شوال کا چاند ہلال عید بن کر ہر آنگن میں اُتر رہا ہے۔ اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہُ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ، اے اللہ! اس چاندکو ہمارے لیے امن و سلامتی‘ خوش حالی و فراخی کا موجب اور ایمان میں اضافے اور استقامت کا باعث بنا--- وَالْسَّلاَمَۃِ وَالْاِسْلاَمِ --- اور سلامتی ٔ روح و جسم‘ فکروشعور اور اطاعت و فرماں برداری‘ تسلیم و رضا کا پیغام بر بنا۔ وَالْتَّوْفِیْقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی--- اور اس چاند کے ذریعے طلوع ہونے اور شروع ہونے والے مہینے میں اپنی رضا و پسند کے کاموں کی توفیق سے نواز۔ اے ہلال عید! رَبَّنَا وَرَبُّکَ اللّٰہُ --- ہمارا اور تمھارا آقا‘ پروردگار اور پالنہار‘ مالک و مختار صاحب ِ شان و شوکت اللہ جل جلالہ ہی ہے!
عیدالفطر کی روشن صبح طلوع ہو رہی ہے۔ اہل ایمان کو مبارک ہو!
عیدالفطر--- اللہ کی عظمت و کبریائی کے اعلان و اظہار کا دن ہے! لِتُکَبِّرُوْا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدَاکُمْ--- رمضان کے مہینے میں ہدایت کی شاہراہِ مستقیم پر چلنے کے بے شمار مواقع عطا کرنے والے اللہ کے احسانِ عظیم کا بس ایک ہی تقاضا--- ہر شاہراہ پر ‘ ہر گلی محلے‘ بازارو دکان‘ ہر گھر اور مکان میں--- زمین کے ہر کونے اور ہر گوشے میں اعلانِ عام--- اللّٰہُ اَکْبَرْ--- اللہ ہی بڑا ہے۔ اللّٰہُ اَکْبَرْ--- اللہ ہی بڑا ہے--- لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ --- اس کے سوا کوئی عبادت و بندگی ‘ اطاعت و فرماں برداری‘ سجدہ و رکوع‘ حمدوثنا‘ عزت و عظمت‘ شان و شوکت‘ غلبہ و اقتدار‘ حکم و اختیار کا سزاوار نہیں---!! وَاللّٰہُ اَکْبَرْ--- فی الحقیقت وہی بڑا ہے۔ سب سے بڑا--- کائنات کا ذرہ ذرہ ‘بروبحر‘ شجروحجر‘ شمس و قمر‘ زمین و آسماں‘ گلستان و بیاباں--- سب زبانِ حال و قال سے یہی گواہی دے رہے ہیں کہ وہی --- صرف وہی--- سب سے بڑا ہے۔ اللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ--- اور سب عظمتیں‘ تعریفیں‘ بزرگیاں اُسی کے لیے ہیں!!
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ--- بندئہ مومن سرِنیاز خم کر دے اپنے حمدوثنا کے سزاوار رب کے حضور! اس کی اَن گنت بخششوں اور عطائوں کے اظہار شکر کے لیے! تسبیح--- تسبیح کے دانوں پر بھی--- اور دشمنانِ حق کے ٹھکانوں پر بھی--- نفس کے بت خانوں اور شیطان کے آستانوں پر بھی--- کفر کے قانون‘ معاشرے کے رسوم و رواج‘بے حیائی کے مراکز‘ ظلم وجبر کے ایوانوں پر بھی--- حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ--- فتنوں کی مکمل سرکوبی تک!
