…… وہ مختلف عناصر جن سے اس جماعت کی ترکیب ہوئی ہے‘ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے بمشکل آمادہ ہوتے ہیں۔ نہ ان میں اتنا صبر ہے کہ ہمدردی کے ساتھ ایک دوسرے کو سمجھیں اور بتدریج ایک دوسرے کی اصلاح و تربیت کریں‘ نہ اتنا انصاف ہے کہ اپنی خوبیوں کے ساتھ اپنی کمزوریوں کا اور دوسروں کی کمزوریوں کے ساتھ ان کی خوبیوں کا بھی احساس و اعتراف کریں‘ نہ اتنی لچک ہے کہ کسروانکسار سے ایک متحد المزاج معجون بننے کے لیے تیار ہوں‘ نہ اتنا حسنِ ظن ہے کہ جو لوگ انھی کی طرح ایک دعوتِ حق پر لبیک کہتے ہوئے آئے ہیں اُن کے عمل میں اگر کچھ کوتاہی پائیں تو اس کو ارادی فجور و عصیان یا قصدی غلط کاری کے سوا کسی اور سبب پر بھی محمول کرسکیں۔ ہر ایک جس طبقے سے آیا ہے اور جس رنگِ زندگی سے اب تک مانوس رہا ہے اسی میں پوری جماعت کو رنگا ہوا دیکھنا چاہتا ہے‘ اور اس سے مختلف رنگ دیکھ کر دل برداشتہ ہونے لگتا ہے۔ حالانکہ یہ ذہنیت اس جماعت کے مزاج کے بالکل خلاف ہے اور اس کا نتیجہ پھر یہی ہو سکتا ہے کہ ایک ایک طبقے اور ایک ایک رنگ کے لوگ الگ الگ گروہ بن جائیں اور ہر ایک گروہ اپنی خوبیوں کے ساتھ اپنی اُن کمزوریوں اور خامیوں کا بھی حامل رہے جن کی بدولت اب تک ہمارا کوئی گروہ اقامت ِ دین کے لیے کوئی قابل ذکر سعی نہیں کر سکا ہے۔
ہماری اس جماعت کی خوبی یہ تھی کہ اس نے ایک کلمہ اور ایک نصب العین کی کشش سے تمام مختلف طبقات کے لوگوں کو کھینچ کھینچ کر یکجا کرلیا۔ ان میں وہ نئے طبقے کے لوگ بھی ہیں جو جاہلیت ِ جدیدہ میں غرق ہو چکے تھے اور اب اللہ نے ان کی آنکھیں کھول کر راہِ راست انھیں دکھا دی۔ ان میں وہ متوسط طبقے کے لوگ بھی ہیں جو نئے اور پرانے رنگ کی مخلوط سوسائٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں وہ پرانے رنگ کے لوگ بھی ہیں جن میں کچھ شرعی صورت کی تقالیداور کچھ دور انحطاط کے قدامت پرستانہ تعصبات ملے جلے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک طبقہ اپنے اندر کچھ خوبیاں رکھتا ہے جو دوسرے طبقہ میں نہیں ہیں اور کچھ خرابیاں رکھتا ہے جن سے دوسرا طبقہ محفوظ ہے۔ ہماری اس جماعت کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ یہ سب مل کر باہمی رفاقت‘ صحبت اور تعاون سے بتدریج ایک دوسرے کی خرابیوں کو دُور کرنے اور ایک دوسرے کی خوبیاں جذب کرنے کی کوشش کریں‘ اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ ان میں تحمل ہو‘ صبر ہو‘ ہمدردی ہو‘ انصاف ہو‘ لچک ہو‘ حسن ظن ہو۔ (’’اشارات‘‘، ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن‘ جلد ۲۱‘ عدد ۵-۶‘ ذی القعدہ‘ ذی الحجہ ۱۳۶۱ھ ‘ دسمبر۱۹۴۲ء‘ جنوری ۱۹۴۳ء‘ ص ۷-۸)