دنیا کی ہر کتاب کا کوئی نہ کوئی موضوع ضرور ہوتا ہے۔ کوئی کتاب معاشیات کی کتاب کہلاتی ہے‘ کوئی سائنس کی‘ کوئی تاریخ یا جغرافیہ کی۔ اس عام بات سے قرآن مجید جیسی اہم ترین کتاب کیوں کر مستثنیٰ ہو سکتی ہے۔ لہٰذا بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پاک کا موضوع کیا ہے؟ یہ کس موضوع کی کتاب ہے؟ کیا یہ فلسفے کی کتاب ہے؟ کیا آپ قرآن کو فلسفے کی کتاب قرار دیتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اگرچہ اس کتاب میں فلسفے کے بہت سے مسائل زیربحث آئے ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود یہ فلسفے کی کتاب نہیں ہے۔ کیا پھر قرآن پاک معاشیات کی کتاب ہے؟ اس میں بہت سے بنیادی معاشی مسائل کا حل بتایا گیا ہے‘ دولت کی تقسیم کیوں کر ہو‘ دولت کمائی کیسے جائے‘ تقسیم دولت کے بارے میں ریاست کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ان مباحث کے باوجود ماہرین معاشیات کی نظر میں قرآن پاک بہرحال معاشیات کی کتاب نہیں ہے۔ کم از کم اس انداز کی معاشیات کی کتاب نہیں ہے جس انداز کی معاشیات کی کتابیں عام طور پر ہوتی ہیں۔ اسی طرح یہ قانون کی کتاب بھی نہیں ہے‘ نہ قانون کا کوئی طالب علم فنی مفہوم میں اس کو قانون کی کتاب قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ اس میں نہ قانونی اصطلاحات ہیں اور نہ قانون و فقہ کی فنی زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔ اگرچہ اس میں قانون کے بہت سے پیچیدہ مسائل حل کیے گئے ہیں۔
درحقیقت غور کیا جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ قرآن پاک ان علوم و فنون میں سے فنی طور پر کسی علم کی کتاب نہیں ہے۔ اس کو نہ ہم قانون کی کتاب کہہ سکتے ہیں‘ نہ معاشیات کی‘ نہ فلسفے کی‘ نہ تاریخ کی اور نہ نفسیات کی۔ اگرچہ ان تمام علوم کے بنیادی مسائل کا جواب اس کتاب میں موجود ہے۔ ہاں‘ اس کو ہم کتاب ہدایت کہہ سکتے ہیں جو ان موضوعات پر پائی جانے والی ساری کتابوں کے لیے رہنما اور کسوٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔ مندرجہ بالا اور دیگر بہت سے موضوعات پر لکھی جانے والی ہر وہ کتاب جو اس کتاب ہدایت کے مطابق ہے وہ سچی کتاب ہے‘ اور ہر وہ کتاب جو قرآن پاک سے متعارض ہے وہ جھوٹی کتاب ہے۔ لیکن یہ سوال پھر بھی برقرار رہتا ہے کہ اس کتاب ہدایت کا اپنا موضوع کیا ہے؟
اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے جب ہم قرآن مجید پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک کا اپنا موضوع ہے: اس دنیاوی زندگی میں انسان کا کردار اور انسان کی آخری اور اخروی منزل مقصود۔ یہ چیز قرآن پاک کا بنیادی مضمون ہے‘ یعنی اس بات کی وضاحت و تشریح کہ اس زندگی میں انسان کی ذمہ داری اور بالآخر اس کی وہ منزل مقصود جہاں اس کو جانا ہے وہ کیا ہے؟ اور وہاں کیسے پہنچا جائے؟ قرآن پاک شروع سے لے کر آخر تک بالواسطہ یا بلاواسطہ اسی ایک موضوع سے بحث کرتا ہے کہ انسان کیا ہے؟ کہاں سے‘ کیوں اور کیسے آیا ہے؟ اور بالآخر اسے کہاں جانا ہے؟ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اسے کیا کرنا چاہیے؟
اس ایک سوال کا جو بہت سے سوالوں کا مجموعہ ہے‘ جواب دینے کے لیے قرآن پاک زندگی کے تمام مسائل سے بحث کرتا ہے۔ اس بنیادی سوال کا جواب دینے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کی عائلی زندگی‘ خاندانی زندگی‘ اس کی معاشرتی زندگی‘ اس کی معاشی زندگی‘ اس کے معاملات‘ اس کا کاروبار‘ اس کی سیاسی زندگی غرض اس کی زندگی کے ہر پہلو سے بحث کی جائے‘ اور یہ بتایا جائے کہ وہ خاندان‘ معیشت‘ معاشرہ اور حکومت کا کاروبار کس طرح چلائے؟ ان پہلوئوں میں پیش آنے والے تمام سوالات سے بحث کی جائے۔ جنگ کے حالات ہوں تو اس کا رویہ کیسا ہو‘ امن کے دوران کیا ہو‘ غرض انسانی زندگی کے ہر پہلو پر غور کرنے اور اس پر گفتگو کرنے کی ضرورت اس میں پیش آئے گی۔ اس لیے یہ سارے مسائل جن کی ضرورت اس بنیادی سوال کا جواب دینے کے لیے پڑتی ہے ان سب سے قرآن پاک میں بحث کی گئی ہے۔
لہٰذا قرآن مجید میں انسانی زندگی سے بحث کرنے والے تمام علوم و فنون کی بنیادیں موجود ہیں۔ اس کتاب کا اصل ہدف یہ ہے کہ انسان کسی طرح کامیاب طریقے سے منزل مقصود پر پہنچ جائے۔ اس لیے اس اصل ہدف کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق اس کتاب میں سائنس کی معلومات بھی ملتی ہیں‘ معاشیات اور دوسرے بہت سے علوم کی تعلیم سے متعلق سوالات جن کی راہ میں ضرورت پیش آئے گی ان سب کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ لیکن اس کتاب کے اسلوب میں اور دوسرے تمام علوم و فنون کے انداز میں ایک نمایاں فرق ہے‘ مثلاً آپ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس بھی ان سوالوں کا جواب دے سکتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ بھی ان سوالوں کا جواب دے سکتا ہے کہ انسان کہاں سے آیا؟ کیوں آیا؟ اور اس کو بالآخر کہاں جانا ہے؟ اور قرآن پاک بھی ان سوالوں کا جواب دیتا ہے۔ ذرا غور سے دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن پاک کے جواب میں اور باقی تمام فلسفوں اور نظاموں کی طرف سے دیے جانے والے جوابوں میں ایک بڑا بنیادی فرق ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ دوسرے نظاموں اور فلسفوں میں توجہ کا مرکز انسان کا ماضی‘ یعنی اس کا آغاز ہے۔ وہاں بیشتر بحث اس بات پر ہوتی ہے کہ انسان کہاں سے آیا اور کیسے آیا؟ یا زیادہ سے زیادہ یہ بحث ملتی ہے کہ اب یہاں اس کو کیا کرنا ہے۔ آپ دیکھیںگے کہ انسان کے بارے میں سائنس کی ۹۰ فی صد بحثیں یہی ہیں کہ انسان آیا کہاں سے؟ کوئی بندر پر تحقیق کر رہا ہے‘ کوئی بن مانس پر تحقیق کر رہا ہے‘ غرض آغاز کے متعلق لوگ ہزاروں سال سے بحثوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس سے سائنس کو بہت کم بحث ہوتی ہے کہ یہاں انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ اور اس سے تو شاذونادر ہی کسی کو بحث ہوتی ہے کہ انسان کو بالآخر کہاں جانا ہے؟ اور جہاں جانا ہے وہاں کامیابی کیسے حاصل کی جائے؟ اس اصل سوال سے ان میں سے کسی کو بحث نہیں ہوتی۔ نہ سائنس کو‘ نہ سماجیات کو اور نہ بشریات کو۔ آپ غور کریں کہ آخر یہ چیز ہمارے لیے کیا عملی افادیت رکھتی ہے کہ انسان کہاں سے اور کیسے آیا؟ قرآن نے بھی اس سوال کا جواب دیا ہے لیکن اس کو بنیادی مسئلہ نہیں بنایا۔ ایک واضح اور سادہ جواب دینے پر اکتفا کیا ہے اور تفصیلات کو غیر ضروری قرار دے کر چھوڑ دیا ہے لیکن زیادہ توجہ اس پر دی ہے کہ اب انسان کو یہاں کیا کرنا چاہیے‘ اسے اب آگے کہاں جانا ہے اور سفر کو کیسے مکمل کرنا ہے۔
یہ ایک واضح بات ہے کہ ہم میں سے کسی کا آغاز بھی ہمارے اپنے قبضے میں نہیں ہے۔ جب ہم اس دنیا میں آتے ہیں تو اپنی مرضی سے نہیں آتے‘ ہم میں سے کوئی بھی اپنے آزادانہ فیصلے یا مرضی اور اختیار سے اس دنیا میں نہیں آیا۔ کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا تھا کہ میاں! تمھیں اس دنیا میں بھیجوں یا نہ بھیجوں‘ نہ اللہ تعالیٰ نے پوچھا‘ نہ میرے ماں باپ نے پوچھا۔ مجھے تو اس دنیا میں آنے کا شعور بھی پیدایش کے کئی سال بعد ہوا۔ آنے کے بعد بھی اب اگر کوئی انسان چاہے کہ وہ اس دنیا میں آنے یا نہ آنے کا خود فیصلہ کرلے تو یہ بھی اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ لہٰذا جو چیز ہمارے اختیار میں نہیں ہے ہم اس کے آغاز کے متعلق بہت سی تفصیلات جان کر بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتے اس لیے کہ آیندہ بھی لوگ اس دنیا میں آتے رہیں گے اور وہ بھی اسی بے اختیاری سے ہی آئیں گے۔ اس لیے انسان کے آغاز پر بہت زیادہ غوروفکر کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ توجہ وہاں دینی چاہیے جوہمارے اختیار میں ہو۔ آیندہ کامیابی کی منزل کا حصول میرے اختیار میں بھی ہے اور آپ کے اختیار میں بھی۔ اگر میں کامیابی سے اپنی منزل پر پہنچنا چاہوں تو اللہ نے مجھے اس کے لیے وسائل دیے ہیں اور میں ایسا کرسکتا ہوں۔ مجھے اختیار بھی دیا ہے‘ اسباب بھی پیدا کیے ہیں اور حالات بھی فراہم کیے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے اس چیز پر زور دیا جو ہمارے اختیار میں ہے‘ ہم اس کو بنا بھی سکتے ہیں اور برباد بھی کر سکتے ہیں۔ سنوار بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ یہ ہے فرق قرآن پاک اور باقی کتابوں میں۔ قرآن پاک بات کرتا ہے مستقبل کی‘ جسے انگریزی میں کہتے ہیں کہ قرآن پاک کا اسلوب Future Oriented ہے‘ یعنی نظر بہ مستقبل۔ باقی علوم و فنون کا اسلوب Past Oriented ہے‘ یعنی نظر بہ ماضی۔ صرف ماضی میں جھانکتے رہنے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ اگر مستقبل سے نظر ہٹ جائے جو آپ کے بس میں ہے اور اس کا بنانا اور بگاڑنا دونوں آپ کے اختیار میں ہیں‘ تو زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس مضمون کو اقبالؒ نے بہت عمدہ اسلوب اور بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے ؎
خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
گویا ابتدا کی ایک حد سے زیادہ فکر کرنا غیر ضروری ہے‘ فکر انجام کی کرنی چاہیے۔ قرآن پاک میں بھی آپ کو جابجا ملے گا: وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَo (الاعراف۷:۱۲۸) ’’اور آخری کامیابی انھی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ جس کا ہدف یہی سبق دینا ہے کہ اصل مقصود مسلمان کی آخرت کی زندگی ہے‘ اسی کو منزل مقصود سمجھنا چاہیے۔
چنانچہ قرآن نے اس حقیقت کو ذہن نشین کرانے کے لیے جو مباحث اختیار کیے ہیں ان کو ہم پانچ بنیادی موضوعات یا عنوانات میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ یہ عنوانات قرآن پاک میں ہر جگہ بکھرے ہوئے ہیں اور حسب ضرورت و موقع اجمال اور تفصیل دونوں کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ قرآن پاک کی ہر منزل میں‘ ہر سورہ میں حتیٰ کہ بیشتر آیات میں یہ پانچ موضوعات براہِ راست یا بالواسطہ نظر آئیں گے۔ یہ موضوعات اس ایک سوال کے پانچ مختلف پہلوئوں سے بحث کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ چھوٹے چھوٹے مباحث بھی ہیں جو ان ہی پانچ مباحث کے نتیجے کے طور پر قرآن پاک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ پانچ بنیادی مباحث یہ ہیں:
سب سے پہلا بنیادی مبحث جو قرآن پاک میں سورہ فاتحہ سے والناس تک ملتا ہے‘ وہ عقائد کا مضمون ہے۔ یہ مضمون قرآن پاک میں ہر جگہ موجود ہے‘ کہیں کھلا ہوا بیان ہوا ہے اور کہیں چھپا ہوا دوسرے مضامین کے سیاق میں ملتا ہے۔ اس دنیا میں انسان کی حیثیت کیا ہے؟ اس کائنات کو کس نے بنایا ہے؟ یہاں انسان کو کیا کرنا ہے‘ کیوں کرنا ہے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب زندگی کے کسی بھی نظام کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔ ان ہی سوالات کے جواب سے اسلام کے تصور کائنات کی بنیادیں سامنے آتی ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جسے عقائد کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
