جماعت اسلامی پاکستان ملک و ملت کی خیرخواہ تمام قوتوں کو ساتھ لے کر ۲۰ سے ۳۰مارچ ۲۰۰۳ء تک اتحاد اُمت کا عشرہ منا رہی ہے۔ یہ دراصل اس امر کی کوشش ہے کہ خیبر سے کراچی اور گوادر تک بسنے والے پاکستانیوں میں یہ شعور بیدار کیا جائے اور اس احساس کو طاقت ور بنایا جائے کہ ہر مسلمان اُمت محمدؐ کا ایک رکن ہے۔ اُمت کی طاقت اس سے ہے اور اس کی طاقت اُمت سے ہے۔
اتحاد اُمت کی دو سطحیں ہیں اور دونوں ہی اہم ہیں۔ پہلی‘ پاکستان کی سطح پر اور دوسری‘ عالمی سطح پر۔
پاکستان کی سطح پر اگر اُمت کا تصور ایک زندہ تصور ہو‘ اتحاد کا رشتہ اُمت ہو‘ معاشرے کی تنظیم اور سرگرمیاں اُمت کی بنیاد پر ہوں تو یہ ہمارے بہت سے مسائل کا حل ہے۔ صوبائیت اور علاقائیت کے لیے تریاق ہے۔ فرقہ پرستی جو مسائل پیدا کرتی ہے ان کا حل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُمت کا تصور ایک ایسا حیات بخش اور قوت افزا تصور ہے جس کی برکتوں کا احاطہ اسے عملاًاپنانے سے ہی ہوگا۔ یہ صرف ایک نعرہ نہیں جسے کسی وقتی سیاسی ضرورت کے لیے اختیار کیا جائے‘ بلکہ یہ اُمت مسلمہ کی بنیاد ہے۔ جس کو اقبال نے اس اُمت کی خصوصیت اور شناخت قرار دیا تھا اور اسے اس الہامی انداز میں بیان کیا تھا کہ ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ؐہاشمی‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اس تصور کے اصل ثمرات اسی وقت حاصل کیے جا سکتے ہیں جب اس تصور کو خلوص اور ایقان سے اختیار کیا جائے اور اسے ایک طویل المیعاد پالیسی بنایا جائے۔ جب اتحادِ اُمت کی بنیاد تصورِ اُمت ہوگا تو لامحالہ جو اخلاقی معائب ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہے ہیں ان کا علاج ہوگا اور ملک میں اسلام کی تہذیبی اقدار کو فروغ حاصل ہوگا۔ اُمت کا تصور فرزندان اور دختران اُمت میں بجا طور پر احساس فخر پیدا کرے گا جو مفرب سے مرعوبیت اور اس کی نقالی کا توڑ ہوگا۔
عالمی سطح پر اتحاد اُمت کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ ۶۰‘ ۷۰ کے عشروں میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ متعین تجاویز پیش کرتے رہے کہ اتحاد اُمت کے لیے ٹھوس منصوبوں پر کام کیا جائے۔ اگر ان پر عمل کیا جاتا تو شاید اُمت مسلمہ آج عالمی استعمار کی سازشوں کے لیے نرم چارہ نہ بنتی۔ اب‘ جب کہ دشمن دروازے پر دستک دے رہا ہے بلکہ سر پر آیا ہوا ہے اگر اس وقت بھی بیداری کی ایک عام لہر اُمت کی بنیاد پر نظر آجائے تو یقینا دشمن کے لیے اپنے عزائم کی تکمیل ممکن نہ ہو۔
