دسمبر ۲۰۰۲

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| دسمبر ۲۰۰۲ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

والدین کی مشتبہ کمائی

سوال:  میں میڈیکل کالج کی طالبہ ہوں۔ عنقریب میری شادی بھی ہونے والی ہے۔ میرے والد صاحب بنک کی ملازمت کرتے ہیں۔ جب سے اسلامی جمعیت طالبات سے وابستہ ہوئی ہوں‘ مجھے یہ احساس شدت سے ہے کہ میرے والد کی کمائی جائز نہیں ہے۔ میں اس سے بچنا چاہتی ہوں۔ میں نے کوشش کی کہ ناگزیر کھانا کھائوں اور سہولیات کو کم سے کم استعمال کروں لیکن عملاً یہ محال ہے۔ ہماری آمدنی کا ایک ذریعہ مکان کا کرایہ بھی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ضروریاتِ زندگی زیادہ تر اسی آمدن سے پوری ہو جائیں۔ میں نے اپنے والدین کو اس طرف بارہا توجہ بھی دلائی ہے لیکن وہ میری بات سننے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتے۔مجھے خیال آتا ہے کہ کیا میری پرورش حرام کمائی پر ہوئی ہے؟ مجھے اس پر شدید احساسِ ندامت ہے۔ کیا کفارے کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟

شادی کے موقع پر والدین کی طرف سے ملنے والا جہیز یا دیگر اشیا میں لے سکتی ہوں یا نہیں کیونکہ یہ بھی ناجائز آمدن سے حاصل کی جائیں گی؟ کیا میں‘ میرا شوہر‘ میرے سسرال والے‘ میرے والدین کے گھر سے کھا پی سکتے ہیں‘ جب کہ ان کی آمدن جائز نہیں؟

جب بھی میری سہیلیاں مجھے ملنے آتی ہیں تو یہی خیال آتا ہے کہ میں ناجائز آمدن سے ان کی تواضع کر رہی ہوں۔ ایک سہیلی تو احتیاط کرتی ہے اور اپنے ساتھ اپنا کھانا بھی لے آتی ہے۔سوچتی ہوں شادی پر اپنی سہیلیوں کی تواضع اپنے مہر کی رقم سے کرلوں؟ میں نے سوچا ہے کہ کسی کشمیری گھرانے کی کفالت کا ذمہ لے لوں۔ کیا اس سے میرا کفارہ ادا ہوجائے گا؟

جواب:   سب سے پہلے اس خوش خبری پر مبارک باد قبول کیجیے کہ ان شاء اللہ جلد آپ کو    تکمیلِ ایمان کی سعادت مل رہی ہے اور آپ عملی زندگی میں پورے عزم اور دعوتی جذبے کے ساتھ داخل ہونے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی خاندانی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق بنائے اور آپ کو اِس دنیا اور آخرت میں اپنے فضل و کرم سے نوازے۔ آمین!

پہلی بات یہ سمجھ لیجیے کہ جب تک آپ والدین کے سہارے تعلیم حاصل کررہی ہوں اور آپ کا کوئی اپنا ذریعہ ایسا نہ ہو جس کے سہارے آپ تعلیم کے اخراجات کو پورا کر سکیں تو اس عرصے کے لیے جواب دہی آپ پر نہیں آپ کے والد پر ہے۔ ہاں‘ آپ کا اور آپ کی والدہ کا فرض ہے کہ انھیں متوجہ کرتے رہیں کہ وہ کوئی ایسا ذریعہ معاش اختیار کریں جو نہ مشتبہ ہو اور نہ اس میں ظاہری طور پر حرام کا دخل ہو۔

