۰۰۳ئ) میں پروفیسرخورشید احمد صاحب کے متوازن جواب نے دلیل‘ یکسوائی اور عدل پر مبنی نقطۂ نظر اختیار کرنے کی راہ سجھائی‘ تاہم مضمون کو ’’عالم نسواں‘‘ کے حصے سے منسوب کرنا مناسب دکھائی نہیں دیتا۔ سماجی علوم کی مردانہ‘ زنانہ تقسیم کو ایک غیرفطری اور غیرمحتاط رویہ کہا جاسکتا ہے۔ مقالات کو اپنے موضوع کے اعتبار سے سماجیات‘ معاشیات‘ سیاسیات‘ نفسیات وغیرہ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ’’پردے‘‘ کو عالم نسواں کا مسئلہ قرار دینا درست نہ ہوگا۔ یہ صرف عورتوں کا نہیں بلکہ معاشرے اور تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔


ڈاکٹر منصور علی‘ لاہور

ازراہِ کرم ترجمان القرآن میں قرآنی آیت / آیات لکھتے وقت اختصار اور جگہ کی کمی کو دل میںجگہ نہ دیں۔ پوری آیت یا آیات لکھا کریں۔ اس کے بے شمار فائدے ہیں۔


شمس الاسلام‘ پشاور

علامہ یوسف القرضاوی کی تحریر ’’انسانی کلوننگ‘‘ (فروری ۲۰۰۳ئ) اپنے موضوع پر ایک جامع اور مفید مضمون ہے۔ خدشہ ہے کہ فرائیڈ کے پیروکار ’’کلوننگ‘‘ کے نتیجے میں بننے والے انسانوںکو اخلاق اور احترامِ انسانیت کا جنازہ نکالنے کے لیے استعمال کریں گے۔ اس کی فکر کی جانی چاہیے۔


نیراقبال ‘ لاہور کینٹ

ترجمان القرآن کی تمام تحریروں میں اصلاحی‘ اخلاقی اور دینی رنگ غالب ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے ہر ماہ پرچے کا انتظار رہتا ہے۔ خدا کرکے اپنی مقصدیت اور روایات کے ساتھ یہ اِسی طرح روشنی بکھیرتا رہے۔ ’’دل کی زندگی: اعمال کا مدار‘‘ (جنوری ۲۰۰۳ئ) میں حدیث کی تشریح جس طرح سلیس زبان مگر عالمانہ انداز میں کی گئی ہے تعریف کی محتاج نہیں ۔ ’’موڈریٹ اسلام کی تلاش‘‘ (جنوری ۲۰۰۳ئ) سے اندازہ ہوا کہ مغرب کی چال بازیاں کتنی منظم ہیں اور ہم کتنے بے خبر! ’’تحریک اسلامی سینیگال‘‘ (جنوری ۲۰۰۳ئ) پڑھ کر اندازہ ہوا کہ تعلیم کا میدان کتنا اہم ہے مگر ہم اس کو وہ اہمیت نہیں دے رہے جو اس کا تقاضا ہے۔


اے - مراد لعل ‘ چترال

’’موڈریٹ اسلام کی تلاش‘‘ (جنوری ۲۰۰۳ئ) میں اغیار کی سازش سے بروقت متنبہ کیا گیا ہے۔ ایف بی آئی کے نام پر معزز شہریوں کو تنگ کر کے چنگیزی دَور کی یاد تازہ ہوگئی۔ اللہ جانے آیندہ یہ کیا کیا گل کھلائے گی۔ شذرات کے ذریعے بروقت گرفت ہوئی۔


مولانا ایاز احمد حقانی ‘ پشاور

’’اشارات‘‘ کے ساتھ شذرات کا اضافہ خوش آیند ہے۔ یہ سلسلہ جاری رکھیں۔ اس سے حکومت کے اقدامات سے آگہی بھی ہوگی اور گرفت اور تنقید بھی۔


راجا محمد ظہور ‘ ساہیوال

ترجمان کی طرزِ ادا مزید سہل بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ایف اے تک کے تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے بھی سمجھنا آسان ہو۔ اب وہ پہلا سا دور تو نہیں۔ علم کی سطح کافی نیچے چلی گئی ہے۔ اس سلسلے میں مدیر کا حق تغیروتبدل (معنوی نہیں لفظی) تو اپنی جگہ مسلمہ ہے۔


عبدالغفار عزیز ‘ لاہور

اشارات (فروری ۲۰۰۳ئ) میں strategy کا ترجمہ تزویر اور اس سے تزویری کیا گیا ہے۔ عربی اور اُردو میں عام طور پر انگریزی لفظ ہی کو الاستراتیجیۃ اور اسٹرے ٹیجی میں بدل جاتا ہے۔ تزویر لفظ زُور سے مشتق ہے۔ قول زور اور زور و بہتان اُردو میں بھی مستعمل ہے۔ تزویر میں بھی یہی معانی پنہاں ہیں۔ تزویر تو خاص طور پر جعل سازی اور دھوکا دہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ’’العملۃ المزوّرۃ‘‘ نقلی سکے کو کہا جاتا ہے۔ انتخابات و معاملات میں دھاندلی کے لیے بھی لفظ تزویر عام استعمال ہوتا ہے۔ اسٹرے ٹیجی اور تزویر میں کوئی بھی قدر مشترک دکھائی نہیں دیتی۔ اس تحریر میں تو structural کا ترجمہ بھی تزویری کر دیا گیا ہے۔ structural  اور strategical میں فرق تو ظاہر وباہر ہے۔پھر ان دونوں الفاظ اور تزویر میں بہت نمایاں فرق ہے۔ اگر عربی ترجمہ ہوتا توstructural  کے لیے ہیکلی استعمال ہوسکتا تھا۔ اُردو میں ہیئت سے مشتق کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح pluralism کا ترجمہ تکثر کیا گیا۔ میری رائے میں تکثرکے بجائے تعدّد زیادہ بہتر ہوتا۔ تکثر میں بڑھوتری اور تکاثر کا مفہوم پایا جاتا ہے۔