مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تفسیر تدبرقرآن نو جلدوں میں دستیاب ہے۔ چھ ہزار سے زائد صفحات کی اس ضخیم اور مفصل تفسیر کا مطالعہ قاری سے ایک خاصے لمبے عرصے کا تقاضا کرتا ہے‘ نیز: ’’یہ ان لوگوں کو مشکل محسوس ہوتا ہے‘ جو علمی چیزں کا مطالعہ کرنے کے عادی نہیں‘‘۔ چنانچہ مولانا اصلاحیؒ کے شاگردِ خاص‘ خالد مسعود صاحب نے زیرنظریک جلدی نسخہ تیار کیا ہے‘ جس میں متنِ قرآن کے ساتھ‘ ترجمہ اور مختصر حواشی شامل ہیں‘ جو مرتب کے بقول: ’’مولانا کی تفسیر سے ماخوذ اور بیشتر انھی کے الفاظ میں ہیں‘‘۔ ہر سورہ کے حواشی سے پہلے ایک دوسطروںمیں اس سورہ کا مرکزی مضمون بیان کر دیا گیا ہے۔
مرتب نے پیش لفظ میں زیرنظر کتاب کی سکیم کے ساتھ‘ مولانا اصلاحیؒ کے ترجمۂ قرآن حکیم کی بعض خصوصیات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے‘ مثلاً: اصلاحی صاحب سلیس عبارت میں بامحاورہ ترجمہ کرتے ہیں‘ تاہم وہ سلیس زبان میں کسی قدر قدامت بھی باقی رکھتے ہیں۔ ایک ہی مضمون پر مشتمل آیات کے مجموعوں کا لحاظ رکھتے ہوئے‘ ترجمے کو پیروں کی صورت میں مرتب کیا گیا ہے۔ عربی اسلوب بیان میں الفاظ اور جملوں کے حذف کی متعدد شکلیں ہیں مگر اُردو میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے قرآن حکیم کے مترجمین محذوف مفہوم کو قوسین میں لکھتے ہیں‘ مگر اصلاحی صاحب ایسا نہیں کرتے‘ وہ حذف کو کلام کا حصہ مانتے ہوئے‘ ترجمے میں اُسے کھول کر لکھ دیتے ہیں--- وغیرہ۔
ترتیب ‘ کتابت ]ہر صفحے پر متن‘ ترجمہ اور پاورق میں حواشی--- چاروں طرف حاشیے میں ہلکے رنگ کی سکرین نما‘ زمین[‘ طباعت‘ کاغذ‘ جلد‘ سب بہت عمدہ اور مناسب۔ اس اہتمام سے تیار کردہ کتاب کو بجا طور پر ’’سٹینڈرڈ ایڈیشن‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ خدا کرے خدمت ِ قرآنی کی اس کاوش کو شرفِ قبول عطا ہو۔ (رفیع الدین ہاشمی)
پاکستانی صحافت ہمارے معاشرے میں ریاست کا پانچواں ستون ہے؟ یہ بگاڑ کی کتنی ذمہ دار اور بنائو میں کتنی حصے دار ہے؟ منصبی ذمہ داری کو دیانت داری سے ادا کرنے کے لیے کس حد کوشاں ہے یا غیرذمہ دارانہ رویے کے باعث ریاست و سیاست کو بازیچۂ اطفال بنانے کی کتنی علم بردار؟ ---ان تلخ سوالات کے جوابات کو برملا بیان کرنا آسان نہیں۔ تاہم‘ کمیونسٹ پارٹی کے زیراثر پروان چڑھنے والی ’’ترقی پسند‘‘ ادبی و صحافتی تحریک پر زیرتبصرہ مکالمات سے صحافتی دنیا کے بہت سے مثبت اور منفی پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس مختصر کتاب میں ۳۴ افراد کی گفتگووں سے بہت سی پرتیں کھلتی ہیں۔
