تقسیمِ ہند کے بعد بھارت کے مسلمان ایک ایسی انوکھی صورتِ حال سے دوچار ہوئے جو انھیں تاریخ میں اس سے پہلے کبھی پیش نہیں آئی تھی۔ ۱۵اگست ۱۹۴۷ء کو بظاہر ’’جمہوریت کی نئی صبح‘‘ طلوع ہوئی تھی اور آزادی و مساوات کی بشارت دی گئی مگر حقیقت میں ہندو اکثریت کے غصّہ و انتقام کے ایک نئے دَور کا آغاز ہوچکا تھا۔
نئے حالات کے پیش نظر اور گوناگوں مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے گذشتہ ۵۰برسوں میں بھارت کے مسلمانوں اور مسلم جماعتوں اور تنظیموں نے طرح طرح کی حکمت عملیاں اختیار کیں۔ اس ضمن میں زیرنظر کتاب میں حسب ذیل مسلم تنظیموں کی کاوشوں اور کوششوں کا جائزہ لیا گیا ہے: جمعیت العلماے ہند‘ امارتِ شرعیہ بہار و اڑیسا‘ تبلیغی جماعت‘ جمعیت اہل حدیث‘ جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ‘ کل ہند تعمیرملّت‘ مجلس اتحادالمسلمین‘ مسلم مجلس مشاورت‘ مسلم مجلس‘ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ‘ اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا‘ انسٹی ٹیوٹ آف آبجکیٹواسٹڈیز‘ آل انڈیا ملّی کونسل۔
یہ کتاب ایک طرح سے مذکورہ بالا تنظیموں کا تعارف ہے‘ (مختصر تاریخ‘ طریق کار اور حکمت عملی کا تجزیہ)۔ مصنف نے صدر یار جنگ‘ سلیمان ندوی‘ مناظراحسن گیلانی‘ مولانا مدنی‘ مولانا لاہوری‘ ابوالکلام اور مولانا تھانوی کے نام لے کر‘ یہ سوال اٹھایا ہے کہ اتنے بڑے ذہن و دماغ کے انسان رکھنے والی اُمت آخر کیوں اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہو سکی؟ ڈاکٹر سید عبدالباری کے نزدیک اس کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے بیشتر علما نے مغرب کے اقتدار اور جبروت کے اسباب پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور اس کی ترقی کے اسباب کا تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور صرف انگریز دشمنی کو اپنا مذہب و مسلک بنا لیا۔ مزیدبرآں مغرب کے اُن فلسفوں کا توڑ کرنے کے لیے انھوں نے کوئی بڑا تحقیقی ادارہ قائم نہیں کیا جو پوری دنیا میں اتھل پتھل مچائے ہوئے تھے اور بعض عالی مرتبت علما ذہنی طور پر اشتراکیت سے مرعوب تھے اور مدارس کا ماحول عام طور پر دیگر مسالک کی تغلیط و تردید کا ہی رہا (ص ۵۰-۵۱)۔
مصنف نے جماعتوں اور تنظیموں کے انفرادی کردار‘ خدمات اور ان کے کارناموں کے ساتھ ان کی خامیوں‘ ناکامیوں اور کمزور پہلوئوں کی بھی نشان دہی کی ہے۔ مگر مصنف کی تنقید بہت معتدل اور محتاط ہے۔ تبصروں اور تجزیوں میں انھوں نے بہت کچھ سنبھل سنبھلا کر‘ اور پھونک پھونک کر قدم اٹھایا ہے‘ اور بالعموم اختلافی پہلوئوں کے ذکر سے گریز کیا ہے۔ مثلاً تبلیغی جماعت کا (مولانا محمد الیاس اور مولانا محمد یوسف کے دَور تک) فقط تعارف کرا دیا ہے مگر اب کیا صورتِ حال ہے؟ اس پر‘ ماسوا دو تین جملوں کے (ص ۱۴۳) کچھ کلام کرنے سے گریز کیا ہے--- جماعت اسلامی کی کمزوریوں کی طرف ہمدردانہ اشارے بھی کیے ہیں (ص ۱۹۹-۲۰۰)۔