والدین اگر آپ کو کوئی تحفہ‘ سامان‘ کپڑے وغیرہ دیتے ہیں تو اس میں بظاہر آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کیونکہ آپ کا ذریعہء حصول جائز ہے۔ ایسے میں شادی کے بعد والدین کے ہاں جا کر کھانا پینا آپ کے حقوق میں شامل ہے۔ قرآن نے صلۂ رحمی اور والدین کے گھر میں کھانے کے حق کو تسلیم کیا ہے (النور ۲۴:۶۱)۔ آپ کے شوہر اور ان کے والدین وغیرہ بھی آپ کے والدین کے ہاں کھانا کھا سکتے ہیں اور ان کے دیے ہوئے تحائف وصول کرسکتے ہیں۔

کسی بھی مستحق کی کفالت کرنا بہرصورت اجر کا باعث ہے۔لیکن چونکہ آپ نے والدین کے ساتھ زندگی گزار کر کوئی گناہ نہیں کیا ہے‘ اس لیے کفارہ کا سوال نہیں۔ اسے بطور ایک نیک عمل کے ضرور کریں۔ دین توازن‘ اعتدال اور آسانی کا نام ہے۔ کوشش کیجیے کہ فرائض اور سنتوں کا پورا اہتمام ہو۔ نوافل جتنے زیادہ ہو سکیں پڑھنے کی کوشش کیجیے لیکن نوافل کو فرائض کا مقام نہ دیجیے۔

اگر آپ کی کوئی سہیلی آپ کے ہاں آکر رہتی ہے تو اسے اپنا کھانا وغیرہ لانے کی ضرورت نہیں۔  یہ انتہا پسندی ہے۔ ہاں‘والدین کو احترام و محبت سے ہمیشہ دین کی صحیح تعلیم سے آگاہ کرتی رہیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید صبر اور حکمت کے ساتھ گھریلو حالات کو احسن طریقے سے حل کرنے کی توفیق دے۔ آمین! (ڈاکٹر انیس احمد)

مسجد سے متعلق بعض اہم مسائل

س :  ۱- اپنے گائوں کی مسجد کے لیے چندا ہمارے پاس جمع ہے۔ کیا ہم اس چندے کو دوسری مسجد کی تعمیر میں خرچ کر سکتے ہیں؟

۲-  مسجد کے لیے ایمپلی فائر ہم نے اپنے پیسوں سے خریدا۔ لوگوں نے وعدے کے باوجود اُس کے لیے کوئی چندا نہیں دیا۔ کیا ہم اس ایمپلی فائر کو دوسری مسجد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟

۳- ہماری مسجد جو میرے چچا نے تعمیر کی ہے اُس میں نمازی ہمارے ساتھ ہر وقت جھگڑتے رہتے ہیں۔ کیا ہم دوسری مسجد اپنے لیے بنا سکتے ہیں؟

۴- مسجد کے امام صاحب کی خدمت کوئی نہیں کرتا۔ مجبوراً ہمیں اُن کی خدمت کرنی پڑتی ہے۔ کیا اِس کے باوجود ہم اُن کی خدمت کریں کہ وہ ہمارے مخالف ہیں؟ اُنھوں نے میرے والد کی توہین کی ہے اور ہر وقت فتنے پیدا کرتے رہتے ہیں۔

ج :  ۱-   چندا جو کسی ایک مسجد کے لیے جمع کیا جائے وہ اُسی مسجد کی ملکیت ہے جو صرف اُس کی مرمت‘ اس کی ضروریات اور دیگر متعلقہ اُمور پر خرچ کیا جاتا ہے۔ شرعاً یہ اجازت نہیں کہ اس کو مطلق مسجد کا چندا سمجھ کر دوسری کسی مسجد کی تعمیر یا مرمت یا دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ کیا جائے۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو جتنی رقم اُس میں سے دوسری جگہ خرچ کی ہے اس کی ذمہ داری خرچ کرنے والے پر ہے اور وہ اُس رقم کی واپسی اور مسجد کے فنڈ میں جمع کرنے کا شرعاً پابند ہوگا۔