حقیقت حال توکتاب کو پڑھ کر ہی سامنے آسکتی ہے‘ اس کے باوجود بعض جملے ضرور سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں جیسے--- بقول ڈاکٹر مبشرحسن ’’] ترقی پسند[ تحریک کا ایک بڑا المیہ یہ رہا کہ … انھوں نے اپنی سوچ کا اہتمام ماسکو یا بیجنگ کے سپرد کر دیا‘‘ (ص ۱۹۰)۔ حسین نقی: ’’بھٹو نے اگر کوئی کام کیا تو وہ یہ کہ مغربی پاکستان کے فیوڈل ازم کو بچایا اور اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا۔ پاکستانی سیاست دانوں نے استعماری رویہ اپنائے رکھا اور بھٹو نے موقع پرستی کی‘‘ (ص ۱۹۷)۔ محمود شام: ’’امیراور غریب ] کی [ جنگ ابھی موجود ہے‘ لیکن پاکستان کے ترقی پسند اب کبھی اکٹھے ہوتے نظر نہیں آتے‘‘ (ص ۲۰۸)۔ عباس اطہر: ’’ان ] ترقی پسندوں[ کے لمبے چوڑے مفادات نہیں تھے۔ زیادہ سے زیادہ کسی کا بیٹا روس میں پڑھ گیا ] یا[ چند بوتلیں شراب کی مل گئیں‘‘ (ص ۲۱۶)۔ شفقت تنویر مرزا: ’’NGO'sکی سیاست کیا ہے؟ یہ لیفٹ کو کرپٹ کرنے کے لیے سوچا گیا تھا‘ لیفٹ کو بڑی حد تک کرپٹ کر دیا گیا‘‘ (ص ۳۲۲)۔ سبط الحسن ضیغم: ’’] پنجابی[ اخبار سجن میں زبان بہت گھٹیا اور غیر معیاری تھی (ص ۲۳۴)… ترقی پسند تحریک کے لیڈر لوگ بظاہر کچھ اور اندر سے کچھ اور ہیں۔ ان تضادات کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی اور ترقی پسند تحریک وغیرہ سبھی ناکام ہو گئیں‘‘ (ص ۲۳۶)۔ محمد حنیف رامے: ’’محدود تنگ نظری ] ترقی پسند[ تحریک کے زوال کا باعث بنی‘‘ (ص۸۱)۔اور بقول ضمیر نیازی: ’’لیفٹ کے لوگ بنے بنائے سانچے سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔ ایسے سانچے بیکری میں تو ہمیشہ کام آسکتے ہیں‘ لیکن عملی زندگی میں یہ سب باتیں چلتی نہیں‘‘۔
کتاب میں احمد ندیم قاسمی سے لے کر غلام نبی آگرو تک اور زیڈ اے سلہری‘ نعیم صدیقی‘ ارشاد احمد حقانی سے لے کر‘ پروفیسر خورشید احمد‘ محمود احمد مدنی‘ الطاف حسن قریشی‘ مجیب الرحمن شامی اور عطاء الرحمن تک کے انٹرویو شامل ہیں۔ اس طرح دونوں نقطۂ ہاے نظر سامنے آجاتے ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
مملکت خداداد پاکستان میں ایک مستحکم سیاسی و اقتصادی نظام تشکیل نہ پا سکا جس کی بدولت نئے نئے مسائل جنم لیتے رہے۔ ملک دولخت ہوا اور آزادی کے ۵۵ برسوں کا نصف وقت فوجی حکمرانی کی نذر ہوگیا۔ پاکستان مقروض کیوں چلا آ رہا ہے؟ اِس کے اقتصادی زوال نے عوام الناس اور دیگر طبقات پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں اور غیر ملکی مالیاتی ادارے پاکستان کو غریب سے غریب بنانے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرتے ہیں؟ اس حوالے سے قومی اخبارات اور رسائل و جرائد میں شائع شدہ چھوٹے بڑے ۱۱۲ طویل و مختصر مضامین اور کالموں کو یکجا کیا گیا ہے۔ لکھنے والوں میں قومی شخصیات (قاضی حسین احمد‘ پروفیسر خورشید احمد‘ ڈاکٹر اسرار احمد‘ الطاف حسن قریشی اور حمید گل) کے ساتھ صحافتی اور سیاسی شعبوں سے متعلق متعدد اہل قلم بھی شامل ہیں۔ چھ مضامین خود مؤلف کے قلم سے ہیں۔
مضامین کے انتخاب اور ترتیب کا محرک وطن عزیز سے مؤلف کی محبت اور ملّت کے بارے میں ان کا احساسِ درد مندی ہے۔ مضامین کے ساتھ کچھ انٹرویو‘ تجزیے‘ ترجمے اور متفرق آرا بھی شامل ہیں مگر ترتیب و تدوین کا انداز یکساں نہیں بلکہ کچھ بے ڈھب سا ہے۔حوالے درج کرنے کے لیے بھی کوئی معروف اسلوب اختیار نہیں کیا گیا ہے۔کہیں مضمون کے شروع میں کہیں آخر میں۔