ذکر ہوتا رہتا ہے کہ وسائل کے لحاظ سے اُمت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ نے مالا مال کیا ہے۔ محل وقوع ایسا ہے کہ دنیا پر حکمرانی کرسکتے ہیں۔ لیکن بدنصیبی یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک اُمت سے وابستگی کا احساس کمزور ہے۔ ہماری حکومت کو افغانستان کی تباہی کے لیے کندھے فراہم کرنے میں کوئی تکلف نہ ہوا (اور جانتے بوجھتے اس غلط فہمی کو پھیلایا کہ ہم نے اپنے آپ کو بچالیا ہے)۔ آج جب عراق پر حملے کے لیے امریکہ اپنے دانت تیز کر رہا ہے تو مغربی دنیا تو مجسم احتجاج بن کر کھڑی ہوئی ہے‘دنیا کے ۶۰ ممالک میں ۴۰۰ شہروں میں ۲کروڑ عوام نے ایک ہی دن عراق پر امریکہ کی جارحانہ جنگ کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کیا ہے لیکن اُمت مسلمہ میں بیداری کی رمق تلاش کرنا پڑتی ہے۔حج کا ۲۰ لاکھ مسلمانوں کا اجتماع ہو اور وہاں سے دشمن کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھے! عیدالفطر اور عیدالضحیٰ کے بڑے بڑے اجتماع جکارتہ سے نائیجیریا تک ہر شہر اور ہر قصبے میں سڑکوں پر آکر ۱۰ منٹ کا مظاہرہ کر دیتے تو امریکہ کو حملہ کرنے سے پہلے دس دفعہ سوچنا پڑتا اور اس کے جارحانہ عزائم پر اوس پڑ جاتی۔
حقیقت یہ ہے اُمت کا تصور آج مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اگر یہ رشتہ مضبوط اور توانا ہو‘ ایک عضو کی تکلیف واقعتا سارے جسم کی تکلیف ہو‘ تو مسلمان ایک نئے دَور میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں‘ مسلم اور غیرمسلم ممالک میں جو کوئی بھی احیاے اسلام کے لیے کام کر رہا ہے اس کا فرض ہے کہ اپنے منصوبوں‘ سرگرمیوں اور پروگراموں میں اتحاد اُمت کو اولیت اور ترجیح دے۔ اس حوالے سے جماعت کے عشرۂ اتحاد اُمت میں ملک کے ہر مرد و زن کو شرکت کرنی چاہیے۔
اس سال ملک میں بسنت کی سرگرمیاں جس طرح منعقد کی گئی ہیں وہ سوچنے والوں کے ذہن کے لیے بہت سے سوالات چھوڑ گئی ہیں۔ کیا واقعی ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کے لیے لہوولعب میں اتنی کشش ہے کہ بالکل سر پر منڈلاتے ہوئے خطرات بھی ان سے باز نہ رکھ سکیں؟ کیا حکومت نے تعمیروترقی کے سارے پروگرام مکمل کر لیے ہیں کہ صدر اور گورنر اور صوبہ پنجاب اور لاہور شہر کی ساری انتظامیہ اس ’’مقدس‘‘ سرگرمی میں دل و جان سے مصروف ہو گئیں۔
بسنت منانے کے آغاز کے حوالے سے جو تاریخی روایت مستند طور پر پیش کی گئی ہے اس کے بعد تو یہ بات عقل سے ماورا ہے کہ ہم یہ تقریب اس ذوق و شوق سے منانے پر کیوں مصر ہیں۔ محض تفریح کے لیے کوئی اور سبب کیوں نہیں ڈھونڈھ لیتے؟ یقینا تفریح انسانی زندگی کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی طلب رزق کی جدوجہد‘ اخلاقی اور اجتماعی مقاصد کے لیے محنت اور قربانی۔ یہی وجہ ہے کہ دن اور رات کو کام اور آرام کے لیے الٰہی نشانیاں قرار دیا گیا۔ لیکن اس میں اہم چیز توازن و اعتدال اور ان مقاصد اور حدود کا احترام ہے جو اسلام اور اُمت مسلمہ کا شعار ہے۔ اگر تفریح کے نام پر طاؤس و رباب کے طوفان میں قوم کو بہا لے جانا اور غیروں کی ثقافت اور کلچر کو ہم پر مسلط کرنا ہو تو پھر اسے اجتماعی خودکشی کی طرف ایک اقدام کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ جس طرح اور جس نازک وقت میں اس سال بسنت کے نام پر یہ شرم ناک کھیل کھیلا گیا ہے وہ ان خدشات کو مزید تقویت دینے کا باعث ہے۔