ڈاکٹر سید عبدالباری ایک تجربہ کار معلّم اور اُردو کے معروف ادیب و شاعر اور نقاد ہیں۔ انھیں یہ علمی منصوبہ ‘ دہلی کے انسٹی ٹیوٹ آف آبجکیٹو اسٹڈیز کی طرف سے سونپا گیا تھا۔ ان کا کام بہت اہم مگر اتنا ہی نازک تھا۔ کتاب میں (’’اگرچہ‘‘…’’پھر بھی‘‘ کے اسلوب کے ذریعے) ترازو کے دونوں پلڑے برابر رکھنے کی سعی نظر آتی ہے۔ مجموعی طور پر ان کے ہاں اُمیدافزا پہلو غالب ہے۔ اس طویل تجزیے کا اختتام بھی ان سطور پر ہوتا ہے کہ ۵۰ سال کی طویل سیاہ رات کے بعد آفتابِ تازہ کا طلوع زیادہ دُور نہیں اور راقم کو اس صبحِ روشن کے قدموں کی آہٹ صاف طور پر سنائی پڑ رہی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
یہ ایک ایسے معلّم اور مصنف کی آپ بیتی ہے جو ریاست دیر جیسے دُورافتادہ اور پس ماندہ علاقے میں پیدا ہوا۔ ریاست میں ایک بھی اسکول نہ تھا۔ لوگ چھپ چھپ کر یا باہر جاکر تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ نواب دیر اپنی رعیت کو تعلیم دینے کے خلاف تھا۔ کسی کو اسکول کھولنے کی اجازت نہ تھی مگر ان کے اپنے بیٹے بیرونِ ملک جاکر تعلیم حاصل کرتے تھے۔ ریاست میں کتوں کے لیے تو شفاخانہ موجود تھا مگر انسانوں کے لیے کوئی ہسپتال نہیں تھا (ص ۳‘۴)۔
مصنف نے غربت اور تنگ دستی کے عالم میں تکلیفیں برداشت کر کے اور محنت و مشقت کی زندگی گزارتے ہوئے‘ نہایت عزم و ہمت اور حوصلے کے ساتھ ریاست سے باہر جاکر تعلیم حاصل کی۔ کیمبرج یونی ورسٹی سے ایم‘لٹ اور پشاور یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ پشاور یونی ورسٹی میں لیکچرر ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے ڈین کے عہدے تک پہنچ کر سبکدوش ہوئے۔
مصنف کی اس بات پر تو رشک ہی کیا جا سکتا ہے کہ دنیا میں بلامبالغہ کوئی ایسی نعمت نہیں جو اللہ نے مجھے نہیں دی اور کوئی ایسی آرزو نہیں کی جو اللہ نے پوری نہیںکی (ص ۳۰۷)۔ لیکن آپ بیتی پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ نہایت غریب گھرانے اور انتہائی پس ماندہ علاقے کے ایک شخص نے جو کچھ بھی ترقی کی ‘اس کے پسِ پردہ توفیقِ الٰہی کے ساتھ مصنف کی نیک نیتی‘ خلوص‘ عزم و ہمت اور دوسروں سے ہمدردانہ رویہ‘ اپنے فرائض کی دیانت دارانہ بجاآوری‘ وقت کی سختی سے پابندی‘ سخت کوشی‘ سحرخیزی اور رزق حلال جیسے عادات و معمولات اور عوامل و عناصر کارفرما رہے۔ کہتے ہیں کہ میں اسکول کے زمانے میں کبھی کبھی سارا سارا دن بھوکا رہتا تھا لیکن واپسی پر (دوسرے ہم جماعتوں کی طرح) بلااجازت کسی کھیت سے گنا نہیں توڑا (ص ۲۹)۔ ہمیشہ پہلا پیریڈ لیا اور صبح جاگنے کے لیے کبھی الارم کلاک کا استعمال نہیں کیا (ص ۱۵۳)۔