بہرحال‘ پاکستان کے مختلف شعبہ ہاے حیات کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہ ایک اچھی قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)
یہ کتاب بنیادی طور پر موجودہ حالات کی روشنی میں علاماتِ قیامت کی تشریح پر مبنی ہے۔ اس سلسلے میں ۱۵۰۰ قرآنی آیات اور ۵۰۰ احادیث کے حوالے دیے گئے ہیں‘ اس کے ساتھ توحید‘ رسالت‘ نظامِ صلوٰۃ‘ نظامِ زکوٰۃ‘ جنت‘ دوزخ‘ دجال اور اُمت کے سیاسی و اقتصادی مسائل‘ معیاری دعوت کااسلوب وغیرہ کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ مصنف کی بھرپور کوشش ہے کہ قرآنی آیات کی جامع تشریح اختیار کی جائے اور صرف متفق علیہ احادیث درج کی جائیں۔
مصنف نے جہاں بھی کسی عالم کی رائے درج کی ہے‘ بالالتزام اُس کا حوالہ دیا ہے جو قابل تحسین ہے۔ ابواب کے عنوانات عربی زبان میں ہیں اور ذیلی عنوانات انگریزی میں ۔ باب اول: لایھدی القوم الظالمون‘ دوم: نصر من اللّٰہ‘ سوم: فتحٌ قریب اور چہارم: بشرالمومنین‘ آخری باب تبصروں اور آرا پر مشتمل ہے۔
مصنف کا طریق عرب واعظین کا سا ہے جو کسی موضوع پر پہلے تو مسلسل آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویہؐ بیان کرتے ہیں‘ پھر طویل تشریح‘ اور اس کے بعد نیا موضوع شروع ہو جاتا ہے۔ مصنف نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے حسب موقع گراف بھی دیے ہیں ۔ اسلامی اصطلاحات کے اصل عربی نام برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مصنف‘ محمد ابومتوکل کے بارے میں کوئی تعارفی نوٹ نہیں ہے۔ کتاب میں ناموں کے اخفا کا رجحان غالب ہے۔ البتہ نیوجرسی کی مسجد شہدا کے امام ذکی الدین شرفی کا نام اور تعارف مبصرین میں درج ہے۔ کتاب کا فونٹ انتہائی باریک ہے جو طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ (م - ا - م )
برعظیم کے قلب و مرکز دہلی پر مسلمانوں کو سب سے پہلے (بہ زمانہ: قطب الدین ایبک ۱۲۰۶ء تا ۱۲۱۰ء) تیرھویں صدی شمسی کے آغاز میں جو تصرف و اختیار حاصل ہوا تھا‘ وہ کسی نہ کسی صورت میں چھ صدیوں تک قائم رہا۔ زیرنظر کتاب میں اجمالاً جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ سلاطینِ دہلی کس حد تک شریعت ِ اسلامیہ کا احترام کرتے تھے اور دہلی کی مختلف سلطنتوں کے حکومتی‘ سیاسی‘ عدالتی اور انتظامی امور میں شریعت کی پاسداری کی کیا صورت تھی؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام (شعبہ علوم اسلامیہ‘ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی) کی تحقیق یہ ہے کہ بہ حیثیت مجموعی سلاطینِ دہلی اپنی ذاتی زندگیوں میں دین دار تھے اور احکام اسلامی کی بڑی حد تک پابندی کرتے تھے (اگرچہ ان سے بہت سے خلافِ شرع امور بھی سرزد ہوتے اور علما کی تنبیہ پر وہ اپنی غلطی کو تسلیم کر لیتے تھے)۔ سماجی زندگی اور بعض انتظامی امور میں وہ شرعی قوانین نافذ کرنے کی کوششیں بھی کرتے تھے‘ (بے شک وہ جزوی ہوتی تھیں) لیکن سیاسی معاملات میں وہ شرعی احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من مانی کرجاتے تھے (ص ۴۲‘ ۱۱۹) اور مخالفین اور مجرمین کو غیر شرعی طریقوں سے سزا دیتے تھے۔
