مسٹر فورڈ اور مسٹرکسنگر٭کے حالیہ بیانات پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کے سفیدفام لوگ اخلاقی حیثیت سے آج بھی اسی مقام پر ہیں جس پر وہ اپنی تاریخ کے ابتدائی دَور میں تھے۔ اُس وقت انھیں نئی دریافت شدہ دنیا کی زمین اور اس کی دولت مطلوب تھی‘ اس لیے وہاں کے اصل باشندوں سے زبردستی ان کی زمین چھین لینا انھیں سراسر جائز نظرآیا اور اس صریح ڈاکا زنی میں انھوں نے اپنے آپ کو بالکل حق بجانب سمجھا۔ اب اُن کو تیل کی ضرورت لاحق ہے اس لیے وہ اِس بیسویں صدی کی آخری چوتھائی میں کسی شرم و حیا کے بغیر ساری دنیا کے سامنے بے جھجک یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر تیل پیدا کرنے والے ملکوں نے ان کے مفاد کو خطرے میں ڈالا تو وہ فوجی کارروائی کرکے ان کی دولت کے چشموں پر زبردستی قبضہ کرلیں گے۔ یہ باتیں اُن کا کوئی عام راہ چلتا آدمی نہیں کہہ رہا ہے بلکہ خود ان کا صدرِمملکت اور ان کا وزیرخارجہ کہہ رہا ہے اور ان کے پورے ملک میں کوئی ایک اللہ کا بندہ بھی ایسا باضمیر نہیں ہے جو اُٹھ کر ان سے یہ کہے کہ پوری قوم کے نمایندے ہونے کی حیثیت سے دنیا کے دوسرے ملکوں پر ڈاکا مارنے کے یہ ارادے ظاہر کرتے ہوئے تمھیں کچھ تو شرم آنی چاہیے۔
لُطف یہ ہے کہ ان دھمکیوں کا پس منظر خود ان دھمکیوں سے بھی زیادہ شرم ناک ہے جس پر پچھلے ۲۷ برس میں کبھی امریکہ کے لوگوں اور ان کے سیاسی نمایندوں اور ان کے حکمرانوں‘ حتیٰ کہ ان کے مذہبی اور اخلاقی رہنمائوں کے ضمیر نے بھی کوئی خلش محسوس نہ کی۔ پہلے انھوں نے یہ ظلم کیا کہ فلسطین کے عربوں کو ان کے وطن سے جبراً بے دخل کر کے اسے ان یہودیوں کا وطن‘ اور پھر ان کی ریاست بنوایا جو ۲۰ صدیوں سے دنیا بھر میں بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے بعد وہ ان کی اس ناجائز ریاست کو بے حساب مالی‘ فوجی‘ فنی اور افرادی طاقت بہم پہنچاتے رہے یہاں تک کہ وہ پے درپے جارحیت کاارتکاب کر کے عربوں کے مزید علاقے چھینتی اور اپنا تسلط وسیع سے وسیع تر کرتی رہی۔ اس کی ان زیادتیوں پر اسے ٹوکنا تو درکنار‘ امریکہ اُلٹی اس کی پیٹھ ٹھونکتا رہا۔ عربوں کے خلاف ہر جنگ میں اسے خفیہ اور علانیہ ہر طرح کی مدد دیتا رہا ‘ اور شرق اوسط میں توازنِ قوت قائم رکھنے کے بہانے اسے اتنی زبردست فوجی طاقت بناتا رہا کہ تمام عرب ریاستیں مل کر بھی اکیلی اس یہودی ریاست کے مقابلے میں بے بس ہو کر رہ گئیں۔
ا س ظلم کو مسلسل ایک چوتھائی صدی تک برداشت کرنے کے بعد تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک جب اسرائیل کے مددگاروں اورحامیوں کے خلاف تیل کا ہتھیار استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے تو اب بھی امریکہ کا گمراہ ضمیر اسے یہ محسوس نہیں کراتا کہ یہ مظلوم لوگ صرف انصاف حاصل کرنے کے لیے یہ آخری چارئہ کار اختیار کر رہے ہیں‘ اور اس کی اوندھی عقل اُسے یہ نہیں سجھاتی کہ عربوں کے ساتھ اپنی بے انصافی سے باز آکر وہ ہر اُس دشواری کا سدِّباب کرسکتا ہے جو تیل کی بہم رسانی میں واقع ہو سکتی ہے‘ بلکہ اس کے برعکس وہ عربوں کو یہ دھمکی دیتا ہے کہ اگر تم نے ہمارا تیل بند کیا تو ہم فوجی طاقت سے کام لے کر وہ علاقے ہی تم سے چھین لیں گے جن سے تیل نکلتا ہے۔ دوسرے الفاظ میںاس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو بے انصافی ہم نے تمھارے ساتھ کی ہے وہ جاری رہے گی۔ ہمارا برخوردار اسرائیل تمھارے علاقے چھینتا رہے گا اور چھینے ہوئے علاقوں کو واپس دینے سے انکار کرتا رہے گا۔ تم خون کا گھونٹ پی کر اس ظلم‘ اور ذلّت کو گوارا کرتے رہو‘ اور ہمیں تیل بھی دیتے جائو--- لیکن اگر تم نے انصاف حاصل کرنے کے لیے کوئی ایسی حرکت کی جس سے ہم پر دبائو پڑتا ہو تو ہم پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ کر بے انصافی کریں گے کیونکہ ہم سوپرپاور ہیں---
خدا رحم کرے اُس دنیا پر جس میں اِس کردار کی قوم سوپرپاور بن جائے۔ (امریکی صدر اور وزیرخارجہ کی طرف سے تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک کو دی جانے والی دھمکیوں پر تبصرہ‘ ۲۸ جنوری ۱۹۷۵ئ)