مصنف کے بیرونِ ملک اسفار کے تجربات دل چسپ ہیں ‘مثلاً: اوّل‘ کیمبرج کے ایک پروفیسرنے قادیانی سمجھ کر ان کی خوب حوصلہ افزائی کی لیکن جب پتا چلا کہ ’’میں قادیانی نہیں تو اس نے مجھ میں دل چسپی لینی چھوڑ دی‘‘ (ص ۷۳)۔ ہم کیمبرج کے پروفیسروں کی مہارتِ علمی اور رہنمائی سے بہت مرعوب ہیں مگر مصنف کا تجربہ مختلف ہے۔ ان کے نگرانِ مقالہ نے ان کی صحیح رہنمائی نہ کی اور نہ کوئی خاص مدد کی۔ البتہ مصنف نے پروفیسر آربری کی تعریف کی ہے کہ ان کا طرزِعمل سارے کا سارا ایک مسلمان کا تھا‘ بس کلمہ پڑھنے کی توفیق نہیں ملی۔ دوم: مصنف نے اپنے کچھ دیگر تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہودی پوری انسانیت کو بداخلاق بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور انھوں نے مسلمان ملکوں میں جاسوسی کے جال بچھا رکھے ہیں۔
آخری حصے میں ایک پورا باب تنظیم اساتذہ پاکستان پر ہے۔ قاضی صاحب نے تنظیم کی اہمیت و خدمات کے ساتھ اپنے اُوپر اس کے احسانات کا اعتراف کیا ہے لیکن تنظیم اور افرادِ تنظیم کی کمزوریوں‘ خامیوں اور اصلاح طلب پہلوئوں کا بھی بڑے کھلے اور واشگاف انداز میں ذکر کردیا ہے۔ یہ ایک طرح کا مکتوبِ مفتوح ہے۔
قاضی صاحب کا اسلوب رواں دواں اور آسان ہے۔ اگرچہ فنی اور ادبی اعتبار سے تو یہ خودنوشت کوئی بلندپایہ آپ بیتی قرار نہیں دی جا سکتی‘ لیکن مصنف نے جس خلوص‘ کھلے دل و دماغ‘ صاف گوئی اور بے لاگ انداز میں اسے لکھا ہے اس لحاظ سے یہ ایک دل چسپ‘ معلومات افزا‘ سبق آموز اور قابلِ مطالعہ آپ بیتی ہے۔
اگر اس کی تدوین کی جاتی اور تکرار یا غیر ضروری حصوں کو نکال دیا جاتا اور زبان و بیان میں بھی کچھ اصلاح کر دی جاتی تو یہ کہیں زیادہ خوب صورت اور عمدہ خود نوشت کا درجہ حاصل کرلیتی (ضخامت بھی کم ہو جاتی)‘ تاہم موجودہ صورت میں بھی اس میں ایک اچھی آپ بیتی کی بعض خوبیاں موجود ہیں‘ مثلاً مصنف کا خود احتسابی کا رویہ‘ اپنی غلطیوں اور شخصی کمزوریوں کا اعتراف‘ صاف گوئی اور اپنے شدید مخالفین سے براہِ راست مکالمے کا اہتمام اور ان کی خوبیوں کا اعتراف وغیرہ۔ (ر- ہ )
ڈاکٹر محمد رفیع الدین (۱۹۰۴ئ-۱۹۶۹ئ) ایک ممتاز فلسفی‘ اقبال شناس اور جدید علوم کے اسکالر تھے۔ ان کی عالمانہ تصنیف قرآن اور علمِ جدید بقول ڈاکٹر غلام مصطفی خان: ’’جدید نظریات کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھنے اور اسلام کے نظریۂ لاشعور‘ نظریۂ جبلت‘ نظریۂ فوقیت اور نظریۂ معاش اور اسلام کے نظریۂ قومیت کی تشریح کے سلسلے میں--- سب سے نمایاںاور منفرد نوعیت کی کتاب ہے‘‘۔ محمد موسٰی بھٹو نے بکثرت ذیلی سرخیوں کے اضافے کے ساتھ اصل کتاب کی تلخیص پیش کی ہے۔ شروع میںایک طویل مضمون میں بھٹو صاحب نے مصنف مرحوم کی فکر کے اہم پہلوئوں کا خلاصہ اور ان کی بعض کتابوں سے اقتباسات دیے ہیں۔ یہ سب مباحث فکری اعتبار سے بہت اہم ہیں۔ مصنف کی علمیت مسلّمہ اور عالمانہ نقدوتبصرہ اورگرفت بہت عمدہ اور برمحل ہے۔