فاضل مصنف نے بتایا ہے کہ اپنی تمام تر کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود‘ شاہانِ دہلی اپنی مملکت میں عدل و انصاف کے قیام اور مظلوموں کی داد رسی کے سلسلے میں بہت حساس تھے اور مجرموں کو‘ ممکنہ حد تک شریعت کے مطابق سزا ملتی تھی (ص ۱۱۹)۔ بادشاہ علما سے مشورے کا اہتمام کرتے اور قاضیوں اور مفتیوں کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی۔ جرائم و مقدمات کی تفتیش کا ایک مرتب نظام موجود تھا۔ مصنف کے نزدیک یہ امر بھی لائق تعریف ہے کہ بادشاہ بالعموم‘ خود کو ’’قانون سے بالاتر نہیں سمجھتے تھے--- قاضی کی عدالت میں حاضر ہونے میں کوئی تکلف نہیں محسوس کرتے تھے‘‘ اور ’’عدالت کے فیصلوں کوبلاچون و چرا قبول کرتے‘‘۔ وہ شریعت اسلامیہ کی بالادستی کے ہمیشہ قائل رہے اور یہ اس عہد کا ایک مسلّمہ رویہ تھا۔ بادشاہوں کا عمومی طرزِعمل شریعت کے مقابلے میں انکار یا بغاوت کا نہیں‘ اقرار اور اطاعت کا تھا--- بقول مصنف: ’’آج کے اس جمہوری دور میں مسلم بادشاہوں کا یہ طرزِعمل‘ موجودہ حکمرانوں کے لیے وجہِ عبرت و لائق اتباع ہے‘‘۔ (ص ۱۲۰)
اس اہم اور مفید علمی موضوع کا مطالعہ آسان نہیں تھا کیوں کہ اس پر ایک تو وافر مصادر دستیاب نہیں‘ دوسرے‘ دستیاب و میسر لوازمے اور مورخین کے بیانات میں خاصا تضاد ملتا ہے۔ بہ ایں ہمہ مصنف محترم نے عربی‘ فارسی‘ اُردو اور انگریزی مصادر کی مدد سے سلاطین دہلی کے ہاں حکومت و شریعت کے تعلق کی نوعیت پر ایک عمدہ کتاب تالیف کی ہے‘ جس میں اصول تحقیق اور اسالیب ِ علمی کی پوری طرح پاس داری کی گئی ہے۔ (ر- ہ )
یہ گراں قدر تالیف نہ جانے کتنے سالوں کی محنت ِ شاقہ کا نتیجہ ہے۔ اس طرح کا کام وہی کر سکتے ہیں جو پِتّا مار کر اپنے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ یہ کتاب ہمزہ سے شین تک کے حروف سے شروع ہونے والے مادوں سے برآمد ہونے والے افعال پر مشتمل ہے (غالباً دوسرا حصہ ص سے ی تک ہوگا)۔ کتاب کے آغاز میں صرف کے بنیادی قواعد بتائے گئے ہیں اور ثلاثی مزید کی خصوصیات بھی۔ افسوس ہے کہ کمپوزر کی حماقت سے صفحے سے صفحہ نہیں ملتا‘ سطر سے سطر نہیں ملتی۔ ایک فعل کی تفصیلات‘ دوسرے فعل کے ساتھ منسوب ہوگئی ہیں‘ نعوذ باللہ۔
یہ کتاب قرآن مجید کو سمجھنے کا جذبہ رکھنے والوں کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔ ہمارے خیال میں اس نہایت اہم دینی خدمت کو تحسین و تجمیل کے ساتھ شایانِ شان طریقے پر پیش کرنا ضروری تھا۔ ایڈیٹنگ بھی نہیں کی گئی۔
ہمیں خوشی ہوگی اگر اگلا ایڈیشن صحت کے ساتھ شائع ہو اور اس کی قیمت کم ہو اور یہ وسیع حلقوں تک پہنچے۔ (خلیل الرحمٰن چشتی)