مارچ ۲۰۰۳

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| مارچ ۲۰۰۳ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

زر سے زر پیدا کرنے والی اسکیموں کی حیثیت

سوال: آج کل ایک اسکیم بزناس (Biznas) کے نام سے رائج ہے۔ جس میں لوگ بڑی دل چسپی لے رہے ہیں۔ اس کا طریقۂ کار حسب ذیل ہے:

انٹرنیٹ کے ذریعے سے ممبر اپنا اکائونٹ کھولتا ہے اور ۶ ہزار روپے کمپنی کو جمع کروا کر ممبرشپ حاصل کرتا ہے۔ وہ ممبر پھر مزید دو افراد کو ممبرشپ دلواتا ہے جو مزید چھ چھ ہزار روپے کمپنی کو جمع کرواتے ہیں۔ اسی طرح ہر فرد مزید دو افراد کو ممبر بنانے کا مکلف ہوتا ہے۔ جب نو افراد ممبر بن جاتے ہیں تو پہلے ممبر کو ۳ ہزار ۳ سو روپے کا چیک مل جاتا ہے۔ گویا ہر فرد ۵۴ ہزار روپے کمپنی کو جمع کروا کر ۳ ہزار ۳ سو روپے حاصل کرتا ہے۔ علاوہ ازیں کمپنی ہر ممبر کو ایک سال کے پیکج کے لیے جس کی لاگت ۳۰ ہزار سے ۴۰ ہزار ہوتی ہے loyalty کارڈ (۵ سے ۵۰ فی صدرعایت) فراہم کرتی ہے۔ اس اسکیم سے بہت سے لوگ وابستہ ہو رہے ہیں۔ کیا یہ اسکیم سود پر مبنی ہے؟

جواب:  جہاں تک معاشیات اور اسلامی معاشیات کے طالب علم کی حیثیت سے میرا مطالعہ ہے‘ میں بزناس اور اس نوعیت کے دوسرے کاروباری سلسلوں کو نہایت شک کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔

اسلامی معاشیات کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ سرمایہ‘محنت اور قدرتی وسائل کا استعمال اس طرح کیا جائے کہ پیداواری صلاحیت اور اثاثوں کی تخلیق (asset creation) رونما ہو۔ اسی سے اضافۂ قدر (value added) کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور پیداواری صلاحیت (productivity) بڑھتی ہے‘ اشیا اور خدمات کی رسد بڑھتی ہے اور انسانوں اور معاشرے کی ضروریات پوری ہونے کا سامان کرتی ہے۔ یہی عمل ہے جسے پیدایش دولت (wealth creation)کہا جاتا ہے اور یہی وہ عمل ہے جو انسانوں کے لیے خیر اور فلاح کا باعث ہوتا ہے۔ اس نظام میں زر (money) کا کردار یہ ہے کہ وہ دو انسانی یا مادی (human or physical) وسائل کے درمیان تبادلے کا ذریعہ اور اس طرح حقیقی معاشی سرگرمی کو آگے بڑھانے کا وسیلہ بنتا ہے۔ اس طرح زر ایک زرِمبادلہ (medium of exchange) ہے‘ ایک معیارِ قدر ہے اور حال اور مستقبل کے معاشی لین دین کے لیے مرکزی حوالہ (reference point) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشیات میں زر خود ایک شے (commodity) نہیں ہے اور زر کی خرید و فروخت بحیثیت زر ممنوع ہے۔ زر صرف ایک ذریعہ ہے‘ خود اس سے مزید زر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بنیادی تصور ہے اور میرے علم کی حد تک ہر مذہب اور ہر اس تہذیب نے جس کی اخلاقی بنیادیں ہوں اس بنیاد کو تسلیم کیا ہے۔ ارسطو تک نے یہ بات کہی تھی کہ زر‘ زر پیدا نہیں کرتا ("money does not beget money") ۔