قرآن پاک نے عقائد کے ضمن میں ان تمام بنیادی سوالات کا جواب دے دیا ہے جن کی ضرورت روز مرہ زندگی کے مسائل کے حل میں پڑتی ہے۔ عقیدے سے متعلق کوئی بنیادی سوال ایسا نہیںرہتا جس کا جواب قرآن پاک میں نہ دے دیا گیا ہو۔ بے شمار غلط فہمیاں جو عقائد کے بارے میں انسان کے دماغ میں آسکتی ہیں ان کا جواب بھی دیا ہے۔ مختلف اسلام دشمن عناصر‘ مشرکین و کفار‘ جو اعتراضات کرتے رہے ہیں‘ آج کرتے ہیں یا آیندہ کرتے رہیں گے ان کا جواب بھی ان مباحث میں موجود ہے۔
لیکن عقائد کے متعلق جو مواد قرآن پاک میں بیان ہوا ہے اول سے لے کر آخر تک اگر آپ اس کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ سب تین بنیادی مسائل کے جوابات ہیں جو عقیدے کے باب میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
سب سے بڑا بنیادی مسئلہ توحید ہے کہ اللہ ایک ہے‘ وہی اس کائنات کا پیدا کرنے والا ہے‘ اور تمام صفات کمال سے متصف ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ ہر سلیم الطبع انسان ذرا سا غور کرے تو وہ جلد ہی توحید پر ایمان لے آتا ہے۔ جب بھی کوئی صاحب ِ عقل اور صاحب ِ علم انسان تھوڑا سا غور کر کے یہ دیکھتا ہے کہ یہاں دنیا میں کیا نظام چل رہا ہے؟ کیسے یہ کائنات کام کر رہی ہے؟ تو وہ خود بخود اللہ رب العزت کی ذات تک پہنچ جاتا ہے اور اس کو یہ تسلیم کرلینے اور اس بات کا اعتراف کرلینے میں کوئی تامل نہیں ہوتا کہ اس کائنات کا ایک بنانے والا ہے۔ اس کو یہ مان لینے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ اس کائنات کا نظام کسی خودکار طریقے سے نہیں چل رہا بلکہ کسی چلانے والے کے حکم اور مشیت کے تحت ہی چل رہا ہے۔ جب وہ یہ سب کچھ مان لیتا ہے تو پھر اس کو جلد ہی یہ احساس بھی ہو جاتا ہے کہ عقیدئہ توحید کے منطقی نتیجے کے طور پر اسے آخرت پر ایمان لانا چاہیے۔ اس لیے کہ جب ایک بار اللہ کے بارے میں یہ مان لیا کہ وہ قادر مطلق ہے تو یہ بھی ماننا چاہیے کہ وہ سمیع و بصیر ہے۔ پھر اس کو دانا بھی ہونا چاہیے‘ حکیم بھی ہونا چاہیے‘ پھر اس کے دیے ہوئے نظام میں توازن اور اعتدال بھی ہونا چاہیے۔ خود سائنس دان کائنات میں موجود اس عظیم الشان اور بے مثال توازن کو تسلیم کرچکے ہیں۔ انھوں نے اس توازن کی بڑی بڑی ایمان افروز مثالیں دریافت کی ہیں‘ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ اگر زمین اور سورج کا فاصلہ چند فٹ بھی کم و بیش ہو جائے تو ساری کائنات درہم برہم ہو سکتی ہے۔ لہٰذا کوئی ایسی قوت ضرور ہے جو توازن اور اعتدال سے اس نظام کو چلا رہی ہے‘ جس نے اس کائنات کو سنبھالا ہوا ہے۔ لہٰذا اگر انسان اس کائنات کے نظام پر غور کرے تو خود بخود اللہ کی ان تمام صفات تک پہنچ جائے گا جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔
جب وہ یہ سب مان لے تو پھر اس کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ جس خالق نے یہ کائنات پیدا کی ہے اس نے بغیر کسی مقصد کے اس کو پیدا نہیں کیا۔ اس کے پیچھے کوئی مقصد کارفرما ہونا چاہیے۔ مجھے اپنے بچپن کا واقعہ اچھی طرح یاد ہے۔ جب میں نے پہلی مرتبہ قرآن کی یہ آیت اور اس کا ترجمہ پڑھا کہ وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآئَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ o (الانبیاء ۲۱:۱۶) یعنی ہم نے زمین وآسمان کو کھیل کے لیے پیدا نہیں کیا‘ تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کون کہتا ہے کہ آپ نے کھیل کود کے لیے پیدا کیا ہے۔ مدتوںمیرے ذہن میں یہ سوال آتا رہا کہ اتنی واضح بات کو کہنے کی کیا ضرورت تھی اور سوچتا رہا کہ ایسا کیوں فرمایا گیا۔ بعد میں جب میں نے مختلف مذاہب کا مطالعہ کیا تو میں نے ہندوازم میں پڑھا ‘ان کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا نے یہ کائنات کھیل اور تفریح کی غرض سے پیدا کی ہے۔ یہ سارا سنسار رام کی لیلا ہے۔ لیلا کے معنی کھیل کے ہیں اور یہ پوری کائنات رام کا کھیل ہے۔ اس کے بنانے کی کیفیت وہی ہے جو بچوں کی طرف سے ریت کا گھروندہ بنانے کی ہوتی ہے۔ وہ محض تفنن طبع کے لیے ریت کے گھروندے بناتے ہیں اور جب دل بھر جاتا ہے تو اسے توڑ کر چلے جاتے ہیں‘ پھر کسی اور کھیل میں لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ رام تفریح طبع کی خاطر طرح طرح کی دنیائیں بناتا ہے اور جب دل بھر جاتا ہے تو ان کو تباہ کرکے پھر نئی دنیا بنانے کی طرف چل پڑتا ہے۔ اس نے موجودہ دنیا بھی کھیل اور تفریح کے لیے بنائی ہے جس دن اس سے اس کا دل بھر جائے گا وہ اس کو تباہ کر دے گا۔ پھر کچھ اور بنائے گا۔ جب میں نے ہندومت میں یہ بات پڑھی اس وقت مجھے پتا چلا کہ قرآن کی اس آیت میں یہ بات کیوں بیان کی گئی۔ اس سے قرآن پاک پر میرا ایمان و ایقان غیرمعمولی طور پر بڑھا‘ کیونکہ حضورؐ جہاں تشریف فرما تھے وہاں کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ ہندو نام کی کوئی قوم بھی دنیا میں پائی جاتی ہے یا ہندو قوم کے عقائد کیا ہیں اور وہ کہاں آباد ہے۔ گویا مسلمانوں کو ایک آیندہ آنے والے مسئلے کے متعلق پہلے سے بتا دیا گیا کہ یہ کائنات کسی کھیل یا تفریح کے نتیجے میں نہیں بنائی گئی بلکہ الا بالحق‘ یعنی ایک واضح اور دو ٹوک مقصد کے ساتھ بنائی گئی ہے۔