اس سے پہلے بھی اور اس سال بھی اہل درد نے یہ بات بہت شدت سے محسوس کی کہ ان تقریبات میں بڑھتی ہوئی سرکاری سرپرستی کے ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ان کی دیکھا دیکھی دوسرے کاروباریوں نے بھی دل کھول کر حصہ لیا اور کسی کام میں وسائل کی کمی نہ آڑے آئی۔ ایسا معلوم ہوا ہے کہ کوئی سوچا سمجھا پروگرام ہے کہ اس اُمت کو میلوں ٹھیلوں اور تفریحات میں غرق کر دیا جائے تاکہ یہ اپنے اصل مشن اور پروگرام سے غافل ہو جائے اور اخلاقی لحاظ سے اتنی پست ہو جائے کہ کسی حوصلے والے کام کا تصور ہی نہ کرے۔ اس طرح کی تقریبات معاشرے کے مجموعی کلچر پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ خاص طور پر نوجوان نسل ان سے اثر لے کر اپنی زندگی کے لیے رویے تشکیل دیتی ہے۔ معاشرے کو دُوراندیش اور بالغ نظر قیادت میسر ہو تو یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ اپنے شہریوں کو اس طرح کی سرگرمیوں میں مشغول کرے۔
ہم پاکستانی دنیا کی کوئی عام قوم نہیں ہیں‘ نہ کوئی ایسا گروہ ہیںجس کی اپنی تہذیب اور اقدار نہ ہوں۔ ہم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اعمال کی جواب دہی کے تصور سے آشنا ہیں۔ دنیا کو ایک آزمایش جانتے ہیں۔ پاکستان کا قیام کچھ خاص مقاصد کے لیے ہوا تھا۔ اس لیے نہیں ہوا تھا کہ ہم وہ کچھ کریں جو ہندو ہم سے کروانا چاہے۔ ہم نے اللہ سے عہد کیا اور اللہ نے ہمیں یہ مملکت دی۔ اسی لیے اسے مملکت خداداد پاکستان کہا جاتا ہے۔
ڈر لگتا ہے کہ اگر ہمارے لچھن یہی رہے جس کا مظاہرہ لاہور کی سڑکوں‘ چھتوں‘ پارکوں‘ کلبوں اور ہوٹلوں میں ۷‘۸‘۹ فروری ۲۰۰۳ء کو حج اور عیدِقربان سے صرف چند دن پہلے اور عراق کے خلاف امریکی جارحیت کے خلاف عالمی احتجاج کے دن سے صرف ایک ہفتہ پہلے کیاگیا ہے‘ وہ ملت اسلامیہ پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہی نہیں‘ العیاذباللہ‘ اللہ کے غضب کو دعوت دینے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ (اللہ ہمیں اپنے عذاب سے اپنی پناہ میں رکھے)
یہ وقت یہ عزم کرنے کا ہے کہ آیندہ سال ایسی فضا تیار کی جائے گی کہ بسنت کی تقریب ہمارے ملک میں نہ منائی جائے۔ حکومت اور ملکی اور غیرملکی سرپرستوں کو یہ نظرآجائے کہ وہ اس میں حصہ لے کر لوگوں کو خوش نہیں ناراض کریں گے۔ دستورپاکستان کے تحت ہماری حکومت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ شہریوں کے لیے قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کو ممکن اور آسان بنائے۔ حکومت کو اپنا یہ فرض ادا کرنا چاہیے اور اس میں معاشرے کی خیر کی طاقتوں سے تعاون لینا چاہیے۔