یہی وجہ ہے کہ سود (ربٰو) اسلام میں ہر شکل میں ممنوع ہے۔ اس کی اخلاقی‘ تہذیبی اور معاشی بنیاد یہ ہے کہ اگر زر مادی اثاثوں (physical assets) یا خدمات (services) کے فروغ کا ذریعہ بنتا ہے‘تو اس کے ذریعے سے جو نمو اور اضافہ (value creation) وجود میں آتا ہے ‘ اور جسے منافع کہا جاتا ہے وہ ایک جائز اضافہ ہے اور یہی وہ اضافہ ہے جو انسانی زندگی کو ضروریات کی تکمیل اور خوش حالی سے ہم کنار کرتا ہے۔ تجارت اور اس سے حاصل ہونے والے نفع کو جائز اور مطلوب قرار دینے اور ربٰو سے حاصل ہونے والے اضافے کو خسارہ اور ظلم قرار دینے کی یہی بنیاد ہے۔ ہر وہ کاروبار جس کے نتیجے میں اثاثوں کی تخلیق ہو‘ خواہ اشیاے صرف کی شکل میں ہو یا اشیاے پیداوار یا خدمات کی ‘ مفید اور جائز ہے۔ اور صرف روپیہ کے لین دین سے اثاثوں کی تخلیق کے بغیر اضافہ ربٰوکی تعریف میں آتا ہے۔

جس کاروبار کا آپ نے ذکر کیا ہے اور جو تفصیل اس کی آپ نے بیان کی ہے اِس اصول کی روشنی میں اس کا ہدف بظاہر اثاثوں کی تخلیق نہیں بلکہ کسی کا پیسہ لے کر کسی دوسرے کو پیسہ دینا ہے۔ اس طرح اضافے اور آمدنی کو حقیقی پیداواری عمل کے بجائے محض روپیہ کے ہیرپھیر کی صورت میں استعمال کرنا اخلاقی اور معاشی دونوں اعتبار سے ان مقاصد کو پورا نہیں کرتا جو شریعت کا منشا ہے۔ جہاں تک loyalty کارڈ کا معاملہ ہے وہ ایک غیر متعلق چیز ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محض چاشنی کے لیے اسے اس اسکیم پر لگا دیا گیا ہے۔ اس طرح کا کارڈ آج مغربی دنیا میں عام چیز ہے اور اسے اس قسم کے سرمایے کے لین دین سے منسلک کرنا کوئی منطقی بات نہیں۔اس قسم کے کارڈ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک ہی سٹور سے خریدے اور ادارے سے تعلق کی بنیاد پر اور اپنی خریداری میں استمرار (continuity)کی وجہ سے اسے کٹوتی دی جائے۔ بظاہر اس پوری اسکیم میں یہ کارڈ ایک الگ چیز ہے اور پیسہ بٹور کر پیسہ دینا ایک دوسری چیز ہے۔

اگر صورت حال کے بارے میں میرا تجزیہ صحیح ہے تو اس طرح کے اکائونٹ سے جو منافع حاصل ہوگا‘ اسے اسلامی معاشیات (اور خود جدید معاشیات) کی رُو سے منافع میں حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے کہ سرمایے میں اضافہ کسی پیداواری عمل سے مربوط نہیں ہے۔ میری نگاہ میں یہ زر ہی کے لین دین کی ایک نسبتاً ’تہذیب یافتہ‘ (sophisticated) اور پیچ در پیچ (round about) کوشش ہے جو معاشی اعتبار سے مخدوش اور اخلاقی اعتبار سے ناقابلِ دفاع ہے۔ اس سے ایک قسم کی حبابی معیشت (bubble economy) تو پیدا ہو سکتی ہے لیکن مادی اثاثوں کی وہ تخلیق رونما نہیں ہوتی جو اسلام اور خود معاشیات کا اصل ہدف ہے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے اور خالص شرعی پہلو کے لیے مناسب ہے کہ آپ صاحب ِنظر اور ثقہ علما سے رجوع کریں۔(پروفیسر خورشید احمد)


بنک کے سود کا استعمال

س: موجودہ بنک کاری نظام سودی ہے اور صہیونیت کے شکنجے میں پوری طرح جڑا ہوا ہے۔ اسلامی بنک کاری بھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ عام آدمی اپنی مختلف مجبوریوں‘ ضرورتوں اور تحفظ کے پیش نظر بنک میں پیسہ رکھنے پر مجبور ہے اور اسے اپنی رقم کے عوض سود لینا پڑتا ہے۔