اسی طرح قرآن میں بتایا گیا کہ اللہ نے زمین و آسمان کو سات دنوں میں بنایا اور وہ ان کو بنا کر تھکا نہیں۔ ایک جگہ آتا ہے ہم پر کوئی تھکاوٹ یا نیند طاری نہیں ہوئی۔ مجھے پھر خیال آیا کہ کون یہ سوچتا ہوگا۔ اللہ تو قادر مطلق ہے اس پر تھکن کے آثار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن جب میں نے بائبل پڑھی تو دیکھا اس کے شروع ہی میں یہ بات موجود ہے کہ اللہ نے چھ دن میں زمین اور آسمان کو پیدا کیا اور ساتویں دن تھک کر آرام کیا۔ اس کو یہودی یوم السبت کہتے ہیں۔ اس دن چھٹی کرتے ہیں اور آرام کرتے ہیں۔ یہ پڑھ کر مجھے معلوم ہوا کہ قرآن میں یہ آیت کس غلطی کے ازالے کے لیے نازل کی گئی۔
دوسری اہم حقیقت جو قرآن پاک نے جابجا بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ بعض اوقات انسان جب صحیح رستے سے بھٹکتا ہے تو اس کے دو سبب ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ ہوتا ہے کہ انسان کو صحیح عقیدہ معلوم نہیں ہوتا‘ دوسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ صحیح عقیدہ معلوم تو ہوتا ہے لیکن وہ اپنے بارے میں یا تو احساس برتری کا شکار ہو جاتا ہے یا احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ پوری کائنات کو اپنے ہی حوالے سے دیکھتا ہے۔ یہ انسان کی فطری کمزوری ہے۔ اگر کوئی شخص مجھ سے لڑتا ہے تو میں کہوں گا کہ وہ برا ہے‘ اور اگر مجھ سے اچھا برتائو کرتا ہے تو میں کہوں گا کہ وہ اچھا ہے۔ جب انسان اپنے بارے میں احساس برتری کا شکار ہوتا ہے تو اپنے کو بڑھاتے بڑھاتے خدا مان لیتا ہے اور خود کو دوسرے انسانوں کا مالک و مختار سمجھنے لگتا ہے۔ جب وہ احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے تو اس سے گمراہی کی دوسری بہت سی شکلیں پیدا ہوتی ہیں۔ جب انسان اپنے کو بے حقیقت سمجھتا ہے تو پھر وہ گائے‘ بندر اور سانپوں تک کو دیوتا مان لیتا ہے۔ اگر انسان بڑے سے بڑا مقام چاہتا ہے تو وہ عبدیت کا ہی مقام ہے۔ اس مقام سے بڑا مقام اللہ نے کسی کے لیے نہیں رکھا۔ وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰)‘ ہم نے بنی آدم کو دیگر تمام مخلوقات پر فضلیت دی ہے۔
دوسری طرف جب انسان خود کو حقیر اور ذلیل سمجھنا شروع کرتا ہے تو وہ اسفل السافلین تک جا پہنچتا ہے۔ گویا انسان کی پوزیشن اور حیثیت میں توازن رکھا گیا۔ اللہ رب العزت کے بعد سب سے بڑا درجہ انسان اور تمام مخلوقات سے اونچی حیثیت انسان کی قرار دی گئی۔ لہٰذا یہ تعلیم دی گئی کہ نہ اتنے بڑے بنو کہ خدائی کا دعویٰ کر بیٹھو‘ یا خدائی معاملات میں دخل اندازی شروع کر دو‘ اور نہ اتنے چھوٹے بنو کہ اپنی کوئی حیثیت نہ سمجھو۔ بلکہ تم خدا کے جانشین اور خلیفہ کے اعزاز کے مستحق قرار دیے گئے ہو۔
خلیفہ کے لفظ کے متعلق ایک غلط فہمی بھی دُور کرنا ضروری ہے۔ خلافت اور جانشینی کے لفظ سے ایک الجھن پیدا ہوتی ہے۔ عام طور سے جب ایک صدر مر جاتا ہے تو دوسرا اس کے جانشین کے طور پر آجاتا ہے۔ کوئی پیر دنیا سے رخصت ہو جائے تو دوسرا بزرگ بطور جانشین آجاتا ہے۔ لیکن اللہ تو حی و قیوم ہے‘ اس کا جانشین کیسے ہو سکتا ہے؟ اس غلط فہمی یا اشکال کی وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ جانشینی کا مفہوم سمجھ لیا جائے۔
مفسرین نے لکھا کہ جانشینی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک جانشینی ہوتی ہے اس کے غائب ہونے کی صورت میں جس نے جانشین بنایا ہے۔ ایک جانشینی ہوتی ہے تشریفا للمستخلف کہ جس کو خلیفہ یا جانشین بنایا ہے اس کی عزت افزائی مقصود ہوتی ہے‘ اس کا احترام کرنا مقصود ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی مسجد میں ایک امام صاحب ایک مہمان بزرگ کی عزت افزائی کے لیے ان سے کہتے ہیں کہ آپ نماز پڑھا دیں‘ یا مثلاً آپ کسی تقریب یا جلسے کی صدارت کر رہے تھے‘ آپ نے دیکھا کہ حاضرین میں کوئی صاحب بڑے معزز بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ نے ان کو کرسی صدارت پیش کر دی۔ اس طرح کی جانشینی دینا گویا عزت کے لیے ہوتا ہے‘ جس طرح کوئی صدر مملکت کسی شخص کو بلا کر اپنے پاس بٹھا لے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ باقی لوگ بھی اس کی اسی طرح عزت کریں۔ لہٰذا یہ ایک عزت دینے کا طریقہ ہوتا ہے۔ چونکہ اللہ نے انسان کو اور تمام بنی آدم کو عزت دی ہے اس لیے اس کو خلیفہ فی الارض کا خطاب دیا ہے۔
یہ وہ سوالات ہیں جو قرآن پاک نے عقائد کے بارے میں جابجا بیان کیے ہیں۔
قرآن پاک کا دوسرا اہم مبحث احکام ہے۔ قرآن مجید جو نسخۂ کیمیا لے کر آیا ہے اس کا سب سے بڑا مقصد انسان کو دنیاوی زندگی میں کامیابی کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی میں بھی کامیاب و کامران بنانا ہے۔ دنیاوی کامیابی کے لیے قرآن مجید میں عموماً صلاح کی اور اُخروی زندگی میں کامیابی کے لیے فلاح کی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں۔ اس صلاح اور فلاح کے لیے ضروری ہے کہ انسانی زندگی کسی قاعدے اور ضابطے کے تحت منظم ہو۔ قرآن مجید نے جو تفصیلی ضابطہء زندگی عطا فرمایا ہے وہ زندگی کے تمام پہلوئوں کو منظم کرتا ہے۔ انسان اپنی روز مرہ زندگی میں جو کچھ کرتا ہے اس کو صحیح خطوط پر منظم اور استوار کرنے کے لیے قرآن پاک میں ضروری اور بنیادی احکام دیے گئے ہیں۔ انسان اپنی ذاتی‘ خاندانی‘ معاشرتی‘ اقتصادی‘ اجتماعی‘ سیاسی اور بین الاقوامی زندگی میں جو کچھ کرتا ہے اس کو مفید‘ نتیجہ خیز اور بہتر بنانے کے لیے قرآن پاک نے جابجا ہدایات دی ہیں۔ قرآن پاک کی ان آیات کا جن میں اس طرح کے احکام بیان کیے گئے ہیں‘ جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ کتاب الٰہی نے انسان کی پیدایش سے لے کر موت تک زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑا جس کے بارے میں ہدایات نہ دی ہوں۔