۲-  مسجد کے لیے جو ایمپلی فائر آپ نے خریدا اور کوئی دوسرا اُس کی قیمت ادا کرنے میں شریک نہیں ہوا تو وہ اُس وقت تک آپ کی ملکیت ہے جب تک آپ کے پاس رہے۔ لیکن اگر آپ نے اُسے مسجد میں اِس نیت سے ایک بار رکھ لیا کہ یہ اِس مسجد کے لیے ہے تو اس کے بعد آپ کو یہ حق حاصل نہیں رہا کہ آپ اُسے وہاں سے اٹھا کر کسی اور جگہ یا اپنے گھر میں لے جائیں۔ اس لیے کہ جو چیز ایک بار مسجد کو دی گئی  ہو وہ اُسی کی ملکیت اور وقف ہو گئی۔ اب وقف مال اور مسجد کے مال پر کسی کا اختیار نہیں کہ وہ اُس کو وہاں سے ہٹائے یا کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرے یہاں تک کہ وہ بوسیدہ اور ازکار رفتہ ہو جائے۔ تب بھی مسجد سے اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ ہاں‘ اہل محلہ اور امام مسجد کی اجازت سے فروخت کر کے اُس کی قیمت اسی مسجد کے فنڈ میں دی جا سکتی ہے۔

۳- سب سے پہلے بھرپور انداز میں کوشش کرنی چاہیے کہ مسجد کے نمازی اور اہل محلہ آپس میں جھگڑے ختم کر کے بھائی بھائی بن جائیں۔ مسجد میں جمع ہونے کا مقصد یہی ہے کہ لوگ آپس میں شیروشکر ہوں‘ ایک دوسرے کی مدد کریں‘ غمی شادی میں شریک ہوں اور اُن میں اتحاد و یگانگت اور باہمی احترام کا جذبہ پختہ ہو۔ یہ افہام و تفہیم کے ذریعے عین ممکن ہے۔ احادیث میں صفوں کو سیدھا اور دُرست کرنے کا فلسفہ بھی یہی بیان کیا گیا ہے کہ ان کی درستی سے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت پیدا ہو جاتی ہے۔

اولیت صلح و مصالحت کو دینی چاہیے۔ ضد اور اَنا کو اللہ اور اُمت محمدیؐ کی خاطر چھوڑ کر لوگوں سے حسن سلوک اور بہترین اخلاق کے ساتھ پیش آنا چاہیے کہ یہی انسانیت ہے۔ اسی میں کامیابی ہے۔ کسی تحریک کے کارکنوں کی کامیابی کے لیے یہی ضرورت ہے کہ مقصد کی خاطر وہ حُسن سلوک‘ عوام کی خدمت اور کسرِنفسی سے کام لیا کریں اور ہمیشہ دوسروں کی عزت کریں۔ اس طرح اسی مسجد میں ہی ایک خوش گوار ماحول پیدا ہو جائے گا اور پھر آپ الگ مسجد بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔

خدانخواستہ اگر حالات اِس قدر بگڑ گئے ہوں کہ مصالحت کا امکان باقی نہ رہا ہو اور ایک مسجد میں جمع ہونے سے نمازیوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا خدشہ محسوس کیا جا رہا ہو اور مصالحتی کوشش کے باوجود بہتری نظر نہ آ رہی ہو تو فتنے سے بچنے کے لیے اور جھگڑے کے سدباب کے لیے الگ مسجد بنا سکتے ہیں۔ مگر یاد رکھیں مسجد کسی کی ملکیت نہیں ہوتی‘ چاہے ایک شخص یا ایک خاندان اپنی زمین پر اپنے پیسے سے تعمیر کرے۔ وہ عام مسلمانوں کے لیے وقف ہو جاتی ہے۔ اس لیے دوسری مسجد تعمیر کرنے کے بعد مصالحتی کوشش دوبارہ شروع کرنی چاہیے۔ خود تھوڑا جھک کر دوسروں کو راضی کریں۔ اسی میں بڑائی ہے۔ یہی اصل جیت ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق اور یک جہتی کا موجود ہونا مقصد اولین ہے اور فرقہ واریت و افراتفری سے ان کا شیرازئہ قومیت بکھر جاتا ہے۔