عیدالفطر--- اہل ایمان کی بخشش کا دن ہے! ارشاد نبویؐ ہے جب لوگ عید کی نماز پڑھ چکتے ہیں تو ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے: اَلَا اِنَّ رَبَّکُم قَدْ غَفَرَ لَکُمْ--- سنو لوگو! تمھارے رب نے تمھیں بخش دیا ہے۔ فَارْجِعُوْا رَاشِدِیْنَ اِلٰی رِحَالِکُمْ--- پس اب کامیاب و کامران اپنے گھروں کو لوٹ جائو۔ فَھُوَ یَوْمَ الْجَائِزَۃِ--- یہ دن تمھارے لیے انعام کا دن ہے! اِس دن کو فرشتوں کی دنیا--- یعنی آسمان--- میں انعام کا دن کہا جاتا ہے۔
عیدالفطر--- اہل ایمان کی یک جہتی اور اتحاد کا مظہر ہے۔ سب اہل اسلام روشن صبح کے نکھرے اُجالوں میں اُجلے کپڑوں اور اُجلے دامن کے ساتھ--- ایک ہی نغمہ و ترانۂ عظمت ِ الٰہی گاتے--- کھلے میدانوں میں ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر‘ ایک ہی مالک کے حضور سجدئہ شکر و امتنان بجا لاتے ہیں۔ کشادہ سینوں میں محبت و اخوت کے زمزمے رواں‘ نفرتیں دُور‘ دشمنیاں ختم اور اخلاص و محبت کا اظہار‘ مصافحے‘معانقے‘ مبارکباد--- یہ سب اُمت کے جسد واحد اور بُنیانٌ مَرْصُوْص ہی کی تو تصویریں ہیں!!
عیدالفطر --- اللہ کی خاطر محبت اور اللہ کی خاطر دشمنی کے عملی اظہار کے ذریعے تکمیلِ ایمان کا موقع ہے۔ مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَأعَطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ--- یہ دن ایمان سے محبتوں‘ دوستیوں‘ وفاشعاریوںکی تجدید اور نفرتیں دُور کرنے ‘ اللہ کی خاطر دینے‘ لینے اور اپنی نفرتوں اور محبتوں کو اللہ کے حوالے سے ترتیب دینے کا دن ہے!
عیدالفطر--- ہمدردی و غم گساری کے مہینے کی عطا کردہ تربیت کے مطابق--- صدقۂ فطر کی ادایگی‘ صلۂ رحمی‘ پڑوسیوں اور مہمانوں کے حقوق کی ادایگی‘ تحفے تحائف دینے‘ خوشیوں کے پیام پہنچانے اور مبارک دینے کے ذریعے اخوت و محبت کے اظہار کا نقطۂ عروج ہے۔ معاشرے کے محروم‘ لاچار‘ مسکین اور فقیر‘ ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنے‘ فاقے دُور کرنے‘ غم اور دُکھ ہلکے کرنے اور اُن میں خوشیاں بانٹ کر--- اس کنبے کے مالک و سربراہ ---اللہ کو خوش کرنے کا دن ہے!!
عیدالفطر--- یومِ عزم ہے!
رمضان میں نازل ہو کر اِسے جشن بہاراں بنانے والے--- قرآنِ عظیم کی تلاوت و سماعت کرکے اپنے سینوں کو منور کرنے کے بعداِسے لے کر اُٹھنے‘ اس کے غلبہ و نفاذ اور اس کی حکمرانی و کارفرمائی اور ساری دنیا پر اس کے سائے کو پھیلا دینے ‘ اس کے پیغام کو عام کر دینے اور اس کی سربلندی کا فریضہ ادا کرنے اور کرتے رہنے کا عزم کرنے کا دن!
عیدالفطر دن ہے--- اتباع و نفاذِ شریعت کے عزم کا--- اللہ و رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی و اطاعت‘ اُن کے ہر حکم و مرضی پر راضی‘ مطمئن و مسرور رہنے کے عزم کا--- بندگی کے جملہ تقاضوں کو ہر جگہ ‘ ہر وقت‘ ہر لحظہ پورا کرتے رہنے کے عزم کا۔
اے روزہ دار! بندئہ مومن!
عید اس کے لیے نہیں--- لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ شَرِبَ وَاَکَلْ --- جس نے محض کھایا‘ پیا‘ لذیذ و متنوع سحری‘ مرغن اور مشتہی افطاری--- روزہ بھی--- اور نافرمانی کا ہر رویہ‘ ہر طرزِعمل‘ بداخلاقی‘ فساد اور پستیٔ کردار کا ہر مظاہرہ--- اللہ کی اطاعت و بندگی کا کہیں نہ اقرار نہ اظہار۔ اُسے عید منانے کا کوئی حق نہیں۔ عید تو اُس کی ہے --- اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ اَخْلَصَ لِلّٰہِ وَالْعَمَلِ--- جس نے اپنی ذات اور اپنے ہرعمل کو اللہ ذوالجلال کے لیے خالص کر لیا--- جو سب سے کٹ کر صرف اُسی کا بن گیا--- اپنی زندگی کا مرکز و محور اور مطمح نظر اُس کو اور اُس کے حکم کی بجاآوری کو بنا لیا!!