قرآن پاک کے یہ احکام معاشرتی ہدایات اور اجتماعی رہنمائی پر بھی مشتمل ہیں اور قانونی اصول و ضوابط پر بھی۔ اول الذکر پر عمل درآمد کا ذمہ دار خود انسان کا ضمیر اور قوت محرکہ اللہ کے حضور جواب دہی کا احساس ہے۔ مزیدبرآں معاشرتی دبائو بھی انسان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ان ہدایات پر کاربند رہے۔ ثانی الذکر احکام کی نوعیت قانونی ضوابط کی ہے جن پر عمل درآمد جہاں فرد کی ذمہ داری ہے وہاں کچھ حدود کے اندر ریاست کی ذمہ داری بھی ہے۔
قرآن مجید کی یہ آیات جن کو آیات احکام کہا جاتا ہے اکثر وبیشتر عمومی ہدایات پر مشتمل ہیں۔ قرآن مجید نے تفصیلات کا تعرض نہیں کیا‘ اس لیے کہ تفصیلات کا تعلق حالات اور زمانے کے تقاضوں سے ہوتا ہے۔ یہ اُمت کے اہل علم و دانش اور فقہاے اسلام کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اجتہاد اور اجماع کے اصولوں سے کام لے کر قرآن مجید کی عمومی ہدایات‘ بنیادی احکام اور اصولوں کو سامنے رکھ کر اسوئہ حسنہ کی روشنی میں اور سنت رسولؐ کی بیان کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے حالات و زمانے کے مطابق تفصیلات طے کریں۔
قرآن مجید کی آیات احکام کی تعداد نسبتاً قلیل ہے۔ قرآن مجید کی کل ۶ ہزار سے زائد آیات میں ۳۰۰ کے لگ بھگ آیات ایسی ہیں جن کو آیات احکام کہا جاتا ہے۔ یہ ۳۰۰ آیات وہ ہیں جن میں براہِ راست فقہی احکام اور قانونی اصول بیان فرمائے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور آیات سے بھی بعض اہل علم نے بالواسطہ احکام کا استنباط کیا ہے۔ یہ آیات جن سے بالواسطہ احکام کا استنباط ہوا ہے ۲۰۰ کے قریب ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساری آیات احکام مجموعی طور پر ۵۰۰ سے زائد نہیں ہیں۔ یہ تعداد قرآن مجید کی کل آیات کے ۱۳ ویں حصے کے قریب قریب ہے۔
پھر آیات احکام میں بھی زیادہ زور جن دو پہلوئوں پر دیا گیا ہے وہ عبادات اور خاندانی زندگی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آیات احکام کی ایک تہائی تعداد عبادات کے بارے میں ہے اور ایک تہائی خاندانی زندگی کے بارے میں ہے۔ بقیہ ایک تہائی کا تعلق زندگی کے بقیہ پہلوئوں سے ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن نے خاندانی زندگی کے تحفظ کو کتنی اہمیت دی ہے۔ قرآن میں ہر ایسی کوشش کو جس کا مقصد خاندان میں افتراق پیدا کرنا ہو‘ شیطان کی سحرکاری قرار دیا ہے اور اس کو ایک کافرانہ عمل ٹھیرایا ہے۔
قرآن مجید اگرچہ کلیات کی کتاب ہے اور اس میں عمومی احکام اور کلی ہدایات دی گئی ہیں لیکن اس کا اسلوب کسی قانون‘ اصول قانون یا آئین و دستور کی فنی کتاب کا سا نہیں ہے۔ اس کتاب میں عمومی قانونی ہدایات و کلیات کو جزوی مثالوں اور واقعات کے پردے میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے قارئین کی علمی‘ فکری اور ذہنی سطحیں بے شمار ہیں۔ اس لیے اس کا اسلوب ایسا ہے کہ اس کو ہر شخص اپنی سطح اور فہم کے مطابق سمجھ سکتا ہے۔ قرآن مجید کے کلیات اور عمومی اصولوں کو حقائق زندگی کے پسِ منظر میں برتنے کا ڈھنگ ‘ سیرت اور سنت رسولؐ سے معلوم ہوتا ہے۔ سنت‘ قرآن مجید کی تشریح بھی کرتی ہے‘ تفصیل بھی بیان کرتی ہے اور مجملات قرآن کی تبیین بھی کرتی ہے۔ اگرچہ سنت رسولؐ براہِ راست مستقل بالذات احکام بھی دے سکتی ہے‘ تاہم بعض بالغ نظر اہل علم کا کہنا ہے کہ سنت کے دیے ہوئے ہر حکم کی کوئی نہ کوئی اساس قرآن پاک میں موجود ہوتی ہے اور غور کرنے سے سامنے آجاتی ہے۔
تیسرا اہم مبحث اخلاق ہے جس کا تعلق انسان کے قلبی احساسات اور تاثرات سے ہے۔ انسان بعض چیزوں کو پسند کرتا ہے اور بعض کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے‘ جب کہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن سے اس کو شدید نفرت ہوتی ہے۔ یہ پسندیدگی‘ ناپسندیدگی اور نفرت انسان کے قلبی احساسات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ یہ احساسات بعض اوقات اچھے ہوتے ہیں اور بعض اوقات خراب۔ انسان کے احساسات اچھے ہوں تو ہر چیز اس کو اچھی نظر آتی ہے۔ احساسات خراب ہوں تو انسان مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور ہر چیز بگڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو روزاسی کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ اگر آپ خوش ہیں اور قلبی اور ذہنی کیفیت کے اعتبار سے انبساط کی حالت میں ہیں تو آپ کو ہر چیز اچھی نظر آئے گی‘ اور اگر خدانخواستہ کوئی شخص آپ کو کوئی بری خبر سنا دے تو آپ کو سارا ماحول پژمردہ نظر آنے لگتا ہے۔ گویا انسان کا دل اس کی جذباتی زندگی میں ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جب تک اس کے قلبی احساسات ٹھیک رہتے ہیں تو اس کو ساری کائنات ٹھیک لگتی ہے اور اگر قلبی احساسات بگڑ جائیں تو ساری کائنات بگڑی ہوئی لگتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کائنات اپنی جگہ رہتی ہے‘ وہ جیسی پہلے تھی ویسی ہی آج بھی ہے۔ نہ وہ خوش ہوتی ہے اور نہ ناخوش‘ نہ وہ مسرت سے مچلتی ہے اور نہ کسی وجہ سے غم ناک ہوتی ہے‘ یہ محض انسان کا دل ہے جو انسان کو کچھ کا کچھ دکھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: دیکھو! انسان کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے‘ جب تک وہ ٹھیک رہتا ہے سارا جسم ٹھیک رہتا ہے‘ جوں ہی وہ بگڑتا ہے سارا جسم بگڑ جاتا ہے‘ اور یاد رکھو وہ لوتھڑا انسان کا دل ہے۔