اصل کتاب کے آخری سو صفحات (مارکسزم کی بحث) کی تلخیص شامل نہیں کی گئی کیونکہ کتاب کی ضخامت زیادہ ہو چلی تھی۔ تدوین شدہ موجودہ صورت میں آسانی سے پتا نہیں چلتا کہ مرتب کا مطالعاتی جائزہ کہاں ختم ہو رہا ہے اور اصل کتاب کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ فہرست بھی رہنمائی نہیں کرتی۔ کاش اس نہایت مفید کتاب کو تدوین و تلخیص اور معیارِ اشاعت کے لحاظ سے بھی شایانِ شان طریقے سے پیش کیا جاتا۔ (ر-ہ)
مولاناعامر عثمانی مرحوم نے بڑی پتے کی بات کہی ہے: ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے تمام گروہ‘ تمام باضابطہ جماعتیں اپنے اپنے گروہی خیالات و نظریات کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ اس طوفان ہلاکت کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہوں‘ جو ہم سب کو بہا لے جانے کے لیے گرجتا‘اُمڈتا چلا آرہا ہے‘ چلا نہیں آ رہا‘ ]بلکہ[کبھی کا آچکا ہے‘‘۔ (ص ۱۷۶-۱۷۷)
اس اپیل کے ساتھ وہ لکھتے ہیں: ’’تبلیغی جماعت کے اعمالِ خیرپر ہم کبھی معترض نہیں ہوئے‘ بلکہ موقع بہ موقع انھیں سراہا ہے‘‘ (ص ۲۷۰)۔ واقعہ یہ ہے کہ تبلیغی افراد ایثار و اخلاص اور تصوف کے ملے جلے جذبے سے سرشار گھروں سے نکلتے ہیں مگر اساطیری حوالوں اور ضعیف روایتوں کی آمیزش سے ان کے ’’راہبانہ ذہن‘‘ (ص ۱۶۶) تیار کیے جاتے ہیں‘ انھیں ہمدردانہ دعوتِ فکر سے درست کرنے کی سعی کرنا‘ ہر عالم‘ فاضل اور دین کے بہی خواہ پر واجب ہے۔ یہ امر بھی مشاہدے میں آتا ہے کہ ’’جہاں تبلیغی نصاب پڑھا جانے لگا‘ وہاں ایسا التزام کیا جانے لگا کہ کچھ اور پڑھنے کو عملاً ]ممنوع[ کر دیا گیا۔ اسی کا نام ہے غیرواجب کو واجب بنا لینا‘‘ (ص ۲۸۳)۔
تبلیغی جماعت کے اس صدقہ جاریہ میں ایسی افراط و تفریط کا در آنا ایمان‘ جستجو اور حریت کے پیمانوں کو ضعف پہنچانے کا باعث بنتا ہے جس پر نہ صرف جماعت کے بزرگوں کو بلکہ دوسرے راست فکر اہل علم حضرات کو بھی خلوصِ نیت کے ساتھ رہنمائی کرنا چاہیے‘ عامرعثمانی مرحوم نے یہی خدمت انجام دی ہے۔
جیساکہ تبصرے کے آغاز میں ہم نے عامر عثمانی مرحوم کا قول نقل کیا ہے کہ اُمت کی مختلف جماعتوں کو اتفاق و ایمان کے ساتھ تعاون کی شاہراہ پر گامزن ہونا چاہیے۔ اسی جذبے کے تحت عامرعثمانی نے مختلف اوقات میں تبلیغی جماعت کے لٹریچر اور ان کے متعدد بزرگوں کی جانب سے‘ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی مرحوم پر ہونے والی تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا ہے کہ خود: ’’تبلیغی جماعت کے چھے اصولوں میں کسی جماعت کو مطعون کرنا‘ برا بھلا کہنا شامل نہیں ہے‘‘ (ص ۹۷)۔ لیکن مسلموں اور غیرمسلموں کی تمام تحریکوں کو نظرانداز کرتے ہوئے تبلیغی جماعت کے اکابرکے ہاں جماعت اسلامی ] اور مولانا مودودی[ کے خلاف ایک طرح کی ’’ذہنی جارحیت‘‘ نظر آتی ہے‘‘(ص ۱۴۹)۔ حالانکہ ایسے رویے کی بنیاد مولانا محمد الیاس مرحوم نے نہیں رکھی تھی۔