۴- امام مسجد کی خدمت اگر پہلے سے کررہے ہیں تو اب اُس میں اور اضافہ کیجیے تاکہ اُن کی تالیف قلب ہو جائے اور اُن کی رضا مندی اور خوشی مسجد میں خوش گوار ماحول پیدا کرنے کا باعث بنے اور اسی طرح سارا مسئلہ حل ہو جائے۔ (مولانا فضل ربی)

ذخیرہ اندوزی کے مسائل

س: ۱- ایک زمین دار اپنے کھیت میں پیدا کی گئی جنس (گندم‘ کپاس ‘ مسور‘چنا‘ مونگ‘ ماش‘ دھان وغیرہ) منڈی میں مناسب دام نہ ملنے کی وجہ سے ذخیرہ کر لے تو کیا یہ ذخیرہ اندوزی میں شمار ہوگا؟

۲- فیکٹریاں خام مال (گندم‘ کپاس‘چنا‘ مونگ‘ ماش‘ دھان وغیرہ) دوران سیزن اسٹاک کر لیتی ہیں تاکہ پراسیس کر کے آٹا‘ دالیں‘ چاول وغیرہ مارکیٹ میں فروخت کرلیں۔ یہ فیکٹریاں سارا سال کام کرتی رہتی ہیں۔کیا یہ بھی ذخیرہ اندوزی میں شمار ہوگا؟

۳- ایک دکان دار یا تاجر جو زمین دار سے مال خریدتا ہے اور کچھ عرصے کے بعد یہ اجناس مارکیٹ میں فروخت کر دیتا ہے۔ اس میں نفع و نقصان دونوں کا امکان ہوتا ہے‘ جب کہ اس وقت مارکیٹ میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ اجناس وافر مقدار میں ہر وقت خرید و فروخت کے لیے موجود ہوتی ہیں ۔ کیا یہ ذخیرہ اندوزی ہوگی؟

ج:  ۱- ذخیرہ اندوزی کو فقہی اصطلاح میں ’’احتکار‘‘ کہا جاتا ہے۔ احتکار یا ذخیرہ اندوزی کی تعریف فقہا کے نزدیک یہ ہے کہ ایک چیز کو خرید کر منجمد رکھنا یہاں تک کہ اُس کی قلت ہو جائے اور مارکیٹ میں اُس کی قیمت بڑھ جائے اور اس طرح یہ عمل مسلمانوں کے لیے باعث ضرر بن جائے۔

اِس کا شرعی حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہے کیونکہ اِس میں مسلم معاشرے کے لیے ضرر ہے اور یہ عمل لالچ اور کج خلقی پر مبنی ہے۔ اِس بارے میں احادیث تفصیل کے ساتھ وارد ہیں۔ امام ابودائودؒ، امام مسلمؒ اور امام ترمذیؒ نے معمرؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ایک رات کا طعام ذخیرہ کرے تو اللہ اُ س سے بری ہے اور وہ اللہ سے بری ہے۔ ابن ماجہ اور حاکم نے ابن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اَلْجَالِبُ مَرْذُوْقٌ وَالْمُحْتَکِرُ مَلْعُوْنٌ، جو شخص بیچنے کی چیز بازار میں لاکر بیچتا ہے اُس کو اللہ رزق میں وسعت دیتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔

جمہور فقہاے اُمت نے ممنوعہ احتکار‘ یعنی ناجائز ذخیرہ اندوزی کے لیے تین شرطیں مقرر کی ہیں کہ جو شخص ایسی ذخیرہ اندوزی کرے جس میں یہ تینوں شرطیں پوری ہوں تو وہ حرام اور ناجائز عمل کا مرتکب سمجھا جاتا ہے۔