یہ بات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے محض کسی طبی اور جسمانی مفہوم میں ارشاد نہیں فرمائی ‘ اگرچہ اس مفہوم میں بھی یہ بات بالکل درست ہے۔ درحقیقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد گرامی اخلاقی اور روحانی مفہوم میں ہے۔ آپؐ کا اشارہ انسان کے جذبات و عواطف اور احساس و کردار کی طرف ہے۔ انسان جذباتی طور پر متوازن رہے تو اس کی پوری زندگی توازن کا نمونہ بنی رہتی ہے‘ اور اگر کسی وجہ سے انسان جذباتی عدم توازن کا شکار ہو جائے تو پوری زندگی غیر متوازن ہوجاتی ہے۔ اس سے صاف پتا چلا کہ ایک کامیاب اور متوازن زندگی گزارنے کے لیے انسان کے قلبی احساسات کی درستی اور جذباتی توازن انتہائی اہمیت کی حامل چیز ہے۔
قرآن مجید نے جابجا ایسی ہدایات دی ہیں جو انسان کے احساسات کو متوازن اور جذبات کو معتدل رکھتی ہیں۔ انسان جذباتی تنائو کا شکار جن اسباب سے ہوتا ہے ان میں سے ایک ایک کا قرآن پاک میں علاج کیا گیا ہے۔ بعض اوقات مال و دولت کی فراوانی‘ اقتدار و اختیار‘ حسن و جمال‘ طاقت و قوت اور ایسی ہی دوسری مادی نعمتیں انسان کا توازن بگاڑ دیتی ہیں۔ قرآن مجید نے جابجا یہ یاد دلایا کہ یہ چیزیں جہاں خالق کائنات کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہیں وہاں یہ ایک آزمایش کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ اگر ایک صاحب ایمان ان میں سے ہر نعمت کے ملنے پر شکر کا رویہ اختیار کرے تو وہ بہکنے سے محفوظ رہتا ہے۔ شکر کا رویہ نہ ہو تو ان نعمتوں کا نشہ انسان کو بہکا دیتا ہے اور وہ توازن کی راہِ راست سے بھٹک کر عدم توازن کی سنگلاخ پگڈنڈیوں پر نکل جاتا ہے‘ اور پھر جتنا وہ اس راستے پر بڑھتا چلا جاتا ہے اس کے عدم توازن میں اضافہ اور زندگی کی ناکامیوں میں زیادتی ہوتی جاتی ہے۔
اسی طرح اگر آزمایش کی گھڑیوں میں انسان ہمت ہار جائے اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دے تو بھی وہ بہت جلد عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسانی مزاج کی اس اہمیت کے پیشِ نظر قرآن مجید نے اپنی تعلیم کا ایک اہم حصہ اس پہلو کو بہتر اور منظم بنانے کے لیے خاص کیا ہے۔ قرآن پاک کی یہ تعلیم جس کے لیے تزکیہ اور احسان کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں انسان کے جذبات و احساسات کو متوازن اور منضبط رکھنے میں مدد دیتی ہے۔
تقدیر پر ایمان محض ایک کلامی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ عقیدہ انسان کو ہر نازک اور بحرانی لمحے میں زیورِاعتدال و توازن سے آراستہ رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں جابجا اہل ایمان کو یہی درس دیا گیا ہے کہ زندگی میں آنے والی ہر قسم کی خوشی اور غمی‘ سختی اور نرمی‘ اچھائی اور برائی‘ بیماری اور صحت‘ کامیابی اور ناکامی‘ فتح اور شکست‘ غرض سب کچھ اللہ کی مشیت کے مطابق ہوتا ہے۔ انسان کا کام صرف یہ ہے کہ حتی المقدور جائز اسباب اور وسائل اختیار کرے اور نتیجے کو اللہ کی ذات پر چھوڑ کر اس کے فیصلے پر راضی رہے۔
تقدیر پر ایمان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انسان ہمہ وقت ایک احساسِ حضوری کے ساتھ زندگی گزارے اور ہر لمحے یہ شعور دل میں بیدار رکھے کہ وہ خالق کائنات کی مسلسل نگرانی میں ہے۔ نگرانی کا یہ احساس اس کو نہ صرف بہت سی برائیوں اور کمزوریوں سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ اوامرالٰہی کی پابندی اور نواہی سے اجتناب میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ حضوری کی یہ کیفیت جس کو حدیث پاک میں ’’احسان‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ قرآن مجید میں جابجا احسان کی ہدایت کی گئی ہے اور احسان کرنے والوںکو اللہ کا محبوب بتایا گیا ہے۔ قرآن پاک کی انھی ہدایات کی بنیاد پر اکابر اسلام نے تزکیہ و احسان کے اصول اور قواعد مرتب فرمائے اور ان کو ایک باضابطہ علم کی شکل دی۔ علماے دین کا یہ مقدس گروہ جن کو علامہ اقبالؒ نے اسلام کے ماہرین نفسیات قرار دیا ہے‘ انسانی نفس‘ اس کے رجحانات اور رغبات و مکائد پر غور کرتا رہا ہے۔ ان حضرات نے انسانی کمزوریوں کا پورا پورا احساس و ادراک کرتے ہوئے تزکیہ و احسان کے حصول کے لیے بہت سی تدابیر تجویز فرمائیں جن کو ایک جداگانہ فن کی صورت میں مرتب کر دیا گیا ہے۔ دیگر انسانی کاوشوں کی طرح اس فن میں بھی بہ تقاضا بشری بہت سا رطب و یابس داخل ہو گیا۔