عید اُس کے لیے نہیں--- لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ رَکِبَ الْمَطَایَا--- جو شان و شوکت‘ فخروغرورکے اظہار کے طور پر‘ اپنی عظمت و کبریائی کی خاطر--- سواریوں پر چڑھا‘ عیش و عشرت میں غرق اور یادِ خدا سے غافل ہوا--- اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ تَرَکَ الْخَطَایَا، اصل عید تو اُس کی ہے اور جشن منانے کا حق دار بھی وہی ہے‘ جس نے خطاکاری سے اجتناب اور اس کے ہر راستے سے گریز کیا‘ اور اسے اپنی عمومی زندگی کا طرزعمل بنایا۔
عید اُس کے لیے نہیں--- لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ لَبِسَ الْجَدِیْدَ--- جس نے فقط نئے اور خوب صورت لباس میں اپنے جسم و روح کی ناپاکی‘ گندگی اور غلاظت کو چھپایا--- اس کا فقط ظاہر ہی اُجلا، ہوا۔ دل روشنی اور سعادت سے محروم رہا۔ نہ تطہیر فکر ہو سکی‘ نہ تعمیر افکار‘ قلب و نظر کے اندھیرے دُور نہ ہو سکے‘ نہ دل کے سیاہ داغ دُھل سکے۔ تن تو اُجلا بن گیا‘ من پاکیزہ و صاف اور روشن نہ بن سکا---!! عید تو اس کے لیے ہے! اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ خَافَ الْوَعِیْدَ--- جس نے اللہ کی آیات‘ احکامات ‘ فرامین و ہدایات‘ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو پڑھا‘ سنا‘ سیکھا‘ سمجھا--- صدقِ دل سے ایمان لایا--- اپنے دل اور عمل پر اُسے نافذ کیا--- اور اُس کی سزا کے خوف سے لرزہ براندام رہا۔
عیدالفطر کا دن--- جائزے اور تقابل کا دن ہے! اللہ کی رحمتوں اور اپنی لغزشوں کے تخمینے‘ جائزے اور موازنے کا دن!! کہ اے بندئہ مومن! اپنے رحیم و کریم رب کے مقابل تو کہاں کھڑا ہے؟ کیا تیرے دامن میں کوئی بھی ایسا عمل ہے‘ جو اُس کی لامحدود عنایتوں کے مقابل وفاداری کا حوالہ بن سکے؟ پھر آخر مَا غَرَّکَ بَرِبِّکَ الْکَرِیْمِ؟ اپنے رب کریم‘ رحیم کے مقابل تجھے کس چیز نے اس قدر سرکش وباغی اور جری اور بے وفا بنا دیا اور دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے؟ تیرے لیے عیدالفطر کا پیغام یہی ہے کہ رمضان کی طرح پلٹ آ-- اسی عفو بندہ نواز کے دامن میں---! سر جھکا دے‘ اسی آقا و مولا کی بارگاہ میں--- اور اسی دَر کا سوالی بن جا--- اور اسی کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو جا‘ اسی کے دامن رحمت سے لپٹ جا‘ اور اسی شجرعاطفت سے وابستہ رہ اور اُمید بہار رکھ--- کہ اس کے سوا کوئی جاے پناہ و اماں نہیں---!!
عیدالفطر--- فی الحقیقت --- اے بندئہ مومن--- تیرے طویل امتحان کا آغاز ہے۔ رمضان کی تربیت گاہ میں حاصل کردہ تعلیم و تزکیہ کا نصاب تجھے اس امتحان میں سرخرو کر سکتا ہے۔ اگر تو اس عزم و تجدیدعہد اور تجدید وفا کے جذبے سے عید منائے--- تو تو بڑا نیک نصیب ہے‘ تو ہی عید منانے کا حق دار ہے۔ عیدالفطر--- تیرے لیے --- منزل نہیں‘ نشانِ منزل ہے--- جہاں سے نیکیوں کا سفر ایک بار پھر شروع ہو رہا ہے۔ عیدالفطر کے روز شروع ہونے والا تیرا یہ سفر یقینا تیری حقیقی منزل --- جنت--- تک پہنچ کر ہی ختم ہو گا---!! ان شاء اللہ!!