۱- پہلی شرط یہ ہے کہ ذخیرہ کی ہوئی جنس وغیرہ اپنی حاجت اور ضرورت سے زائد ہو۔ اگر اپنی ضرورت کے لیے ذخیرہ کرے‘ مثلاً زمین دار اور کاشت کار لوگ اپنے سال بھر کے خرچ کے لیے اور گھر میں استعمال کرنے کے لیے اناج اور مختلف اشیاے خوردن خاص مقدار میں ذخیرہ کرتے ہیں تو وہ ناجائز ذخیرہ اندوزی کے زمرے سے باہر ہے۔

۲- دوسری شرط یہ ہے کہ اُس وقت کا انتظار کرتا ہو‘ جب کہ نرخ بڑھ جائیں‘ اور وہ اُسے بہت زیادہ قیمت پر فروخت کر سکے۔

۳- تیسری شرط یہ ہے کہ ذخیرہ کرتے وقت لوگوں کو اُس کی ضرورت ہو اور اُس کے ذخیرہ کرنے سے مارکیٹ میں اُس چیز کی قلت پیدا ہو رہی ہو یا پہلے سے اُس کی قلت ہو۔ اِس صورت میں ذخیرہ اندوزی کرنا ممنوع ہے۔ جن صورتوں میں درج بالا تینوں شرائط موجود ہوں وہ ممنوع اور شرعاً ناجائز ذخیرہ اندوزی کے زمرے میں آجاتی ہیں۔

میرے خیال میں سوال میں مذکور تمام صورتیں ایسی ہیں جن میں وہ شرائط پوری نہیں ہوتیں جو حُرمت کے لیے ضروری ہیں۔ خاص کر آخری شرط کہ اُس وقت اُن اشیا کی قلت مارکیٹ میں موجود ہو اور اِن کے ذخیرہ کرنے سے اُس قلت میں اور اضافہ ہو جائے گا۔

ویسے بھی کاشت کار کا اناج ذخیرہ کرنا یا فیکٹری والے کا خریدی ہوئی اجناس پراسس کرنا وغیرہ معمول کے کام ہیں جو عموم البلوٰی کے ضمن میں آجاتے ہیں اور شارع کی رخصتیں عموم البلوٰی کے بارے میں موجود ہیں۔ علامہ ابن نجیم نے اپنی مشہور تصنیف الاشباہ والنظائر میں عموم البلوٰی کی وجہ سے شرعی رخصتوں کی بڑی تعداد بتائی ہے۔

سوال میں مذکورہ صورتیں ناجائز ذخیرہ اندوزی‘ یعنی احتکار کے زمرے میں نہیں آتی ہیں۔ اس لیے کہ اِس قسم کے عمل سے نہ تو بازار میں اُن اشیا کی قلت پیدا ہو جاتی ہے اور نہ اِس باعث اِن اشیا کے نرخ ہی بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے ان صورتوں کو حرام اور ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ( ف - ر )

مصنوعی پلکوں اور کانٹیکٹ لینز کا استعمال

س:  میں نے سنا ہے کہ بالوں میں بال لگانا جائز نہیں ہے۔ کیا پلکوں میں نقلی پلکیں لگانا صحیح ہے یا نہیں‘ کیونکہ دلہن کے میک اپ میں یہ بہت اہم چیز ہوتی ہے؟

کانٹیکٹ لینز کے ساتھ وضو کرنے کے بارے میں بھی بتایئے۔کیا انھیں اُتار کر وضو کرنا چاہیے؟

ج : پلکوں میں جوڑ لگانے اور بالوں میں جوڑ لگانے میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے اور یہ حدیث کی  واضح خلاف ورزی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو حسن و توازن خود بنایا ہے اسی میں انسان کے لیے زیادہ فائدہ     ہے۔ اگر کانٹیکٹ لینز لگانے ضروری ہیں‘ تو انھیں لگانے سے قبل وضو کر لیجیے اور پھر ۲۴ گھنٹے تک ان کے نکالنے کی ضرورت نہیں۔ طبی طور پر بھی ان کو سوتے میں لگانے سے منع کیا جاتا ہے اور عام طور پر سونے سے قبل انھیں نکال کر مخصوص ڈبیہ میں محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ (ا - ا )