قرآن پاک کا چوتھا بنیادی مبحث حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے الفاظ میں ’’ایام اللہ‘‘ کہلاتا ہے۔ ایام اللہ سے مراد دنیا کی تاریخ میں مسلسل جاری رہنے والا وہ نشیب و فراز ہے جو اللہ کی سنت کے مطابق دنیا میں جاری ہے جس کے نتیجے میں افراد اور قوموں کے عروج و زوال کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ قرآن مجید کا ہر طالب علم اس بات کو جانتا ہے کہ اس کتاب میں اقوام سابقہ اور انبیاے سابقین میں سے بہت سوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ سورۂ فاتحہ سے ہی ان دونوں قسم کے انسانوں کا تذکرہ شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ سے جو دعا کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے راستے پر چلائے جن پر اس نے انعام فرمایا اور ان لوگوں کے راستے سے محفوظ رکھے جن پر اس کا غضب نازل ہوا‘ یا وہ راہِ راست سے بھٹک گئے۔ یوں کتاب الٰہی کے آغازہی سے اللہ کے مقبول بندوں کا تذکرہ بھی شروع ہو جاتا ہے اور اللہ کے ناپسندیدہ لوگوں کا بھی۔ پھر آگے چل کر قرآن پاک میں بڑی تفصیل سے جابجا انبیا علیہم السلام کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ انبیا علیہم السلام کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے باغیوں کا ذکر بھی کم نہیں۔ چنانچہ فرعون‘ نمرود‘ شداد‘ ہامان‘ قارون اور ایسے ہی دوسرے لوگوں کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ یہ تذکرہ کہیں نام لے کر کیا گیا اور کہیں نام لیے بغیر۔
انبیا علیہم السلام کے تذکرے میں ایک خاص قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک لاکھ ۲۴ ہزار انبیا میں سے کم و بیش ۲۶ کا تذکرہ قرآن پاک میں ملتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک لاکھ ۲۴ ہزار انبیا علیہم السلام میں سے ۲۶ کا انتخاب کس بنیاد یا کس حکمت کے تحت کیا گیا؟ اسی طرح جن ناپسندیدہ افراد کا ذکر ہے ان کا انتخاب کس بنیاد پر کیا گیا؟
انبیا علیہم السلام میں سے جن جن کے اسماے گرامی قرآن پاک میں آئے ان کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک بعض خاص خاص اوصاف و امتیازات کی نمایندگی فرماتے ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت نوح علیہ السلام دعوت دین میں استقلال اور تحمل کی نمایندگی فرماتے ہیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام صبر کی صفت کے مظہر ہیں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ذات میں صفات زہد و فقر نمایاں ہیں‘ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی ذات میں شکر کا نمونہ ملتا ہے۔ ان تمام اوصاف حمیدہ کے چلتے پھرتے نمونے ان انبیا علیہم السلام کی صورت میں قرآن پاک میں محفوظ کر دیے گئے ہیں۔ قرآن مجید کا ایک قاری جب کتاب الٰہی کی تلاوت کرتا ہے تو اس کے سامنے بار بار مجسم اچھائیوں اور سراپا خوبیوں کے نمونے نظر آتے رہتے ہیں۔ ایک قاری یہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی نیک بندے کو اقتدار سے نوازتا ہے تو اس کا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے۔ حضرت دائود علیہ السلام کی سنت اس کے سامنے آجاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو مال و دولت اور انعامات کی فراوانی عطا فرماتا ہے تو اس کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا رویہ اپنانا چاہیے۔ دین کی خاطر گھربار اور وطن چھوڑنا ہو تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اسوہ پیشِ نظر رہتا ہے۔ یوں اس کی نظر میں یہ مثالیں اور نمونے ہر وقت تازہ رہتے ہیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے انبیا علیہم السلام کے واقعات ہر وقت اس طرح رہتے ہیں جیسے وہ خود ان کا مشاہدہ کر رہا ہو۔
سابقہ انبیا علیہم السلام کے ساتھ ساتھ ایام اللہ کے ضمن میں قرآن مجید میں سیرت نبویؐ کے اہم واقعات بھی محفوظ کر دیے گئے ہیں۔ قرآن مجید کا ہر قاری روحانی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں زندگی گزارتا ہے۔ وہ چشمِ تصور سے بدروحنین کے معرکے دیکھتا رہتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ہجرت کے مناظر تازہ رہتے ہیں۔ وہ غزوئہ اُحد میں صحابہ کرامؓ کی پریشانی اور سراسیمگی کو محسوس کرتا رہتا ہے‘ اور یوں وہ چشمِ تصور سے واقعات سیرت کو نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ اس کو مسلسل مہمیز ملتی رہتی ہے۔ اس گہری اور مسلسل روحانی وابستگی اور چشمِ تصور کے ذریعے اس مشاہدے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسلام کے عقائد اور اخلاق اس کی طبیعت اور مزاج کا حصہ بن جاتے ہیں اور یوں انبیا علیہم السلام کی سنت سے مسلسل رہنمائی حاصل کرتے رہنا اس کی فطرت ثانیہ بن جاتا ہے۔
اس کے برعکس جن لوگوں نے غلط راستہ اختیار کیا ان کو کس انجام کا سامنا کرنا پڑا‘ یہ بات بھی قرآن کے قاری کی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے پاتی۔ قرآن مجید میں اس غرض کے لیے جن لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ان میںہر ایک انحراف اور سرکشی کے ایک خاص انداز کی نمایندگی کرتا ہے۔ اقتدار کے نشے میں انسان راہ راست سے بہک جائے تو کہاں جا کر دم لیتا ہے۔ یہ چیز فرعون کے انجام کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ مال و دولت کی بہتات کے نتیجے میں انسان راہ راست سے بھٹک جائے تو کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ چیز قارون کے انجام سے پتا چلتی ہے۔ بعض اوقات انسان کے اپنے پاس نہ دولت ہوتی ہے نہ اقتدار‘ لیکن اس کو کسی صاحب ِ اقتدار کی مصاحبت میسر آجاتی ہے‘ شہر میں اس کی اپنی کوئی آبرو نہیں ہوتی لیکن شاہ کا مصاحب بن کر اتراتا پھرتا ہے اور یوں اس کا ذہن فساد کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ اس کے لیے قرآن مجید میں ہامان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ہامان‘ فرعون کا مصاحب تھا اور صحبت شاہ نے اس کا دماغ خراب کر دیا تھا۔