میری تجویز ہے کہ جب تک کوئی متبادل میسر نہیں آتا اس سود کو حاصل کر کے خود استعمال کرنے کے بجائے غریب اور نادار افراد کی ضروریات پر خرچ کیا جائے‘ اور مفلوک الحال لوگوں کی حالت بدلنے پر صرف کیا جائے۔ کیا یہ تجویز شرعی نقطۂ نظر سے جائز ہے؟

ج : اس وقت بنکنگ کا جو صہیونی نظام ہے اس کے شکنجے سے نکلنے کی تدبیر وہ قیادت کرسکتی ہے جو ایمان اور علم و عمل سے سرشار اور امریکی عالمی استعمار کی ذہنی غلامی سے آزاد ہو۔ اس وقت تک اس نظام کے ظلم سے اپنے آپ کو کس طرح بچایا جائے؟ اس کے لیے متعدد تجاویز میں سے ایک تجویز وہ ہے جو آپ نے پیش کی ہے۔

مجھے آپ کی اس تجویز سے کہ سودی منافع بنک سے حاصل کر لیا جائے اور خود استعمال کرنے کے بجائے اپنے مفلوک الحال بھائیوں کو دے دیا جائے‘ سے اتفاق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سود لینا ظلم ہے اور سود دینا ظلم میں تعاون ہے۔بنک سود لیتا ہے‘ مقروض اشخاص اور ادارے اسے سود دیتے ہیں اور اس طرح وہ ظلم میں بنک سے تعاون کرتے ہیں۔ بنک ظلماً جو سودی رقمیں لیتا ہے اس کا بہت بڑا حصہ خود رکھ لیتا ہے اور اس کا تھوڑا سا حصہ کھاتہ داروں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ بنک مقروض اداروں کے ساتھ بھی ظلم کرتا ہے اور کھاتہ داروں کے ساتھ بھی۔ مزید یہ کہ وہ کھاتہ داروں کو اس ظلم میں اپنے ساتھ شریک بھی کرتا ہے۔

کھاتہ داروں کے لیے اس ظلم سے نکلنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ بنک سے سودی منافع وصول کر لیں اور ان لوگوں تک پہنچا دیں جن سے سود لیا گیا ہے۔ اصل حق دار وہی ہیں لیکن ان کا معلوم کرنا اور ان تک رقم پہنچانا ناقابل عمل ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ فقرا اور مساکین تک یہ رقم پہنچا دی جائے۔ یہی وہ صورت ہے جو آپ نے تجویز کی ہے۔ یہ قابل عمل ہے اور احادیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ گم شدہ رقم اور سامان کا حکم احادیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کے اصل مالک کو تلاش کیا جائے اور رقم اور سامان اس تک پہنچایا جائے۔ اگر سال دو سال تک اعلان اور تشہیر کے باوجود اصل مالک نہ ملے تو اس رقم کو فقرا اور مساکین میں تقسیم کیا جائے گا۔ اس کا ثواب اصل مالک کی طرف گم شدہ رقم اور سامان کو فقرا میں تقسیم کرنے والے کو ملے گا کہ اس نے رقم بے جا صرف کرنے کے بجائے حق دار پر صرف کی ہے۔ سودی منافع بھی گم شدہ رقم اور سامان کے حکم میں ہے کہ اصل مالکوں تک اس کا پہنچانا ناقابل عمل ہے۔ لہٰذا اسے بنک سے وصول کر لیا جائے اور فقرا اور مساکین میں تقسیم کر دیا جائے۔ فقرا ان رقوم کے حق دار ہیں جن کے مالک معلوم نہ ہو سکتے ہوں۔ آپ سودی منافع وصول کر کے اپنے رشتہ داروں یا معاشرے کے مفلوک الحال افراد تک پہنچا سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی اور دینی تحریکیں اس حل سے متفق ہیں۔ البتہ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ خود اس رقم کو استعمال نہ کریں تاکہ اس کا ناجائز ہونا ذہن میں مستحضر رہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو رزق حلال عطافرمائے۔ آمین! (مولانا عبدالمالک)