یہ کتاب مولانا شبیراحمدعثمانی ؒکے بھتیجے اور دارالعلوم دیوبند کے فاضل مولانا عامرعثمانی مرحوم کے شذرات پرمشتمل ہے‘ جو انھوں نے خداترسی‘ علمی شان‘ اور جرأت ایمانی کے ساتھ تحریر کیے ہیں۔ سید علی مطہرنقوی نے انھیں مرتب کر کے ایک اہم خدمت انجام دی ہے۔ یہ کتاب بالخصوص تبلیغی جماعت کے اکابر واصاغر اور ان کی جدوجہد میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے قابلِ مطالعہ ہے۔ (سلیم منصورخالد)
سفرنامہ واحد صنفِ ادب ہے جس میں داستان کا تحیّربھی ہے اور افسانے کی چاشنی بھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قارئین کی دل چسپی اور پسندیدگی کے پیش نظر گذشتہ ربع صدی میں سفرنامے بکثرت منظرعام پر آئے اور سند قبولیت حاصل کی ہے لیکن نگرنگر گھومنے والے سیاحوں میں بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جنھوں نے دنیا کے تین چوتھائی حصے میں سمندروں کے سفر کیے ہوں اور مشاہدات کو منظرعام پر لائے ہوں۔ (حجاج کے بحری اسفار ایک الگ موضوع ہے)۔
اس حوالے سے زیرنظر سفرنامہ بعض کمزوریوں کے باوجود قابلِ توجہ اور خاصا دل چسپ ہے۔ مصنف پاک بحریہ کے ایک سابق ٹیلی گرافسٹ ہیں۔ انھوں نے بعد میں نیوی مرچنٹ میں بطور ریڈیو افسرطویل عرصے تک مختلف جہازوں پر فرائض سرانجام دیے۔مصنف کو دنیابھرکے سمندروں میں سفر کرنے اور تمام اہم ملکوں کی بندرگاہوں پر جانے اور وہاں قیام کرنے کے مواقع ملے۔ کئی بار دیارِ غیر میں اُس کے آپریشن ہوئے اور طرح طرح کے مصائب کا سامنا بھی رہا اور دل کھول کر لطف بھی اٹھایا۔ مصنف نے تجربات و مشاہدات کو سیدھے سادے انداز میں پیش کیا ہے۔
متلاطم سمندروں میں جہازوں کے عملے (crew) کو کن کن مصیبتوں سے واسطہ پڑتا ہے اور ان مصائب سے ان کی صحت اور مزاج پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ڈوبتے جہازوںکی مدد کیسے کی جاتی ہے۔ کلبوں میں تفریح طبع کے کیا سامان میسر آتے ہیں۔ پھر وطن سے دُور پاکستانیوں کے کیا رویّے ہوتے ہیں؟ اسی طرح کے بہت سے پہلو سامنے لائے گئے ہیں۔
مصنف نے اس کتاب کے مرکزی کردار علی کی نجی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔ محدود ماحول میں رہنے والے کسی فرد کی نجی زندگی عمومی دل چسپی کا باعث نہیں ہوتی۔ مگر یہاں ایک مخلص‘ فراخ دل اور جذباتی انسان کی آپ بیتی میں دل چسپی کے ساتھ عبرت کے کئی پہلو بھی نظر آتے ہیں۔
علمی و ادبی بڑے مراکز سے دُور ایک قصبے کے باسی مصنف کی یہ پہلی کاوش ہے۔ اس لیے پختہ قلم کاری کا عدمِ وجود تعجب خیز نہیں۔ واقعات کی زمانی ترتیب میں جھول ہے۔املا‘ رموزاوقاف‘ فقروں کی بندش اور تحریر کے دیگر کئی پہلونظرثانی کے مستحق اور توجہ طلب ہیں۔ ایک بھرپورنظرثانی کے بعد یہ کتاب ایک منفرد مقام حاصل کرسکتی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)