ان چیزوں کے ساتھ ساتھ بڑے لوگوں کی رشتے داری بھی بعض اوقات انسان کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ قرآن مجید نے مختلف رشتے داریاں بیان کر کے یہ بتایا ہے کہ کسی کی محض رشتے داری نہ انسان کو اچھا بنا سکتی ہے اور نہ بُرا‘ اگر وہ خود اچھا یا بُرا نہ بننا چاہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں مختلف مشہور اور بڑی شخصیتوں کے رشتے داروں کا تذکرہ بھی اس سیاق و سباق میں کیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ‘ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے‘ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کا تذکرہ اللہ کے باغیوں کی فہرست میں کیا گیا ہے۔ رسولؐ اللہ کے تمام قریبی اعزہ آپؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور اسلام کے سابقین اولین میں شامل ہوئے۔ البتہ آپؐ کا ایک بدنصیب چچا ابولہب تھا جو اس فہرست میں شمولیت کا مستحق نہ ٹھیرایاگیا۔ اچھے لوگوں کے نالائق رشتے داروں کے ساتھ نالائق لوگوں کے اچھے رشتے داروں کا ذکر بھی کیا گیا۔ چنانچہ فرعون کی تمام تر گمراہیوں اور سرکشیوں کے باوجود اس کی اہلیہ محترمہ آسیہ تقویٰ اور دین داری کے بہت بلند معیار پر فائز رہیں اور ان کو نیکی اور اخلاص کی ایک لازوال مثال کے طور پر بیان کیا گیا۔
یہ تمام واقعات و تفصیلات عبرت اور سبق آموزی کی خاطر بیان کیے گئے ہیں۔ اس لیے ان کا صرف اتنا حصہ بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا جو سبق آموزی کے لیے مفید اور ناگزیر تھا۔ ان واقعات کی وہ تفصیلات جو سبق آموزی کے لیے ضروری نہ تھیں نظرانداز کر دی گئیں۔ اس لیے کہ قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے‘ یہ کوئی تاریخ یا آثارِ قدیمہ کی کھتونی نہیں۔
قرآن مجید کا آخری بنیادی مبحث مرنے کے بعد دوسری زندگی کے حالات اور ان کی تفصیلات ہیں۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ مضمون عقائد سے تعلق رکھتا ہے‘ اس لیے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کا تعلق عقیدئہ آخرت ہی سے ہے۔ لیکن چونکہ قرآن نے اس مضمون کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اس لیے علماے کرام اور مفسرین نے اس کو ایک جداگانہ مبحث قرار دیا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اس کے لیے تذکیر بالموت ومابعد الموت کی اصطلاح اختیار فرمائی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ حیات بعد الموت کی تفصیلات بیان کرنے‘ ان کو ذہن نشین کرانے اور عقیدئہ آخرت کو اہل ایمان کے رگ و پے میں سمو دینے میں کوئی اور مذہبی کتاب قرآن مجید کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ قرآن مجیدنے جس تفصیل اور باریک بینی کے ساتھ قیامت کے مناظر کی نقشہ کشی کی ہے وہ نہ صرف مذہبی لٹریچر کی تاریخ میں بلکہ ادبیات عالم میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ نہ صرف مسلمان علما بلکہ غیرمسلم اہل علم نے بھی قرآن پاک کے اس پہلو کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ بیسویں صدی کے مسلمان ادیبوں اور محققین میں مصر کے سید قطب شہیدؒ کا نام اس معاملے میں بڑا نمایاں ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب مشاہد القیامہ فی القرآن میں قرآن پاک کے اس پہلو پر انتہائی عالمانہ اور ادیبانہ انداز سے گفتگو کی ہے۔
روز قیامت کے مناظر و مشاہد قرآن مجید کی ابتدائی سورتوں سے لے کر آخر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سکرات موت کا تذکرہ بھی ہے۔ مرنے کے بعد عالم برزخ کے سوال و جواب‘ قبر کی کیفیات و تجربات‘ مرنے والے کے روحانی احساسات سے لے کر جنت اور دوزخ کے مناظر تک ہر ہر مرحلے کی جھلکیاں موجود ہیں۔
یوں تو یہ مضمون قرآن مجید کے ہر حصے میں ملتا ہے لیکن مکی سورتیں اس معاملے میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مکی سورتیں یوں بھی اپنے غیرمعمولی زوربیان‘ خطیبانہ اسلوب اور اثرانگیزی میں ممتاز ہیں۔ یہ اسلوب‘ یہ انداز اور یہ اثرانگیزی مناظر قیامت کے ضمن میں سہ آتشہ بلکہ چہار آتشہ ہو جاتی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی صاحب ایمان جو عربی زبان کا فہم رکھتا ہو اور قرآن مجید کے مضامین سے واقف ہو‘ ان آیات کو پڑھے اور ان سے اثر نہ لے۔ ایسے واقعات سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ہیں کہ اللہ کے نیک بندے آیاتِ قیامت کو پڑھ کر یا سن کر تڑپ تڑپ گئے‘ بے قابو ہو گئے اور دھاڑیں مار مار کر رو پڑے۔ ایسے واقعات بھی لاتعداد ہیں جن میں آیاتِ قیامت کو پڑھنے یا سننے والے بیہوش ہو کر گر پڑے۔ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ بعض حساس اور تقویٰ شعار بزرگ تمام رات ایک ہی آیت کو دہراتے رہے۔ یہی ان آیات کا مقصد ہے اور شاید اسی لیے یہ خصوصی انداز اس مضمون کے ضمن میں اختیار فرمایا گیا ہے۔
یہ ہیں وہ پانچ بنیادی مباحث و مضامین جن سے قرآن پاک میں بیشتر آیات اور سورتوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ کلام کیا گیا ہے۔ ان میں سے ہرمضمون کا تعلق قرآن مجید کے اصل مقصد اور نفس مضمون سے ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ‘یعنی انسان!